• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

مرزاقادیانی کی عملی زندگی ( مرزاقادیانی قادیان میں)

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
مرزاقادیانی کی عملی زندگی ( مرزاقادیانی قادیان میں)
مرزاقادیانی کے سوانح نگاروں نے ۱۸۶۴ء سے ۱۸۶۸ء مرزاقادیانی کی چار سالہ سیالکوٹ کی ملازمت لکھی ہے۔ گویا ۱۸۶۹ء سے مرزاقادیانی مستقلاً قادیان میں آکر براجمان ہوگئے۔ مرزاقادیانی کے بیٹے مرزامحمود نے مرزاقادیانی کی سوانح مرتب ’’سیرۃ مسیح موعود‘‘ لکھی۔ اس میں لکھتے ہیں کہ سیالکوٹ سے واپسی پر اپنے والد کے کام اور زمین کے مقدمات کی پیروی کرتے رہے۔ لیکن زیادہ وقت ان کا مختلف مذاہب کی کتب بینی میں خرچ ہوتا رہا۔ مرزاقادیانی خود لکھتا ہے ؎

بہر مذہبے غور کردم بسے
شنیدم بدل حجت ہر کسے

بخواندم زہر ملّتے دفترے
بدیدم زہر قوم دانشورے

ہم از کود کی سوئے این تاختم
دریں شغل خود را بیند اختم

جوانی ہمہ اندریں باختم
دل از غیر ایں کار پردا ختم

(براہین احمدیہ حصہ دوم ص۹۵، خزائن ج۱ ص۸۵)
یہ عبارت پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ مرزاقادیانی نے مختلف مذاہب کی کتب کا خوب مطالعہ کیا۔ ہر مذہب کے دفتر کے دفتر پڑھ ڈالے۔ ہرقوم کے راہنما کی زندگی کا جائزہ لیا اور اس کام میں جوانی کھپا دی۔ چنانچہ مولانا ثناء اﷲ امرتسریK نے ’’مرزاقادیانی اور بہاء اﷲ‘‘ نام کا رسالہ تصنیف کیا اور اس میں ثابت کیا کہ مرزاقادیانی کے تمام دعوے مہدویت ومسیحیت سب بہاء اﷲ کی تعلیمات کی کاپی ہیں۔ خیر! دیکھئے کہ مرزاقادیانی کو ان دنوں کتب بینی کا کتنا شغف تھا کہ خود مرزاقادیانی کے والد کے حوالہ سے مذکور ہے کہ: ’’شدت اور مطالعہ وتوغل کتب میں مشغولیت اور محویت دیکھ کر (مرزاقادیانی کے والد نے) یہ سمجھ لیا تھا کہ آپ دنیا کے کسی کام کے لائق نہیں اور اکثر دوستوں کے آگے یہی بات پیش کیاکرتے کہ مجھے تو غلام احمد کا فکر ہے کہ یہ کہاں سے کھائے گا اور اس کی عمر کس طرح کٹے گی۔ بلکہ بعض دوستوں کو یہ بھی کہا کرتے تھے کہ آپ ہی اس کو سمجھاؤ کہ وہ اس استغراق کو چھوڑ کر کمانے کے دھندے میں لگے۔ اگر کبھی کوئی اتفاق سے ان سے کوئی دریافت کرتا کہ مرزا غلام احمد کہاں ہیں؟ تو وہ یہ جواب دیتے کہ مسجد میں جاکر سقاوہ کی ٹوٹنی میں تلاش کرو۔ اگر وہاں نہ ملے تومایوس ہوکر واپس مت آنا۔ مسجد کے اند چلے جانا اور کسی گوشہ میں تلاش کرنا۔ اگر وہاں بھی نہ ملے تو پھر بھی نا امید ہوکر لوٹ مت آنا کسی صف میں دیکھنا کہ کوئی اس کو لپیٹ کر کھڑا کر گیا ہوگا۔ کیونکہ وہ تو زندگی میں مرا ہوا ہے اور اگر کوئی اسے صف میں لپیٹ دے تو وہ آگے سے حرکت بھی نہیں کرے گا۔‘‘ (مسیح موعود کے مختصر حالات ص۶۷، از معراج الدین قادیانی)
