عبیداللہ لطیف
رکن ختم نبوت فورم
عنوان :۔ مولانا ثناء اللہ امرتسریؒ کے بارے میں مؤلف ’’پاکٹ بک ‘‘ملک عبدالرحمن خادم کی علمی بددیانتیاں (part 1)
تحریر :۔ عبیداللہ لطیف فیصل آباد
مولانا ثناء اللہ امرتسری ؒ کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں کیونکہ انہوں نے ساری زندگی ٓنجہانی مرزا غلام احمد قادیانی اور اس کے پیروکاروں کا ناطقہ بند کئے رکھا ۔آج ہم آپ کو مؤلف پاکٹ بک ملک عبدالرحمن خادم کی مولانا ثناء اللہ امرتسری ؒ کے بارے میں علمی بددیانتیوں سے آگاہ کرنا چاہتے ہیں چنانچہ ملک عبدالرحمن خادم قادیانی اپنی کتاب’’ پاکٹ بک‘‘ میں رقمطراز ہے کہ
’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتاب ’’انجام آتھم ‘‘ میں تمام علماء،گدی نشینوں اور پیروں کو ’’آخری فیصلہ ‘‘(مباہلہ ) کی دعوت دی ۔چنانچہ آپ لکھتے ہیں :۔ وَاَخِرُالْعِلَاجِ خُرُوْجُکُمْ اِلیٰ بَرَازِالْمُبَاھَلَۃِ ۔۔۔۔۔ ھَذَا اَخِرُحِیَلِاَرَدْنَاہُ فِیْ ھَذَالْبَابِ (انجام آتھم صفحہ 165مطبع ضیاء الاسلام قادیاں) کہ آخری علاج تمہارے لئے میدان مباہلہ میں نکلنا ہے ۔۔۔۔۔اور یہی آخری طریق فیصلہ ہے جس کا ہم نے ارادہ کیا ہے ۔
اس دعوت مباہلہ میں آپ نے فرمایا کہ فریقین ایک دوسرے کے حق میں بددعا کریں کہ فریقین میں سے جو جھوٹا ہے اے خدا تو اس کو ایک سال کے عرصہ تک نہایت سخت دکھ کی مار میں مبتلاء کر کسی کو اندھا کردے اور کسی کو مجزوم اور کسی کو مفلوج اور کسی کو مجنون اور کسی کو مصروع اور کسی کو سانپ یا سگ دیوانہ کا شکار بنا اور کسی کے مال پر آفت نازل کر اور کسی کی جان پر اور کسی کی عزت پر ۔(انجام آتھم صفحہ 66مطبوعہ ضیاء الاسلام قادیاں)
اور اس کے بعد لکھا کہ
’’گواہ رہ اے زمین اور اے آسمان !کہ خداکی لعنت اس شخص پر کہ اس رسالہ کے پہنچنے کے بعد نہ مباہلہ میں حاضر ہوا اور نہ توہین و تکفیر کو چھوڑے اور نہ ٹھٹھہ کرنے والوں کی مجلسوں سے الگ ہو ۔‘‘ (انجام آتھم صفحہ 66)
اس رسالہ کے مخاطبین میں سے مولوی ثناء اللہ کا نمبر 11تھا ۔ مولوی صاحب نے اس چیلنج کا کچھ جواب نہ دیا اور اپنی مہر خاموشی سے اس جری اللہ فی حلل الانبیاء کی صداقت پر مہر تصدیق ثبت کر دی ۔‘‘
(پاکٹ بک صفحہ 479 از ملک عبدالرحمن خادم قادیانی )
محترم قارئین! مؤلف پاکٹ بک نے یہ سراسر کذب بیانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ مولانا ثناء اللہ امرتسریؒ نے اس دعوت مباہلہ کا کوئی جواب نہیں دیا جبکہ آنجہانی مرزا غلام احمد قادیانی اپنی کتاب ’’انجام آتھم ‘‘ کے ضمیمہ جو انجام آتھم کے فوری بعد شائع ہوا میں لکھتا ہے کہ
