عبیداللہ لطیف
رکن ختم نبوت فورم
عنوان : مرزا قادیانی کی کتاب ایک غلطی کا ازالہ کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ
براہین احمدیہ کے الہامات اور مرزا غلام احمد قادیانی کا دعوی نبوت
حضرات گرامی قدر! مرزا صاحب قادیانی اپنی کتاب ایک غلطی کا ازالہ کے پہلے صفحے پر ہی لکھتے ہیں کہ
”ہماری جماعت میں سے بعض صاحب جو ہمارے دعوے اور دلائل سے کم واقفیت رکھتے ہیں جن کو نہ بغور کتابیں دیکھنے کا اتفاق ہوا اور نہ وہ ایک معقول مدت تک صحبت میں رہ کر اپنے معلومات کی تکمیل کر سکے۔ وہ بعض حالات میں مخالفین کے کسی اعتراض پر ایسا جواب دیتے ہیں کہ جو سراسر واقعہ کے خلاف ہوتا ہے۔ اس لئے باوجود اہل حق ہونے کے ان کو ندامت اُٹھانی پڑتی ہے۔ چنانچہ چند روز ہوئے ہیں کہ ایک صاحب پر ایک مخالف کی طرف سے یہ اعتراض پیش ہوا کہ جس سے تم نے بیعت کی ہے وہ نبی اور رسول ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور اس کا جواب محض انکار کے الفاظ سے دیا گیا حالانکہ ایسا جواب صحیح نہیں ہے۔ حق یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی وہ پاک وحی جو میرے پر نازل ہوتی ہے اس میں ایسے لفظ رسول اور مُرسل اور نبی کے موجود ہیں نہ ایک دفعہ بلکہ صدہا دفعہ۔ پھر کیونکر یہ جواب صحیح ہوسکتا ہے۔“
(ایک غلطی کا ازالہ مندرجہ روحانی خزائن جلد 18صفحہ206)
قادیانی حضرات! مرزا صاحب قادیانی کی اس تحریر سے جو ہم سمجھے ہیں وہ نقل کیے دیتے ہیں امید ہے ہر ذی شعور میری بات سے اتفاق کرے گا
مرزا صاحب کے بیعت کنندگان کو جب مرزا صاحب کے مخالفین کہتے ہیں کہ انہوں نے دعوی نبوت کیا ہے تو وہ نفی میں جواب دیتے ہیں جو درست نہیں۔ بلکہ ان کا یہ غلط جواب تین وجوہات کی بنیاد پر ہوتا ہے۔
1۔ وہ مرزا صاحب کے دعوے اور دلائل سے پوری طرح واقف نہیں
2۔ اور انہیں مرزا صاحب کی کتب کو بغور نہیں پڑھا۔
3۔وہ مرزا صاحب کی صحبت میں ایک معقول مدت تک رہ کر اپنی معلومات کی تکمیل نہیں کر سکے۔
قادیانی حضرات! جب انہی الہامات کی بنیاد پر جن میں لفظ نبی مرسل اور رسول ہے علمائے اسلام نے مرزا جی کی تکفیر کی تو مرزا صاحب قادیانی نے 1894 میں شائع ہونے والی اپنی ایک کتاب حمامۃ البشری جو عربی تصنیف ہے میں لکھا کہ
”ومن اعتراضات المکفرین انہم قالوا ان ھذارجل ادعی النبوۃ و قال انی من النبیین۔ اما الجواب فاعلم یا اخی انی ما ادعیت النبوۃ وما قلت لھم انی نبی ولکن تعجلوا واخطاوا فی فھم قولی وما فکروا حق الفکر بل اجتروا علی تھت بہتان مبین۔“
