• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

(مسئلہ جہاد اور مرزاصاحب)

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(مسئلہ جہاد اور مرزاصاحب)
تو علماء کے متعلق انہوں نے لکھا ہے کہ یہ وہ دور تھا کہ علماء نہ جہاد کا فتویٰ دیتے تھے اور نہ علماء جہاد کرتے تھے اور یہی روش انہوں نے اختیار کی۔ میں اس میں صرف چند مثالیں دوں گا۔ آپ کو ۱۸۵۷ء میں مسلمانوں پر جو افتاد پڑی اور جس طرح مسلمانوں کی سیاسی قوت پارہ پارہ ہوئی اور اس کے جو یاس اور محرومی کی کیفیت پیدا ہوئی، اس کے باوجود ایسے جاندار لوگ موجود تھے جنہوں نے جہاد کاسلسلہ مسلسل جاری رکھا، فتوے دیتے رہے اور بنگال سے لیکر آسام سے لے کر صوبہ سرحد اور قبائلی علاقوں کی آخری حدوں تک کوئی ایسی جگہ نہیں تھی جہاں یہ کام نہ ہورہا ہو، اور انہوں نے نہایت ہوشیاری سے اس کام کو کیا۔ اس زمانے میں انگریزوں نے نیل کے کارخانے قائم کئے تھے۔ ایک طرف یہ کہا جاتا ہے کہ جہاد کا قصہ ہی ختم ہوگیا تھا۔ اس زمانے میں مسلمانوں نے نہایت ہوشیاری سے انگریزوں کو یہ یقین دلایا کہ جہاد جو ہے وہ اسی طرح ہمارا ایک 2889فریضہ ہے جس طرح روزہ، نماز، جمعہ پڑھنا وغیرہ وغیرہ۔ لہٰذا جہاد کے لئے ہمیں سرکاری طور پر چھٹی دی جایا کرے۔ تو نیل کے کارخانوں سے انہیں چھٹی ملتی تھی اور وہ اس وقت سکھوں سے جہاد کر رہے تھے۔ پیش نظر یہ تھا کہ ایک علاقہ قبضے میں آجائے اور اب تمام تحریریں شائع ہو گئی ہیں۔ وہ خطوط اس زمانے کے شائع ہوگئے ہیں۔ جس سے پوری طرح یہ بات ثابت ہے کہ حضرت سید احمد شہید، اور دوسرے علمائ، ان کا پروگرام یہ تھا کہ پہلے اس علاقے کو جو مسلم اکثریت کا علاقہ تھا۔ اس میں مسلم حکومت قائم کر لیں۔ تو پھر انگریزوں سے نمٹیں گے۔ تو انگریز انہیں نیل کے کارخانوں سے چھٹی دیا کرتے تھے۔ گویا جہاد کے قصے کو عوام تک پہنچا دیا تھا نہ کہ یہ کہا جارہا ہے کہ اس زمانے میں جہاد کا نام نہیں لیا جارہا تھا۔ اس میں ہر مکتب خیال کے علماء تھے۔ جس زمانے میں مرزاغلام احمد، بقول اپنے مخبری کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ وہ زمانہ تھا کہ حضرت سید احمد صاحب شہید کے ماننے والے پیروکار منتشر ہوگئے تھے۔ انہوں نے پٹنہ میں پھر اپنا مرکز بنایا تھا۔ مسلسل مقدمات چلتے رہے۔ ایذائیں دی جاتی رہیں۔ یہاں تک کہ آخر میں صادق پور کا پورے کا پورا محلہ جو کہ ان کی حویلی میں تھا۔ اسے گروا کر وہاں ہل چلوائے گئے۔ تاکہ بہت سے زمانوں تک یہاں کسی بستی کا نام ونشان نہ رہے۔ جو لوگ تھے ان کو یا تو پھانسیاں دی گئیں یا کالے پانی بھیج دیا گیا۔ ان کے خاندان اور افراد کے نام برٹش گورنمنٹ کے ریکارڈ میں قیام پاکستان تک لکھے جاتے تھے۔ ان کی اولاد دراولاد کے نام۔ اس طرح وہی زمانہ تھا جب مولانا فضل حق خیر آبادی صاحب، مفتی صدرالدین صاحب، مولانا عنایت احمد صاحب رام پوری، ان تمام کے فتاویٰ شائع شدہ موجود ہیں۔ سرحد میں مولانا عبدالغفور اخوند، انہوں نے جہاد کا اعلان کیا۔ اس کے بعد مولانا عبداﷲ ان کی جگہ آئے۔ ان کا ۱۹۰۲ء میں انتقال ہوا۔ پھر مولانا عبدالکریم ۱۹۱۵ء تک وہ رہے ہیں۔ اس کے بعد مولانا عبدالرحیم، استھتحھانہ اور چمرکند 2890وغیرہ میں ان کے مراکز قائم ہیں اور باربار انگریزوں سے نمبرد آزما ہوتے رہے۔ بنگالی حاجی شریعت اﷲ تیتومیر، یہ نام اب تک وہاں کے بچوں کی زبان پر جاری ہیں۔ ریشمی رومال کا قصہ، ترکوں سے مل کر ہندوستان کو انگریزوں کی لعنت سے پاک کرنے کا قصہ، وہ مولانا عبیداﷲ سندھی صاحب، شیخ الہند محمود الحسن صاحب، سب لوگ اس فہرست میں آتے ہیں۔ یعنی پورا دور ایسا ہے کہ کسی میں جہاد نہ کرنے کی کمی نہیں ہے اور مرزاصاحب یہ کہتے تھے۔ انہوں نے مخبری میں ایک پہچان بنالی تھی کہ جو لوگ یہاں دارالحرب یعنی انگریزوں کے خلاف لڑائی کرنا چاہتے ہیں جہاد کرنا چاہتے ہیں وہ جمعہ اور عیدین کی نماز کو جائز نہیں سمجھتے۔ لیکن پتہ لگاتے تھے کہ کون کون سے علماء ہیں، کون کون سے لوگ ہیں جو جمعہ کو حرب ہونے کی وجہ سے نہیں پڑھتے۔ اس طرح وہ ان کی مخبری کا کام کرتے تھے۔ چونکہ وہاں پر پہلے نہیں آیا، میں اس کا اقتباس پیش کرنے کی اجازت چاہوں گا۔ یعنی کسی معاشرے میں یہ تصور نہیں کیا جاتا کہ اس معاشرے میں کوئی شریعت انسان اس حالت میں جب کہ قوم غیروں کے پنجہ استعمار میں گرفتار ہو تو کوئی شخص مخبری کرے اور قوم میں اس کا کوئی وقار ہو۔ نہ کہ مجدد، مصلح، پیغمبر، خدا جانے کیا کیا کہا گیا۔
 
Top