”الحاد“ کا معنی ،مفہوم اوراس کا حکم !
”الحاد“ کا معنی ،مفہوم اوراس کا حکم
الحاد کا لغوی معنی:
الحاد کا لغوی معنی: ”میلان اور انحراف“ کا ہے ۔ ( المنجد)
تفسیر روح البیان میں ہے:
”الالحاد فی الاصل: مطلق المیل والانحراف ومنہ اللحد؛ لانہ فی جانب القبر“۔ (تفسیرسورہٴ حم سجدہ: ۴۰)
ترجمہ:۔”الحاد اصل میں ”مطلقاً اعراض وانحراف“ کے معنی میں آتا ہے، اسی لئے بغلی قبر کو بھی لحد کہا جاتاہے، کیونکہ وہ بھی ایک طرف مائل کرکے بنائی جاتی ہے“۔
اور تفسیر القرطبی میں مذکور ہے:
”الالحاد: المیل والعدول، ومنہ اللحد فی القبر، لانہ میل الی ناحیة منہ“۔
(تفسیرسورہٴ حم سجدہ:۴۰)
ترجمہ:۔’الحاد ”اعراض اور تجاوز“ کرنے کو کہا جاتا ہے، اسی مناسبت سے بغلی قبر کے لئے لحد کا لفظ استعمال ہوتا ہے، کیونکہ وہ بھی ایک کونے کی طرف مائل ہوتی ہے“۔ اصطلاحی معنی:
اصطلاح کے اندر ”الحاد“ سے ”الحاد فی الدین“ کا معنی ومفہوم مراد لینا شائع وذائع ہے، چنانچہ عرف میں اس لفظ کو ”الحاد فی الدین“ کے ساتھ ہی خاص کردیا گیا ہے، لہذا جب یہ لفظ بولا جائے تو اس سے دین کے اندر الحاد مراد ہوگا، نہ کہ مطلق الحاد، جیساکہ تفسیر کبیر میں مذکور ہے:
”فالملحد ہو المنحرف، ثم بحکم العرف اختص بالمنحرف عن الحق الی الباطل“۔ (تفسیر سورہٴ حم سجدہ:۴۰)ترجمہ:۔””ملحد“ اصل میں ”انحراف کرنے والے“ کو کہا جاتا ہے اور عرف میں اس لفظ کا استعمال ”حق سے باطل کی طرف انحراف کرنے والے“ پر ہوتا ہے “
اور تفسیر روح البیان میں مذکور ہے:
”ثم خص فی العرف بالانحراف عن الحق الی الباطل ای یمیلون عن الاستقامة“۔ (تفسیرسورہٴ حم سجدہ:۴۰)
ترجمہ:۔”پھر اس لفظ کو عرف میں حق سے باطل کی طرف انحراف کرنے والوں کے ساتھ خاص کردیاگیا، یعنی ان لوگوں پر اس لفظ کا استعمال ہوتا ہے جو دین کی درست راہ سے پھر جاتے ہیں“۔
لغوی معنی کے اعتبار سے تو یہ عام ہے کہ صراحةً کھلے طور پر انکار وانحراف کرے یا تاویلاتِ فاسدہ کے سہارے سے انحراف کرے، بہرصورت الحاد میں داخل ہے، جیساکہ فتاویٰ شامی میں ہے:
”فالملحد اوسع فرق الکفر حدا: ای ہو اعم من الکل۔“ (۴/۳۴۱)
ترجمہ:۔”لفظ” ملحد“ لغوی تعریف کے اعتبار سے کفر کی تمام اقسام کو شامل ہے“۔
اور اصطلاحی معنی کے اعتبار سے اگر دین حق کا مخالف سرے سے حق کا اقرار ہی نہیں کرتا، نہ ظاہراً حق کو قبول کرتا ہے اور نہ باطناً تو وہ ”کافر “ ہے۔ اور اگر زبان سے تو اقرار کرتا ہے، مگر دل سے منکر ہے تو وہ ”منافق“ ہے۔ اور اگر بظاہر تو دین حق کا اقرار کرتا ہے، لیکن ضروریات دین میں سے کسی امر کی ایسی تعبیر وتشریح کرتا ہے جو صحابہ وتابعین، نیز اجماع امت کے خلاف ہے تو وہ ملحد ہے، مثلاً :ایک شخص قرآن کے حق ہونے کا تو اقرار کرتا ہے اور اس میں جنت ودوزخ کا جو ذکر آیا ہے، اس کو بھی مانتا ہے، مگر کہتا ہے کہ جنت سے مراد وہ فرحت ومسرت ہے جو مؤمنین کو اعمال صالحہ اور اخلاق فاضلہ کی وجہ سے حاصل ہوگی اور نار جہنم سے مراد وہ ندامت واذیت ہے جو کافروں کو اعمال شنیعہ اور اخلاق ذمیمہ کی وجہ سے حاصل ہوگی اور کہتا ہے کہ جنت اور دوزخ کی حقیقت اس کے سوا اور کچھ نہیں، تو یہ ملحد وزندیق ہے۔
”فان الزندیق یموّہ کفرہ ویروّج عقیدتہ الفاسدة ویخرجہا فی الصورة الصحیحة وہذا معنی ابطال الکفر“۔ (فتاوی شامی ۴/۲۴۲،ط:ایچ ایم سعید)
ترجمہ:۔”زندیق اپنے کفر کی ملمع سازی کرتا ہے اور اس کو صحیح صورت میں ظاہر کرتا ہے، یہی معنی ہے کفر کو چھپانے کا“۔
یعنی اصطلاح میں عام طور سے ”الحاد“ ایسے انحراف کو کہا جاتا ہے کہ ظاہر میں تو قرآن اور اس کی آیات پر ایمان وتصدیق کا دعویٰ کرے، مگر اس کے معانی اپنی طرف سے ایسے گھڑے جو قرآن وسنت کی نصوص اور جمہور امت کے خلاف ہوں اور جس سے قرآن کا مقصد ہی الٹ جائے، جیساکہ ابن عباس سے منقول ہے:
”وقال ابن عباس: ہو تبدیل الکلام ووضعہ فی غیر موضعہ“۔
(تفسیر القرطبی، سورہ حم سجدہ:۴۰)
ترجمہ:۔”حضرت ابن عباس نے فرمایا: ”الحاد“ کلام کو تبدیل کرنے اور اس کو غیر محمل پر حمل کرنے کو کہا جاتا ہے“۔
”الحاد“ کا معنی ،مفہوم اوراس کا حکم
الحاد کا لغوی معنی:
الحاد کا لغوی معنی: ”میلان اور انحراف“ کا ہے ۔ ( المنجد)
تفسیر روح البیان میں ہے:
”الالحاد فی الاصل: مطلق المیل والانحراف ومنہ اللحد؛ لانہ فی جانب القبر“۔ (تفسیرسورہٴ حم سجدہ: ۴۰)
ترجمہ:۔”الحاد اصل میں ”مطلقاً اعراض وانحراف“ کے معنی میں آتا ہے، اسی لئے بغلی قبر کو بھی لحد کہا جاتاہے، کیونکہ وہ بھی ایک طرف مائل کرکے بنائی جاتی ہے“۔
اور تفسیر القرطبی میں مذکور ہے:
”الالحاد: المیل والعدول، ومنہ اللحد فی القبر، لانہ میل الی ناحیة منہ“۔
(تفسیرسورہٴ حم سجدہ:۴۰)
ترجمہ:۔’الحاد ”اعراض اور تجاوز“ کرنے کو کہا جاتا ہے، اسی مناسبت سے بغلی قبر کے لئے لحد کا لفظ استعمال ہوتا ہے، کیونکہ وہ بھی ایک کونے کی طرف مائل ہوتی ہے“۔ اصطلاحی معنی:
اصطلاح کے اندر ”الحاد“ سے ”الحاد فی الدین“ کا معنی ومفہوم مراد لینا شائع وذائع ہے، چنانچہ عرف میں اس لفظ کو ”الحاد فی الدین“ کے ساتھ ہی خاص کردیا گیا ہے، لہذا جب یہ لفظ بولا جائے تو اس سے دین کے اندر الحاد مراد ہوگا، نہ کہ مطلق الحاد، جیساکہ تفسیر کبیر میں مذکور ہے:
”فالملحد ہو المنحرف، ثم بحکم العرف اختص بالمنحرف عن الحق الی الباطل“۔ (تفسیر سورہٴ حم سجدہ:۴۰)ترجمہ:۔””ملحد“ اصل میں ”انحراف کرنے والے“ کو کہا جاتا ہے اور عرف میں اس لفظ کا استعمال ”حق سے باطل کی طرف انحراف کرنے والے“ پر ہوتا ہے “