ترجمہ: مکفرین کے اعتراضات میں سے ایک یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ اس شخص نے نبوت کا دعوی کیا ہے اور کہتا ہے کہ میں نبیوں میں سے ہوں اس کا جواب یہ ہے کہ اے میرے بھائی تو جان لے کہ نہ تو میں نے نبوت کو دعوی کیا اور نہ ہی میں نے انہیں کہا ہے کہ میں نبی ہوں لیکن ان لوگوں نے جلد بازی سے کام لیا اور میری بات سمجھنے میں غلطی کھائی ہے۔ اور پوری طرح سے غوروفکر نہیں کیا بلکہ کھلی کھلی بہتان تراشی کی جرات کی ہے۔''
(حمامۃ البشری مترجم صفحہ 290 روحانی خزائن جلد 7 صفحہ 296)
اب آپ ہی بتائیے جب مرزا صاحب کے الہامات سے نتیجہ اخذ کیا کہ مرزا جی نے نبوت کا دعوی کیا ہے اور ان کی تکفیر کی تو مرزا جی نہ صرف دعوی نبوت سے انکاری ہوئے بلکہ اسے بہتان عظیم قرار دیا اور ساتھ یہ بھی کہا کہ انہوں نے جلدبازی کی ہے میری بات کو سمجھا نہیں۔ جبکہ دوسری طرف جب مرزا جی کے مریدین کے سامنے لوگوں نے اعتراض کیا تو ان کے نفی میں جواب دینے کو غلط قرار دیا اور کہا کہ وہ میرے دعوے اور دلائل سے واقف نہیں اور نہ ہی انہوں نے میری کتابوں کو غور سے پڑھا ہے۔
قادیانی حضرات! آپ اب خود غوروفکر کیجیے کہ مرزا صاحب نے حمامۃ البشری میں غلط بیانی کی تھی یا ایک غلطی کا ازالہ میں کذب بیانی کی ہے؟
آئیے اب آپ کے سامنے مرزا صاحب قادیانی کی طرف سے صریح لفظوں میں دعوی نبوت سے انکار کے مزید ثبوت پیش کیے دیتے ہیں۔
مرزا غلام احمد کادیانی نے 1308ہجری میں توضیح مرام کے نام سے ایک رسالہ شائع کیا جس کے ٹائٹل پیج پر رسالے کا سن اشاعت 1891 ء درج ہے یہ رسالہ روحانی خزائن کی جلد3 کے شروع میں موجود ہے محترم قارئین! جب مرزا صاحب قادیانی نے اپنے خودساختہ الہامات کی بنا پر اپنے حیات مسیح کے عقیدے میں تبدیلی کرتے ہوئے مثیل مسیح ہونے کا دعوی کیا تو تب علمائے اسلام کی طرف سے اعتراض کیا گیا کہ مسیح علیہ السلام تو نبی تھے کیا تم بھی مدعی نبوت ہو تب مرزا صاحب قادیانی نے اپنی اس کتاب میں لکھا کہ
”اس جگہ اگر یہ اعتراض پیش کیا جائے کہ مسیح کا مثیل بھی نبی ہونا چاہئے تو اس کا اول جواب تو یہی ہے کہ آنیوالے مسیح کے لئے ہمارے سید و مولیٰ نے نبوت شرط نہیں ٹھہرائی بلکہ صاف طور پر یہ لکھا ہے کہ وہ ایک مسلمان اور عام مسلمانوں کے موافق شریعت فرقانی کا پابند ہو گا۔“
(توضیح مرام ص 11 مندرجہ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 59)
1891ء میں ہی مرزا غلام احمد کادیانی نے ایک اشتہار شائع کیا جس میں وہ لکھتا ہے کہ
