• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

وفات حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کے متعلق قادیانی کذّابوں کےجھوٹ کا منہ توڑ جواب

ڈاکٹرفیض احمدچشتی

رکن ختم نبوت فورم
وفات حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کے متعلق قادیانی کذّابوں کےجھوٹ کا منہ توڑ جواب حصّہ اوّل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فَبِمَا نَقْضِهِم مِّيثَاقَهُمْ وَكُفْرِهِم بِآيَاتِ اللَّ۔هِ وَقَتْلِهِمُ الْأَنبِيَاءَ بِغَيْرِ حَقٍّ وَقَوْلِهِمْ قُلُوبُنَا غُلْفٌ بَلْ طَبَعَ اللَّ۔هُ عَلَيْهَا بِكُفْرِهِمْ فَلَا يُؤْمِنُونَ إِلَّا قَلِيلًا ۔ وَإِن مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكُونُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا [/ARABIC]۔ سورة النساء : آيات 155 تا 159
ترجمہ : (یہ سزا تھی) بہ سبب ان کی عہد شکنی کے اور احکام الٰہی کے ساتھ کفر کرنے کے اور اللہ کے نبیوں کو ناحق قتل کر ڈالنے کے، اور اس سبب سے کہ یوں کہتے ہیں کہ ہمارے دلوں پر غلاف ہے۔ حالانکہ دراصل ان کے کفر کی وجہ سے ان کے دلوں پر اللہ تعالیٰ نے مہر لگا دی ہے، اس لئے یہ قدر قلیل ہی ایمان لاتے ہیں (١٥٥) اور ان کے کفر کے باعث اور مریم پر بہت بڑا بہتان باندھنے کے باعث (١٥٦) اور یوں کہنے کے باعث کہ ہم نے اللہ کے رسول مسیح عیسیٰ بن مریم کو قتل کر دیا حالانکہ نہ تو انہوں نے اسے قتل کیا نہ سولی پر چڑھایا بلکہ ان کے لئے ان (عیسیٰ) کا شبیہ بنا دیا گیا تھا۔ یقین جانو کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں اختلاف کرنے والے ان کے بارے میں شک میں ہیں، انہیں اس کا کوئی یقین نہیں بجز تخمینی باتوں پر عمل کرنے کے اتنا یقینی ہے کہ انہوں نے انہیں قتل نہیں کیا (١٥٧) بلکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی طرف اٹھا لیا اور اللہ بڑا زبردست اور پوری حکمتوں والا ہے (١٥٨) اہل کتاب میں ایک بھی ایسا نہ بچے گا جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی موت سے پہلے ان پر ایمان نہ لاچکے اور قیامت کے دن آپ ان پر گواه ہوں گے (١٥٩)

ان آيات كريمہ ميں یہود كو سزا ملنے كے جو اسباب بتائے گئے ہیں ان ميں سے ايك جرم يہ بھی ہے کہ وہ دعوى كرتے تھے كہ انہوں نے حضرت عيسى عليہ السلام كو قتل كر ديا تھا جب كہ قرآن كريم وضاحت سے بيان كرتا ہے کہ اللہ تعالى نے انہیں اپنی طرف اٹھا لیا۔ آخرى آيت ميں دليل ہے کہ قيامت سے پہلے وہ دنيا ميں تشريف لائیں گے اور تمام اہل كتاب ان پر ان كى موت سے قبل ايمان لائيں گے۔ مستقبل كا صيغہ واضح دلالت كرتا ہے کہ ايسا نزول قرآن كريم كے بعد ہوگا۔ يعنى ابھی حضرت عيسى عليہ السلام حيات ہیں اور زندہ شخص كا مقبرہ دريافت كرنا كوئى معنى نہیں رکھتا۔

اِذْ قَالَ اللہُ یٰعِیْسٰٓى اِنِّىْ مُتَوَفِّیْکَ وَرَافِعُکَ اِلَیَّ وَمُطَہِرُکَ مِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَجَاعِلُ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ۝۰ۚ ثُمَّ اِلَیَّ مَرْجِعُکُمْ فَاَحْکُمُ بَیْنَکُمْ فِیْمَا کُنْتُمْ فِیْہِ تَخْتَلِفُوْنَ۝۵۵
یاد کرو جب اللہ نے فرمایا اے عیسیٰ میں تجھے پوری عمر تک پہنچاؤں گا (ف۱۱۱) اور تجھے اپنی طرف اٹھالوں گا (ف۱۱۲) اور تجھے کافروں سے پاک کردوں گا اور تیرے پیروؤں کو (ف۱۱۳) قیامت تک تیرے منکروں پر (ف۱۱۴) غلبہ دوں گا پھر تم سب میری طرف پلٹ کر آؤ گے تو میں تم میں فیصلہ فرمادوں گا جس بات میں جھگڑتے ہو۔
رآن مجید میں عیسیٰ علیہ السلام کے اٹھائے جانے کے لیے "متوفیک" اور "توفیتنی" یعنی وفات کا لفظ استعمال ہوا ہے جو موت کا مترادف ہے لہٰذا عیسیٰ علیہ السلام کی موت واقع ہو چکی ہے اور اب وہ دنیا میں تشریف نہیں لانے والے ہیں۔ اس قسم کی باتیں وہ شخص ہی کر سکتا ہے جو پہلے سے اپنے ذہن میں ایک عقیدہ بٹھا کر‌قرآن مجید سے اپنے حق میں دلائل کشید کرنا چاہتا ہو خواہ اس کے لیے اسے صحیح احادیث اور ائمہ امت کی تصریحات سے بے نیاز ہی کیوں نہ ہونا پڑے۔ خیر، یہ آپ کی اپنی مرضی ہے کہ آپ قرآن مجید کی وہ تفسیر پسند کرتے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بتائی ہے یا پھر اپنی عقل سے کلام اللہ کے نئے معنی متعین فرماتے ہیں۔ ہمارے لیے آپ کے پیش کیے ہوئےاشکال کو رفع کرنے کے لیے یہی امر کافی ہے کہ لغت کے اعتبار سے "وفات" کا لفظ‌ بہت سے معنوں میں‌استعمال ہوتا ہے جن میں ایک مطلب "واپس لینا"‌ بھی ہے اور ان آیات میں یہی مطلب مراد ہے۔ خود قرآن مجید میں "وفات"کا اطلاق نیند پر کیا گیا ہے مثلا:
وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ (الانعام)
"اور وہی ہے جو تمہیں رات کو "وفات" دیتا ہے"
اللَّهُ يَتَوَفَّى الأنْفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا [ الزمر : 42 ]
"اللہ وفات دیتا ہے جانوں کو موت کے وقت اور جو مری نہیں ہیں انہیں نیند میں"
عربی کی معتبر ترین لغت لسان العرب سے "وفات" کے دو مزید استعمال دیکھیے۔
تَوَفَّيْتُ المالَ منه
لفظی مطلب: "میں نے اس کے مال کو "وفات" دے دی"
حقیقی مراد: "میں نے اس سے سارا مال واپس لے لیا"
ایک اور مثال:
تَوَفَّيْتُ عَدَد القومِ
لفظی مطلب: "میں نے قوم کے افراد کی تعداد کو وفات دی"
حقیقی مراد: "میں نے قوم کے افراد کو شمار کیا"
ان مثالوں‌سے واضح ہوتا ہے کہ عربی زبان میں "وفات"‌کا مطلب ہمیشہ "موت"‌نہیں ہوتا، بلکہ اگر کوئی شخص محض ‌لغت کی مدد سے ترجمہ کرنے بیٹھے تو وہ قائل کی حقیقی مراد سے بہت دور جا پڑے گا۔ یہاں یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیےکہ محض لغت کی مدد سے قرآن کی تفسیر نہیں کی جا سکتی۔ قرآن کریم کی تفسیر ایک انتہائی نازک اور مشکل کام ہے جس کے لیے صرف عربی زبان جان لینا کافی نہیں بلکہ تمام متعلقہ علوم میں مہارت ضروری ہے۔ افسوس ہے کہ کچھ عرصے سے مسلمانوں میں یہ خطرناک وبا چل پڑی ہے کہ بہت سے لوگوں نے صرف عربی پڑھ لینے کو تفسیر قرآن کے لیے کافی سمجھ رکھا ہے، چنانچہ جو شخص بھی معمولی عربی زبان پڑھ لیتا ہے وہ قرآن کریم کی تفسیر میں رائے زنی شروع کر دیتا ہے بلکہ بعض اوقات ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ عربی زبان کی نہایت معمولی شدبد رکھنے والے لوگ، جنہیں عربی پر بھی مکمل عبور نہیں ہوتا، نہ صرف من مانے طریقے پر قرآن کی تفسیر شروع کر دیتے ہیں بلکہ پرانے مفسرین کی غلطیاں نکالنے کے درپے ہو جاتے ہیں، یہاں تک کہ بعض ستم ظریف تو صرف ترجمے کا مطالعہ کر کے اپنے آپ کو قرآن کا عالم سمجھنے لگتے ہیں اور بڑے بڑے مفسرین پر تنقید کرنے سے نہیں چوکتے۔
ہمارے اور آپ کے درمیان مسئلہ صرف یہ ہے کہ آپ صحیح احادیث، علماء، فقہاء اور ائمہ امت کی تصریحات اور ان کے چھوڑے ہوئے علمی کام کو دریا برد کر کے اپنی عقل اور لغت کے بھروسے پر قرآن مجید کے نئے معنی متعین فرمانا چاہتے ہیں۔ بنیادی سوال صرف یہ ہے کہ جن آیات میں عیسیٰ علیہ السلام کے لیے "وفات" کا لفظ آیا ہے وہاں اس کی تفسیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بتائے ہوئے مطلب سےکی جائے یا کسی متجدد کے فہم و دانش کو معیار مانا جائے؟