آگے چلنے سے پہلے اس عبارت پر توجہ کر لی جائے کہ مرزاقادیانی کے والد تو اسے نکما قرار دیتے ہیں۔ لیکن کتاب کا قادیانی مؤلف تاویل کرتا ہے کہ: ’’وہ (مرزاقادیانی) زندگی میں مرے ہوئے تھے۔‘‘ لیکن یہ نہ سوچا کہ کوئی کسی کو صف میں لپیٹ دے تو وہ لپٹا رہے۔ حرکت نہ کرے۔ یہ تو مرا ہوا کی طرح ہے۔ لیکن یہ کہ سقاوہ کی ٹوٹنی میں دیکھنا اس کا کیا معنی ہے؟ مرا ہوا آدمی ٹوٹنی میں کیسے چلا جاتا ہے؟ اس کی مرزائی مؤلف کو کوئی تاویل نہ سوجھی۔ مجھ سے پوچھو تو (۱)خود مرزاقادیانی کا اعتراف ہے کہ میں کرم خاکی ہوں۔ مٹی کا کیڑا ہوں تو مرزاقادیانی کا والد بھی مرزاقادیانی کو کیڑا سمجھتا ہوگا۔ تب ہی تو ٹوٹنی میں گھسنے کا کہا۔ (۲)یہ کہ وہ مرزاقادیانی کو جن، بھوت، شیطان سمجھتا ہوگا۔ جو جنس بدل کر کیا سے کیا ہوجاتے ہیں۔ (۳)یا یہ اس نے مرزاقادیانی کو شیطان کی ٹوٹنی کہا ہوگا کہ وہ صف میں لپٹا کھڑا ہوگا۔ شیطان کی ٹوٹنی کو مرزائی مؤلف نے سقاوہ کی ٹوٹنی سمجھ لیا۔ خیر قادیانی جانے ان کا کام، نیا نبی اور ان کا والد۔ قادیانی مرزاقادیانی کو ٹوٹنی میں داخل کریں یا صف میں لپیٹیں۔ ہمارا اس سے کیا تعلق؟
مقدمہ بازی، مناظرہ بازی، کتب بینی، یہ مرزاقادیانی کے مشاغل تھے۔ مرزاقادیانی عیسائیوں، ہندوؤں، آریوں سے الجھاؤ بازی کے مشغلہ میں سرگردان رہا۔ قادیانیوں نے مرزاقادیانی کے اشتہارات کو پہلے ’’تبلیغ رسالت‘‘ کے نام پر دس حصوں میں شائع کیا۔ پھر ان کو ’’مجموعہ اشتہارات‘‘ کے نام سے تین جلدوں میں شائع کیا۔ مجموعہ اشتہارات کی پہلی جلد میں پہلا اشتہار جو انہوں نے شائع کیا یہ آریوں کے خلاف ہے۔ اس پر ۲؍مارچ ۱۸۷۸ء کی تاریخ درج ہے۔ اس میں پانچ سو روپیہ کی شرط لگائی ہے۔ غرض مناظرہ بازی بحث ومباحثہ سے ماحول کو گدلا کرنے کے بعد جب مرزاقادیانی نے اشتہار بازی کی طرف عنان توجہ کا رخ موڑا۔ پھر مسلمانوں سے مضامین مانگ تانگ کر براہین احمدیہ لکھنا شروع کی۔ مرزاقادیانی کا بیٹا لکھتا ہے کہ: ’’یہ پہلا حصہ (براہین کا) ۱۸۸۰ء میں شائع ہوا۔ پھر اسی کتاب کا دوسرا حصہ ۱۸۸۱ء میں اور تیسرا حصہ ۱۸۸۲ء اور چوتھا ۱۸۸۴ء میں شائع ہوا۔‘‘
(سیرۃ مسیح موعود ص۲۷)
 
Top