اور تفسیر روح البیان میں مذکور ہے:
”ثم خص فی العرف بالانحراف عن الحق الی الباطل ای یمیلون عن الاستقامة“۔ (تفسیرسورہٴ حم سجدہ:۴۰)
ترجمہ:۔”پھر اس لفظ کو عرف میں حق سے باطل کی طرف انحراف کرنے والوں کے ساتھ خاص کردیاگیا، یعنی ان لوگوں پر اس لفظ کا استعمال ہوتا ہے جو دین کی درست راہ سے پھر جاتے ہیں“۔
لغوی معنی کے اعتبار سے تو یہ عام ہے کہ صراحةً کھلے طور پر انکار وانحراف کرے یا تاویلاتِ فاسدہ کے سہارے سے انحراف کرے، بہرصورت الحاد میں داخل ہے، جیساکہ فتاویٰ شامی میں ہے:
”فالملحد اوسع فرق الکفر حدا: ای ہو اعم من الکل۔“ (۴/۳۴۱)
ترجمہ:۔”لفظ” ملحد“ لغوی تعریف کے اعتبار سے کفر کی تمام اقسام کو شامل ہے“۔
اور اصطلاحی معنی کے اعتبار سے اگر دین حق کا مخالف سرے سے حق کا اقرار ہی نہیں کرتا، نہ ظاہراً حق کو قبول کرتا ہے اور نہ باطناً تو وہ ”کافر “ ہے۔ اور اگر زبان سے تو اقرار کرتا ہے، مگر دل سے منکر ہے تو وہ ”منافق“ ہے۔ اور اگر بظاہر تو دین حق کا اقرار کرتا ہے، لیکن ضروریات دین میں سے کسی امر کی ایسی تعبیر وتشریح کرتا ہے جو صحابہ وتابعین، نیز اجماع امت کے خلاف ہے تو وہ ملحد ہے، مثلاً :ایک شخص قرآن کے حق ہونے کا تو اقرار کرتا ہے اور اس میں جنت ودوزخ کا جو ذکر آیا ہے، اس کو بھی مانتا ہے، مگر کہتا ہے کہ جنت سے مراد وہ فرحت ومسرت ہے جو مؤمنین کو اعمال صالحہ اور اخلاق فاضلہ کی وجہ سے حاصل ہوگی اور نار جہنم سے مراد وہ ندامت واذیت ہے جو کافروں کو اعمال شنیعہ اور اخلاق ذمیمہ کی وجہ سے حاصل ہوگی اور کہتا ہے کہ جنت اور دوزخ کی حقیقت اس کے سوا اور کچھ نہیں، تو یہ ملحد وزندیق ہے۔
”فان الزندیق یموّہ کفرہ ویروّج عقیدتہ الفاسدة ویخرجہا فی الصورة الصحیحة وہذا معنی ابطال الکفر“۔ (فتاوی شامی ۴/۲۴۲،ط:ایچ ایم سعید)
ترجمہ:۔”زندیق اپنے کفر کی ملمع سازی کرتا ہے اور اس کو صحیح صورت میں ظاہر کرتا ہے، یہی معنی ہے کفر کو چھپانے کا“۔
یعنی اصطلاح میں عام طور سے ”الحاد“ ایسے انحراف کو کہا جاتا ہے کہ ظاہر میں تو قرآن اور اس کی آیات پر ایمان وتصدیق کا دعویٰ کرے، مگر اس کے معانی اپنی طرف سے ایسے گھڑے جو قرآن وسنت کی نصوص اور جمہور امت کے خلاف ہوں اور جس سے قرآن کا مقصد ہی الٹ جائے، جیساکہ ابن عباس سے منقول ہے:
”وقال ابن عباس: ہو تبدیل الکلام ووضعہ فی غیر موضعہ“۔
(تفسیر القرطبی، سورہ حم سجدہ:۴۰)
ترجمہ:۔”حضرت ابن عباس نے فرمایا: ”الحاد“ کلام کو تبدیل کرنے اور اس کو غیر محمل پر حمل کرنے کو کہا جاتا ہے“۔