• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

مرزا قادیانی اور اعمال صالحہ ( مال ودولت اور نبوت)

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
مرزا قادیانی اور اعمال صالحہ ( مال ودولت اور نبوت)
’’الذین اتخذوا دینہم لعبا ولہوا وغرتہم الحیوۃ الدنیا (انعام:۷۰)‘‘ اس آیت میں کافروں کی دو نشانیاں بیان کی گئیں ہیں۔
۱… ’’لہو ولعب‘‘ کھیل اور تماشہ کو انہوں نے دین کا جز بنالیا ہے۔
۲… انہماک دنیوی نے ان کو غافل کر رکھا ہے کہ دن رات دنیا ہی کو حاصل کرنے کا فکر ہے اسی کے عیش وآرام پر فخر کرتے اور خوشیاں مناتے ہیں۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ مرزاقادیانی بھی دنیا داروں کی طرح دنیوی شہرت کو پسند کرتے، اور مال ودولت کے جمع ہونے پر فخر کرتے ہوئے اس کو اپنی بڑی کامیابی سمجھتے ہیں۔ چنانچہ لکھتے ہیں کہ: ’’جو میری مراد تھی سب کچھ دکھادیا۔ میں ایک غریب تھا مجھے بے انتہا دیا۔‘‘ (براہین احمدیہ حصہ۵ ص۱۰، خزائن ج۲۱ ص۱۹)
واقعی خداتعالیٰ کسی کی محنت رائیگاں نہیں کرتا۔ مرزاقادیانی کو دنیا کی دولت ہی جمع کرنی مقصود تھی سو ہوگئی۔ ایک جگہ اپنی شہرت پر فخر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ: ’’اس زمانہ میں ذرا سوچو کہ میں کیا چیز تھا۔ جس زمانہ میںبراہین کا دیا تھا اشتہار۔ پھر ذرا سوچو کہ اب چرچا میرا کیسا ہوا۔ کس طرح سرعت سے شہرت ہوگئی۔ درہردیار! (براہین احمدیہ ص۱۱۲ حصہ۵، خزائن ج۲۱ ص۱۴۲)
یہ تو مرزاقادیانی کا حال ہے۔ مگر رسول خدا علیہ السلام اس کے مقابلہ میں ارشاد فرماتے ہیں کہ: ’’اشدا لناس بلاء الانبیاء ثم الامثل فالامثل (کنز العمال ج۳ ص۳۲۷ حدیث ۶۷۸۳)‘‘ انبیائo پر دنیا کی مصیبتیں عام ہوتی ہیں اور امت میں سے جو شخص عمل میں ان کے قریب ہوتا ہے۔ اسی قدر مصیبتوں کا اس پر ہجوم ہوتا ہے۔ سچ ہے کہ رسول اﷲ علیہ السلام کی فقیرانہ زندگی ہی اس امر کا قطعی فیصلہ ہے اور قارون وفرعون کی وراثت پر فخر کرنا فرعون صفت لوگوں ہی کا کام ہے۔
س… حضرت دائود اور سلیمان علیہما السلام بڑی سلطنت کے مالک تھے؟۔
ج… اوّل تو ان بزرگوں نے کبھی مال ودولت پر فخریہ کلمات نہیں فرمائے، دوسرے وہ بیت المال سے ایک کوڑی بھی اپنے اوپر خرچ نہیں کرتے تھے۔ وہ انبیاء کرامo زرہ بناکر بیچتے اور اس سے گزارہ کرتے تھے۔ جیسا کہ ’’علمناہ صنعۃ لبوس‘‘ سے ظاہر ہے اور یہی حال سلیمان علیہ السلام کا تھا۔ ٹوکریاں اپنے ہاتھ سے بنتے اور ان کو بازار میں بیچ کر اپنی ضروریات پوری کرتے تھے۔ مرزا کی طرح جھوٹ سچ کا مال جمع نہیں کرتے تھے۔ان کے نزدیک دنیا کے مال کی پرکاہ کے برابر بھی قدر نہ تھی۔ یہی وجہ تھی کہ گھوڑوں کی مشغولیت کے سبب نماز عصر کے قضا ہوجانے کی وجہ سے ان کو ذبح کردیا اور ملکۂ سباء کے ہدایا کو حقارت سے رد کرتے ہوئے یہ ارشاد فرمایا تھا کہ: ’’قال اتمدون بمال۰ فمآ آتنی اﷲ خیر ممآ آتٰکم۰ بل انتم بہدیتکم تفرحون (نمل :۳۶)‘‘
چنانچہ ’’صاحب جمل‘‘ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ: ’’ای انکم اہل مفاخرۃ ومکاثرۃ بالدنیا تفرحون باہداء بعضکم الیٰ بعض واما انا فلا افرح بالدنیا ولیست الدنیا من حاجتی‘‘ (جمل حاشیہ نمبر۱۲ جلالین ص۳۲۰)
مگر مرزاقادیانی ہیں کہ تین سو دلائل والی کتاب لکھنے کا اعلان کر کے حسب وعدہ خریداروں کے پاس نہیں پہنچاتے اور جب خریدار تنگ آکر اپنی قیمت واپس کراتے ہیں تو بادل ناخواستہ واپس کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ مگر تمنا اور آرزو یہی رہتی ہے کہ یہ آئی ہوئی رقم واپس نہ ہوتی تو بہت اچھا ہوتا۔ چنانچہ اس حسرت بھری تمنا کو ان لفظوں میں ظاہر فرمایا ہے کہ: ’’پس جن لوگوں نے قیمتیں دی تھیں۔ اکثر نے گالیاں بھی دیں اور اپنی قیمت بھی واپس لی۔ اگر وہ اپنی جلد بازی سے ایسا نہ کرتے تو ان کے لئے اچھا ہوتا۔‘‘ (دیباچہ براہین ۵ ص۸، خزائن ج۲۱ ص۹)
کوئی ان سے پوچھے کہ اگر وہ قیمت واپس نہ کرتے تو کیا کرتے؟ کیا ان کو وہ کتاب مل جاتی جس کا معاملہ طرفین میں ہوا تھا؟ جب اس کتاب کا وجود ہی نہ تھا تو مرزاقادیانی کس وجہ شرعی سے یہ روپیہ دبانا چاہتے تھے؟
س… ’’جو لوگ کسی مکر سے دنیا کمانا چاہتے ہیں کیا ان کا یہی اصول ہوا کرتا ہے کہ بیکبارگی ساری دنیا کی عداوت کرنے کا جوش دلاویں اور اپنی جان کو ہر وقت فکر میں ڈالیں۔‘‘
(مقدمہ براہین ص۱۱۸، خزائن ج۱ ص۱۱۰)