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحیح ثابت شدہ احادیث سے عیسیٰ علیہ السلام کی دوبارہ آمد معلوم ہے۔ ایک صحیح حدیث ملاحظہ کیجیے:
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ ابْنِ الْمُسَيَّبِ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَيُوشِكَنَّ أَنْ يَنْزِلَ فِيكُمْ ابْنُ مَرْيَمَ حَكَمًا مُقْسِطًا فَيَكْسِرَ الصَّلِيبَ وَيَقْتُلَ الْخِنْزِيرَ وَيَضَعَ الْجِزْيَةَ وَيَفِيضَ الْمَالُ حَتَّى لَا يَقْبَلَهُ أَحَدٌ
"اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، قریب ہے کہ تم میں ابن مریم حاکم عادل بن کر اتریں گے، پس وہ صلیب کو توڑ دیں گے، اور خنزیر کو قتل کریں گے اور جزیہ اٹھا دیں گے۔ ۔ ۔۔ "
اس حدیث کو درج ذیل محدثین نے روایت کیا ہے اور محدثین نے جانچ پرکھ کے کڑے اصولوں پر پرکھنے کے بعد اسے "صحیح"قرار دیا ہے۔
صحیح البخاری کتاب البیوع باب قتل الخنزیر
صحیح مسلم کتاب الایمان باب نزول عیسیٰ ابن مریم حاکما بشریعۃ نبینا
سنن ترمذی کتاب الفتن باب ما جاء فی نزول عیسیٰ ابن مریم
مستخرج ابی عوانہ کتاب الایمان باب ثواب من آمن بمحمد صلی اللہ علیہ و علی‌آلہ وسلم
مصنف عبدالرزاق کتاب الجامع باب نزول عیسیٰ ابن مریم
مسند احمد بن حنبل باقی مسند المکثرین مسند ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ
صحیح ابن حبان کتاب التاریخ باب ذکر خبر قد یوھم من لم یحکم صناعۃ الحدیث ان خبر
سنن البیہقی جلد 6 ص 110
علاوہ ازیں قرآن کریم کی ایک آیت سے بھی عیسیٰ علیہ السلام کی دوبارہ آمد کا اشارہ نکلتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَإِنْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكُونُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا (النساء 159)
"اور اہل کتاب میں کوئی ایسا نہ بچے گا جو اس (عیسیٰ علیہ السلام) کی موت سے پہلے اس پر ایمان نہ لائے۔ اور قیامت کے دن وہ ان پر گواہ ہو گا"
مسلمانوں کے تمام مکاتب فکر کے ہاں معتبر تفسیر ابن کثیر میں اس کا مطلب یہ بیان کیا گیا ہے کہ:
وذلك حين ينزل إلى الأرض قبل يوم القيامة
"یہ واقعہ تب ہو گا جب عیسیٰ علیہ السلام قیامت سے پہلے زمین پر دوبارہ نازل ہوں گے"
 

