تحریر:۔ مولانا محمد دین سیالوی صاحب
محمدی بیگم سے نکاح کی پیش گوئی مرزا صاحب کی سب سے اہم پیش گوئی ہے۔ اسے انہوں نے اپنی کتابوں میں بار بار دہرایا ہے اور اسے اپنے سچا اور جھوٹا ہونے کا معیار قرار دیا ہے۔ مرزا صاحب نے اعلان کیا کہ اگر یہ پیش گوئی پوری ہو جائے اور محمدی بیگم سے میرا نکاح ہو جائے تو میں سچا اور اگر محمدی بیگم سے نکاح نہ ہو تو میں بھی جھوٹا اور میرے سارے دعوے بھی جھوٹے۔اس مختصر تحریر میں میںنے مرزا صاحب کی اس پیش گوئی کا تجزیہ کیا ہے اور مضبوط دلائل سے ثابت کیا ہے کہ یہ پیش گوئی جھوٹی ثابت ہوئی اور مرزا صاحب اپنے بنائے ہوئے معیار کے مطابقکذاب ، دجال ، ملعون ، ذلیل و رسوا ، ہر ایک سے بد تر اور کور باطن ثابت ہو گئے۔
مرزا احمد بیگ مرزا غلام قادیانی کے ماموں زاد بھائی اور عمر النساء ان کی چچا زاد بہن تھی اور یہ دونوں آپس میں میاں بیوی تھے۔ان دونوں کی ایک بیٹی تھی جس کا نام محمدی بیگم تھا۔مرزا غلام قادیانی کے بیٹے فضل احمد کی بیوی محمدی بیگم کی پھوپھی زاد بہن تھی۔ اس لیے محمدی بیگم مرزا صاحب کی اولاد کے درجے میں تھی اور رشتہ میں ان کی بھتیجی یا بھانجی بنتی تھی۔ لیکن مرزا صاحب اسے کسی اور نظر سے دیکھتے تھے۔ محمدی بیگم کے بچپن سے جوانی تک کے نشیب و فراز مرزا صاحب کی نگاہوں کے سامنے تھے۔ اس کی اٹھتی جوانی اور ابھرتے ہوئے خد و خال دیکھ دیکھ کر انہوں نے کئی دفعہ ایک اور شادی کے الہامات شائع کیے لیکن صراحت سے اس کا نام نہ لیا۔ بعد میں خود ہی وضاحت کر دی کہ ان الہامات میں جس عورت سے شادی کا ذکر ہے وہ محمدی بیگم ہے۔
مرزا نظام الدین ، مرزا کمال الدین ، مرزا امام الدین اور مرزا غلام حسین مرزا غلام قادیانی کے چچا زاد بھائی اور محمدی بیگم کے ماموں تھے۔ مرزا غلام حسین عرصہ 25 سال سے مفقود الخبر تھا اور اس کی بیوی مرزا احمد بیگ (محمدی بیگم کے والد) کی بہن تھی۔ غلام حسین کی مفقود الخبری میں اس کی جائیداد اس کی بیوی یعنی مرزا احمد بیگ کی بہن کو منتقل ہو گئی۔ مرزا احمد بیگ نے اپنی بہن سے کہا تیری اولاد نہیں ہے لہٰذا تو اپنی یہ جائیداد میرے لڑکے محمد بیگ کو ہبہ کر دے۔ بہن راضی ہو گئی اور اس نے ہبہ نامہ لکھ دیا۔ لیکن اس وقت کے رائج برٹش قانونِ وراثت کے مطابق مرزا غلام حسین کے بھائیوں (مرزا نظام الدین ، مرزا کمال الدین ، مرزا امام الدین) اور چچا زاد بھائی مرزا غلام قادیانی کی تصدیق اور رضا مندی کے بغیر یہ ہبہ نامہ نافذ نہیں ہو سکتا تھا۔ احمد بیگ نے تصدیق اور تائید کے لیے غلام حسین کے بھائیوں سے رجوع کیا تو انہوں نے فوراً دستخط کردیے۔ لیکن جب وہ اس غرض سے مرزا غلام قادیانی کے پاس آیا تو انہوں نے اسے سنہری موقع جانا اور محمدی بیگم کے حصول کے لیے مرزا احمد بیگ کی اس مجبوری سے فائدہ اٹھانے کی ٹھان لی۔ مرزا غلام قادیانی نے احمد بیگ سے کہا کہ میں پہلے استخارہ کروں گا اور اس کے بعد کوئی فیصلہ کروں گا۔
