ایک مرزائی کے گھر دروازے پر بیل ہوئی ٹن ٹن ٹن
مرزائی کے بیٹے نے دروازہ کھولا تو ایک انگریز کھڑا تھا اس نے لڑکے کو کہا کہ تمہارے ابو کا پیغام آیا ہے جرمنی سے کہہ رہے ہیں کہ وہ بالکل ٹھیک ٹھاک ہیں اور یہاں سے سیدھا گھر آئیں گے وہ۔
لڑکا خوش ہوتے ہوئے شکریہ انکل ان کا خط بھی آیا تھا کہ وہ کچھ دنوں کے لیے کسی دوسرے ملک جارہے ہیں۔ آئیں آپ کو پانی وغیرہ پلاتے ہیں ۔
کچھ دنوں کے بعد پھر اسی مرزائی کے گھر کے دروازے پر بیل بجی ۔ ۔ ٹن ٹن ٹن
اندر سے لڑکے کی آواز آئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کون؟؟؟
۔ ۔ ۔ جی میں تمہارا باپ ہوں دروازہ کھولو
لڑکا خوشی سے دروازہ کھولنے کے لیے دوڑا کہ ابو آگئے ہیں
دروازہ کھولا تو دیکھا وہی انگریز تھا دیکھتے ہیں غصے سے لال پیلا ہوگیا کہ اسے کیسے ہمت ہوئی خود کو میرا باپ کہنے کی
لڑکا۔ ۔ ۔ یہ کیا بکواس ہے انکل؟ آپ تو میرے باپ نہیں ہیں
انگریز بولا تمہارا نام لقمان باجوہ ہے؟
لڑکا۔۔۔ جی
انگریز۔۔۔ تمہارے باپ کا نام ناصر احمد ہے؟
لڑکا ۔ ۔ ۔ ۔ جی
انگریز۔ ۔ ۔ ۔ وہ کام کے سلسلے میں انگلینڈ گئے ہوئے تھے؟
لڑکا۔ ۔ ۔ ۔ جی
انگریز ۔۔ ۔۔ ۔ ۔ تو پھر بیٹا میں ہی تمہارا باپ ہوں اور میں درست جگہ آیا ہوں
لڑکا۔ ۔ ۔ ۔ میں تمہاری پولیس میں رپورٹ درج کرواتا ہوں تم کوئی نوسر باز ٹھگ معلوم ہوتے ہو، کیا میں اتنا پاگل ہوں کہ اپنے ابو کو نہ پہچانوں گا؟ نام کیا ہے تمہارا؟
انگریز ۔ ۔ ۔ جی میرا نام تھامسن ہے
لڑکا ۔ ۔ ۔ تو تم خود اپنے جھوٹا ہونے کا ثبوت دے رہے ہو دماغ درست ہے تمہارا؟ میرے ابو کا نام تو ناصر احمد ہے
انگریز۔ ۔ ۔ ۔ جی بالکل میرا دماغ درست ہے تمہارا درست نہیں لگ رہا، بات دراصل یہ ہے کہ تمہارا باپ ایک مہینہ پہلے فوت ہوگیا ہے انگلینڈ میں اب اسکی جگہ میں تمہارا باپ بن کر آیا ہوں
لڑکا غصے سے لال پیلا ہوتے ہوئے ۔ ۔ ۔ ۔ تم جھوٹ بول رہے ہو ابھی ایک ہفتہ پہلے ابو کا انگلینڈ سے خط آیا ہے کہ وہ ٹھیک ٹھاک ہیں اور بتا رہے تھے کہ وہ کسی دوسرے ملک جارہے ہیں کچھ دنوں کے لیے۔ ۔ ۔
انگریز ۔ ۔ ۔ نہیں بیٹا مجھے الہام ہوا ہے کہ تمہارا باپ مر گیا ہے اور اسکی جگہ مجھے تمارا باپ بنایا گیا ہے۔ ۔ ۔
لڑکا۔ ۔ ۔ تم پھر جھوٹ بول رہے ہو ابھی کچھ دن پہلے تم خود آئے تھے اور ابو کا پیغام دیا تھا کہ وہ کہہ رہے ہیں کہ ٹھیک ٹھاک ہیں اور جرمنی گئے ہوئے ہیں اور کچھ دنوں تک گھر آجائیں گے۔
