مرزا قادیانی کے جھوٹے الہاموں کے لئے ، انبیاء کی مثالیں دینا اور اس کا پوسٹ مارٹم
مصنف : محمّد احمد
قارئین محترم! اللہ تعالی کی طرف سے بھیجے ہوئے انبیاء میں سے اگر کوئی نبی کبھی بھول گیا تو اللہ تعالی نے اسے کبھی بھی غلطی پر نہیں رہنے دیا اور کسی نہ کسی طریقے سے جلد از جلد اسے یاد دہانی فرمادی یا اصلاح فرمادی ، یہ بات خود مرزا غلام احمد قادیانی کو بھی تسلیم ہے چنانچہ اس نے صاف طور پر لکھا ہے: ۔
’’ انبیاء غلطی پر قائم نہیں رکھے جاتے‘‘ (رخ جلد 19صفحہ 133)
اور اس کے بیٹے مرزا بشیر الدین محمود نے لکھا: ۔
’’خدا اپنے نبی کو وفات تک غلطی میں نہیں رکھتا‘‘ (آئینہ صداقت، انوار العلوم جلد 6صفحہ 124)
اور یہ بات بھی ہمیشہ ذہن میں رکھیں کہ مرزا غلام احمد قادیانی نے اپنے بارے میں یہ لکھا ہے : ۔
’’ان اللہ لا یترکنی علی خطأ طرفۃ عین‘‘ اللہ مجھے ایک لمحے کے بھی غلطی پر نہیں رہنے دیتا ۔ (نور الحق، رح جلد 8صفحہ 272)
یعنی مرز اکے مطابق اگر اس سے کوئی غلطی ہوجائے تو اس کا خدا فوراً اس کی اصلاح کردیتا ہے اور بتا دیتا ہے کہ یہ غلطی تھی اسے ٹھیک کرلو ۔ اب اگر تو ثابت ہوجائے کہ مرزا غلام احمد سے فلاں غلطی ہوئی ، اس نے فلاں بات غلط لکھی، اپنی (خودساختہ) وحی اور الہام کی ایک تشریح کی لیکن وہ غلط نکلی اور یہ بھی ثابت ہوجائے کہ مرزا اس دنیا سے چلا گیا لیکن اسے اس کی غلطی کا پتہ ہی نہ چلا تو یہ اس بات کی واضح دلیل ہوگی کہ مرزا غلام احمد اللہ کا نبی نہیں تھا ، اگر ہوتا تو یہ نا ممکن تھا کہ اس کی موت ہوجاتی اور اللہ اسے اس کی غلطی کے بارے میں نہ بتاتا کیونکہ بقول مرزا محمود ’’خدا اپنے نبی کو وفات تک غلطی میں نہیں رکھتا‘‘ ۔
یہ دوتین باتیں اگر آپ ہمیشہ ذہن میں رکھیں گے تو میں جس مرزائی فریب کا ذکر کرنے جارہاہوں آپ کبھی بھی اس سے دھوکہ نہیں کھائیں گے ، وہ فریب یہ ہے کہ مرزائی مربیوں کو یہ سکھایا جاتا ہے کہ جب بھی تم مرزا غلام احمد کا دفاع کرنے میں نا کام ہوجاؤ ، اس کی کتابوں میں لکھے جھوٹوں کو سچ ثابت نہ کرسکو، اس کی پیش گوئیوں کو سچا ثابت نہ کرسکو ، تو ایک دم یہ کرو کہ اللہ کے نبیوں اور خاص طور پر آنحضرت صلى الله عليه وسلم پر اعتراضات شروع کردو اور کہنا شروع کردو کہ اے مولویو! تم جو اعتراض مرزا غلام احمد پر کرتے ہو وہ تو دوسرے نبیوں پر بھی ہوتے ہیں ، اور شور مچانا شروع کردو کہ یہ مولوی توہین انبیاء کرتے ہیں ، نعرے لگاؤ کہ مسلمانو! نبی کریم صلى الله عليه وسلم پر اعتراض کرکے دکھاؤ وغیرہ ، یعنی مرزا ئی مربیوں کی کوشش ہوتی ہے کہ جو عیب مرزا غلام احمد میں ثابت ہوتا ہے اسے کسی طرح اللہ کے نبیوں میں بھی ثابت کیا جائے ، اس کی چند مثالیں پیش کرتا ہوں تاکہ آپ کو اچھی طرح اس مرزائی فریب کی سمجھ آجائے ۔ مثلاً جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ مرزا غلام احمد نے دعویٰ کیا کہ اسے اس کے خدا نے الہام کیا تھاکہ ’’ہم مکہ میں مریں گے یا مدینہ میں‘‘ (الہام مرزا بتاریخ 14 جنوری 1906، تذکرۃ، صفحہ 503 طبع چہارم) لیکن مرزا تو لاہور میں مرا اس طرح یہ الہام جھوٹا ہوا ، اس کے جواب میں مرزائی مربی بڑے زور وشور سے آپ کو لعن طعن کرے گا اور کہے گا کہ تم مولوی یہودی ہو ، تم پوری بات پیش نہیں کرتے ، اس الہام کی تشریح تو خود مرزا قادیانی نے کردی تھی کہ مکہ میں مرنے سے مراد مکی فتح اور مدینہ میں مرنے سے مراد مدنی فتح ہے، یعنی مجھے فتح حاصل ہوگی (یہ الگ بات ہے کہ موت کا مطلب فتح کس لغت میں ہے؟) تو جب ہمارے حضرت جی نے اپنے الہام کی خود تشریح کردی تو تم کون ہوتے ہواعتراض کرنے والے ؟ جیسے حضرت یوسف علیہ السلام نے خواب میں دیکھا کہ انہیں چاند، سورج اور گیارہ ستارے سجدہ کررہے ہیں ، اس کی تعبیر یہ تھی کہ چاند سورج سے مراد ان کے والدین اور ستاروں سے مراد ان کے بھائی تھے ، اس لئے جس کا خواب ہو یا جس کا الہام ہو جو تعبیر اور تشریح وہ بتائے وہی قابل قبو ل ہوگی ۔
لیکن دوستو! یہی مربی اس وقت اپنا بیان بدل لیں گے جب اگلا آدمی یہ پوچھے کہ مرزا غلام احمد نے کہا کہ اسے الہام ہوا تھ ا ’’بکر وثیب‘‘ اور اس کی تشریح خود مرزا نے یوں کی کہ ’’خدا تعالی کا ارادہ ہے کہ وہ 2 عورتیں میرے نکا ح میں لائے گا ، ایک بکر ہوگی (یعنی کنواری ہوگی) اور دوسری بیوہ ، چنانچہ یہ الہام جو بکر (یعنی کنواری) کے متعلق تھا وہ پورا ہوگیا (نصرت جہاں کی صورت میں) اور بیوہ کے الہام کی انتظار ہے‘‘ اب مرزائی مربی سے پوچھیں کہ یہاں آپ کے حضرت جی نے خود اپنے الہام کی تشریح بھی کردی ، تو اب بتاؤ کہ مرزا کے نکاح میں اس کی موت تک کون سی بیوہ آئی؟؟ تو یہاں مربی یہ نہیں کہے گا کہ تشریح تو وہی قابل قبول ہوگی جو مرزا نے کردی کیونکہ اس سے مرزا جھوٹا ہوتا ہے ، بلکہ یہا ں وہ دوسری چال چلے گا ، کہے گا کہ ’’مرزا قادیانی سے اس الہام کو سمجھنے میں غلطی ہوگئی ، اس الہام کا یہ مطلب نہیں تھا کہ اس کا نکاح دو عورتوں کے ساتھ ہوگا جن میں سے ایک کنواری اور ایک بیوہ ہوگی ،بلکہ اس الہام کی تشریح یہ تھی کہ صرف ایک عورت یعنی نصرت جہاں کے ساتھ جب نکاح ہوگا تو اس وقت وہ کنواری ہوگی اورپھر وہی نصرت جہاں ایک وقت بیوہ ہوجائے گی ، مرزا قادیانی نے یہاں اجتہادی غلطی کردی ، اور نبیوں سے کبھی اجتہادی غلطی ہوجا تی ہے ‘‘، دوستو! غورکیا آپ نے؟ الہام تھا مرزا کا ، تشریح کی مرزا نے، اس نے تو مرتے دم تک اپنی اس تشریح کو غلط نہیں کہا، نہ ہی اس نے یہ کہا کہ ہاں اس سے یہ الہام سمجھنے میں غلطی ہو گئی تھی ، نہ ہی اسے اس کے خدا نے اس غلطی پر مطلع کیا ، اور خود اس کے اقرار کے مطابق انبیاء تو غلطی پر قائم نہیں رکھے جاتے ، بقول مرزا محمود، اللہ اپنے نبی کو اس کی وفات تک غلطی پر نہیں رکھتا ، اور بقول مرزا قادیانی اللہ اسے ایک لمحے کے لئے بھی غلطی پر نہیں چھوڑتا، نیز مرزا نے صاف طور پر کہا تھا : ۔
