• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

مرزا قادیانی نبوت اصلی کا مدعی تھا

ضیاء رسول امینی

منتظم اعلیٰ
رکن عملہ
ناظم
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
قال فی خطبۃ رسالتہ المسماۃ بالشمس البازغہ ۔ یعنی امروہی نے اپنے رسالہ شمس بازغہ میں لکھا۔
شعر
واولو العلم کلھمﺍ١ﺍ شھدو۔ انہ لا الہ الا ھو
ثمﺍ۲ﺍ قال الرسول قولوﺍ۳ﺍ معی۔ انہ لا الہ الا ھو
خیر ما قلتہ وقال بہ۔ قبلنا لا الہ الا ھو
ماعد الانسﺍ۴ﺍ کلھمﺍ۵ﺍ شھدو۔ انہ لا الہ الا ھو

صفحہ (1) قولہ ۔ واشھد ان محمدًا خاتم النبیین لا نبی بعدہ
اقول۔
یقولون بافواھھم ما لیس فی قلوبھم ﺍ٦ﺍط
اور نیز قالوا نشھد انک لرسول اللہ (منافقون1) میں ایسی ہی شھادات کا بیان ہے آپ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین مانتے ہیں تو پھر مرزا غلام احمد قادیانی دعوےٰ نبوت میں کاذب کیوں نہیں سمجھا جاتا۔ کیا اس نے دعوی نبوت کا نہیں کیا۔ اور بذریعہ اشتہار مورخہ 5 نومبر1901ء کے جس کا عنوان(ایک غلطی کا ازالہ) جلی قلم سے لکھا ہوا ہےللکار کر نہیں پکارا کہ میں نبی اور رسول ہوں۔
سوال۔
خاتم النبیین اور ایسا ہی لا نبی بعدہ میں مراد نبی سے وہ انبیاء ہیں جن کی نبوت اصلتاً ہو۔ نہ یہ کہ بسبب کامل اتباع کے ظلی طور پر ان کو رسول اور نبی کا لقب دیا جائے۔ اور غلام احمد قادیانی ظلی طور پر نبوت اور رسالت کا مدعی ہے نا اصلتاً۔
جواب۔

قادیانی نے گو بظاہر ظلیت اور بروز اور فنا فی الرسول کے الفاظ کو سپر بنا رکھا ہے مگر فی الحقیقت نبوت اصلیہ کا مدعی ہے اور بر تقدیر تسلیم فنا فی الرسول ہونے اس کے۔ پھر بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبی اور رسول کہلوانے کا مجاز نہیں ہوسکتا۔ کما سنبینہ ۔