’’مولوی ثناء اللہ امرتسری نے مباہلہ کی دعوت پر اطلاع پا کر اپنے خط میں مولوی عبدالحق کے مباہلہ کاذکر کیا ہے شاید اس ذکر سے اس کا یہ مطلب ہے کہ اس مباہلہ سے عبدالحق پر کوئی بلانازل نہ ہوئی اور نہ اس طرف کوئی نیک اثر ہوا۔ ‘‘
(حاشیہ ضمیمہ انجام آتھم صفحہ 20مندرجہ روحانی خزائین جلد 11حاشیہ صفحہ 304)
اپنے اسی خط کا تذکرہ کرتے ہوئے مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمۃاللہ علیہ ایک مقام پر خود رقمطراز ہیں کہ
’’نمبر اول میں ہم نے کاہن جی کی تحریر مندرجہ الحکم 10فروری 1905 ء کا جواب دیا تھا آج مندرجہ 17فروری 1905 ء کا جواب ہے ۔
آپ کی ساری تحریر جو شیطان کی آنت کی طرح لمبی ہے خلاصہ یہ ہے کہ مولوی ثناء اللہ آپ کی دعوت مباہلہ مندرجہ رسالہ انجام آتھم پر آمادہ نہیں ہوئے اب جو تیار ہوتے ہیں تو ان کی دفع الوقتی ہے ۔
جواب دینے سے پہلے آپ کے مباہلہ کی کیفیت بھی آپ ہی کہ الفاظ میں بتانی ضروری ہے ۔ آپ لکھتے ہیں کہ مباہلہ میں اہم شرط یہ تھی کہ کم از کم دس آدمی حاضر ہوں ۔ ( الحکم قادیاں 17فروری 1905ء صفحہ 4کالم 2)
اب اصل واقعہ پر ناظرین غور کریں ۔ کاہن جی نے ایک تو یہ چالاکی کی کہ ’’انجام آتھم‘‘ میں مباہلین کی فہرست میں تو مجھے درج کیا اور آخرکتاب کے یہ بھی لکھا کہ یہ کتاب ہر اس شخص کے پاس جن کے نام اس کتاب میں بغرض مباہلہ لکھے ہیں بھیجی گئی ہے ۔ حالانکہ میرے نام آج تک بھی نہیں آئی ۔ خیر تاہم میں نے خط لکھا کہ آپ ( یعنی مرزاقادیانی ) کی کتاب ’’انجام آتھم ‘‘ اگرچہ آپ نے مجھے نہیں بھیجی مگر میں نے دیکھا ہے کہ آپ نے میرا نام بھی اس میں لکھا ہے اس لئے میں آپ کو اطلاع دیتا ہوں کہ میں (ثناء اللہ) مباہلہ کے لئے تیار ہوں مگر پہلے مباحثہ کر کے کیونکہ صرف مباہلہ پہلے ہو چکا ہے جس کے آثار بھی نمایاں ہیں ۔
اس خط میں میں نے کئی ایک باتوں کی طرف اشارہ کیا تھا۔ایک تو اشارۃً کتاب طلب کی تھی کیونکہ کاہن جی لکھ چکے تھے کہ جن کے پاس کتاب ہذانہ پہنچے وہ اطلاع دیں تاکہ بذریعہ رجسٹری ان کے نام بھیج دی جائے گی مگر افسوس
نہیں وہ قول کا سچا قول دے دے کر
جو اس نے ہاتھ میرے ہاتھ پر مارا تو کیا مارا
آج تک بھی کتاب نہ پہنچی ۔ کیا مناسب نہیں کہ آپ اپنے وعدے کو پورا کریں لیکن کیا وہ کریں گے ؟
کیونکر مجھے باور کہ ایفاء ہی کریں گے
کیا وعدہ انہیں کر کے مکرنا نہیں آتا
