• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

مرزا قادیانی اور اعمال صالحہ

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
مرزا قادیانی اور اعمال صالحہ
’’ وکلا جعلنا صالحین وجعلنا ہم ائمۃ یھدون بامرنا واوحینا الیہم فعل الخیرات واقام الصلوٰۃ وایتاء الزکوٰۃ (الانبیاء :۷۳)‘‘ ہم نے ہر ایک نبی کو صالح اور نیک عمل بنایا اور ان کو پیشوا کیا کہ جو ہمارے حکم سے لوگوں کو ہدایت کرتے تھے اور ان کی طرف نیکیوں کے کرنے، نماز پرھنے، زکوٰۃ دینے کی وحی کی۔ یعنی نبی کے لئے متقی، پرہیزگار ہونا شرط اوّل ہے۔ وہ ہمیشہ لوگوں کو نیک کام کے کرنے، زکوٰۃ اور نماز کے ادا کرنے کی طرف بلاتے رہے ہیں۔
مگر مرزاقادیانی کی تالیفات میں بقول مرزاقادیانی پچاس الماریاں بھری جاسکتی ہیں۔ زکوٰۃ کی ادائیگی نماز روزہ کی تلقین اعمال حسنہ کی طرف ترغیب وتحریص مطلقاً نہیں پائی جاتی اور ذاتی تقویٰ اور پرہیز گاری کا یہ حال ہے کہ جب آپ مسلمانوں کا حسن ظن حاصل کر رہے تھے اور دعویٰ مہدیت، مسیحیت وغیرہ کچھ نہیں کیا تھا اور براہین کے اشتہار بازی سے بہت سا روپیہ بھی جمع کر چکے تھے۔ اس وقت باوجود امن طریق کے اور دس ہزار روپیہ کی مالیت رکھنے کے حج کے لئے نہ گئے۔ چنانچہ اس اشتہار میں جو جمیع ارباب مذہب کے مقابلہ میں دس ہزار روپیہ انعام دینے کے وعدہ کا اعلان کرنے کے لیئے شائع کیا تھا۔ لکھتے ہیں کہ: ’’میں مشتہر ایسے مجیب کو بلاعذرے وحیلے اپنی جائداد قیمتی دس ہزار روپیہ پر قبض ودخل دیدوں گا۔‘‘
(براہین احمدیہ ص۲۵، ۲۶، خزائن ج۱ ص۲۸)
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
مرزا قادیانی اور اعمال صالحہ ( منہ میں پان اور نماز)
مرزاغلام احمدقادیانی اور اعمال صالحہ کی ادائیگی ملاحظہ فرمائیں: ’’ ایک دفعہ حضرت صاحب کو سخت کھانسی ہوئی۔ ایسی کہ دم نہ آتا تھا۔ البتہ منہ میں پان رکھ کر قدرے آرام معلوم ہوتا تھا۔ اس وقت آپ نے اس حالت میں پان منہ میں رکھے رکھے نماز پڑھی۔ تاکہ آرام سے پڑھ سکیں۔‘‘
(سیرت المہدی ج۳ ص۱۰۳، روایت نمبر۶۳۸)
’’بیان کیا مجھ سے والدہ صاحبہ نے کہ میں نے کبھی حضرت مسیح (مرزاقادیانی) کو اعتکاف میں بیٹھے نہیں دیکھا۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ میاں عبداﷲ سنوری نے بھی مجھ سے یہی بیان کیا ہے۔‘‘
(سیرت المہدی ج۱ ص۶۸، روایت نمبر۸۶)
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
مرزا قادیانی اور اعمال صالحہ ( روزے تڑوادئیے)
’’لاہور سے کچھ احباب رمضان میں قادیان آئے۔ حضرت صاحب (مرزاقادیانی) کو اطلاع ہوئی تو آپ مع کچھ ناشتہ کے ان سے ملنے کے لئے مسجد میں تشریف لائے۔ ان دوستوں نے عرض کیا کہ ہم سب روزے سے ہیں۔ آپ نے فرمایا سفر میں روزہ ٹھیک نہیں۔… چنانچہ ان کو ناشتہ کروا کے ان کے روزے تڑوادئیے۔‘‘
(سیرۃ المہدی ج۲ ص۵۹)
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
مرزا قادیانی اور اعمال صالحہ ( حج، اعتکاف، زکوٰۃ)
