• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

مرزا قادیانی اور اعمال صالحہ ( وراثت اور نبوت)

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
مرزا قادیانی اور اعمال صالحہ ( وراثت اور نبوت)
’’عن ابی بکررضی اللہ عنہ قال قال رسول اﷲ علیہ السلام لانورث ماترکنا صدقۃ (بخاری ج۲ ص۵۷۶ باب حدیث بنی النضیر)‘‘ انبیائؑ نہ کسی کے مال ومتاع کے وارث ہوتے اور نہ کوئی آپ کے مال کا وارث ہوتا ہے۔ بلکہ ان کا ترکہ اﷲ کی راہ میں خرچ کردیا جاتا ہے۔ مگر مرزاقادیانی وارث بھی ہوتے ہیں اور اپنے مال میں وراثت کے حقوق بھی قائم کرتے ہیں۔ ملاحظہ ہو: ’’میںمشتہر ایسے مجیب کو بلاعذرے وحیلتے اپنی جائداد قیمتی دس ہزار روپیہ پر قبض ودخل دے دوں گا۔‘‘
(براہین احمدیہ ص۲۵،۲۶، خزائن ج۱ ص۲۸)
براہین کے اشتہار دینے کے وقت یہ جائداد وہی تھی۔ جو ان کو اپنے والد غلام مرتضیٰ رئیس قادیان کے ترکہ میں پہنچی تھی۔ کیونکہ اس وقت تک فتوحات کا دروازہ نہیں کھلا تھا۔ وہ خطوط جو ’’محمدی بیگم‘‘ کے نکاح کے سلسلہ میں مرزاقادیانی نے مسماۃ کے والدین کو تحریض اور تخویف کے لکھے ہیں۔ اس میں اجرائے وراثت کاذکر اس طرح کیاگیا ہے۔
’’والدہ عزت بی بی کو معلوم ہو کہ مجھ کو خبر پہنچی ہے کہ چند روز تک مرزااحمد بیگ کی لڑکی کا نکاح ہونے والا ہے اور میں خدا کی قسم کھا چکا ہوں کہ اس نکاح سے سارے رشتے ناطے توڑدوں گا۔ کوئی تعلق نہ رہے گا۔ (صلہ رحمی کے خلاف ہے) اس لئے نصیحت کی راہ سے لکھتا ہوں کہ اپنے بھائی مرزااحمد بیگ کو سمجھا کر یہ ارادہ موقوف کراؤ اور جس طرح تم سمجھا سکتی ہو سمجھاؤ اور اگر ایسا نہیں ہوگا تو آج میں نے مولوی نورالدین اورفضل احمد کو خط لکھ دیا ہے کہ اگر تم اس ارادہ سے باز نہ آؤ تو فضل احمد عزت بی بی کے لئے طلاق نامہ ہم کو بھیج دے اور اگر فضل طلاق نامہ لکھنے میں عذر کرے تو اس کو عاق کیا جائے اور اپنی جائداد کا اس کو وارث نہ سمجھا جائے اور ایک پیسہ وراثت کا اس کو نہ ملے اور اگر فضل احمد نے نہ مانا تو میں فی الفور اس کو عاق کردوں گا اور پھر وہ میری وراثت سے ایک ذرہ نہیں پاسکتا ……مجھے قسم ہے اﷲتعالیٰ کی کہ میں ایسا ہی کردوں گا اورخداتعالیٰ میرے ساتھ ہے۔ جس دن نکاح ہوگا اس دن عزت بی بی کا نکاح باقی نہ رہے گا۔ ‘‘
(راقم مرزاغلام احمد از لدھیانہ اقبال گنج ۴؍مئی ۱۸۹۱ئ، کلمہ فضل رحمانی ص۱۲۸)
س… کرمانی لکھتے ہیں کہ ’’نحن معشر الانبیائ‘‘ کی حدیث غیر معتبر ہے؟۔
۲… عدم توریث رسول اﷲ علیہ السلام کا خاصہ ہے۔ چنانچہ بخاری میں اس حدیث کو ذکر کرتے ہوئے۔ حضرت عمرb کا قول ’’یرید رسول اﷲ علیہ السلام نفسہ ‘‘ نقل کیاگیا ہے۔ جس سے آپ علیہ السلام کی خصوصیت کا پتہ چلتا ہے اس لئے قسطلانی نے اس قول کی شرح کرتے ہوئے یہ لکھا ہے۔ ’’عن الحسن رفعہ مرسلارحم اﷲ اخی زکریا وماکان علیہ من یرث مالہ فیکون ذالک مماخصہ اﷲ بہ ویؤید مقول عمر یرید نفسہ ای یرید اختصاصہ بذالک‘‘