احمد بیگ مرزا غلام قادیانی کے پس پردہ مقاصد اور محمدی بیگم کے حوالے سے ان کے ناپاک ارادوں سے قطعی بے خبر تھا۔ وہ مرزا صاحب کو ہبہ نامہ کی تصدیق کے لیے متوجہ کرتا رہا اور مرزا صاحب اسے ستخارہ کے بہانے سے ٹالتے رہے۔ جب اس کا اصرار بڑھا اور مرزا صاحب نے اندازہ کر لیا کہ وہ ہر صورت یہ جائیداد حاصل کرنا چاہتا ہے تو انہوں نے احمد بیگ کو ایک خط لکھا۔
مرزا غلام صاحب اپنی نفسانی خواہشات کی تکمیل کے لیے خدائی الہام کو ہمیشہ ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ مرزا صاحب کی بیگم نیا مکان بنانے کا مطالبہ کرتی تو مرزا صاحب مریدوں سے کہتے اﷲ تعالیٰ نے الہام کیا ہے کہ نیا مکان بناؤلہٰذا سارے چندہ دو۔ اگر کوئی چیز بیکار ہو جاتی اور اسے ٹھکانے لگانا ہوتا تو مرزا صاحب کہتے اﷲ تعالیٰ نے الہام کیا ہے کہ جو اس چیز کو استعمال کرے گا وہ بر کات اور انعامات سے مستفیض ہو گا۔ پھر اندھے عقیدت مند اس چیز پر ٹوٹ پڑتے اور اپنی جمع پونجی لگا کر مرزا صاحب سے وہ چیز خرید لیتے۔ اپنی عادت جاریہ کے مطابق مرزا غلام قادیانی نے احمد بیگ کو لکھا کہ اﷲ تعالیٰ نے مجھے الہام کیا ہے کہ میں تمہاری بیٹی محمدی بیگم سے نکاح کروں ، تب ہبہ نامہ پر دستخط کروں۔اگر تم اس کا نکاح مجھ سے کر دو تو میں ہبہ نامہ پر دستخط کر دوں گا ورنہ دستخط نہیں کروں گا۔ ساتھ ہی مرزا صاحب نے نکاح کرنے کی صورت میں برکات و انعامات کے وعدے اور نکاح نہ کرنے کی صورت میں آسمانی عذاب کی دھمکیاں بھی لکھ بھیجیں۔ مرزا احمد بیگ نے خط پڑھا تو اس کے ہوش اڑ گئے کہ ایک شخص جو مامور من اﷲ ہونے کا دعویدار ہے وہ اس طرح سودے بازی اور بلیک میلنگ کر رہا ہے۔ اب یہ ساری کہانی مرزا صاحب کی اپنی زبانی سنیے۔ مرزا صاحب لکھتے ہیں:
’’تفصیل اس کی یہ ہے کہ نام بردہ (احمد بیگ) کی ایک ہمشیرہ ہمارے ایک چچا زاد بھائی غلام حسین نام کو بیاہی گئی تھی۔ غلام حسین عرصہ پچیس سال سے کہیں چلا گیا ہے اور مفقود الخبر ہے۔ اس کی زمین ملکیت جس کا ہمیں حق پہنچتا ہے (نوٹ)نامبردہ کی ہمشیرہ کے نام کاغذات سرکاری میں درج کرا دی گئی تھی۔ اب حال کے بند وبست میں جو ضلع گورداسپورہ میں جاری ہے نامبردہ یعنی ہمارے خط کے مکتوب الیہ (مرزا احمد بیگ) نے اپنی ہمشیرہ کی اجازت سے یہ چاہا کہ وہ زمین جو چار ہزار یا پانچ ہزار روپیہ کی قیمت کی ہے اپنے بیٹے محمد بیگ کے نام بطور ہبہ منتقل کرا دیں۔ چنانچہ ان کی ہمشیرہ کی طرف سے یہ ہبہ نامہ لکھا گیا۔ چونکہ وہ ہبہ نامہ بجز ہماری رضا مندی کے بیکار تھا اس لیے مکتوب الیہ نے بتمام تر عجز و انکسار ہماری طرف رجوع کیا۔ تا ہم اس ہبہ پر راضی ہو کر اس ہبہ نامہ پر دستخط کر دیں اور قریب تھا کہ دستخط کر دیتے لیکن یہ خیال آیا کہ جیسا کہ ایک مدت سے بڑے بڑے کاموں میں ہماری عادت ہے جناب الٰہی میں استخارہ کر لینا چاہیے۔ سو یہی جواب مکتوب الیہ کو دیا گیا۔پھر مکتوب الیہ کے متواتر اصرار سے استخارہ کیا گیا وہ استخارہ کیا تھا گویا آسمانی نشان کی درخواست کا وقت آ پہنچا تھا جس کو خدا تعالیٰ نے اس پیرایہ میں ظاہر کر دیا۔ اس خدائے قادر حکیم مطلق نے مجھے فرمایا کہ اس شخص کی دختر کلاں (بڑی بیٹی) کے نکاح کے لیے سلسلہ جنبانی کر اور ان کو کہہ دے کہ تمام سلوک اور مروت تم سے اسی شرط سے کیا جائے گا اور نکاح تمہارے لیے موجب برکت اور ایک رحمت کا نشان ہو گا اور ان تمام برکتوں اور رحمتوں سے حصہ پاؤ گے جو اشتہار 20 فروری 1888 ء میں درج ہیں لیکن اگر نکاح سے انحراف کیا تو اس لڑکی کا انجام نہایت ہی برا ہو گا اور جس کسی دوسرے شخص سے بیاہی جائے گی وہ روز نکاح سے اڑھائی سال تک اور ایسا ہی والد اس دختر کا تین سال تک فوت ہو جائے گا۔ اور ان کے گھر پر تفرقہ اور تنگی اور مصیبت پڑے گی اور درمیانی زمانہ میں بھی اس دختر کے لیے کئی کراہت اور غم کے امر پیش آئیں گے۔
پھر ان دنوں میں جو زیادہ تصریح اور تفصیل کے لیے بار بار توجہ کی گئی تو معلوم ہوا کہ خدا تعالیٰ نے یہ مقرر کر رکھا ہے کہ وہ مکتوب الیہ کی دختر کلاں کو جس کی نسبت درخواست کی گئی تھی ہر ایک روک دور کرنے کے بعد انجام کار اسی عاجز کے نکاح میں لاوے گا۔ ‘‘
آئینہ کمالات اسلام : ص 285-86/ روحانی خزائن : ج 5 ص 285-86
نوٹ
مرزا صاحب کا یہ کہنا کہ زمین میں ہمارا حق تھا، غلط ہے یا پھر مرزا صاحب کی اسلامی قانون وراثت سے جہالت کی نشانی ہے۔ اس لیے کہ غلام حسین کی جائیداد میں مرزا صاحب کا شرعاً کوئی حق نہیں بنتا تھا۔ اس کے بھائی مرزا نظام الدین ، مرزا کمال الدین ، مرزا امام الدین زندہ تھے اور بھائیوں کے ہوتے ہوئے چچا زاد بھائی کو کچھ نہیں ملتا۔ بھائی عصبہ قریب ہیں اور چچا زاد عصبہ بعید ۔ شرعی اصول یہ ہے کہ عصبہ قریب کے ہوتے ہوئے عصبہ بعید کو کچھ نہیں ملتا۔ قادیانی بھی یہ مانتے ہیں ۔ قادیانی محقق لکھتے ہیں:
’’عصبات کی درجہ بندی ( الاقرب فالاقرب) کے اصول کے تحت ہے یعنی جن رشتہ داروں کی قرابت متوفی سے نزدیکی ہے وہ بوجہ عصبہ میراث میں مقدم ہوں گے اور نسبتاً دور کے عصبات محجوب (محروم) ہوں گے۔
باعتبار قرب عصبات کی درجہ بندی حسب ذیل ہے:
٭ بیٹا ، پوتا ، پڑپوتا وغیرہ (یعنی متوفی کی نسل)
٭ باپ ، دادا ، پڑدادا ، (یعنی متوفی کی اصل)
٭ متوفی کا بھائی ، بھائی کا بیٹا ،بھائی کا پوتا (یعنی متوفی کے باپ کی نسل)
٭ چچا ، چچا کا بیٹا ، چچا کا پوتا (یعنی متوفی کے دادا کی نسل)
مرزا قادیانی کی محمدی بیگم سے عشق کی کہانی