ڈاکٹرفیض احمدچشتی

رکن ختم نبوت فورم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وَ اِنَّہ لَعِلْمُ لِّلسَّاعَۃِ فَلاَ تَمْتَرُنَّ بِھَاوَاتَّبِعُوْنِ،ھٰذَا صِرَاطُ مُّسْتَقِیْمُ" اور یقیناَ وہ (عیسٰی) قیامت کی علامت ہے پس تم قیامت کے بارے میں شک نہ کرو اور میری تابعداری کرو یہی سیدھی راہ ہے۔
(سورہ الزخرف:٤٣ ، آیت٦١)
اس آیت میں عیسٰی علیہ اسلام کے بارے میں بیان کیا جارہا ہے کہ وہ قیامت کی علامت ہیں اس آیت کے بارے میں حضرت ابن عباس سے قول منقول ہے (لَعِلْمُ لِّلسَّاعَۃِ)یعنی علامتِ قیامت سے مرا د نزول عیسٰی علی اسلام ہیں ،
دیکھئے(تفسیرطبری،تفسیرقرطبی،تفسیر ابن کثیر)اور ایک حدیث سے بھی ابن عباس کے قول کی تائید ہوتی ہے۔
مفہوم حدیث:
حذیفہ بن اسید غفاری سے روایت ہے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم برآمد ہوئے ہم پر اور ہم باتیں کر رہے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم کیا باتیں کر رہے ہو ہم نے کہا ہم قیامت کا ذکر کرتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت نہیں قائم ہو گی جب تک دس نشانیاں اس سے پہلے نہیں دیکھ لو گے ان نشانیوں میں سے ایک نزول عیسٰی بھی ہے
(صحیح مسلم کتاب الفتن جلد٦،ابن ماجہ کتاب الفتن باب قیامت کی نشانیاں جلد٣ ،ترمذی کتاب الفتن باب زمین کا دھنس جاناجلد٢)
نزول عیسٰی علیہ اسلام قیامت کی علامت ہے جیسا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث اورابن عباس کےاس قول سے جو اس آیت کے بارے میں بیان ہواہے اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ قرآن مجید میں(لَعِلْمُ لِّلسَّاعَۃِ) سے مراد عیسٰی علیہ اسلام کی دوبارہ آمد ہے، یہا ں نزول عیسٰی علیہ اسلام کے حوالے سے یہ بات واضح کرنا ضروری ہے کہ معترضین کا یہ کہنا ہے کہ یہ تصور احادیث سے منتقل ہوا ہے تو ہم یہ بتانا چاہتے ہیں ایسا نہیں ہے کہ اس بارے میں کوئی اشارہ کسی حدیث میں بیان ہوا ہو یا کسی ایک حدیث میں یہ بات بیان ہوئی ہوجس سے یہ تصور کیا گیا ہو بلکہ نزول عیسٰی علیہ اسلام کے بارے میں کثرت کے ساتھ روایات موجود ہیں اور صحابہ کرام کی کثیر جماعت نے اسے روایت کیا ہے اس کےبعد تابعین محدثین مفسرینِ قرآن سب کا اس بات(نزول عیسٰی علیہ اسلام)پراجماع ہے یہاں تک کہ ابن کثیرنے سورہ النساء آیت١٥٦،١٥٩کی تفسیرمیں بیان کیا ہےکہ اِن تمام روایات کو ایک جگہ جمع کرنا بہت مشکل ہےاوریہ روایات تواتر کے ساتھ موجود ہیں۔
مفہومِ حدیث:
ابوہریرہ نےبیان کیا کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ و قدرت میں میری جان ہے وہ زمانہ قریب ہے عیسٰی تمہارے درمیان ایک عادل حاکم کی حیثیت سےنزول کریں گے وہ صلیب کو توڑ دیں گے ،سور کو مار ڈالیں گے اور جزیہ قبول نہیں کریں گےاس وقت مال ودولت کی اتنی کثرت ہو جائی گی کہ کوئی اسے لینے والا نہیں ملے گا اورایک سجدہ دنیا ا ور ما فیہا سے بڑھ کر ہو گاپھرابوہریرہ نے فرمایا کہ تمھارا جی چاہے تو یہ آیت پڑھ لو اور کوئی اہلِ کتاب ایسا نہیں ہو گا جو حضرت عیسٰی کی موت سے پہلے ایمان نہ لاچکےاور قیامت کے دن آپ ان پر گواہ ہوں گے۔
(صحیح بخاری کتاب الانبیاء)
مفہومِ حدیث:
ابوہریرہ سےروایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے اور عیسٰی کے درمیان کوئی نبی نہ ہوگا اور بیشک عیسٰی اتریں گے جب تم ان کودیکھو توپہچان لووہ ایک شخص ہیں متوسط قدوقامت کے رنگ ان کا سرخی اورسفیدی کے درمیان میں ہے وہ زرد کپڑے ہلکے رنگ کے پہنے ہوں گےان کےبالوں سے پانی ٹپکتا معلوم ہوگا اگرچہ وہ تربھی نہ ہوں گے وہ لوگوں سے جہا د کریں گے اسلام قبول کرنےکے لئےاور توڑڈالیں گےصلیب کواورقتل کریں گے سورکو اورموقوف کردیں جزیے کواورتباہ کر دے گااللہ تعالٰی ان کےزمانے میں سب مذہبوں کو سوا اسلام کے اور ہلاک کریں گے وہ دجال مردودکو پھر دنیا میں رہیں گے چالیس برس تک بعد اس کےان کی وفات ہوگی اور مسلمان ان پرجنازے کی نمازپڑھیں گے
(سنن ابوداؤدکتاب الملاحم باب دجال کا نکلناجلد٣)
مفہومِ حدیث:
ابوہریرہ سے روایت ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہارا کیا حال ہوگا جب مریم کے بیٹے اُتریں گے تم لوگوں میں پھر امامت کریں گے تمہاری تم ہی میں سے(ابن ابی ذئب نے کہا جو( راوی حدیث ہیں)امامت کریں گے تمہاری تم ہی میں سے مراد ہے کہ عیسٰی امامت کریں گے اللہ کی کتاب اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے (یعنی تابع ہوں گے شریعت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اور پیروی کریں گے قرآن و حدیث کی)
(صحیح مسلم کتاب الایمان باب نزول عیسٰی جلد اول بمع شرح امام نووی)
مفہومِ حدیث:
جابر بن عبداللہ سے روایت ہے میں نے سنا رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے ہمیشہ ایک گروہ میری امت کا لڑتا رہے گا حق پر قیامت کے دن تک وہ غالب رہے گا ۔پھر عیسٰی اتریں گے اور اس گروہ کا امام کہے گا نماز پڑھایئے وہ کہیں گے تم میں سے ایک دوسرے پر حاکم رہیں ۔یہ وہ بزرگی ہے جو اللہ تعا لٰی عنایت فرماوے گا اس امت کو( صحیح مسلم کتاب الایمان باب نزول عیسٰی جلد اول)اس کے علاوہ یہ روایات(بخاری کتاب الانبیاء جلد دوئم،مسلم کتاب الایما ن اور کتاب الفتن باب فتح قسطنطنیہ جلد اول،سنن ابوداؤدکتاب الملاحم باب دجال کا نکلناجلد٣ ،صحیح مسلم کتاب الفتن جلد٦،ابن ماجہ کتاب الفتن باب قیامت کی نشانیاں اورخروج دجال جلد٣ ،ترمذی کتاب الفتن باب زمین کا دھنس جانا اور نزول عیسٰی اور قتل دجا ل جلددوئم ،مسند احمد،تفسیرابن کثیر)میں بیان ہوئی ہیں۔

إِذْ قَالَتِ الْمَلَائِكَةُ يَا مَرْيَمُ إِنَّ اللَّ۔هَ يُبَشِّرُكِ بِكَلِمَةٍ مِّنْهُ اسْمُهُ الْمَسِيحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ وَجِيهًا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ ﴿٤٥﴾وَيُكَلِّمُ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ وَكَهْلًا وَمِنَ الصَّالِحِينَ ﴿٤٦﴾
جب فرشتوں نے کہا اے مریم اللہ تعالیٰ تجھے اپنے ایک کلمے کی خوشخبری دیتا ہے جس کا نام مسیح عیسیٰ بن مریم ہے جو دنیا اور آخرت میں ذیعزت ہے اور وه میرے مقربین میں سے ہے (٤٥)وه لوگوں سے اپنے گہوارے میں باتیں کرے گا اور ادھیڑ عمر میں بھی اور وه نیک لوگوں میں سے ہوگا (٤٦)

اس آيت كريمہ ميں وعدہ ہے كہ سيدتنا مريم عليها السلام كا لڑكا گہوارے كى عمر اور ادھیڑ عمر ميں لوگوں سے خطاب كرے گا ۔ حضرت عيسى عليہ السلام نوجوانى كے عالم ميں اٹھا لیے گئے جب دوبارہ تشريف لائيں گے تو حسب وعدہ ء ربانى ادھیڑ عمر كو پہنچیں گے۔ ومن أصدق من اللہ قيلا ؟ یہ محض اشارے نہیں واضح آيات ہیں۔