’’ڈاکٹر میر محمد اسماعیل نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود (مرزاقادیانی) نے حج نہیں کیا۔ اعتکاف نہیں کیا۔ زکوٰۃ نہیں دی۔ تسبیح نہیں رکھی… زکوٰۃ اس لئے نہیں دی کہ آپ کبھی صاحب نصاب نہیں ہوئے… اور تسبیح اور رسمی وظائف وغیرہ کے آپ قائل ہی نہیں تھے۔‘‘
(سیرت المہدی ج۳ ص۱۱۹، روایت نمبر۶۷۲)
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
مرزا قادیانی اور اعمال صالحہ ( کذب بیانی، وعدہ خلافی، تلبیس اور دھوکا دہی)
خیانت چندہ کا ناجائز مصرف، حرص، وطمع دنیوی، نصاریٰ کی جاسوسیت وغیرہ نقائص شرعی اس کے علاوہ ہے۔ اگرچہ ان کی مثالیں پہلے گذر چکی ہیں۔ مگر مزید بصیرت کے لئے ایک دو حوالے اور نقل کئے جاتے ہیں۔
’’پہلے یہ کتاب (براہین) صرف تیس پینتیس جز تک تالیف ہوئی تھی اور پھر سو جزوتک بڑھادی گئی اور دس روپیہ عام مسلمانوں کے لئے اور پچیس روپیہ دوسری قوموں اور خواص کے لئے مقرر ہوئی۔ مگر اب یہ کتاب بوجہ جمیع ضروریات تحقیق وتدقیق اور اتمام حجت کے تین سو جزء تک پہنچ گئی۔‘‘
(اشتہار مندرجہ تبلیغ رسالت جلد اوّل ص۲۴، مجموعہ اشتہارات ج۱ ص۳۲،۳۳)
اس مثال میںسوائے خدمت نصاری کے مذکورہ بالا تمام برائیاں موجود ہیں۔ اس کے بعد نصاریٰ کی خدمت گذاری کے شوق میں شریعت کی قطع وبرید ملاحظہ ہو۔
’’شریعت اسلام کا یہ واضح مسئلہ ہے۔ جس پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ ایسی سلطنت سے لڑائی اور جہاد کرنا جس کے زیر سایہ مسلمان لوگ امن اور عافیت اور آزادی سے زندگی بسر کرتے ہوں اور جس کے عطیات سے ممنون منت اور مرہون احسان ہوں اور جس کی مبارک سلطنت حقیقت میں نیکی ہدایت پھیلانے کے لئے کامل مدد گار ہو۔ قطعی حرام ہے۔‘‘
(براہین احمدیہ ص ب حصہ۳، خزائن ج۱ ص۱۳۹)
مطالبہ: سوائے معاہدہ کے شریعت اسلامیہ کا اس بارے میں وہ واضح اور متفق علیہ مسئلہ ہم بھی دیکھنا چاہتے ہیں، اور اگر یہ بات ثابت نہ کی جا سکے تو پھر اس کواتفاقی اور کھلا ہوا مسئلہ بتانا دھوکا دہی نہیں ہے تو کیا ہے؟ اور اگر یہ ایسا متفقہ اور کھلا ہوا شرعی مسئلہ تھا تو جہاد سے روکنے کی تحریک کو اپنی کوشش کا نتیجہ کیوں کہا جاتا ہے۔ پھر اگر برطانیہ سے معاہدہ تھا تو وہ ہندوستان کے مسلمانوں کا تھا۔ اس کی پابندی عرب، روم وشام کابل وغیرہ کے رہنے والے مسلمانوں پر نہیں تھی۔ مرزاقادیانی نے جو عمر کا بہت سا حصہ بلاد اسلامیہ میں امتناع جہاد کی بحث اور اغراض برطانیہ کی حمایت میں کتابیں بھیجنے پر صرف کردیا۔ وہ کس شرعی حکم کے ماتحت تھا۔ پھر لڑکے کو عاق کرنا چاہا۔ باوجود یہ کہ عاق کرنے والے پر رسول اﷲa نے لعنت بھیجی ہے۔
(ابن ماجہ ص۲۹۴ باب لاوصیۃ للوارث)
ایسے ہی مرزاغلام احمد قادیانی نے اپنے اصل ہدف دعویٰ نبوت تک پہنچنے کے لئے عیسائیت کے رد اور اشاعت اسلام کا سہارا لیا، اور کہا کہ کتاب مرتب کرنی ہے۔ تین سو دلائل ہوں گے۔ ۵۰جلدوں پر مشتمل ہوگی۔ لوگوں سے چندہ وصول کیا۔ وعدہ ۵۰ کا کیا۔ روپیہ پیسہ ۵۰جلدوں کا لیا۔ مگر ۵جلدوں پر اکتفا کیا۔ لوگوں کا مسلسل اصرار بڑھا۔ مرزاقادیانی نے کہا: ’’پہلے پچاس حصے لکھنے کا ارادہ تھا۔ مگر پچاس سے پانچ پر اکتفا کیاگیا اور کیونکر پچاس اور پانچ کے عدد میں صرف ایک نکتہ کا فرق ہے۔ اسی لئے پانچ حصوں سے وہ وعدہ پورا ہوگیا۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ پنجم دیباچہ ص۷، خزائن ج۲۱ ص۹)
