• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

مرزا قادیانی بطور ایک سزا یافتہ مجرم

ضیاء رسول امینی

منتظم اعلیٰ
رکن عملہ
ناظم
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
مرزا قادیانی پر فوجدار ی مقدمہ

مقدمہ کا پس منظر:

مرزا قادیانی نے اپنی کتاب مواہب الرحمن میں مولانا کرم دین کو نازیبا الفاظ سے یاد کیا تھا اور کتاب مذکورہ جہلم میں بکثرت تقسیم کی تھی صرف اسی پہ بس نہیں کی بلکہ کتاب مولانا کرم دین کو براہ راست بھی بھیجی۔ اس پر انہوں نے مرزا قادیانی اور حکیم فضل دین کے خلاف رائے اکسٹراسسٹنٹ کمشنر مجسٹریٹ درجہ اول جہلم کی عدالت میں درج ذیل استغاثہ دائر کر دیا۔

آغاز مقدمہ و نقل استغاثہ:

ابوالفضل مولوی محمد کرم الدین ساکن بھین تحصیل چکول ضلع جہلم مستغیث

بنام

مرزا غلام احمد وحکیم فضل دین مالک مطبع ضیاءالاسلام سکنائے قادیان ملزمان جرم دفہ ۰۰۵‘ ۱۰۵‘ ۲۰۵ تعزیرات ہند

تمہید استغاثہ یوں ہے:

جناب عالیٰ!

۱۔ مستغیث فرقہ اہل سنت والجماعت کا مولوی ہے اور مسلمانوں میں خاص عزت و امتیاز رکھتا ہے۔

۲۔ مستغیث نے ایک استغاثہ فوجداری بعلت ازالہ حیثیت عرفی برخلاف ملزمان نمبر ۱ نمبر۲ نسبت اس ہتک اور توہین کے جو انہوں نے بذریعہ تحریرات مطبوعہ میرے بھائی و بہنوئی مولوی محمد حسن فیضی مرحوم کی کی تھی عدالت لالہ سنسار چند صاحب مجسٹریٹ درجہ اول ضلع جہلم میں کیا ہوا تھا جس کی تاریخ پیشی۷۱جنوری ۳۰۹۱ءمقرر تھی۔

۳۔ ملزمان کو اس بات کا مجھ سے رنج تھا اس واسطے ملزم نمبر ۱ نے اپنی مصنفہ مولفہ کتاب.... ”مواہب الرحمن“ کے صفحہ ۹۲۱ پر مقدمہ مذکور کی پیشگوئی کے پیرایہ میں ایک تحریر شائع کی جس میں میرا صریح نام لکھ کر میری سخت تحقیر و توہین کی گئی اورمیری حیثیت عرفی کا ازالہ کیا گیا ہے۔ اس نیت سے کہ اس مضمون کی اشاعت پر مستغیث کی نیک نامی اور عزت کو جو مسلمانوں کے دلوں میں ہے صدمہ پہنچے اور میری وقر وآبرو کو نقصان پہنچے۔ چنانچہ تحریر مذکور کے فقرات ذیل قابل غور ہیں۔

(الف) ”ومن ایاتی ما انبانی العلیم الحکیم فی امررجل لیئم وبھتانہ العظیم۔

ترجمہ: از جملہ نشانہائے من انیست کہ خدا مرادربارہ معاملہ شخص لیئم و بہتان بزرگ او خبرداد۔ (روحانی خزائن جلد 19صفحہ ۰۵۳)اس فقرہ میں رجل لیئم جس کے معنی کمینہ شخص ہے۔ اس سے ملزم نے مراد مستغیث کو رکھا ہے اور یہ لفظ مستغیث کی نسبت سخت وہین و تحقیر کا کلمہ ہے اور بہتانہ العظیم کے لفظ سے ملزم نے میرے ذمے یہ خلاف واقعہ اتہام لگایا کہ میں جھوٹے بہتان باندھنے والا ہوں اور ایسا اتہام میرے ذمے میری سخت بے عزتی کا باعث ہے کیونکہ جھوٹا بہتان باندھنا ایک اخلاقی اور شرعی جرم ہے۔

(ب) ان البلاءیرد علی عدوی الکذاب المھین ۔

ترجمہ: یہ بلا میرے دشمن پر پڑے گی جو کذاب (بہت ہی جھوٹا) اور اہانت کنندہ ہے۔ اس فقرے میں مستغیث کی نسبت کذاب کا لفظ لکھا گیا ہے جس کا معنی بہت ہی جھوٹا ہے اور یہ ایک سخت تحقیر کا کلمہ ہے جس سے کوئی زیادہ مزیل حیثیت عرفی اور دل آزاری کا کلمہ نہیں ہو سکتا۔ خصوصاً ایک مسلمان او رمولوی کی نسبت ایسا اتہام کہ وہ بہت جھوٹ بولنے والاہے۔ اس کی نیک نامی اور عزت کو بالکل غارت کر دینے والا ہے۔