اِذْ قَالَ اللہُ یٰعِیۡسٰۤی اِنِّیۡ مُتَوَفِّیۡکَ وَرَافِعُکَ اِلَیَّ وَمُطَہِّرُکَ مِنَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَجَاعِلُ الَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡکَ فَوْقَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ ۚ ثُمَّ اِلَیَّ مَرْجِعُکُمْ فَاَحْکُمُ بَیۡنَکُمْ فِیۡمَا کُنۡتُمْ فِیۡہِ تَخْتَلِفُوۡنَ ﴿55
ترجمہ کنزالایمان:۔ یاد کرو جب اللہ نے فرمایا اے عیسیٰ میں تجھے پوری عمر تک پہنچاؤں گا اور تجھے اپنی طرف اٹھالوں گا اور تجھے کافروں سے پاک کر دوں گا اور تیرے پیروؤں کو قیامت تک تیرے منکروں پر غلبہ دوں گا پھر تم سب میری طرف پلٹ کر آؤ گے تو میں تم میں فیصلہ فرما دوں گا جس بات میں جھگڑتے ہو۔ (پ3،آل عمران:55
آیت میں (اِنِّىْ مُتَوَفِّيْكَ ) فرمایا گیا، لفظ توفی “وفا” سے مشتق ہے، جس کے معنی پورا پورا لینے کے ہیں، انہی معنوں میں وفات کا لفظ موت کے لیے بھی اصطلاحاً مستعمل ہے کیونکہ موت انسان کے تمام تر علائق کا دنیا سے خاتمہ کردیتی ہے ۔لیکن قرآن کریم میں “توفی” کا لفظ کہیں بھی موت کے لیے استعمال نہیں ہوا، چنانچہ فرمایا گیا ( حتیٰ یتوفھنّٰ الموت ) یہاں موت اور توفی ایک ساتھ استعمال ہوئے ہیں، کیونکہ یہ دونوں لغوی اعتبار سے ہم معنی یا مترادف نہیں۔
“لغت عرب میں توفی کے معنی استیفاء پورا پورا لینے کے ہیں اور توفی کی تین قسمیں ہیں ایک توفی نوم یعنی نیند اور خواب کی توفی اور دوسری توفی موت کے وقت روح کو پورا پورا قبض کرلینا،تیسری توفی الروح والجسد یعنی روح اور جسم کو پورا پورا لے لینا۔”
اس کے بعد فرمایا (رَافِعُكَ اِلَيَّ ) اس میں جو “رفع” ہے، وہ آیت کی تفسیر میں نہایت اہمیت کا حامل ہے، قرآن کریم میں متعدد مقامات پر رفع بمعنی بلندیٔ درجات بھی آیا ہے۔ لیکن زیربحث آیت میں “رفع” کے ساتھ “الی” بھی شامل ہے، جس کا غالب قرینہ یہی ہے کہ ﷲ رب العزت نے انہیں اپنی طرف اٹھالیا، اس کی تائید “تفسیر القرآن بالقرآن” کے اصول کے تحت قرآن کریم کے دوسرے مقامات سے بھی ہوتی ہے۔
(وَمَا قَتَلُوْهُ يَقِيْنًۢا ١٥٧؀ۙ بَلْ رَّفَعَهُ اللّٰهُ اِلَيْهِ ۭوَكَانَ اللّٰهُ عَزِيْزًا حَكِـيْمًا ١٥٨ )(سورة النسآء:١٥٧-١٥٨)
آیت میں پہلے یہود ونصاریٰ کے” اتباع الظن” کی تردید کی گئی ہے اور یہ تردید “بل”کہہ کر کی گئی ہے، (وَمَا قَتَلُوْهُ يَقِيْنًۢا ١٥٧؀ۙ بَلْ رَّفَعَهُ اللّٰهُ اِلَيْهِ ) کا ترجمہ اگر یہ کیا جائے کہ: “اور انہیں ہر گز قتل نہیں کیا گیا بلکہ اللہ نے اپنی طرف ان کا درجہ بلند کیا ہے۔ تو”بل” کا فائدہ ختم ہوجائے گااور معنوں میں ایک بے ربطی پیدا ہوگی۔
اس کے برعکس (وَمَا قَتَلُوْهُ يَقِيْنًۢا ١٥٧؀ۙ بَلْ رَّفَعَهُ اللّٰهُ اِلَيْهِ ) کا ترجمہ :”اور انہیں ہر گز قتل نہیں کیا گیا بلکہ اللہ نے انہیں اپنی طرف اٹھالیا۔” مناسب ہے کیوں کہ یہ امر روزِ روشن کی طرح واضح ہے کہ بل رفعہ اللہ الیہ کی ضمیر اس طرف راجع ہے کہ جس طرف قتلوہ اور صلبوہ کی ضمیریں راجع ہیں اور ظاہر ہے کہ قتلوہ اور صلبوہ کی ضمیریں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے جسم مبارک اور جسدِ مطہر کی طرف راجع ہیں۔ روح بلا جسم کی طرف راجع نہیں۔ اس لیے کہ قتل کرنا اور صلیب پر چڑ ھانا جسم ہی کا ممکن ہے۔ روح کا قتل اور صلیب قطعاً ناممکن ہے۔ لہٰذا بل رفعہ کی ضمیر اسی جسم کی طرف راجع ہوگی جس جسم کی طرف قتلوہ اور صلبوہ کی ضمیریں راجع ہیں۔
منکرینِ نزول عیسیٰ علیہ السلام کو چاہیئے کہ وہ ( بل رفعہ اللہ الیہ ) کی صحیح تشریح فرمائیں وگرنہ اتباع حق کی پیروی اختیار کریں۔
وَ اِنۡ مِّنْ اَہۡلِ الْکِتٰبِ اِلَّا لَیُؤْمِنَنَّ بِہٖ قَبْلَ مَوْتِہٖ ۚ وَیَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یَکُوۡنُ عَلَیۡہِمْ شَہِیۡدًا ﴿-سورہ النساء-۱۵۹
اس آیت میں فرمایا گیا (کوئی کتابی ایسا نہیں جو اس کی موت سے پہلے اس پر ایمان نہ لائے اورقیامت کے دن وہ ان پر گواہ ہوگا )
( وَاِنَّهٗ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَةِ )(سورة الزخرف :٦١)
ترجمہ : اور بیشک عیسٰی قیامت کی خبر ہے
اس آیت میں سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی ذات کو علامات قیامت میں سے فرمایا گیا ہے، بعض ارباب علم کے نزدیک اس میں حضرت مسیح علیہ السلام کی معجزانہ پیدائش کی طرف اشارہ ہے۔ لیکن دنیا میں قدرت الٰہیہ سے معجزات کاصدور کچھ کم نہیں ہوا، معجزات کا صدور جب بھی ہوا ہے تو اس کی غرض وغایت اس کے سوا اور کیا تھی کہ مادہ پرست انسانوں کو ان کی عاجزی سے آگاہ کردیا جائے اور جتلا دیا جائے کہ ایک ایسی ہستی ہے جو کارخانۂ ہستی کوچلارہی ہے۔ طوفان نوح (علیہ السلام) کیا ایک معجزئہ عظیم نہ تھا؟ آتش نمرود میں سیدنا خلیل اللہ علیہ الصلوةٰ و السلام کا زندہ سلامت رہنا کیا ایک امر مستبعاد نہ تھا؟ قوم لوط (علیہ السلام) پر غیر معمولی عذابِ الٰہی کیا ایک غیر معمولی واقعہ نہ تھا؟ کیا سیدنا موسیٰ علیہ السلام کا باذن الٰہی دریائے نیل کے شوریدہ پانیوں کو دوحصوں میں تقسیم کرنا، اس کے درمیان سے اپنی قوم کو صحیح سلامت گزار لینا اور فرعون و آل فرعون کا اس دریا میں غرق ہوجانا، انسانی عقل کے لیے اس کے عجز کا اظہار نہ تھا؟ پھر آخر کیا و جہ ہے کہ “الساعة” کے معنی میں صرف سیدنا مسیح علیہ السلام کی معجزانہ پیدائش کو علامت قیامت قرار دیاجائے؟ آخر کیوں سیدنا مسیح علیہ السلام کی مکمل ذات اور بالخصوص ان کے نزول کو مراد نہ لیا جائے؟ کیا اللہ غالب عزیز وحکیم نہیں ہے؟ أفلا یتدبرون۔
 