نبوت اصلیہ ہونے کا ثبوت اور اس کی تردید۔ دیکھو اشتہار مذکور صفحہ ١ سطر ١۳۔ چنانچہ وہ مکالمات الہیہ جو براہین احمدیہ میں درج ہوچکی ہیں ان میں سے ایک یہ وحی اللہ ہے ھو الذی الرسل رسولہ بالھدیٰ ودین الحق لیظہرہ علی الدین کلہ ﺍ۷ﺍ دیکھو صفحہ ۴۹۸ براہین احمدیہ، اس میں صاف طور پر اس عاجز کو رسول کرکے پکارا گیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١۔ کلھم کلمہ کل بوجہ مضاعف ہونے کے معرفہ کی طرف مجموع اجزاء کا افادہ دیتا ہے جو یہاں پر مقصود نہیں۔ ١۲ منہ
۲۔ لا یصح ایراد ثم فی ھٰذا المقام بکلا اجتمالیہ لان الکلام المسابق علی العموم
۳۔ وزن میں اختلال ہے۔ ١۲ منہ
۴۔ والجن مثل الانس وانکار الجن انکار النصوص القاطعہ فتخصیص الانس بالاستثناء لیس بصحیح ۔ ١۲ منہ
۵۔ یہاں پر بھی ماسبق کی طرح اضافة کل میں افادہ غیر مقصود کا ہے۔ ١۲ منہ
٦۔ سورة آل عمران ١٦۷
۷۔ سورة الصٰفٰت آیت ۹
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اقول۔
یہ آیت سورة فتح کے رکوع آخیر میں موجود ہے جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت آور آپ کے دین پاک کے غالب کردینے کا ذکر ہے کوئی عاقل کہہ سکتا ہے کہ اگر کسی شخص کو خواب میں یا بیداری میں آیت مذکورہ سنائی دے جیسا کہ اکثر حفاظ اور شاغلین کو کثرت استعمال و خیال کے سبب ایسا ہوا کرتا ہے فرض کیا بذریعہ الہام ہی سہی تو کیا وہ شخص بہ شہادت اس آیت کے رسول کہلوانے کا مجاز ہوسکتا ہے؟ ہرگز نہیں ورنہ آیت محمد رسول اللہط والذین معہ اشدآء علی الکفار رحماء بینھم (فتح 29) کے سننے سے ہر ایک سننے والا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اور اصحاب کبار بھی ہر ایک سننے والا کیوں نہ ہو؟ جبکہ رسولہ سننے سے رسول بن گیا تو وہ محمد رسول اللہ کے سننے سے معاذ اللہ محمد رسول اللہ، والذین معہ کے سننے سے اصحاب کبار اور الکفار کے سننے سے کفار کیوں نہیں بن سکتے۔ ایسا ہی اقیمو الصلوۃ و اتوا الزکوۃ (البقرۃ 83) کے سننے سے کوئی دعویٰ کر سکتا ہے کہ میں نبی اور رسول ہوں اور نئی نماز اور زکوۃ کا حکم میرے پر نازل ہوا ہے۔ ہرگز نہیں اگر یہ نہیں کر سکتا تو پھر آیت ارسل رسولہ بالھدیٰ کے الہام ہونے سے بروزی رسالت کو ( رسولہ ) کے لفظ سے کس طرح مراد لے سکتا ہے۔ بینو وانصفو
الغرض بر تقدیر تسلیم الہام بآیتہ مذکورہ قادیانی کو استحقاق رسول کہلوانے کا ہرگز نہیں پہنچتا۔ بالفرض محال اگر آیت مذکورہ کے سننے سے وہ رسول کہلوانے کے مستحق بنیں تو اسی معنے سے رسول ہوں گے جو معنی آیت مذکورہ میں مراد ہے، یعنی رسول اصلی، ورنہ دلیل دعویٰ پر منطبق نہ ہوگی۔ کیونکہ دعویٰ میں رسول ظلی ہیں اور دلیل یعنی ارسل رسولہ میں رسول اصلی ۔
بہ بین تفاوت راہ از کجاست تا بہ کجا
نیز رسولہ سے رسول ظلی مراد لینے کی تقدیر پر تحریف معنوی کلام الٰہی میں لازمی آوے گی۔ لہٰذا استدلال بآیت مسطورہ بلند آواز سے پکار رہا ہے کہ قادیانی رسول اصلی ہونے کا مدعی ہے چنانچہ اس کا للکار کر کہلوانا بھی اسی پر شاہد ہے کیونکہ صرف فنا فی الرسول ہونا اس کا مقتضی نہیں۔

قولہ۔
اسی اشتہار میں متصل عبارت منقولہ بالا کے لکھتے ہیں۔ پھر اس کے بعد اسی کتاب میں میری نسبت یہ وحی اللہ ہے ( جری اللہ فی حلل الانبیاء ) یعنی خدا کا رسول نبیوں کے حلوں میں۔ دیکھو براہین احمدیہ صفحہ 504
اقول۔
یہ نئی لغت ہے جری اللہ کا معنی خدا کا رسول۔

قولہ۔
پھر اسی اشتہار میں لکھتے ہیں کہ:۔ اسی کتاب میں اسی مکالمہ کے قریب ہی یہ وحی اللہ ہے۔ محمد رسول اللہ ط والذین معہ اشدآء علی الکفار رحماء بینھم ۔ اس وحی الٰہی میں میرا نا محمد رکھا گیا اور رسول بھی۔
اقول۔
اس وحی الٰہی میں الکفار۔ کا لفظ بھی موجود ہے۔ اس کو آپ نے نہیں لیا۔ تلک اذًا قسمۃ ضیزٰی ھل ھذا بھتان او المالیخولیا فتوبۃ نصوحا او الدوا لعل اللہ یھدی او یھب الشفاء وینجی من ذی الداھۃ الداھیا لکنہ من دون التصدیق بما جاء بہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم الھاشمی المصطفیٰ لیس مما یرجی وان دکت الارض دکا وتنفظر السمٰوت العلی ۔

