محمد اسامہ حفیظ
رکن ختم نبوت فورم
بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
نزول عیسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام کے منکرین کے چند سوالات کے جوابات
از : محمد اسامہ حفیظ
سوال 1:- عیسیٰ علیہ السلام کا نزول نبی و رسول کی حیثیت سے ہوگا یا امتی کی حیثیت سے؟
جواب:- عیسیٰ علیہ السلام کو جب اللہ تعالیٰ نے زندہ آسمان پر اٹھایا اس وقت وہ اللہ کے نبی اور رسول تھے، اسی طرح جب وہ دوبارہ نزول فرمائیں گے تب بھی اللہ کے نبی اور رسول ہی ہوں گے۔لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبعوث ہو جانے کے بعد حضرت مسیح علیہ سلام کا دور نبوت ختم ہوچکا اب دور نبوت ہمارے نبی علیہ السلام کا ہے،اس لیے مسیح علیہ اسلام جب نازل ہوں گے تو ہمارے نبی علیہ صلاۃ و سلام کے امتی کی حیثیت سے مسلمانوں کے عادل حکمران بن کر زندگی گزاریں گے۔
ایک سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام ایک ہی وقت میں نبی اور امتی دونوں کیسے ہو سکتے ہیں تو اس کا جواب قرآن مجید میں اللہ تعالی نے پہلے ہی سے بیان فرما دیا ہے۔ اللہ فرماتا ہے
واذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ النَّبِيِّينَ لَمَا آتَيْتُكُمْ مِنْ كِتَابٍ وَحِكْمَةٍ ثُمَّ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مُصَدِّقٌ لِمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنْصُرُنَّهُ ۚ قَالَ أَأَقْرَرْتُمْ وَأَخَذْتُمْ عَلَىٰ ذَٰلِكُمْ إِصْرِي ۖ قَالُوا أَقْرَرْنَا ۚ قَالَ فَاشْهَدُوا وَأَنَا مَعَكُمْ مِنَ الشَّاهِدِينَ (آل عمران :81)
اور ( ان کو وہ وقت یاد دلاؤ ) جب اللہ نے پیغمبروں سے عہد لیا تھا کہ : اگر میں تم کو کتاب اور حکمت عطا کروں ، پھر تمہارے پاس کوئی رسول آئے جو اس ( کتاب ) کی تصدیق کرے جو تمہارے پاس ہے ، تو تم اس پر ضرور ایمان لاؤ گے ، اور ضرور اس کی مدد کرو گے ۔ اللہ نے ( ان پیغمبروں سے ) کہا تھا کہ : کیا تم اس بات کا اقرار کرتے ہو اور میری طرف سے دی ہوئی یہ ذمہ داری اٹھاتے ہو؟ انہوں نے کہا تھا : ہم اقرار کرتے ہیں ۔ اللہ نے کہا : تو پھر ( ایک دوسرے کے اقرار کے ) گواہ بن جاؤ ، اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہی میں شامل ہوں ۔
آیت میں اللہ فرماتا ہے کہ میں نے انبیاء سے عہد لیا (اور یقیناً مسیح علیہ الصلاۃ والسلام انبیاء میں شامل ہیں) کہ جب تمہارے پاس وہ نبی یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائیں تو تم ضرور ان پر ایمان لانا اور ان کی مدد کرنا۔یعنی آیت میں بتایا جا رہا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو اب ان (صلی اللہ علیہ وسلم) کا دور نبوت ہے اگر اس دور میں کوئی نبی زندہ ہے تو اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی کی حیثیت سے قرآن کے حکم پر عمل کرنا ہے اور اس بات کا عہد اللہ نے پہلے سے ہی تمام انبیاء سے لے لیا تھا۔
اس لئے عیسیٰ علیہ الصلاۃ وسلام جب دوبارہ نازل ہوں گے تو وہ اپنے عہد کو پورا فرمائے گے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لا کر آپ کے امتی کی حیثیت سے ان کے دین کی نصرت فرمائی گے۔
سوال 2:-اگر عیسیٰ علیہ السلام ایک امتی کی حیثیت سے تشریف لائیں گے تو کیا ایک امتی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ سب اہل کتاب اور غیر مسلموں کو یہ کہے کہ مجھ پر ایمان لاؤ ؟
جواب:- اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے
وَإِنْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ ۖ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكُونُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا
اہل کتاب میں ایک بھی ایسا نہ بچے گا جو حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام ) کی موت سے پہلے ان پر ایمان نہ لا چکے اور قیامت کے دن آپ ان پر گواہ ہونگے ۔ ( النساء :159)
یہ بات تو قرآن مجید ارشاد فرما رہا ہے کہ تمام اہل کتاب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات سے پہلے ان پر ایمان لے آئیں گے۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو کسی کو یہ دعوت دینے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئے گی کہ مجھ پر ایمان لاؤ، عیسیٰ علیہ السلام کا آسمان سے نازل ہونا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی کی حیثیت سے دین اسلام کی نصرت کرنا ہی دین اسلام کی صداقت کی بہت بڑی اور واضح دلیل ہوگی جس کی وجہ سے تمام اہل کتاب دین اسلام میں داخل ہو جائیں گے اور مسیح علیہ السلام پر ایمان لے آئیں گے۔
اگر کسی کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو کہ آپ پہلے اوپر لکھ کر آچکے ہیں کہ عیسیٰ علیہ اسلام کا دور نبوت ختم ہو چکا اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دور نبوت ہے تو عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان لانے کا کیا مطلب؟ تو جواب عرض ہے کہ
ہمیں نبی علیہ السلام نے جو دین عطا فرمایا ہے اس میں تمام انبیاء علیہم السلام کی نبوت پر ایمان رکھا جاتا ہے۔اور تمام انبیاء علیہم السلام میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی شامل ہیں۔اگر بالفرض حضرت مسیح علیہ سلام آکر کسی کافر کو دعوت دیتے ہیں کہ مجھ پر ایمان لاؤ تو بھی یہ دین اسلام کے خلاف نہیں بلکہ دین اسلام کی نصرت ہی ہے، کہ مسیح علیہ سلام ایک اسلامی عقیدے کی تبلیغ فرما رہے ہیں، لیکن مسیح علیہ السلام کےنزول کے بعد جو کام انہوں نے سرانجام دینے ہیں ان کے بارے میں رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَيُوشِكَنَّ أَنْ يَنْزِلَ فِيكُمُ ابْنُ مَرْيَمَ حَكَمًا مُقْسِطًا ، فَيَكْسِرَ الصَّلِيبَ ، وَيَقْتُلَ الْخِنْزِيرَ ، وَيَضَعَ الْجِزْيَةَ ، وَيَفِيضَ الْمَالُ حَتَّى لَا يَقْبَلَهُ أَحَدٌ .