قادیانی نبی کی عیاری پر غور فرمائیں۔ وعدہ پچاس کا، رقم پچاس کی۔ مگر وعدہ خلافی کی، حرام کا ارتکاب ،کیا لوگوں کا مال حرام کیا، حرام کھایا۔ وعدہ خلاف، جھوٹ بولنے والا، حرام کھانے والا اﷲ کا سچا نبی نہیں بلکہ قادیان کا دھقان مرزاغلام احمد قادیانی ہوسکتا ہے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
مرزا قادیانی اور اعمال صالحہ ( مرزا قادیانی اور انبیاء سابقینؑ)
’’وقضینا علیٰ اثارہم بعیسیٰ ابن مریم مصدقالما بین یدیہ (مائدہ:۴۶)‘‘ ہر ایک نبی پہلے انبیائؑ کی تعلیم کی تصدیق اور توثیق کرتا چلاآیا ہے۔ خصوصاً عقائد کے بارے میں تمام نبیوں کی ایک ہی تعلیم رہی ہے۔ قرآن کریم کی نسبت بھی یہی فرمایا گیا: ’’مصدقالما بین یدیہ من التوراۃ والانجیل (صف:۶)‘‘
’’وانہ لفی زبر الاولین (شعراء :۱۹۶)‘‘
’’معناہ لفی الکتب المقدمۃ (بیضاوی :۱۳۳)‘‘
حدیث میں ہے کہ: ’’نحن معشرا لانبیاء اخوۃ لعلات امہاتہم شتّٰی ودینہم واحد (بخاری ج۱ ص۴۹۰ باب واذکر فی الکتاب مریم)‘‘
یعنی اصول دین تمام انبیائؑ کے درمیان مشترک ہیں۔ صرف عبادت کے طریقے بدلے ہوئے ہیں۔ حتیٰ کہ عیسیٰ علیہ السلام بھی جب دوبارہ دنیا میں نازل ہوںگے۔ تو وہ ہر ایک بات میں نبی عربی ﷺ کی تصدیق کریں گے اور ان کی تحقیق سے ایک انچ باہر نہ ہوں گے۔ چنانچہ (کنز العمال ج۱۴ ص۳۲۱ حدیث نمبر۳۸۸۰۸) میں ہے کہ: ’’یجییٔ عیسیٰ بن مریم من قبل المغرب مصدقا بمحمد علی ملتہ‘‘
مگر مرزاقادیانی کو انبیائؑ کے عقائد سے سخت اختلاف ہے۔ بلکہ وہ اس بارے میں نبی عربیa کی تحقیق کی بھی پرواہ نہیں کرتا اور اس کی تکذیب کرتا جاتا ہے۔
چنانچہ دجال کے ایک شخص واحد ہونے اور یک چشم اور اعور ہونے پر تمام انبیاء کرامؑ نے شہادت دی ہے اور حضورﷺ نے اس پر یہ تحقیق مزید اضافہ فرمادی کہ اس کی پیشانی پر ک، ف، ر، لکھی ہوئی ہوگی۔ جیسا کہ ’’بخاری‘‘ اور ’’مسلم‘‘ کی اس روایت سے ظاہر ہے۔
’’عن انس رضی اللہ عنہ قال: قال رسول اﷲ علیہ السلام ما من نبی الاوقد انذرامتہ الاعوار الکذب الاانہ اعور وان ربکم لیس باعور وان بین عینیہ مکتوباً کافر
(بخاری ج۲ ص۱۰۵۶ باب ذکر الدجال، مسلم ج۲ ص۴۰۰، باب ذکر الدجال)‘‘
مرزاقادیانی نے بھی ’’ازالہ وہام‘‘ میں اس حدیث کی تصدیق اس طرح کی ہے۔ حضرت نوح علیہ السلام سے لے کر ہمارے سیدو مولیٰ خاتم الانبیائ علیہ السلام کے عہد تک اس مسیح دجال کی خبر موجود ہے۔ مرزاقادیانی نے اس کی تعیین شخصی سے جو انبیائؑ کے درمیان متفق علیہ چیز تھی۔ انکار کردیا۔ خواہ وہ کسی تاویل کے ماتحت ہو۔ لیکن تمام نبیوں کا اس کا ظاہر پر اتارنا اور اس میں کسی قسم کی تاویل نہ کرنا نہ صرف مرزاقادیانی کی تاویل کی تردید کرتا ہے۔ بلکہ کھلم کھلا مرزاقادیانی کی بطالت پر مہر تصدیق ثبت کرنا ہے۔ لہٰذا مرزاقادیانی کا دجال کی شخصیت سے انکار کرتے ہوئے یہ لکھنا سراسر لغو ہے کہ: ’’میرا یہ مذہب ہے کہ اس زمانہ کے پادریوں کی مانند کوئی اب تک دجال پیدا نہیں ہوا اور نہ قیامت تک پیدا ہوگا۔‘‘
(ازالہ ص۴۸۸، خزائن ج۳ ص۳۶۲)