محمدی بیگم سے نکاح کی پیش گوئی مرزا صاحب کی سب سے اہم پیش گوئی ہے۔ اسے انہوں نے اپنی کتابوں میں بار بار دہرایا ہے اور اسے اپنے سچا اور جھوٹا ہونے کا معیار قرار دیا ہے۔ مرزا صاحب نے اعلان کیا کہ اگر یہ پیش گوئی پوری ہو جائے اور محمدی بیگم سے میرا نکاح ہو جائے تو میں سچا اور اگر محمدی بیگم سے نکاح نہ ہو تو میں بھی جھوٹا اور میرے سارے دعوے بھی جھوٹے۔اس مختصر تحریر میں میںنے مرزا صاحب کی اس پیش گوئی کا تجزیہ کیا ہے اور مضبوط دلائل سے ثابت کیا ہے کہ یہ پیش گوئی جھوٹی ثابت ہوئی اور مرزا صاحب اپنے بنائے ہوئے معیار کے مطابقکذاب ، دجال ، ملعون ، ذلیل و رسوا ، ہر ایک سے بد تر اور کور باطن ثابت ہو گئے۔
محمدی بیگم کا تعارف
مرزا احمد بیگ مرزا غلام قادیانی کے ماموں زاد بھائی اور عمر النساء ان کی چچا زاد بہن تھی اور یہ دونوں آپس میں میاں بیوی تھے۔ان دونوں کی ایک بیٹی تھی جس کا نام محمدی بیگم تھا۔مرزا غلام قادیانی کے بیٹے فضل احمد کی بیوی محمدی بیگم کی پھوپھی زاد بہن تھی۔ اس لیے محمدی بیگم مرزا صاحب کی اولاد کے درجے میں تھی اور رشتہ میں ان کی بھتیجی یا بھانجی بنتی تھی۔ لیکن مرزا صاحب اسے کسی اور نظر سے دیکھتے تھے۔ محمدی بیگم کے بچپن سے جوانی تک کے نشیب و فراز مرزا صاحب کی نگاہوں کے سامنے تھے۔ اس کی اٹھتی جوانی اور ابھرتے ہوئے خد و خال دیکھ دیکھ کر انہوں نے کئی دفعہ ایک اور شادی کے الہامات شائع کیے لیکن صراحت سے اس کا نام نہ لیا۔ بعد میں خود ہی وضاحت کر دی کہ ان الہامات میں جس عورت سے شادی کا ذکر ہے وہ محمدی بیگم ہے۔
مجبور کی مجبوری سے ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش
مرزا نظام الدین ، مرزا کمال الدین ، مرزا امام الدین اور مرزا غلام حسین مرزا غلام قادیانی کے چچا زاد بھائی اور محمدی بیگم کے ماموں تھے۔ مرزا غلام حسین عرصہ 25 سال سے مفقود الخبر تھا اور اس کی بیوی مرزا احمد بیگ (محمدی بیگم کے والد) کی بہن تھی۔ غلام حسین کی مفقود الخبری میں اس کی جائیداد اس کی بیوی یعنی مرزا احمد بیگ کی بہن کو منتقل ہو گئی۔ مرزا احمد بیگ نے اپنی بہن سے کہا تیری اولاد نہیں ہے لہٰذا تو اپنی یہ جائیداد میرے لڑکے محمد بیگ کو ہبہ کر دے۔ بہن راضی ہو گئی اور اس نے ہبہ نامہ لکھ دیا۔ لیکن اس وقت کے رائج برٹش قانونِ وراثت کے مطابق مرزا غلام حسین کے بھائیوں (مرزا نظام الدین ، مرزا کمال الدین ، مرزا امام الدین) اور چچا زاد بھائی مرزا غلام قادیانی کی تصدیق اور رضا مندی کے بغیر یہ ہبہ نامہ نافذ نہیں ہو سکتا تھا۔ احمد بیگ نے تصدیق اور تائید کے لیے غلام حسین کے بھائیوں سے رجوع کیا تو انہوں نے فوراً دستخط کردیے۔ لیکن جب وہ اس غرض سے مرزا غلام قادیانی کے پاس آیا تو انہوں نے اسے سنہری موقع جانا اور محمدی بیگم کے حصول کے لیے مرزا احمد بیگ کی اس مجبوری سے فائدہ اٹھانے کی ٹھان لی۔ مرزا غلام قادیانی نے احمد بیگ سے کہا کہ میں پہلے استخارہ کروں گا اور اس کے بعد کوئی فیصلہ کروں گا۔