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، وہ زمانہ آنے والا ہے جب ابن مریم ( عیسیٰ علیہ السلام ) تم میں ایک عادل اور منصف حاکم کی حیثیت سے اتریں گے۔ وہ صلیب کو توڑ ڈالیں گے، سوروں کو مار ڈالیں گے اور جزیہ کو ختم کر دیں گے۔ اس وقت مال کی اتنی زیادتی ہو گی کہ کوئی لینے والا نہ رہے گا۔ (صحیح البخاری رقم:2222)
تو یہ وہ کام ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمائے ہیں کہ مسیح علیہ اسلام نے نازل ہو کر کرنے ہیں۔
سوال 3:- قرآن حکیم میں جہاں ساری انسانیت اور اہل کتاب کو دعوت اسلام دی گئی ہے کیا وہاں یہ بات کہی گئی ہے کہ تم ایک امتی یعنی عیسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام پر بھی ایمان لانا ؟
جواب:- حضرت عیسی علیہ السلام اللہ کے نبی ہیں اور اللہ نے قرآن مجید میں اپنے انبیاء علیہم السلام پر ایمان لانے کا حکم ارشاد فرمایا ہے
آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِ مِنْ رَبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ ۚ كُلٌّ آمَنَ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ رُسُلِهِ ۚ وَقَالُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا ۖ غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ (البقرة:٢٨٥)
یہ رسول ( یعنی حضرت محمد صلی۔اللہ۔علیہ۔وآلہ۔وسلم ) اس چیز پر ایمان لائے ہیں جو ان کی طرف ان کے رب کی طرف سے نازل کی گئی ہے ، اور ( ان کے ساتھ ) تمام مسلمان بھی ۔ یہ سب اللہ پر ، اس کے فرشتوں پر ، اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے ہیں ۔ ( وہ کہتے ہیں کہ ) ہم اس کے رسولوں کے درمیان کوئی تفریق نہیں کرتے ( کہ کسی پر ایمان لائیں ، کسی پر نہ لائیں ) اور وہ یہ کہتے ہیں کہ : ہم نے ( اللہ اور رسول کے احکام کو توجہ سے ) سن لیا ہے ، اور ہم خوشی سے ( ان کی ) تعمیل کرتے ہیں ۔ اے ہمارے پروردگار ! ہم آپ کی مغفرت کے طلبگار ہیں ۔ اور آپ ہی کی طرف ہمیں لوٹ کرجانا ہے ۔
فَآمِنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ ۚ وَإِنْ تُؤْمِنُوا وَتَتَّقُوا فَلَكُمْ أَجْرٌ عَظِيمٌ (آل عمران :١٧٩)
لہذا تم اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان رکھو ۔ اور اگر ایمان رکھو گے اور تقوی اختیار کرو گے تو زبردست ثواب کے مستحق ہوگے ۔
اسی طرح اور بھی آیات ہیں جن میں انبیاء علیہم السلام پر ایمان لانے کا حکم ہے اور ان آیات سے حضرت مسیح علیہ السلام پر ایمان لانے کا حکم بھی معلوم ہوتا ہے۔ہمارا تو ایمان ہے کہ تمام انبیاء علیہم السلام پر ایمان لانا اسلام کے لئے ضروری ہے اگر کوئی شخص کسی ایک نبی کا بھی انکار کر دے تو وہ مسلمان نہیں رہتا اگر آپ اس کے خلاف مدعی ہیں تو کوئی دلیل پیش کریں۔
حضرت مسیح علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی بھی ہوں گے اور نبی بھی یہ بات پہلے گزر چکی ہے۔
سوال 4:- کیا قرآن و حدیث میں یہ لکھا ہوا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کا نزول بطور امتی ہوگا؟ عیسیٰ علیہ السلام کو دوبارہ نزول کے وقت ’’نبی‘‘ کی بجائے ’’امتی‘‘ ماننے سے ان کی نبوت کا انکار تو لازم نہیں آئے گا؟ (کیونکہ بزبان عیسیٰ علیہ السلام قرآنِ حکیم میں سورۂ مریم آیت نمبر: ۳۰ میں ہے وَجَعَلَنِیْ نَبِیًّا اور اس (اللہ ) نے مجھے نبی بنایا ہے۔‘‘
جواب:- قرآن مجید کی ایک آیت پہلے بھی پیش کی جا چکی ہے جس سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء علیہم السلام سے یہ عہد لیا گیا تھا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہو جائیں تو ان کا دور نبوت شروع ہو جائے گا اور باقی انبیاء علیہم السلام کو حکم تھا اگر کوئی اس دور میں موجود ہو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آئے اور آپ کے امتی کی حیثیت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کرے۔
وَإِذْ أَخَذَ اللَّـهُ مِيثَاقَ النَّبِيِّينَ لَمَا آتَيْتُكُم مِّن كِتَابٍ وَحِكْمَةٍ ثُمَّ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنصُرُنَّهُ ۚ قَالَ أَأَقْرَرْتُمْ وَأَخَذْتُمْ عَلَىٰ ذَٰلِكُمْ إِصْرِي ۖ قَالُوا أَقْرَرْنَا ۚ قَالَ فَاشْهَدُوا وَأَنَا مَعَكُم مِّنَ الشَّاهِدِينَ (آل عمران :81)
اور ( ان کو وہ وقت یاد دلاؤ ) جب اللہ نے پیغمبروں سے عہد لیا تھا کہ : اگر میں تم کو کتاب اور حکمت عطا کروں ، پھر تمہارے پاس کوئی رسول آئے جو اس ( کتاب ) کی تصدیق کرے جو تمہارے پاس ہے ، تو تم اس پر ضرور ایمان لاؤ گے ، اور ضرور اس کی مدد کرو گے ۔ اللہ نے ( ان پیغمبروں سے ) کہا تھا کہ : کیا تم اس بات کا اقرار کرتے ہو اور میری طرف سے دی ہوئی یہ ذمہ داری اٹھاتے ہو؟ انہوں نے کہا تھا : ہم اقرار کرتے ہیں ۔اللہ نے کہا : تو پھر ( ایک دوسرے کے اقرار کے ) گواہ بن جاؤ ، اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہی میں شامل ہوں۔
اس آیت سے جس طرح یہ واضح ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ رسول اللہ صلی علیہ وسلم کے امتی کی حیثیت سے نزول فرمائیں گے اسی طرح یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا امتی ماننے سے ان کی نبوت میں کوئی فرق نہیں آتا۔
آیت مبارکہ میں انبیاء علیہم السلام سے وعدہ لیا گیا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبعوث ہونے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانا ہے آگے یہ نہیں فرمایا گیا کہ ایمان لانے کے بعد ان کی نبوت ( معاذ اللہ) ختم ہو جائے گی۔