(ج) فاذا اظھر قدر اللہ علی یدعدومبین اسمہ کرم الدین۔

( ایضاً بحوالہ مذکورہ)

ترجمہ: پس ناگاہ ظاہر شد تقدیر خداتعالیٰ بردست دشمن صریح کہ نام اوکرم الدین است اس فقرے میں تصریح ہے کہ الفاظ مذکور فقرہ جات بالا کا مصداق مستغیث ہی ہے۔

۴۔ کتاب ”مواہب الرحمن“ جس میں مستغیث کی ہتک تصریح کی گئی ہے۔ ۷۱ جنوری ۳۰۹۱ءکو خاص شہر جہلم میں جو حد سماعت عدالت ہذا میں ہے۔ کثرت سے شائع کیگئی اور خاص احاطہ کچہری میں یہ کتاب بہت لوگوں میں ملزمان نے مفت تقسیم کی بلکہ ایک مجمع عظےم میں جس میں مستغیث موجود تھا۔ مولوی محمد ابراہیم سیالکوٹی جو ہمارے فرقہ کا ایک عالم شخص ہے ملزم نمبر ایک نے بدست محمد دین کمپوڈر شفاخانہ جہلم جو ا س کا مرید ہے بھیجی۔ جس سے ملزم مذکور کی یہ نیت تھی کہ اس مجمع میں یہ کتاب پڑھی جانے سے مستغیث کی نیک نامی اور عزت کو نقصان پہنچے گا اور عام مسلمانوں میں اس کی خفت ہو گی۔

۵۔ اس کتاب کی تحریر مذکور کی اشاعت سے میری سخت خفت اور توہین ہوئی اور میری حیثیت عرفی کا ازالہ ہوا۔

۶۔ ملزم نمبر دو نے کتاب مذکور باوجود اس امر کے علم ہونے کے کہ اس میں صریح لائیبل ہے اپنے مطبع ضیاءالاسلام قادیان میں جس کا وہ مالک و منیجر ہے چھاپا اور اس کو شہر جہلم میں جو حدسماعت عدالت ہذا میں ہے بھیج کر شائع کیا۔

۷۔ چونکہ ملزمان نے اس جرم کا ارتکاب کیا ہے جس کی تشریح دفعات ۰۰۵‘ ۱۰۵‘ ۲۰۵ تعزیرات ہند میں ہے۔ اس لیے استغاثہ ہے کہ بعد تحقیقات ان کو سزا دی جائے اور اگر واقعات سے ملزمان کسی اور جرم کے مرتکب ثابت ہوں تو اس میں بھی ان کو سزا دی جائے۔

عرضے

مولوی کرم الدین ولد مولوی صدرالدین ذات آوان ساکن بھین۔چکوال۔ ضلع جہلم ۶۲ جنوری ۳۰۹۱

مقدمہ کی تفصیلات:

اس مقدمہ کی تفصیل مورخ احرار پروفیسر خالد شبیر احمد نے نہایت خوبصورت انداز میں تحریر کی ہے جو کہ کسی قدر تلخیص کے ساتھ نذر قارئین ہے۔ آپ لکھتے ہیں۔

”مقدمہ دائر ہو گیا تو مستغیث کے سرسری بیان کے بعد لالہ سنسار چند مجسٹریٹ نے حکیم فضل دین کے نام وارنٹ ضمانتی تھا اور مرزا غلام احمد ملزم کے نام سمن (جس میں اصالتاً حاضری کا حکم تھا) جاری کیا۔ ان دونوں ملزمان کی تاریخ پیشی ۶۱ مارچ ۳۰۹۱ءمقرر ہوئی لیکن تاریخ مقررہ سے پہلے قادیانیوں کے وکیل خواجہ وکیل الدین نے ۲ مارچ ۳۰۹۱ءکو مرزا غلام احمد کی جانب سے ایک درخواست عدالت میں پیش کی کہ ملزم کو زیردفعہ ۵۰۲ ضابطہ فوجداری اصالتاً حاضری سے معاف فرمایا جائے۔ مجسٹریٹ نے تاحکم ثانی ملزم کو حاضری سے معاف کر دیا اور اس کی جگہ اس کے وکیل کے پیش ہونے کی اجازت دے دی۔