۳… ’’ورث سلیمان داود‘‘ میں وراثت مال کی مراد ہے۔ کیونکہ نبوت میں وراثت جاری نہیں ہواکرتی۔ ایسا ہی ’’تفسیر ابن جریر اور تفسیر نیشاپوری‘‘ میں درج ہے۔
ج… کرمانی کے نزدیک تمام حدیثیں غیر معتبر نہیں ہے۔ محض لفظ نحن غیر معتبر ہے۔ جیسا کہ علامہ ابن حجر تحریر فرماتے ہیں کہ: ’’وأما اشتہر فی کتب اہل الاصول وغیرہم بلفظ نحن معاشر الانبیاء لانورث فقد أنکرہ جماعۃ من الأئمۃ وہو کذلک بالنسبۃ لخصوص لفظ نحن لکن اخرجہ النسائی من طریق ابن عیینہ عن ابے الزناد بلفظ انا معاشر الانبیاء لا نورث‘‘
(فتح الباری ج۱۲ ص۶)
اور دار قطنی نے علل میں بروایت ام ہانیt عن فاطمہt ابوبکرb سے اس طرح روایت کی ہے کہ: ’’الانبیاء لا یورثون (قسطلانی ج۹ ص۳۴۱)‘‘
اور نسائی میں ’’انا معشر الانبیاء لا نورث‘‘ آیا ہے۔ ’’وفی حدیث الزبیر عند النسائے انا معشر الانبیاء لا نورث (قسطلانی ج۵ ص۱۵۴)‘‘ ان دونوں صیغوں کے ساتھ اس حدیث کو تسلیم کرنے سے کسی نے انکار نہیں کیا۔ پھر اسی مضمون کی یہ صحیح حدیث بھی موجود ہے۔
’’ان العلماء ورثۃ الانبیائ، ان الانبیاء لم یورثوادینا را ولادر ہما انما ورثوا العلم فمن اخذہ اخذبحظ وافر (ابن ماجہ ص۲۰ باب فضل العلمائ)‘‘
۲… ’’یرید رسول نفسہ‘‘ کا یہ مطلب ہے کہ اس حکایت کرنے سے محض انبیاء سابقینؑ کے حالات کو بیان کرنا مقصود نہیں تھا۔ بلکہ اس واقعہ کو ذکر کر کے یہ ظاہر کرنا تھا کہ جملہ انبیائؑ کی طرح میرے ترکہ میں بھی وراثت جاری نہ کی جائے۔ چنانچہ قسطلانی اس خصوصیت کی نفی کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ: ’’یرید رسول اﷲ نفسہ وکذاغیرہ من الانبیاء بدلیل قولہ فی الروایۃ الاخری انا معاشر الانبیاء فلیس خاصابہ علیہ السلام ‘‘
(مطبوعہ نو الکشور ج۵ ص۱۵۷)
’’کذانفیا بقولہ فی الحدیث الآخر انا معاشر الانبیاء لانورث فلیس ذالک من الخصائص‘‘
(نو الکشور ج۹ ص۳۴۲)
جس طرح بخاری کی حدیث ’’لعن اﷲ الیہود والنصاریٰ اتخذوا قبور انبیاء ہم مساجدا یحذر ماصنعوا ‘‘
(بخاری ج۱ ص۲ ۶، مشکوٰۃ ص۶۹، باب المساجد)
اور دوسری روایت ’’عن عائشۃt قالت قال رسول اﷲ علیہ السلام لعن اﷲ الیہود اتخدوا قبور انبیائہم مساجد قالتt فلولاذالک لابرز قبرہ انہ خشی ان یتخذ وامسجداً (مسلم ج۱ص۲۰۱ باب النھی عن بناء المسجد علی القبور)‘‘میں ’’یحذر ماصنعوا اور انہ خشی ان یتخذ مسجد‘‘ سے آنحضرت علیہ السلام کی خصوصیت ظاہرنہیں ہوتی۔ اسی طرح ’’یرید رسول اﷲ‘‘ سے حضور علیہ السلام کی خصوصیت سمجھنا درست نہیں ہے۔