حضرت مسیح علیہ السلام کو حضور صلی اللہ وسلم کا امتی ماننے سے ان کی نبوت میں فرق نہیں پڑتا اس کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ وسلم نے حضرت مسیح علیہ السلام کے دوبارہ نزول کا ذکر فرماتے ہوئے مسیح علیہ السلام کو بار بار نبی اللہ عیسیٰ، نبی اللہ عیسیٰ ارشاد فرمایا۔(صحیح مسلم رقم :7373)
اگر مسیح علیہ السلام کی نبوت پر رسول اللہ صلی اللہ وسلم پر ایمان لانے کی وجہ سے کوئی فرق پڑنا ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسیح علیہ السلام کے نزول کا ذکر کرتے ہوئے ان کو نبی اللہ عیسیٰ کبھی نہ کہتے۔
سوال 5:-اگر عیسیٰ علیہ السلام نبی اور رسول کی حیثیت سے آئیں گے تو اس وقت آخری نبی عیسیٰ علیہ السلام ہوں گے یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم؟ کیا محمد ﷺ کی بعثت کے بعد بھی کس نبی یا رسول کی ضرورت ہے؟
جواب:- جب عیسیٰ علیہ السلام دوبارہ نازل ہوں گے تو آخری نبی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی رہیں گے۔کیونکہ حضرت مسیح علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے مبعوث ہو چکے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ علیہ السلام کے بعد مبعوث ہوئے تھے اس لیے آخری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں نہ کہ حضرت مسیح علیہ السلام۔
اس بات کو ایک مثال کے ساتھ سمجھیں(بغیر تشبیہ کے)۔ فرض کریں ایک آدمی ہے اس کے تین بیٹے ہیں،بڑے بیٹے کا نام بکر ہے اس سے چھوٹے کا نام زید ہے اور آخری بیٹے کا نام عمرو ہے۔اب کچھ دن گزرے تو اس آدمی کے آخری بیٹے یعنی عمرو کا انتقال ہو گیا۔تو کیا اب یہ کہنا درست ہوگا کہ زید اس آدمی کا آخری بیٹا ہے ہرگز نہیں بلکہ یہ کہا جائے گا اس کا آخری بیٹا عمرو تھا جس کا انتقال ہو گیا ہے لیکن اس کا بڑا بھائی (عمرو کے لحاظ سے) ابھی ذندہ ہے۔آدمی کا آخری بیٹا عمرو ہی رہے گا لیکن اللہ نے اس کو زندگی زید اور بکر سے کم عطا کی۔
اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سب انبیاء کے بعد سب سے آخر میں مبعوث فرمایا اور آپ اپنی ساری زندگی اللہ کے دین کی تبلیغ کرتے رہے اور اپنی زندگی مکمل فرما کر دنیا سے تشریف لے گئے لیکن مسیح علیہ السلام جو آپ صلی اللہ وسلم سے پہلے مبعوث ہوئے تھے اللہ تعالی نے ان کو زندہ آسمان پر اٹھا لیا جس کی وجہ سے آپ نے اپنی زندگی مکمل نہیں فرمائی اب قرب قیامت آپ دوبارہ نازل ہوں گے اور اپنی زندگی کو مکمل فرمائیں گے اس کے بعد آپ بھی باقی انبیاء علیہم السلام کی طرح اس دنیا سے تشریف لے جائیں گے۔(اس عقیدہ پر بےشمار احادیث اور اجماع امت دلیل ہے)
رہا سوال کا دوسرا حصہ کہ رسول اللہ صلی اللہ وسلم کے مبعوث ہو جانے کے بعد کسی اور نبی کی ضرورت ہے یا نہیں ؟ تو جواب عرض ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبعوث ہو جانے کے بعد کسی نئے نبی کے مبعوث ہونے کی ضرورت نہیں۔حضرت مسیح علیہ السلام حضور علیہ السلام سے پہلے مبعوث ہو چکے ہیں آپ اپنے عہد جو اللہ سے کیا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائیں گے اور آپ کی مدد کریں گے کو پورا کرنے کے لئے دوبارہ نازل ہوں گے۔
”رسول اللہ صلی اللہ وسلم کے مبعوث ہونے کے بعد کسی نئے نبی کی ضرورت نہیں“ یہ اس بات کی دلیل نہیں کہ آپ علیہ السلام کے مبعوث ہونے سے پہلے موجود زندہ نبی فوت ہو جائے گا۔اس لیے یہ عقیدہ حیات مسیح علیہ السلام کے انکار کی دلیل نہیں بتا۔
سوال 6:- اگر تمام انبیاء علیہم السلام کے آخر میں آنے والی ہستی عیسیٰ علیہ السلام کو مانا جائے تو محمدﷺ کے اس فرمان کا: «فَإِنِّیْ آخِرُ الْأَنْبِیَاء لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ» ’’میں تمام نبیوں کے آخر پر ہوں اور میرے بعد کسی قسم کا کوئی نبی نہیں ہوگا۔‘‘ کا کیا معنی و مفہوم ہوگا؟
جواب:- پہلے جواب دیا جا چکا ہے کہ ہم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی تمام انبیاء علیہم السلام کے بعد مبعوث ہونے والی ہستی مانتے ہیں، اس عقیدے پر دلیل آپ نے خود ہی پیش کر دی کہ حضور علیہ السلام نے ارشاد فرمایا «فَإِنِّیْ آخِرُ الْأَنْبِیَاء لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ» ’’میں تمام نبیوں کے آخر پر ہوں اور میرے بعد کسی قسم کا کوئی نبی نہیں ہوگا۔‘‘ ہمارا بھی یہی ایمان ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام انبیاء علیہم السلام کے بعد یعنی سب سے آخر میں مبعوث ہونے، تمام انبیاء بمع حضرت مسیح علیہ السلام حضور سے پہلے معبوث ہو چکے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی قسم کا کوئی نیا نبی مبعوث نہیں ہوگا۔
سوال 7:- عیسیٰ علیہ السلام کا آسمانوں پر اٹھایا جانا اور وہاں صدیوں رہنا اور پھر زمین پر نزول فرمانا اللہ کی نعمتوں میں سے ہے یا نہیں؟ ( اگر نعمتوں میں سے ہے تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن عیسیٰ علیہ السلام کو اپنی نعمتیں یاد کرائے گا۔ ان نعمتوں میں عیسیٰ علیہ السلام کا آسمانوں پر اٹھایا جانا، پھر زمین پر نزول فرمانے کا کوئی ذکر نہیں ہے، اس کی کیا وجہ ہے؟ ) کیا (نعوذ باللہ) اللہ تعالیٰ اتنی بڑی نعمت کا ذکر کرنا بھول گئے ہیں یا آسمانوں پر اٹھایا جانے کا واقعہ ہی رونما نہیں ہوا ہے؟
جواب:- بے شک حضرت مسیح علیہ السلام کا آسمان پر زندہ اٹھایا جانا اللہ کا ایک بہت بڑا انعام ہے۔آگے جو آپ نے بات فرمائی ہے کہ ”تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن عیسیٰ علیہ السلام کو اپنی نعمتیں یاد کرائے گا۔ ان نعمتوں میں عیسیٰ علیہ السلام کا آسمانوں پر اٹھایا جانا، پھر زمین پر نزول فرمانے کا کوئی ذکر نہیں ہے، اس کی کیا وجہ ہے؟“ تو اس کا جواب بھی عرض ہے کہ اللہ تعالی نے جہاں حضرت عیسی علیہ السلام کو اپنی نعمتیں یاد کروائیں ہیں وہاں اس انعام کا بھی ذکر فرمایا ہے شاید آپ کی نظر نہیں پڑی ہو ہم آپ کے سامنے پیش کر دیتے ہیں