قولہ۔
پھر اسی اشتہار کے صفحہ 2 سطر 7 پر لکھتے ہیں '' اور ہم اس آیت پر سچا اور کامل ایمان رکھتے ہیں'' جو فرمایا کہ ولکن الرسول اللہ و خاتم النبیین ۔ |1| اور اس آیت میں ایک پیشین گوئی ہے جس کی ہمارے مخالفوں کو خبر نہیں۔ اور وہ یہ ہے کہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1۔ احزاب 40
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ تعالٰی اس آیت میں فرماتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد پیشین گوئیوں کے دروازے ہمیشہ کے لیے بند کردیئے گئے اور ممکن نہیں کہ اب کوئی ہندو یا یہودی یا عیسائی یا کوئی رسمی مسلمان نبی کے لفظ کو اپنی نسبت ثابت کرسکے نبوت کی تمام کھڑکیاں بند کی گئیں مگر ایک کھڑکی سیرت صدیقی کی کھلی ہے۔ یعنی فنا فی الرسول کی، پس جو شخص اس کھڑکی کی راہ سے خدا کے پاس آتا ہے اس پر ظلی طور پر وہی نبوت کی چادر پہنائی جاتی ہے جو نبوت محمدی کی چادر ہے اس لیے اس کا نبی ہونا غیرت کی جگہ نہیں ۔ الخ
اقول۔ بر تقدیر تسلیم اس امر کہ مضمون مذکور ولکن الرسول اللہ و خاتم النبیین ۔ |1| کا مدلول ہے صرف دو ہی سوال جواب طلب معروض کیے جاتے ہیں۔
پہلا سوال جواب طلب۔ فنا فی الرسول ہونے کا معیار اتباع کامل ہوتا ہے۔ دیکھو سیرت صدیقی،فاروقی،عثمانی، مرتضوی وغیرہ اصحاب کرام وسائر اہل اللہ رضوان اللہ علیہم اجمعین۔آپ سب کمالات نبوت محمدیہ علی صاحبہا الصلوۃ کو تو رہنے دیجیے۔ صرف زہد اور فقر و فاقہ اور تفسیر دانی کے بارہ میں اپنے گریبان میں منہ ڈال کر اپنے ہی قلب سے للہ شہادت لیجیے انا محمد و مفسر کی صدا آتی ہے یا انا متزید و محرف کا لقب ملتا ہے چنانچہ ہر جگہ تحریف ثابت ہورہی ہے کیا ایسے ہی استنباط من القرآن کا مالک وارث النبی کہلا سکتا ہے؟ ہرگز نہیں، بلکہ اس کے لیے صدیقی و فاروقی و عثمانی و مرتضوی ملکہ و مہارت قرآن میں چاہیے۔ جس سے صرف وارث النبی کہلانے کا مستحق ہوگا۔ نہ یہ کہ نبی و رسول کما قال صلی اللہ علیہ وسلم لعلی الا انہ لا نبوۃ بعدی (مسلم) وقال علی لیس بنبی (حاکم) حیرت انگیز مقام ہے کہ جس شخص کو شب و روز بذریعہ اشتہارات کے بلکہ کئی حیلوں سے حتیٰ کہ تحلیل محرمات میں سے بھی زر وسیم کے مطالبہ کے بغیر اور کچھ نہ سوجھے معہذا پھر اس پاک نبی افضل الانبیاء میں فانی ہونے کا دعوی کرے جس کی یہ شان ہے
وراودتہ |1| الجبال الشم من ذھب۔ عن نفسہ فاراھا ایما شمم
واکدت زھدہ فیھا ضروراتہ۔ ان الضرورتہ لا تعدو علی العصم
وکیف تدعوا الی الدنیا ضرورۃ من۔ لولاہ لم تخرج الدنیا من العدم

یہاں تو پلاو۔قورمہ۔زردہ۔مشک عنبر۔یاقوتین مفرحات کے بغیر گزرتی ہی نہیں۔ اور وہاں بیت نبوت علی صاحبہا الصلوۃ والسلام میں یہ کیفیت تھی جو احادیث مفصلہ ذیل سے پائی جاتی ہے۔