احمد بیگ مرزا غلام قادیانی کے پس پردہ مقاصد اور محمدی بیگم کے حوالے سے ان کے ناپاک ارادوں سے قطعی بے خبر تھا۔ وہ مرزا صاحب کو ہبہ نامہ کی تصدیق کے لیے متوجہ کرتا رہا اور مرزا صاحب اسے ستخارہ کے بہانے سے ٹالتے رہے۔ جب اس کا اصرار بڑھا اور مرزا صاحب نے اندازہ کر لیا کہ وہ ہر صورت یہ جائیداد حاصل کرنا چاہتا ہے تو انہوں نے احمد بیگ کو ایک خط لکھا۔
مرزا غلام صاحب اپنی نفسانی خواہشات کی تکمیل کے لیے خدائی الہام کو ہمیشہ ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ مرزا صاحب کی بیگم نیا مکان بنانے کا مطالبہ کرتی تو مرزا صاحب مریدوں سے کہتے اﷲ تعالیٰ نے الہام کیا ہے کہ نیا مکان بناؤلہٰذا سارے چندہ دو۔ اگر کوئی چیز بیکار ہو جاتی اور اسے ٹھکانے لگانا ہوتا تو مرزا صاحب کہتے اﷲ تعالیٰ نے الہام کیا ہے کہ جو اس چیز کو استعمال کرے گا وہ بر کات اور انعامات سے مستفیض ہو گا۔ پھر اندھے عقیدت مند اس چیز پر ٹوٹ پڑتے اور اپنی جمع پونجی لگا کر مرزا صاحب سے وہ چیز خرید لیتے۔ اپنی عادت جاریہ کے مطابق مرزا غلام قادیانی نے احمد بیگ کو لکھا کہ اﷲ تعالیٰ نے مجھے الہام کیا ہے کہ میں تمہاری بیٹی محمدی بیگم سے نکاح کروں ، تب ہبہ نامہ پر دستخط کروں۔اگر تم اس کا نکاح مجھ سے کر دو تو میں ہبہ نامہ پر دستخط کر دوں گا ورنہ دستخط نہیں کروں گا۔ ساتھ ہی مرزا صاحب نے نکاح کرنے کی صورت میں برکات و انعامات کے وعدے اور نکاح نہ کرنے کی صورت میں آسمانی عذاب کی دھمکیاں بھی لکھ بھیجیں۔ مرزا احمد بیگ نے خط پڑھا تو اس کے ہوش اڑ گئے کہ ایک شخص جو مامور من اﷲ ہونے کا دعویدار ہے وہ اس طرح سودے بازی اور بلیک میلنگ کر رہا ہے۔ اب یہ ساری کہانی مرزا صاحب کی اپنی زبانی سنیے۔ مرزا صاحب لکھتے ہیں:
’’تفصیل اس کی یہ ہے کہ نام بردہ (احمد بیگ) کی ایک ہمشیرہ ہمارے ایک چچا زاد بھائی غلام حسین نام کو بیاہی گئی تھی۔ غلام حسین عرصہ پچیس سال سے کہیں چلا گیا ہے اور مفقود الخبر ہے۔ اس کی زمین ملکیت جس کا ہمیں حق پہنچتا ہے (نوٹ)نامبردہ کی ہمشیرہ کے نام کاغذات سرکاری میں درج کرا دی گئی تھی۔ اب حال کے بند وبست میں جو ضلع گورداسپورہ میں جاری ہے نامبردہ یعنی ہمارے خط کے مکتوب الیہ (مرزا احمد بیگ) نے اپنی ہمشیرہ کی اجازت سے یہ چاہا کہ وہ زمین جو چار ہزار یا پانچ ہزار روپیہ کی قیمت کی ہے اپنے بیٹے محمد بیگ کے نام بطور ہبہ منتقل کرا دیں۔ چنانچہ ان کی ہمشیرہ کی طرف سے یہ ہبہ نامہ لکھا گیا۔ چونکہ وہ ہبہ نامہ بجز ہماری رضا مندی کے بیکار تھا اس لیے مکتوب الیہ نے بتمام تر عجز و انکسار ہماری طرف رجوع کیا۔ تا ہم اس ہبہ پر راضی ہو کر اس ہبہ نامہ پر دستخط کر دیں اور قریب تھا کہ دستخط کر دیتے لیکن یہ خیال آیا کہ جیسا کہ ایک مدت سے بڑے بڑے کاموں میں ہماری عادت ہے جناب الٰہی میں استخارہ کر لینا چاہیے۔ سو یہی جواب مکتوب الیہ کو دیا گیا۔پھر مکتوب الیہ کے متواتر اصرار سے استخارہ کیا گیا وہ استخارہ کیا تھا گویا آسمانی نشان کی درخواست کا وقت آ پہنچا تھا جس کو خدا تعالیٰ نے اس پیرایہ میں ظاہر کر دیا۔ اس خدائے قادر حکیم مطلق نے مجھے فرمایا کہ اس شخص کی دختر کلاں (بڑی بیٹی) کے نکاح کے لیے سلسلہ جنبانی کر اور ان کو کہہ دے کہ تمام سلوک اور مروت تم سے اسی شرط سے کیا جائے گا اور نکاح تمہارے لیے موجب برکت اور ایک رحمت کا نشان ہو گا اور ان تمام برکتوں اور رحمتوں سے حصہ پاؤ گے جو اشتہار 20 فروری 1888 ء میں درج ہیں لیکن اگر نکاح سے انحراف کیا تو اس لڑکی کا انجام نہایت ہی برا ہو گا اور جس کسی دوسرے شخص سے بیاہی جائے گی وہ روز نکاح سے اڑھائی سال تک اور ایسا ہی والد اس دختر کا تین سال تک فوت ہو جائے گا۔ اور ان کے گھر پر تفرقہ اور تنگی اور مصیبت پڑے گی اور درمیانی زمانہ میں بھی اس دختر کے لیے کئی کراہت اور غم کے امر پیش آئیں گے۔
پھر ان دنوں میں جو زیادہ تصریح اور تفصیل کے لیے بار بار توجہ کی گئی تو معلوم ہوا کہ خدا تعالیٰ نے یہ مقرر کر رکھا ہے کہ وہ مکتوب الیہ کی دختر کلاں کو جس کی نسبت درخواست کی گئی تھی ہر ایک روک دور کرنے کے بعد انجام کار اسی عاجز کے نکاح میں لاوے گا۔ ‘‘
آئینہ کمالات اسلام : ص 285-86/ روحانی خزائن : ج 5 ص 285-86
نوٹ
مرزا صاحب کا یہ کہنا کہ زمین میں ہمارا حق تھا، غلط ہے یا پھر مرزا صاحب کی اسلامی قانون وراثت سے جہالت کی نشانی ہے۔ اس لیے کہ غلام حسین کی جائیداد میں مرزا صاحب کا شرعاً کوئی حق نہیں بنتا تھا۔ اس کے بھائی مرزا نظام الدین ، مرزا کمال الدین ، مرزا امام الدین زندہ تھے اور بھائیوں کے ہوتے ہوئے چچا زاد بھائی کو کچھ نہیں ملتا۔ بھائی عصبہ قریب ہیں اور چچا زاد عصبہ بعید ۔ شرعی اصول یہ ہے کہ عصبہ قریب کے ہوتے ہوئے عصبہ بعید کو کچھ نہیں ملتا۔ قادیانی بھی یہ مانتے ہیں ۔ قادیانی محقق لکھتے ہیں:
’’عصبات کی درجہ بندی ( الاقرب فالاقرب) کے اصول کے تحت ہے یعنی جن رشتہ داروں کی قرابت متوفی سے نزدیکی ہے وہ بوجہ عصبہ میراث میں مقدم ہوں گے اور نسبتاً دور کے عصبات محجوب (محروم) ہوں گے۔
باعتبار قرب عصبات کی درجہ بندی حسب ذیل ہے:
٭ بیٹا ، پوتا ، پڑپوتا وغیرہ (یعنی متوفی کی نسل)
٭ باپ ، دادا ، پڑدادا ، (یعنی متوفی کی اصل)
٭ متوفی کا بھائی ، بھائی کا بیٹا ،بھائی کا پوتا (یعنی متوفی کے باپ کی نسل)
٭ چچا ، چچا کا بیٹا ، چچا کا پوتا (یعنی متوفی کے دادا کی نسل)