• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

مرزا قادیانی کی محمدی بیگم سے عشق کی کہانی

ام ضیغم شاہ

رکن عملہ
منتظم اعلی
ناظم
مہمان
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
تحریر:۔ مولانا محمد دین سیالوی صاحب
مرزا قادیانی کی محمدی بیگم سے عشق کی کہانی

محمدی بیگم سے نکاح کی پیش گوئی مرزا صاحب کی سب سے اہم پیش گوئی ہے۔ اسے انہوں نے اپنی کتابوں میں بار بار دہرایا ہے اور اسے اپنے سچا اور جھوٹا ہونے کا معیار قرار دیا ہے۔ مرزا صاحب نے اعلان کیا کہ اگر یہ پیش گوئی پوری ہو جائے اور محمدی بیگم سے میرا نکاح ہو جائے تو میں سچا اور اگر محمدی بیگم سے نکاح نہ ہو تو میں بھی جھوٹا اور میرے سارے دعوے بھی جھوٹے۔اس مختصر تحریر میں میںنے مرزا صاحب کی اس پیش گوئی کا تجزیہ کیا ہے اور مضبوط دلائل سے ثابت کیا ہے کہ یہ پیش گوئی جھوٹی ثابت ہوئی اور مرزا صاحب اپنے بنائے ہوئے معیار کے مطابقکذاب ، دجال ، ملعون ، ذلیل و رسوا ، ہر ایک سے بد تر اور کور باطن ثابت ہو گئے۔
محمدی بیگم کا تعارف

مرزا احمد بیگ مرزا غلام قادیانی کے ماموں زاد بھائی اور عمر النساء ان کی چچا زاد بہن تھی اور یہ دونوں آپس میں میاں بیوی تھے۔ان دونوں کی ایک بیٹی تھی جس کا نام محمدی بیگم تھا۔مرزا غلام قادیانی کے بیٹے فضل احمد کی بیوی محمدی بیگم کی پھوپھی زاد بہن تھی۔ اس لیے محمدی بیگم مرزا صاحب کی اولاد کے درجے میں تھی اور رشتہ میں ان کی بھتیجی یا بھانجی بنتی تھی۔ لیکن مرزا صاحب اسے کسی اور نظر سے دیکھتے تھے۔ محمدی بیگم کے بچپن سے جوانی تک کے نشیب و فراز مرزا صاحب کی نگاہوں کے سامنے تھے۔ اس کی اٹھتی جوانی اور ابھرتے ہوئے خد و خال دیکھ دیکھ کر انہوں نے کئی دفعہ ایک اور شادی کے الہامات شائع کیے لیکن صراحت سے اس کا نام نہ لیا۔ بعد میں خود ہی وضاحت کر دی کہ ان الہامات میں جس عورت سے شادی کا ذکر ہے وہ محمدی بیگم ہے۔
مجبور کی مجبوری سے ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش

مرزا نظام الدین ، مرزا کمال الدین ، مرزا امام الدین اور مرزا غلام حسین مرزا غلام قادیانی کے چچا زاد بھائی اور محمدی بیگم کے ماموں تھے۔ مرزا غلام حسین عرصہ 25 سال سے مفقود الخبر تھا اور اس کی بیوی مرزا احمد بیگ (محمدی بیگم کے والد) کی بہن تھی۔ غلام حسین کی مفقود الخبری میں اس کی جائیداد اس کی بیوی یعنی مرزا احمد بیگ کی بہن کو منتقل ہو گئی۔ مرزا احمد بیگ نے اپنی بہن سے کہا تیری اولاد نہیں ہے لہٰذا تو اپنی یہ جائیداد میرے لڑکے محمد بیگ کو ہبہ کر دے۔ بہن راضی ہو گئی اور اس نے ہبہ نامہ لکھ دیا۔ لیکن اس وقت کے رائج برٹش قانونِ وراثت کے مطابق مرزا غلام حسین کے بھائیوں (مرزا نظام الدین ، مرزا کمال الدین ، مرزا امام الدین) اور چچا زاد بھائی مرزا غلام قادیانی کی تصدیق اور رضا مندی کے بغیر یہ ہبہ نامہ نافذ نہیں ہو سکتا تھا۔ احمد بیگ نے تصدیق اور تائید کے لیے غلام حسین کے بھائیوں سے رجوع کیا تو انہوں نے فوراً دستخط کردیے۔ لیکن جب وہ اس غرض سے مرزا غلام قادیانی کے پاس آیا تو انہوں نے اسے سنہری موقع جانا اور محمدی بیگم کے حصول کے لیے مرزا احمد بیگ کی اس مجبوری سے فائدہ اٹھانے کی ٹھان لی۔ مرزا غلام قادیانی نے احمد بیگ سے کہا کہ میں پہلے استخارہ کروں گا اور اس کے بعد کوئی فیصلہ کروں گا۔
احمد بیگ مرزا غلام قادیانی کے پس پردہ مقاصد اور محمدی بیگم کے حوالے سے ان کے ناپاک ارادوں سے قطعی بے خبر تھا۔ وہ مرزا صاحب کو ہبہ نامہ کی تصدیق کے لیے متوجہ کرتا رہا اور مرزا صاحب اسے ستخارہ کے بہانے سے ٹالتے رہے۔ جب اس کا اصرار بڑھا اور مرزا صاحب نے اندازہ کر لیا کہ وہ ہر صورت یہ جائیداد حاصل کرنا چاہتا ہے تو انہوں نے احمد بیگ کو ایک خط لکھا۔
مرزا غلام صاحب اپنی نفسانی خواہشات کی تکمیل کے لیے خدائی الہام کو ہمیشہ ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ مرزا صاحب کی بیگم نیا مکان بنانے کا مطالبہ کرتی تو مرزا صاحب مریدوں سے کہتے اﷲ تعالیٰ نے الہام کیا ہے کہ نیا مکان بناؤلہٰذا سارے چندہ دو۔ اگر کوئی چیز بیکار ہو جاتی اور اسے ٹھکانے لگانا ہوتا تو مرزا صاحب کہتے اﷲ تعالیٰ نے الہام کیا ہے کہ جو اس چیز کو استعمال کرے گا وہ بر کات اور انعامات سے مستفیض ہو گا۔ پھر اندھے عقیدت مند اس چیز پر ٹوٹ پڑتے اور اپنی جمع پونجی لگا کر مرزا صاحب سے وہ چیز خرید لیتے۔ اپنی عادت جاریہ کے مطابق مرزا غلام قادیانی نے احمد بیگ کو لکھا کہ اﷲ تعالیٰ نے مجھے الہام کیا ہے کہ میں تمہاری بیٹی محمدی بیگم سے نکاح کروں ، تب ہبہ نامہ پر دستخط کروں۔اگر تم اس کا نکاح مجھ سے کر دو تو میں ہبہ نامہ پر دستخط کر دوں گا ورنہ دستخط نہیں کروں گا۔ ساتھ ہی مرزا صاحب نے نکاح کرنے کی صورت میں برکات و انعامات کے وعدے اور نکاح نہ کرنے کی صورت میں آسمانی عذاب کی دھمکیاں بھی لکھ بھیجیں۔ مرزا احمد بیگ نے خط پڑھا تو اس کے ہوش اڑ گئے کہ ایک شخص جو مامور من اﷲ ہونے کا دعویدار ہے وہ اس طرح سودے بازی اور بلیک میلنگ کر رہا ہے۔ اب یہ ساری کہانی مرزا صاحب کی اپنی زبانی سنیے۔ مرزا صاحب لکھتے ہیں:
’’تفصیل اس کی یہ ہے کہ نام بردہ (احمد بیگ) کی ایک ہمشیرہ ہمارے ایک چچا زاد بھائی غلام حسین نام کو بیاہی گئی تھی۔ غلام حسین عرصہ پچیس سال سے کہیں چلا گیا ہے اور مفقود الخبر ہے۔ اس کی زمین ملکیت جس کا ہمیں حق پہنچتا ہے (نوٹ)نامبردہ کی ہمشیرہ کے نام کاغذات سرکاری میں درج کرا دی گئی تھی۔ اب حال کے بند وبست میں جو ضلع گورداسپورہ میں جاری ہے نامبردہ یعنی ہمارے خط کے مکتوب الیہ (مرزا احمد بیگ) نے اپنی ہمشیرہ کی اجازت سے یہ چاہا کہ وہ زمین جو چار ہزار یا پانچ ہزار روپیہ کی قیمت کی ہے اپنے بیٹے محمد بیگ کے نام بطور ہبہ منتقل کرا دیں۔ چنانچہ ان کی ہمشیرہ کی طرف سے یہ ہبہ نامہ لکھا گیا۔ چونکہ وہ ہبہ نامہ بجز ہماری رضا مندی کے بیکار تھا اس لیے مکتوب الیہ نے بتمام تر عجز و انکسار ہماری طرف رجوع کیا۔ تا ہم اس ہبہ پر راضی ہو کر اس ہبہ نامہ پر دستخط کر دیں اور قریب تھا کہ دستخط کر دیتے لیکن یہ خیال آیا کہ جیسا کہ ایک مدت سے بڑے بڑے کاموں میں ہماری عادت ہے جناب الٰہی میں استخارہ کر لینا چاہیے۔ سو یہی جواب مکتوب الیہ کو دیا گیا۔پھر مکتوب الیہ کے متواتر اصرار سے استخارہ کیا گیا وہ استخارہ کیا تھا گویا آسمانی نشان کی درخواست کا وقت آ پہنچا تھا جس کو خدا تعالیٰ نے اس پیرایہ میں ظاہر کر دیا۔ اس خدائے قادر حکیم مطلق نے مجھے فرمایا کہ اس شخص کی دختر کلاں (بڑی بیٹی) کے نکاح کے لیے سلسلہ جنبانی کر اور ان کو کہہ دے کہ تمام سلوک اور مروت تم سے اسی شرط سے کیا جائے گا اور نکاح تمہارے لیے موجب برکت اور ایک رحمت کا نشان ہو گا اور ان تمام برکتوں اور رحمتوں سے حصہ پاؤ گے جو اشتہار 20 فروری 1888 ء میں درج ہیں لیکن اگر نکاح سے انحراف کیا تو اس لڑکی کا انجام نہایت ہی برا ہو گا اور جس کسی دوسرے شخص سے بیاہی جائے گی وہ روز نکاح سے اڑھائی سال تک اور ایسا ہی والد اس دختر کا تین سال تک فوت ہو جائے گا۔ اور ان کے گھر پر تفرقہ اور تنگی اور مصیبت پڑے گی اور درمیانی زمانہ میں بھی اس دختر کے لیے کئی کراہت اور غم کے امر پیش آئیں گے۔
پھر ان دنوں میں جو زیادہ تصریح اور تفصیل کے لیے بار بار توجہ کی گئی تو معلوم ہوا کہ خدا تعالیٰ نے یہ مقرر کر رکھا ہے کہ وہ مکتوب الیہ کی دختر کلاں کو جس کی نسبت درخواست کی گئی تھی ہر ایک روک دور کرنے کے بعد انجام کار اسی عاجز کے نکاح میں لاوے گا۔ ‘‘
آئینہ کمالات اسلام : ص 285-86/ روحانی خزائن : ج 5 ص 285-86
نوٹ
مرزا صاحب کا یہ کہنا کہ زمین میں ہمارا حق تھا، غلط ہے یا پھر مرزا صاحب کی اسلامی قانون وراثت سے جہالت کی نشانی ہے۔ اس لیے کہ غلام حسین کی جائیداد میں مرزا صاحب کا شرعاً کوئی حق نہیں بنتا تھا۔ اس کے بھائی مرزا نظام الدین ، مرزا کمال الدین ، مرزا امام الدین زندہ تھے اور بھائیوں کے ہوتے ہوئے چچا زاد بھائی کو کچھ نہیں ملتا۔ بھائی عصبہ قریب ہیں اور چچا زاد عصبہ بعید ۔ شرعی اصول یہ ہے کہ عصبہ قریب کے ہوتے ہوئے عصبہ بعید کو کچھ نہیں ملتا۔ قادیانی بھی یہ مانتے ہیں ۔ قادیانی محقق لکھتے ہیں:
’’عصبات کی درجہ بندی ( الاقرب فالاقرب) کے اصول کے تحت ہے یعنی جن رشتہ داروں کی قرابت متوفی سے نزدیکی ہے وہ بوجہ عصبہ میراث میں مقدم ہوں گے اور نسبتاً دور کے عصبات محجوب (محروم) ہوں گے۔
باعتبار قرب عصبات کی درجہ بندی حسب ذیل ہے:
٭ بیٹا ، پوتا ، پڑپوتا وغیرہ (یعنی متوفی کی نسل)
٭ باپ ، دادا ، پڑدادا ، (یعنی متوفی کی اصل)
٭ متوفی کا بھائی ، بھائی کا بیٹا ،بھائی کا پوتا (یعنی متوفی کے باپ کی نسل)
٭ چچا ، چچا کا بیٹا ، چچا کا پوتا (یعنی متوفی کے دادا کی نسل)
 