’’اور بپایہ ثبوت پہنچ گیا کہ مسیح دجال جس کے آنے کی انتظار تھی یہی پادریوں کا گروہ ہے جو ٹڈی کی طرح تمام دنیا میں پھیل گیا ہے۔‘‘
(ازالہ ص۴۹۵،۴۹۶، خزائن ج۳ ص۳۶۶)
پھر یہ کہنا کہ رسول اﷲ علیہ السلام کو دجال کی حقیقت کا صحیح علم نہ تھا۔ آنحضرت علیہ السلام اور تمام انبیائؑ کی شان میں گستاخی کرنے کے علاوہ اس امر کی کھلی ہوئی شہادت ہے کہ مرزاقادیانی کے خیال میں ان کی اپنی تحقیق انبیائؑ کی تحقیق سے جدا اور اس کے مخالف ہے اور مخالفت ہی مرزاقادیانی کے باطل ہونے کی زبردست دلیل ہے۔ مرزاقادیانی لکھتا ہے کہ: ’’آنحضرت علیہ السلام پر ابن مریمؑ اور دجال کی حقیقت کاملہ بوجہ نہ موجود ہونے کسی نمونہ کے موبمومنکشف نہ ہوئی ہو اور نہ دجال کے ستر باع کے گدھے کی اصل کیفیت کھلی ہو اور نہ یاجوج ماجوج کی عمیق تہ تک وحی الٰہی نے اطلاع دی ہو اور نہ دابۃّ الارض کی ماہیت ’’کماہی‘‘ ہی ظاہر فرمائی گئی اور صرف امثلہ قریبہ اور صور متشابہہ اور امور متشاکلہ کے طرز بیان میں جہاںتک غیب محض کی تفہیم بذریعہ انسانی قویٰ کے ممکن ہے۔ اجمالی طور پر سمجھایا گیا ہو تو کچھ تعجب کی بات نہیں۔‘‘
(ازالہ کلاں ص۶۹۱، خزائن ج۳ ص۴۷۳)
س… اگر دجال کی شخصیت کا مسئلہ متفق علیہ ہوتا تو آنحضرت علیہ السلام ابن صیاد کے دجال ہونے میں کبھی تردد کا اظہار نہ فرماتے؟
ج… حضور علیہ السلام کو دجال کے شخص واحد او ر رجل من الرجال ہونے میں تردد نہیں تھا۔ تردد اس بارے میں تھا کہ دجال ہونے والا شخص ابن صیاد ہے یا کوئی اور شخص ہے؟۔ انبیائo کا اتفاق یقین شخصی میں ہے۔ تعین ذاتی میں نہیں این ہذا من ذاک اسی طرح یاجوج ماجوج، خردجال، دابۃ الارض وغیرہ مسائل میں رسول اﷲ علیہ السلام کے بیان کی تصدیق نہ کرنا اور اس کے خلاف اپنی رائے پیش کرنا۔ آیت مذکورہ بالا کی رو سے بطالت کی نشانی ہے۔ مرزاقادیانی نے ملائکہؑ کی حقیقت اور ان کے نزول جسمانی نزول وحی سے مراد اور معجزہ کی حقیقت وغیرہ میں بھی نبی کریم علیہ السلام کی تحقیق کی مخالفت کی ہے اور بجائے تصدیق کے ان کی تکذیب کر کے اپنا جھوٹا ہونا ثابت کردیا ہے۔ کیونکہ سچے کی مخالفت کرنے والا جھوٹا ہی ہوا کرتا ہے۔ سچا کبھی نہیں ہوتا۔ ’’انشاء اﷲ‘‘ ان تمام چیزوں کی تحقیق ’’ایمان مرزا‘‘کی بحث میں مفصل طور پر مذکور ہوگی۔ واﷲ أعلم!
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
مرزا قادیانی اور اعمال صالحہ ( مرزا قادیانی اور بہادری)
’’الذین یبلغون رسالٰت اﷲ ویخشونہ ولا یخشون احداً الا اﷲ (احزاب:۳۹)‘‘ کبھی کوئی رسول یا نبی اظہار حق کے لئے کسی انسانی طاقت سے نہیں ڈرے۔ مرزاقادیانی تمام عمر حکومت کے خوف سے اس کی رضا جوئی کے متلاشی رہے اور، مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی رحمۃُ اللہ علیہ کے مقدمہ میں قید وبند کے ڈر سے بعض الہامات کے ظاہر نہ کرنے کا عدالت کے روبرو عہد کیا۔ چنانچہ مولوی ثناء اﷲ صاحب رحمۃُ اللہ علیہ نے اس اقرار نامہ کے چند دفعات (الہامات مرزا ص۸۴) پر نقل کئے ہیں۔جن میں سے یہ بھی ہیں۔
۱… میں (مرزاقادیانی) ایسی پیشین گوئی شائع کرنے سے پرہیز کروںگا۔ جس کے یہ معنے ہوں یا ایسے معنے خیال کئے جا سکیں کہ کسی شخص کو ذلت پہنچے گی یا وہ مورد عتاب الٰہی ہوگا۔