عن عائشہ رضی اللہ عنہا قالت ما شبع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ثلاثۃ ایام من خبرئرتتا بعا حتی مضی لسبیلہ وعنھا قالت کنا آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم یمریناالھلال والھلال والھلال ما نوقد نارا الطعام الا انہ التمرو الماء الا انہ حولنا اھل دور من الانصار فیبعث اھل کل دار بحریرہ بقریرہ شاتھم الی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من ذالک اللبن اخرجاہ فی الصحیحین۔ قال انس رضی اللہ عنہ مارای رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رغیفا مرققا حتی الحق باللہ ولارای شاۃ سمیطا بعینہ قط (صحیح البخاری)
وعن انس رضی اللہ عنہ ما اکل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علی خوان ولا فی سکرجۃ ولا خبز لہ مرقق فقیل لہ علی ماکانوا یاکلون قال علی السفر۔ صحیح البخاری۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1۔ احزاب 40
2۔ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہاڑ سونا بنا دینے کی پیش کش ہوئی مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زہد نے سب کو ٹھکرا دیا کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا کی ضرورت کب مائل کرسکتی تھی جبکہ خود دنیا کا وجود ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل ہوا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وعن عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ انہ خطیب وذکر ما فتح علی الناس فقال لقد رایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تیلوی یومہ من الجوع مایجد من الدقل ما یملاء بہ بطنہ۔ صحیح مسلم
وعن انس رضی اللہ عنہ انہ مشی الی النبی صلی اللہ علیہ وسلم بخیر شعیرواھالۃ سننحۃ ولق رھن درعہ عند یھودی فاخذ لاھلہ شعیرا ولقد سمعتہ یقول ما امسیٰ عند آل محمد صاع تمرو لا صاع حب و انھم یومئذ تسعۃ ابیات۔ صحیح البخاری
وعن عائشہ رضی اللہ عنہا قالت کان فراش رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من آدم حشوہ لیف۔ صحیح البخاری
وفی الصحیحین فی حدیث عمر بن الخظاب رضی اللہ عنہ لما ذکر اعتذال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی خزانۃ فاذاھو مضطجع علی حصیر فادنٰی الیہ ازارہ وجلس واذا الحصیر قد اثر فیہ بجنبہ وقلبت عینی فی بیتہ فلم اجد شیئا یردالبصر غیر قبضۃ شعیر و قبضۃ من قرظ نحو الصاعین واذاافیق معلق فابتدرت عینای فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مایبکیک یا ابن خطاب فقلت یارسول اللہ ومالی لا ابکی وانت صفوۃ اللہ وخیرتہ من خلقہ وھذہ فراشک وھذہ الا عاجم کسری وقیصری الثمار والانھار فقال اوفی شک یا ابن خطاب اولئک قد عجلت طیباتھم فی الحیوۃ الدنیا وفی روایۃ اوما ترضی ان تکون لھم الدنیا الناالآخرۃ قال بلیٰ قال فاحمد اللہ عزوجل قال قلت استغفراللہ۔
وفی صحیح مسلم عن ابی حریرہ رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللھم اجعل رزق آل محمد نوتا۔ وروی الطیالسی باسناد صحیح عن ابن مسعود قال اضطجع النبی صلی اللہ علیہ وسلم علی حصیر فاثرالحصیر فی جلدہ فجعلت امسحہ واقول بابی وامی انت یا رسول اللہ الا اذنتنا فنبسط لک شیئا تنام علیہ قال مالی والدنیا انما انا کواکب استظل تحت شجرۃ ثم راح وترکھا۔ رواہ الھاکم فی صحیحہ عن ابن عباس عن عمر (شیخ السلام الحرانی
وفی ترمذی عن انس بن مالک رضی اللہ عنہ قال حج النبی صلی اللہ علیہ وسلم علی رحل رث و قطیفہ ولم یکن شحیحا وحدث انہ حج علی رحل وکانت زاملۃ
وعن انس بن مالک ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم لبس خشنا واکل خشنالبس الصوف واحتذی المخصوف قیل للحسن مالخشن قال غلیظ الشعیر ماکان یسیغہ الا بجرعۃ ماء۔( شیخ الاسلام الحرانی)

خلاصہ احادیث مذکورہ کا یہ ہے
رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام عمر میں کبھی تین دن متواتر گیہوں کی روٹی نہیں کھائی اور نہ ہی کئی ماہ تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں بوجہ نہ ہونے طعام کے آگ ہی نہیں جلی۔ اکثر پانی اور کھجور پر گزر ہوتی تھی۔ فقر و فاقہ کی یہ حالت تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمسائے انصار کھانے پینے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دودھ یا ہریسہ دیا کرتے تھے۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نہ تو پتلی روتی تناول فرماتے تھے اور نہ بکرے کا بھنا ہوا گوشت اور نہ کبھی میز پر کھانا کھاتے تھے اکثر چمڑے کے دست خوانوں پر تباول فرمایا کرتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی چھوٹے پیالوں میں بھی کھانا نہیں کھاتے تھے گاہے بگاہے ایسا بھی اتفاق ہوتا رہا ہے کہ شکم مبارک میں بھوک کی وجہ سے بل پڑ جاتے تھے کبھی جناب صلی اللہ علیہ وسلم کو ردی کھجور بھی میسر نہ ہوتی تھی فرش آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چمڑے کا ہوتا تھا اور اس مین کھجور کے پتے بھرے ہوئے ہوتے تھے کبھی نیند کے وقت چٹائی پر استراحت فرمایا کرتے تھے۔ چنانچہ ایک دفعہ کا مذکور ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جسم اطہر پر بوریہ کے نقش دیکھ کر رو پڑے اس پر جناب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ رونے کا کیا باعث ہے؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ کفار جو دشمن خدا ہیں وہ تو عیش کریں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم محبوب الٰہ ہوکر ایسے حال میں رہیں پس کیوں نہ روؤں۔ اس پر جناب صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کفار کے لیے دنیا ہے اور ہمارے لیے آخرت ہے کیا اے ابن خطاب تو اس تقسیم پر راضی نہیں۔ اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ خوش ہوئے اور خدا کی حمد و ثناء کہہ کر استغفار کیا۔
اسی طرح ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بدن مبارک سے بوریا کے نقش مٹاتے اور کہتے تھے کہ اگر اجازت ہو تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے فرش بچھایا کریں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں ایک مسافر سوار کی طرح ہوں جو کہ درخت کے سائے کے نیچے تھوڑے عرصہ کے لیے آرام لیتا ہے پھر اس کو چھوڑ کر چلا جاتا ہے۔
مضتر موجودات حالانکہ بخل کی عادت سے مبرا تھے تاہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بوڑھی اور دبلی سواری پر پرانی چادر پہن کر حج ادا کیا موٹا کپڑا پہنتے تھے جو کی موٹی روٹی کھاتے تھے جو کہ بغیر پانی کے حلق سے نہ اترتی تھی دعا یہ مانگتے تھے کہ یا اللہ آل محمد کو رزق گذارہ عطا فرما یعنی اتنا رزق جس سے زندگی بسر ہوسکے۔