ام ضیغم شاہ

رکن عملہ
منتظم اعلی
ناظم
مہمان
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
مذکورہ بالا چار اقسام میں اگر قسم اول کے عصبات موجود ہوں تو باقی قسموں کے عصبات وارث نہیں ہوں گے۔و علی ھذ ا القیاس۔‘‘
فقہ احمدیہ جلد 2 ص 122
استخارہ بھی مرزا صاحب کا ڈھونگ
استخارہ بھی مرزا صاحب کا ایک ڈھونگ تھا۔ یہاں استخارہ کا کوئی جواز ہی نہیں تھا۔ استخارہ مباح کاموں میں ہوتا ہے۔ فرض ، واجب ، حرام اور مکروہ کاموں میں استخارہ نہیں ہوتا۔ فرض اور واجب کو ہر صورت میں کرنا ضروری ہوتا ہے۔ استخارہ کے بہانے اسے ٹالا نہیں جا سکتا۔ حرام اور مکروہ کو چھوڑنا ضروری ہوتا ہے۔ استخارہ کے بہانے اسے جائز نہیں بنایا جا سکتا۔ جب اصل وارث ہبہ پر راضی تھے تو مرزا صاحب کو اس میں رکاوٹ ڈالنے کا کوئی شرعی حق نہیں تھا۔ بغیر حق ان کا رکاوٹ ڈالنا ظلم اور تعدی تھا۔ اس میں استخارہ کا کوئی جواز نہیں تھا۔
کیا اﷲ تعالیٰ خلافِ شرع باتوں کا حکم دیتا ہے؟
مرزا غلام حسین کی بیوی اور احمد بیگ کی بہن کی جائیداد میں مرزا غلام قادیانی کا شرعاً کوئی حق نہیں بنتا تھا۔ صرف برٹش لاء (جو کہ خلاف شریعت تھا) کی وجہ سے ان کی اجازت ضروری تھی۔ مرزا صاحب کہتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے مجھے کہا کہ تم احمد بیگ سے کہو کہ میں اس شرط پر ہبہ نامہ پر دستخط کروں گا کہ تم اپنی بیٹی محمدی بیگم کا نکاح میرے ساتھ کرو۔ اب ظاہر ہے کہ اس شرط کا کوئی شرعی جواز نہیں بنتا تھا۔ یہ سرا سر ناانصافی اور ظلم تھا۔ دھونس اور دھاندلی تھی۔ مجبور کی مجبوری سے ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش تھی۔
قارئین! ذرا سینے پر ہاتھ رکھ کر جواب دیجئے۔ کیا اﷲ تعالیٰ اس طرح کی نا انصافی ، ظلم اور دھاندلی کا حکم دے سکتا ہے؟سیدھی سی بات ہے کہ رب کائنات تو ایسا نہیں کر سکتا ، بلکہ اس کے بارے میں تو ایسا سوچنا بھی گناہ ہے۔ ہاں قادیانیوں کا نام نہاد خدا ایسا کرتا ہو تو بعید نہیں۔
حقیقت نہیں ڈارامہ
مرزا صاحب کا عمل بتاتا ہے کہ محمدی بیگم کے نکاح کی پیش گوئی حقیقت نہیں ڈارامہ تھا۔ کیونکہ مرزا صاحب کے دعویٰ کے مطابق اگر یہ پیشگوئی
الہامی تھی اور اس میں موجود سارے وعدے اور وعیدیں اﷲ تعالیٰ کی طرف سے تھے تو مرزا صاحب کو اطمینان رکھنا چاہیے تھا۔ قادر و قیوم رب خود اس پیش گوئی کو پورا فرماتا۔ لیکن مرزا صاحب خاموش نہیں بیٹھے۔ انہوں نے اس پیش گوئی کو سچ ثابت کرنے کے لیے منت و سماجت اور ترہیب و ترغیب کا ہر ہتھیار آزمایا۔جس سے یقین ہو جاتا ہے کہ یہ اﷲ تعالیٰ کا وعدہ نہیں تھا بلکہ اس کی ذات پر افتراء تھا ۔ اور اگر قادیانی پھر بھی بضد ہوں کہ نہیں یہ پیش گوئی اﷲ تعالیٰ کی طرف سے تھی تو پھر یہ ماننا پڑے گا کہ مرزا صاحب کو اﷲ تعالیٰ پر اعتماد نہیں تھا۔
جو لوگ پیش گوئیاں کر تے ہیں اور پھرمکر وفریب اور دھونس دھاندلی سے ان کو پورا کرنے کی کوششیں کرتے ہیں۔ ان کے بارے میں مرزا صاحب کیا کہتے ہیں ملاحظہ فرمائیں:
’’ہم ایسے مرشد کو اور ساتھ ہی ایسے مریدوں کو کتوں سے بھی بد تر اور نہایت نا پاک زندگی والا خیال کرتے ہیں کہ جو اپنے گھر سے پیش گوئیاںبنا کر پھر اپنے ہاتھ سے اپنے مکر سے اپنے فریب سے ان کے پورے ہونے کے لیے کوشش کرے اور کراوے۔‘‘
سراج منیر : ص 27 /روحانی خزائن : ج 12 ص 27
مرزا صاحب کہتے ہیں کہ جو لوگ اپنی پیش گوئیوں کو پورا کرنے کے لیے مکر و فریب اور دھونس دھاندلی سے کام لیتے ہیں وہ کتوں سے بد تر ہیں اور وہ ناپاک زندگی والے ہیں۔ ابھی آپ تفصیلات پڑھیں گے کہ مرزا صاحب نے اس پیش گوئی کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے دھونس ، دھاندلی اور لالچ کا ہر ہتھیار آزمایا۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ مرزا صاحب اپنے الفاظ کے مطابق ’’کتوں سے بد تر اور ناپاک زندگی والے‘‘ تھے۔
مرزا صاحب کے خطوط محمدی بیگم کے رشہ داروں کے نام
یہاں ہم مرزا غلام قادیانی صاحب کے چند خطوط پیش کر رہے ہیں جو انہوں نے محمدی بیگم کے والدین اور رشتہ داروں کو لالچ دینے اور ڈرانے دھمکانے کے لیے لکھے۔
محمدی بیگم کے والد احمد بیگ کے نام خط
’’اﷲ تعالیٰ نے مجھے الہام کیا ہے اور حکم دیا ہے کہ میں تجھ سے تمہاری بیٹی کا رشتہ مانگوں۔ اگر تم مجھے اپنی دامادی میں قبول کر لو تو میں تمہاری مطلوبہ زمین بھی دوں گا اور اس کے ساتھ اور زمین بھی اور تجھ پر اور بھی بہت سارے احسانات کروں گا۔ … … میں تیری بیٹی کو اپنی کل زمین کا اور اپنی ہر مملوکہ چیز کا تیسرا حصہ بطور عطا دوں گا اور تو جو بھی مانگے گا میں دوں گا۔ …… یہ جو خط میں تمہیں لکھ رہا ہوں اﷲ تعالیٰ کے حکم سے لکھ رہا ہوں۔‘‘
(آئینہ کمالات اسلام : ص 572 /روحانی خزائن : ج 5 ص 572-74)
مرزا صاحب کے آخری جملے کا مطلب یہ ہے کہ لالچ اور دھونس دھاندلی کے یہ سارے گر انہیں اﷲ تعالیٰ نے سکھائے۔ نعوذ باﷲ
محمدی بیگم کے والد احمد بیگ نے مرزا غلام قادیانی کے پیش کردہ ہر قسم کے لالچ اور دھونس دھاندلی کو ٹھکرا دیا اور محمدی بیگم اس کے نکاح میں دینے سے انکار کر دیا۔بلکہ اس کا نکاح کہیں اور کرنے کا پروگرام بنا لیا۔ یہ خبر مرزا قادیانی پر بجلی بن کر ٹوٹی ۔ لہٰذا اس نے محمدی بیگم کے دیگر رشتہ داروں کو خط لکھے اور ان سے بھی مدد مانگی۔ ان میں سے چند خطوط ملاحظہ فرمائیں:
 

ام ضیغم شاہ

رکن عملہ
منتظم اعلی
ناظم
مہمان
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
مرزا علی شیر بیگ ، احمد بیگ کا سالا اور بہنوئی تھا۔اس کی بیٹی عزت بی بی مراز قادیانی کے بیٹے فضل احمد کی بیوی تھی۔ مرزا قادیانی نے ایک خط مرزا علی شیر بیگ کو لکھا۔ وہ ملاحظہ فرمائیں:

’’مشفقی مرزا علی شیر بیگ صاحب سلمہ تعالیٰ
السلام علیکم و رحمۃ اﷲ تعالیٰ
اﷲ تعالیٰ خوب جانتا ہے۔ کہ مجھ کو آپ سے کسی طرح سے فرق نہ تھا۔ اور میں آپ کو ایک غریب طبع اور نیک خیال آدمی اور اسلام پر قائم سمجھتا ہوں۔ لیکن اب جو آپ کو ایک خبر سناتا ہوں آپ کو اس سے بہت رنج گزرے گا مگر میں محض ﷲ ان لوگوں سے تعلق چھوڑناچاہتا ہوں جو مجھے نا چیز بتاتے ہیں۔ اور دین کی پرواہ نہیں رکھتے۔ آپ کو معلوم ہے کہ مرزا احمد بیگ کی لڑکی کے بارے میں ان لوگوں کے ساتھ کس قدر میری عداوت ہو رہی ہے۔ اب میں نے سنا ہے کہ عید کے دوسری یا تیسری تاریخ کو اس لڑکی کا نکاح ہونے والا ہے اور آپ کے گھر کے لوگ اس مشورے میں ساتھ ہیں۔ آپ سمجھتے ہیں کہ اس نکاح کے شریک میرے سخت دشمن ہیں۔ بلکہ میرے کیا دین اسلام کے سخت دشمن ہیں۔ عیسائیوں کو ہنسانا چاہتے ہیں۔ ہندوؤں کو خوش کرنا چاہتے ہیں۔ اور اﷲ رسول کے دین کی کچھ بھی پرواہ نہیں رکھتے۔ اور اپنی طرف سے میری نسبت ان لوگوں نے پختہ ارادہ کر لیا ہے کہ اس کو خوار کیا جائے ، ذلیل کیا جائے ، رسوا کیا جائے۔ یہ اپنی طرف سے ایک تلوار چلانے لگے ہیں اب مجھ کو بچا لینا اﷲ تعالیٰ کا کام ہے۔ اگر میں اس کا ہوں گا تو ضرور مجھے بچائے گا ، اگر آپ کے گھر کے لوگ سخت مقابلہ کر کے اپنے بھائی کو سمجھاتے تو کیوں نہ سمجھ سکتا۔ کیا میں چوہڑا یا چمار تھا۔ جو مجھ کو لڑکی دینا عار یا ننگ تھی بلکہ وہ تو اب تک ہاں سے ہاں ملاتے رہے اور اپنے بھائی کے لیے مجھے چھوڑ دیا اور اب اس لڑکی کے نکاح کے لیے سب ایک ہو گئے۔ یوں تو مجھے کسی لڑکی سے کیا غرض کہیں جائیں مگر یہ تو آزمایا گیا کہ جن کو میں خویش سمجھتا تھا اور جن کی لڑکی کے لیے چاہتا تھا کہ اس کی اولاد ہو وہ میری وارث ہو۔ وہی میرے خون کے پیاسے اور وہی میری عزت کے پیاسے ہیں۔ اور چاہتے ہیں کہ خوار ہو اور اس کا رو سیاہ ہو۔ خدا بے نیاز ہے۔ جس کو چاہے رو سیاہ کرے مگر اب تو وہ مجھے آگ میں ڈالنا چاہتے ہیں۔ میں نے خط لکھے کہ پرانا رشتہ مت توڑو۔ خدا تعالیٰ سے خوف کرو۔ کسی نے جواب نہ دیا بلکہ میں نے سنا ہے کہ آپ کی بیوی نے جوش میں آ کر کہا ہے کہ ہمارا کیا رشتہ ہے صرف عزت بی بی نام کے لیے فضل احمد کے گھر میں ہے۔ بے شک وہ طلاق دے دے۔ ہم راضی ہیں اور ہم نہیں جانتے کہ یہ شخص کیا بلا ہے۔ ہم اپنے بھائی کے خلاف مرضی نہیں کریں گے۔ یہ شخص کہیں مرتا بھی نہیں۔ پھر میں نے رجسٹری کرا کر آپ کی بیوی صاحبہ کے نام خط بھیجا مگر کوئی جواب نہ آیا۔ اور بار بار کہا کہ اس سے کیا ہمارا رشتہ باقی رہ گیا ہے۔ جو چاہے کرے ہم اس کے لیے اپنے خویشوں سے اپنے بھائیوں سے جدا نہیں ہو سکتے۔ مرتا مرتا رہ گیا کہیں مرا بھی ہوتا۔ یہ باتیں آپ کی بیوی صاحبہ کی مجھے پہنچی ہیں۔ بے شک میں نا چیز ہوں ذلیل ہوں اور خوار ہوں مگر خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں میری عزت ہے جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ اب جب میں ایسا ذلیل ہوں تو میرے بیٹے سے تعلق رکھنے کی کیا حاجت ہے۔ لہٰذا میں نے ان کی خدمت میں خط لکھ دیا ہے کہ اگر آپ اپنے ارادے سے باز نہ آئے اور اپنے بھائی کو اس نکاح سے روک نہ دیں پھر جیسا کہ آپ کی خود منشاء ہے میرا بیٹا فضل احمد بھی آپ کی لڑکی کو اپنے نکاح میں نہیں رکھ سکتا۔ بلکہ ایک طرف جب محمدی کا کسی شخص سے نکاح ہو گا تو دوسری طرف فضل احمد آپ کی لڑکی کو طلاق دے دے گا۔ اگر نہیں دے گا تو میں اس کو عاق اور لا وارث کروں گا اور اگر میرے لیے احمد بیگ سے مقابلہ کرو گے اور یہ ارادہ اس کا بند کرا دو گے تو میں بدل و جان حاضر ہوں۔ اور فضل احمد کو جو اب میرے قبضہ میں ہے ہر طرح سے درست کر کے آپ کی لڑکی کی آبادی کے لیے کوشش کروں گا اور میرا مال ان کا مال ہو گا۔ لہٰذا آپ کو بھی لکھتا ہوں کہ آپ اس وقت کو سنبھال لیں۔ اور احمد بیگ کو پورے زور سے خط لکھیں کہ باز آ جائیں اور اپنے گھر کے لوگوں کو تاکید کریں کہ وہ بھائی کو لڑائی کر کے روک دیں۔ ورنہ مجھے خدا تعالیٰ کی قسم ہے میں ہمیشہ کے لیے یہ تمام رشتے ناطے توڑ دوں گا اگر فضل احمد میرا فرزند اور وارث بننا چاہتا ہے تو اسی حالت میں آپ کی لڑکی کو گھر میں رکھے گا۔ جب آپ کی بیوی کی خوشی ثابت ہو ۔ ورنہ جہاں میں رخصت ہوا ایسے ہی سب رشتے ناطے بھی ٹوٹ گئے۔ یہ باتیں خطوں کی معرفت مجھے معلوم ہوئی ہیں۔ میں نہیں جانتا کہ کہاں تک درست۔ واﷲ اعلم

راقم خاکسار غلام احمد از لدھیانہ اقبال گنج
4 مئی 1891 ء‘‘
کلمہ فضل ربانی : ص415-17
اس خط میں مرزا غلام قادیانی صاحب مرزا شیر علی کو کہتے ہیں کہ وہ اپنی بیوی کو تاکید کریں کہ وہ اپنے بھائی کو لڑائی کر کے روک دیں۔
قادیانیو! جواب دو کیا کوئی شریف آدمی بہن بھائی میں لڑائی اور فساد برپا کر سکتا ہے؟
 

ام ضیغم شاہ

رکن عملہ
منتظم اعلی
ناظم
مہمان
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
٭ مرزا قادیانی کا خط محمدی بیگم کی پھوپھی (مرزا علی شیر کی بیوی اور عزت بی بی کی والدہ) کے نام
’’والدہ عزت بی بی کو معلوم ہو کہ مجھ کو خبر پہنچی ہے کہ چند روز تک )محمدی بیگم( مرزا احمد بیگ کی لڑکی کا نکاح ہونے والا ہے۔ اور میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا چکا ہوں کہ اس نکاح سے سارے رشتے ناطے توڑ دوں گا اور کوئی تعلق نہیں رہے گا۔ اس لیے نصیحت کی راہ سے لکھتا ہوں کہ اپنے بھائی مرزا احمد بیگ کو سمجھا کر یہ ارادہ موقوف کراؤ۔ اور جس طرح تم سمجھا سکتے ہو اس کو سمجھا دو اور اگر ایسا نہیں ہو گا۔ تو آج میں نے مولوی نور دین صاحب اور فضل احمد کو خط لکھ دیا ہے کہ اگر تم اس ارادے سے باز نہ آؤ تو فضل احمد عزت بی بی کے لیے طلاق نامہ لکھ کر بھیج دے۔ اور اگر فضل احمد طلاق نامہ لکھنے میں عذر کرے تو اس کو عاق کیا جائے۔ اور اپنے بعد اس کو وارث نہ سمجھا جائے۔ اور ایک پیسہ وارثت کا اس کو نہ ملے۔ سو امید رکھتا ہوں کہ شرطی طور پر اس کی طرف سے طلاق نامہ لکھا آ جائے گا۔ جس کا یہ مضمون ہو گا۔ کہ اگر مرزا احمد بیگ محمدی کے غیر کے ساتھ نکاح کرنے سے باز نہ آئے تو پھر اسی روز سے جو محمدی کا کسی اور سے نکاح ہو جائے۔ عزت بی بی کو تین طلاق ہیں سو اس طرح پر لکھنے سے اس طرف تو محمدی کا کسی دوسرے سے نکاح ہو گا اور اس طرف عزت بی بی پر فضل احمد کی طلاق پڑ جائے گی۔ سو یہ شرطی طلاق ہے۔ اور مجھے اﷲ کی قسم ہے۔ کہ اب بجز قبول کرنے کے کوئی راہ نہیں۔ اور اگر فضل احمد نے نہ مانا تو میں فی الفور اس کو عاق کر دونگا۔ اور پھر وہ میری وراثت سے ایک دانہ نہیں پا سکتا اور اگر آپ اس وقت اپنے بھائی کو سمجھا لو تو آپ کے لیے بہتر ہو گا۔ مجھے افسوس ہے کہ میں نے عزت بی بی کی بہتری (نہیں مرزا صاحب غلط کہتے ہو اپنی نفسانی ہوس کی تسکین۔ سیالوی ) کے لیے ہر طرح سے کوشش کرنا چاہا تھا اور میری کوشش سے سب نیک بات ہو جاتی۔ مگر آدمی پر تقدیر غالب ہے۔ مگر یاد رہے میں نے کوئی کچی بات نہیں لکھی۔ مجھے قسم اﷲ تعالیٰ کی کہ میں ایسا ہی کروں گا اور خدا تعالیٰ میرے ساتھ ہے۔ جس دن نکاح ہوگا اس دن عزت بی بی کا نکاح باقی نہیں رہے گا۔‘‘
راقم خاکسار غلام احمد از لدھیانہ اقبال گنج
4 مئی 1891 ء ‘‘
کلمہ فضل ربانی : ص417-18
٭ مرزا قادیانی نے اپنی بہو عزت بی بی کو مجبور کیا اور اس نے اپنی والدہ کو یہ خط لکھا:
’’اس وقت میری بربادی اور تباہی کی طرف خیال کرو۔ مرزا صاحب کسی طرح مجھ سے فرق نہیں کرتے۔ اگر تم اپنے بھائی میرے ماموں کو سمجھاؤ تو سمجھا سکتے ہو۔ اگر نہیں تو پھر طلاق ہو گی۔ اور ہزار طرح کی رسوائی ہو گی۔ اگر منظور نہیں تو خیر جلدی مجھے اس جگہ سے لے جاؤ پھر میرا اس جگہ ٹھہرنا مناسب نہیں۔‘‘
کلمہ فضل ربانی : ص 419
کرے کوئی بھرے کوئی
قارئیں! ایسے ہی مواقع پر کہتے ہیں کہ کرے کوئی اور بھرے کوئی۔ نکاح کی بشارت اﷲ تعالیٰ نے دی تھی۔ تشہیر مرزا غلام قادیانی نے کی تھی۔
رشتہ دینے سے انکار محمدی بیگم کے والدین نے کیا تھا لیکن پٹ گئے بیچارہ فضل احمد اور اجڑ گئی بیچاری عزت بی بی۔ کوئی بتائے کہ اس سارے معاملے میں فضل احمد اور عزت بی بی کا کیا قصور تھا جس کی انہیں سزا مل رہی تھی؟
٭ مرزا غلام قادیانی نے محمدی بیگم کے حصول کے لیے ہر دروازہ کھٹکھٹایا لیکن ذلت و رسوائی کے سوا کچھ نہ ملا۔ مرزا صاحب کو پتا چلا کہ محمدی بیگم کا ایک ماموں خاندان میں بہت اثر و رسوخ والا ہے۔ انہوں نے اسے بھی یہ پیش کش کی کہ اگر تم محمدی بیگم سے میرا نکاح کرا دو تو میں تمہیں اس کا معاوضہ دوں گا۔ مرزا بشیر احمد اس کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’محمدی بیگم کے نکاح کا عقدہ زیادہ تر اسی شخص کے ہاتھ میں تھا اس لئے حضرت صاحب نے اس سے کچھ انعام (رشوت) کا وعدہ کر لیا تھا۔‘‘ سیرت المہدی : ج 1 ص 193
 