”میں ان تمام امور کا قائل ہوں جو اسلامی عقائد میں داخل ہیں اور جیسا کہ اہلسنت جماعت کا عقیدہ ہے ان سب باتوں کو مانتا ہوں جو قرآن اور حدیث کی روسے مسلم الثبوت ہیں اور سیدنا و مولانا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ختم المرسلین کے بعد کسی دوسرے مدعی نبوت و رسالت کو کاذب اور کافر جانتا ہوں میرا یقین ہے کہ وحی رسالت آدم صفی اللہ سے شروع ہوئی اور جناب محمد مصطفےٰ ﷺ پر ختم ہو گئی۔“
(مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 214 مورخہ 2 اکتوبر 1891ء طبع جدید)
”میں نہ نبوت کا مدعی ہوں اور نہ معجزات اور ملائکہ اور لیلۃ القدر وغیرہ سے منکر۔۔۔۔۔اور سیدنا و مولانا حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم ختم المرسلین کے بعد کسی دوسرے مدعی نبوت اور رسالت کو کاذب و کافر جانتا ہوں“
(مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ232 مورخہ 2 اکتوبر 1891ء طبع جدید)
محترم قارئین! 1891ء میں ہی شائع ہونے والی اپنی کتاب ازالہ اوہام میں وفات مسیح کے دلائل دیتے ہوئے مرزا صاحب قادیانی لکھتے ہیں کہ
”مَاکَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیّیْنَ۔“
یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم تم میں سے کسی مرد کا باپ نہیں، مگر وہ رسول اللہ ہے اور ختم کرنے والا نبیوں کا یہ آیت بھی صاف دلالت کر رہی ہے کہ بعد ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کوئی رسول دنیا میں نہیں آئے گا۔“
(زالہ اوہام مندرجہ روحانی خزائن جلد 3صفحہ431، و تفسیر مرزاجلد 7صفحہ52)
اپنی اسی کتاب میں مزید لکھا کہ
”ہر ایک دانا سمجھ سکتا ہے کہ اگر خدا تعالیٰ صادق الوعد ہے اور جو آیت خاتم النبیین میں وعدہ دیا گیا ہے اور جو حدیثوں میں بتصریح بیان کیا گیا ہے اور جو حدیثوں میں بتصریح بیان کیا گیا ہے کہ اب جبرائیل بعد وفات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ کے لیے وحی نبوت لانے سے منع کیا گیا ہے یہ تمام باتیں سچ اور صحیح ہیں، تو پھر کوئی شخص بحیثیت رسالت ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہرگز نہیں آسکتا۔“
(روحانی خزائن جلد3ص412)
”قرآن کریم بعد '' خاتم النبیین'' کسی رسول کا آنا جائز نہیں رکھتا، خواہ نیا ہو یا پرانا کیونکہ رسول کو علم دین بتوسط جبرائیل ملتا ہے۔ اور باب نزول جبرائیل پہ پیرا یہ وحی رسالت مسدود ہے اور یہ بات خود متمنع ہے کہ رسول تو آوے مگر سلسلہ وحی رسالت نہ ہو۔“
(روحانی خزائن جلد3صفحہ511)
اسی طرح مرزا غلام احمد کادیانی کی ایک عربی تصنیف حمامۃالبشری ہے جو 1894ء میں شائع ہوئی جس کے ٹائٹل پیج پر سن اشاعت1311 ہجری درج ہے اس میں مرزا غلام احمد کادیانی رقمطراز ہے کہ.