اللہ ارشاد فرماتا ہے
إِذْ قَالَ اللَّـهُ يَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ اذْكُرْ نِعْمَتِي عَلَيْكَ وَعَلَىٰ وَالِدَتِكَ إِذْ أَيَّدتُّكَ بِرُوحِ الْقُدُسِ تُكَلِّمُ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ وَكَهْلًا ۖ....( المائدہ:110)
۔ ( یہ واقعہ اس دن ہوگا ) جب اللہ کہے گا : اے عیسیٰ ابن مریم ! میرا انعام یاد کرو جو میں نے تم پر اور تمہاری والدہ پر کیا تھا ، جب میں نے روح۔القدس کے ذریعے تمہاری مدد کی تھی ۔ تم لوگوں سے گہوارے میں بھی بات کرتے تھے ، اور بڑی عمر میں بھی ۔
اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالی حضرت مسیح علیہ السلام کو وہ انعامات یاد کرا رہا ہے جو اللہ نے ان پر کیے۔ان میں سے ایک انعام کہولت میں خارق عادت گفتگو کرنا بھی ہے۔یہاں کہولت میں گفتگو کو خارق عادت ہی ماننا پڑے گا کیوں کہ پہلے مہد میں خارق عادت گفتگو کا تذکرہ ہے۔اور آیت کا سیاق و سباق بھی بتا رہا ہے کہ اللہ کے انعامات کا تذکرہ ہو رہا ہے۔اگر کہولت میں گفتگو کو خارق عادت نہ مانا جائے تو ہر انسان ہی کہولت میں گفتگو کرتا ہے اس میں حضرت مسیح علیہ اسلام کی کیا فضیلت ہے یا ان پر کیا انعام کیا گیا۔
اور کہولت میں خارق عادت گفتگو نزول کے بعد ہی ممکن ہے۔نہیں تو کہولت میں گفتگو تو ہے لیکن خرق عادت نہیں۔یہ بات ہم اپنی طرف سے نہیں کہہ رہے بلکہ امت کے مفسرین نے بھی یہ ہی بات فرمائی ہے ( دیکھیں تفسیر جلالین و تفسیر کبیر ذیل آیت کریمہ )
تو مختصر یہ کہ آیت مبارکہ کے سیاق و سباق سے یہ بات ماننی پڑے گی کہ کہولت میں مسیح علیہ السلام کی جس گفتگو کا ذکر ہے وہ خارق عادت گفتگو ہے،اور کہولت کی گفتگو خارق عادت تب ہی ممکن ہے جب اسے نزول من السماء کے بعد کی گفتگو مانا جائے۔پس ثابت ہوا کہ اللہ تعالی جب مسیح علیہ الصلاۃ والسلام کو اپنے انعامات یاد دلوائے گا وہاں ان کے رفع و نزول والے انعام کا ذکر بھی فرمائیے گا بروز قیامت۔
آخر میں آکر کر جناب نے یہ الفاظ لکھیں
”بلکہ حقیقت یہ ہے کہ: محمدﷺخاتم النبیین ہیں، جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کے ذریعے تمام انبیاء علیہم السلام کے سلسلے کو ختم اور بند کردیا ہے۔ اب عیسیٰ علیہ السلام کا نزول بطور امتی یا نبی نہیں ہوگا۔آپ سے پہلے تمام انبیاء علیہم السلام وفات پاچکے ہیں، جن میں عیسیٰ علیہ السلام بھی شامل ہیں۔ نزول مسیح علیہ السلام کا عقیدہ ہر لحاظ سے عیسائیوں کا عقیدہ ہے جو منظم سازش سے مسلمانوں میں پھیلایا گیا ہے۔“
گزارش یہ ہے کہ ہمارا یہ ایمان ہے کہ ”محمد صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہے جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی نے آپ کے ذریعے تمام انبیاء علیہم السلام کے سلسلے کو ختم اور بند کر دیا ہے“ مگر اس سے ہر گز یہ لازم نہیں آتا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام جن کو اللہ نے زندہ آسمان پر اٹھا لیا قرب قیامت اللہ کے حکم سے نازل نہیں ہوں گے۔ہمارا یہ ایمان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اللہ نے سلسلہ نبوت ختم فرما دیا ہے مگر اس سے یہ ہرگز لازم نہیں آتا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام جو زندہ آسمان پر موجود ہیں فوت ہوچکے ہیں۔
جہاں تک دوسرے عتراض کا تعلق ہے کہ یہ عقیدہ عیسائیوں سے مسلمانوں میں آیا ہے تو عرض یہ ہے کہ عیسائی بھی اللہ کو مانتے ہیں اور مسلمان بھی اللہ کو مانتے ہیں تو کیا صرف اس بنا پر کے عیسائی اللہ کو مانتے ہیں ہم اللہ کا انکار کردیں؟
ممکن ہے کہ کسی کے ذہن میں یہ خیال پیدا ہو کہ عیسائیوں کے نظریہ اور مسلمانوں کے نظریہ میں بہت فرق ہے تو عرض یہ ہے کہ حیات مسیح علیہ السلام کے نظریہ اور عقیدہ میں بھی عیسائیوں میں اور مسلمانوں میں بہت زیادہ فرق ہے۔آپ کو ذات باری کے متعلق تو یہ خیال آگیا کہ ان کے نظریہ میں اور ہمارے نظریہ میں فرق ہے حیات مسیح علیہ السلام کے عقیدہ کے متعلق آپ کو یہ سوچ کیوں نہ آئی۔ہم آپ کے سامنے عیسائی نظریہ اور مسلم نظریہ میں موجود کچھ فرق پیش کر دیتے ہیں
فرق نمبر 1۔ عیسائیوں کے نزدیک حضرت عیسی علیہ الصلاۃ والسلام کو یہودیوں نے پکڑ لیا یہودیوں نے معاذاللہ آپ کی توہین کی،اور وہ توہین کی کچھ تفصیلات بیان کرتے ہیں۔جبکہ ہمارا یہ نظریہ ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کو اللہ نے یہودیوں کے شر سے محفوظ رکھا،یہودی آپ کو ہاتھ تک نہ لگا سکے،اور ہم عیسائیوں کے اس خیال کہ حضرت مسیح علیہ اسلام کی توہین کی گئی کو کذب و دروغ اور کفر صریح سمجھتے ہیں۔
لقوله تعالى : وجيها في الدنيا و الاخرة
فرق نمبر 2۔ عیسائیوں کا یہ عقیدہ ہے کہ مسیح علیہ السلام کو صلیب پر لٹکایا گیا جبکہ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ مسیح علیہ السلام نہ مقتول ہوئے نہ مصلوب، بلکہ اسلام تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو صلیب پر لٹکائے جانے کے عقیدے کو خالص کفر سمجھتا ہے۔
فرق نمبر 3۔عیسائیوں کا عقیدہ ہے کہ مسیح علیہ السلام تین دن قبر میں مدفون رہے اسلام اس کی سرے سے ہی نفی کرتا ہے۔
اس قدر فرق کے باوجود اگر کوئی یہ کہے کہ مسلمانوں کے اور عیسائیوں کے عقیدہ حیات مسیح علیہ السلام میں کوئی فرق نہیں تو یہ دجل نہیں تو اور کیا ہے۔
نزول عیسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام کے منکرین کے چند سوالات کے جوابات
از : محمد اسامہ حفیظ
