مستقل تشریعی نبی ہونے کا دعویٰ اور یہ کہ وہ احادیث نبویہ پر حاکم ہے
جس کو چاہے قبول کرے اور جس کو چاہے ردی کی طرح پھینک دے
’’اور مجھے بتلایا گیا تھا کہ تیری خبر قرآن وحدیث میں موجود ہے اور تو ہی اس آیت کا مصداق ہے۔
ہو الذی ارسل رسولہ بالہدیٰ ودین الحق لیظہرہ علی الدین کلہ
‘‘ جس کو چاہے قبول کرے اور جس کو چاہے ردی کی طرح پھینک دے
(اعجاز احمدی ص۱۷، خزائن ج۱۹ ص۱۱۳)
اس عبارت میں نبوت تشریعیہ کے ساتھ ساتھ یہ بھی دعویٰ ہے کہ ہمارے رسول ﷺ اس آیت کے مصداق نہیں جو صریح کفر ہے (اور فرماتے ہیں) ’’اگر یہ کہو کہ صاحب شریعت افتراء کر کے ہلاک ہوتا ہے نہ ہر ایک مفتری تو اوّل تو یہ دعویٰ بے دلیل ہے۔ خدا نے افتراء کے ساتھ شریعت کی کوئی قید نہیں لگائی۔ ماسوا اس کے یہ بھی تو سمجھو کہ شریعت کیا چیز ہے۔ جس نے اپنی وحی کے ذریعے چند امرونہی بیان کئے۔ وہ صاحب شریعت ہوگیا۔ پس اس تعریف کی رو سے بھی ہمارے مخالف ملزم ہیں۔ کیونکہ میری وحی میں امر بھی ہے اور نہی بھی۔ مثلاً یہ الہام قل للمؤمنین یغضوا من ابصار ہم ویحفظوا فروجہم 2457ذالک ازکی لہم یہ براہین احمدیہ میں درج ہے اور اس میں امر بھی ہے اور نہی بھی اور اس پر ۲۳ برس کی مدت بھی گزر گئی اور ایسا ہی اب تک میری وحی میں امر بھی ہوتے ہیں اور نہی بھی۔‘‘
(اربعین نمبر۴ ص۶، خزائن ج۱۷ ص۴۳۵،۴۳۶)
پھر فرماتے ہیں: ’’چونکہ میری وحی میں امر بھی ہے اور نہی بھی اور شریعت کے ضروری احکام کی تجدید بھی۔‘‘ (اربعین نمبر۳ ص۳۶) میں بھی یہ دعویٰ موجود ہے۔
’’اور ہم اس کے جواب میں خدا کی قسم کھا کر بیان کرتے ہیں کہ میرے اس دعوے کی بنیاد حدیث نہیں بلکہ قرآن اور وہ وحی ہے جو میرے پر نازل ہوئی۔ ہاں تائیدی طور پر ہم وہ حدیثیں بھی پیش کرتے ہیں جو قرآن شریف کے مطابق ہیں اور میری وحی کے معارض نہیں اور دوسری حدیثوں کو ہم ردی کی طرح پھینک دیتے ہیں۔‘‘
(اعجاز احمدی ص۳۵، خزائن ج۱۹ ص۱۴۰)