مرزا غلام قادیانی نے آتھم سے مباحثے کہ بعد اسکے مرنے کی 15 مہینے کے اندر پیشگوئی کی اور رجوع شرط رکھی، نہ آتھم نے رجوع کی نہ وہ پندرہ مہینے میں مرا، مرزا جی نے کہا کہ اس نے رجوع کر لی ہے تبھی نہیں مرا، آتھم نے باقاعدہ خط لکھ کر ایک اخبار میں شائع کیا کہ میں نے کوئی رجوع نہیں، مرزا جی کہنے لگے کہ آتھم نے اگر رجوع نہیں کی تو اس بات پر قسم آٹھائے، آتھم نے کہہ دیا کہ میرے مذہب میں قسم اٹھانا منع ہے۔ مرزا قادیانی نے اس پر انعامی اشتہار دینا شروع کر دیئے کہ مگر آتھم نے بوجہ رکاوٹ مذہب قسم نہ اٹھائی۔
اب سنیں ایک اور پیشگوئی کا انجام
مرزا قادیانی نے محترمہ محمدی بیگم کے خاوند جناب سلطان محمد کے متعلق یہ پیشگوئی جاری کر رکھی تھی کہ وہ محترمہ محمدی بیگم سے نکاح کی صورت میں عرصہ نکاح سے اڑھائی سال کے درمیان مر جائیں گے، مگر منظور خدا وہ اچھے خاصے رہے تو مرزا قادیانی نے پھر اپنا الہامی ڈھکوسلہ دیا کہ وہ بھی ڈر گئے تھے، مولانا محمد حسین بٹالوی نے اسکی تردید میں جناب سلطان محمد کے الفاظ اشاعۃ السنۃ میں شائع کر دیے۔ مگر مرزا جی کو ہمت نہیں ہوئی کہ اس پر سلطان محمد سے قسم کا مطالبہ کرتے اور جیسے آتھم سے قسم کے مطالبے کے ساتھ انعامی اشتہارات دیتے تھے ویسا کوئی اشتہار دیتے کیونکہ مرزا جی کو پتہ تھا کہ مذہب اسلام ہمیں مطلقاً قسم کھانے سے منع نہیں کرتا اس لیے سلطان محمد نے قسم بھی کھا لینی ہے اور انکا مقصد زندگی پیسہ بھی ہاتھ سے نکل جانا ہے۔ اور وہ اسکی موت کو تقدیر مبرم کہتے کہتے مرے اور اپنے کاذب ہونے کا ایک اور ثبوت چھوڑ گے۔
اب سنیں ایک اور پیشگوئی کا انجام
مرزا قادیانی نے محترمہ محمدی بیگم کے خاوند جناب سلطان محمد کے متعلق یہ پیشگوئی جاری کر رکھی تھی کہ وہ محترمہ محمدی بیگم سے نکاح کی صورت میں عرصہ نکاح سے اڑھائی سال کے درمیان مر جائیں گے، مگر منظور خدا وہ اچھے خاصے رہے تو مرزا قادیانی نے پھر اپنا الہامی ڈھکوسلہ دیا کہ وہ بھی ڈر گئے تھے، مولانا محمد حسین بٹالوی نے اسکی تردید میں جناب سلطان محمد کے الفاظ اشاعۃ السنۃ میں شائع کر دیے۔ مگر مرزا جی کو ہمت نہیں ہوئی کہ اس پر سلطان محمد سے قسم کا مطالبہ کرتے اور جیسے آتھم سے قسم کے مطالبے کے ساتھ انعامی اشتہارات دیتے تھے ویسا کوئی اشتہار دیتے کیونکہ مرزا جی کو پتہ تھا کہ مذہب اسلام ہمیں مطلقاً قسم کھانے سے منع نہیں کرتا اس لیے سلطان محمد نے قسم بھی کھا لینی ہے اور انکا مقصد زندگی پیسہ بھی ہاتھ سے نکل جانا ہے۔ اور وہ اسکی موت کو تقدیر مبرم کہتے کہتے مرے اور اپنے کاذب ہونے کا ایک اور ثبوت چھوڑ گے۔