(مرزا صاحب نے کہیں کچھ کہا، کہیں کچھ کہا)
جناب یحییٰ بختیار: دیکھیں مرزا صاحب! Sorry (مجھے افسوس ہے) صاحبزادہ صاحب! بات یہ ہے کہ اب اسمبلی کے لئے بڑا مشکل مسئلہ ہے۔ ایک جماعت ہے جو کہتی ہے کہ مرزا صاحب نبی تھے۔ اُمتی نبی ہوں، ناقص نبی سمجھیں، کسی خاص کیٹگری کا سمجھیں۔ آپ کہتے ہیں وہ نہیں تھے۔ حوالے اتنے ہی مرزا صاحب کے کہیں انہوں نے کچھ کہا ہے، کہیں کچھ کہا ہے۔ یہ پوزیشن ہم نے Clear (صاف) کرنی ہے۔ آپ کی مدد کی ضرورت ہے۔ اُن کی بھی مدد کی ضرورت تھی۔ تو اِن حالات میں آپ کہہ رہے ہیں کہ وہ سو دفعہ کہہ چکا ہے کہ وہ نبی نہیں، ہزار دفعہ کہہ چکا ہے کہ: ’’میں نبی نہیں ہوں!‘‘ تو یہ مشکل آجاتی ہے۔ اس لئے ہم پوچھتے ہیں کہ جو آدمی اتنی دفعہ کہہ چکا ہے کہ وہ نبی ہے، اتنی دفعہ کہہ چکا ہے کہ وہ نبی نہیں ہے، تو اُن میں پھر یہ Evidence (شہادت) آتی ہے کہ جب وہ شعر کہتا ہے، باربار کہتا ہے، اور اپنے Status (رُتبے) کو سب سے بڑا کہتا ہے، تو اُس کے لئے میں آپ سے عرض کر رہا تھا کہ یہ جو وہ کہہ رہا ہے:
’’انبیاء گرچہ بود اند بسے
من بہ عرفاں نہ کمترم زکسے‘‘
1652یہ اتنا بڑا دعویٰ ہے کہ ایک محدث کیسے کرسکتا ہے؟ پھر آگے آپ سنئے:
’’آنچہ داد است ہر نبی را جام
داد آں جام را مرا بہ تمام‘‘
(نزول المسیح ص۹۹، خزائن ج۱۸ ص۴۷۷)
یعنی ’’سارے نبیوں کو جو جام ملا، مجھے اُن سب سے زیادہ بھر کے جام دیا گیا۔‘‘ یہ اگر دعویٰ دیکھیں، پھر یہ آپ کہتے ہیں کہ وہ محدث ہے۔
جناب عبدالمنان عمر: سوال یہ کیا گیا ہے کہ مرزاصاحب نے کسی جگہ کہہ دیا ہے کہ: ’’میں نبی ہوں‘‘ اور کسی جگہ کہہ دیا: ’’میں نبی نہیں ہوں‘‘ اِس کے متعلق ایک بڑا Simple (آسان)، سادہ سا ایک اُصول میں پیش کرتا ہوں، جس سے یہ ساری مشکل حل ہوجائے گی۔ میں نے عرض کیا تھا کہ ’’نبی‘‘ کا لفظ جو ہے، ایک اُس کا حقیقی اِستعمال ہے، ایک اُس کا مجازی اِستعمال ہے۔ مرزا صاحب کی تمام تر تحریرات کو آپ اِس فارمولے کی روشنی میں دیکھیں گے تو آپ کو کوئی اِختلاف نظر نہیں آئے گا۔ جس جس جگہ انہوں نے نبوّت یا رِسالت سے اِنکار کیا ہے، اِن معنوں میں کیا ہے کہ وہ گویا کوئی نئی شریعت لانے والے نہیں ہیں۔ ان معنوں میں کیا ہے کہ اُن کو جو کچھ بھی مقام ملا ہے وہ محمد مصطفیa کی غلامی میں نہیں ملا، بلکہ براہِ راست ملا ہے۔ یہ اِنکار کرتے ہیں بالکل۔ وہ کسی شریعتِ سابقہ یعنی قرآن مجید کے ایک شوشے کو بھی منسوخ نہیں کرسکتے۔ یہ ہے تمام تحریرات کا خلاصہ جس میں انہوں نے کہا ہے کہ: ’’میں نبی ہوں‘‘ کبھی وہ مجازی معنوں میں جو حقیقی نہیں ہوتے ہیں، جس طرح میں نے عرض کیا تھا کہ ’’شیر‘‘ ایک بہادر کو آپ ’’شیر‘‘ کہتے ہیں، اُسی طرح مرزا صاحب نے صرف مکاملہ مخاطبہ اِلٰہیہ کے لئے یہ لفظ اِستعمال کیا۔ اِنکار اِن معنوں میں ہے کہ: ’’میں کوئی شریعت نہیں لایا۔‘‘ اِنکار اِن معنوں میں ہے کہ گویا: ’’مجھے محمد رسول اللہa سے کوئی تعلق نہیں۔‘‘ اِنکار اِن معنوں میں ہے کہ: ’’میں قرآن کا کوئی شوشہ بھی منسوخ نہیں کرسکتا۔‘‘ لیکن اِقرار صرف اِن معنوں میں ہے کہ: ’’خداتعالیٰ مجھ سے بولتا ہے اور مجھ سے ہم کلام ہوتا ہے۔‘‘
1653جناب یحییٰ بختیار: اور ’’اُس معنی میں، میں نبی ہوں‘‘؟
جناب عبدالمنان عمر: نہیں، جناب! وہ معنی نہیں ہے، ’’نبی‘‘ کا کوئی، وہ اُس کا مجازی اِستعمال ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: مجازی اِستعمال سہی، بروزی سہی، ظلّی سہی۔۔۔۔۔۔
جناب عبدالمنان عمر: وہ قسم نہیں ہے نبوّت کی۔
جناب یحییٰ بختیار: ۔۔۔۔۔۔ قسم نہیں سہی۔۔۔۔۔۔
جناب عبدالمنان عمر: جی ہاں۔
جناب یحییٰ بختیار: ۔۔۔۔۔۔ مگر وہ اُس طریقے سے ’’نبی‘‘ اُس کو کہتے ہیں آپ؟
جناب عبدالمنان عمر: بمعنی ۔۔۔۔۔۔ آپ اُس جگہ ’’نبی‘‘ کے لفظ کی بجائے لکھا دیں ’’مکالمہ مخاطبہ اِلٰہیہ‘‘ اور یہ خود مرزا صاحب نے کہا۔