’’کسی الہام کے وہ معنی ٹھیک ہوتے ہیں کہ ملہَم آپ بیان کرے ، اور ملہَم کے بیان کردہ معنوں پر کسی اور کی تشریح اور تفسیر ہرگز فوقیت نہیں رکھتی کیونکہ ملہَم اپنے الہام سے اندرونی واقفیت رکھتا ہے اور خدا تعالیٰ سے خاص طاقت پاکر اس کے معنیٰ کرتا ہے‘‘۔ (مجموعہ اشتہارات، جلد1 ، صفحہ 122)
پھر ایک جگہ مرزا نے لکھاتھا:۔
’’ملہَم سے زیادہ کوئی الہام کے معنیٰ نہیں سمجھ سکتا اور نہ کسی کا حق ہے جو اس کے مخالف کہے‘‘۔ (تتمہ حقیقۃ الوحی، رخ 22 صفحہ 438)
تو سوال یہ ہے کہ مرزا اپنے اس الہام کو اپنی سچائی کی نشانی کے طورپر شائع کرتا رہا ، اور وہ یہی لکھتا رہا کہ 2 عورتیں آئیں گی ، جن میں سے کنواری تو آچکی ، اب بیوہ کا انتظار ہے ، اس نے ہرگز یہ نہ لکھا کہ ان دو عورتوں سے مراد ایک ہی عورت یعنی نصرت جہاں بیگم ہے ، مرزا اس دنیا سے چلا گیا ، اس کے بعد اس کے مریدوں کو اس الہام کی ٹھیک تشریح سمجھ آئی اور انہوں نے اعلان کردیا کہ ہمارے نبی کو اس الہام کو سمجھنے میں غلطی لگی تھی ، اب ہمیں یہ سمجھ آیا ہے ۔ ہے ناں نادانوں کا ٹولہ؟ جو لوگ خود اپنے نبی کو جھوٹا ثابت کرتے ہوں ان سے بڑھ کر احمق بھلا کون ہوگا؟ ۔
اب آگے چلیے ! یہاں مرزائی مربی دو تین مثالیں بھی دیتے ہیں ، کہتے ہیں کہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے خواب دیکھاکہ زمین کے خزانوں کی کنجیاں آپ کے ہاتھ مبارک پر رکھ دی گئیں ، لیکن آپ صلى الله عليه وسلم کی زندگی میں ایسا نہ ہوا بلکہ آپ کے وصال کے بعد صحابہؓ اور آپ کے غلاموں کے ہاتھوں فتوحات ہوئیں، تو کیا نعوذ باللہ تم آنحضرت صلى الله عليه وسلم پر بھی یہی اعتراض کروگے کہ آپ کا خواب جھوٹا ہوا؟، اسی طرح دیکھو آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے فرمایا تھا کہ میں نے خواب دیکھا جس میں مجھے ایک سرزمین دکھائی گئی جہاں کھجور کے درخت تھے اور مجھے بتایاگیا کہ آپ کی ہجرت اس مقام کی طرف ہوگی ، میرا خیال اس طرف گیا کہ یہ یمامہ ہے لیکن در حقیقت وہ یثرب یعنی مدینہ تھا اب کرو اعتراض نبی کریم صلى الله عليه وسلم پر انہوں نے مدینہ کو غلطی سے یمامہ سمجھ لیا ، اسی طرح حضرت نوح علیہ السلام سے اللہ نے وعدہ کیا تھا کہ میں تیرے ’’اھل‘‘ کو غرق ہونے سے بچالوں گا ، جب ان کا بیٹا غرق ہونے لگا تو انہوں نے دعا کی اے اللہ میرا بیٹا تو میرے اہل میں سے ہے اور آپ نے وعدہ کیا تھا کہ آپ میرے اہل کو بچائیں گے ، تواللہ نے آپ کو تنبیہ کردی کہ اے نوح! تیرا بیٹا تیرے اہل میں سے نہیں ، تیرے اہل وہ ہیں جو مومن ہیں ، یعنی اللہ نے بتادیا کہ میں نے جن اہل کو بچانے کا وعدہ کیا تھا اس سے مراد ظاہری اہل نہیں بلکہ روحانی اہل ہیں ، تو کرو اعتراض حضرت نوح عليه السلام پر انہوں نے اہل کا مطلب غلط سمجھا ۔