ج… یہ فقرہ مرزاقادیانی نے اس وقت لکھا تھا۔ جب کہ آپ دنیا کو مقابلہ کی دعوت اور مسلمانوں کو اپنی طرف مائل کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے تھے۔ چنانچہ آپ نے مسلمانوں کی توجہ کو اپنی طرف منعطف کرنے کے لئے مجددیت، مہدیت وغیرہ دعاوی کا سلسلہ اس خیال کے ماتحت جاری کیا کہ: ’’اگر کوئی نیا مصلح ایسی تعریفوں سے عزّت یاب نہ ہو کہ جو تعریفیں ان کو پیروں کی نسبت ذہن نشین ہیں۔ تب تک وعظ اور پند اس مصلح جدید کا بہت ہی کم مؤثر ہوگا۔ کیونکہ وہ لوگ ضرور دل میں کہیں گے کہ یہ حقیر آدمی ہمارے پیروں کی شان بزرگ کو کب پہنچ سکتا ہے… کیا حیثیت اور کیا بضاعت اور کیا رتبت اور کیا منزلت تا ان کو چھوڑ کر اس کی سنیں۔‘‘
(براہین ص۲۴۶ حاشیہ درحاشیہ نمبر۱،خزائن ج۱ص۲۷۱)
جب مسلمانوں کی ایک جماعت کو مائل کر لیا تو پھر مسیحیت، مجددیت، نبوت وخدائی کے دعوے شروع کردئیے۔
ایک طرف مرزاغلام احمد قادیانی کا دعویٰ نبوت اور دوسری طرف مال کی محبت اور ہوس کا یہ عالم تھا کہ مرزاغلام احمد قادیانی نے اپنے ایک مرید کے خط کے جواب میں لکھا کہ اپنی بہن کی عصمت فروشی کا مال خدمت اسلام کے لئے مجھے قادیان بھیج دو۔ ملاحظہ فرمائیے: ’’ایک شخص نے حضرت سے فتویٰ دریافت کیا کہ میری بہن ایک کنچنی (کنجری) تھی۔ اس نے اسی حالت میں بہت سا روپیہ کمایا۔ پھر وہ مرگئی اور مجھے اس کا ترکہ ملا۔ مگر بعد میں مجھے اﷲتعالیٰ نے توبہ اور اصلاح کی توفیق دی۔ اب میں اس مال کو کیا کروں۔ حضرت صاحب نے جواب دیا کہ ہمارے خیال میں اس زمانہ میں ایسا مال اسلام کی خدمت میں خرچ ہوسکتا ہے۔‘‘
(سیرت المہدی حصہ اوّل ص۲۶۱، روایت نمبر۲۷۲)
 
Top