((الاتعلم ان الرب الرحیم المتفضل سمّٰی نبیّنا صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء بغیر استثناء وفسرہ نبیّنا فی قولہ لانبیّ بعدی ببیان واضح للطالبین؟ ولو جوزنا ظہور نبیّ بعد نبینا صلی اللہ علیہ وسلم لجوزنا انفتاح باب وحی النبوہ بعد تغلیقھا و ھذا خلف کما لایخفی علی المسلمین و کیف یجء نبیّ بعد رسولنا صلی اللہ علیہ وسلم وقدانقطع الوحی بعد وفاتہ و ختم اللہ بہ النبیین))
ترجمہ:_ کیا تو نہیں جانتا کہ اس محسن رب نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نام خاتم الانبیاء رکھا ہے اورکسی کو مستثنیٰ نہیں کیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے طالبوں کے لئے بیان واضح سے اس کی تفسیر یہ کی ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے اور اگر ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی نبی کا ظہور جائز رکھیں تو یہ لازم آتا ہے کہ وحی نبوت کے دروازہ کا انفتاح بھی بند ہونے کے بعدجائز خیال کریں اور یہ باطل ہے جیسا کہ مسلمانوں پر پوشیدہ نہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی کیونکر آوے حالانکہ آپکی وفات کے بعد وحی نبوت منقطع ہو گئی ہے اور اللہ نے آپ کے ساتھ نبیوں کو ختم کر دیا ہے
(حمامۃ البشریٰ مترجم صفحہ 81،82)
((وماکان لی ان الدعی النبوۃ واخرج من الاسلام والحق بقوم الکافرین))
ترجمہ:_ اور میرے لیے یہ جائز نہیں کہ میں دعویٰ نبوت کروں اور اسلام سے خارج ہو جاوں اور کافروں سے جاملوں _
(حمامۃالبشریٰ مترجم صفحہ 291 شائع کردہ صدر نظارت اشاعت صدر جماعت احمدیہ پاکستان ربوہ)
محترم قارئین! مرزا غلام احمد قادیانی نے 1896 ء میں انجام آتھم نامی کتاب لکھی اس میں وہ لکھتا ہے کہ
”صاحب انصاف طلب کو یاد رکھنا چاہئے کہ اس عاجز نے کبھی اور کسی وقت حقیقی طورپر نبوت یا رسالت کا دعویٰ نہیں کیا اور غیر حقیقی طورپر کسی لفظ کو استعمال کرنا اور لغت کے عام معنوں کے لحاظ سے اس کو بول چال میں لانا مستلزم کفر نہیں مگر میں اس کو بھی پسند نہیں کرتا کہ اس میں عام مسلمانوں کو دھوکہ لگ جانے کا احتمال ہے“
(انجام آتھم صفحہ 27 مندرجہ روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 27)
1898ء میں مرزا صاحب قادیانی کی کتاب بعنوان ''کتاب البریہ'' شائع ہوئی اس میں مرزا جی لکھتے ہیں کہ
”آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار فرما دیا تھا کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا، اور حدیث لا نبی بعدی ایسی مشہور تھی کہ کسی کو اس کی صحت میں کلام نہ تھا، اور قرآن شریف جس کا لفظ لفظ قطعی ہے اپنی آیت ولکن رسول اللہ وخاتم النبیین سے بھی اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ فی الحقیقت ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نبوت ختم ہوچکی ہے۔“