ولنعم ما قیل ۔ رباعی
ابناں زکجا و عشق بازی زکجا۔
ہندو زکجاو زبان تازی زکجا
چون اہل حقیقت سخن عشق کنند
بیہودی این قوم مجازی زکجا

رباعی
اے خواجہ سراے فنا رسولی زکجا
دیں نفس پرستی و فضولی زکجا
جانبازی و سردہی بعشقش
ذالک فضل اللہ یوتیہ من یشاء

دیگرے فرمودہ
منزل عشق از مکان دیگر است
مرد ایں راہ را نشان دیگر است
چہ گویم وچہ نویسم نشان ایں بے نشاناں کہ والہان جمال محمدی صلی اللہ علیہ وسلم و والیان کمال احمدی صلی اللہ علیہ وسلم اند۔ چند رباعیات مسطورة ذیل شمہء از حال ایں عزیزاں حکایت مے نمایند۔ وللہ در القائل

رباعی
مہ را بینم روئے توام یاد دہد
گل را بوئم بوئے تو ام یاد دہد
چوں زلف بنفشہ را زند برھم باد
آشفتگی موئے تو ام یاد دہد
حق حق حق حق حق حق حق حق حق حق حق حق حق حق حق حق حق حق حق حق حق حق حق حق

رباعی
عشق تو کہ شاہ بوددر ملک دروں
چوں و بد بہ شاہی او گشت فزوں
شد ہمرہ آب دیدہ وھم آہ
وز پردہ سرائے سینہ زد خیمہ بروں

رباعی
فضاد بقعد آنکہ بردار خوں
شد تیز کہ نشترے زند بر مجنوں
مجنوں بگریست گفت ازاں می ترسم
کاید بدل خوں غم لیلی بیروں

رباعی
مست می اگر دست کرم جنباند
جز بخشش دینار و ورم نتواند
چون مست غمت مرکب ہمت راند
بر فرق دو کون آستین افشاند

رباعی
مامست و معر بدیم و رند چالاک
در عشق نہادہ پا بمیدان ہلاک
صد بار بہ تیغ غم اگر کشتہ شویم
آں مایہ عمر جاودانی است چہ باک

رباعی
بس تخت نشین کہ شدز سودائے تو مست
درخیل گدایان تو برخاک نشست
سر بر در تو نہادہ بوسد پیوست
سگ را بہ نیاز پاو سگباں را دست

رباعی
دے شاناہ زد آں ماہ خم گیسو را
بر چہرہ نہاد زلف عنبر بو را
پوشیدہ بدیں حیلہ رخ نیکورا
تا ہر کہ نامحرم نشنا سداورا

رباعی
ساقی مے ازاں مہینہ جامم در دہ
ازھم مگسل علی دوائم در دہ
چوں در لغت عرب مدام آمدے
اے ماہ عجم تو ہم مدام در دہ

رباعی
روزی کہ مدار چرخ و فلاک نبود
آمیزش آب و آتش و خاک نبود
بریاد تو مست بودم و بادہ پرست
ہر چند نشان بادہ و تاک نبود
مؤلف می گوید (عفی عنہ ربہ) مر شار بادہ عشق محمدی صلی اللہ علیہ وسلم نہ تنہا بلال رضی اللہ عنہ است
بلکہ ہزارہا بد را زبار غمش چوں بلال کما قیل

رباعی
تنہا نہ منم زعشق تو بادہ پرست
آں کیست تو خود بگو کزیں بادہ پرست
آں روز کہ من گرفتم این بادہ بدست
بودند حریف مے پرستان است
برادرا کسے کہ کوچہ و بازار مدینہ طیبہ را علی صاحبہا الصلوۃ السلام گردیدہ و از شاخ ہر گیا ہے روایات حسن آں دُلدل سوار شنیدہ باشد باید پر سید کہ چگونہ از درو بام آں احسن الانام صلی اللہ علیہ وسلم صدائے ایں رباعی بگوش مقیمان کوئے پاکش می رسد۔
آنی تو کہ از نام تو مے بارد عشق
وزنامہ و پیغام تو مے بارد عشق
عاشق شود آنکس کہ بکویت گزرد
گوئے ز دروبام تو مے بارد عشق
فسبحان من خلقہ و احسنہ و اجملہ و اکملہ سبحانہ سبحانہ سبحانہ
چو عبد این است معبودش چہ باشد