سوال 1:- عیسیٰ علیہ السلام کا نزول نبی و رسول کی حیثیت سے ہوگا یا امتی کی حیثیت سے؟
جواب:- عیسیٰ علیہ السلام کو جب اللہ تعالیٰ نے زندہ آسمان پر اٹھایا اس وقت وہ اللہ کے نبی اور رسول تھے، اسی طرح جب وہ دوبارہ نزول فرمائیں گے تب بھی اللہ کے نبی اور رسول ہی ہوں گے۔لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبعوث ہو جانے کے بعد حضرت مسیح علیہ سلام کا دور نبوت ختم ہوچکا اب دور نبوت ہمارے نبی علیہ السلام کا ہے،اس لیے مسیح علیہ اسلام جب نازل ہوں گے تو ہمارے نبی علیہ صلاۃ و سلام کے امتی کی حیثیت سے مسلمانوں کے عادل حکمران بن کر زندگی گزاریں گے۔
ایک سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام ایک ہی وقت میں نبی اور امتی دونوں کیسے ہو سکتے ہیں تو اس کا جواب قرآن مجید میں اللہ تعالی نے پہلے ہی سے بیان فرما دیا ہے۔ اللہ فرماتا ہے
واذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ النَّبِيِّينَ لَمَا آتَيْتُكُمْ مِنْ كِتَابٍ وَحِكْمَةٍ ثُمَّ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مُصَدِّقٌ لِمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنْصُرُنَّهُ ۚ قَالَ أَأَقْرَرْتُمْ وَأَخَذْتُمْ عَلَىٰ ذَٰلِكُمْ إِصْرِي ۖ قَالُوا أَقْرَرْنَا ۚ قَالَ فَاشْهَدُوا وَأَنَا مَعَكُمْ مِنَ الشَّاهِدِينَ (آل عمران :81)
اور ( ان کو وہ وقت یاد دلاؤ ) جب اللہ نے پیغمبروں سے عہد لیا تھا کہ : اگر میں تم کو کتاب اور حکمت عطا کروں ، پھر تمہارے پاس کوئی رسول آئے جو اس ( کتاب ) کی تصدیق کرے جو تمہارے پاس ہے ، تو تم اس پر ضرور ایمان لاؤ گے ، اور ضرور اس کی مدد کرو گے ۔ اللہ نے ( ان پیغمبروں سے ) کہا تھا کہ : کیا تم اس بات کا اقرار کرتے ہو اور میری طرف سے دی ہوئی یہ ذمہ داری اٹھاتے ہو؟ انہوں نے کہا تھا : ہم اقرار کرتے ہیں ۔ اللہ نے کہا : تو پھر ( ایک دوسرے کے اقرار کے ) گواہ بن جاؤ ، اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہی میں شامل ہوں ۔
آیت میں اللہ فرماتا ہے کہ میں نے انبیاء سے عہد لیا (اور یقیناً مسیح علیہ الصلاۃ والسلام انبیاء میں شامل ہیں) کہ جب تمہارے پاس وہ نبی یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائیں تو تم ضرور ان پر ایمان لانا اور ان کی مدد کرنا۔یعنی آیت میں بتایا جا رہا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو اب ان (صلی اللہ علیہ وسلم) کا دور نبوت ہے اگر اس دور میں کوئی نبی زندہ ہے تو اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی کی حیثیت سے قرآن کے حکم پر عمل کرنا ہے اور اس بات کا عہد اللہ نے پہلے سے ہی تمام انبیاء سے لے لیا تھا۔
اس لئے عیسیٰ علیہ الصلاۃ وسلام جب دوبارہ نازل ہوں گے تو وہ اپنے عہد کو پورا فرمائے گے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لا کر آپ کے امتی کی حیثیت سے ان کے دین کی نصرت فرمائی گے۔
سوال 2:-اگر عیسیٰ علیہ السلام ایک امتی کی حیثیت سے تشریف لائیں گے تو کیا ایک امتی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ سب اہل کتاب اور غیر مسلموں کو یہ کہے کہ مجھ پر ایمان لاؤ ؟
جواب:- اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے
وَإِنْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ ۖ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكُونُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا
اہل کتاب میں ایک بھی ایسا نہ بچے گا جو حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام ) کی موت سے پہلے ان پر ایمان نہ لا چکے اور قیامت کے دن آپ ان پر گواہ ہونگے ۔ ( النساء :159)
یہ بات تو قرآن مجید ارشاد فرما رہا ہے کہ تمام اہل کتاب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات سے پہلے ان پر ایمان لے آئیں گے۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو کسی کو یہ دعوت دینے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئے گی کہ مجھ پر ایمان لاؤ، عیسیٰ علیہ السلام کا آسمان سے نازل ہونا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی کی حیثیت سے دین اسلام کی نصرت کرنا ہی دین اسلام کی صداقت کی بہت بڑی اور واضح دلیل ہوگی جس کی وجہ سے تمام اہل کتاب دین اسلام میں داخل ہو جائیں گے اور مسیح علیہ السلام پر ایمان لے آئیں گے۔
اگر کسی کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو کہ آپ پہلے اوپر لکھ کر آچکے ہیں کہ عیسیٰ علیہ اسلام کا دور نبوت ختم ہو چکا اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دور نبوت ہے تو عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان لانے کا کیا مطلب؟ تو جواب عرض ہے کہ
ہمیں نبی علیہ السلام نے جو دین عطا فرمایا ہے اس میں تمام انبیاء علیہم السلام کی نبوت پر ایمان رکھا جاتا ہے۔اور تمام انبیاء علیہم السلام میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی شامل ہیں۔اگر بالفرض حضرت مسیح علیہ سلام آکر کسی کافر کو دعوت دیتے ہیں کہ مجھ پر ایمان لاؤ تو بھی یہ دین اسلام کے خلاف نہیں بلکہ دین اسلام کی نصرت ہی ہے، کہ مسیح علیہ سلام ایک اسلامی عقیدے کی تبلیغ فرما رہے ہیں، لیکن مسیح علیہ السلام کےنزول کے بعد جو کام انہوں نے سرانجام دینے ہیں ان کے بارے میں رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَيُوشِكَنَّ أَنْ يَنْزِلَ فِيكُمُ ابْنُ مَرْيَمَ حَكَمًا مُقْسِطًا ، فَيَكْسِرَ الصَّلِيبَ ، وَيَقْتُلَ الْخِنْزِيرَ ، وَيَضَعَ الْجِزْيَةَ ، وَيَفِيضَ الْمَالُ حَتَّى لَا يَقْبَلَهُ أَحَدٌ .