(کتاب البریہ مندرجہ روحانی خزائن جلد 13 ص 217) اسی طرح جنوری 1899ء میں مرزا صاحب کتاب بعنوان ''ایام الصلح'' شائع ہوئی اس میں مرزا صاحب قادیانی لکھتے ہیں کہ
”حدیث لا نبی بعدی میں بھی (لا) نفی عام ہے پس یہ کس قدر دلیری اور گستاخی ہے کہ خیالات رکیکہ کی پیروی کرکے نصوص صریحہ قرآن کو عمداً چھوڑ دیا جاوے اور خاتم الانبیاء کے بعد ایک نبی کا آنا مان لیا جاوے۔“
(ایام الصلح مندرجہ روحانی خزائن جلد 14 ص 393)
مرزا صاحب ایام الصلح کی مندرجہ بالا تحریر میں حدیث کے الفاظ ''لانبی بعدی'' میں لا کو نفی عام قرار دے رہے ہیں جس سے شرعی، غیرشرعی، ظلی اور بروزی الغرض ہر قسم کی نبوت کو بند قرار پاتی ہے۔
محترم قارئین! مندرجہ بالا تحریریں پڑھ کر آپ خود غوروفکر کریں کہ آن تحریروں میں کس تحریر سے واضح ہوتا ہے کہ مرزا صاحب قادیانی شرعی نبوت سے انکار کر رہے ہیں غیرشرعی سے نہیں؟ کیا ان تحریروں سے یہ واضح نہیں ہوتا کہ مرزا صاحب قادیانی مطلقا دعوی نبوت سے انکاری ہیں؟
براہین احمدیہ کے الہامات اور مرزا غلام احمد قادیانی کا دعوی نبوت
حضرات گرامی قدر! مرزا صاحب قادیانی اپنی کتاب ایک غلطی کا ازالہ کے پہلے صفحے پر ہی لکھتے ہیں کہ
”ہماری جماعت میں سے بعض صاحب جو ہمارے دعوے اور دلائل سے کم واقفیت رکھتے ہیں جن کو نہ بغور کتابیں دیکھنے کا اتفاق ہوا اور نہ وہ ایک معقول مدت تک صحبت میں رہ کر اپنے معلومات کی تکمیل کر سکے۔ وہ بعض حالات میں مخالفین کے کسی اعتراض پر ایسا جواب دیتے ہیں کہ جو سراسر واقعہ کے خلاف ہوتا ہے۔ اس لئے باوجود اہل حق ہونے کے ان کو ندامت اُٹھانی پڑتی ہے۔ چنانچہ چند روز ہوئے ہیں کہ ایک صاحب پر ایک مخالف کی طرف سے یہ اعتراض پیش ہوا کہ جس سے تم نے بیعت کی ہے وہ نبی اور رسول ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور اس کا جواب محض انکار کے الفاظ سے دیا گیا حالانکہ ایسا جواب صحیح نہیں ہے۔ حق یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی وہ پاک وحی جو میرے پر نازل ہوتی ہے اس میں ایسے لفظ رسول اور مُرسل اور نبی کے موجود ہیں نہ ایک دفعہ بلکہ صدہا دفعہ۔ پھر کیونکر یہ جواب صحیح ہوسکتا ہے۔“
(ایک غلطی کا ازالہ مندرجہ روحانی خزائن جلد 18صفحہ206)
قادیانی حضرات! مرزا صاحب قادیانی کی اس تحریر سے جو ہم سمجھے ہیں وہ نقل کیے دیتے ہیں امید ہے ہر ذی شعور میری بات سے اتفاق کرے گا
مرزا صاحب کے بیعت کنندگان کو جب مرزا صاحب کے مخالفین کہتے ہیں کہ انہوں نے دعوی نبوت کیا ہے تو وہ نفی میں جواب دیتے ہیں جو درست نہیں۔ بلکہ ان کا یہ غلط جواب تین وجوہات کی بنیاد پر ہوتا ہے۔
1۔ وہ مرزا صاحب کے دعوے اور دلائل سے پوری طرح واقف نہیں
2۔ اور انہیں مرزا صاحب کی کتب کو بغور نہیں پڑھا۔
3۔وہ مرزا صاحب کی صحبت میں ایک معقول مدت تک رہ کر اپنی معلومات کی تکمیل نہیں کر سکے۔