۶۱ مارچ کی تاریخ پر حکیم فضل دین پیش ہوا۔ مرزا صاحب کی جانب سے ان کا وکیل پیش ہوا۔ اس تاریخ کو ملزمان نے دفعہ ۶۲۵ کے تحت ایک درخواست برائے التوائے مقدمہ عدالت میں پیش کی کیونکہ ملزمان مقدمے کو چیف کورٹ میں منتقل کرنے کی درخواست دینا چاہتے تھے۔ عدالت نے مقدمے کی سماعت کو ۸۲ اپریل ۳۰۹۱ءتک ملتوی کر دیا۔ ۴۱ اپریل کو ملزمان نے چیف کورٹ میں درخواست برائے انتقال مقدمہ پیش کی جو نامنظور ہوئی اور مقدمہ لالہ چند و لال مجسٹریٹ درجہ اول گورداسپور کے سپرد ہوا کیونکہ مرزا صاحب نے ایک درخواست کے ذریعے مقدمے کو جہلم سے گورداسپور منتقل کرنے کو کہا تھا۔ اس درخواست میں مرزا صاحب نے گھر سے دوری کی وجہ بتائی۔سفر کی مشکلات کا ذکر کر کے گورداسپور کی عدالت میں مقدمہ تبدیل کرا لیا لیکن جب لالہ چند دلال کی عدالت نے ۸۱ اگست ۳۰۹۱ءکو مزمان کو عدالت میں طلب کیا تو پھر قادیانی وکیل خواجہ کمال الدین نے درخواست گزار دی کہ مرزا صاحب کو عدالت میں حاضری سے مستثنیٰ قرار دیا جائے۔ اس پر دونوں طرف کے وکلاءنے بحث کی۔ استغاثہ کی طرف سے شیخ نبی بخش اور بابو مولامل وکیل تھے۔ انہوں نے کہا کہ ملزم کو حاضری سے اصالتاً معاف کرنے کی کوئی معقول وجہ نہیں۔ خاص طو رپر ایسے حالات میں جبکہ مستغیث اور اس کے مددگار جہلم جیسے دوردراز علاقے سے یہاں آ جاتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ملزم غلام احمد قادیان سے نہ آئے جو گورداسپور سے صرف ۲۱ کوس کے فاصلہ پر ہے۔ لالہ سنسار چند نے ملزم کو اس لیے حاضری سے مستثنیٰ قرار دیا تھا کہ قادیان سے جہلم دور تھا۔ اب وہ بات ہی درمیان میں نہیں رہی اور مقدمہ جہلم کی بجائے گورداسپور میں منتقل ہو چکا ہے تو مرزا صاحب کی حاضری سے معذوری کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا۔ وکلاءکے درمیان اس مسئلے پر بڑی گرما گرم بحث ہوئی لیکن قدرت کے ہاں بھی ایک مقدمہ پیش تھا اور وہاں بھی فیصلہ ہو رہا تھا اور وہ یہ تھا کہ اس نام نہاد پیغمبر کو ایک ہندو مجسٹریٹ کے سامنے کھڑا کر کے اس کی اصل حقیقت کو دنیا پر واضح کیا جائے کہ جسے سونا سمجھا جا رہا ہے وہ پتیل ہے اور طوفان سے اگر پتہ اوپر ہوا میں اٹھ جائے تو بلندی ہمیشہ کے لیے اس کا مقدر نہیں بن جاتی بلکہ بالآخر اسے دوبارہ طوفان کے بعد زمین پر ہی آن گرنا ہے اور لوگوں کے پاﺅں تلے روندے جانا اس کا مقدر ہے۔ چنانچہ مجسٹریٹ نے قادیانیوں کی درخواسست کو مسترد کرتے ہوئے فیصلہ کیا کہ اگلی پیشی پر مرزا صاحب کو بذات خود تشریف لانا پڑے گا۔ اس پہلی شکست پر قادیانی حضرات کے اوسان خطا ہوگئے اور اگلی پیشی کی تاریخ ۳۲ ستمبر ۳۰۹۱ءمقرر ہوئی جس دن مرزا صاحب کا عدالت میں حاضر ہونا ضروری قرار دیا گیا چنانچہ تاریخ مقررہ پر مرزا غلام احمد حکیم فضل دین کے ہمراہ لالہ چندولال کی عدالت میں پیش ہوئے لیکن اس دفعہ ایک دوسری درخواست قادیانیوں کی جانب سے یہ پیش کی گئی کہ اس مقدمہ کی کارروائی کو اس وقت تک ملتوی کر دیا جائے۔ جب تک ان مقدمات کا فیصلہ نہیں ہوتا جو حکیم فضل الدین نے مولوی کرم الدین پر کر رکھے ہیں لیکن مولوی صاحب کے وکلاءنے اس کی شدید مخالفت کرتے ہوئے دلائل سے اس درخواست کی نامعقولیت کو عدالت میں ثابت کیا کہ درخواست حیلے بہانے سے مقدمے کو لمبا کرنے کی کوشش کی ہے جس سے مستغیث کو ایک بڑے عرصے کے لیے سفر کی مشکلات میں مبتلا کر دیا جائے گا۔ چنانچہ فاضل مجسٹریٹ نے استغاثہ کے وکلاءسے اتفاق کرتے ہوئے قادیانیوں کی اس دوسری درخواست کو بھی مسترد کر دیا اور ا سطرح قادیانی مع اپنے پیغمبر کے مقدمے کے فیصلے سے پہلے دوسری بار شکست سے دوچار ہو کر رسوا ہوئے۔ مقدمے کی دوسری تاریخ ۷۱ اکتوبر ۳۰۹۱ءمقرر ہوئی۔ اس دن عدالت میں مستغیث کا بیان قلمبند ہوا اور گواہ استغاثہ جناب برکت علی صاحب کی شہادت ہوئی جس کے بعد تاریخ پیشی ۲۱‘ ۳۱ نومبر ۳۰۹۱ءمقرر ہوئی۔ نومبر کی اس تاریخ کو فقط مرزا غلام احمد پیش ہوئے جبکہ دوسرے ملزم حکیم فضل الدین کے بارے میں عدالت کو بتایا گیا کہ وہ بیمار ہیں اور انہیں حاضری سے معذور سمجھا جائے لیکن وکلاءاستغاثہ نے اصرار کیا کہ وہ ضمانت پر ہیں اور ان کی حاضری عدالت میں انتہائی ضروری ہے۔ مجسٹریٹ لالہ چندو لال نے حکم دیا کہ ملزم نمبر دو حکیم فضل الدین کو اگر وہ بیمار ہیں تو چارپائی پر اٹھا کر لایا جائے۔ چنانچہ حکیم کی تعمیل ہوئی اور قادیانی حکیم صاحب کو چارپائی پر اٹھاکر لے آئے ۔ یہ نظارہ دیدنی تھا۔ خاص طور پر مرزا صاحب کی حالت غیر تھی جو اپنی امت کو ہمیشہ فتح و نصرت کے الہام سنایا کرتے تھے لیکن یہاں اس کے برعکس پے درپے شکست اور پسپائی مقدر بن چکی تھی۔ چنانچہ گواہوں کی شہادت قلمبند ہوئی۔ گواہوں کے نام مندرجہ ذیل تھے۔