ڈاکٹرفیض احمدچشتی

رکن ختم نبوت فورم
نزول عیسیٰ علیہ ا لسلام احادیث صحیحہ کی نظر میں
قرآن کریم کے بعد احادیث صحیحہ میں ہم دیکھتے ہیں کہ بکثرت احادیث میں”امارات الساعة” کے بیان میں نزول مسیح ابن مریم علیہما السلام کی روایات موجود ہیں۔ عام طور پر منکرین نزول عیسیٰ علیہ السلام یہ دجل و تلبیس دیتے ہیں کہ نزول عیسیٰ علیہ السلام سے بابت احادیث کتب حدیث کے تیسرے درجے کی کتابوں میں مرقوم ہیںاور سب کی سب پائے ثقاہت سے گری ہوئی ہیں۔
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ نزول عیسیٰ علیہ السلام سے متعلق احادیث تقریباً تمام معتبر کتب احادیث میں بکثرت مرقوم ہیں۔ “صحیح بخاری”میں نزول عیسیٰ علیہ السلام سے متعلق چار احادیث ہیں:
١۔ باب قتل الخنزیر من کتاب البیوع
٢ ۔ باب کسر الصلیب من کتاب المظالم
٣ ۔ باب نزول عیسیٰ بن مریم علیھما السلام من کتاب أحادیث الأنبیائمیں دو حدیثیں ہیں۔
صحیح مسلم میں کتاب الایمان اور کتاب الفتن و اشراط الساعة میں متعد د احادیث نزول مسیح علیہ السلام موجود ہیں۔
سنن أبی دائود میں کتاب الملاحم کے مختلف ابواب میں احادیث نزول مسیح ابن مریم موجود ہیں۔
سنن ترمذی اور سنن ابن ماجہ کے کتاب الفتن میں بھی یہ احادیث موجود ہیں۔
کسی منصف پر مخفی نہیں کہ عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کی ذات شریفہ کا بحیثیت حاکم مقسط نزول الی الارض احادیث صحیحہ اور سنت مطہرہ سے ثابت ہے اور اسی پر اہل سنت کا اتفاق ہے۔ بے شک وہ اس وقت آسمان پر زندہ ہیں یقیناً انہیں موت نہیں آئی۔ اور جیسا کہ اس کے ثبوت میں اللہعزو جل نے قرآن میں یہود (جن پر اللہکا غضب ہوا) کے گمان کی کہ انہوں نے عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کو قتل کیاہے، کی تردید کرتے ہوئے فرمایا: (وَمَا قَتَلُوْهُ يَقِيْنًۢا ١٥٧؀ۙ بَلْ رَّفَعَهُ اللّٰهُ اِلَيْهِ ) (ترجمہ: “اور یقیناًانہیں قتل نہیں کیا گیا بلکہ ﷲ نے انہیں اپنی طرف اٹھالیا”) پس اس آیت کریمہ میں ﷲتعالیٰ نے ہمیں خبر دی کہ بے شک جو ارادہ یہودیوں نے ان کے قتل کرنے کا اور انہیں پکڑنے کاکیاانہی عیسیٰ علیہ السلام کے سوا اللہ نے کسی دوسرے کے جسم عنصری کو اپنی طرف نہیں اٹھایا اوریہودی کامیاب نہیں ہوئے اور عیسیٰ علیہ السلام کو ذرا تکلیف بھی نہ پہنچاسکے۔ جیساکہ اللہ تعالیٰ نے ان کے رفع سے قبل ان سے وعدہ فرمایاتھا: ( و ما یضرونک من شیئٍ ) (ترجمہ:”اور وہ آپ کو ذرا سے بھی تکلیف نہیں پہنچاسکتے”) اور ان کے جسم کو زندہ اٹھالیا یہی تفسیر ابن عباس نے کی ہے جیسا کہ ان سے باسناد صحیح ثابت ہے۔ پس اس سے ثابت ہوتا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ اٹھالیا گیا اور اسی پر ہماری ذکر کردہ احادیث صحیحہ متواترہ مذکورہ مصرحہ دلیل ہیں کہ ان کی ذات شریفہ کا نزول ہوگا جس میں کسی تاویل کا احتمال نہیں اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا وَاِنْ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ اِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهٖ قَبْلَ مَوْتِهٖ ۚ ) (ترجمہ:”اور یہ کہ اہل کتاب میں سے کوئی نہ ہوگا جو ان کی موت سے قبل ان پر ایمان نہ لے آئے”)۔اس میں عیسیٰ علیہ السلام کی موت سے قبل کہا گیا ہے جیسا کہ ابو ہریرہ اور عبد اللہ بن عباس اور ان دونوں کے علاوہ دیگر صحابہ اور سلف صالحین نے کہا ہے اور ابن کثیر کی تفسیر سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے۔ پس ثابت ہوا کہ عیسیٰ علیہ السلام کی موت نہیں ہوئی ہے اور ان کی موت آخری زمانے میں ہوگی اور ان پر تمام اہل کتاب ایمان لے آئیں گے۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں ان کے نزول الی الارض کو علامات قیامت میں شمار کرتے ہوئے فرمایا وَاِنَّهٗ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَةِ ۔ ابن کثیر اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں
“بے شک اس میں ضمیر عیسیٰ علیہ السلام کی طرف جاتی ہے۔ اس سیاق میں ان کے ذکر سے مراد یہ ہے کہ ان کا نزول قیامت کے دن سے قبل ہوگا جیساکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا وَاِنَّهٗ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَةِ ) اس میں عیسیٰ علیہ السلام کی موت سے قبل مراد ہے اور انہی معنوں کی تائید میں یہ قرأت ہے وَاِنَّهٗ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَةِ ) یعنی عین اور لام پر زبر کے ساتھ، جس کا مطلب قیامت ہے اور وہ و قوع قیامت کی دلیل ہیں۔ مجاہد کہتے ہیں وَاِنَّهٗ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَةِ ) اس آیت میں للساعة سے یوم قیامت سے قبل خروج عیسیٰ بن مریم مراد ہے اور ایسا ہی روایت کیا گیا ہے ابو ہریرہ، ابن عباس، ابو العالیہ، ابو مالک، عکرمہ، حسن، قتادہ، ضحاک وغیرہم سے۔ اور بلاشبہ تواتر کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم سے یہ خبر منقول ہے کہ انہوں نے خبر دی کہ یوم قیامت سے قبل عیسیٰ علیہ السلام کا نزول بحیثیت امام، عادل، حاکم، مقسط ہوگا۔” انتہی
پس ان آیات کریمہ اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم سے منقول نصوص صریحہ ثابتہ اس امر پر واضح دلیل ہیں کہ عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کا نزول آسمان سے زمین کی طرف قیامت کے قریب ہوگا۔
سنن ترمذی کی ایک اہم اسرائیلی روایت
احادیثِ صحیحہ کی روشنی میں قرآن پاک کی تفسیر نہایت سہل ہوگئی ہے، اس کی تائید میں محرف زدہ اناجیل بھی ہے اور گمشدہ توریت بھی۔ امام ترمذی نے اپنی “الجامع” کے کتاب المناقب میں ایک موقوف اثر روایت کیا ہے۔ وھو ھذا
“حدثنا زید بن اخزم الطائی البصری حدثنا ابو قتیبة حدثنی ابو مودود المدنی حدثنا عثمان بن الضحاک عن محمد بن یوسف بن عبد اﷲ بن سلام عن ابیہ عن جدہ قال: “مکتوب فی التوراة صفة محمد و صفة عیسی ابن مریم یدفن معہ۔” فقال ابو مودود و قد بقی فی البیت موضع قبر قال ابو عیسیٰ ھذا حدیث حسن غریب ھکذا قال عثمان بن الضحاک بن عثمان المدنی۔
یعنی: ”توریت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم اور سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی صفت میں یہ لکھا تھاکہ دونوں ایک ہی جگہ مدفون ہوں گے۔”
اس حدیث کے راویوں میں زید بن اخزم الطائی کو نسائی و دارقطنی نے ثقہ کہا ہے، ابن حبان انہیں مستقیم الحدیث کہتے ہیں۔
ابو قتیبہ مسلم بن قتیبہ کے لیے یحییٰ بن معین “لیس بہ بأس” کہتے ہیں۔ ابو داود و دارقطنی انہیں ثقہ کہتے ہیں۔
ابو مودود المدنی کی وثاقت پر امام احمد، یحییٰ بن معین، علی بن المدینی، ابو دائود، ابن حبان وغیرہم متفق ہیں۔
عثمان بن الضحاک کو ابن حبان نے ثقہ کہا جبکہ ابوداود نے تضعیف کی۔
محمد بن یوسف مقبول راوی ہیں اور زمرئہ تابعین میں شمار ہوتے ہیں۔ ان کے والد یوسف صغار صحابی ہیں اور ان کے دادا عبدا ﷲ بن سلام رضی اﷲ عنہ معروف صحابی ہیں اور معلوم ہے کہ ”الصحابة کلھم العدول”۔
منکرین نزول مسیح کے چند اعتراضات
٭ منکرین نزول عیسیٰ کی طرف سے ایک اہم اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ مسلمانوں میں سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی نزول ساعتِ موعودہ کا نظریہ درحقیقت عیسائیوں سے آیا ہے،
جبکہ انہیں غور فرمانا چاہیئے کہ اناجیل و دیگر کتب سابقہ میں کی متعدد تعلیمات اسلام میں بھی شامل ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم کی متعدد پیشینگوئیاں توریت وانجیل میں مرقوم ہیں۔ ہمیں چاہیئے کہ ظن و تخمین کو اپنی دلیل بنانے کی بجائے علم صریح کی پیروی کریں۔
٭ منکرین نزول عیسیٰ علیہ السلام کا دوسرا اعتراض یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم خاتم النبین ہیں لہٰذا نزول عیسیٰ سے ان کی صفت خاتمیت پر زد آتا ہے۔
لیکن یہ اعتراض بھی غیر دانشمندانہ ہے، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ظہورِثانی بحیثیت نبی کے نہیں ہوگا، جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم کی “شان خاتمیت“ تو اس امر سے واضح ہے کہ
“والذی نفس محمد بیدہ لو بدالکم موسیٰ فا تبعتموہ و ترکتمونی لضللتم عن سواء السبیل و لو کان حیاً و ادرک نبوتی لاتبعنی“ (رواہ الدارمی فی کتاب المقدمة)
“اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے اگر تمہارے درمیان موسیٰ ظاہر ہوجائیں اور تم سب ان کی پیروی کرو اور مجھے چھوڑ دو تو یقینا تم سیدھی راہ سے گمراہ ہوجائو گے اور اگر وہ زندہ ہوتے اور میرے (زمانۂ) نبوّت کو پاتے تو وہ بھی میری پیروی کرتے۔“
جبکہ عیسیٰ علیہ السلام صاحبِ شریعت نبی بھی نہیں ہیں، ان کا دورِ اول “شریعت موسوی“ کی تبلیغ میں گزرااور اب دورِثانی “تجدید شریعت محمدی” کے لیے وقف ہوگا۔ نیز بحیثیت نبی ان کا نزولِ ثانی نصِ قرآنی کے بھی خلاف ہے کیونکہ اللہ ربّ العزت نے (وَ رَسُوْلاً اِلٰی بَنِیْ اِسْرَآئِ یْلَ) (آل عمران :49) فرما کر ان کی رسالت کو صرف بنی اسرائیل کے لیے خاص فرمادیا ہے۔ لہٰذا ان کا نزولِ ثانی بحیثیت امام عادل یا بالفاظِ دیگر امتِ محمدیہ کے آخری مجددِ کامل کی حیثیت سے ہوگا۔

