آج کل دیکھا گیا ہے کہ مرزائی مختلف پلیٹ فارمز پر یہ بحث کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ "وہ تو مسلمانوں کو سلام کرتے ہیں مگر مسلمان انہیں جواب نہیں دیتے؟" یا "مسلمان انہیں سلام کیوں نہیں کرتے؟" تو اس کے جواب میں کسی لمبی چوڑی دلیل میں جانے کے بجائے مرزائی حضرات کو ان کے بڑوں کا عمل بتاتے ہیں کہ ان کا کیا فعل تھا اور آج مرزائیوں کا کیا فعل ہے:
1893ء کی بات ہے جن دنوں مرزا غلام قادیانی کو لیکھرام کے ساتھ تنازعہ چل رہا تھا:
”حضرت مسیح موعود(مرزا غلام احمد قادیانی) فیروز پور سے لاہور تشریف لائے تو ریلوے سٹیشن کی ایک چھوٹی سی مسجد میں نماز عصر کے لئے وضو فرما رہے تھے کہ پنڈت لیکھرام آیا اور ہندؤں کی طرح ہاتھ جوڑ کر آپ کو سلام کیا۔ آپ نے ذرا سی نظر اٹھائی اور وضو میں مصروف رہے۔ وہ چند منٹ ٹھہر کر واپس چلا گیا۔ کسی شخص نے عرض کی کہ لیکھرام سلام کرتا تھا۔ جواباً فرمایا کہ اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بڑی توہین کی ہے، میرے ایمان کے خلاف ہے کہ میں اِسکا سلام لوں“۔(منظور الہی صفحہ 22 مطبوعہ مفید عام پریس لاہور1342ء)
تو ہمارا بھی مرزائی حضرات کو یہی جواب ہے کہ تمہارے بڑوں نے نبی کریم ﷺ کی توہین کی ہے اس لئے ہم تمہیں نہ سلام کہتے ہیں نہ تمہارے سلام کا جواب دیتے ہیں۔
کیا قادیانیوں کو ہمیں سلام کہنا چاہئے؟
ایک اور بات عرض کرتا چلوں کہ مرزائی حضرات کے خلیفہ اول حکیم نور الدین نے کسی مسلمان کو سلام کہنے کے متعلق کیا فتویٰ دیا ہے۔ مئی 1906ء میں کچھ مسلمانوں نے چند سوالات بذریعہ خطوط حکیم نور الدین کے نام بھیجے اور ان سوالات میں سے پہلا سوال یہ ہوتا ہے:
”اس کی کیا وجہ ہے کہ جو خط آپ نے میری طرف لکھا ہے اس میں صرف السلام علیکم بھی نہیں لکھا۔ جو طریقہ سنت اور اہل اسلام کا ہے۔ جزاکم اللہ تعالیٰ“۔ اس سوال کے جواب میں مرزائی حکیم الامت لکھتا ہے: ”اللہ تعالیٰ فرماتا ہے الاسلام علیٰ من اتبع الہدیٰ یعنی جو سلام دعائے سلامتی پر مشتمل ہے وہ ان لوگوں کے لئے مخصوص ہے جو مامورین مرسلین کی ہدایت کے تابع ہوں“۔(اخبار بدر نمبر 21 جلد 2 صفحہ3 مطبوعہ 24 مئی 1906ء)
تو ہم مرزائی حضرات کو کہتے ہیں اپنوں بڑوں کی سن لو! اور شرعی جواب تو یہ ہے کہ تم لوگ ذندیق ہو اور ذندیق کے ساتھ اسلام کسی قسم کے تعلقات کو منع کرتا ہے۔
بَابُ النَّهْيِ عَنِ ابْتِدَاءِ أَهْلِ الْكِتَابِ بِالسَّلَامِ وَكَيْفَ يُرَدُّ عَلَيْهِمْ
باب اس بیان میں کہ اہل کتاب کو خود سلام کرنا منع ہے اور انکے سلام کا جواب کیسے دیا جائے ؟
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى، أَخْبَرَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ عُبَيْدِ اللهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسًا، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ح وحَدَّثَنِي إِسْمَاعِيلُ بْنُ سَالِمٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللهِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ جَدِّهِ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِذَا سَلَّمَ عَلَيْكُمْ أَهْلُ الْكِتَابِ فَقُولُوا وَعَلَيْكُمْ»
( صحیح مسلم حدیث 2163 )
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تمہیں اہل کتاب ( یہودی و انصاریٰ ) السلام علیکم کہیں تو تم ( صرف ) وعلیکم کہو ( یعنی وعلیکم السلام نہیں کہنا )
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ يَعْنِي الدَّرَاوَرْدِيَّ، عَنْ سُهَيْلٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَا تَبْدَءُوا الْيَهُودَ وَلَا النَّصَارَى بِالسَّلَامِ، فَإِذَا لَقِيتُمْ أَحَدَهُمْ فِي طَرِيقٍ، فَاضْطَرُّوهُ إِلَى أَضْيَقِهِ»
( صحیح مسلم حدیث 2167 )
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یہود اور انصاریٰ کو اپنی طرف سے سلام مت کرو ، اور جب تمہیں انمیں سے کوئی راستے میں ملے تو دبا دو اسے تنگ راستے کی طرف ۔
تشریح
جب اللہ کے رسول نے اہل کتاب کو اپنی طرف سے سلام میں پہل کرنے سے منع فرمایا ہے جن اہل کتاب کا زیبحہ اور انکا کھانا حلال ہے تو اہل کتاب کے علاوہ دوسرے مشرکین و کفار کو اسلام میں ابتدا کرنا تو بدرجہ اولی منع ہوگا ۔ نیز اہل کتاب کے سلام کے جواب میں صرف " وعلیکم " کہنے کا حکم دیا گیا ہے ، ان کے سلام کے جواب میں " وعلیکم السلام " کہنے کی اجازت نہیں ۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