انگریز۔ ۔ ۔ ۔ دیکھو بیٹا بات پوری سن لو ۔ بات یہ ہے کہ تب تک مجھے الہام نہیں ہوا تھا اور میں بھی تمہارے گھر والوں کی طرح یہی سوچتا تھا کہ تمہارے ابو ہی آئیں گے لیکن اب مجھ پر بارش کی طرح وحی نازل ہوئی ہے کہ نہیں تمہارا اصل باپ مر چکا ہے اور اسکی جگہ مجھے تمہارا باپ ناصر احمد بنا کر بھیجا گیا ہے، اس لیے دروازہ کھولو اور مجھے اندر آنے دو
لڑکا ۔ ۔ ۔ تم کیا بکواس کر رہے ہو کوئی اور آدمی میرا ابو اور ناصر احمد کیسے بن سکتا ہے؟
انگریز۔ ۔ ۔ ۔ پہلے پوری بات سن لو تمہاری دادی کا نام امتہ الحفیظ تھا نا؟
لڑکا ۔ ۔ ۔ جی
انگریز۔ ۔ ۔ تو بس پہلے مجھے تھامسن سے امتہ الحفیظ بنایا گیا پھر استعارہ کے رنگ میں مجھے حاملہ ٹھہرایا گیا اور پھر دس ماہ کے حمل کے بعد مجھے درد زہ کھجور کے تنے کی طرف سے لے گئی پھر وہاں وضع حمل ہوا اس طرح میں ناصر احمد ابن امتہ الحفیظ بنایا گیا۔ اب سمجھ آئی میں کیسے ناصر احمد بنا
لڑکا۔ ۔ ۔ ایک منٹ رکو، تمہارا جھوٹ پکڑا گیا ہے کل ہی میرے ابو کا جرمنی سے خط آیا ہے انہوں نے بتایا کہ وہ جرمنی پہنچ گئے ہیں اور کچھ دنوں تک گھر آرہے ہیں اور تم کہہ رہے ہو وہ انگلینڈ میں ہی فوت ہوگئے ہیں
انگریز۔ ۔ ۔ دیکھو پہلے اپنے ابو کو اس خط میں زندہ ثابت کرو جو انہوں نے انگلینڈ سے بھیجا
لڑکا ۔ ۔ ۔ جی ابھی کیے دیتا ہوں یہ رہا وہ خط اس میں صاف لکھا ہے کہ میں کچھ دنوں کے لیے کسی دوسرے ملک جارہا ہوں اور پھر اگلا خط جرمنی سے آیا کہ وہ جرمنی پہنچ گئے ہیں اور کچھ دنوں تک گھر آرہے ہیں
انگریز ۔ ۔ ۔ نہیں دوسرے خط کی طرف نہ جاو، یہاں بات آنے والے ناصر احمد کی نہیں ہورہی بلکہ اصل ناصر احمد کی ہورہی ہے جو انگلینڈ گیا ہوا تھا۔ اب ذرا غور سے پڑھو انہوں نے لکھا کہ میں کسی اور ملک میں جارہا ہوں یہاں تم اس کو ظاہری معنوں میں لے رہے ہو جبکہ یہ استعارہ ہے دوسرے ملک سے مراد دوسرے جہان میں جانا ہے۔ اور دوسرے خط میں جو انہوں نے لکھا کہ جرمنی آیا ہوا ہوں یہاں جرمنی سے مراد قبر ہے یعنی پہلے خط میں دوسرے جہان جانے کا وعدہ اور دوسرے خط میں دوسرے جہان پہنچنے کا ذکر ہے مطلب وہ دوسرے جہان یعنی قبر میں پہنچ چکے ہیں اس لیے جس کے آنے کا انہوں نے کہا وہ ان کے کسی مثیل نے آنا تھا۔
لڑکا۔ ۔ ۔ نہیں یہ بھی جھوٹ ہے، جب انکی وفات ہی انگلینڈ میں ہوئی تو جرمنی سے خط کیسے آگیا ان کا؟
انگریز۔ ۔ ۔ ۔ بیٹا یہی تو غلطی لگی آپ کو یہاں جرمنی سے مراد قبر ہے آپ اس کو حقیقی جرمنی سمجھ رہے ہیں
