(مرزا صاحب کے دعویٰ کی تشریح)
اب میں آپ سے، یہ ’’ایک غلطی کا اِزالہ‘‘ میں جو مرزا صاحب کہتے ہیں، اِس کی ذرا آپ تشریح کردیں:
’’چنانچہ چند روز ہوئے ہیں کہ ایک صاحب پر ایک مخالف کی طرف سے یہ اِعتراض پیش ہوا کہ جس سے تم نے بیعت کی، وہ نبی اور رسول ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور اُس کا جواب محض اِنکار کے الفاظ میں دیا گیا حالانکہ ایسا جواب صحیح نہیں۔ حد یہ کہ خداتعالیٰ کی وہ پاک وحی جو میرے پر نازل ہوتی ہے، اُس میں ایسے لفظ رسول اور مرسل اور نبی کے موجود ہیں، نہ ایک دفعہ بلکہ صدہا دفعہ۔ پس کیونکر یہ جواب صحیح ہوسکتا ہے کہ ایسے الفاظ موجود نہیں۔ بلکہ اس وقت پہلے زمانے کی نسبت بہت تصریح اور توسیع سے یہ الفاظ موجود ہیں۔‘‘
(ایک غلطی کا اِزالہ ص۱، خزائن ج۱۸ ص۲۰۶)
تو وہ پھر خود ہی کہہ رہے ہیں کہ اگر کوئی کہے کہ: ’’آپ نبی بھی ہیں‘‘ … وہ دعویٰ کیا تھا… ’’آپ یہ نہ کہیں کہ نہیں۔ کیونکہ میرے لئے یہ لفظ اِستعمال ہوئے ہیں۔‘‘
آگے پھر وہ Explain (وضاحت) کرتے ہیں… جیسے میں نے کہا کہ دعویٰ بھی کرلیتے ہیں، پھر اِنکار بھی کردیتے ہیں، پھر دعویٰ کردیتے ہیں، پھر اِنکار کردیتے ہیں… تو ہمارے لئے Confusion (اُلجھن) ہوگئی ہے اس میں۔
جناب عبدالمنان عمر: میں اس بارے میں یہ گزارش کروں گا کہ ہم نے مرزا صاحب کی تحریرات کے جو حوالے آنجناب کی خدمت میں پیش کئے ہیں، وہ آغاز سے لے کر اُن کی وفات تک کے عرصہ پر محیط ہیں۔ کسی دور کو، کسی زمانے کو، کسی حصہ اُن کی زندگی کے 1689کو ہم نے چھوڑا نہیں ہے۔ پہلے دن کے حوالے بھی ہیں، درمیانی عرصہ کے حوالے بھی ہیں، ۱۹۰۱ء کے حوالے بھی ہیں، ۱۹۰۱ء کے بعد کے حوالے بھی ہیں، اور اُن کی وفات کے عین اُس دن جو اُن کی تحریر شائع ہوتی ہے، اُس کے حوالے بھی ہیں اور اُن سب میں، میں نے عرض کیا تھا نبوّت حقیقی سے آپ نے اِنکار کیا ہے۔ آپ نے میرے سامنے۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: دیکھئے ناںجی، میں آپ کو اُنہی میں سے پڑھ کر سناتا ہوں تو پھر ذرا پوزیشن Clear (واضح) ہوجائے گی۔ (وقفہ)
یہ آپ کا جی نمبر۶ ہے۔ اُن کے جو آپ نے حوالے دئیے ہیں، ضمیمہ ’ج‘ سے، یہ ۱۹۰۱ء کے بعد کے جو ہیں اُن میں سے پڑھ رہا ہوں… ۶ اور۷:
’’اور پھر ایک اور نادانی یہ ہے کہ جاہل لوگوں کو بھڑکانے کے لئے کہتے ہیں کہ اس شخص نے نبوّت کا دعویٰ کیا ہے۔ حالانکہ یہ ان کا سراسر اِختراع ہے، بلکہ جس نبوّت کا دعویٰ کرنا قرآن شریف سے منع معلوم ہوتا ہے، ایسا کوئی دعویٰ نہیں کیا گیا۔‘‘
دیکھئے ناں، صرف یہ دعویٰ ہے کہ: ’’ایک پہلو سے میں اُمتی ہوں اور ایک پہلو سے آنحضرتﷺ کے فیضِ نبوّت کی وجہ سے نبی ہوں۔‘‘
’’اُمتی بھی ہوں، نبی بھی ہوں آنحضرتﷺ کے فیض کی وجہ سے!‘‘
جناب عبدالمنان عمر: میں نے عرض کیا تھا کہ ’’اُمتی نبی‘‘ غیرنبی کو کہتے ہیں۔ ’’اُمتی‘‘ اپنے اصلی معنوں میں اِستعمال ہوا ہے۔ اُمتی نبی غیرنبی کو کہتے ہیں۔ بس یہ ایک اُصول ہے۔
1690جناب یحییٰ بختیار: ہاں ٹھیک ہے۔ آگے سن لیجئے:
’’اور یہ کہنا کہ نبوّت کا دعویٰ کیا ہے، کس قدر جہالت، کس قدر حماقت اور کس قدر حق سے خروج ہے۔ اے نادانو! میری مراد نبوّت سے یہ نہیں کہ میں نعوذباللہ آنحضرتa کے مقابلے میں کھڑا ہوکر نبوّت کا دعویٰ کرتا ہوں، یا کوئی نئی شریعت لایا ہوں۔ صرف مراد میری نبوّت سے کثرتِ مکالمت ومخاطبت ِ اِلٰہیہ سے ہے جو آنحضرتaکی اِقتداء سے حاصل ہے۔ سو کثرتِ مکالمہ ومخاطبہ کے آپ لوگ بھی قائل ہیں۔ پس یہ صرف ۔۔۔۔۔۔ ہوئی۔‘‘
اور پھر اُن کا ایک نوٹ آتا ہے کہ:
’’ہم بارہا لکھ چکے ہیں کہ حقیقی اور واقعی طور پر یہ امر ہے کہ ہمارے سیّد مولانا آنحضرتa خاتم الانبیاء ہیں، اور آنجناب کے بعد مستقل طور پر کوئی نبوّت نہیں ہے اور نہ کوئی شریعت ہے۔‘‘
یعنی بغیر شرعی نبی کے اور غیرمستقل نبی آسکتا ہے۔
جناب عبدالمنان عمر: جی نہیں۔ میں نے عرض کیا کہ جو غیرمستقل ہوتا ہے، وہ نبی نہیں ہوتا، جس کے ساتھ شریعت نہیں ہوتی، وہ نبی نہیں ہوتا، ہمارا موقف یہ ہے۔ وہ نبوّت کی کوئی قسم نہیں ہے۔ اُس کے معنی یہ ہیں کہ وہ نبی نہیں ہے۔ جو نبی ہے وہ کہے گا کہ: ’’میں نبی ہوں۔‘‘ وہ یہ کیوں کہتا ہے کہ: ’’میں اُمتی نبی ہوں‘‘؟ ظاہر ہے کہ جب وہ ایک لفظ ساتھ لگاتا ہے تو وہ یہ بتانا چاہتا ہے کہ: ’’میرے میں نبوّت دراصل نہیں پائی جاتی۔‘‘ یہ نبوّت کی Negation (نفی) ہے۔