بلاشبہ روایات میں نزول مسیح علیہ السلام کی خبر دی گئی ہے اور صحیحین کی روایات اس باب میں معلوم ومشہور ہیں۔ اس سے کسے انکار ہے لیکن اس معاملہ کا تعلق قیامت کے آثار و مقدمات سے ہے نہ کہ تکمیل دین کے معاملہ سے نیز انہی روایات میں تصریحات موجود ہیں کہ حضرت مسیح کا نزول بہ حیثیت رسول کے نہیں ہوگا۔ میں سمجھتا ہوں اس تیرہ سو برس میں مسلمانوں کا متفقہ عقیدہ یہی رہا ہے کہ دین ناقص نہیں اور اپنے تکمیل کے لیے کسی نئے ظہور کا محتاج نہیں۔
“صحیح بخاری“ کی حدیث کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول بحیثیت “حکماً مقسطاً” ہوگا نہ کہ بحیثیت نبی۔ (صحیح البخاری، کتاب، باب کسر الصلیب و قتل الخنزیر)
٭منکرین نزول عیسیٰ علیہ السلام کی جانب سے ایک دلچسپ انکشاف یہ بھی ہوتا ہے کہ نزول عیسیٰ علیہ السلام فطرت کے خلاف ہے اور (لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اﷲ)
لیکن ان کے بارگاہِ عقل و فکر میں اس عاجز کا عاجزانہ سوال یہ ہے کہ وہ ربِ تعالیٰ کی خلقت اور قدرت کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟ جو وہ یوں فیصلے صادر کریں؟ أفلا یتدبرون۔