سکین پیجز:
1893ء کی بات ہے جن دنوں مرزا غلام قادیانی کو لیکھرام کے ساتھ تنازعہ چل رہا تھا:
”حضرت مسیح موعود(مرزا غلام احمد قادیانی) فیروز پور سے لاہور تشریف لائے تو ریلوے سٹیشن کی ایک چھوٹی سی مسجد میں نماز عصر کے لئے وضو فرما رہے تھے کہ پنڈت لیکھرام آیا اور ہندؤں کی طرح ہاتھ جوڑ کر آپ کو سلام کیا۔ آپ نے ذرا سی نظر اٹھائی اور وضو میں مصروف رہے۔ وہ چند منٹ ٹھہر کر واپس چلا گیا۔ کسی شخص نے عرض کی کہ لیکھرام سلام کرتا تھا۔ جواباً فرمایا کہ اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بڑی توہین کی ہے، میرے ایمان کے خلاف ہے کہ میں اِسکا سلام لوں“۔(منظور الہی صفحہ 22 مطبوعہ مفید عام پریس لاہور1342ء)
تو ہمارا بھی مرزائی حضرات کو یہی جواب ہے کہ تمہارے بڑوں نے نبی کریم ﷺ کی توہین کی ہے اس لئے ہم تمہیں نہ سلام کہتے ہیں نہ تمہارے سلام کا جواب دیتے ہیں۔
کیا قادیانیوں کو ہمیں سلام کہنا چاہئے؟
ایک اور بات عرض کرتا چلوں کہ مرزائی حضرات کے خلیفہ اول حکیم نور الدین نے کسی مسلمان کو سلام کہنے کے متعلق کیا فتویٰ دیا ہے۔ مئی 1906ء میں کچھ مسلمانوں نے چند سوالات بذریعہ خطوط حکیم نور الدین کے نام بھیجے اور ان سوالات میں سے پہلا سوال یہ ہوتا ہے:
”اس کی کیا وجہ ہے کہ جو خط آپ نے میری طرف لکھا ہے اس میں صرف السلام علیکم بھی نہیں لکھا۔ جو طریقہ سنت اور اہل اسلام کا ہے۔ جزاکم اللہ تعالیٰ“۔ اس سوال کے جواب میں مرزائی حکیم الامت لکھتا ہے: ”اللہ تعالیٰ فرماتا ہے الاسلام علیٰ من اتبع الہدیٰ یعنی جو سلام دعائے سلامتی پر مشتمل ہے وہ ان لوگوں کے لئے مخصوص ہے جو مامورین مرسلین کی ہدایت کے تابع ہوں“۔(اخبار بدر نمبر 21 جلد 2 صفحہ3 مطبوعہ 24 مئی 1906ء)
تو ہم مرزائی حضرات کو کہتے ہیں اپنوں بڑوں کی سن لو! اور شرعی جواب تو یہ ہے کہ تم لوگ ذندیق ہو اور ذندیق کے ساتھ اسلام کسی قسم کے تعلقات کو منع کرتا ہے۔
بَابُ النَّهْيِ عَنِ ابْتِدَاءِ أَهْلِ الْكِتَابِ بِالسَّلَامِ وَكَيْفَ يُرَدُّ عَلَيْهِمْ
باب اس بیان میں کہ اہل کتاب کو خود سلام کرنا منع ہے اور انکے سلام کا جواب کیسے دیا جائے ؟
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى، أَخْبَرَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ عُبَيْدِ اللهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسًا، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ح وحَدَّثَنِي إِسْمَاعِيلُ بْنُ سَالِمٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللهِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ جَدِّهِ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِذَا سَلَّمَ عَلَيْكُمْ أَهْلُ الْكِتَابِ فَقُولُوا وَعَلَيْكُمْ»
( صحیح مسلم حدیث 2163 )
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تمہیں اہل کتاب ( یہودی و انصاریٰ ) السلام علیکم کہیں تو تم ( صرف ) وعلیکم کہو ( یعنی وعلیکم السلام نہیں کہنا )
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ يَعْنِي الدَّرَاوَرْدِيَّ، عَنْ سُهَيْلٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَا تَبْدَءُوا الْيَهُودَ وَلَا النَّصَارَى بِالسَّلَامِ، فَإِذَا لَقِيتُمْ أَحَدَهُمْ فِي طَرِيقٍ، فَاضْطَرُّوهُ إِلَى أَضْيَقِهِ»
( صحیح مسلم حدیث 2167 )
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یہود اور انصاریٰ کو اپنی طرف سے سلام مت کرو ، اور جب تمہیں انمیں سے کوئی راستے میں ملے تو دبا دو اسے تنگ راستے کی طرف ۔
تشریح
جب اللہ کے رسول نے اہل کتاب کو اپنی طرف سے سلام میں پہل کرنے سے منع فرمایا ہے جن اہل کتاب کا زیبحہ اور انکا کھانا حلال ہے تو اہل کتاب کے علاوہ دوسرے مشرکین و کفار کو اسلام میں ابتدا کرنا تو بدرجہ اولی منع ہوگا ۔ نیز اہل کتاب کے سلام کے جواب میں صرف " وعلیکم " کہنے کا حکم دیا گیا ہے ، ان کے سلام کے جواب میں " وعلیکم السلام " کہنے کی اجازت نہیں ۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
سکین پیجز:
مدیر کی آخری تدوین
: