نصرت کے خصم تجھے جس نے بھی اپنا مسیحا جانا
وہ خوب روئے ارے میں نے کس جھوٹے کو راہنما مانا
نصرت کے خصم۔ ۔ ۔ ۔
لکھا تیرا پڑھے بنا ناچتے رہے اشاروں پہ
جان کے ہم جنت کی ہوا چلتے رہے انگاروں پہ
کتابیں۔ ۔ ۔ پڑھیں۔ ۔ ۔ ۔ تب سب جانا
نصرت کے خصم۔ ۔ ۔ ۔
سوچا تھا یہ مٹ جائیں گی گناہوں کی پرچھائیاں
معلوم نہ تھا ہوجائیں گی دو جگ میں رسوائیاں
بڑی دیر سے ہم نے ۔ ۔ ۔ ہے سچ جانا
نصرت کے خصم۔ ۔ ۔ ۔
اے کاش کہ ہوتی خبر کسے ہم نے اپنایا ہے
باغ سبز کس نے ہمیں جنت کا دکھایا ہے
نبی ہوتا نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ کوئی بھی کانا
نصرت کے خصم۔ ۔ ۔ ۔
کذابوں سے رشتے ہوئے ٹیچی بھی فرشتے ہوئے
نہ رہے کسی کام کے جب سے ہم اس کے ہوئے
کیا اپنوں میں ہی۔ ۔ ۔ ۔ ہمیں بیگانہ
نصرت کے خصم۔ ۔ ۔ ۔
دے گالیاں سب کو ہی یہ پھر اس کو تبلیغ کہے
سچ کہتا ہے جو بھی اسے دجال یا ابلیس کہے ہے
دوزخ ہی اسکا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہے ٹھکانہ
نصرت کے خصم۔ ۔ ۔ ۔
انگریز کا خود کاشتہ پودہ ہے یہ خود ہی کہے
پیشاب بھی دست بھی دن رات ہی اس کا بہے
یہ تو ہوتی نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ شان مسیحانہ
نصرت کے خصم۔ ۔ ۔ ۔
مہدی تھا یا نبی کوئی کسی طور بھی ممکن نہیں
یہ منصب بہت اعلی ہیں کسی تھالی کے بینگن نہیں
اسے مجنوں پاگل کہو ۔ ۔ ۔ ۔ یا دیوانہ
نصرت کے خصم۔ ۔ ۔ ۔
لوٹا ہے دو ہاتھوں سے ایمان و زر خدائی کا
کرتا رہا سامان یہ دو جگ میں رسوائی کا
نام پہ دین کے بھی۔ ۔ ۔ ۔ لے نذرانہ
نصرت کے خصم۔ ۔ ۔ ۔
فرق نہیں معلوم جسے الٹے سیدھے جوتے کا
کھُر تھا یہ ابلیس کے جنگل کے کھوتے کا
باب لد کو کہے ۔ ۔ ۔ ۔ یہ لدھیانہ
نصرت کے خصم
۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم ضیاء رسول
وہ خوب روئے ارے میں نے کس جھوٹے کو راہنما مانا
نصرت کے خصم۔ ۔ ۔ ۔
لکھا تیرا پڑھے بنا ناچتے رہے اشاروں پہ
جان کے ہم جنت کی ہوا چلتے رہے انگاروں پہ
کتابیں۔ ۔ ۔ پڑھیں۔ ۔ ۔ ۔ تب سب جانا
نصرت کے خصم۔ ۔ ۔ ۔
سوچا تھا یہ مٹ جائیں گی گناہوں کی پرچھائیاں
معلوم نہ تھا ہوجائیں گی دو جگ میں رسوائیاں
بڑی دیر سے ہم نے ۔ ۔ ۔ ہے سچ جانا
نصرت کے خصم۔ ۔ ۔ ۔
اے کاش کہ ہوتی خبر کسے ہم نے اپنایا ہے
باغ سبز کس نے ہمیں جنت کا دکھایا ہے
نبی ہوتا نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ کوئی بھی کانا
نصرت کے خصم۔ ۔ ۔ ۔
کذابوں سے رشتے ہوئے ٹیچی بھی فرشتے ہوئے
نہ رہے کسی کام کے جب سے ہم اس کے ہوئے
کیا اپنوں میں ہی۔ ۔ ۔ ۔ ہمیں بیگانہ
نصرت کے خصم۔ ۔ ۔ ۔
دے گالیاں سب کو ہی یہ پھر اس کو تبلیغ کہے
سچ کہتا ہے جو بھی اسے دجال یا ابلیس کہے ہے
دوزخ ہی اسکا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہے ٹھکانہ
نصرت کے خصم۔ ۔ ۔ ۔
انگریز کا خود کاشتہ پودہ ہے یہ خود ہی کہے
پیشاب بھی دست بھی دن رات ہی اس کا بہے
یہ تو ہوتی نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ شان مسیحانہ
نصرت کے خصم۔ ۔ ۔ ۔
مہدی تھا یا نبی کوئی کسی طور بھی ممکن نہیں
یہ منصب بہت اعلی ہیں کسی تھالی کے بینگن نہیں
اسے مجنوں پاگل کہو ۔ ۔ ۔ ۔ یا دیوانہ
نصرت کے خصم۔ ۔ ۔ ۔
لوٹا ہے دو ہاتھوں سے ایمان و زر خدائی کا
کرتا رہا سامان یہ دو جگ میں رسوائی کا
نام پہ دین کے بھی۔ ۔ ۔ ۔ لے نذرانہ
نصرت کے خصم۔ ۔ ۔ ۔
فرق نہیں معلوم جسے الٹے سیدھے جوتے کا
کھُر تھا یہ ابلیس کے جنگل کے کھوتے کا
باب لد کو کہے ۔ ۔ ۔ ۔ یہ لدھیانہ
نصرت کے خصم
۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم ضیاء رسول