دوستو! اس دھوکے کا مختصر جواب یہی ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام نے ہرگز کوئی غلطی نہیں کی تھی ، اللہ نے ان سے ان کے اہل کو بچانے کا وعدہ فرمایا تھا اور وہا ں اللہ نے یہ نہیں فرمایا تھا کہ اس سے مراد روحانی اہل ہیں ، اور بیٹا یقینی طور پر اہل میں داخل ہے ، حضرت نوح علیہ السلام نے اسی بناپر دعا فرمائی ، اللہ نے ان کی دعا کے بعد اسی وقت وضاحت فرمادی کہ میری مراد اہل سے ظاہری والا اہل نہیں بلکہ روحانی اہل ہے اور حضرت نوح علیہ السلام کو پتہ چل گیا ، یعنی اللہ اپنے نبی کو غلطی پر نہیں رکھتا ، یہی ہم پہلے ثابت کرآئے ہیں ، اسی طرح زمین کے خزانوں کی کنجیاں آپ صلى الله عليه وسلم کے دست اقدس میں رکھے جانے والا خواب بھی سمجھیں ، پہلی بات یہ کہ وہ خواب تھا ، اور نبی کے خواب دو قسم کے ہوتے ہیں ایک وہ جن کی تعبیر بالکل اسی خواب کی طرح ظاہری ہوتی ہے کہ ویسا ہی ہوگا جیسا خواب میں نظر آیا ، اور دوسری قسم وہ ہوتی ہے جو خواب تعبیر طلب ہوتے ہیں جیسے حضرت یوسف علیہ السلام کا سورج ، چاند اور ستاروں کو اپنے سامنے سجدہ کرنے کا خواب اس کی تعبیر ظاہری نہ تھی ، یہ بات مرزا نے بھی لکھی ہے ، مرزا کا ایک مرید مولوی عبدالکریم بیمار تھا ، مرزا نے خواب دیکھا کہ وہ ٹھیک ہوگیا ہے ، لیکن حقیقت میں وہ ٹھیک نہ ہوا بلکہ مرگیا ، کسی نے اعتراض کیا کہ مرزا جی! آپ کا خواب جھوٹا ہوگیا تو مرزا نے لکھا:۔
’’ہاں ایک خواب میں ان کو دیکھا تھا کہ گویا وہ صحت یاب ہیں مگر خوابیں تعبیر طلب ہوتی ہیں اور تعبیر کی کتابوں کو دیکھ لو خوابوں کی تعبیر میں کبھی موت سے مراد صحت، اور کبھی صحت سے مراد موت ہوتی ہے ، اور کئی مرتبہ خواب میں ایک شخص کی موت دیکھی جاتی ہے اور اس کی تعبیر زیادت عمر ہوتی ہے ‘‘۔ (تتمہ حقیقۃ الوحی، رخ جلد 22صفحہ 459-458)
اب مرزائی مربی سے پوچھیں کہ مرزا نے جب مولوی عبدالکریم کے صحت یاب ہونے کا خواب دیکھا تمہارے عقیدے کے مطابق وہ نبی تھا کہ نہیں؟ اور وہ لکھتا ہے کہ خوابیں تعبیر طلب ہوتی ہیں ، ثابت ہوا کہ نبی کے ایسے خواب بھی ہوتے ہیں جن کی تعبیر ظاہری خواب کے مطابق نہیں ہوتی ، مثال ہم حضرت یوسف علیہ السلام کی دے چکے ہیں ، اور زمین کے خزانوں والے خواب کی تعبیر دوسری احادیث میں خود نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے بیان فرمادی ہے جن کے اندر یہ خبر دی کہ میرے صحابہ یا میری امت کے لوگ قیصر وکسریٰ کے ملک فتح کریں گے اور ان کے خزانوں پر اِن کا قبضہ ہوگا ، مثال کے طور پر صحیح مسلم کی ایک حدیث ہے ، حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: مسلمانوں یا مومنوں کی ایک جماعت ضرور بالضرور کسریٰ کے اس خزانے کو فتح کرے گی جو قصر ابیض میں ہے (صحیح مسلم: حدیث نمبر 2919) ، اسی طرح مسند احمد میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ : جب کسریٰ ہلاک ہوجائے گا تو پھر اس کے بعد کوئی کسریٰ نہ ہوگا (یعنی اس کے بعد ایران کے کسی بادشاہ کا لقب کسریٰ نہ ہوگا) اور جب قیصر ہلاک ہوجائے گا تو اس کے بعد کوئی قیصر نہ ہوگا (یعنی روم کے کسی بادشاہ کا لقب قیصر نہ ہوگا) اور اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں محمد(صلى الله عليه وسلم) کی جان ہے تم لوگ ان دونوں (یعنی قیصر وکسریٰ) کے خزانے ضرور اللہ کی راہ میں خرچ کروگے ۔ (مسند احمد، حدیث نمبر 7184) ، تو نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے اپنے صحابہ اور اپنی امت کو فتوحات کی خوشخبری سناکر اپنے اس خواب کی تعبیر بیان فرمادی کہ میرے ہاتھ میں زمین کے خزانوں کی کنجیاں رکھے جانے کا مطلب ہے کہ میری امت کا ان پر قبضہ ہوگا ۔