۱۔مولوی محمد علی صاحب ایم اے وکیل

۲۔ ملک تاج دین واصل باقی نویس جہلم

۳۔ مولانا ابواالوفا ثناءاللہ صاحب امرتسری

۴۔ مولوی عبدالسبحان صاحب ساکن مسانیاں

۵۔ مولوی اللہ دتہ ساکن سوہل

وکیل ملزمان نے شہادت کے بعد جرح محفوظ رکھنے کی خواہش کی۔ مجسٹریٹ نے کہا کہ ایسی صورت میں فرد جرم کے بعد ہی جرح کی جا سکے گی۔ وکیل ملزمان نے تیاری نہ ہونے کا بہانہ کیا اور کہا کہ جرح کل کروں گا۔ اس پر مجسٹریٹ نے حکم دیا کہ کل کا خرچہ گواہان کو دینا پڑے گا۔ قادیانی وکلاءنے اس کی حامی بھر لی اور مقدمہ دوسرے روز پر ملتوی ہوا۔

۳۱ نومبر کو مولوی کرم الدین پر جرح شروع ہوئی جو ۴۱ اور ۵۱ نومبر کو بھی جاری رہی۔ قادیانی وکلاءایڑی چوٹی کا زور لگا کر بھی مولوی صاحب کو گمراہ کرنے میں کامیابی حاصل نہ کر سکے اور مولوی صاحب ایسے اعتماد سے وکلاءکا جواب دیتے کہ خود سوال کرنے والے حیران وششدر رہ جاتے۔

مرزا صاحب کا اقرار:

۵۱ دسمبر ۳۰۹۱ءکو عدالت میں مرزا قادیانی نے اپنے جرم کا اعتراف کیاکہ میں نے مواہب الرحمن میں مولوی کرم دین کی نسبت سخت الفاظ لکھے تھے۔

۶۱دسمبر کو مولوی برکت علی منصف بٹالوی کی شہادت ہوئی پھر ان کی شہادت پر قادیانیوں نے جرح کی اور مولوی صاحب نے مدلل جوابات دیئے۔ ۷۱ سے ۹۱ دسمبر تک مولانا ثناءاللہ امرتسریؒ کی شہادت پر مولوی محمد احسن امروہی قادیانی نے جرح کی اور مولانا نے قادیانیوں کی سازش ناکام بناتے ہوئے مسکت جوابات دیئے۔ ۹۱ دسمبرکو عدالت کی کارروائی ۳۱ جنوری ۴۰۹۱ءتک کے لیے ملتوی ہو گئی۔