ام ضیغم شاہ

رکن عملہ
منتظم اعلی
ناظم
مہمان
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
بڑے بیٹے مرزا سلطان احمد اور فضل احمد کے بارے میں اشتہار
مرزا صاحب کے بیٹے سلطان احمد اور فضل احمد جوان تھے۔ انہیں بڑھاپے میں مرزا صاحب کی یہ عشق بازی اور اوچھی حرکتیں اچھی نہ لگیں۔ لہٰذا انہوں نے بھی کوشش کی کہ اس لڑکی(محمدی بیگم) کا نکاح کہیں اور ہو جائے تا کہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری۔ لیکن مرزا صاحب کو یہ گستاخی پسند نہ آئی۔ لہٰذا انہوں نے دونوں بیٹوں کو ایک اشتہار کے ذریعے عاق کر دیا۔ مکمل اشتہار کا متن درج ذیل ہے:
’’ناظرین کو یاد ہو گا کہ اس عاجز نے ایک دینی خصومت کے پیش آ جانے کی وجہ سے ایک نشان کے مطالبہ کے وقت اپنے ایک قریبی مرزا احمد بیگ ولد مرزا گاما بیگ ہوشیار پوری کی دختر کلاں کی نسبت بحکم الہام الٰہی یہ اشتہار دیا تھا کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے یہی مقدر اور قرار یافتہ ہے کہ وہ لڑکی اس عاجز کے نکاح میں آئے گی۔ خواہ پہلے ہی باکرہ ہونے کی حالت میں آ جائے یا خدا تعالیٰ بیوہ کر کے اس کو میری طرف لے آوے۔ چنانچہ تفصیل ان کل امور مذکورہ بالا کی اس اشتہار میں درج ہے۔ اب باعث تحریر اشتہار ہذا یہ ہے کہ میرا بیٹا سلطان احمد نام جو نائب تحصیلدار لاہور میں ہے اور اس کی تائی صاحبہ جنہوں نے اس کو بیٹا بنایا ہوا ہے وہی اس مخالفت پر آمادہ ہو گئے ہیں۔اور یہ سارا کام اپنے ہاتھ میں لے کر اس تجویز میں ہیں کہ عید کے دن یا اس کے بعد اس لڑکی کا کسی سے نکاح کیا جائے۔ اگر یہ اوروں کی طرف سے مخالفانہ کاروائی ہوتی تو ہمیں درمیان میں دخل دینے کی ضرورت اور کیا غرض تھی۔ امر ربی تھا۔ اور وہی اس کو اپنے فضل وکرم سے ظہور میں لاتا۔ مگر اس کام کے مدار المہام وہ لوگ ہو گئے جن پر اس عاجز کی اطاعت فرض تھی (نوٹ۔i) اور ہر چند سلطان احمد کو سمجھایا اور بہت تاکیدی خط لکھے کہ تو اور تیری والدہ اس کام سے الگ ہو جائیں ورنہ میں تم سے جدا ہو جاؤں گا۔ اور تمہارا کوئی حق نہیں رہے گا۔ مگر انہوں نے میرے خط کا جواب تک نہ دیا ۔ اور بکلی مجھ سے بیزاری ظاہر کی۔ اگر ان کی طرف سے ایک تیز تلوار کا بھی مجھے زخم پہنچتا تو بخدا میں اس پر صبر کرتا۔ لیکن انہوں نے دینی مخالفت کر کے اور دینی مقابلہ سے آزار دے کر مجھے بہت ستایا۔ اور اس حد تک میرے دل کو توڑ دیا کہ میں بیان نہیں کر سکتا اور عمداً چاہا کہ میں سخت ذلیل کیا جاؤں۔ سلطان احمد دو بڑے گناہوں کا مرتکب ہوا۔ اول: یہ کہ اس نے رسول اﷲ کے دین کی مخالفت کرنی چاہی۔ اور یہ چاہا کہ دین اسلام پر تمام مخالفوں کا حملہ ہو۔ اور یہ اپنی طرف سے اس نے ایک بنیاد رکھی ہے اس امید پر کہ یہ جھوٹے ہو جائیں گے اور دین کی ہتک ہو گی۔ (نوٹ۔ii)اور مخالفوں کی فتح۔ اس نے اپنی طرف سے مخالفانہ تلوار چالانے میں کچھ فرق نہیں کیا اور اس نادان نے نہ سمجھا کہ خدا وند قدیر وغیور اس دین کا حامی ہے اور اس عاجز کا بھی حامی ۔ وہ اپنے بندہ کو کبھی ضائع نہ کرے گا۔ اگر سارا جہان مجھے برباد کرنا چاہے تو وہ اپنی رحمت کے ہاتھ سے مجھ کو تھام لے گا۔ کیونکہ میں اس کا ہوں اور وہ میرا۔
دوم : سلطان احمد نے مجھے جو میں اس کا باپ ہوں سخت نا چیز قرار دیا اور میری مخالفت پر کمر باندھی اور قولی اور فعلی طور پر اس مخالفت کو کمال تک پہنچایا۔ اور میرے دینی مخالفوں کو مدد دی اور اسلام کی ہتک بدل و جان منظور رکھی۔ سو چونکہ اس نے دونوں طور کے گناہوں کو اپنے اندر جمع کیا۔ اپنے خدا کا تعلق بھی توڑ دیا اور اپنے باپ کا بھی۔ اور ایسا ہی اس کی والدہ نے کیا۔ سو جب کہ انہوں نے کوئی تعلق مجھ سے باقی نہ رکھا۔ اس لیے میں نہیں چاہتا کہ اب ان کاکسی قسم کا تعلق مجھ سے باقی رہے۔ اور ڈرتا ہوں کہ ایسے دینی دشمنوں سے پیوند رکھنے میں معصیت نہ ہو۔ لہٰذا میں آج کی تاریخ کہ 2 مئی 1891 ء ہے۔ عوام اور خواص پر بذریعہ اشتہار ہذا ظاہر کرتا ہوں کہ اگر یہ لوگ اس ارادے سے باز نہ آئے۔ اور وہ تجویز جو اس لڑکی کے ناطہ اور نکاح کرنے کی اپنے ہاتھ سے یہ لوگ کر رہے ہیں اس کو موقوف نہ کر دیا۔ اور جس شخص کو انہوں نے نکاح کے لیے تجویز کیا ہے اس کو رد نہ کیا بلکہ اسی شخص کے ساتھ نکاح ہو گیا تو اسی نکاح کے دن سے سلطان احمد عاق اور محروم الارث ہو گا اور اسی روز سے اس کی والدہ(حرمت بی بی ) پر میری طرف سے طلاق ہے۔ اور اگر اس کا بھائی فضل احمد جس کے گھر میں مرزا احمد بیگ والد لڑکی کی بھانجی ہے اپنی اس بیوی کو اسی دن جو اس کو نکاح کی خبر ہو اورطلاق نہ دیوے تو پھر وہ بھی عاق اور محروم الارث ہو گا۔ آئندہ ان سب کا کوئی حق میرے پر نہیں رہے گا۔ اور اس نکاح کے بعد تمام تعلقات خویشی و قرابت و ہمدردی دورہو جائے گی۔ اور کسی نیکی ، بدی ، رنج و راحت ، شادی اور ماتم میں ان سے شراکت نہیں رہے گی۔ کیونکہ انہوں نے آپ تعلق توڑ دیئے اور توڑنے پر راضی ہو گئے۔ سو اب ان سے کچھ تعلق رکھنا قطعاًحرام اور ایمانی غیوری کے بر خلاف اور ایک دیوثی کا کام ہے۔ مومن دیوث نہیں ہوتا۔(نوٹ۔iii)
چوں نہ بود خویش را دیانت و تقویٰ قطع رحم بہ از مودت قربیٰ
والسلام علی من اتبع الھدیٰ
مرزا غلام احمد لودیانہ
2 مئی 1891 ء ‘‘
 

ام ضیغم شاہ

رکن عملہ
منتظم اعلی
ناظم
مہمان
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
مجموعہ اشتہارات : ج 1 ص 221/219
نوٹ۔i مرزا غلام قادیانی تم غلط بیانی کر رہے ہو۔ ان پر تمہاری اطاعت صرف جائز کاموں میں فرض تھی ۔ لیکن جن کاموں میں تم پڑے ہوئے تھے یعنی دوسروں کی بیٹیوں پر غاصبانہ قبضہ اس میں ان پر تمہاری اطاعت فرض نہیں تھی۔ بلکہ مخالفت ضروری تھی۔ تم نے حدیث نہیں پڑھی:
’’لا طاعۃ لمخلوق فی معصیۃ الخالق مخلوق کی ایسی اطاعت نہیں کی جائے گی جس سے خالق کائنات کے حکم کی مخالفت ہو۔‘‘
مسند احمد : حدیث نمبر 1041
مصنف عبد الرزاق : کتاب الصلٰوۃ : حدیث نمبر 3788
مسند الشھاب القضاعی : باب لا طاعۃ لمخلوق : حدیث نمبر 873
مصنف ابن ابی شیبۃ : کتاب السیر : حدیث نمبر 33717
الجمع بین الصحیحین : المتفق علیہ عن علی ص بن ابی طالب : حدیث نمبر 132
نوٹ۔ii مرزا قادیانی تم پھر دھوکہ دے رہے ہو۔ اس معاملے کا دین اسلام سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ یہ صرف تمہارے نفس آوارہ کا مسئلہ تھا۔ لہٰذا سلطان احمد نے دین کی کوئی ہتک نہیں کی۔
نوٹ۔ iii مرزا جی مومن واقعی دیوث نہیں ہوتا۔ لیکن تم تو دیوث بنے رہے۔ جس عورت کا نکاح بقول تمہارے اﷲ تعالیٰ نے آسمان پر تم سے پڑھا دیا تھا، سلطان احمد نے اس پر قبضہ کر لیا۔ بیس سال تک وہ اس کا فراش بنی رہی اور اس کے بچے جنتی رہی۔ لیکن تم اپنی منکوحہ کو اس سے آزاد نہ کرا سکے۔ تمہارا خدا بھی تمہاری کوئی مدد نہ کر سکا۔ اگر تم کہو کہ سلطان احمد بہت طاقتور تھا ، آپ اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے تھے تو پھر میرا جواب یہ ہو گا کہ محمدی بیگم کو طلاق ہی دے دیتے اور سلطان احمد کو کہتے کہ اب اس سے نکاح کر لوتا کہ نہ تم حرام کے مرتکب ہو اور نہ میں دیوث بنو۔ لیکن تم سے تو یہ بھی نہ ہوسکا کیونکہ
ع غیرت نام تھا جس کا گئی ’’مرزا‘‘ کے گھر سے
کوئی قانونی جارہ جوئی کر لیتے۔ عدالت چلے جاتے۔ اپنی مہربان گورنمنٹ سے مدد مانگ لیتے۔
عاق خلاف شریعت ہے
قارئین! آپ نے دیکھا مرزا غلام قادیانی نے اپنے دو بیٹوں مرزا سلطان احمد اور مرزا فضل احمد کو اپنی وراثت سے عاق کیا۔ حالانکہ مرزا صاحب کو قرآن و سنت کی روشنی میں انہیں عاق کرنے کا کوئی حق نہیں تھا۔ اﷲ تعالیٰ نے اور رسول اﷲ ا نے بیٹے کو والدین کا بنیادی وارث قرار دیا ہے۔ بیٹا چاہے جتنا ہی نافرمان اور بد کردار ہو والدین اسکو اس کے حق سے محروم نہیں کر سکتے۔ اﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
{یُوْصِیْکُمُ اﷲُ فِیْ اَوْلَادِکُمْ لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ اﷲ تعالیٰ تم کو تمہاری اولاد کے بارے میں حکم فرماتا ہے۔ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے حصہ کے برابر ہے۔}
النساء : 11
نبی کریم ا نے ارشاد فرمایا:
’’ من فر من میراث وارثہ قطع اﷲ میراثہ من الجنۃ جو اپنے وارث کی میراث سے بھاگے گا (یعنی اسے وراثت سے محروم کرے گا) اﷲ تعالیٰ اس کی میراث جنت سے ختم کر دے گا۔‘‘
ابن ماجہ : کتاب الوصایا : حدیث نمبر 2703
کنز العمال : الوعید علی تارک الوصیۃ و الضار فیھا : حدیث نمبر 46082
المسند الجامع : مسند انس بن مالک الانصاری : حدیث نمبر 800
الفتح الکبیر : حرف المیم : 12080
اسنی المطالب فی احادیث مختلفۃ المراتب : حرف المیم : حدیث نمبر 1444
لیکن مرزا غلام قادیانی صاحب نے اﷲ تعالیٰ کے اس حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اور نبی رحمت ا کی وعید کو پس پشت ڈالتے ہوئے اپنے بیٹوں کو وراثت سے عاق کیا۔ ستم بالائے ستم یہ کہ مرزا صاحب نے اس نافرمانی اور گناہ کبیرہ کی تشہیر کی اور قرآن پاک کی اس وعید کے حقدار بنے کہ جو فحش اور گناہ کے کاموں کی تشہیر کرتا ہے اس کے لیے درد ناک عذاب ہے۔(النور : 19) بات صرف باپ بیٹوں تک محدود نہ رہی بلکہ تمام دنیا نے یہ تماشا دیکھا اور سنا۔
انجام کیا ہوا؟
مرزاغلام قادیانی صاحب کی منت و سماجت اور ترہیب و ترغیب کے تمام ہتھکنڈے نا کام ہو گئے۔ آسمانی عذاب کی دھمکیاں دھری کی دھری رہ گئیں۔ قادیانیوں کے نام نہاد خدا کے وعدے جھوٹے ثابت ہوئے اور پروگرام کے عین مطابق 7 اپریل 1892 ء کو محمدی بیگم کا نکاح سلطان احمد بیگ سے ہو گیا اور انہوں نے بڑی آسودہ اور فارغ البال زندگی گزاری۔
پیش گوئی کے تمام اجزاء جھوٹے ثابت ہوئے
پیش گوئی کے اجزاء درج ذیل ہیں:
1 اگر اس لڑکی کا نکاح مرزا صاحب سے نہ ہوا تو اس کا انجام برا ہو گا اور اس پر مصائب و آلام نازل ہوں گے۔
2 اس لڑکی کا نکاح مرزا قادیانی کے علاوہ کسی دوسرے شخص سے ہوا تو وہ شخص نکاح کے بعد اڑھائی سال میں فوت ہو جائے گا۔
3لڑکی کے والد احمد بیگ نے اس کا نکاح مرزا قادیانی سے نہ کیا تو وہ تین سال میں فوت ہو جائے گا۔
4 لڑکی کے والد اور خاوند کے گھر میں تنگی اور تفرقہ ہو گا۔
5 جو کچھ بھی ہو جائے انجام کار یہ لڑکی مرزا صاحب کے نکاح میں آئے گی۔
اب ہم ایک ایک جزو کی تفصیلات بیان کرتے ہیں اور دلائل و حقائق سے ثابت کرتے ہیںکہ پیش گوئی کے تمام اجزاء جھوٹے ثابت ہوئے۔
 

ام ضیغم شاہ

رکن عملہ
منتظم اعلی
ناظم
مہمان
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
پہلا جز … محمدی بیگم مصائب و آلام میں مبتلا ہو گی
پیش گوئی میں تھا کہ اگر محمدی بیگم کا نکاح مرزا صاحب سے نہ ہوا تو اس کا انجام برا ہو گا اور اس پر مصائب و آلام نازل ہوں گے۔ مگر معاملہ بالکل اس کے بر عکس ہوا۔ محمدی بیگم نے لمبی عمر پائی اور بڑی آسودہ اور خوشحال زندگی گزاری۔اﷲ تعالیٰ نے اسے مال و دولت اور آل اولاد کی فروانی کے ساتھ ساتھ ایمان و جان کی سلامتی اور صحت و تندرستی سے نوازا۔ محمدی بیگم 1966 ء میں نوے سال کی عمر میں جب فوت ہوئی تو اپنے پیچھے بیٹے بیٹیوں ، پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں کا انبوہ کثیر چھوڑا۔اس کے ایمان کی پختگی کا یہ عالم تھا کہ اس نے وفات سے پہلے وصیت کی کہ کوئی مرزائی میرے جنازے میں شریک نہ ہو۔
محمدی بیگم کا نکاح اگر مرزا قادیانی کے ساتھ ہوتا تو اسے کیا ملتا؟
٭ ایک ناکارہ بوڑھے شوہر کی رفاقت جو گونا گوں امراضِ خبیثہ کا مخزن تھا۔ قوت مردمی سے عاری اور حقوق زوجیت ادا کرنے سے معذور تھا۔
٭ ایک منہ زور سوکن کا سوکناپا۔
٭ تھوڑے ہی عرصے کے بعد شوہر کا حادثہ وفات اور پھر مسلسل58 برس کی بیوگی کا صدمہ اور در در کی ٹھوکریں۔
سلطان احمد بیگ کے ساتھ نکاح کر کے محمدی بیگم نے کیا پایا؟
٭ ایک خوبصورت ، تندرست و توانا اور کڑیل فوجی جوان شوہر کی لمبی مصاحبت ۔
٭ پوری زندگی کی آسودگی اور مالی خوشحالی جس کی نظیر کم ہی گھرانوں میں ملتی ہے۔
٭ مطیع و فرمانبردار اولاد
1930 ء میں سید محمد شریف (ساکن گھڑیالہ ضلع لاہور) نے سلطان احمد (خاوند محمدی بیگم) کو خط لکھا اور حالات دریافت کیے تو انہوں نے جواب میں لکھا:
’’السلام علیکم ! میں تا دم تحریر تندرست اور بفضل اﷲ زندہ ہوں۔ اﷲ کے فضل سے (فوجی) ملازمت کے وقت بھی تندرست رہا ہوں۔ میں اس وقت بعہدہ رسائی داری پنشن پر ہوں۔ ایک سو پینتیس روپے ماہوار پنشن ملتی ہے۔ گورنمنٹ کی طرف سے پانچ مربع اراضی عطا ہوئی ہے۔ قصبہ پٹی میں میری جدی زمین بھی میرے حصے میں قریباً سو بیگھہ آئی ہے۔ ضلع شیخوپورہ میں بھی تین مربع زمین ہے۔ میرے چھ لڑکے ہیں جن
میں سے ایک لاہور میں پڑھتا ہے۔ حکومت کی طرف سے اس کو پچیس روپے ماہوار وظیفہ ملتا ہے۔ دوسرا لڑکا پٹی میں انٹرنس میں تعلیم پا رہا ہے۔ میں خدا کے فضل سے اہل سنت و الجماعت ہوں۔ میں احمدی (قادیانی) مذہب کو برا سمجھتا ہوں۔ اس کا پیرو نہیں ہوں۔ اس کا دین جھوٹ سمجھتا ہوں۔‘‘
والسلام
تابعدار سلطان احمد بیگ پنشنر پٹی ضلع لاہور۔
قادیانیت اپنے آئینہ میں: ص 132
آگے چل کر ان نعمتوں میں اور اضافہ ہوتا گیا۔
دوسرا جز … محمدی بیگم کا خاوند اڑھائی سال میں فوت ہو جائے گا
پیش گوئی میں یہ تھا کہ اگر محمدی بیگم کا نکاح مرزا قادیانی کے علاوہ کسی اور شخص سے ہوا تو وہ شخص نکاح کے دن سے اڑھائی سال کے اندر فوت ہو جائے گا۔لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ 1892 ء میں سلطان احمد بیگ سے محمدی بیگم کا نکاح ہوا اور پورے 57 سال بعد 1948 ء میں اس کی وفات ہوئی۔
کیا سلطان احمد نے توبہ کرلی تھی؟
قادیانی یہاں ایک عذر لنگ پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ در اصل سلطان احمد بیگ اپنے خسر احمد بیگ کی موت سے خوف زدہ ہو گیا تھا اور اس نے دل ہی دل میں توبہ کر لی تھی۔ اس لیے اس کی موت ٹل گئی۔
لیکن یہ عذر محض ڈھکوسلاہے اور اس میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔ اگر سلطان احمد اپنے خسر احمد بیگ کی موت سے خوف زدہ ہو کر تائب ہو گیا تھا اور اس کی موت ٹل گئی تھی تو احمد بیگ کی موت کے ایک سال بعد مرزا صاحب نے یہ کیوں لکھا کہ سلطان احمد پیش گوئی کی مقررہ میعاد کے مطابق مر جائے گا۔ مرزا صاحب نے لکھا:
’’پھر مرزا احمد بیگ ہوشیار پوری کے داماد کی موت کی نسبت پیشگوئی جو پٹی ضلع لاہور کا باشندہ ہے جس کی میعاد آج کی تاریخ سے جو اکیس ستمبر 1893 ء ہے قریباً گیارہ مہینے باقی رہ گئی ہے۔‘‘
شہادۃ القرآن : ص 80 /روحانی خزائن : ج 6ص 375
احمد بیگ کی موت کے چار سال بعد 1896 ء میں مرزا صاحب نے لکھا:
’’میں بار بار کہتا ہوں کہ نفس پیش گوئی داماد احمد بیگ کی تقدیر مبرم ہے اس کی انتظار کرو اور اگر میں جھوٹا ہوں تو یہ پیش گوئی پوری نہیں ہو گی اور میری موت آ جائے گی۔‘‘
آنجام آتھم : ص 31 /روحانی خزائن : ج 11 ص 31
مرزا قادیانی جھوٹا تھا لہٰذا ایسا ہی ہوا کہ مرزا مر گیا لیکن پیش گوئی پوری نہیں ہوئی۔
احمد بیگ کی موت کے پانچ سال بعد 1897 ء میں مرزا صاحب نے ایک دفعہ پھر اس پیش گوئی کو دہرایا:
’’یاد رکھو کہ اس پیش گوئی کی دوسری جز (سلطان احمد بیگ کی موت) پوری نہ ہوئی تو میں ہر ایک بد سے بد تر ٹھہروں گا۔ اے احمقو! یہ انسان کا افتراء نہیں۔ یہ کسی خبیث مفتری کا کاروبار نہیں۔ یقینا سمجھو کہ یہ خدا کا سچا وعدہ ہے وہی خدا جس کی باتیں ٹلتیں نہیں۔‘‘
ضمیمہ رسالہ انجام آتھم : ص 54 /روحانی خزائن : ج 11 ص 338
پیش گوئی کے مطابق تو مرزا سلطان احمد بیگ کو نکاح کے بعد اڑھائی سال کے اندر اندر اس دنیا سے اٹھ جانا چاہیے تھا۔ لیکن لگتا ہے کہ مرزا سلطان احمد بہت سخت جان نکلا اور قادیانیوں کے خدا کو شکست دے کر 57 سال تک مسلسل ان کے سینے پر مونگ دلتا رہا۔
 

