(مرزاناصر کی بات ناقابل فہم)
جناب والا! جب یہ مقدس ہستی کمیٹی کے روبرو پیش ہوئی تو سوال پیدا ہوا۔ بہرحال میں اس تفصیل میں نہیں جاؤں گا کہ جو مرزاصاحب کی نبوت کو نہیں مانتے۔ ان کے بارے میں انہوں نے کیا کہا ہے۔ مرزاصاحب نے کہا کہ ایسے لوگ کافر ہیں۔ اس کا مطلب کیاہے؟ اس (مرزاناصر احمد) نے جواب دیا ’’کافر‘‘ سے مراد ایسا شخص نہیں جسے منحرف یا مرتد قرار دیا جائے۔ یا ایسا تارک الدین شخص جسے اسلام کے دائرے سے خارج کرنا پڑے۔ بلکہ ایسے کافر سے مراد ایک قسم کا گنہگار ہے یا ثانوی درجے کا کافر۔ کیونکہ وہ پیغمبر اسلام ﷺ پر تو ایمان رکھتا ہے۔ اس لئے مرزاناصر احمد کے بقول ایسا شخص (جو مرزاغلام احمد کی نبوت کا انکار کرتا ہے) ملت محمدیہ کے اندر تو رہے گا مگر وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو جائے گا۔ یہ ایک ایسی بات ہے جسے میں بالکل نہیں سمجھ سکا۔ میں نے یہ بات سمجھنے کی انتہائی کوشش کی۔ جب ایک شخص کافر ہو جاتا ہے تو وہ کیسے: ’’دائرہ اسلام سے خارج ہے مگر ملت محمدیہ سے باہر نہیں۔‘‘
آخر اس کا مطلب کیا ہے؟ کئی روز تک ہم اس مشکل میں مبتلا رہے۔ جناب والا! آخرکار جب میں نے مرزاناصر احمد کو کلمتہ الفصل سے ص۱۲۶ کا حوالہ پڑھ کر سنایا اور مندرجہ ذیل اقتباس کا مطلب دریافت کیا۔
’’معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود کو بھی بعض وقت اس بات کا خیال آیا ہے کہ کہیں میری تحریروں میں غیراحمدیوں کے متعلق مسلمان کا لفظ دیکھ کر لوگ دھوکا نہ کھاجائیں۔ اس لئے کہیں کہیں بطور ازالہ غیراحمدیوں کے متعلق ایسے الفاظ بھی لکھ دئیے ہیں کہ ’’وہ لوگ جو اسلام کا دعویٰ کرتے ہیں۔‘‘ جہاں کہیں بھی مسلمان کا لفظ ہو، اس سے مدعی اسلام سمجھا جاوے نہ کہ حقیقی مسلمان۔‘‘