قادیانی حضرات! جب انہی الہامات کی بنیاد پر جن میں لفظ نبی مرسل اور رسول ہے علمائے اسلام نے مرزا جی کی تکفیر کی تو مرزا صاحب قادیانی نے 1894 میں شائع ہونے والی اپنی ایک کتاب حمامۃ البشری جو عربی تصنیف ہے میں لکھا کہ
”ومن اعتراضات المکفرین انہم قالوا ان ھذارجل ادعی النبوۃ و قال انی من النبیین۔ اما الجواب فاعلم یا اخی انی ما ادعیت النبوۃ وما قلت لھم انی نبی ولکن تعجلوا واخطاوا فی فھم قولی وما فکروا حق الفکر بل اجتروا علی تھت بہتان مبین۔“
ترجمہ: مکفرین کے اعتراضات میں سے ایک یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ اس شخص نے نبوت کا دعوی کیا ہے اور کہتا ہے کہ میں نبیوں میں سے ہوں اس کا جواب یہ ہے کہ اے میرے بھائی تو جان لے کہ نہ تو میں نے نبوت کو دعوی کیا اور نہ ہی میں نے انہیں کہا ہے کہ میں نبی ہوں لیکن ان لوگوں نے جلد بازی سے کام لیا اور میری بات سمجھنے میں غلطی کھائی ہے۔ اور پوری طرح سے غوروفکر نہیں کیا بلکہ کھلی کھلی بہتان تراشی کی جرات کی ہے۔''
(حمامۃ البشری مترجم صفحہ 290 روحانی خزائن جلد 7 صفحہ 296)
اب آپ ہی بتائیے جب مرزا صاحب کے الہامات سے نتیجہ اخذ کیا کہ مرزا جی نے نبوت کا دعوی کیا ہے اور ان کی تکفیر کی تو مرزا جی نہ صرف دعوی نبوت سے انکاری ہوئے بلکہ اسے بہتان عظیم قرار دیا اور ساتھ یہ بھی کہا کہ انہوں نے جلدبازی کی ہے میری بات کو سمجھا نہیں۔ جبکہ دوسری طرف جب مرزا جی کے مریدین کے سامنے لوگوں نے اعتراض کیا تو ان کے نفی میں جواب دینے کو غلط قرار دیا اور کہا کہ وہ میرے دعوے اور دلائل سے واقف نہیں اور نہ ہی انہوں نے میری کتابوں کو غور سے پڑھا ہے۔
قادیانی حضرات! آپ اب خود غوروفکر کیجیے کہ مرزا صاحب نے حمامۃ البشری میں غلط بیانی کی تھی یا ایک غلطی کا ازالہ میں کذب بیانی کی ہے؟
آئیے اب آپ کے سامنے مرزا صاحب قادیانی کی طرف سے صریح لفظوں میں دعوی نبوت سے انکار کے مزید ثبوت پیش کیے دیتے ہیں۔
مرزا غلام احمد کادیانی نے 1308ہجری میں توضیح مرام کے نام سے ایک رسالہ شائع کیا جس کے ٹائٹل پیج پر رسالے کا سن اشاعت 1891 ء درج ہے یہ رسالہ روحانی خزائن کی جلد3 کے شروع میں موجود ہے محترم قارئین! جب مرزا صاحب قادیانی نے اپنے خودساختہ الہامات کی بنا پر اپنے حیات مسیح کے عقیدے میں تبدیلی کرتے ہوئے مثیل مسیح ہونے کا دعوی کیا تو تب علمائے اسلام کی طرف سے اعتراض کیا گیا کہ مسیح علیہ السلام تو نبی تھے کیا تم بھی مدعی نبوت ہو تب مرزا صاحب قادیانی نے اپنی اس کتاب میں لکھا کہ
”اس جگہ اگر یہ اعتراض پیش کیا جائے کہ مسیح کا مثیل بھی نبی ہونا چاہئے تو اس کا اول جواب تو یہی ہے کہ آنیوالے مسیح کے لئے ہمارے سید و مولیٰ نے نبوت شرط نہیں ٹھہرائی بلکہ صاف طور پر یہ لکھا ہے کہ وہ ایک مسلمان اور عام مسلمانوں کے موافق شریعت فرقانی کا پابند ہو گا۔“
(توضیح مرام ص 11 مندرجہ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 59)
