مقدس غار ، نبی اکرم حضرت محمد عربی ﷺ کی جہاں پر مرہم پٹی کی گئی
مشرکین کی واپسی کے بعد مسلمانوں کی عورتیں خبر لینے کیلئے اور حال معلوم کرنے کی غرض سے مدینہ منورہ سے نکلیں ، سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے آکر دیکھا کہ چہرہ انور سے خون جاری ہے ، حضرت علی رضی اللہ عنہ پانی بھر کے لائے ، فاطمہ رضی اللہ عنہا زخموں کو دھورہی تھیں۔ مگر خون رک ہی نہیں رہا تھا ۔ ایک چٹان کا ٹکڑالے کر اس کو جلایا اور اس کی راکھ زخم میں بھری تب خون بند ہوا۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ المہر اس چشمہ سے پانی لے آئے ۔ مگر آپ ﷺ نے پینے سے انکار کر دیا ، کیونکہ اس سے بو آرہی تھی۔ تاہم چہرے کا زخم اس سے دھویا اور سر پہ بھی یہ پانی ڈالا، اس وقت فرمایا (اشتد غضب اللہ علی من دمی نبیہ) "اللہ کا شدید غضب اور عذاب ہوگااس پر جس نے اللہ کے نبی کا چہرہ خون سے رنگا" (صحیح البخاری ، باب مااصاب النبیﷺ من الجراح یوم احد۔ البدایۃ والنہایۃ ، ذکر غزوہ احد)
اس پہاڑ کے نیچے مسجد فسیح سے کچھ آگے پہاڑ کی اونچائی پر ایک پگڈنڈی چلی گئی ہے ۔ راستہ ناہموار ہے احتیاط سے چڑھنے پر ایک درہ (غار) ملے گا۔ اسی جگہ پر نبی مجاہد ﷺ کو زخمی حالت میں لایا گیا یہاں لٹادیاگیا۔ مرہم پٹی کی گئی ۔ زخموں کو دھویا گیا۔ حج کے زمانے میں یہاں بھیڑ اور رش کی وجہ سے کچھ دن جانا ممنوع کر دیاجاتا ہے ورنہ عام دنوں میں عشاق اس مقدرس غار میں آقا ﷺ کے جسم اطہر کی خوشبو سونگھنے جاتے ہیں ۔ آج بھی وہاں عجیب قسم کی خوشبو اور فرحت محسوس ہوتی ہے ۔ اگر کسی کو یقین نہ ہوتو آج ہی خود چلاجائے اور جاکر خود دیکھ لے۔ یہاں سے مدینہ منورہ کا فضائی نظارہ بھی کیا جاسکتا ہے ۔ یہاں ایک آدمی کے لیٹنے کے بعد اطراف میں متعدد لوگوں کے کھڑے ہونے کی گنجائش ہے باہر سے اندر بیٹھنے والوں کا پتہ ہی نہیں چل سکتا۔
کچھ مصنفین نے طاقیہ جبل احد اور غار احمد میں آپ ﷺ کے تشریف لے جانے کا انکار کیا ہے ۔ لیکن چودہ سو سال سے امت میں یہ بات تواتر کے ساتھ نسل در نسل چلی آرہی ہے اس کا انکار کیسے کیاجاسکتا ہے۔ اور کئی مؤرخین نے اپنی کتابوں میں اسے لکھا بھی ہے ۔ المہر چشمہ اسی چٹان کے اوپر تھا جو زمانہ قریب تک موجود رہا ہے۔
