• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

نزول مسیح کا عقیدہ، عقیدئہ ختم نبوت کے منافی نہیں ( سورۃ النساء آیت 159)، (زخرف: ۶۱)

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
نزول مسیح کا عقیدہ، عقیدئہ ختم نبوت کے منافی نہیں ( سورۃ النساء آیت 159)، (زخرف: ۶۱)
سوال … نزول مسیح کے دلائل ذکر کرتے ہوئے مرزا کے اس استدلال فاسدہ کا رد کریں کہ ’’میں مثیل مسیح ہوں‘‘ نیز ثابت کریں کہ نزول مسیح کا عقیدہ، عقیدئہ ختم نبوت کے منافی نہیں؟
جواب …

آیات قرآنیہ سے نزول عیسیٰ کا ثبوت
نزول عیسیٰ کا مضمون دو آیتوں میں اشارۃ قریب بصراحت کے موجود ہے:
’’ وان من اھل الکتاب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ (نسائ: ۱۵۹) ‘‘
ترجمہ: ’’اور اہل کتاب میں سے کوئی نہ رہے گا۔ مگر وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ان کی موت سے پہلے ضرور ایمان لائے گا۔‘‘
’’ وانہ لعلم للساعۃ (زخرف: ۶۱) ‘‘
ترجمہ: ’’اور بے شک وہ قیامت کی ایک نشانی ہیں۔‘‘
چنانچہ ملا علی قاریؒ فرماتے ہیں:
’’ ونزول عیسیٰ من السماء کما قال اﷲتعالیٰ وانہ ای عیسیٰ لعلم للساعۃ ای علامۃ القیامۃ و قال اﷲتعالیٰ و ان من اھل الکتاب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ ای قبل موت عیسیٰ بعد نزولہ عند قیام الساعۃ فیصیرالملل واحدۃ و ھی ملۃ الاسلام ‘‘
(شرح فقہ اکبر ۱۳۶)
ترجمہ: ’’آسمان سے نزول عیسیٰ، قول باری تعالیٰ کہ عیسیٰ قیامت کی علامت ہیں، سے ثابت ہے۔ نیز اس ارشاد سے ثابت ہے کہ اہل کتاب ان کی آسمان سے تشریف آوری کے بعد اور موت سے پہلے قیامت کے قریب ان پر ایمان لائیں گے۔ پس ساری ملتیں ایک ہوجائیں گی اور وہ ملت‘ ملت اسلام ہے۔‘‘
بہرحال اس حدیث سے ثابت ہوا کہ قبل موتہ میں ضمیر کا مرجع حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہیں جیسا کہ لیؤمنن بہ میں ضمیر کا مرجع حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہیں۔
چنانچہ ’’ارشاد الساری‘‘ شرح بخاری میں ہے:
’’ وان من اھل الکتاب احد الا لیؤمنن بعیسیٰ قبل موت عیسیٰ وھم اھل الکتاب الذین یکونون فی زمانہ فتکون الملۃ واحدۃ وھی ملۃ الاسلام وبھذا جزم ابن عباس فیما رواہ ابن جریر من طریق سعید بن جبیر عنہ باسناد صحیح ‘‘
(ارشاد الساری ج۵ ص ۵۱۸،۵۱۹)
ترجمہ: ’’یعنی اہل کتاب میں سے کوئی بھی نہ ہوگا۔ مگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر عیسیٰ کی موت سے پہلے ایمان لے آئے گا اور وہ اہل کتاب ہوں گے۔ جو ان (حضرت عیسیٰ علیہ السلام) کے زمانہ (نزول) میں ہوں گے۔ پس صرف ایک ہی ملت اسلام ہوجائے گی اور حضرت ابن عباسؓ نے اس پر جزم کیا ہے۔ اس روایت کے مطابق جو ابن جریر نے ان سے سعید ابن جبیر کے طریق سے صحیح اسناد کے ساتھ روایت کی۔‘‘
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
حیات و نزول عیسیٰ پر امت کا اجماع ہے
آیات کریمہ واحادیث مرفوعہ متواترہ کی بناء پر حضرات صحابہؓ سے لے کر آج تک امت کا حیات و نزول عیسیٰ علیہ السلام کے قطعی عقیدئہ پر اجماع چلا آرہا ہے۔ ائمہ دین میں سے کسی سے بھی اس کے خلاف مروی نہیں ہے۔ معتزلہ جو بہت سے مسائل کلامیہ میں اہل سنت والجماعت سے اختلاف رکھتے ہیں۔ ان کا عقیدہ بھی یہی ہے جیسا کہ کشاف میں علامہ زمخشری نے اس کی تشریح کی ہے۔ چنانچہ ابن عطیہؒ فرماتے ہیں:
’’ حیاۃ المسیح بجسمہ الی الیوم و نزولہ من السماء بجسمہ العنصری ھما اجمع علیہ الامۃ وتواتربہ الاحادیث ‘‘
ترجمہ: ’’تمام امت مسلمہ کا اس پر اجماع ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام اس وقت آسمان پر زندہ ہیں اور قرب قیامت میں بجسم عنصری پھر تشریف لانے والے ہیں۔ جیسا کہ احادیث متواترہ سے ثابت ہے۔‘‘
یہ ایک سو سے زیادہ احادیث تیس صحابہ کرامؓ سے مختلف انداز سے مروی ہیں جن کے اسماء گرامی یہ ہیں:
(۱)حضرت ابوہریرہؓ، (۲)حضرت جابر بن عبداﷲؓ، (۳)حضرت نواس بن سمعانؓ،(۴)حضرت ابن عمرؓ،(۵)حضرت حذیفہ بن اسیدؓ،(۶)حضرت ثوبانؓ، (۷)حضرت مجمعؓ، (۸)حضرت ابوامامہؓ، (۹)حضرت ابن مسعودؓ، (۱۰)حضرت ابونضرہؓ، (۱۱)حضرت سمرہؓ، (۱۲)حضرت عبدالرحمن بن خبیرؓ، (۱۳)حضرت ابوالطفیلؓ، (۱۴)حضرت انسؓ، (۱۵)حضرت واثلہؓ، (۱۶)حضرت عبداﷲ بن سلامؓ، (۱۷)حضرت ابن عباسؓ، (۱۸)حضرت اوسؓ، (۱۹)حضرت عمران بن حصینؓ، (۲۰)حضرت عائشہؓ،(۲۱)حضرت سفینہؓ،(۲۲)حضرت حذیفہؓ، (۲۳)حضرت عبداﷲ بن مغفلؓ، (۲۴)حضرت عبدالرحمن بن سمرہؓ، (۲۵)حضرت ابوسعید خدریؓ، (۲۶)حضرت عمار،ؓ (۲۷)حضرت ربیعؓ، (۲۸)حضرت عروہ بن رویمؓؓ، (۲۹)حضرت حسنؓ، (۳۰)حضرت کعبؓ۔
ان حضرات کی تفصیلی روایات ’’ التصریح بما تواتر فی نزول المسیح ‘‘ میں ملاحظہ کی جائیں۔ یہ کتاب درحقیقت زہریٔ وقت حضرت علامہ انور شاہ کشمیری قدس سرہ سابق صدرالمدرسین دارالعلوم دیوبند کی املاء کردہ ہے۔ جس کو ان کے شاگر د رشید حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحبؒ مفتی اعظم پاکستان نے بہترین انداز میں مرتب فرماکر اہل اسلام کی ایک گراں قدر خدمت انجام دی ہے۔ (فجزاہ اﷲ وافیا) اور اس کتاب پر اس زمانہ کے محقق نامور عالم حضرت شیخ عبدالفتاح ابوغدہؒ نے تحقیقی کام کیا ہے اور مزید تلاش و جستجو کے بعد بیس احادیث کا اضافہ ’’استدراک ‘‘کے نام سے فرمایا ہے۔ حضرت لدھیانوی شہیدؒ کا رسالہ ’’ نزول عیسیٰ علیہ السلام ‘‘ مشمولہ تحفہ قادیانیت قارئین کے لئے مفید ہوگا۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
حضرت مسیح ابن مریم علیہما السلام کا نزول احادیث متواترہ سے ثابت ہونا از مرزا قادیانی
حضرت مسیح ابن مریم علیہما السلام کا نزول احادیث متواترہ سے ثابت ہونا… یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ خود مرزا قادیانی بھی اس کو تسلیم کرتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:
’’یہ بات پوشیدہ نہیں کہ مسیح ابن مریم کے آنے کی پیشگوئی ایک اوّل درجہ کی پیشگوئی ہے۔ جس کو سب نے باتفاق قبول کرلیا ہے اور جس قدر صحاح میں پیشگوئیاں لکھی گئی ہیں۔ اس کے ہم پہلو اور ہم وزن ثابت نہیں ہوتیں۔ تواتر کا اوّل درجہ اس کو حاصل ہے۔‘‘

(ازالہ اوہام ص ۵۵۷،خزائن ج۳ص۴۰۰)

اس سے چند سطریں پہلے مرزا قادیانی اپنی اسی کتاب میں لکھتے ہیں:
’’حال کے نیچری جن کے دلوں میں کچھ عظمت قال اﷲ اور قال الرسول کی باقی نہیں رہی۔ یہ بے اصل خیال پیش کرتے ہیں کہ جو مسیح ابن مریم کے آنے کی خبریں صحاح میں موجود ہیں۔ یہ تمام خبریں غلط ہیں … لیکن وہ اس قدر متواترات سے انکار کرکے اپنے ایمان کو خطرہ میں ڈالتے ہیں۔‘‘