1891ء میں ہی مرزا غلام احمد کادیانی نے ایک اشتہار شائع کیا جس میں وہ لکھتا ہے کہ
”میں ان تمام امور کا قائل ہوں جو اسلامی عقائد میں داخل ہیں اور جیسا کہ اہلسنت جماعت کا عقیدہ ہے ان سب باتوں کو مانتا ہوں جو قرآن اور حدیث کی روسے مسلم الثبوت ہیں اور سیدنا و مولانا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ختم المرسلین کے بعد کسی دوسرے مدعی نبوت و رسالت کو کاذب اور کافر جانتا ہوں میرا یقین ہے کہ وحی رسالت آدم صفی اللہ سے شروع ہوئی اور جناب محمد مصطفےٰ ﷺ پر ختم ہو گئی۔“
(مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 214 مورخہ 2 اکتوبر 1891ء طبع جدید)
”میں نہ نبوت کا مدعی ہوں اور نہ معجزات اور ملائکہ اور لیلۃ القدر وغیرہ سے منکر۔۔۔۔۔اور سیدنا و مولانا حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم ختم المرسلین کے بعد کسی دوسرے مدعی نبوت اور رسالت کو کاذب و کافر جانتا ہوں“
(مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ232 مورخہ 2 اکتوبر 1891ء طبع جدید)
محترم قارئین! 1891ء میں ہی شائع ہونے والی اپنی کتاب ازالہ اوہام میں وفات مسیح کے دلائل دیتے ہوئے مرزا صاحب قادیانی لکھتے ہیں کہ
”مَاکَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیّیْنَ۔“
یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم تم میں سے کسی مرد کا باپ نہیں، مگر وہ رسول اللہ ہے اور ختم کرنے والا نبیوں کا یہ آیت بھی صاف دلالت کر رہی ہے کہ بعد ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کوئی رسول دنیا میں نہیں آئے گا۔“
(زالہ اوہام مندرجہ روحانی خزائن جلد 3صفحہ431، و تفسیر مرزاجلد 7صفحہ52)
اپنی اسی کتاب میں مزید لکھا کہ
”ہر ایک دانا سمجھ سکتا ہے کہ اگر خدا تعالیٰ صادق الوعد ہے اور جو آیت خاتم النبیین میں وعدہ دیا گیا ہے اور جو حدیثوں میں بتصریح بیان کیا گیا ہے اور جو حدیثوں میں بتصریح بیان کیا گیا ہے کہ اب جبرائیل بعد وفات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ کے لیے وحی نبوت لانے سے منع کیا گیا ہے یہ تمام باتیں سچ اور صحیح ہیں، تو پھر کوئی شخص بحیثیت رسالت ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہرگز نہیں آسکتا۔“
(روحانی خزائن جلد3ص412)
”قرآن کریم بعد '' خاتم النبیین'' کسی رسول کا آنا جائز نہیں رکھتا، خواہ نیا ہو یا پرانا کیونکہ رسول کو علم دین بتوسط جبرائیل ملتا ہے۔ اور باب نزول جبرائیل پہ پیرا یہ وحی رسالت مسدود ہے اور یہ بات خود متمنع ہے کہ رسول تو آوے مگر سلسلہ وحی رسالت نہ ہو۔“
(روحانی خزائن جلد3صفحہ511)
اسی طرح مرزا غلام احمد کادیانی کی ایک عربی تصنیف حمامۃالبشری ہے جو 1894ء میں شائع ہوئی جس کے ٹائٹل پیج پر سن اشاعت1311 ہجری درج ہے اس میں مرزا غلام احمد کادیانی رقمطراز ہے کہ.