یہاں یہ ذکر بے محل نہیں مرزا غلام احمد قادیانی نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات سری نگر میں ہوئی تھی اور وہیں ان کی قبر بھی موجود ہے۔ اپنے اس دعویٰ کے اثبات میں اس نے ایک کتاب موسوم بہ “مسیح ہندوستان میں” لکھی۔ نیز اپنی کتاب “کشتی نوح“ میں لکھتا ہے:
“مسیح فوت ہوچکا اور سری نگر محلہ خانیار میں اس کی قبر ہے۔” (ص 103)
اوراس قبر کی تائید میں اس نے ایک یہودی عالم کی تائید نقل کی ہے اور “شہد شاہد من بنی اسرائیل- ایک اسرائیلی عالمِ توریت کی شہادت دربارئہ قبر مسیح “کے عنوان کے تحت وہ تائیدی عبارت حسب ذیل ہے:
“میں شہادت دیتا ہوں کہ میں نے دیکھا ایک نقشہ پاس مرزا غلام احمد صاحب قادیانی اور تحقیق وہ صحیح ہے قبر بنی اسرائیل کی قبروں میں سے، اور وہ ہے بنی اسرائیل کے اکابر کی قبروں میں سے اور میں نے دیکھا یہ نقشہ آج کے دن جب لکھی میں نے یہ شہادت ماہ انگریزی جون 12، 1899 ئ۔ سلمان یوسف یسحاق تاجر۔” (ص 103)
قارئین گرامی غور فرمائیں دعویٰ سیدنا مسیح علیہ السلام کی قبر کا ہے اور دلیل بنی اسرائیل کے اکابر کی ایک قبر سے دی جارہی ہے۔ مرزا صاحب کے اس دعویٰ کی تردید میں مولانا عبد الحلیم شرر اور مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی نے قلمی کاوش کی ہے، جس سے مرزا صاحب کاابطال ہوجاتا ہے۔
ہم یہاں یہ بتانا چاہتے ہیں کہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کا اپنی امت کو چھوڑ کر کشمیر کی وادیوں میں چلے جانا خود ان کے منصبِ نبوت کے بھی خلاف ہے، بقول خود:
و قال اﷲ تعالیٰ فی القرآن: ( وَ رَسُوْلاً اِلٰی بَنِیْ اِسْرَآئِ یْلَ ) (آل عمران : 49)
اب ذرا مرزا صاحب کی دریافت کردہ قبر کی حقیقت بھی سنتے چلیے۔ جناب بشیر احمد صاحب اپنی کتاب “بہائیت اسرائیل کی خفیہ سیاسی تنظیم“ میں لکھتے ہیں:
“کشمیر کا مولوی عبد اﷲ وکیل جس کا ذکر مرزا صاحب کی کتاب رازِ حقیقت میں موجود ہے اور جس نے کشمیر میں قبر مسیح کے مفروضے کو تقویت دینے کے لیے شواہد اکٹھے کیے بہائی مبلغ بن گیا۔ مرزا قادیانی نے جب دعویٰ کیاکہ اس کو خدا نے وحی کی ہے کہ خانیار سری نگر میں حضرت عیسیٰ کی قبر موجود ہے تو اس کے جواب میں عبد اﷲ وکیل نے ایک کتابچہ شائع کرایا جس میں کہا گیا تھا کہ یہ صریح جھوٹ ہے اس جعلی نظریے کا خالق ہی وہ اور خلیفہ نوردین جمونی تھے۔” (بہائیت اسرائیل کی خفیہ سیاسی تنظیم: 224، مطبوعہ اسلامک اسٹڈی فورم راولپنڈی)
نتیجہ دلائل:
سیدنا عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کے نزول سے متعلقہ دلائل سے عیاں ہوتا ہے کہ ان کا نزول بہ ساعتِ موعودہ حق ہے اور اس کا انکار محض وادی جہل و ضلالت میں سرگرداں ہونے کے مترادف ہے۔ انسانی ایمان کی خوبی یہ نہیں ہے کہ جو امور اس کی مزعومہ فکر وفہم کے مطابق ہو اسے قبول کرلے اور جو امور اس کے نزدیک خلاف فطرت وامر مستبعاد ہو اس کا انکار کردے۔ بلکہ کمال ایمان تو یہ ہے کہ ہر وہ امر جو “نصوص صریحہ” سے ثابت ہو اسے تسلیم کرلے، خواہ اس کی عقل تائید کرے یا نہ کرے کیونکہ ایمان تسلیم و تصدیق کا نام ہے آزمائش و پیمائش کا نہیں۔
ایک ذاتی تاثر
قرآن پاک کی تفسیر وتفہیم محض زورِ علمی سے ممکن نہیں، اس کے لیے کسی صاحبِ ذوق کا ہونابہت ضروری ہے جس کا دل رب تعالیٰ کی خشیت سے لرزاں وترساں ہواور جس کی زندگی تقویٰ شعاری سے مزین ہو، گناہگار قلوب اس کے قطعا مستحق نہیں ہوسکتے کہ وہ کلام الٰہی کی تفسیر میں اپنے زورِ فکر وفہم کو لگائیں۔ مجھے اپنے عجز کا مکمل اعتراف ہے، میری حیثیت تو اس قدر بھی نہیں کہ صاحبان زہد وتقویٰ کا خدمت گزار ہی بن سکوں۔ بایں ہمہ اس اعتراف ذاتی کے بعد ( اِنَّ مَثَلَ عِیْسیٰ عِنْدَ اﷲِ کَمَثَلِ اٰدَمَ ) سے متعلق اپنے ایک ذاتی تأثر کو نقل کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ ﷲ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو جنت میں رہائش دی پھر انہیں دنیا میں اتارا اس طرح انہوں نے “توفی بالموت” سے قبل دو عالم دیکھے۔ یہی معاملہ حضرت عیسیٰ کا ہے ان کی ولادت دنیا میں ہوئی پھر ان کا رفع الی السماء ہوا اب ان کا دوبارہ نزول ہوگا تاکہ ( کل نفس ذائقة الموت ) کا الٰہی حکم ان پر وارد ہو۔ اس طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے بھی “توفی بالموت” سے قبل دو عالم ملاحظہ فرمائے۔ یہ بھی کیا دلچسپ اتفاق ہے کہ سیدنا آدم “آغازِ تخلیق دنیا“ کا سر عنوان ہیں اور سیدنا مسیح علیہ السلام “خاتمہ تخلیق دنیا” کی ایک علامت۔
ھذا ماعندی والعلم عند اﷲ۔

Nazool ka matlab kya hay yay samajhnay kay lyay haemin Quran-e-Majid mein lafzay Nazool ka zikar dekhna paray ga kay kaisay hua hay
وَظَلَّلْنَا عَلَیۡکُمُ الْغَمَامَ وَاَنۡزَلْنَا عَلَیۡکُمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوٰی- سورہ البقرہ، آیت 58
ترجمہ کنزالایمان- اور ہم نے ابر کو تمہارا سائبان کیا اور تم پرمنْ اور َسلْویٰاتارا کھاؤ ہماری دی ہوئی ستھری چیزیں
فَبَدَّلَ الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا قَوْلًا غَیۡرَ الَّذِیۡ قِیۡلَ لَہُمْ فَاَنۡزَلْنَا عَلَی الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا رِجْزًا مِّنَ السَّمَآءِ بِمَا کَانُوۡا یَفْسُقُوۡنَ﴿سورہ البقرہ، آیت59