خیر یہ تو آپ کے ایفائے وعدہ کے متعلق گفتگو ہے جس کی بابت حدیث شریف میں آیا ہے کہ لا دین لہ لمن لا عھد لہ جس کے وعدہ کا اعتماد نہیں اس کے دین کا بھی اعتبار نہیں ۔
دوسرا اشارہ میں نے خط مذکور میں اپنی آمادگی کا کیا تھا مگر بشرط مباحثہ ۔ اس شرط کی ضرورت اور ثبوت میں مجھے کسی بیرونی شہادت کی ضرورت نہیں خود کاہن جی (مرزاقادیانی)کا قول کافی ہے ۔آپ اپنے ازالہ اوہام میں لکھتے ہیں:
’’ مباہلہ میں یہ بھی ضروری ہوتا ہے کہ اول ازالہ شبہات کیا جائے بجز اس صورت کے کہ کاذب قرار دینے میں کوئی تامل اور شبہ کی جگہ باقی نہ ہولیکن میاں عبدالحق بحث مباحثہ کا تو نام نہیں لیتے ایک پرانا خیال دل میں جما ہوا ہے۔‘‘ (ازالہ اوہام طبع اول صفحہ 638)
ناظرین ! اس عبارت کا مطلب آپ لوگ بخوبی سمجھ گئے ہوں گے کہ قادیانی کاہن کے نزدیک مباہلہ سے پہلے مباحثہ ہونا ضروری ہے تاکہ ازالہ شبہات ہو کر کوئی فریق انکار کرے تو پورا مستؤجب لعنت قرار دیا جا سکے۔
اس امر کی تحقیق باقی ہے کہ کاہن مذکور اپنے مخالفوں کو کیا جانتے ہیں ؟ یعنی یقینی مستؤجب لعنت سمجھتے ہیں یا مخطی اور خطاکار مستؤجب اللعنت ؟اس امر کے ثبوت کے لئے بھی آپ ہی کا قول کافی ہے آپ لکھتے ہیں :
’’اگر میں فریق مخالف پر لعنت کروں تو کس طرح کروں اگر میں لعنۃ اللہ علی الکٰذبین کہوں تو صحیح نہیں کیونکہ میں اپنے مخالفین کو کاذب تو نہیں جانتابلکہ ماؤل مخطی سمجھتا ہوں۔‘‘ (ازالہ اوہام طبع اول صفحہ 637)
پس ان دونوں عبارتوں کے ملانے سے جو ایک کتاب سے بلکہ ایک ہی ورق سے نقل ہوئی ہیں یہ امر بدیہی طور پر ثابت ہوتا ہے کہ قادیانی کاہن کو میری شرط کا مان لینا ضروری تھا کیونکہ یہ شرط انہی کی ایجاد و اختراع تھی ۔ لیکن افسوس کہ حضرت (مرزا) جی نے ان ساری باتوں کاتو ذکر تک نہ کیا ہاں اتنی مہربانی کی کہ ضمیمہ انجام آتھم میں میرے خط کا ذکر کر کے لکھا کہ مولوی ثناء اللہ نے مباہلہ کی دعوت پا کر اپنے خط میں عبدالحق غزنوی کے مباہلہ کا ذکر کیا ہے کہ اس مباہلہ کا کوئی اثر نہیں ہوا ۔ پھر آگے چل کر خوب بے نقط سنائی ہیں اور بہت کوشش کی کہ کسی طرح صوفی عبدالحق غزنوی پر اپنے مباہلہ کا اثر ثابت کریں ۔ مگر بقول الطبع اصلی اور مصنوعی میں جتنی تمیز ہوتی ہے اسی قدر آپ کے بیانات میں ہے ۔
اب ذرہ میں ناظرین سے انصاف چاہتا ہوں کہ میں نے آپ کی دعوت مباہلہ قبول کرنے میں کوئی کسر رکھی ہے ؟ جو شرط لگائی وہ ایسی تھی کہ خود کاہن جی کی تجویزکردہ ۔ پھر نہیں معلوم ان کوکیا حق کا رعب چھایا کہ آپ ایسے مبہوت ہوئے کہ فبھت الّذی کفر کی پوری تفسیر مجسم کر دکھادی ۔نہیں معلوم قادیاں کی سرزمین میں سانپ زیادہ ہیں کہ کوئی سانپ سونگھ گیا تھا جو ایسے خاموش ہوئے کہ صدائے برنخاست ۔