۲… میں خدا کے پاس ایسی اپیل کرنے سے بھی اجتناب کروںگا کہ وہ کسی شخص کو ذلیل کرنے سے یا ایسے نشان ظاہر کرنے سے کہ وہ مورد عتاب الٰہی ہے۔ یہ ظاہر کرے کہ مذہبی مباحثہ میں کون سچا اور کون جھوٹا ہے۔
۳… میں کسی چیز کو الہام جتا کر شائع کرنے سے مجتنب رہوں گا۔ جس کا یہ منشاء ہو یا جو ایسا منشاء رکھنے کی معقول وجہ رکھتا ہو کہ فلاں شخص ذلت اٹھائے گا یا موردعتاب الٰہی ہوگا۔
(الہامات مرزاص۸۴)
گورنمنٹ کے خوف سے لکھتے ہیں کہ: ’’ہر ایک ایسی پیش گوئی سے اجتناب ہوگا۔ جو امن عامہ اور اغراض گورنمنٹ کے مخالف ہو۔‘‘ (حاشیہ اربعین نمبر۱ ص۱، خزائن ج۱۷ ص۳۴۳)
آنحضرت علیہ السلام نے ارشاد فرمایا۔ جس کا مفہوم یہ ہے کہ: ’’مجھے باقی انبیائo پر چھ چیزوں میں فضیلت دی گئی ہے۔ ان میں ایک چیز دشمن پر رعب ڈال دیا گیا ہے۔ میرا دشمن کئی میل کی مسافت سے مجھ سے ڈرتا ہے۔‘‘ یہ اﷲ کا سچا نبی ہے اور اس سچے نبی کی یہی خاصیت ہونی چاہئے۔ مگر جو جھوٹا نبی مرزے قادیانی کی طرح ہوگا۔ اس کا اور اس کی بہادری کا کیا حال ہوگا۔ ملاحظہ فرمائیں: ’’چند آدمی سامنے ہیں۔ ایک چادر میں کوئی شی ٔ ہے۔ ایک شخص نے کہا کہ یہ آپ لے لیں۔ دیکھا تو اس میں چند مرغ ہیں اور ایک بکرا ہے۔ میں ان مرغوں کو اٹھا کر اور سر سے اونچا کر کے لے چلا تاکہ کوئی بلی وغیرہ نہ پڑے۔ راستہ میں ایک بلی ملی۔ جس کے منہ میں کوئی شئی مثل چوہا ہے۔ مگر اس بلی نے اس طرف توجہ نہیں کی اور میں ان مرغوں کو محفوظ لے کر گھر پہنچ گیا۔‘‘
(تذکرہ ص۵۵۸، طبع اوّل)
جو شخص چند مرغے چھپا چھپا کر لے چلا اس ڈر سے کہ کہیں بلی حملہ نہ کردے وہ اﷲ کا نبی نہیں بلکہ خود چوہا ہوسکتا ہے۔ دوسری بات بقول مرزاقادیانی کے جو ان کی بہادری کو واضح کرتی ہے کہ بلی نے اس طرف توجہ نہیں کی اور میں محفوظ نکل گیا۔ اگر بلی توجہ کر لیتی۔ اس کی تو عید ہو جاتی۔ اس لئے کہ مرغے بھی مل جاتے اور مرزے جیسا پلا چوہا بھی۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
مرزا قادیانی اور اعمال صالحہ ( مال ودولت اور نبوت)
’’الذین اتخذوا دینہم لعبا ولہوا وغرتہم الحیوۃ الدنیا (انعام:۷۰)‘‘ اس آیت میں کافروں کی دو نشانیاں بیان کی گئیں ہیں۔
۱… ’’لہو ولعب‘‘ کھیل اور تماشہ کو انہوں نے دین کا جز بنالیا ہے۔
۲… انہماک دنیوی نے ان کو غافل کر رکھا ہے کہ دن رات دنیا ہی کو حاصل کرنے کا فکر ہے اسی کے عیش وآرام پر فخر کرتے اور خوشیاں مناتے ہیں۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ مرزاقادیانی بھی دنیا داروں کی طرح دنیوی شہرت کو پسند کرتے، اور مال ودولت کے جمع ہونے پر فخر کرتے ہوئے اس کو اپنی بڑی کامیابی سمجھتے ہیں۔ چنانچہ لکھتے ہیں کہ: ’’جو میری مراد تھی سب کچھ دکھادیا۔ میں ایک غریب تھا مجھے بے انتہا دیا۔‘‘ (براہین احمدیہ حصہ۵ ص۱۰، خزائن ج۲۱ ص۱۹)