۳۱ جنوری کو عدالت میں جم غفیر تھا۔ مسلمان اور قادیانی دونوں موجود تھے۔ ۱۱ بجے صبح کارروائی کا آغاز استغاثہ کی بحث سے ہوا۔ استغاثہ کے وکیل بابو مولامل اور خود مولوی کرم الدین صاحب نے اس بحث کو انتہائی موثر طریقے سے جاری رکھا۔ ہر دو حضرات کے استدلال‘ حاضر جوابی اور قابلیت نے قادیانیوں کو مبہوت کر دیا۔ مرزا غلام احمد چونکہ عدالت میں موجود تھے۔ اس لیے مولوی کرم الدین صاحب کے اندازگفتگو میں بلا کی روانی اور جوش پایا جاتا تھا۔ چنانچہ اسی روز عدالت کی کارروائی کے بعد مرزا صاحب شدید بخار کی لپیٹ میں آ گئے اور دوسرے روز مرزا صاحب نے اپنی بجائے بیماری کا سرٹیفکیٹ بھجوا کر اپنی جان بچائی۔ ۴۱ جنوری کی اس کارروائی میں دوسرے ملزم حکیم فضل الدین نے اپنے وکیل کے ذریعے عدالت میں مقدمہ کے التواءکی درخواست دی کیونکہ وہ زیردفعہ ۶۲۵ ضابطہ فوجداری مقدمہ دوسری عدالت میں منتقل کرنے کی درخواست دینا چاہتا تھا۔ اس پر وکلاءاستغاثہ نے اعتراض کیاکہ مقدمہ جبکہ اپنے اہم ترین مرحلہ میں داخل ہو چکاہے۔ دوسری عدالت میں منتقل نہیں ہونا چاہیے لیکن عدالت نے مرزائیوں کی درخواست سن کر کارروائی ۴۱ فروری تک ملتوی کر دی۔ اس دوران قادیانیوں نے درخواست انتقال مقدمہ پیش کر دی۔

درخواست انتقال مقدمہ:

۴۱ جنوری ۴۰۹۱ءکو قادیانیوں نے اپنے وکیل مسٹر اورٹیل ایڈووکیٹ کے ذریعہ عدالت میں انتقال مقدمہ کی درخواست پیش کی۔

اس درخواست پر ڈپٹی کمشنر نے مستغیث کے نام نوٹس جاری کر دیا ور انہیں ۲۱ فروری ۴۰۹۱ءکو بمقام ”علی وال“ جہاں پر صاحب موصوف دورے پر تھے پہنچنے کا حکم دیا۔ قادیانیوں کی جانب سے مولوی محمد علی خواجہ کمال الدین‘ مسٹر اورٹیل بیرسٹرایٹ لاءموجود تھے جبکہ مولوی کرم الدین اور ان کے وکیل مولامل بھی اس جگہ پر موجود تھے۔ مسٹر اورٹیل نے انتہائی محنت سے انتقال مقدمہ کے حق میں قادیانیوں کی جناب سے دلائل پیش کیے اور درخواست کی کہ مقدمہ دوسری عدالت میں منتقل ہونا چاہیے جبکہ مولوی صاحب کے وکیل نے اس کی مخالفت کی اور ثابت کیا کہ انتقال مقدمہ کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے اور انتقال مقدمہ سے مستغیث کو بعض سخت دشواریوں کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ دور دراز ضلع جہلم سے آتا ہے۔ ڈپٹی کمشنرنے دونوں جانب سے دلائل سننے کے بعد مرزائیوں کی درخواست کو رد کر دیا اور حکم دیا کہ مقدمہ اسی عدالت میں جاری رہے گا جہاں مقدمہ چل رہا ہے۔ اس فیصلے پر مرزائی انتہائی ندامت اور حسرت سے عجیب و غریب کیفیت میں مبتلا ہوئے۔

فردجرم عائد ہو گئی (۰۱ مارچ ۴۰۹۱ئ):