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، وہ زمانہ آنے والا ہے جب ابن مریم ( عیسیٰ علیہ السلام ) تم میں ایک عادل اور منصف حاکم کی حیثیت سے اتریں گے۔ وہ صلیب کو توڑ ڈالیں گے، سوروں کو مار ڈالیں گے اور جزیہ کو ختم کر دیں گے۔ اس وقت مال کی اتنی زیادتی ہو گی کہ کوئی لینے والا نہ رہے گا۔ (صحیح البخاری رقم:2222)
تو یہ وہ کام ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمائے ہیں کہ مسیح علیہ اسلام نے نازل ہو کر کرنے ہیں۔
سوال 3:- قرآن حکیم میں جہاں ساری انسانیت اور اہل کتاب کو دعوت اسلام دی گئی ہے کیا وہاں یہ بات کہی گئی ہے کہ تم ایک امتی یعنی عیسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام پر بھی ایمان لانا ؟
جواب:- حضرت عیسی علیہ السلام اللہ کے نبی ہیں اور اللہ نے قرآن مجید میں اپنے انبیاء علیہم السلام پر ایمان لانے کا حکم ارشاد فرمایا ہے
آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِ مِنْ رَبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ ۚ كُلٌّ آمَنَ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ رُسُلِهِ ۚ وَقَالُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا ۖ غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ (البقرة:٢٨٥)
یہ رسول ( یعنی حضرت محمد صلی۔اللہ۔علیہ۔وآلہ۔وسلم ) اس چیز پر ایمان لائے ہیں جو ان کی طرف ان کے رب کی طرف سے نازل کی گئی ہے ، اور ( ان کے ساتھ ) تمام مسلمان بھی ۔ یہ سب اللہ پر ، اس کے فرشتوں پر ، اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے ہیں ۔ ( وہ کہتے ہیں کہ ) ہم اس کے رسولوں کے درمیان کوئی تفریق نہیں کرتے ( کہ کسی پر ایمان لائیں ، کسی پر نہ لائیں ) اور وہ یہ کہتے ہیں کہ : ہم نے ( اللہ اور رسول کے احکام کو توجہ سے ) سن لیا ہے ، اور ہم خوشی سے ( ان کی ) تعمیل کرتے ہیں ۔ اے ہمارے پروردگار ! ہم آپ کی مغفرت کے طلبگار ہیں ۔ اور آپ ہی کی طرف ہمیں لوٹ کرجانا ہے ۔
فَآمِنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ ۚ وَإِنْ تُؤْمِنُوا وَتَتَّقُوا فَلَكُمْ أَجْرٌ عَظِيمٌ (آل عمران :١٧٩)
لہذا تم اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان رکھو ۔ اور اگر ایمان رکھو گے اور تقوی اختیار کرو گے تو زبردست ثواب کے مستحق ہوگے ۔
اسی طرح اور بھی آیات ہیں جن میں انبیاء علیہم السلام پر ایمان لانے کا حکم ہے اور ان آیات سے حضرت مسیح علیہ السلام پر ایمان لانے کا حکم بھی معلوم ہوتا ہے۔ہمارا تو ایمان ہے کہ تمام انبیاء علیہم السلام پر ایمان لانا اسلام کے لئے ضروری ہے اگر کوئی شخص کسی ایک نبی کا بھی انکار کر دے تو وہ مسلمان نہیں رہتا اگر آپ اس کے خلاف مدعی ہیں تو کوئی دلیل پیش کریں۔
حضرت مسیح علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی بھی ہوں گے اور نبی بھی یہ بات پہلے گزر چکی ہے۔
سوال 4:- کیا قرآن و حدیث میں یہ لکھا ہوا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کا نزول بطور امتی ہوگا؟ عیسیٰ علیہ السلام کو دوبارہ نزول کے وقت ’’نبی‘‘ کی بجائے ’’امتی‘‘ ماننے سے ان کی نبوت کا انکار تو لازم نہیں آئے گا؟ (کیونکہ بزبان عیسیٰ علیہ السلام قرآنِ حکیم میں سورۂ مریم آیت نمبر: ۳۰ میں ہے وَجَعَلَنِیْ نَبِیًّا اور اس (اللہ ) نے مجھے نبی بنایا ہے۔‘‘
جواب:- قرآن مجید کی ایک آیت پہلے بھی پیش کی جا چکی ہے جس سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء علیہم السلام سے یہ عہد لیا گیا تھا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہو جائیں تو ان کا دور نبوت شروع ہو جائے گا اور باقی انبیاء علیہم السلام کو حکم تھا اگر کوئی اس دور میں موجود ہو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آئے اور آپ کے امتی کی حیثیت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کرے۔
وَإِذْ أَخَذَ اللَّـهُ مِيثَاقَ النَّبِيِّينَ لَمَا آتَيْتُكُم مِّن كِتَابٍ وَحِكْمَةٍ ثُمَّ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنصُرُنَّهُ ۚ قَالَ أَأَقْرَرْتُمْ وَأَخَذْتُمْ عَلَىٰ ذَٰلِكُمْ إِصْرِي ۖ قَالُوا أَقْرَرْنَا ۚ قَالَ فَاشْهَدُوا وَأَنَا مَعَكُم مِّنَ الشَّاهِدِينَ (آل عمران :81)
اور ( ان کو وہ وقت یاد دلاؤ ) جب اللہ نے پیغمبروں سے عہد لیا تھا کہ : اگر میں تم کو کتاب اور حکمت عطا کروں ، پھر تمہارے پاس کوئی رسول آئے جو اس ( کتاب ) کی تصدیق کرے جو تمہارے پاس ہے ، تو تم اس پر ضرور ایمان لاؤ گے ، اور ضرور اس کی مدد کرو گے ۔ اللہ نے ( ان پیغمبروں سے ) کہا تھا کہ : کیا تم اس بات کا اقرار کرتے ہو اور میری طرف سے دی ہوئی یہ ذمہ داری اٹھاتے ہو؟ انہوں نے کہا تھا : ہم اقرار کرتے ہیں ۔اللہ نے کہا : تو پھر ( ایک دوسرے کے اقرار کے ) گواہ بن جاؤ ، اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہی میں شامل ہوں۔
اس آیت سے جس طرح یہ واضح ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ رسول اللہ صلی علیہ وسلم کے امتی کی حیثیت سے نزول فرمائیں گے اسی طرح یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا امتی ماننے سے ان کی نبوت میں کوئی فرق نہیں آتا۔
آیت مبارکہ میں انبیاء علیہم السلام سے وعدہ لیا گیا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبعوث ہونے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانا ہے آگے یہ نہیں فرمایا گیا کہ ایمان لانے کے بعد ان کی نبوت ( معاذ اللہ) ختم ہو جائے گی۔