ام ضیغم شاہ

رکن عملہ
منتظم اعلی
ناظم
مہمان
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
تیسرا جز … محمدی بیگم کا والدتین سال میں فوت ہو جائے گا
پیش گوئی کا تیسرا جز یہ تھا کہ اگر محمدی بیگم کے والد احمد بیگ نے اس کا نکاح مرزا قادیانی سے نہ کیا تو وہ تین سال میں فوت ہو جائے گا۔ہوا یہ کہ محمدی بیگم کے سلطان احمد بیگ سے نکاح کے تقریباً چھ مہینے بعد محمدی بیگم کا والد احمد بیگ قضائے الٰہی سے فوت ہو گیا۔مرزا قادیانی اور اس کے پیرو کاروں نے ڈھنڈورا پیٹنا شروع کردیا کہ دیکھو پیش گوئی کے عین مطابق محمدی بیگم کا والد فوت ہو گیا ہے۔ یہ بھی ایک دھوکہ تھا۔ کیونکہ اصل پیش گوئی یہ تھی کہ پہلے محمدی بیگم کا خاوند سلطان احمد فوت ہو گا پھر اس کا والد احمد بیگ فوت ہو گا۔ اسی لیے پیش گوئی میں سلطان احمد کی وفات کی میعاد اڑھائی سال اور احمد بیگ کی وفات کی میعاد تین سال بتائی گئی ہے۔ سوچنے کا مقام ہے کہ اگر والد نے پہلے فوت ہونا تھا اور خاوند نے بعد میں تو پھر والد کی میعاد زیادہ اور خاوند کی میعاد کم بتانے کا کیا مطلب؟
خود مرزا صاحب کی تحریر سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ احمد بیگ کی وفات داماد کی وفات کے بعد ہو گی۔ مرزا صاحب محمدی بیگم کے والد کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں:
’’ اﷲ تعالیٰ نے مجھے خبر دی ہے کہ اگر تم (احمد بیگ) نے اس لڑکی کا نکاح کہیں اور کیا تو اس میں برکت نہیں ہو گی۔ میں تمہاری خیر خواہی کے لیے تمہیں بتا رہا ہوں کہ فان لم تزدجر فیصب علیک مصائب و آخر المصائب موتک اگر تو اس سے متنبہ نہ ہوا تو تجھ پر بہت مصیبتیں نازل ہوں گی جن میں سب سے آخری مصیبت تیری موت ہو گی۔‘‘
آئینہ کمالات اسلام : 573 /روحانی خزائن : ج 5 ص 573
اس عبارت سے صاف صاف اور دو ٹوک انداز میں ثابت ہو رہا ہے کہ احمد بیگ پہلے داماد کی موت اور لڑکی کی بیوگی کی مصیبت جھیلے گا اور بعد میں اسے موت آئے گی۔ کیوں کہ اس کی موت کو سب سے آخری مصیبت قرار دیا گیا ہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ محمدی بیگم کے نکاح کے صرف چھ ماہ بعد مرزا قادیانی کی پیش گوئی جھوٹی ثابت ہو گئی۔
’’اگر نکاح سے انحراف کیا تو اس لڑکی کا انجام نہایت ہی برا ہو گا اور جس کسی دوسرے شخص سے بیاہی جائے گی وہ روز نکاح سے اڑھائی سال تک اور ایسا ہی والد اس دختر کا تین سال تک فوت ہو جائے گا۔‘‘
آئینہ کمالات اسلام : ص 285-86/ روحانی خزائن : ج 5 ص 285-86
اس عبارت سے بھی صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ پہلے داماد فوت ہو گا پھر احمد بیگ فوت ہو گا۔ لیکن احمد بیگ پہلے فوت ہو گیا اور مرزا صاحب کی پیش گوئی جھوٹی ثابت ہو گئی۔
چوتھا جز … ان کے گھر میں تنگی اور تفرقہ ہو گا
پیش گوئی کا چوتھا جز یہ تھا کہ لڑکی کے والد اور خاوند کے گھر میں تنگی اور تفرقہ ہو گا۔ لیکن لگتا ہے کہ مرزا صاحب کے خدا کو غلطی لگ گئی۔ احمد بیگ ، سلطان احمد اور محمدی بیگم کے گھر میں تفرقہ ڈالنے کی بجائے اس نے مرزا قادیانی کے گھر میں تفرقہ ڈال دیا۔
٭ مرزا صاحب نے اپنی بیوی حرمت بی بی کو طلاق دے دی۔
٭ دو بیٹوں مرزا سلطان احمد اور فضل احمد کو عاق کر دیا۔
سیرت المہدی : ج 1 ص 29
٭ مرزا قادیانی کے بیٹے فضل احمد کی بیوی کو طلا ق ہو گئی اوراس کا گھر اجڑ گیا۔
سیرت المہدی : ج 1 ص 29
٭ مرزا صاحب نے اپنے بیٹے فضل احمد کا جنازہ نہیں پڑھا۔
اخبار الفضل : 15 دسمبر 1921 ء / بحوالہ قادیانیت اپنے آئینے میں : ص 178
لیکن احمد بیگ ، سلطان احمد اور محمدی بیگم کے گھر میں کوئی تفرقہ اور تنگی نہیں ہوئی انہوں نے پر سکون اور خوشحال زندگی گزاری۔
پانچواں جز … انجام کار محمدی بیگم مرزا صاحب کے نکاح میں آئے گی
پیش گوئی کا مرکزی اور بنیادی نقطہ یہ تھا کہ خدا تعالیٰ ہر رکاوٹ دور کر کے محمدی بیگم کو مرزا صاحب کے نکاح میں لائے گا۔ مرزا صاحب پوری زندگی بڑے زور دار الفاظ میں یہ نقطہ بیان کرتے رہے۔ چند حوالے ملاحظہ فرمائیں:
1893 ء میں مرزا صاحب نے لکھا:
’’قال انھا ستجعل ثیبۃ و یموت بعلھا و ابوھا الی ثلاث سنۃ من یوم النکاح ثم نردھا الیک بعد موتھما اﷲ تعالیٰ نے مجھے کہا کہ یہ عورت خاوند کرے گی ۔ نکاح کے بعد تین سال میں اس کا خاوند اور والد فوت ہو جائیں گے۔ ان دونوں کی موت کے بعد اسے میں تیرے نکاح میں لاؤں گا۔‘‘
کرامات الصادقین /روحانی خزائن : ج 7 ص 162
ستمبر 1894ء میں مرزا صاحب نے لکھا:
’’اس عورت کا اس عاجز کے نکاح میں آ جانا یہ تقدیر مبرم ہے جو کسی طرح ٹل نہیں سکتی۔ کیونکہ اس کے لیے الہام الٰہی میں یہ کلمہ موجود ہے کہ لا تبدیل لکلمات اﷲ یعنی میری یہ بات ہرگز نہیں ٹلے گی۔ پس اگر ٹل جائے تو خدا کا کلام باطل ہوتا ہے۔ اس نے فرمایا کہ میں اس عورت کو نکاح کے بعد واپس لاؤں گا اور تجھے (مرزا غلام قادیانی کو) دوں گا اور میری تقدیر کبھی نہیں بدلے گی اور میرے آگے کوئی بات ان ہونی نہیں اور میں سب روکوں کو اٹھا دوں گا ، جو اس کے نفاذ سے مانع ہوں۔‘‘
مجموعہ اشتہارات : ج 2 ص 43
1897 ء میں مرزا صاحب نے لکھا:
’’میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ یہ کام (محمدی بیگم کے ساتھ مرزا صاحب کا نکاح۔ سیالوی) ہو گیا۔ یہ کام ابھی باقی ہے۔ اس کو کوئی بھی حیلہ سے رد نہیں کر سکتا اور یہ تقدیر مبرم (قطعی اور اٹل) ہے۔ اس کا وقت آئے گا۔ … … اور میں اس جزو کو اپنے جھوٹے اور سچے ہونے کا معیار بناتا ہوں اور میں نے جو کہا ہے یہ اﷲ سے پا کر کہا ہے۔‘‘
مکتوب احمد : ص 223 /روحانی خزائن : ج 11 ص 223
1901 ء میں عدالت کے اندر ایک حلفیہ بیان دیتے ہوئے مرزا صاحب نے کہا:
’’احمد بیگ کی دختر کی نسبت جو پیش گوئی ہے وہ اشتہار میں درج ہے اور ایک مشہور امر ہے … وہ عورت میرے ساتھ بیاہی نہیں گئی مگر میرے ساتھ اس کا بیاہ ضرور ہو گا جیسا کہ پیش گوئی میں درج ہے۔ … یہ عورت اب تک زندہ ہے۔ میرے نکاح میں ضرور آئے گی۔ امید کیسی یقین کامل ہے۔ یہ خدا کی باتیں ہیں۔ ٹلتی نہیں ہو کر رہیں گے۔‘‘
الحکم قادیان : ص14-15 : 10 اگست 1901 ء
امید کا یہ سلسلہ جاری رہا اور 1905 ء میں مرزا صاحب نے فرمایا:
’’ وحی الٰہی میں یہ نہیں تھا کہ دوسری جگہ بیاہی نہیں جائے گی یہ تھا کہ ضرور ہے کہ اول دوسری جگہ بیاہی جائے سو یہ ایک پیش گوئی کا حصہ تھا کہ دوسری جگہ بیاہنے سے پورا ہوا۔ الہام الٰہی کے یہ لفظ ہیں سیکفیک ھم اﷲ و یردھا الیک یعنی خدا تیرے ان مخالفوں کا مقابلہ کرے گا اور وہ جو دوسری جگہ بیاہی جائے گی خدا پھر اوس کو تیری طرف لائے گا۔‘‘
الحکم : ص 2 : 30 جون 1905 ء
1907 ء میں مرزا صاحب نے لکھا:
’’ اور یہ امر کہ الہام میں یہ بھی تھا کہ اس عورت کا نکاح آسمان پر میرے ساتھ پڑھا گیا ہے یہ درست ہے۔‘‘
تتمہ حقیقۃ الوحی : ص 132 /روحانی خزائن : ج 22 ص 570
پیش گوئی کا یہ جز بھی دیگر اجزاء کی طرح سو فیصد جھوٹ ثابت ہوا۔ 26 مئی 1908 ء کو مرزا صاحب محمدی بیگم کا داغ دل میں لیے اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ ہر جائز و نا جائز حربہ استعمال کرنے کے باوجود وہ اپنی مزعومہ آسمانی منکوحہ کو مرزا سلطان احمد کے قبضہ سے نہ چھڑا سکے۔ عالم نزع میں مرزا صاحب بصد حسرت و یا س کہتے ہوں گے:
جدا ہوں یار سے ہم ، اور نہ ہو رقیب جدا ہے اپنا اپنا مقدر جدا ، نصیب جدا
احکام الٰہی کی کھلی خلاف ورزی
مذکورہ بالا تصریحات سے یہ بات واضح ہے کہ محمدی بیگم کا نکاح ہو جانے کے باوجود مرزا صاحب نے اس کا پیچھا نہیں چھوڑا۔ انہوں نے اسے اپنے اشتہارات کا موضوع بنائے رکھا۔ سالہا سال تک وہ اس شریف عورت اور اس کے خاندان کی عزت کو اچھالتے رہے۔
قادیانیو! جواب دو کہ شریعت اور اخلاق و مروّت کے کس اصول کے تحت مرزا قادیانی کسی دوسرے کی منکوحہ کے بارے میں اشتہار شائع کرتا رہا کہ وہ میری منکوحہ ہے۔ اس کا نکاح ضرور میرے ساتھ ہو گا ، وہ ضرور میرے عشرت کدے میں آئے گی اور میرے بستر کی زینت بنے گی؟
قرآن کہتا ہے کہ کسی کی منکوحہ کو نکاح کا پیغام بھیجنا حرام ہے بلکہ اگر اسے طلاق ہو جائے یا وہ بیوہ ہو جائے تب بھی عدت گزر جانے تک اسے نکاح کا پیغام نہیں بھیج سکتے۔ آیات ملاحظہ فرمائیں:
’’ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَائِ اور منکوحہ عورتیں (تم پر حرام ہیں)۔‘‘
النساء : 24
’’ وَ لَا تَعْزِمُوْا عُقْدَۃَ النِّکَاحِ حَتّٰی یَبْلُغَ الْکِتٰبَ اَجَلَہٗ اور جب تک عدت کا حکم اپنی میعاد کو نہ پہنچ جائے اس وقت تک تم نکاح باندھنے کا پختہ ارادہ نہ کرو۔‘‘
البقرۃ : 235
ان آیات کا ترجمہ میں نے مرزا قادیانی کے بیٹے بشیر الدین محمود کی ’’تفسیر صغیر‘‘ سے لکھا ہے تا کہ قادیانیوں کے لیے حجت رہے۔
 