مرزائیوں کے انتقال مقدمہ کی درخواست مسترد ہوگئی تو مقدمے کی مسلیں دوبارہ رائے چندولال مجسٹریٹ کی عدالت میں واپس آئیں جس پر عدالت نے ۶۱ فروری ۴۰۹۱ءکو مقدمہ کی تاریخ مقرر کر کے فریقین کو نوٹس جاری کر دیئے تاکہ ہر دو فریق عدالت میں حاضر ہو کر مقدمے کی پیروی کریں۔ ۶۱ فروری کو مرزا صاحب قادیان سے گورداسپور پہنچ گئے لیکن گورداسپور آ کر ان کی طبیعت سخت خراب ہوگئی۔ چنانچہ عدالت میں اس روز مرزا صاحب کے وکیل نے طبی سرٹیفکیٹ پیش کیا کہ مرزا صاحب بیماری قلب میں مبتلا ہیں۔ اس واسطے وہ حاضری سے معذور ہیں۔ اس پر عدالت نے مرزا صاحب کو ایک ماہ تک اصالتاً حاضری سے معاف کر دیا۔ اسی روز قادیانیوں کے بڑے انگریز وکیل مسٹر اورٹیل کا ایک تار عدالت میں آیاکہ ملزمان کی جانب سے چونکہ انتقال مقدمہ کی درخواست چیف کورٹ میں داخل کر دی گئی ہے اس لیے عدالت کارروائی نہ کرے۔ عدالت نے چنانچہ اس روز کارروائی ملتوی رکھی لیکن۳۲ فروری کو چیف کورٹ نے بھی مرزائیوں کے انتقالمقدمہ کی درخواست کو مسترد کر دیا۔ چنانچہ ۳۲ فروری کو مرزائی جماعت اسی عدالت میں مقدمے کے لیے حاضر ہوئی۔ عدالت نے ۸ مارچ تاریخ پیشی مقرر کی۔ اس روز خواجہ کمال الدین نے تردید استغاثہ پر عدالت میں تقریر کی جس کے جواب میں مستغیث نے ۸۱ اوراق پر مشتمل تحریری بحث ۰۱ مارچ کو عدالت میں پیش کر دی جس پر مجسٹریٹ صاحب نے غور کے بعد فرد قرارداد جرم دونوں مجرموں (مرزاق غلام احمد اور حکیم فضل دین) پر عائد کر دی۔۰۱ مارچ کو ہی حکیم فضل دین کا جواب بھی لے لیا گیا لیکن مرزا صاحب کے جواب کے لیے ۴۱ مارچ کی تاریخ مقرر ہوئی۔ چنانچہ فرد جرم پرمرزائیوں کے حوصلے انتہائی طور پر پست ہو گئے اور انہیں کچھ سوجھتا نہ تھا کہ اس مقدمے سےے کیونکر نجات حاصل کی جائے۔ انہیں وہ وقت ہاتھ نہیں آتا تھا جب انہوں نے مولوی کرم الدین پر مقدمے دائر کر کے اس مقدماتی چھیڑ چھاڑکر آغاز کیا تھا۔

لیکن مرزا صاحب نے ۴۱مارچ کو بھی عدالت میں حاضری نہ دی اور اپنے وکیل کے ذیعے طبی سرٹیفکیٹ بھجوا دیا۔ اس پر وکلاءاستغاثہ نے اعتراض کیا کہ یہ روزمرہ کی بیماری محض مقدمے کو لمبا کرنے کے لیے اختیار کی گئی ہے۔ اگر مرزا صاحب کی صحت واقعی خراب ہے اور وہ اس قابل بھی نہیں رہے کہ قادیان سے گورداسپور آ کر عدالت میں حاضری دے سکیں تو اس کے لیے باقاعدہ سول سرجن کاسرٹیفکیٹ پیش کیا جائے اس سے کم ڈاکٹر کے سر ٹیفکیٹ کو آئندہ معتبر خیال نہ کیا جائے۔ چنانچہ اس پر بحث و تمحیص کے بعد فیصلہ ہوا کہ آئندہ سول سرجن کا سر ٹیفکیٹ مرزا صاحب کی غیرحاضری کے لیے ضروری ہو گا۔ چنانچہ ۵۱ مارچ کو سول سرجن کا سرٹیفکیٹ عدالت میں پیش کر دیا گیا۔

چنانچہ اس سرٹیفیکٹ کے بعد جس میں مرزا صاحب کے بارے میں یہ تحریر تھا کہ ان کی عدالت میں حاضری ان کی موت کی وجہ بن سکتی ہے۔ مقدمہ کی پیشی کی تاریخ ۰۱ اپریل ۴۰۹۱ءمقرر ہوئی لیکن اسی دوران لالہ چندو لعل مجسٹریٹ مقدمہ ہذا کی تبدیلی گورداسپور سے ملتان سے کر دی گئی۔ اس لیے مقدمہ دوسرے مجسٹریٹ لالہ آتمارام کی عدالت کے سپرد ہوا۔ مرزائیوں نے حسب عادت لالہ چندو لعل کی اس تبدیلی کو خضرت حیات کا معجزہ قرار دیا حالانکہ حقیقت اس کے برعکس تھی۔ یہ تبدیلی کوئی تنزیلی کی صورت نہ تھی بلکہ اسی تنخواہ پر خود ان کی اپنی درخواست سے ہوئی تھی۔ مرزائیوں کے حضرت کا معجزہ تو تب تھا کہ دوسرے مجسٹریٹ آ کر ان کے حق میں فیصلہ دیتے لیکن جب ہم دیکھتے ہیں کہ دوسرے مجسٹریٹ نے مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے مرزا صاحب کو جرمانہ یا بصورت عدم ادائیگی جرمانہ قید کی سزا دی تو پھر اس میں معجزہ کی کونسی صورت باقی رہ جاتی ہے۔ دراصل قادیانی اس مقدمے سے اس قدر تنگ آ چکے تھے اور مولوی کرم الدین دبیر‘ خدا انہیں غریق رحمت کرے‘ اس شدت سے قادیانیوں کے اعصاب پر سوار تھے کہ ایک مجسٹریٹ کی تبدیلی ان کے لیے انتہائی خوشی کا باعث بنی اور اسی خوشی کی ترنگ میں آ کر انہوں نے اس تبدیلی کو حضرت صاحب کا معجزہ قرار دے دیا اور یہ نہ سوچا کہ معجزہ کی صورت میں تبدیل ہونے والے مجسٹریٹ کے بعد دوسرا مجسٹریٹ بھی ملزمین کو سزا دے سکتا ہے جیسا کہ بعد میں ہوا۔