ہاں یہ بھی عجیب انصاف کی بات ہے کہ مباہلہ کے لئے بلایا تو مجھے جائے مگر ساتھ ہی یہ حکم بھی ہو اپنے ساتھ نو آدمی اور لاؤ ورنہ تمہارا دعوی ڈسمس ۔ کیونکہ بقول شخصے نہ نومن تیل ہو گا نہ رادھا ناچے ۔ انصاف دیکھئے کہ درخواست مباہلہ کی کریں تو خود مگر نو آدمیوں کی تلاش کروں میں ۔ وہی مثل ہے نہ ’’نانی تو خصم کرے چٹی دھوتا(نواسہ) پھرے ۔‘‘ کیوں صاحب میں کس جرم میں نو آدمی تلاش کروں کیا مجھے نوپر مع اپنے دس سپاہیوں کا دفعدار بنانا ہے ؟
کرشن پینتھیو! اب تمہیں کادیانی کاہن کی روسیاہی کا یقین نہ ہو تو ہیف ہے تمہاری سمجھ پر
اگر اب وہ نہ سمجھے تو اس بت سے خدا سمجھے
(قادیانی کاہن کی رو سیاہی نمبر 2از مولانا ثناء اللہ امرتسریؒ
مندرجہ ہفت روزہ اہلحدیث امرتسر 17مارچ 1905 ء صفحہ 2,3)
محترم قارئین ! یہ بات تو واضح ہو گئی کہ مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمۃ اللہ علیہ نے اسی وقت مباہلہ پر آمادگی ظاہر کر دی تھی اور یہ ملک عبدالّرحمن خادم قادیانی نے صریح کذب بیانی کا مظاہرہ کیا ہے ۔اب آگے چلئے کہ ملک عبدالّرحمن خادم مزید لکھتا ہے کہ
’’لیکن جب ہر طرف سے ان پر دباؤ ڈالا گیا تو اس بد قسمت جانور کی طرح شیر کو دیکھ کر انتہائی بد حواسی سے خود ہی حملہ کر بیٹھتا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ مباہلہ پر آمادگی ظاہر کی ۔ جس کے جواب میں حضرت اقدس نے لکھا:
’’مولوی ثناء اللہ امرتسری کی دستخطی تحریر میں نے دیکھی ہے جس میں وہ یہ درخواست کرتا ہے کہ میں اس طور کے فیصلہ کے لئے بہ دل خواہشمند ہوں کہ فریقین یعنی میں اور وہ یہ دعا کریں کہ جو شخص ہم دونوں میں سے جھوٹا ہے وہ سچے کی زندگی میں مر جائے ۔‘‘ (اعجاز احمدی صفحہ 14ایڈیشن اوّل)
’’اب قائم رہیں تو بات ہے ۔‘‘ (اعجاز احمدی صفحہ 14ایڈیشن اوّل)
(پاکٹ بک صفحہ 479,480از ملک عبدالّرحمن خادم قادیانی)
محترم قارئین ! اعجاز احمدی کی یہ ادھوری تحریر لکھنے کے بعد ملک عبدالّرحمن خادم ثنائی حیلہ جوئی کی سرخی جما کرمولانا ابوالوفاء ثناء اللہ امرتسری رحمۃاللہ علیہ کی کتاب ’’الہامات مرزا‘‘کی ایک ادھوری تحریر پیش کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ
’’چونکہ خاکسار نہ واقع میں اور نہ آپ کی طرح نبی یا رسوکل یا ابن اللہ یا الہامی ہے اس لئے ایسے مقابلہ کی جرأت نہیں کر سکتا ۔۔۔۔۔میں افسوس کرتا ہوں کہ مجھے ان باتوں پر جرأت نہیں ۔‘‘