ب… عدم توریث بلحاظ امت کے آپ علیہ السلام کا خاصہ ہے اور باعتبار نبیوں کے خاصہ نہیں ہے۔ یعنی آپ علیہ السلام آیت میراث کے عموم میں داخل نہیں ہیں۔ یہ حکم امت ہی کے واسطے ہے۔ آپ علیہ السلام کے واسطے نہیں ہے نہ یہ کہ دیگر انبیائؑ کے مال میں وراثت جاری ہوتی تھی۔ مگر رسول اﷲ علیہ السلام میں نہیں ہوتی: ’’فلا معارض من القرآن لقول نبینا علیہ السلام لانورث صدقۃ فیکون ذالک من خصائصہ التی اکرم بہا بل قول عمررضی اللہ عنہ یرید نفسہ یوئید اختصاصہ بذالک (فتح الباری ج۱۲ص۶)‘‘ یہی مطلب علامہ قسطلانی رحمۃُ اللہ علیہ کا بھی ہے۔
ج… حضرت عمررضی اللہ عنہ کے قول کو آنحضرت ﷺ کے متعلق خصوصیت پر اتارنا ضعیف اور مرجوح قول ہے۔ جیسا کہ قسطلانی کے صیغہ تمریض (قیل) سے ظاہر ہورہا ہے ملاحظہ ہو۔
’’وقیل ان عمررضی اللہ عنہ یرید نفسہ اشاربہ الیٰ ان النون فی قولہ لانورث المتکلم خاصۃ لا للجمیع وحکی ابن عبدالبر للعلماء فی ذالک قولین اوان الاکثر علی ان الانبیاء لا یورثون (قسطلانی ج۹ ص۳۴۳)‘‘
پھر بھی راجح اور قوی رائے یہی رہی کہ انبیائؑ میں وراثت جاری نہیں ہوتی۔
۳… (الف)وراثت سے علم نبوت کی وراثت مراد ہے۔ مالی وراثت مراد نہیں ہے۔’’والحکمۃ۱؎ فی ان لا یورثو لئلا یظن انہم جمعوا المال لوارثہم واما قولہ تعالیٰ وورث سلیمان داؤد فحملوہ علی العلم والحکمۃ وکذاقول زکریا فہب لی من لدنک ولیا یرثنی (قسطلانی ج۹ ص۳۴۳، ومثلہ فی فتح الباری ج۱۲ ص۹)‘‘
’’واما قول زکریا یرثنی ویرث من اٰل یعقوب وقولہ وورث سلیمان داؤد فالمراد میراث العلم والنبوۃ والحکمۃ (قسطلانی ج۵ص۱۵۷)‘‘ مفسر نیشا پوری کی وراثۃ فی النبوۃ کی نفی کرنے سے یہ غرض ہے کہ نبوۃ موہبۃ عظمیٰ ہے۔ جو نبی کی اولاد ہونے کی وجہ سے نہیں ملا کرتی۔ خداتعالیٰ جس کو چاہتا ہے۔ اس خدمت کے لئے منتخب کرلیتا ہے۔ سلیمان علیہ السلام کو بھی اگر نبوت ملی ہے تو انتخابی حیثیت سے ملی ہے۔ توریثی لحاظ سے نہیں ملی اور جن مفسرین نے سلیمان علیہ السلام کو حضرت دائود کا ’’وارث فی النبوۃ‘‘ کہا ہے۔

۱؎ انبیاء میں وراثت اس لئے جاری نہیں کی گئی تاکہ کوئی شخص یہ بدگمانی نہ کرے کہ انہوں نے اپنے وارثوں کے لئے مال جمع کیا ہے۔

ان کی یہ مراد ہے کہ اﷲتعالیٰ نے محض اپنے کرم اور فضل سے دائود علیہ السلام کے بعد ان کے بیٹے سلیمان علیہ السلام کو نبی منتخب کر لیا۔ یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ سلیمان علیہ السلام نے ایک نبی کی اولاد ہونے کی وجہ سے نبوت حاصل کر لی۔ فلا معارضۃ بینہما دیکھو زکریا علیہ السلام نے لڑکے کے پیدا ہونے کی دعا کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ: ’’فہب لی من لدنک ولیاً۰ یرثنی ویرث من آل یعقوب (مریم:۵،۶)‘‘ آل یعقوب کے وارث ہونے کے معنے اس کے سوا کچھ نہیں ہوسکتے کہ ان کو بنی اسرائیل کے نبیوں میں سے ایک نبی بنادے۔ اس لئے اس سے علم نبوت ہی کی وراثت مراد ہوگی۔
(ب)کبھی وراثت کا لفظ کسی کے بعد آنے والے پربھی بولا جاتاہے۔ قرآن مجید میں ہے کہ: ’’واورثکم ارضہم ودیارہم واموالہم وارضالم تطئوھا (احزاب:۲۷)‘‘