جب ثابت ہوگیا کہ وہ انگلینڈ میں فوت ہوئے تو جرمنی سے خط آنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اسی طرح یہ بھی سوال پیدا نہیں ہوتا کہ وہ دوبارہ آئے کیونکہ وہ مرچکا اب اسکی جگہ مجھے تمہارا باپ بنا کر بھیجا گیا ہے۔
لڑکا۔ ۔ ۔ ۔ دیکھو اب میری برداشت سے باہر ہوگیا ہے اگر بالفرض وہ فوت ہوچکے تو بھی یہ تو نہیں ہوسکتا کہ کسی اور کو ناصر احمد یعنی میرا باپ بنا کر بھیج دیا جائے اگر وہ فوت ہوگئے تو مطلب ظاہر ہے کہ انہوں نے آنا ہی نہیں تم سراسر جھوٹے فراڈئیے نوسر باز ٹھگ ہو صرف میرے ابو کی پوزیشن پر ڈاکہ ڈالنے آئے ہو۔
اتنے میں اندر سے لڑکے کی ماں شور سن کر آئی اور پوچھا کہ کیا معاملہ ہے
لڑکے نے ساری کہانی سنائی تو اسکی ماں بولی بیٹا دروازہ کھولو اسے اندر آنے دو آج سے یہی تمہارا باپ ناصر احمد ہے
لڑکا پریشان ہوتے ہوئے۔ ۔ ۔ امی یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں؟
لڑکے کی ماں۔ ۔ ۔ ۔ بیٹا میں درست کہہ رہی ہوں۔ اب ہمارے پاس دو ہی راستے ہیں یا تو مسیح موعود کو جھوٹا مان لو یا اس انگریز کو اپنا باپ مان لو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آقا کا غلام
مرزائی کے بیٹے نے دروازہ کھولا تو ایک انگریز کھڑا تھا اس نے لڑکے کو کہا کہ تمہارے ابو کا پیغام آیا ہے جرمنی سے کہہ رہے ہیں کہ وہ بالکل ٹھیک ٹھاک ہیں اور یہاں سے سیدھا گھر آئیں گے وہ۔
لڑکا خوش ہوتے ہوئے شکریہ انکل ان کا خط بھی آیا تھا کہ وہ کچھ دنوں کے لیے کسی دوسرے ملک جارہے ہیں۔ آئیں آپ کو پانی وغیرہ پلاتے ہیں ۔
کچھ دنوں کے بعد پھر اسی مرزائی کے گھر کے دروازے پر بیل بجی ۔ ۔ ٹن ٹن ٹن
اندر سے لڑکے کی آواز آئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کون؟؟؟
۔ ۔ ۔ جی میں تمہارا باپ ہوں دروازہ کھولو
لڑکا خوشی سے دروازہ کھولنے کے لیے دوڑا کہ ابو آگئے ہیں
دروازہ کھولا تو دیکھا وہی انگریز تھا دیکھتے ہیں غصے سے لال پیلا ہوگیا کہ اسے کیسے ہمت ہوئی خود کو میرا باپ کہنے کی
لڑکا۔ ۔ ۔ یہ کیا بکواس ہے انکل؟ آپ تو میرے باپ نہیں ہیں
انگریز بولا تمہارا نام لقمان باجوہ ہے؟
لڑکا۔۔۔ جی
انگریز۔۔۔ تمہارے باپ کا نام ناصر احمد ہے؟
لڑکا ۔ ۔ ۔ ۔ جی
انگریز۔ ۔ ۔ ۔ وہ کام کے سلسلے میں انگلینڈ گئے ہوئے تھے؟
لڑکا۔ ۔ ۔ ۔ جی
انگریز ۔۔ ۔۔ ۔ ۔ تو پھر بیٹا میں ہی تمہارا باپ ہوں اور میں درست جگہ آیا ہوں