ام ضیغم شاہ

رکن عملہ
منتظم اعلی
ناظم
مہمان
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
انسانی حقوق کا مسئلہ
مرزا صاحب نے محمدی بیگم کے ساتھ نکاح کی پیش گوئی کرکے اور اس کے بارے میں اشتہار چھاپ کر صرف اسلامی احکام کی خلاف ورزی نہیں کی بلکہ بنیادی انسانی حقوق کو بھی پامال کیا۔ کوئی بھی انسانی معاشرہ اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ کوئی کسی کی بیٹی، بیوی یا ماں کے بارے میں یہ دعویٰ کرے کہ میں اس سے نکاح کروں گا اور پھر اس کے اشتہار چھاپ کر چوراہوں پر لگائے۔ انسانی حقوق اور اخلاقی قدروں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مرزا صاحب نے مرزا احمد بیگ کی بیٹی اور مرزا سلطان احمد کی بیوی کے بارے میں اشتہار چھاپے اور دکانوں پر لگائے۔ یہ
سلسلہ ایک دو دن نہیں بلکہ مسلسل 20 سال چلتا رہا۔ جہاں بھی چند لوگ جمع ہوتے محمدی بیگم کا قصہ شروع ہو جاتا۔
محمدی بیگم کی اولاد ہو جانے کے بعد بھی مرزا صاحب اپنی شیطانی حرکتوں سے باز نہیں آئے۔
قارئین! درد مند دل کے ساتھ محمدی بیگم کے نو خیز بچوں کے بارے میں سوچیں ۔ وہ بچے جب بازاروں سے گزرتے ہوں گے اور لوگ ان کی طرف اشارے کر کے کہتے ہوں گے کہ یہ اس عورت کے بچے ہیں جس کے بارے میں دکانوں پر اشتہار لگے ہوئے ہیں تو ان پھولوں پر کیا گزرتی ہو گی؟
علاج بالمثل
مرزا صاحب جب شریعت ، اصول و مروت اور شرافت کے اصولوں کو تار تار کرتے رہے۔ دوسروں کی خواتین خانہ کی عزتیں اچھالتے رہے۔ شرم و حیا کا کوئی ضابطہ انہیں گھناؤنی حرکتوں سے نہ روک سکا تو جعفر زٹلی صاحب نے ان کا علاج بالمثل کیا اور وہ علاج کامیاب رہا۔ جعفر زٹلی صاحب نے اپنے رسالہ میں لکھا:
عنقریب میں نصرت جہاں بیگم (مرزا غلام احمد قادیانی کی بیوی) سے نکاح رچانے والا ہوں۔ مرزا غلام احمد مر جائے گا اور نصرت جہاں میرے نکاح میں آئے گی۔ پھر انہوں نے اس اعلان کی تائید میں کچھ خواب بھی سنائے اور بشارتیں بھی نقل کیں۔ مرزا صاحب نے جب یہ اعلان پڑھا تو غصے سے سرخ ہو گئے اور جعفر زٹلی کو خوب جلی کٹی سنائیں۔ مرزا صاحب نے لکھا:
’’اسی طرح میری بیوی کی نسبت شیخ محمد حسین اور اس کے دلی دوست جعفر زٹلی نے محض شرارت سے گندی خوابیں بنا کر سرا سر بے حیائی کی راہ سے شائع کیں اور میری دشمنی سے اس جگہ وہ لحاظ اور ادب بھی نہ رہا جو اہل بیت آل رسول کی پاک دامن خواتین سے رکھنا چاہیے مولوی کہلا نا اور یہ بے حیائی کی حرکات افسوس ہزار افسوس!‘‘
تحفہ گولڑویہ : ص 67 /روحانی خزائن : ج 17 ص 199
قادیانیوں جواب دو
٭ اگر جعفر زٹلی اس لیے بے حیاء اور بے شرم تھا کہ وہ مرزا غلام احمد قادیانی کی بیوی کے بارے میں خوابیں سناتا تھا اور اس کے ساتھ نکاح کے اشتہارا دیتا تھا تو مرزا قادیانی کیوں بے حیا نہیں جو سلطان احمد کی منکوحہ کے بارے میں الہامات سناتا تھا اور اس کے ساتھ نکاح کرنے کے اشتہار دیتا تھا؟
٭ اگر جعفر زٹلی اس وجہ سے قابل نفرت تھا تو مرزا قادیانی کیوں لائق نفرت نہیں؟
٭ مولوی ہو کر بے حیائی کی حرکات کرنا قابل افسوس ہے تو مدعی نبوت ہو کر بے حیائی کی حرکات قابل افسوس کیوں نہیں؟
٭ مرزا قادیانی کی بیوی ادب و احترام کی مستحق ہے تو دوسروں کی بیویاں کیوں ادب و احترام کی مستحق نہیں ہیں؟
٭ جعفر زٹلی مرزا قادیانی کی بیوی کے ساتھ نکاح کی خوابیں سنائے اور پیش گوئی کرے تو یہ بے ہودہ حرکت اور شرارت ٹھہرے لیکن مرزا قادیانی دوسروں کی بیویوں کے ساتھ نکاح کے دعوے کرے اور اشتہار چھاپے تو یہ اس کی صداقت کا نشان ٹھہرے ، قادیانیو! ایں چہ بو العجبی است؟
کیا بے دین کے لیے جنت کی بشارت ہو سکتی؟
قارئین! آپ پڑھ آئے ہیں کہ مرزا صاحب کی پہلی بیوی حرمت بی بی نے جب محمدی بیگم سے ان کا نکاح کرانے میں مدد نہیں کی تو مرزا
صاحب نے اسے نافرمان اور دین کا دشمن قراردے کر طلاق دے دی۔ لیکن ایک الہام میں مرزا صاحب اسی بیوی کو مبشرہ بالجنہ قرار دے چکے تھے۔ مرزا صاحب نے لکھا میری کل تین بیویاں ہونی تھیں۔ جن کے متعلق میرے الہاماتِ ذیل شاہد ہیں۔
’’یا آدم اسکن انت و زوجک الجنۃ یا مریم اسکن انت و زوجک الجنۃ یا احمد اسکن انت و زوجک الجنۃ اس جگہ تین جگہ زوج کا لفظ آیا ہے اور تین نام اس عاجز کے رکھے گئے۔ پہلا نام آدم۔ یہ وہ ابتدائی نام ہے جبکہ خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے اس عاجز کو روحانی وجود بخشا۔ اس وقت پہلی زوجہ کا ذکر فرمایا۔ پھر دوسری زوجہ کے وقت مریم نام رکھا … اور تیسری زوجہ (محمدی بیگم) جس کا انتظار ہے۔‘‘
ضمیمہ رسالہ انجام آتھم : ص 54/روحانی خزائن : ج 11 ص 338
قادیانیوں جواب دو۔ اگر مرزا صاحب کی پہلی بیوی مبشرہ بالجنہ تھی تو مرزا صاحب نے اسے دشمن دین قرار دے کر طلاق کیوں دی؟ اگر حرمت بی بی واقعی دین کی دشمن تھی تو پھر الہام میں اسے جنتی کیوں قرار دیا گیا؟ کیا دین کے دشمن کو جیتے جی جنت کی بشارت ہو سکتی ہے؟
قادیانیوں سے ایک سوال
مرزا صاحب لکھتے ہیں:
’’وہ عورت میرے ساتھ بیاہی نہیں گئی مگر میرے ساتھ اس کا بیاہ ضرور ہو گا جیسا کہ پیش گوئی میں درج ہے۔ اور وہ سلطان محمد سے بیاہی گئی ہے۔ جیسا کہ پیش گوئی میں تھا۔ ‘‘
الحکم قادیان : ص : 14 : 10 اگست 1901 ء
30 جون 1905 ء کو ’’الحکم‘‘ کے ص 2 پر مرزا صاحب نے لکھا:
’’وحی الٰہی میں یہ نہیں تھا کہ دوسری جگہ بیاہی نہیں جائے گی یہ تھا کہ ضرورہے کہ اول دوسری جگہ بیاہی جائے۔‘‘
ان تحریروں میں مرزا صاحب یہ تأثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ انہیں پتا تھا کہ محمدی بیگم کا پہلے سلطان محمد بیگ سے نکاح ہو گا۔ پیش گوئی میں یہ بتا دیا گیا تھا۔
قادیانیوں سے سوال یہ ہے کہ اگر وحی میں موجود تھا کہ محمدی بیگم اول ضرور دوسری جگہ بیاہی جائے گی تو مرزا صاحب نے اس کے رشتہ داروں کو کسی اور سے نکاح کرنے کی صورت میں عذاب کی دھمکیاں کیوں دیں؟
سلطان محمدسے محمدی بیگم کا نکاح کرانے کے جرم میں اپنی بیوی (حرمت بی بی ) کو طلاق کیوں دی؟
اپنے دو بیٹوں مرزا سلطان احمد اور فضل احمد کو نافرمان قرار دے کر عاق کیوں کیا؟
مرزا قادیانی نے اپنی بہو عزت بی بی کو طلاق دلوا کر اس کا گھر کیوں اجاڑا؟
یہ سارے تو مرزا صاحب کی نام نہاد وحی اور پیش گوئی کو پورا کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ انہیں تو انعام ملنا چاہیے تھا۔
 