حضرت مسیح علیہ السلام کو حضور صلی اللہ وسلم کا امتی ماننے سے ان کی نبوت میں فرق نہیں پڑتا اس کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ وسلم نے حضرت مسیح علیہ السلام کے دوبارہ نزول کا ذکر فرماتے ہوئے مسیح علیہ السلام کو بار بار نبی اللہ عیسیٰ، نبی اللہ عیسیٰ ارشاد فرمایا۔(صحیح مسلم رقم :7373)
اگر مسیح علیہ السلام کی نبوت پر رسول اللہ صلی اللہ وسلم پر ایمان لانے کی وجہ سے کوئی فرق پڑنا ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسیح علیہ السلام کے نزول کا ذکر کرتے ہوئے ان کو نبی اللہ عیسیٰ کبھی نہ کہتے۔
سوال 5:-اگر عیسیٰ علیہ السلام نبی اور رسول کی حیثیت سے آئیں گے تو اس وقت آخری نبی عیسیٰ علیہ السلام ہوں گے یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم؟ کیا محمد ﷺ کی بعثت کے بعد بھی کس نبی یا رسول کی ضرورت ہے؟
جواب:- جب عیسیٰ علیہ السلام دوبارہ نازل ہوں گے تو آخری نبی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی رہیں گے۔کیونکہ حضرت مسیح علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے مبعوث ہو چکے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ علیہ السلام کے بعد مبعوث ہوئے تھے اس لیے آخری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں نہ کہ حضرت مسیح علیہ السلام۔
اس بات کو ایک مثال کے ساتھ سمجھیں(بغیر تشبیہ کے)۔ فرض کریں ایک آدمی ہے اس کے تین بیٹے ہیں،بڑے بیٹے کا نام بکر ہے اس سے چھوٹے کا نام زید ہے اور آخری بیٹے کا نام عمرو ہے۔اب کچھ دن گزرے تو اس آدمی کے آخری بیٹے یعنی عمرو کا انتقال ہو گیا۔تو کیا اب یہ کہنا درست ہوگا کہ زید اس آدمی کا آخری بیٹا ہے ہرگز نہیں بلکہ یہ کہا جائے گا اس کا آخری بیٹا عمرو تھا جس کا انتقال ہو گیا ہے لیکن اس کا بڑا بھائی (عمرو کے لحاظ سے) ابھی ذندہ ہے۔آدمی کا آخری بیٹا عمرو ہی رہے گا لیکن اللہ نے اس کو زندگی زید اور بکر سے کم عطا کی۔
اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سب انبیاء کے بعد سب سے آخر میں مبعوث فرمایا اور آپ اپنی ساری زندگی اللہ کے دین کی تبلیغ کرتے رہے اور اپنی زندگی مکمل فرما کر دنیا سے تشریف لے گئے لیکن مسیح علیہ السلام جو آپ صلی اللہ وسلم سے پہلے مبعوث ہوئے تھے اللہ تعالی نے ان کو زندہ آسمان پر اٹھا لیا جس کی وجہ سے آپ نے اپنی زندگی مکمل نہیں فرمائی اب قرب قیامت آپ دوبارہ نازل ہوں گے اور اپنی زندگی کو مکمل فرمائیں گے اس کے بعد آپ بھی باقی انبیاء علیہم السلام کی طرح اس دنیا سے تشریف لے جائیں گے۔(اس عقیدہ پر بےشمار احادیث اور اجماع امت دلیل ہے)
رہا سوال کا دوسرا حصہ کہ رسول اللہ صلی اللہ وسلم کے مبعوث ہو جانے کے بعد کسی اور نبی کی ضرورت ہے یا نہیں ؟ تو جواب عرض ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبعوث ہو جانے کے بعد کسی نئے نبی کے مبعوث ہونے کی ضرورت نہیں۔حضرت مسیح علیہ السلام حضور علیہ السلام سے پہلے مبعوث ہو چکے ہیں آپ اپنے عہد جو اللہ سے کیا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائیں گے اور آپ کی مدد کریں گے کو پورا کرنے کے لئے دوبارہ نازل ہوں گے۔
”رسول اللہ صلی اللہ وسلم کے مبعوث ہونے کے بعد کسی نئے نبی کی ضرورت نہیں“ یہ اس بات کی دلیل نہیں کہ آپ علیہ السلام کے مبعوث ہونے سے پہلے موجود زندہ نبی فوت ہو جائے گا۔اس لیے یہ عقیدہ حیات مسیح علیہ السلام کے انکار کی دلیل نہیں بتا۔
سوال 6:- اگر تمام انبیاء علیہم السلام کے آخر میں آنے والی ہستی عیسیٰ علیہ السلام کو مانا جائے تو محمدﷺ کے اس فرمان کا: «فَإِنِّیْ آخِرُ الْأَنْبِیَاء لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ» ’’میں تمام نبیوں کے آخر پر ہوں اور میرے بعد کسی قسم کا کوئی نبی نہیں ہوگا۔‘‘ کا کیا معنی و مفہوم ہوگا؟
جواب:- پہلے جواب دیا جا چکا ہے کہ ہم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی تمام انبیاء علیہم السلام کے بعد مبعوث ہونے والی ہستی مانتے ہیں، اس عقیدے پر دلیل آپ نے خود ہی پیش کر دی کہ حضور علیہ السلام نے ارشاد فرمایا «فَإِنِّیْ آخِرُ الْأَنْبِیَاء لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ» ’’میں تمام نبیوں کے آخر پر ہوں اور میرے بعد کسی قسم کا کوئی نبی نہیں ہوگا۔‘‘ ہمارا بھی یہی ایمان ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام انبیاء علیہم السلام کے بعد یعنی سب سے آخر میں مبعوث ہونے، تمام انبیاء بمع حضرت مسیح علیہ السلام حضور سے پہلے معبوث ہو چکے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی قسم کا کوئی نیا نبی مبعوث نہیں ہوگا۔
سوال 7:- عیسیٰ علیہ السلام کا آسمانوں پر اٹھایا جانا اور وہاں صدیوں رہنا اور پھر زمین پر نزول فرمانا اللہ کی نعمتوں میں سے ہے یا نہیں؟ ( اگر نعمتوں میں سے ہے تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن عیسیٰ علیہ السلام کو اپنی نعمتیں یاد کرائے گا۔ ان نعمتوں میں عیسیٰ علیہ السلام کا آسمانوں پر اٹھایا جانا، پھر زمین پر نزول فرمانے کا کوئی ذکر نہیں ہے، اس کی کیا وجہ ہے؟ ) کیا (نعوذ باللہ) اللہ تعالیٰ اتنی بڑی نعمت کا ذکر کرنا بھول گئے ہیں یا آسمانوں پر اٹھایا جانے کا واقعہ ہی رونما نہیں ہوا ہے؟
جواب:- بے شک حضرت مسیح علیہ السلام کا آسمان پر زندہ اٹھایا جانا اللہ کا ایک بہت بڑا انعام ہے۔آگے جو آپ نے بات فرمائی ہے کہ ”تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن عیسیٰ علیہ السلام کو اپنی نعمتیں یاد کرائے گا۔ ان نعمتوں میں عیسیٰ علیہ السلام کا آسمانوں پر اٹھایا جانا، پھر زمین پر نزول فرمانے کا کوئی ذکر نہیں ہے، اس کی کیا وجہ ہے؟“ تو اس کا جواب بھی عرض ہے کہ اللہ تعالی نے جہاں حضرت عیسی علیہ السلام کو اپنی نعمتیں یاد کروائیں ہیں وہاں اس انعام کا بھی ذکر فرمایا ہے شاید آپ کی نظر نہیں پڑی ہو ہم آپ کے سامنے پیش کر دیتے ہیں