لڑکا۔ ۔ ۔ ۔ میں تمہاری پولیس میں رپورٹ درج کرواتا ہوں تم کوئی نوسر باز ٹھگ معلوم ہوتے ہو، کیا میں اتنا پاگل ہوں کہ اپنے ابو کو نہ پہچانوں گا؟ نام کیا ہے تمہارا؟
انگریز ۔ ۔ ۔ جی میرا نام تھامسن ہے
لڑکا ۔ ۔ ۔ تو تم خود اپنے جھوٹا ہونے کا ثبوت دے رہے ہو دماغ درست ہے تمہارا؟ میرے ابو کا نام تو ناصر احمد ہے
انگریز۔ ۔ ۔ ۔ جی بالکل میرا دماغ درست ہے تمہارا درست نہیں لگ رہا، بات دراصل یہ ہے کہ تمہارا باپ ایک مہینہ پہلے فوت ہوگیا ہے انگلینڈ میں اب اسکی جگہ میں تمہارا باپ بن کر آیا ہوں
لڑکا غصے سے لال پیلا ہوتے ہوئے ۔ ۔ ۔ ۔ تم جھوٹ بول رہے ہو ابھی ایک ہفتہ پہلے ابو کا انگلینڈ سے خط آیا ہے کہ وہ ٹھیک ٹھاک ہیں اور بتا رہے تھے کہ وہ کسی دوسرے ملک جارہے ہیں کچھ دنوں کے لیے۔ ۔ ۔
انگریز ۔ ۔ ۔ نہیں بیٹا مجھے الہام ہوا ہے کہ تمہارا باپ مر گیا ہے اور اسکی جگہ مجھے تمارا باپ بنایا گیا ہے۔ ۔ ۔
لڑکا۔ ۔ ۔ تم پھر جھوٹ بول رہے ہو ابھی کچھ دن پہلے تم خود آئے تھے اور ابو کا پیغام دیا تھا کہ وہ کہہ رہے ہیں کہ ٹھیک ٹھاک ہیں اور جرمنی گئے ہوئے ہیں اور کچھ دنوں تک گھر آجائیں گے۔
انگریز۔ ۔ ۔ ۔ دیکھو بیٹا بات پوری سن لو ۔ بات یہ ہے کہ تب تک مجھے الہام نہیں ہوا تھا اور میں بھی تمہارے گھر والوں کی طرح یہی سوچتا تھا کہ تمہارے ابو ہی آئیں گے لیکن اب مجھ پر بارش کی طرح وحی نازل ہوئی ہے کہ نہیں تمہارا اصل باپ مر چکا ہے اور اسکی جگہ مجھے تمہارا باپ ناصر احمد بنا کر بھیجا گیا ہے، اس لیے دروازہ کھولو اور مجھے اندر آنے دو
لڑکا ۔ ۔ ۔ تم کیا بکواس کر رہے ہو کوئی اور آدمی میرا ابو اور ناصر احمد کیسے بن سکتا ہے؟
انگریز۔ ۔ ۔ ۔ پہلے پوری بات سن لو تمہاری دادی کا نام امتہ الحفیظ تھا نا؟
لڑکا ۔ ۔ ۔ جی
انگریز۔ ۔ ۔ تو بس پہلے مجھے تھامسن سے امتہ الحفیظ بنایا گیا پھر استعارہ کے رنگ میں مجھے حاملہ ٹھہرایا گیا اور پھر دس ماہ کے حمل کے بعد مجھے درد زہ کھجور کے تنے کی طرف سے لے گئی پھر وہاں وضع حمل ہوا اس طرح میں ناصر احمد ابن امتہ الحفیظ بنایا گیا۔ اب سمجھ آئی میں کیسے ناصر احمد بنا
لڑکا۔ ۔ ۔ ایک منٹ رکو، تمہارا جھوٹ پکڑا گیا ہے کل ہی میرے ابو کا جرمنی سے خط آیا ہے انہوں نے بتایا کہ وہ جرمنی پہنچ گئے ہیں اور کچھ دنوں تک گھر آرہے ہیں اور تم کہہ رہے ہو وہ انگلینڈ میں ہی فوت ہوگئے ہیں
انگریز۔ ۔ ۔ دیکھو پہلے اپنے ابو کو اس خط میں زندہ ثابت کرو جو انہوں نے انگلینڈ سے بھیجا
لڑکا ۔ ۔ ۔ جی ابھی کیے دیتا ہوں یہ رہا وہ خط اس میں صاف لکھا ہے کہ میں کچھ دنوں کے لیے کسی دوسرے ملک جارہا ہوں اور پھر اگلا خط جرمنی سے آیا کہ وہ جرمنی پہنچ گئے ہیں اور کچھ دنوں تک گھر آرہے ہیں
انگریز ۔ ۔ ۔ نہیں دوسرے خط کی طرف نہ جاو، یہاں بات آنے والے ناصر احمد کی نہیں ہورہی بلکہ اصل ناصر احمد کی ہورہی ہے جو انگلینڈ گیا ہوا تھا۔ اب ذرا غور سے پڑھو انہوں نے لکھا کہ میں کسی اور ملک میں جارہا ہوں یہاں تم اس کو ظاہری معنوں میں لے رہے ہو جبکہ یہ استعارہ ہے دوسرے ملک سے مراد دوسرے جہان میں جانا ہے۔ اور دوسرے خط میں جو انہوں نے لکھا کہ جرمنی آیا ہوا ہوں یہاں جرمنی سے مراد قبر ہے یعنی پہلے خط میں دوسرے جہان جانے کا وعدہ اور دوسرے خط میں دوسرے جہان پہنچنے کا ذکر ہے مطلب وہ دوسرے جہان یعنی قبر میں پہنچ چکے ہیں اس لیے جس کے آنے کا انہوں نے کہا وہ ان کے کسی مثیل نے آنا تھا۔
لڑکا۔ ۔ ۔ نہیں یہ بھی جھوٹ ہے، جب انکی وفات ہی انگلینڈ میں ہوئی تو جرمنی سے خط کیسے آگیا ان کا؟
انگریز۔ ۔ ۔ ۔ بیٹا یہی تو غلطی لگی آپ کو یہاں جرمنی سے مراد قبر ہے آپ اس کو حقیقی جرمنی سمجھ رہے ہیں
جب ثابت ہوگیا کہ وہ انگلینڈ میں فوت ہوئے تو جرمنی سے خط آنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اسی طرح یہ بھی سوال پیدا نہیں ہوتا کہ وہ دوبارہ آئے کیونکہ وہ مرچکا اب اسکی جگہ مجھے تمہارا باپ بنا کر بھیجا گیا ہے۔
لڑکا۔ ۔ ۔ ۔ دیکھو اب میری برداشت سے باہر ہوگیا ہے اگر بالفرض وہ فوت ہوچکے تو بھی یہ تو نہیں ہوسکتا کہ کسی اور کو ناصر احمد یعنی میرا باپ بنا کر بھیج دیا جائے اگر وہ فوت ہوگئے تو مطلب ظاہر ہے کہ انہوں نے آنا ہی نہیں تم سراسر جھوٹے فراڈئیے نوسر باز ٹھگ ہو صرف میرے ابو کی پوزیشن پر ڈاکہ ڈالنے آئے ہو۔
اتنے میں اندر سے لڑکے کی ماں شور سن کر آئی اور پوچھا کہ کیا معاملہ ہے
لڑکے نے ساری کہانی سنائی تو اسکی ماں بولی بیٹا دروازہ کھولو اسے اندر آنے دو آج سے یہی تمہارا باپ ناصر احمد ہے
لڑکا پریشان ہوتے ہوئے۔ ۔ ۔ امی یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں؟
لڑکے کی ماں۔ ۔ ۔ ۔ بیٹا میں درست کہہ رہی ہوں۔ اب ہمارے پاس دو ہی راستے ہیں یا تو مسیح موعود کو جھوٹا مان لو یا اس انگریز کو اپنا باپ مان لو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آقا کا غلام