(الہامات مرزا صفحہ 85طبع دوم صفحہ111طبع ششم ) continue
تحریر :۔ عبیداللہ لطیف فیصل آباد
مولانا ثناء اللہ امرتسری ؒ کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں کیونکہ انہوں نے ساری زندگی ٓنجہانی مرزا غلام احمد قادیانی اور اس کے پیروکاروں کا ناطقہ بند کئے رکھا ۔آج ہم آپ کو مؤلف پاکٹ بک ملک عبدالرحمن خادم کی مولانا ثناء اللہ امرتسری ؒ کے بارے میں علمی بددیانتیوں سے آگاہ کرنا چاہتے ہیں چنانچہ ملک عبدالرحمن خادم قادیانی اپنی کتاب’’ پاکٹ بک‘‘ میں رقمطراز ہے کہ
’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتاب ’’انجام آتھم ‘‘ میں تمام علماء،گدی نشینوں اور پیروں کو ’’آخری فیصلہ ‘‘(مباہلہ ) کی دعوت دی ۔چنانچہ آپ لکھتے ہیں :۔ وَاَخِرُالْعِلَاجِ خُرُوْجُکُمْ اِلیٰ بَرَازِالْمُبَاھَلَۃِ ۔۔۔۔۔ ھَذَا اَخِرُحِیَلِاَرَدْنَاہُ فِیْ ھَذَالْبَابِ (انجام آتھم صفحہ 165مطبع ضیاء الاسلام قادیاں) کہ آخری علاج تمہارے لئے میدان مباہلہ میں نکلنا ہے ۔۔۔۔۔اور یہی آخری طریق فیصلہ ہے جس کا ہم نے ارادہ کیا ہے ۔
اس دعوت مباہلہ میں آپ نے فرمایا کہ فریقین ایک دوسرے کے حق میں بددعا کریں کہ فریقین میں سے جو جھوٹا ہے اے خدا تو اس کو ایک سال کے عرصہ تک نہایت سخت دکھ کی مار میں مبتلاء کر کسی کو اندھا کردے اور کسی کو مجزوم اور کسی کو مفلوج اور کسی کو مجنون اور کسی کو مصروع اور کسی کو سانپ یا سگ دیوانہ کا شکار بنا اور کسی کے مال پر آفت نازل کر اور کسی کی جان پر اور کسی کی عزت پر ۔(انجام آتھم صفحہ 66مطبوعہ ضیاء الاسلام قادیاں)
اور اس کے بعد لکھا کہ
’’گواہ رہ اے زمین اور اے آسمان !کہ خداکی لعنت اس شخص پر کہ اس رسالہ کے پہنچنے کے بعد نہ مباہلہ میں حاضر ہوا اور نہ توہین و تکفیر کو چھوڑے اور نہ ٹھٹھہ کرنے والوں کی مجلسوں سے الگ ہو ۔‘‘ (انجام آتھم صفحہ 66)
اس رسالہ کے مخاطبین میں سے مولوی ثناء اللہ کا نمبر 11تھا ۔ مولوی صاحب نے اس چیلنج کا کچھ جواب نہ دیا اور اپنی مہر خاموشی سے اس جری اللہ فی حلل الانبیاء کی صداقت پر مہر تصدیق ثبت کر دی ۔‘‘
(پاکٹ بک صفحہ 479 از ملک عبدالرحمن خادم قادیانی )
محترم قارئین! مؤلف پاکٹ بک نے یہ سراسر کذب بیانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ مولانا ثناء اللہ امرتسریؒ نے اس دعوت مباہلہ کا کوئی جواب نہیں دیا جبکہ آنجہانی مرزا غلام احمد قادیانی اپنی کتاب ’’انجام آتھم ‘‘ کے ضمیمہ جو انجام آتھم کے فوری بعد شائع ہوا میں لکھتا ہے کہ
