وفاتِ مسیح ثابت کرنے کے لیے قادیانیوں کی جانب سے پیش کی جانے والی آیت:
وکنت علیھم شھیداً مادمت فیھم فلما توفیتنی کنت انت الرقیب علیھم (مائدہ: ۱۱۷)
قادیانی استدلال :وکنت علیھم شھیداً مادمت فیھم فلما توفیتنی کنت انت الرقیب علیھم (مائدہ: ۱۱۷)
’’ وکنت علیھم شھیداً مادمت فیھم فلما توفیتنی کنت انت الرقیب علیھم (مائدہ: 117) ‘‘
مرزا بشیر الدین کے ترجمہ کے الفاظ یہ ہیں:
’’اور جب تک میں ان میں (موجود) رہا۔ میں ان کا نگران رہا۔ مگر جب تو نے میری روح قبض کرلی، تو تو ہی ان پر نگران تھا۔ ‘ ‘
(ترجمہ قرآن مجید از مرزا بشیر الدین ص ۲۵۸)
وفات عیسیٰ علیہ السلام پر اس آیت سے قادیانی استدلال کی بنیاد ان کے خیال میں بخاری شریف کی ایک تفصیلی روایت پر ہے۔ جو مندرجہ ذیل ہے:
’’ انہ یجاء برجال من امتی فیوخذبھم ذات الشمال فاقول یارب اصحابی فیقال انک لاتدری ما احدثوا بعدک فاقول کما قال العبد الصالح: وکنت علیھم شہیداً مادمت فیھم ‘‘
(بخاری ص ۶۶۵ ج۲ کتاب التفسیر)
ترجمہ: ’’میری امت کے بعض لوگ لائے جائیں گے اور بائیں طرف۔ یعنی جہنم کی طرف ان کو چلایا جائے گا، تو میں کہوں گا: اے میرے رب یہ تو میرے صحابی ہیں۔ پس کہا جائے گا کہ آپﷺ کو اس کا علم نہیں کہ انہوں نے آپﷺ کے بعد کیا کچھ کیا۔ پس میں ایسے ہی کہوں گا جیسا کہ عبد صالح یعنی عیسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ جب تک میں ان میں موجود تھا۔ ان پر گواہ تھا اور جب تو نے مجھے بتمامہٖ بھرپور لے لیا تھا۔ اس وقت آپ نگہبان تھے۔‘‘
تو ’’توفی‘‘ کا لفظ حضورﷺ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام دونوں کے کلام میں آتا ہے اور ظاہر ہے کہ حضورﷺ کی توفی بصورت وفات ہے۔ تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی توفی بھی بصورت وفات ہوگی۔ نیز حضورﷺ نے بتایا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ارشاد زمانہ ماضی میں ہوچکا ہے۔ معلوم ہوا کہ وہ وفات پاچکے ہیں۔
جواب…اس تحریف کا جواب بھی معلوم ہوچکا ہے کہ توفی کے حقیقی معنی پورا پورا لینے کے ہیں۔ لیکن حضور اقدسﷺ کے کلام میں یہ بمعنٰی موت ہے۔ کیونکہ سب جانتے ہیں کہ آپﷺ کی وفات ہوئی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے کلام میں توفی بطور اصعاد الی السماء پائی گئی ہے۔ کیونکہ اس کا قرینہ ورافعک الیّٰ موجود ہے۔
جواب…اگر دونوں حضرات کی توفی ایک طرح کی ہوتی تو آپﷺ یوں فرماتے: ’’ فاقول ماقال، العبد الصالح ‘‘ تو فاقول کما قال العبد الصالح فرمانا بتارہا ہے کہ مشبہ اور مشبہ بہٖ میں چونکہ تغایر ہوا کرتا ہے۔ اس لئے اصل مقصد ہر دو حضرات کا امت کے درمیان اپنی عدم موجودگی کو بطور عذر پیش کرنا ہے۔ لہٰذا حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی غیر موجودگی توفی بمعنی اصعاد الی السماء سے بیان فرمائی اور نبی کریمﷺ نے اپنی غیر موجودگی توفی بصورت موت بیان فرمائی ہے۔
جواب…رہا یہ کہ آپﷺ نے اپنے متعلق فرمایا اقول اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق قال ماضی کا صیغہ فرمایا۔ تو اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ جس وقت آپﷺﷺ نے یہ حدیث ارشاد فرمائی: سورئہ مائدہ کی مذکورہ آیت نازل ہوچکی تھی اور اس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا قول جو قیامت کے دن باری تعالیٰ کے سوال کہ : ’’أ انت قلت للناس اتخذونی و امی الھین من دون اﷲ ‘‘ کے جواب میں فرمائیں گے، حکایت کیا گیا ہے۔
اور دوسری وجہ یہ ہے کہ قیامت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا یہ کلام پہلے ہوچکے گا اور حضورﷺ کا معاملہ بعد میں پیش آئے گا۔