واقعی خداتعالیٰ کسی کی محنت رائیگاں نہیں کرتا۔ مرزاقادیانی کو دنیا کی دولت ہی جمع کرنی مقصود تھی سو ہوگئی۔ ایک جگہ اپنی شہرت پر فخر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ: ’’اس زمانہ میں ذرا سوچو کہ میں کیا چیز تھا۔ جس زمانہ میںبراہین کا دیا تھا اشتہار۔ پھر ذرا سوچو کہ اب چرچا میرا کیسا ہوا۔ کس طرح سرعت سے شہرت ہوگئی۔ درہردیار! (براہین احمدیہ ص۱۱۲ حصہ۵، خزائن ج۲۱ ص۱۴۲)
یہ تو مرزاقادیانی کا حال ہے۔ مگر رسول خدا علیہ السلام اس کے مقابلہ میں ارشاد فرماتے ہیں کہ: ’’اشدا لناس بلاء الانبیاء ثم الامثل فالامثل (کنز العمال ج۳ ص۳۲۷ حدیث ۶۷۸۳)‘‘ انبیائo پر دنیا کی مصیبتیں عام ہوتی ہیں اور امت میں سے جو شخص عمل میں ان کے قریب ہوتا ہے۔ اسی قدر مصیبتوں کا اس پر ہجوم ہوتا ہے۔ سچ ہے کہ رسول اﷲ علیہ السلام کی فقیرانہ زندگی ہی اس امر کا قطعی فیصلہ ہے اور قارون وفرعون کی وراثت پر فخر کرنا فرعون صفت لوگوں ہی کا کام ہے۔
س… حضرت دائود اور سلیمان علیہما السلام بڑی سلطنت کے مالک تھے؟۔
ج… اوّل تو ان بزرگوں نے کبھی مال ودولت پر فخریہ کلمات نہیں فرمائے، دوسرے وہ بیت المال سے ایک کوڑی بھی اپنے اوپر خرچ نہیں کرتے تھے۔ وہ انبیاء کرامo زرہ بناکر بیچتے اور اس سے گزارہ کرتے تھے۔ جیسا کہ ’’علمناہ صنعۃ لبوس‘‘ سے ظاہر ہے اور یہی حال سلیمان علیہ السلام کا تھا۔ ٹوکریاں اپنے ہاتھ سے بنتے اور ان کو بازار میں بیچ کر اپنی ضروریات پوری کرتے تھے۔ مرزا کی طرح جھوٹ سچ کا مال جمع نہیں کرتے تھے۔ان کے نزدیک دنیا کے مال کی پرکاہ کے برابر بھی قدر نہ تھی۔ یہی وجہ تھی کہ گھوڑوں کی مشغولیت کے سبب نماز عصر کے قضا ہوجانے کی وجہ سے ان کو ذبح کردیا اور ملکۂ سباء کے ہدایا کو حقارت سے رد کرتے ہوئے یہ ارشاد فرمایا تھا کہ: ’’قال اتمدون بمال۰ فمآ آتنی اﷲ خیر ممآ آتٰکم۰ بل انتم بہدیتکم تفرحون (نمل :۳۶)‘‘
چنانچہ ’’صاحب جمل‘‘ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ: ’’ای انکم اہل مفاخرۃ ومکاثرۃ بالدنیا تفرحون باہداء بعضکم الیٰ بعض واما انا فلا افرح بالدنیا ولیست الدنیا من حاجتی‘‘ (جمل حاشیہ نمبر۱۲ جلالین ص۳۲۰)
مگر مرزاقادیانی ہیں کہ تین سو دلائل والی کتاب لکھنے کا اعلان کر کے حسب وعدہ خریداروں کے پاس نہیں پہنچاتے اور جب خریدار تنگ آکر اپنی قیمت واپس کراتے ہیں تو بادل ناخواستہ واپس کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ مگر تمنا اور آرزو یہی رہتی ہے کہ یہ آئی ہوئی رقم واپس نہ ہوتی تو بہت اچھا ہوتا۔ چنانچہ اس حسرت بھری تمنا کو ان لفظوں میں ظاہر فرمایا ہے کہ: ’’پس جن لوگوں نے قیمتیں دی تھیں۔ اکثر نے گالیاں بھی دیں اور اپنی قیمت بھی واپس لی۔ اگر وہ اپنی جلد بازی سے ایسا نہ کرتے تو ان کے لئے اچھا ہوتا۔‘‘ (دیباچہ براہین ۵ ص۸، خزائن ج۲۱ ص۹)
کوئی ان سے پوچھے کہ اگر وہ قیمت واپس نہ کرتے تو کیا کرتے؟ کیا ان کو وہ کتاب مل جاتی جس کا معاملہ طرفین میں ہوا تھا؟ جب اس کتاب کا وجود ہی نہ تھا تو مرزاقادیانی کس وجہ شرعی سے یہ روپیہ دبانا چاہتے تھے؟
س… ’’جو لوگ کسی مکر سے دنیا کمانا چاہتے ہیں کیا ان کا یہی اصول ہوا کرتا ہے کہ بیکبارگی ساری دنیا کی عداوت کرنے کا جوش دلاویں اور اپنی جان کو ہر وقت فکر میں ڈالیں۔‘‘
(مقدمہ براہین ص۱۱۸، خزائن ج۱ ص۱۱۰)