۸ مئی ۴۰۹۱ءکو نئے مجسٹریٹ لالہ آتما رام کی عدالت میں مقدمے کی پہلی پیشی تھی چونکہ ملزمان کے وکلاءحضرات نے اس بات کا مطالبہ کیا تھا کہ کارروائی ازسرنو شروع کی جائے۔ اس لیے عدالت نے دوبارہ شہادت لینے کا فیصلہ کیا۔ مرزا صاحب ملزموں کے کٹہرے میں مولوی فضل الدین کے ہمراہ صبح ۱۱ بجے سے ۴ بجے تک کھڑے رہے۔ مولوی محمد علی گواہ استغاثہ کی شہادت جاری رہی۔ نئے مجسٹریٹ لالہ آتما رام نے مقدمے کو جلدی ختم کرنے کی غرض سے روزانہ کارروائی سننے کا فیصلہ کر لیا۔ چنانچہ مرزا صاحب اب قادیان جانے کی بجائے گورداسپور میں ہی رہ گئے۔ عدالت میں ایک جامن کے درخت کے نیچے ان کا مع حواریوںکے ڈیرہ تھا اور اس طرح عدالت میں اس مقدمے کی وجہ سے کافی چہل ہو گئی۔ شہادت گواہان استغاثہ ماہ اگست ۴۰۹۱ءتک جاری رہی۔ مولوی محمد علی صاحب ایم اے وکیل‘ مولوی ثناءاللہ امرتسری‘ مولوی محمد جی قاضی تحصیل جہلم‘ مولوی غلام قاضی تحصیل چکوال استغاثے کے گواہ تھے۔

قادیانیوں کو اس مقدمے میں بظاہر حوصلہ شکن حالات کے باوجد موہوم سی امید تھی کہ مقدمہ خارج ہو جائے گا اور دنیامیں مرزا صاحب کی فتح و نصرت کا چرچا ہو گا اس پر انہوں نے اپنی دیرینہ عادت اور کام کی تکنیک کے مطابق ۴۲ جولائی ۴۰۹۱ءکو اخبار ”الحکم“ میں مرزا صاحب کے پرامید الہامات (”مبارک سو مبارک“ اور ”میں تجھے معجزہ دکھاﺅں گا“) وغیرہ بھی شامل کرائے لیکن ع

بسا آرزو کہ خاک شدہ

کی مصداق یہ تمام آرزوئیں خاک میں مل
ایک خیالی تصویری پوسٹر

szayafta.png
 

غلام مصطفی

رکن ختم نبوت فورم
مقدمہ کرم دین

خدا تعالیٰ کے بر گزیدوں پر الزام لگانا ہمیشہ سے ضالین کا وطیرہ چلتا آیا ہے۔لیکن خدا تعالیٰ اپنے پیاروں کی بریت ہمیشہ ظاہر فرما یا کرتا ہے بلکہ انہیں قبل ازیں ان کی بریت کی خوشخبری بھی سنا دیا کرتا ہے۔حضرت یوسفؑ پر بھی الزام لگا لیکن آخر خدا تعالیٰ نے ان کی بریت ظاہر کردی۔اسی طرح حضرت مرزا صا حب پر بھی بہت سے مقدمات ہوئے الزامات لگے لیکن خدا تعالیٰ نے ہر ایک مقدمہ میں انہیں عزت کیساتھ بری کیا۔

کریم دین والے مقدمہ میں بھی جھوٹی گواہیوں اور مجسٹریٹ کے جھکاؤ کے باوجودوہ لوگ خدا کے پیارے مسیح و مہدی کو جیل میں ڈالنے میں کامیاب نہ ہوسکے۔ہفتہ کے روز آخری وقت میں فیصلہ سنایا گیا اور پانچ صد روپے کا جرمانہ کیا گیا۔اس زعم میں کے اتنی خطیر رقم اتنے کم وقت میں جمع نہیں کرواسکیں گے اور آگے چھٹی کا دن ہے عدالت بند رہے گی اس طرح یہ جیل میں ایک دو دن رہیں گے۔لیکن خدا تعالیٰ نے پہلے سے انتظام کر رکھا تھا۔اسی وقت جرمانہ کی رقم ادا کی گئی سزا نہ ہوسکی۔پھر اپیل کی گئی تو ڈویژنل جج نے بری کرتے ہوئے جرمانہ واپس کرنے کا حکم دیا۔