ام ضیغم شاہ

رکن عملہ
منتظم اعلی
ناظم
مہمان
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
مرزا قادیانی اپنے معیار کے مطابق کذاب اور دجال ثابت ہو گئے
محمدی بیگم سے نکاح کی پیش گوئی مرزا صاحب کی سب سے اہم پیش گوئی ہے۔ اسے انہوں نے اپنی کتابوں میں بار بار دہرایا ہے اور اسے اپنے سچا اور جھوٹا ہونے کا معیار قرار دیا ہے۔ مرزا صاحب نے اعلان کیا کہ اگر یہ پیش گوئی پوری ہو جائے اور محمدی بیگم سے میرا نکاح ہو جائے تو میں سچا اور اگر محمدی بیگم سے نکاح نہ ہو تو میں بھی جھوٹا اور میرے سارے دعوے بھی جھوٹے۔ مرزا صاحب لکھتے ہیں:
’’میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ یہ کام (محمدی بیگم کے ساتھ مرزا صاحب کا نکاح) ہو گیا۔ یہ کام ابھی باقی ہے۔ اس کو کوئی بھی حیلہ سے رد نہیں کر سکتا اور یہ تقدیر مبرم (قطعی اور اٹل) ہے۔ اس کا وقت آئے گا۔ … … اور میں اس جزو کو اپنے جھوٹے اور سچے ہونے کا معیار بناتا ہوں اور میں
نے جو کہا ہے یہ اﷲ سے پا کر کہا ہے۔‘‘
مکتوب احمد : ص 223 /روحانی خزائن : ج 11 ص 223
’’میں بار بار کہتا ہوں کہ نفس پیش گوئی داماد احمد بیگ کی تقدیر مبرم ہے اس کی انتظار کرو اور اگر میں جھوٹا ہوں تو یہ پیش گوئی پوری نہیں ہو گی اور میری موت آ جائے گی۔‘‘
آنجام آتھم : ص 31 /روحانی خزائن : ج 11 ص 31
’’یاد رکھو کہ اس پیش گوئی کی دوسری جز (سلطان احمد کی موت) پوری نہ ہوئی تو میں ہر ایک بد سے بد تر ٹھہروں گا۔‘‘
ضمیمہ رسالہ انجام آتھم : ص 54 /روحانی خزائن : ج 11 ص 338
مرزا صاحب نے احمد بیگ کو جو خط لکھا اس کے آخر میں لکھا:
’’اگر میعاد گزر جائے اور سچائی ظاہر نہ ہو تو میرے گلے میں رسی اور پاؤں میں زنجیر ڈالنا اور مجھے ایسی سزا دینا کہ تمام دنیا میں کسی کو نہ دی گئی ہو۔‘‘
آئینہ کمالات اسلام : ص 574 /روحانی خزائن : ج 5 ص 574
مرزا صاحب کے یہ الفاظ بھی پڑھیے:
’’اور احمد بیگ کی دختر کلاں کا اس عاجز کے نکاح میں آنا یہ پیش گوئیاں تیری طرف سے ہیں تو ان کو ایسے پورا طور سے ظاہر فرما جو خلق اﷲ پر حجت ہو اور کور باطن حاسدوں کا منہ بند ہو جائے اور اگر اے خدا وند یہ پیش گوئیاں تیری طرف سے نہیں ہیں تو مجھے نا مرادی اور ذلت کے ساتھ ہلاک کر اگر تیری نظروں میں مردود اور ملعون اور دجال ہی ہوں جیسا کہ مخالفوں نے سمجھا ہے۔‘‘
مجموعہ اشتہارات : ج 2 ص 116
مرزا صاحب بیس سال تک دن رات تڑپتے رہے کہ کسی طرح یہ پیش گوئی پوری ہو جائے اور وہ سچے ثابت ہو جائیں اور ساتھ ہی جنسی ہوس کی تسکین کا سامان بھی ہو جائے۔ لیکن وہ اپنے مقصد میں بری طرح نا کام ہوئے۔ محمدی بیگم کو پانے کے لیے طرح طرح کی تدبیریں کرتے رہے لیکن اﷲ تعالیٰ نے ان کی ہر تدبیر الٹی کر دی۔ سلطان احمد مرا اور نہ ہی محمدی بیگم ان کے نکاح میں آئی۔ اس طرح مرزا صاحب اپنے بنائے ہوئے معیار کے مطابق کذاب ، دجال ، ملعون ، ذلیل و رسوا ، ہر ایک سے بد تر اور کور باطن ثابت ہو گئے۔
قادیانیوں کی طرف سے محمدی بیگم سے نکاح نہ ہونے کی بھونڈی تأویلیں
پہلی تأویل
قادیانی کہتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے محمدی بیگم کا نکاح ان سے کر دیا تھا مگر محمدی بیگم نے جب توبہ کر لی تو وہ نکاح فسخ ہو گیا۔ یہ تأویل سب سے پہلے مرزا قادیانی نے خود کی۔ وہ لکھتے ہیں:
’’اس نکاح کے ظہور کے لیے جو آسمان پر پڑھا گیا خدا کی طرف سے ایک شرط بھی تھی جو اسی وقت شائع کی گئی تھی اور وہ یہ کہ ایتھا المرأۃ توبی توبی فان البلاء علی عقبک پس جب ان لوگوں نے اس شرط کو پورا کر دیا تو نکاح فسح ہو گیا یا تاخیر میں پڑ گیا۔‘‘
تتمہ حقیقۃ الوحی : ص 133-34 /روحانی خزائن : ج 22 ص 570
لیکن یہ تأویل بالکل دور از کار اور بھونڈی ہے اس لیے کہ
1 پیش گوئی میں یہ شرط نہیں ہے۔ انیس بیس سال تک محمدی بیگم سے نکاح پر اشتہار بازی ہوتی رہی ، مرزا صاحب نے اس پر سینکڑوں صفحات سیاہ کیے لیکن کہیں بھی نکاح کو توبہ کے ساتھ مشروط نہیں کیا گیا۔ 1907 ء میں پہلی دفعہ یہ شرط سامنے لائی گئی۔ اگر اس سے پہلے کہیں یہ شرط شائع ہوئیتھی تو قادیانی ثابت کریں۔
2 اگر ایک لمحہ کے لیے مان لیں کہ واقعی یہ شرط تھی اور ان لوگوں نے اس شرط کو پورا کر دیا اس لیے نکاح فسخ ہو گیا تو سوال پیدا ہو گا کہ مرزا صاحب کے خدا نے انہیں اس توبہ کی اطلاع کیوں نہیں دی؟ پندرہ بیس سال انہوں نے یہ رٹ کیوں لگائے رکھی کہ اﷲ تعالیٰ ضرور اسے میرے نکاح میں لائے گا اور یہ تقدیر مبرم ہے؟
3 یہ بات بھی سمجھ سے بالا تر ہے کہ عورت کے توبہ کرنے سے نکاح کا رشتہ ٹوٹ گیا۔ قادیانیو! بتاؤ فقہ کی کس کتا ب میں یہ اصول لکھا ہوا ہے کہ عورت گناہ سے توبہ کرے تو اس کا نکاح ٹوٹ جاتا ہے اور وہ اپنے شوہر پر حرام ہو جاتی ہے۔ دنیا کے کسی کونے میں یہ قانون رائج ہے تو نشاندہی کرو۔ اور نہیں تو اپنے لٹریچر سے ہی کوئی حوالہ پیش کر دو۔
4 قادیانیو! یہ بھی بتاؤ کہ محمدی بیگم نے توبہ کیوں کی ، اس سارے قصے میں اس کا گناہ کیا ہے؟
توبہ کرے تو مرزا صاحب کا خدا کرے جس نے ان سے نکاح کا وعدہ کیا لیکن پورا نہیں کیا۔
توبہ کرے تو مرزا احمد بیگ کرے جس نے مرزا قادیانی کے خدا کے ارادوں کو ناکام بنایا۔
توبہ کرے تو مرزا قادیانی کرے جس نے بلا وجہ اپنی بے گناہ بیوی کو طلا ق دے دی۔
توبہ کرے تو مرزا سلطان احمد اور فضل احمد کا باپ کرے جس نے شریعت کی خلاف ورزی کرتے ہوئے انہیں وراثت سے عاق کر دیا۔
مرزا قادیانی اس بات سے بھی توبہ کرے کہ اس نے کسی دوسرے کی منکوحہ کے ساتھ نکاح کے اشتہار شائع کیے اور اس کی آبرو کو پامال کیا۔
5 پھر یہ بات بھی عقل سے ما وراء ہے کہ شرط تو یہ تھی کہ عورت توبہ کرے لیکن مرزا صاحب لکھتے ہیں کہ ان لوگوں نے شرط کو پورا کر دیا تو نکاح فسخ ہو گیا یا تاخیر میں پڑ گیا۔ یہ کیسی شرط ہے کہ اس کا تعلق عورت سے ہے لیکن اسے پورا کوئی اور کر رہا ہے؟
6 سوال تو یہ بھی ہے کہ اس پر کیا دلیل ہے کہ ان لوگوں نے توبہ کر کے شرط کو پورا کر دیا تھا؟
کیا وہ تائب ہو کر آئے تھے اور انہوں نے مرزا صاحب سے معافی مانگی تھی؟
کیا انہوں نے سلطان احمد کو مجبورکیا تھا کہ وہ محمدی بیگم کو طلاق دے دے؟
کیا سلطان احمد مرزا صاحب کے حق میں محمدی بیگم سے دستبردار ہو گیا تھا اور اس نے اسے طلاق دے دی تھی؟
7 مرزا صاحب کے یہ الفاظ بھی توجہ طلب ہیں۔ ’’نکاح فسخ ہو گیا یا تاخیر میں پڑ گیا‘‘۔ یہ جملہ بھی بول بول کر کہہ رہا ہے کہ یہ سب جھوٹ کا پلندہ ہے اس کا الہام سے کوئی تعلق نہیں۔ کیونکہ مرزا صاحب نے تصریح کی ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے آسمان پر محمدی بیگم کا نکاح ان سے پڑھا دیا تھا۔ جو کام ہو چکا تھا وہ تاخیر میں کیسے پڑ گیا؟
8 مرزا صاحب کی طرح ان کا خدا بھی متردد رہتا تھا۔ اسے کسی بات کا یقین نہیں ہوتا تھا۔ اسی لیے تو کہتا ہے ’’نکاح فسخ ہو گیا یا تاخیر میں پڑ گیا‘‘۔ یعنی اسے بھی علم نہیں کہ فسخ ہوا یا تاخیر میں پڑا۔اگر علم ہوتا تو فسخ و تاخیر میں سے کسی ایک چیز کا ذکر کرتا۔
9 فسخ ہونا اور تاخیر میں پڑ جانا دو متضاد باتیں ہیں۔ یہ دونوں ایک واقعہ پرکیسے منطبق ہو سکتی ہیں؟ فسخ سے یہ پتا چلتا ہے کہ نکاح پہلے ہو چکا تھا ۔ کیونکہ فسخ تب ہو سکتا جب وہ پہلے ہو چکا ہو۔ لیکن تاخیر میں پڑنے سے پتا چلتا ہے کہ نکاح ابھی تک نہیں ہوا تھا بلکہ ہونے سے پہلے ملتوی ہو گیا۔ بتلایئے سچ کیا ہے اور جھوٹ کیا ہے؟
10 قرآن و سنت سے پتا چلتا ہے کہ توبہ سے عذاب ٹلتے ہیں۔ مصیبتیں دور ہوتی ہیں۔ یہاں محمدی بیگم کی توبہ سے مرزا صاحب کے ساتھ اس کا نکاح ٹل گیا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ مرزا غلام احمد کے ساتھ محمدی بیگم کا نکاح اس کے لیے عذاب اور مصیبت تھا جو توبہ کے وسیلہ سے ٹل گیا۔
حالانکہ کہ مرزا صاحب نے تو یہ بتایا تھا کہ میرے ساتھ محمدی بیگم کا نکاح اس کے لیے برکات و انعامات کا ذریعہ بنے گا۔
11 قادیانی محقق ملک عبد الرحمن نے پاکٹ بک میں لکھا ہے کہ ایتھا المرأۃ کا مخاطب محمدی بیگم نہیں بلکہ اس کی نانی ہے۔ جو نکاح میں اصل رکاوٹ تھی۔ اس نے توبہ کر لی اس لیے نکاح فسخ ہو گیا یا تاخیر میں پڑ گیا۔ یہ بھی غلط ہے۔ محمدی بیگم کی نانی نے کوئی توبہ نہیں کی۔ نہ وہ مرزا غلام احمد کے دعاوی پر ایمان لائی اور نہ اپنی نواسی اس کو دینے کے لیے راضی ہوئی۔
 
Top