ج… یہ فقرہ مرزاقادیانی نے اس وقت لکھا تھا۔ جب کہ آپ دنیا کو مقابلہ کی دعوت اور مسلمانوں کو اپنی طرف مائل کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے تھے۔ چنانچہ آپ نے مسلمانوں کی توجہ کو اپنی طرف منعطف کرنے کے لئے مجددیت، مہدیت وغیرہ دعاوی کا سلسلہ اس خیال کے ماتحت جاری کیا کہ: ’’اگر کوئی نیا مصلح ایسی تعریفوں سے عزّت یاب نہ ہو کہ جو تعریفیں ان کو پیروں کی نسبت ذہن نشین ہیں۔ تب تک وعظ اور پند اس مصلح جدید کا بہت ہی کم مؤثر ہوگا۔ کیونکہ وہ لوگ ضرور دل میں کہیں گے کہ یہ حقیر آدمی ہمارے پیروں کی شان بزرگ کو کب پہنچ سکتا ہے… کیا حیثیت اور کیا بضاعت اور کیا رتبت اور کیا منزلت تا ان کو چھوڑ کر اس کی سنیں۔‘‘
(براہین ص۲۴۶ حاشیہ درحاشیہ نمبر۱،خزائن ج۱ص۲۷۱)
جب مسلمانوں کی ایک جماعت کو مائل کر لیا تو پھر مسیحیت، مجددیت، نبوت وخدائی کے دعوے شروع کردئیے۔
ایک طرف مرزاغلام احمد قادیانی کا دعویٰ نبوت اور دوسری طرف مال کی محبت اور ہوس کا یہ عالم تھا کہ مرزاغلام احمد قادیانی نے اپنے ایک مرید کے خط کے جواب میں لکھا کہ اپنی بہن کی عصمت فروشی کا مال خدمت اسلام کے لئے مجھے قادیان بھیج دو۔ ملاحظہ فرمائیے: ’’ایک شخص نے حضرت سے فتویٰ دریافت کیا کہ میری بہن ایک کنچنی (کنجری) تھی۔ اس نے اسی حالت میں بہت سا روپیہ کمایا۔ پھر وہ مرگئی اور مجھے اس کا ترکہ ملا۔ مگر بعد میں مجھے اﷲتعالیٰ نے توبہ اور اصلاح کی توفیق دی۔ اب میں اس مال کو کیا کروں۔ حضرت صاحب نے جواب دیا کہ ہمارے خیال میں اس زمانہ میں ایسا مال اسلام کی خدمت میں خرچ ہوسکتا ہے۔‘‘
(سیرت المہدی حصہ اوّل ص۲۶۱، روایت نمبر۲۷۲)
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
مرزا قادیانی اور اعمال صالحہ ( شاعری اور نبوت)
’’والشعراء یتبعہم الغاون (الشعراء :۲۲۴)‘‘
انبیائo میں سے کبھی کوئی نبی شاعر نہیں ہوا۔ مگر مرزاقادیانی شعر گوئی کا بھی شوق رکھتے ہیں اور مرزائی پارٹی میںان کی شاعری اونچے درجہ کی ہے۔ تمام نبیوں سے نرالا شاعر نبی کیونکر ہوسکتا ہے اور اگر ہے تو ایسے متنبی شاعر کے پیرو یقینا بحکم قرآن گم کردہ راہ ہدایت ہوںگے۔
عشقیہ
اﷲ کے سچے نبی شاعری سے کسی قسم کا تعلق نہیں رکھتے۔ مگر مرزاغلام احمد قادیانی شاعری بھی کرتا اور پھر عشقیہ شاعری کرتا۔ ایک تو شاعری ویسے بھی نبوت کے منصب کے لائق نہیں اور مرزاقادیانی نے جو شاعری کی وہ بھی ایسی کہ کیا کہنے۔ ملاحظہ فرمائیں:

عشقیہ شعر وشاعری

عشق کا روگ ہے کیا پوچھتے ہو اس کی دوا
ایسے بیمار کا مرنا ہی دوا ہوتا ہے

کچھ مزا پایا مرے دل ابھی کچھ پاؤ گے
تم بھی کہتے تھے کہ الفت میں مزا ہوتا ہے

ہائے کیوں ہجر کے الم میں پڑے
مفت بیٹھے بٹھائے غم میں پڑے

اس کے جانے سے صبر دل سے گیا
ہوش بھی ورطۂ عدم میں پڑے

سبب کوئی خداوند بنادے
کسی صورت سے وہ صورت دکھادے

کرم فرما کے آ او میرے جانی
بہت روئے ہیں اب ہم کو ہنسا دے

کبھی نکلے گا آخر تنگ ہوکر
دلا اک بار شور غل مچادے

نہ سر کی ہوش ہے تم کو نہ پاکی
سمجھ ایسی ہوئی قدرت خدا کی

مرے بہت اب سے پردہ میں رہو تم
کہ کافر ہوگئی خلقت خدا کی

نہیں منظور تھی گر تم کو الفت
تو یہ مجھ کو بھی جتلایا تو ہوتا

مری دل سوزیوں سے بے خبر ہو
مرا کچھ بھید بھی پایا تو ہوتا

دل اپنا اس کو دوں یا ہوش یا جاں
کوئی اک حکم فرمایا تو ہوتا


(سیرت المہدی حصہ اوّل ص۲۳۲، روایت نمبر۲۲۸)
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
مرزا قادیانی اور اعمال صالحہ ( قومی زبان اور نبوت)
’’وما ارسلنا من رسول الا بلسان قومہ لیبین لہم (ابراہیم: ۴)‘‘ نہیں بھیجا ہم نے کسی رسول کو مگر اس کی قومی زبان میں تاکہ وہ لوگوں پر وحی کو ظاہر کرے۔‘‘
اس آیت میں رسول کے لئے دو قیدیں مذکور ہوئی ہیں۔
۱… رسول پر ہمیشہ وحی ربانی اس کی قومی زبان میں نازل ہوئی ہے۔ چنانچہ رسول اﷲ علیہ السلام پر اگرچہ وہ تمام جہان کی طرف مبعوث کئے گئے۔ وحی قومی زبان عربی ہی میں نازل ہوتی رہی۔
۲… نازل شدہ وحی کا سمجھنا رسول کے لئے لازمی ہے تاکہ وہ دوسروں کو اس کی حقیقت سے آگاہ کر سکے۔ خواہ وہ امت کو اس سے مطلع کرے یا نہ کرے۔ مگراس کا واقف اور باخبر ہونا ضروری ہے۔ چنانچہ اس اصول کو مرزاقادیانی بھی تسلیم کرتے ہیں کہ: ’’یہ بالکل غیر معقول اور بیہودہ امر ہے کہ انسان کی اصلی زبان تو کوئی اور ہو اور الہام اس کو کسی اور زبان میں ہو جس کو وہ سمجھ بھی نہیں سکتا۔ کیونکہ اس میں تکلیف مالایطاق ہے اورایسے الہام سے کیا فائدہ ہوا۔ جو انسانی سمجھ سے بالاتر ہے۔ ‘‘ (چشمہ معرفت حصہ۲ ص۲۰۹، خزائن ج۲۳ ص۲۱۸)
چنانچہ مرزاقادیانی خود تحریر کرتے ہیں کہ: ’’وہ زیادہ تر تعجب کی یہ بات ہے کہ بعض الہامات مجھے ان زبانوں میں بھی ہوتے ہیں۔ جن سے مجھے کچھ بھی واقفیت نہیں۔ جیسے انگریزی، سنسکرت یا عبرانی وغیرہ۔‘‘
(نزول المسیح ص۵۷، خزائن ج۱۸ ص۴۳۵)
ایسے الہامات سے چند الہام بطور نمونہ درج کئے جاتے ہیں ملاحظہ ہو۔
’’ہوشعنا نعساً یہ دونوں فقرے شائد عبرانی ہیں اور ان کے معنے ابھی تک اس عاجز پر نہیں کھلے۔‘‘
(براہین احمدیہ ص۵۵۶، خزائن ج۱ ص۶۶۴)
۲… ’’آئی، لو، یو۔ آی شیل، گو، یو۔ لارج پارٹی آف اسلام۔ چونکہ اس وقت یعنی آج کے دن اس جگہ کوئی انگریزی خواں نہیں اور نہ اس کے پورے پورے معنے کھلے ہیں۔‘‘
(حاشیہ براہین احمدیہ ص۵۵۶، خزائن ج۱ ص۶۶۴)
۳… ’’پریشن عمر براطوس یا پلاطوس نوٹ آخری لفظ براطوس ہے۔ یا پلاطوس ہے۔ بباعث سرعت الہام دریافت نہیں ہوا اور نمبر۲ میں عمر عربی لفظ ہے۔ اس جگہ براطوس اور پریشن کے معنے دریافت کرنے ہیں کہ کیا ہیں اور کس زبان کے لفظ ہیں۔‘‘
(مکتوبات احمدیہ حصہ۱ ص۶۸،ا لبشریٰ ص۵۱، تذکرہ ص۱۱۵ طبع سوم)
۴… ’’غثم،غثم، غثم‘‘
(البشریٰ حصہ۲ ص۵۰، تذکرہ ص۳۱۹ طبع سوم)
۵… ’’ربنا عاج ہمارا رب عاجی ہے۔ عاجی کے معنی ابھی تک معلوم نہیں ہوئے۔ ‘‘
(البشریٰ ج۱ ص۴۳، براہین احمدیہ ص۵۵۵، ۵۵۶، خزائن ج۱ ص۶۶۲،۶۶۳)
اس قسم کے لغو اور لایعنی اور غیر زبان کے الہامات سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا ملہم وہ نہیں ہے جو رسول اﷲ علیہ السلام کے زمانہ تک انبیاء کرامؑ پر وحی نازل کرتا رہا ہے۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top