دوسرا سوال جواب طلب
اگر صرف مقام فنا فی الرسول ہی کا قادیانی کو رسول اور نبی کہلانے کی اجازت دیتا ہے تو کیا وجہ ہے کہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے جن کی شان میں لو کنت متخذا خلیلا لاتخذت ابا بکر خلیلا اور ایسا ہی عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے باوجود لقب محدثیت کے اور عثمان رضی اللہ عنہ نے باوجود کمال اتباع صوری و معنوی کے اور علی مرتضی رضی اللہ عنہ نے باوجود بشارت انت منی بمنزلتہ ھارون من موسی اور سید شباب اہل الجنۃ حسنین 1 رضی اللہ عنہما نے جن کا مجموعہ بعینہ جمال باکمال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا آئنہ تھا رسول اور نبی کہلوانے پر جراءت نہ کی اور ہزارہا اہل اللہ جن کے فانی فی الرسول ہونے پر ان کے سایہ کا گم ہوجانا بھی شہادت دیتا ہے کسی نے نبی اور رسول نہیں کہلوایا قطب الاقطاب سیدنا الغوث الاعظم رضی اللہ عنہ مکالمات الہیہ میں سے کسی مکالمہ میں باوجود شان ( خضنا بحرا لم یقف علی ساحلہ الانبیاء ) کے یعنی فینا فی النبی الامی الذی ھو کالبحر فی السخا (نبی) اور (رسول) کے لفظ نہ پکارے گئے یہ تو سب اسی قاعدہ مسلمہ میں محدود رہے الولی لا یبلغ درجۃ النبی اور قادیانی صاحب باوجود اوصاف منافرہ عن مقام الفنا کے نبوت تک پہنچ گئے بلکہ الوہیت مستقلہ متقابلہ لالوہیتہ الباری عز اسمہ بھی العیاذ باللہ حاصل کرلی چنانچہ اپنی تالیف کتاب البریہ کے صفحہ 79 سطر 4 پر لکھتے ہیں '' اور اس حالت میں میں یوں کہہ رہا تھا کہ ہم ایک نیا نظام اور نیا آسمان اور نئی زمین چاہتے ہیں سو میں نے پہلے تو آسمان اور زمین کو اجمالی صورت میں پیدا کیا جس میں کوئی ترتیب اور تفریق نہ تھی پھر میں نے منشاء حق کے موافق اس کی ترتیب اور تفریق کی اور میں دیکھتا ہوں کہ میں اس کے خلق پر قادر ہوں پھر میں نے آسمان دنیا کو پیدا کیا اور کہا انا زیناالسماء الدنیا بمصابیح۔ پھر میں نے کہا اب ہم انسان کو مٹی کے خلاصہ سے پیدا کریں گے پھر میری حالت کشف سے الہام کی طرف منتقل ہوگئی۔ الخ۔ اس عبارت مسطورہ میں ہم ناظرین کی صرف اسی طرف توجہ دلاتے ہیں کہ وہ آسمان دنیا جس کو قادیانی صاحب نے پیدا کیا وہ کہاں ہے اگر کہیں رکھا ہے تو بتلا دیں ورنہ یہ کشف اپنی غیر واقعی اور محض از قبیل اضغاث احلام ہونے پر صاف شہادت دے رہا ہے کیا ایسے ہی مکاشفات و الہامات غیر واقعیہ قادیانی صاحب کی نبوت و رسالت کی چھت کے لیے شہتیر بن سکتے ہیں؟ ہاں بدیں وجہ ہوسکتے ہیں کہ خیالی چھت کی شہتیریں بھی خیالی ہونی چاہییں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1۔حسن بن علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ایھا الناس من عرفنی فقد عرفنی ومن لم یعرفنی فانا الحسین بن علی وانا ابن النبی وانا ابن الوصی وانا ابن البشیر وانا ابن النذیر وانا ابن الداعی الی اللہ باذنہ وانا ابن السراج المنیر وانا من اھل البیت الذی کان جبرائیل ینزل الینا ویصعد من عندنا وانا من اھل البیت الذین اذھب اللہ عنھم الرجس وطھرھم تطھیرا وانا من اھل البیت الذی افترض اللہ مودتھم علی کل مسلم فقال تبارک وتعالی ومن یقترف حسنتہ النذدلہ فیھا حسنا فاقترف الحسنتہ مودتنا اھل البیت۔ ازالۃ الخفاء
2۔ یعنی ہم ایسے سمندر میں غوطہ زن ہوئے جس کے کنارے پر انبیاء علیھم السلام نہ ٹھہرے سمندر سے مراد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے جو سخاوت میں سمندر کی طرح ہے اور غوطہ زنی سے مراد فنا کامل ہے جو بوجہ کمال اتباع نصیب ہوتی ہے۔ 12 فیض