(ازالہ اوہام ص ۲۳۰)

یہ الگ بات ہے کہ مرزا قادیانی ان احادیث کو توڑ مروڑ کر مسیح موعود کا مصداق اپنے آپ کو ثابت کرنا چاہتے ہیں۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
مثیل مسیح کا قادیانی ڈھونگ (ان میں سے ایک بھی نشانی مرزا میں نہیں پانی جاتی پھر بھی کیا وہ مسیح ہے؟)

ایک بے سروپا بات ہے۔ پیدائش مسیح سے رفع تک اور نزول سے وفات تک۔ وہاں کسی ایک بات میں مرزا قادیانی کو مماثلت نہیں۔ مسیح علیہ السلام بغیر باپ کے پیدا ہوئے۔ ساری عمر مکان نہیں بنایا۔ ساری عمر شادی نہیں کی۔ نزول کے بعد حاکم، عادل ہوں گے۔ دجال کو قتل کریں گے۔ ان کے زمانہ میں تمام ادیان باطلہ مٹ جائیں گے۔ صلیب پرستی کا خاتمہ ہوکر خدا پرستی رہ جائے گی، دمشق جائیں گے بیت المقدس جائیں گے۔ حج کریں گے، عمرہ کریں گے، مدینہ طیبہ حاضری دیں گے۔ نزول کے بعد پینتالیس سال زندہ رہ کر پھر وفات پائیں گے۔ یہ چند بڑی، بڑی علامات ہیں۔ ان میں سے ایک بھی مرزا قادیانی میں نہ پائی جاتی تھی۔ اس کے باوجود دعویٰ مثیل ہونے کا۔ کیا اس سے بڑھ کر دنیا میں اور کوئی ڈھٹائی ہوسکتی ہے؟
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول عقیدئہ ختم نبوت کے منافی نہیں
مرزائیت کی تمام تر بنیاد دجل و فریب پر ہے۔ چنانچہ وہ اس جگہ مسلمانوں کو دھوکہ دینے کے لئے ایک اعتراض پیش کرتے ہیں کہ حضرت مسیح علیہ السلام دوبارہ تشریف آوری کے بعد منصب نبوت پر فائز ہوں گے یا نہیں؟ اگر وہ بحیثیت نبی آئیں گے تو ختم نبوت پر زد پڑتی ہے۔ اگر نبی نہیں ہوں گے تو ایک نبی کا نبوت سے معزول ہونا لازم آتا ہے اور یہ بھی اسلامی عقائد کے خلاف ہے‘ تو سنئے:
جواب… علامہ محمود آلوسیؒ نے اپنی تفسیر ’’روح المعانی‘‘ میں لکھا ہے:

’’وکونہ خاتم الانبیاء ای لا ینبأ احد بعدہ واما عیسیٰ ممن نبئ قبلہ‘‘
۱… آپﷺ کے خاتم الانبیاء ہونے کا معنی یہ ہے کہ آپﷺ کے بعد کسی شخص کو نبی نہیں بنایا جائے گا۔ عیسیٰ علیہ السلام تو آنحضرتﷺ سے پہلے نبی بنائے جاچکے۔ پس عیسیٰ علیہ السلام کی تشریف آوری رحمت عالمﷺ کی ختم نبوت کے منافی نہیں۔ آپﷺ وصف نبوت کے ساتھ اس دنیا میں سب سے آخر میں متصف ہوئے۔ اب کوئی شخص وصف نبوت حاصل نہیں کرسکے گا۔ نہ یہ کہ پہلے کے سارے نبی فوت ہوگئے۔
۲… پہلے حوالہ گزرچکا ہے کہ مرزا قادیانی اپنے آپ کو اپنے والدین کے لئے خاتم الاولاد کہتا ہے۔ حالانکہ اس کا بڑا بھائی مرزا غلام قادر زندہ تھا۔ مرزا غلام قادر کے زندہ ہونے کے باوجود اگر مرزا کے خاتم الاولاد ہونے میں کوئی فرق نہیں آیا۔ تو عیسیٰ علیہ السلام کے زندہ ہونے سے رحمت عالمﷺ کی ختم نبوت میں کوئی فرق نہیں آتا۔
۳… ابن عساکر میں حدیث ہے کہ آدم علیہ السلام نے جبریل علیہ السلام سے پوچھا کہ محمدﷺ کون ہیں؟ انہوں نے فرمایا:
’’ اخرولدک من الانبیائ ‘‘