اب آئیے آنحضرت صلى الله عليه وسلم کے اس خواب کی طرف جس میں آپ کو وہ سرزمین دکھا ئی گئی جہاں آپ کی ہجرت ہوناتھی ، یاد رکھیں خواب میں آپ کو صرف ایک سرزمین دکھائی گئی تھی ، اس کا نام نہیں بتایا گیا تھا ، اس سرزمین پر کھجوروں کے باغات تھے ، اور جیسے مدینہ (یثرب) میں کھجوروں کے باغات تھے بالکل اسی طرح یمامہ میں بھی تھے ، آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا ہے کہ اس سرزمین کو دیکھ کر میرا خیال یمامہ کی طرف گیا تھا ، جی ہاں یہی لفظ ہیں ’’میرا خیال اس طرف گیا تھا‘‘ نہ تو نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے اس خواب کی کسی کے سامنے اس وقت تعبیر بیان فرمائی کہ اس کی تشریح یہ ہے کہ ہماری ہجرت یمامہ کی طرف ہوگی اور نہ ہی نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے کوئی اشتہار نکالا اور پیش گوئی شائع کردی کہ مجھے میرے خدا نے خبر دی ہے کہ تمہاری ہجرت یمامہ کی طرف ہوگی (جیسے مرزا قادیانی کیا کرتا تھا)، اور اس کا تو کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے ہجرت مدینہ کی طرف ہی فرمائی تھی نہ کہ یمامہ کی طرف ، تو اگر آپ غلط سمجھتے تو ضرور پہلے یمامہ جاتے لیکن ایسا نہیں ہوا ، اللہ کے نبی صلى الله عليه وسلم نے بالکل ٹھیک جگہ ہجرت فرمائی، اس حدیث شریف میں تو صرف خیال جانے کی بات ہے ۔ اور آخری بات وہی کہ اگر بالفرض آپ کا خیال یمامہ کیطرف جانا یہ آپ کی اجتہادی غلطی تھی تو اللہ نے اس خیال کی اصلاح فرمادی اور آپ نے ہجرت مدینہ کی طرف فرمائی ، کیونکہ انبیاء غلطی پر قائم نہیں رکھے جاتے ، لیکن جھوٹے مدعی نبوت وہ ہوتے ہیں جو پوری زندگی اشتہار نکالتے ہیں کہ میرا نکاح محمدی بیگم کے ساتھ ہوکر رہے گا ، یہ ایسی بات ہے جو کسی طرح ٹل نہیں سکتی ، لیکن وہ مرجاتے ہیں ایسا نہیں ہوتا اور نہ ہی اللہ انہیں بتاتا ہے کہ مرزا جی! نکاح تو کینسل ہوچکا یا آخرت میں ہوگا، جھوٹے وہ ہوتے ہیں جو کہتے ہیں کہ اللہ نے انہیں الہام میں بتایا ہے کہ قادیان کے میاں منظور محمدلدھیانوی جن کی بیوی کا نام محمدی بیگم ہے ان کے گھر ایک لڑکا پیدا ہوگا جس کے نو نام ہیں ، لیکن وہ لڑکا غائب ہوجاتا ہے ، اور بعد میں مرزا کے مرید بتاتے ہیں کہ وہ لڑکا تو مرزا بشیر الدین محمود تھا ، مرزا جی کو غلطی لگی تھی ، اور میاں منظور محمد لدھیانوی سے مراد خود مرزا جی تھے اور محمدی بیگم سے مراد ہماری اماں جان نصرت جہاں بیگم تھیں لیکن ٹیچی (مرزا کے ایک فرشتہ کا نام) نے آنے میں دیر کردی اور مرزا جی دنیا سے چلے گئے