’’(اے مسلمانو) تم کو یہودیوں کی املاک وجائداد اور ان کے گھروں کا ہم نے وارث بنادیا اس میں وراثت سے عرفی اور اصطلاحی وراثت مراد نہیں ہے۔ بلکہ ان کی املاک کو مسلمانوں کے قبضہ میں دے دینے کا نام وراثت رکھا ہے۔‘‘
۲… ’’ویجعلہم الوارثین (القصص:۵)‘‘ میں بنی اسرائیل کو قوم فرعون کے وارث بنا نے کا ذکر ہے۔ جو اصطلاحی حیثیت سے قطعاً ناممکن ہے۔
۳… حدیث ’’ان العلماء ورثۃ الانبیاء (ترمذی ج۲ ص۹۸، باب فضل الفقھ علی العبادۃ)‘‘ میں علماء کو انبیائؑ کا وارث بنانا معنے عرفی کے لحاظ نہیں ہے۔ اسی طرح سلیمان علیہ السلام داؤد علیہ السلام کے وارث کہنے کا یہی مطلب ہے کہ ان کو علم وحکمت داؤد علیہ السلام کے بعد عطافرمائی گئی۔ جس سے نبوت کی دولت گھر کی گھر میںرہی اور باہر نہ گئی اور وہ صحیح معنوں میں اپنے والد بزرگوار کے جانشین ہوئے۔
۳… وراثت ذاتی املاک میں ہوا کرتی ہے۔ حکومت میں وراثت جاری نہیں ہوتی وہ ایک قومی امانت ہے۔ جس میں امیر کو قوم اور مالک کی مرضی کے بغیر کسی قسم کے تصرف کرنے کا حق نہیں ہوتا۔ ’’عن ابی ذررضی اللہ عنہ قال: قلت یا رسول اﷲ( علیہ السلام ) الایستعملنی قال وضرب بیدہ علی منکبیّ ثم قال یا اباذرانک ضعیف وانہا امانۃ (مشکوٰۃ کتاب الامارۃ ص۳۲۰)‘‘(’’اے ابوذررضی اللہ عنہ! حکومت ایک امانت ہے اور تو اس امانت کو نہیں اٹھا سکتا۔‘‘) لہٰذا سلیمان علیہ السلام کے وارث ہونے کے یہ معنے ہیں کہ وہ اپنے والد ماجد کے بعد حکومت کے تخت پر متمکن اور جلوہ افروز ہوئے۔ یہ کہ وہ شرعی طور پر وارث ہوئے تھے۔
 

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
مصنفہ مرزائیہ پاکٹبک نے لکھا تھا
یُوْصِیْکُمُ اللّٰہُ والی آیت (جس میں ہر ایک شخص کی وفات کے بعد اس کی اولاد کو وارث قرار دیا گیا۔ ناقل) میں جو استثناء ہے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک صحیح حدیث کی وجہ سے ہے جو بخاری و مسلم بلکہ تمام صحاح میں مذکور ہے اور وہ نَحْنُ مَعَاشِرُ الْاَنبیائِ لَا نَرِثُ وَلَا نُوْرَثُ ہے (یعنی ہم نبیوں کا گروہ نہ کسی کا وارث ہوتا ہے نہ ہمارا کوئی وارث ہوتا ہے۔ ناقل) اگر کہا جائے کہ یہ حدیث اس لیے صحیح نہیں کہ قرآن شریف کے خلاف ہے۔ کیونکہ قرآن کریم میں ورِثُ سُلَیْمَانُ دَاوٗدَ (النمل ع۲) فَھَبْ لِیْ مِن لَّدُنْکَ وَلِیًّا یَّرثُنِیْ وَیَرِثْ مِنْ اٰلِ یَعْقُوْبَ(مریم ع) آیا ہے اس کا جواب یہ ہے کہ ان آیات میں روحانی ورثہ مراد ہے نہ کہ مالی ورثہ۔''(احمدیہ پاکٹ بک ص۲۴۵ طبعہ ۱۹۳۲ء)
مگر جب مولانا عبد المعمار صاحب نے مرزا صاحب کی وراثت پر مرزا جی کو جھوٹا ثابت کیا تو اگلے ایڈیشنشز میں تخریف کر دی۔ مؤلف مرزائی پاکٹ بک نے بعد کی اشاعت میں '' اگر کہا جائے کہ یہ حدیث صحیح نہیں''سے ما قبل کی عبارت کو تو رہنے دیا ہے لیکن ما بعد کی عبارت کو نکال دیا۔
 
Top