اللہ ارشاد فرماتا ہے
إِذْ قَالَ اللَّـهُ يَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ اذْكُرْ نِعْمَتِي عَلَيْكَ وَعَلَىٰ وَالِدَتِكَ إِذْ أَيَّدتُّكَ بِرُوحِ الْقُدُسِ تُكَلِّمُ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ وَكَهْلًا ۖ....( المائدہ:110)
۔ ( یہ واقعہ اس دن ہوگا ) جب اللہ کہے گا : اے عیسیٰ ابن مریم ! میرا انعام یاد کرو جو میں نے تم پر اور تمہاری والدہ پر کیا تھا ، جب میں نے روح۔القدس کے ذریعے تمہاری مدد کی تھی ۔ تم لوگوں سے گہوارے میں بھی بات کرتے تھے ، اور بڑی عمر میں بھی ۔
اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالی حضرت مسیح علیہ السلام کو وہ انعامات یاد کرا رہا ہے جو اللہ نے ان پر کیے۔ان میں سے ایک انعام کہولت میں خارق عادت گفتگو کرنا بھی ہے۔یہاں کہولت میں گفتگو کو خارق عادت ہی ماننا پڑے گا کیوں کہ پہلے مہد میں خارق عادت گفتگو کا تذکرہ ہے۔اور آیت کا سیاق و سباق بھی بتا رہا ہے کہ اللہ کے انعامات کا تذکرہ ہو رہا ہے۔اگر کہولت میں گفتگو کو خارق عادت نہ مانا جائے تو ہر انسان ہی کہولت میں گفتگو کرتا ہے اس میں حضرت مسیح علیہ اسلام کی کیا فضیلت ہے یا ان پر کیا انعام کیا گیا۔
اور کہولت میں خارق عادت گفتگو نزول کے بعد ہی ممکن ہے۔نہیں تو کہولت میں گفتگو تو ہے لیکن خرق عادت نہیں۔یہ بات ہم اپنی طرف سے نہیں کہہ رہے بلکہ امت کے مفسرین نے بھی یہ ہی بات فرمائی ہے ( دیکھیں تفسیر جلالین و تفسیر کبیر ذیل آیت کریمہ )
تو مختصر یہ کہ آیت مبارکہ کے سیاق و سباق سے یہ بات ماننی پڑے گی کہ کہولت میں مسیح علیہ السلام کی جس گفتگو کا ذکر ہے وہ خارق عادت گفتگو ہے،اور کہولت کی گفتگو خارق عادت تب ہی ممکن ہے جب اسے نزول من السماء کے بعد کی گفتگو مانا جائے۔پس ثابت ہوا کہ اللہ تعالی جب مسیح علیہ الصلاۃ والسلام کو اپنے انعامات یاد دلوائے گا وہاں ان کے رفع و نزول والے انعام کا ذکر بھی فرمائیے گا بروز قیامت۔
آخر میں آکر کر جناب نے یہ الفاظ لکھیں
”بلکہ حقیقت یہ ہے کہ: محمدﷺخاتم النبیین ہیں، جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کے ذریعے تمام انبیاء علیہم السلام کے سلسلے کو ختم اور بند کردیا ہے۔ اب عیسیٰ علیہ السلام کا نزول بطور امتی یا نبی نہیں ہوگا۔آپ سے پہلے تمام انبیاء علیہم السلام وفات پاچکے ہیں، جن میں عیسیٰ علیہ السلام بھی شامل ہیں۔ نزول مسیح علیہ السلام کا عقیدہ ہر لحاظ سے عیسائیوں کا عقیدہ ہے جو منظم سازش سے مسلمانوں میں پھیلایا گیا ہے۔“
گزارش یہ ہے کہ ہمارا یہ ایمان ہے کہ ”محمد صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہے جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی نے آپ کے ذریعے تمام انبیاء علیہم السلام کے سلسلے کو ختم اور بند کر دیا ہے“ مگر اس سے ہر گز یہ لازم نہیں آتا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام جن کو اللہ نے زندہ آسمان پر اٹھا لیا قرب قیامت اللہ کے حکم سے نازل نہیں ہوں گے۔ہمارا یہ ایمان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اللہ نے سلسلہ نبوت ختم فرما دیا ہے مگر اس سے یہ ہرگز لازم نہیں آتا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام جو زندہ آسمان پر موجود ہیں فوت ہوچکے ہیں۔
جہاں تک دوسرے عتراض کا تعلق ہے کہ یہ عقیدہ عیسائیوں سے مسلمانوں میں آیا ہے تو عرض یہ ہے کہ عیسائی بھی اللہ کو مانتے ہیں اور مسلمان بھی اللہ کو مانتے ہیں تو کیا صرف اس بنا پر کے عیسائی اللہ کو مانتے ہیں ہم اللہ کا انکار کردیں؟
ممکن ہے کہ کسی کے ذہن میں یہ خیال پیدا ہو کہ عیسائیوں کے نظریہ اور مسلمانوں کے نظریہ میں بہت فرق ہے تو عرض یہ ہے کہ حیات مسیح علیہ السلام کے نظریہ اور عقیدہ میں بھی عیسائیوں میں اور مسلمانوں میں بہت زیادہ فرق ہے۔آپ کو ذات باری کے متعلق تو یہ خیال آگیا کہ ان کے نظریہ میں اور ہمارے نظریہ میں فرق ہے حیات مسیح علیہ السلام کے عقیدہ کے متعلق آپ کو یہ سوچ کیوں نہ آئی۔ہم آپ کے سامنے عیسائی نظریہ اور مسلم نظریہ میں موجود کچھ فرق پیش کر دیتے ہیں
فرق نمبر 1۔ عیسائیوں کے نزدیک حضرت عیسی علیہ الصلاۃ والسلام کو یہودیوں نے پکڑ لیا یہودیوں نے معاذاللہ آپ کی توہین کی،اور وہ توہین کی کچھ تفصیلات بیان کرتے ہیں۔جبکہ ہمارا یہ نظریہ ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کو اللہ نے یہودیوں کے شر سے محفوظ رکھا،یہودی آپ کو ہاتھ تک نہ لگا سکے،اور ہم عیسائیوں کے اس خیال کہ حضرت مسیح علیہ اسلام کی توہین کی گئی کو کذب و دروغ اور کفر صریح سمجھتے ہیں۔
لقوله تعالى : وجيها في الدنيا و الاخرة
فرق نمبر 2۔ عیسائیوں کا یہ عقیدہ ہے کہ مسیح علیہ السلام کو صلیب پر لٹکایا گیا جبکہ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ مسیح علیہ السلام نہ مقتول ہوئے نہ مصلوب، بلکہ اسلام تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو صلیب پر لٹکائے جانے کے عقیدے کو خالص کفر سمجھتا ہے۔
فرق نمبر 3۔عیسائیوں کا عقیدہ ہے کہ مسیح علیہ السلام تین دن قبر میں مدفون رہے اسلام اس کی سرے سے ہی نفی کرتا ہے۔
اس قدر فرق کے باوجود اگر کوئی یہ کہے کہ مسلمانوں کے اور عیسائیوں کے عقیدہ حیات مسیح علیہ السلام میں کوئی فرق نہیں تو یہ دجل نہیں تو اور کیا ہے۔