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جاننا چاہیے کہ ولی کے منکر کو کافر نہیں کہا جاتا جیسا کہ تصدیق بولایت کو ایمان نہیں کہتے ورنہ آمنت باللہ وملئکتہ و کتبہ و رسلہ واولیائہ الخ، ایمانی طور پر ہر مسلمان کو ماننا لازم ہوتا۔ قادیانی کا یہ کہنا کہ میں ظلی طور پر نبی و رسول ہوں اور میرا ماننا ہر مسلمان پر ضروری ہے اس کو ایک تمثیل عام فہم کے پیرایہ میں سمجھنا چاہیے مثلا زید کہتا ہے کہ میں فقیر مسکین ہوں اور میرا نا فرمان مستوجب سزا ہے اور قید کیا جاوے گا کیا زید کو بسبب دوسرے فقرہ دعوی کے مدعی سلطنت و حکومت کا خیال نہ کیا جاوے گا۔ اہل عقل پر ظاہر ہے کہ زید فی الحقیقت قول مذکور سے بادشاہی کا دعوی کر رہا ہے اور (میں فقیر مسیکن ہوں) کے فقرہ کو سپر بنا رکھا ہے ایسا ہی قادیانی فنا فی الرسول، بروز اور ظلیت کی آڑ میں مطاعن سے بچنا چاہتا ہے اور فی الواقع مطلب اس کا دوسرے فقرہ سے متعلق ہے جو خاصہ لازمہ انبیاء کے لیے سمجھا گیا ہے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ قادیانی نے اپنے چیلوں کو اپنے غیر معتقدین کے پیچھے نماز پڑھنے سے روک دیا ہے اور ایسا ہی ناطہ وغیرہ سے بھی وجہ اس کی یہی ہے کہ اس نے اپنے منکرین کو کافر سمجھا ہوا ہے حالانکہ حضرت شیخ محی الدین ابن عربی قدس سرہ فتوحات میں لکھتے ہیں کہ میں فلاں شخص کو (جس کا نام میں اب بھول گیا ہوں اور جو فتوحات میں مندرج ہے) مبغوض اور برا سمجھتا تھا بہ سبب اس کے کہ وہ میرے شیخ ابو مدین مغربی قدس سرہ کو نہیں مانتا تھا پس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دیدار فیض آثار سے خواب میں مشرف ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ فلاں شخص کو کس لیے تو برا جانتا ہے ؟ میں نے عرض کیا کہ وہ ابو مدین مغربی کا منکر ہے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا وہ توحید اور میری رسالت کے ساتھ ایمان نہیں رکھتا؟ شیخ فرماتے ہیں کہ میں نے سویرے جا کر اس شخص کو کچھ دے کر بڑی عجز و منت سے خوش کیا (اس وقت فتوحات کا اتنا ہی مضمون خیال میں ہے شاید کم و بیش ہو واللہ اعلم)
بڑی افسوس کی حالت ہے کہ ابو مدین جیسے ولی کامل سے منکر ہونا تو بعد الایمان باللہ ورسولہ کے موجب بغض و کراہت نہیں ہو سکتا بلہ محی الدین ابن عربی جیسے شخص کو اس پر نا خوش ہونے کے باعث آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم تنبیہ فرماتے ہیں اور قادیانی صاحب کے منکرین باوجود ایمان باللہ ورسولہ کے کافر سمجھے جا رہے ہیں۔
ناظرین خدارا انصاف۔ اگر یہ نبوت مستقلہ ا دعویٰ نہیں تو اور کیا ہے ۔ مسلمانو! بعد آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لقب نبی اور رسول کا کسی مسلمان کے لیے شرعی نظر سے جائز نہیں نہ اصلی اور نہ ظلی۔ اگر ظلی طور پر یہ لقب متبع نبی کو عطا ہوسکتا اور فنا فی الرسول کا مقام مجوذ اسکا ہوتا تو اس کے سب سے زیادہ مستحق مہاجرین و انصار تھے رضوان اللہ علیھم اجمعین، جن کا ذکر خیر کتاب و سنت میں موجود ہے۔ اللہ جل شانہ نے قرآن مجید کی سورۃ فتح میں اصحاب کرام علیھم الرضوان کو صرف والذین معہ اشداء علی الکفار رحماء بینھم تراھم رکعا سجدا یبتغون فضلا من اللہ و رضوانا سورۃ فتح 29، سے یاد فرمایا اور رسالت کا لقب خاص سرور عالم و سید ولد آدم ہی کے لیے رکھا۔ کما قال عز من قائل، محمد رسول اللہ باوجودیکہ صحابہ عظام علیھم الرضوان کو اس سفر میں حدیبیہ سے واپس ہونے کے باعث اور دخول مکہ سے مشرکین کی رکاوٹ کے سبب سے اپنی ناکامی کا سخت رنج و ملال تھا جس کے رفع کرنے کے لیے انہیں اس آیت میں ان القاب سے اطمینان دیا گیا یعنی معہ اور اشداء علی الکفار اور رحماء بینھم اور رکعا سجدا ۔ پس نظر بمقتضائے مقام ان کی اطمینان دہی اور دفع ملالت اعلیٰ لقب سے ضروری تھی جن کے اوپر اور کوئی تمغہ و لقب متصور نہ ہو، یعنی نبوت و رسالت جس کے اوپر صرف الوہیت ہی رہ جاتی ہے تو بجائے اوصاف مذکورہ فی الآیۃ کے والذین معہ انبیاء و رسل ہونا چاہیے تھا۔ اس سے اہل انصاف سمجھ سکتے ہیں کہ بعد آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی اور رسول کا لفظ ظلی طور پر بھی کسی کا استحقاق نہیں۔ بڑی تعجب کی بات ہے کہ صحابہ کرام میں سے خلفاء رابعہ رضی اللہ عنھم جن میں اقوی و اعلی موجبات تشبہ بالنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قوت عاقلہ و عاملہ دونوں کی جہت سے موجود تھی وہ تو نبی اور رسول کے لقب سے محروم کیے جاویں اور تیرہ سو برس کے بعد ایک شخص جس کے قوت عاقلہ کے کمال پر اس کے استدلالات بآیات قرآنی اور قوت عاملہ کے جلال پر ان کا راز تقریر لسانی و انحصار در قلمرانی شاہد ہیں بلا تحاشہ نبی و رسول کا لقب حاصل کرے بلکہ حقیقی نبی بھی بن بیٹھے۔ یعنی یہ کہے کہ میری ارواج کو امہات المومنین کے لقب سے پکارا کرو وغیرہ وغیرہ، نہایت ہی حیرت انگیز مقام ہے کہ علی المرتضی کرم اللہ وجہہ کو تو باوجود بیان کمال اتحاد کے جو قریب بعینیت ہے اس لقب کی اجازت نہ دی جاوے بلکہ صریح لفظوں میں روک دیا جاوے۔ چنانچہ صحیح مسلم میں بروایت سعد حدیث طویل کے ضمن میں مذکور ہے فقال لہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ءاما ترضی ان تکون منی بمنزلۃ ہارون من موسی الا انہ لانبوۃ بعدی یعنی حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو جب آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بعض غزوات میں خلیفہ بنا کر مدینہ طیبہ علی صاحبہا الصلوۃ والسلام میں چھوڑ کر جانے لگے تو علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) نے مجھ کو عورتوں اور لڑکوں کے ساتھ پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ بجواب اس کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تو خوش نہیں میرے قائم مقام ہونے پر جیسا کہ موسیٰ کا قائم مقام ہارون علی نبینا و علیھما السلام تھا اور میرے قائم مقام ہونے کی نعمت تو تم کو ملی ہے مگر نبی کا لقب خاص میرے ہی لیے ہے تم کو نہیں ملتا کیونکہ میرے پیچھے نبوت نہیں۔ اور قادیانی کو جو نبوت و رسالت کے اوصاف صور و معنوی سے یہ مراحل بعیدہ ہے۔ اور ہر جگہ اس کی قرآن دانی و تفسیر بیانی شہادت دے رہی ہے اسے نبی و رسول کہلوانے کی اجازت مل جاوے۔ ہاں وجہ اس کی شاید یہ ہو کہ قادیانی نے سوچا کہ آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب علی کرم اللہ وجہہ جیسے قریبی کو نبی کہلوانے سے روک دیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس لقب کا حاصل کرنا ناممکن ہے چاہیے کہ آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ہی نہ ہو اور پیش قدمی کرکے جھٹ اللہ جل شانہ سے یہ تمغہ حاصل کرلوں ۔ لہذا مکالمات الہیہ سے بزعم خود کامیاب ہوتے ہی لگاتار اشتہار دینے شروع کیے۔ مگر دقت یہ کہ ان مکالمات میں بھی بعض آیات وہی ہیں جو افضل الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی اتری تھیں جن کے ساتھ استدلال پکڑنے سے لازم آتا ہے کہ آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم العیاذ باللہ ان آیات سے اجازت عامہ ہر ایک فانی فی الرسول کے لیے نبی اور رسول کہلوانے کی نہیں سمجھی تھی۔ لہذا علی کرم اللہ وجہہ کو باوجود کمال فنا کے الا لا نبوۃ بعدی فرما کر محروم رکھا اور اس آیت فلا یظہر علی غیبہ احدا الا من ارتضی من رسول (جن 26) کو جس طرح قادیانی صاحب نے سمجھا ہے آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں سمجھا۔ نعوذباللہ من ھذیان الجاہلین۔
مزید پڑھیں
 
آخری تدوین :
Top