’’مولوی ثناء اللہ امرتسری نے مباہلہ کی دعوت پر اطلاع پا کر اپنے خط میں مولوی عبدالحق کے مباہلہ کاذکر کیا ہے شاید اس ذکر سے اس کا یہ مطلب ہے کہ اس مباہلہ سے عبدالحق پر کوئی بلانازل نہ ہوئی اور نہ اس طرف کوئی نیک اثر ہوا۔ ‘‘
(حاشیہ ضمیمہ انجام آتھم صفحہ 20مندرجہ روحانی خزائین جلد 11حاشیہ صفحہ 304)
اپنے اسی خط کا تذکرہ کرتے ہوئے مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمۃاللہ علیہ ایک مقام پر خود رقمطراز ہیں کہ
’’نمبر اول میں ہم نے کاہن جی کی تحریر مندرجہ الحکم 10فروری 1905 ء کا جواب دیا تھا آج مندرجہ 17فروری 1905 ء کا جواب ہے ۔
آپ کی ساری تحریر جو شیطان کی آنت کی طرح لمبی ہے خلاصہ یہ ہے کہ مولوی ثناء اللہ آپ کی دعوت مباہلہ مندرجہ رسالہ انجام آتھم پر آمادہ نہیں ہوئے اب جو تیار ہوتے ہیں تو ان کی دفع الوقتی ہے ۔
جواب دینے سے پہلے آپ کے مباہلہ کی کیفیت بھی آپ ہی کہ الفاظ میں بتانی ضروری ہے ۔ آپ لکھتے ہیں کہ مباہلہ میں اہم شرط یہ تھی کہ کم از کم دس آدمی حاضر ہوں ۔ ( الحکم قادیاں 17فروری 1905ء صفحہ 4کالم 2)
اب اصل واقعہ پر ناظرین غور کریں ۔ کاہن جی نے ایک تو یہ چالاکی کی کہ ’’انجام آتھم‘‘ میں مباہلین کی فہرست میں تو مجھے درج کیا اور آخرکتاب کے یہ بھی لکھا کہ یہ کتاب ہر اس شخص کے پاس جن کے نام اس کتاب میں بغرض مباہلہ لکھے ہیں بھیجی گئی ہے ۔ حالانکہ میرے نام آج تک بھی نہیں آئی ۔ خیر تاہم میں نے خط لکھا کہ آپ ( یعنی مرزاقادیانی ) کی کتاب ’’انجام آتھم ‘‘ اگرچہ آپ نے مجھے نہیں بھیجی مگر میں نے دیکھا ہے کہ آپ نے میرا نام بھی اس میں لکھا ہے اس لئے میں آپ کو اطلاع دیتا ہوں کہ میں (ثناء اللہ) مباہلہ کے لئے تیار ہوں مگر پہلے مباحثہ کر کے کیونکہ صرف مباہلہ پہلے ہو چکا ہے جس کے آثار بھی نمایاں ہیں ۔
اس خط میں میں نے کئی ایک باتوں کی طرف اشارہ کیا تھا۔ایک تو اشارۃً کتاب طلب کی تھی کیونکہ کاہن جی لکھ چکے تھے کہ جن کے پاس کتاب ہذانہ پہنچے وہ اطلاع دیں تاکہ بذریعہ رجسٹری ان کے نام بھیج دی جائے گی مگر افسوس
نہیں وہ قول کا سچا قول دے دے کر
جو اس نے ہاتھ میرے ہاتھ پر مارا تو کیا مارا
آج تک بھی کتاب نہ پہنچی ۔ کیا مناسب نہیں کہ آپ اپنے وعدے کو پورا کریں لیکن کیا وہ کریں گے ؟
کیونکر مجھے باور کہ ایفاء ہی کریں گے
کیا وعدہ انہیں کر کے مکرنا نہیں آتا
خیر یہ تو آپ کے ایفائے وعدہ کے متعلق گفتگو ہے جس کی بابت حدیث شریف میں آیا ہے کہ لا دین لہ لمن لا عھد لہ جس کے وعدہ کا اعتماد نہیں اس کے دین کا بھی اعتبار نہیں ۔