(کنزالعمال ص۴۵۵ ج۱۱ حدیث نمبر ۱۳۹ بحوالہ ابن عساکر)
ترجمہ: ’’انبیاء میں سے آپﷺ کے آخرالاولاد ہیں۔‘‘
اس حدیث نے بالکل صاف کردیاکہ خاتم النبیین کی مراد یہی ہے کہ آپﷺ انبیاء میں سے آخرالاولاد ہیں اور یہ معنی کسی نبی کے باقی رہنے کا معارض نہیں۔ لہٰذا آپﷺ کا آخرالاانبیاء وخاتم الانبیاء ہونا نزول عیسیٰ علیہ السلام کے کسی طرح مخالف نہیں ہوسکتا۔
۴… مرزا غلام احمد قادیانی اپنی کتاب (تریاق القلوب ص ۱۵۶، خزائن ج ۱۵ ص ۴۷۹) پر لکھتا ہے:
’’ضرور ہوا کہ وہ شخص جس پر بکمال و تمام دورئہ حقیقت آدمیہ ختم ہو وہ خاتم الاولاد ہو۔ یعنی اس کی موت کے بعد کوئی کامل انسان کسی عورت کے پیٹ سے نہ نکلے۔ ‘‘
جب خاتم الاولاد کے معنی مرزا قادیانی کے نزدیک یہ ہیں کہ عورت کے پیٹ سے کوئی کامل انسان اس کے بعد پیدا نہ ہو تو خاتم النبیین کے بھی یہ معنی کیوں نہ ہوں گے کہ آپﷺ کے بعد کوئی نبی عورت کے پیٹ سے پیدا نہ ہوگا۔ جس سے تین فائدے حاصل ہوئے۔
اوّل… تو یہ کہ ختم نبوت اور نزول مسیح علیہ السلام میں تعارض نہیں۔ خاتم النبیین چاہتا ہے کہ عورت کے پیٹ سے اس کے بعد کوئی نبی پیدا نہ ہو اور مسیح علیہ السلام آپﷺ سے پہلے پیدا ہوچکے ہیں۔
دوسرے… یہ بھی صاف معلوم ہوا کہ اگر مرزا قادیانی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوئے ہیں۔ تو ان کی نبوت خاتم النبیین کے خلاف ہے۔
تیسرے… یہ بھی متعین ہوگیا کہ جس مسیح کے نزول کی خبر احادیث میں دی گئی ہے۔ وہ اس وقت ماں کے پیٹ سے پیدا نہ ہوں گے۔ ورنہ خاتم النبیین کے خلاف ہوگا اور اس بناء پر مرزا قادیانی مسیح موعود بھی نہیں ہوسکتے۔ مکرر واضح ہو کہ آپﷺ کے بعد کسی نبی کے نہ آنے کا یہ مطلب ہے کہ کسی کو آپﷺ کے بعد منصب نبوت پر فائز نہیں کیا جائے گا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام تو آپﷺ کی آمد سے صدیوں پہلے منصب نبوت پر فائز ہوچکے ہیں۔
مذکورہ بالا اعتراض کا ایک عقلی جواب بھی سن لیجئے۔
ایک شخص کسی ملک کا فرماں روا ہے۔ وہ کسی دوسرے ملک کے سرکاری دورے پر جاتا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ وہ اپنی صدارت، بادشاہی یا وزارت عظمیٰ کے منصب سے معزول نہیں ہوا۔ لیکن دوسرے ملک میں جاکر اس کا حکم نہیں چلے گا۔ وہاں پر حکم اسی ملک کے صدر یا وزیراعظم کا چلے گا۔ اسی طرح پر حضرت عیسیٰ مسیح ابن مریم علیہما السلام جب تشریف لائیں گے، تو وہ منصب نبوت سے معزول نہیں ہوں گے۔ لیکن جیسا کہ قرآن پاک میں فرمادیا گیا ہے: ’’ و رسولاً الی بنی اسرائیل ‘‘ ان کی رسالت بنی اسرائیل کے لئے تھی۔ اب امت محمدیہ میں ان کی نبوت کا قانون نافذ نہیں ہوگا۔ امت محمدیہ پر قانون سید الانبیاء حضرت محمد مصطفیﷺ ہی کا نافذ ہوگا۔ یہ الگ بات ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کی آمد سے یہود کی بھی اصلاح ہوجائے گی اور نصاریٰ کی غلط فہمی بھی دور ہوجائے گی۔ یوں وہ سب دین قیّم (اسلام) کے حلقہ بگوش ہوجائیں گے اور ’’ لیظھرہ علی الدین کلہ ‘‘ کا فرمان پورا ہوجائے گا۔
 
Top