((الاتعلم ان الرب الرحیم المتفضل سمّٰی نبیّنا صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء بغیر استثناء وفسرہ نبیّنا فی قولہ لانبیّ بعدی ببیان واضح للطالبین؟ ولو جوزنا ظہور نبیّ بعد نبینا صلی اللہ علیہ وسلم لجوزنا انفتاح باب وحی النبوہ بعد تغلیقھا و ھذا خلف کما لایخفی علی المسلمین و کیف یجء نبیّ بعد رسولنا صلی اللہ علیہ وسلم وقدانقطع الوحی بعد وفاتہ و ختم اللہ بہ النبیین))
ترجمہ:_ کیا تو نہیں جانتا کہ اس محسن رب نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نام خاتم الانبیاء رکھا ہے اورکسی کو مستثنیٰ نہیں کیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے طالبوں کے لئے بیان واضح سے اس کی تفسیر یہ کی ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے اور اگر ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی نبی کا ظہور جائز رکھیں تو یہ لازم آتا ہے کہ وحی نبوت کے دروازہ کا انفتاح بھی بند ہونے کے بعدجائز خیال کریں اور یہ باطل ہے جیسا کہ مسلمانوں پر پوشیدہ نہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی کیونکر آوے حالانکہ آپکی وفات کے بعد وحی نبوت منقطع ہو گئی ہے اور اللہ نے آپ کے ساتھ نبیوں کو ختم کر دیا ہے
(حمامۃ البشریٰ مترجم صفحہ 81،82)
((وماکان لی ان الدعی النبوۃ واخرج من الاسلام والحق بقوم الکافرین))
ترجمہ:_ اور میرے لیے یہ جائز نہیں کہ میں دعویٰ نبوت کروں اور اسلام سے خارج ہو جاوں اور کافروں سے جاملوں _
(حمامۃالبشریٰ مترجم صفحہ 291 شائع کردہ صدر نظارت اشاعت صدر جماعت احمدیہ پاکستان ربوہ)
محترم قارئین! مرزا غلام احمد قادیانی نے 1896 ء میں انجام آتھم نامی کتاب لکھی اس میں وہ لکھتا ہے کہ
”صاحب انصاف طلب کو یاد رکھنا چاہئے کہ اس عاجز نے کبھی اور کسی وقت حقیقی طورپر نبوت یا رسالت کا دعویٰ نہیں کیا اور غیر حقیقی طورپر کسی لفظ کو استعمال کرنا اور لغت کے عام معنوں کے لحاظ سے اس کو بول چال میں لانا مستلزم کفر نہیں مگر میں اس کو بھی پسند نہیں کرتا کہ اس میں عام مسلمانوں کو دھوکہ لگ جانے کا احتمال ہے“
(انجام آتھم صفحہ 27 مندرجہ روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 27)
1898ء میں مرزا صاحب قادیانی کی کتاب بعنوان ''کتاب البریہ'' شائع ہوئی اس میں مرزا جی لکھتے ہیں کہ
”آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار فرما دیا تھا کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا، اور حدیث لا نبی بعدی ایسی مشہور تھی کہ کسی کو اس کی صحت میں کلام نہ تھا، اور قرآن شریف جس کا لفظ لفظ قطعی ہے اپنی آیت ولکن رسول اللہ وخاتم النبیین سے بھی اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ فی الحقیقت ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نبوت ختم ہوچکی ہے۔“
(کتاب البریہ مندرجہ روحانی خزائن جلد 13 ص 217) اسی طرح جنوری 1899ء میں مرزا صاحب کتاب بعنوان ''ایام الصلح'' شائع ہوئی اس میں مرزا صاحب قادیانی لکھتے ہیں کہ
”حدیث لا نبی بعدی میں بھی (لا) نفی عام ہے پس یہ کس قدر دلیری اور گستاخی ہے کہ خیالات رکیکہ کی پیروی کرکے نصوص صریحہ قرآن کو عمداً چھوڑ دیا جاوے اور خاتم الانبیاء کے بعد ایک نبی کا آنا مان لیا جاوے۔“
(ایام الصلح مندرجہ روحانی خزائن جلد 14 ص 393)
مرزا صاحب ایام الصلح کی مندرجہ بالا تحریر میں حدیث کے الفاظ ''لانبی بعدی'' میں لا کو نفی عام قرار دے رہے ہیں جس سے شرعی، غیرشرعی، ظلی اور بروزی الغرض ہر قسم کی نبوت کو بند قرار پاتی ہے۔
محترم قارئین! مندرجہ بالا تحریریں پڑھ کر آپ خود غوروفکر کریں کہ آن تحریروں میں کس تحریر سے واضح ہوتا ہے کہ مرزا صاحب قادیانی شرعی نبوت سے انکار کر رہے ہیں غیرشرعی سے نہیں؟ کیا ان تحریروں سے یہ واضح نہیں ہوتا کہ مرزا صاحب قادیانی مطلقا دعوی نبوت سے انکاری ہیں؟