دوسرا اشارہ میں نے خط مذکور میں اپنی آمادگی کا کیا تھا مگر بشرط مباحثہ ۔ اس شرط کی ضرورت اور ثبوت میں مجھے کسی بیرونی شہادت کی ضرورت نہیں خود کاہن جی (مرزاقادیانی)کا قول کافی ہے ۔آپ اپنے ازالہ اوہام میں لکھتے ہیں:
’’ مباہلہ میں یہ بھی ضروری ہوتا ہے کہ اول ازالہ شبہات کیا جائے بجز اس صورت کے کہ کاذب قرار دینے میں کوئی تامل اور شبہ کی جگہ باقی نہ ہولیکن میاں عبدالحق بحث مباحثہ کا تو نام نہیں لیتے ایک پرانا خیال دل میں جما ہوا ہے۔‘‘ (ازالہ اوہام طبع اول صفحہ 638)
ناظرین ! اس عبارت کا مطلب آپ لوگ بخوبی سمجھ گئے ہوں گے کہ قادیانی کاہن کے نزدیک مباہلہ سے پہلے مباحثہ ہونا ضروری ہے تاکہ ازالہ شبہات ہو کر کوئی فریق انکار کرے تو پورا مستؤجب لعنت قرار دیا جا سکے۔
اس امر کی تحقیق باقی ہے کہ کاہن مذکور اپنے مخالفوں کو کیا جانتے ہیں ؟ یعنی یقینی مستؤجب لعنت سمجھتے ہیں یا مخطی اور خطاکار مستؤجب اللعنت ؟اس امر کے ثبوت کے لئے بھی آپ ہی کا قول کافی ہے آپ لکھتے ہیں :
’’اگر میں فریق مخالف پر لعنت کروں تو کس طرح کروں اگر میں لعنۃ اللہ علی الکٰذبین کہوں تو صحیح نہیں کیونکہ میں اپنے مخالفین کو کاذب تو نہیں جانتابلکہ ماؤل مخطی سمجھتا ہوں۔‘‘ (ازالہ اوہام طبع اول صفحہ 637)
پس ان دونوں عبارتوں کے ملانے سے جو ایک کتاب سے بلکہ ایک ہی ورق سے نقل ہوئی ہیں یہ امر بدیہی طور پر ثابت ہوتا ہے کہ قادیانی کاہن کو میری شرط کا مان لینا ضروری تھا کیونکہ یہ شرط انہی کی ایجاد و اختراع تھی ۔ لیکن افسوس کہ حضرت (مرزا) جی نے ان ساری باتوں کاتو ذکر تک نہ کیا ہاں اتنی مہربانی کی کہ ضمیمہ انجام آتھم میں میرے خط کا ذکر کر کے لکھا کہ مولوی ثناء اللہ نے مباہلہ کی دعوت پا کر اپنے خط میں عبدالحق غزنوی کے مباہلہ کا ذکر کیا ہے کہ اس مباہلہ کا کوئی اثر نہیں ہوا ۔ پھر آگے چل کر خوب بے نقط سنائی ہیں اور بہت کوشش کی کہ کسی طرح صوفی عبدالحق غزنوی پر اپنے مباہلہ کا اثر ثابت کریں ۔ مگر بقول الطبع اصلی اور مصنوعی میں جتنی تمیز ہوتی ہے اسی قدر آپ کے بیانات میں ہے ۔
اب ذرہ میں ناظرین سے انصاف چاہتا ہوں کہ میں نے آپ کی دعوت مباہلہ قبول کرنے میں کوئی کسر رکھی ہے ؟ جو شرط لگائی وہ ایسی تھی کہ خود کاہن جی کی تجویزکردہ ۔ پھر نہیں معلوم ان کوکیا حق کا رعب چھایا کہ آپ ایسے مبہوت ہوئے کہ فبھت الّذی کفر کی پوری تفسیر مجسم کر دکھادی ۔نہیں معلوم قادیاں کی سرزمین میں سانپ زیادہ ہیں کہ کوئی سانپ سونگھ گیا تھا جو ایسے خاموش ہوئے کہ صدائے برنخاست ۔