حضرت مرزا غلام احمدیہ قادیانیؑ مسیح موعودؑ و مہدی موعودؑ فرماتے ہیں:۔

پھر مسٹر ڈوئی کے سامنے ایک مقدمہ ہوا۔ پھر ٹیکس کا مقدمہ مجھ پر بنایا گیا مگر ان تمام مقدمات میں خدا نے مجھے بَری ٹھہرایا۔ پھر آخر کرم دین کا مقدمہ ہوا

اس مقدمہ میں میری مخالفت میں سارا زور لگایا گیا اور یہ سمجھ لیا گیا تھا کہ بس اب سلسلہ کا خاتمہ ہے۔ اور حقیقت میں اگر خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ سلسلہ نہ ہوتا اور وہی اس کی تائید اور نصرت کیلئے کھڑا نہ ہوتا تو اس کے مٹنے میں کوئی شک و شبہ ہی نہ رہا تھا۔ ملک کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک کرم دین کی حمایت کی گئی۔ اور ہر طرح سے اس کو مدد دی گئی۔ یہاں تک کہ اس مقدمہ میں بعض نے مولوی کہلا کر میرے خلاف وہ گواہیاں دیں جو سراسر خلاف تھیں۔ اور یہاں تک بیان کیا کہ زانی ہو۔ فاسق ہو۔ فاجر ہو پھر بھی وہ متقی ہوتا ہے۔ یہ مقدمہ ایک لمبے عرصہ تک ہوتا رہا۔ اس اثنا میں بہت سے نشانات ظاہر ہوئے۔ آخر مجسٹریٹ نے جو ہندو تھا مجھ پر پانچسو روپیہ جرمانہ کر دیا۔ مگر خدا تعالیٰ نے پہلے سے یہ اطلاع دی ہوئی تھی۔

”عدا لتِ عالیہ نے اس کو بَری کر دیا۔“​

اس لئے جب وہ اپیل ڈویژنل جج کے سامنے پیش ہوا‘ تو خدا داد فراست سے انہوں نے فوراً ہی مقدمہ کی حقیقت کو سمجھ لیا اور قرار دیا کہ کرم دین کے حق میں مَیں نے جو کچھ لکھا تھا وہ بالکل درست تھا یعنی مجھے اس کے لکھنے کا حق حاصل تھا۔ چنانچہ اس نے جو فیصلہ لکھا ہے وہ شائع ہو چکا ہے۔ آخر اس نے مجھے بَری ٹھہرایا اور جرمانہ واپس کیا اور ابتدائی عدالت کو بھی مناسب تنبیہ کی کہ کیوں اتنی دیر تک یہ مقدمہ رکھا گیا۔

(روحانی خزائن جلد ۲۰ص270-271(
 

ضیاء رسول امینی

منتظم اعلیٰ
رکن عملہ
ناظم
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
مرزا قادیانی جیسے جھوٹ بول دے مرزائی آنکھیں بند کرکے یقین کر لیتے ہیں، یہ مرزا قادیانی اور اسکے مریدوں کا اتنا ہی بڑا جھوٹ ہے جتنا بڑا جھوٹ مرزا قادیانی کا محمدی بیگم سے خدائی نکاح ہونا تھا۔ مرزائی خود تو جاہل ہیں مگر دوسروں کو مت بنائیں، وہ کون سی عدالت ہے جہاں صرف ایک فریق کی درخواست پر فریق مخالف کا کیس سنے بنا ہی پہلی عدالت کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا جاتا ہے؟ دنیائے مرزائیت کو چیلنج ہے اس مقدمے میں یہ جو ڈھکوسلہ لگایا جارہا ہے کہ وہ مقدمہ بعد کی اپیل میں مرزا کے حق میں ہوگیا تھا اور جج نے اجازت دے دی تھی کہ مرزے کو ایسا کہنے کا حق تھا، اس جھوٹ کا ثبوت پیش کیا جائے، دنیا کی کسی بھی عدالت میں جب بھی کسی عدالتی فیصلے کے خلاف اعلیٰ عدالت سے رجوع کیا جاتا ہے تو اعلیٰ عدالت پورا کیس دوبارہ سنتی ہے اور دونوں طرف سے دلائل و ثبوت دیکھنے کے بعد فیصلہ موخر یا برقرار رکھتی ہے، یہ مرزائیوں نے اپنی ہی عدالت گھڑ لی تھی کوئی جہاں انہوں نے درخواست دی اور فریق مخالف کو معلوم ہی نہیں اور فیصلہ مرزا کے حق میں ہوگیا۔ جھوٹ کی حد ہوتی ہے۔
 
Top