ہاں یہ بھی عجیب انصاف کی بات ہے کہ مباہلہ کے لئے بلایا تو مجھے جائے مگر ساتھ ہی یہ حکم بھی ہو اپنے ساتھ نو آدمی اور لاؤ ورنہ تمہارا دعوی ڈسمس ۔ کیونکہ بقول شخصے نہ نومن تیل ہو گا نہ رادھا ناچے ۔ انصاف دیکھئے کہ درخواست مباہلہ کی کریں تو خود مگر نو آدمیوں کی تلاش کروں میں ۔ وہی مثل ہے نہ ’’نانی تو خصم کرے چٹی دھوتا(نواسہ) پھرے ۔‘‘ کیوں صاحب میں کس جرم میں نو آدمی تلاش کروں کیا مجھے نوپر مع اپنے دس سپاہیوں کا دفعدار بنانا ہے ؟
کرشن پینتھیو! اب تمہیں کادیانی کاہن کی روسیاہی کا یقین نہ ہو تو ہیف ہے تمہاری سمجھ پر
اگر اب وہ نہ سمجھے تو اس بت سے خدا سمجھے
(قادیانی کاہن کی رو سیاہی نمبر 2از مولانا ثناء اللہ امرتسریؒ
مندرجہ ہفت روزہ اہلحدیث امرتسر 17مارچ 1905 ء صفحہ 2,3)
محترم قارئین ! یہ بات تو واضح ہو گئی کہ مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمۃ اللہ علیہ نے اسی وقت مباہلہ پر آمادگی ظاہر کر دی تھی اور یہ ملک عبدالّرحمن خادم قادیانی نے صریح کذب بیانی کا مظاہرہ کیا ہے ۔اب آگے چلئے کہ ملک عبدالّرحمن خادم مزید لکھتا ہے کہ
’’لیکن جب ہر طرف سے ان پر دباؤ ڈالا گیا تو اس بد قسمت جانور کی طرح شیر کو دیکھ کر انتہائی بد حواسی سے خود ہی حملہ کر بیٹھتا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ مباہلہ پر آمادگی ظاہر کی ۔ جس کے جواب میں حضرت اقدس نے لکھا:
’’مولوی ثناء اللہ امرتسری کی دستخطی تحریر میں نے دیکھی ہے جس میں وہ یہ درخواست کرتا ہے کہ میں اس طور کے فیصلہ کے لئے بہ دل خواہشمند ہوں کہ فریقین یعنی میں اور وہ یہ دعا کریں کہ جو شخص ہم دونوں میں سے جھوٹا ہے وہ سچے کی زندگی میں مر جائے ۔‘‘ (اعجاز احمدی صفحہ 14ایڈیشن اوّل)
’’اب قائم رہیں تو بات ہے ۔‘‘ (اعجاز احمدی صفحہ 14ایڈیشن اوّل)
(پاکٹ بک صفحہ 479,480از ملک عبدالّرحمن خادم قادیانی)
محترم قارئین ! اعجاز احمدی کی یہ ادھوری تحریر لکھنے کے بعد ملک عبدالّرحمن خادم ثنائی حیلہ جوئی کی سرخی جما کرمولانا ابوالوفاء ثناء اللہ امرتسری رحمۃاللہ علیہ کی کتاب ’’الہامات مرزا‘‘کی ایک ادھوری تحریر پیش کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ
’’چونکہ خاکسار نہ واقع میں اور نہ آپ کی طرح نبی یا رسوکل یا ابن اللہ یا الہامی ہے اس لئے ایسے مقابلہ کی جرأت نہیں کر سکتا ۔۔۔۔۔میں افسوس کرتا ہوں کہ مجھے ان باتوں پر جرأت نہیں ۔‘‘
(الہامات مرزا صفحہ 85طبع دوم صفحہ111طبع ششم ) continue