ترجمہ کنزالایمان- تو ظالموں نے اور بات بدل دی جو فرمائی گئی تھی اس کے سوا تو ہم نے آسمان سے ان پر عذاب اتارا بدلہ ان کی بے حُکمی کا
وَلَقَدْ اَنۡزَلْنَاۤ اِلَیۡکَ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰتٍ ۚ وَمَا یَکْفُرُ بِہَاۤ اِلَّا الْفٰسِقُوۡنَ﴿ سورہ البقرہ ، آیت 99
ترجمہ کنزالایمان- اور بیشک ہم نے تمہاری طرف روشن آیتیں اتاریں اور ان کے منکر نہ ہوں گے مگر فاسق لوگ
اِنَّ الَّذِیۡنَ یَکْتُمُوۡنَ مَاۤ اَنۡزَلْنَا مِنَ الْبَیِّنٰتِ وَالْہُدٰی مِنۡۢ بَعْدِ مَا بَیَّنّٰہُ لِلنَّاسِ فِی الْکِتٰبِۙ اُولٰٓئِکَ یَلۡعَنُہُمُ اللہُ وَیَلْعَنُہُمُ اللّٰعِنُوۡنَ﴿ سورہ البقرہ ، آیت 159
ترجمہ کنزالایمان- بیشک وہ جو ہماری اتاری ہوئی روشن باتوں اور ہدایت کو چھپاتے ہیں بعد اس کے کہ لوگوں کے لئے ہم اسے کتاب میں واضح فرماچکے ہیں ان پر اللّٰہ کی لعنت ہے اور لعنت کرنے والوں کی لعنت
اِنَّاۤ اَنۡزَلْنَاۤ اِلَیۡکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ لِتَحْکُمَ بَیۡنَ النَّاسِ بِمَاۤ اَرٰىکَ اللہُ ؕ وَلَا تَکُنۡ لِّلْخَآئِنِیۡنَ خَصِیۡمًا ﴿ سورہ النساء ، آیت 105
ترجمہ کنزالایمان- اے محبوب بے شک ہم نے تمہاری طرف سچی کتاب اتاریکہ تم لوگوں میں فیصلہ کرو جس طرح تمہیں اللّٰہ دکھائے اور دغا والوں کی طرف سے نہ جھگڑو
پس ان تمام آیتوں سے معلوم ہوا کہ نزول کی معنی آسمان سے اتارنا ہی ہے
(قادیانی مرتد پر خدائی خنجر)
(مسئلہ حیاتِ عیسٰی علیہ السلام )
مرزا قادیانی صدہا درجہ سے منکر ضروریاتِ دین تھا اور اس کے پس ماندے حیات و وفاتِ سیدنا عیسٰی رسول اﷲ علی نبیّنا الکریم وعلیہ صلوات اﷲ وتسلیمات اﷲ کی بحث چھیڑتے ہیں، جو ایک فرعی مسئلہ خود مسلمانوں میں ایک نوع کا اختلافی مسئلہ ہے جس کا اقرار یا انکار کفر تو درکنار ضلال بھی نہیں (فائدہ نمبر ۴میں آئے گا کہ نزول حضرت عیسٰی علیہ السلام اہلسنّت کا اجماعی عقیدہ ہے) نہ ہرگز وفاتِ مسیح ان مرتدین کو مفید، فرض کر دم کہ رب عزوجل نے ان کو اس وقت وفات ہی دی، پھر اس سے انکا نزول کیونکر ممتنع ہوگیا؟ انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کی موت محض ایک آن کو تصدیق وعدہ الہٰیہ کے لئے ہوتی ہے، پھر وہ ویسے ہی حیاتِ حقیقی دنیاوی و جسمانی سے زندہ ہوتے ہیں جیسے اس سے پہلے تھے، زندہ کا دوبارہ تشریف لانا کیا دشوار؟ رسول اﷲ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں:اَلْاَ نْبِیاءُ اَحْیاء فِیْ قُبُوْرِھِمْ یصلُّوْنَ۱؎ترجمہ : انبیاء زندہ ہیں اپنی قبروں میں، نماز پڑھتے ہیں۔
(۱ ؎ مسند ابو یعلٰی مروی از انس رضی اﷲ تعالٰی عنہ حدیث ۳۴۱۲، موسسہ علوم القرآن بیروت۳/ ۳۷۹)
(۲) معاذاﷲ کوئی گمراہ بددین یہی مانے کہ ان کی وفات اوروں کی طرح ہے جب بھی ان کا دوبارہ تشریف لانا کیوں محال ہوگیا؟ وعدہوَحَرَام عَلٰی قَرْیۃ اَھْلَکْنٰھَا اَنَّھُمْ لَا یرجِعُوْنَ ۲؂۔(اور حرام ہے اس بستی پر جسے ہم نے ہلاک کردیا کہ پھر لوٹ کر آئیں۔ت)
(۲؂القرآن الکریم ۲۱/ ۹۵)
ایک شہر کے لئے ہے، بعض افراد کا بعد موت دنیا میں پھر آنا خود قرآن کریم سے ثابت ہے جیسے سیدنا عزیر علیہ الصلوٰۃ والسلام ۔قال اﷲ تعالٰی:فَاَ مَاتَہُ اﷲ مِائَۃَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَہ ط ۳؂ (تو اﷲ نے اسے مردہ رکھا سو برس، پھر زندہ کردیا۔ت)
(۳؂القرآن الکریم۲/ ۲۵۹)
چاروں طائرانِ خلیل علیہ الصلوٰۃ والسلام، قال اﷲ تعالٰی:ثُمَّ اجْعَلْ عَلٰی کُلِّ جَبَلٍ مِنْھُنَّ جُزْءً ا ثُمَّ ادْعُھُنَّ یاتِینکَ سَعْیا۴؂(پھر ان کا ایک ایک ٹکڑا ہر پہاڑ پر رکھ دے، پھر انہیں بلا، وہ تیرے پاس چلے آئیں گے دوڑتے ہوئے۔ت)
(۴؂القرآن الکریم ۲/ ۲۶۰)
ہاں مشرکین ملاعنہ منکرین بعث اسے محال جانتے ہیں اور دربارہ مسیح علیہ الصلوٰۃ والسلام قادیانی بھی اس قادر مطلق عزّ جلالہ کو معاذ اﷲ صراحۃً عاجز مانتا اور دافع البلاء کے صفحہ ۳۴ پر یوں کفر بکتا ہے: خدا ایسے شخص کو پھر دنیا میں نہیں لا سکتا جس کے پہلے فتنے ہی نے دنیا کو تباہ کردیا ہے۵؂۔
(۵؂دافع البلاء مطبوعہ ربوہ ص ۳۴)
مشرک و قادیانی دونوں کے رد میں اﷲ عزوجل فرماتا ہے:اَفَعَیینَا بِا لْخَلْقِ الْاَوَّلِ بَلْ ھُمْ فیِ لَبِسٍ مِّنْ خَلْقٍ جَدِید۱؂۔ (تو کیا ہم پہلی بار بنا کر تھک گئے بلکہ وہ نئے بننے سے شُبہ میں ہیں۔ت)
(۱؂القرآن الکریم ۵۰/ ۱۵)
جب صادق و مصدوق صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ان کے نزول کی خبر دی اور وہ اپنی حقیقت پر ممکن و داخل زیر قدر ت و جائز، تو انکار نہ کرے گا مگر گمراہ۔
(۳) اگر وہ حکم افراد کو بھی عام مانا جائے تو موت بعدِ استیفائے اجل کے لئے ہے، اس سے پہلے اگر کسی وجہ خاص سے اماتت ہو تو مانع اعادت نہیں بلکہ استیفائے اجل کے لئے ضرور اور ہزاروں کے لئے ثابت ہے، قال اﷲ تعالٰی:اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِین خَرَجُوْا مِنْ دِیارِھِمْ وَھُمْ اُلُوف حَذَرَ الْمَوْتِ فَقَالَ لَھُمُ اﷲ مُوْتُوْا ثُمَّ اَحْیاھُمْ۲؂
(۲؂القرآن الکریم ۲/ ۲۴۳)
(اے محبوب ! کیا تم نے نہ دیکھا انہیں جو اپنے گھروں سے نکلے اور وہ ہزاروں تھے موت کے ڈر سے، تو اﷲ نے ان سے فرمایا مرجاؤ، پھر انہیں زندہ فرمادیا۔ت)
قتادہ نے کہا:اَمَا تَھُمْ عُقُوْبَۃً ثُمَّ بُعِثُوْا لِیتوَفَّوْا مُدَّۃَ اٰجَا لِھِمْ وَلَوْ جَآءَ تْ اٰجَا لُھُمْ مَا بُعِثُوْا۔(معناً) ۳؎ (اﷲ تعالٰی نے ان کو سزا کے طور پر موت دی پھر زندہ کر دئیے گئے تاکہ اپنی مقررہ عمر کو پورا کریں، اگر ان کی مقررہ عمر پوری ہوجاتی تو دوبارہ نہ اٹھائے جاتے۔ت)
(۳؎جامع البیان (تفسیر ابن جریر طبری) القول فی تاویل قولہ تعالٰی الم تر الی الذین الآیۃ المطبعۃ المیمنہ مصر۲/ ۳۴۷)
(۴) اس وقت حیات و وفاتِ حضرت مسیح علیہ الصلوٰۃ والسلام کا مسئلہ قدیم سے مختلف چلا آتا ہے مگر آخر زمانے میں ان کے تشریف لانے اور دجّال لعین کو قتل فرمانے میں کسی کو کلام نہیں، یہ بلا شبہ اہلسنّت کا اجماعی عقیدہ ہے تو وفات مسیح نے قادیانی کو کیا فائدہ دیا اور مغل بچہ، عیسٰی رسول اﷲ بے باپ سے پیدا ابن مریم کیونکر ہوسکا؟ قادیانی اس اختلاف کو پیش کرتے ہیں، کہیں اس کا بھی ثبوت رکھتے ہیں کہ اس پنجابی کے ابتداع فی الدین سے پہلے مسلمانوں کا یہ اعتقاد تھا کہ عیسٰی آپ تو نہ اتریں گے کوئی ان کا مثیل پیدا ہوگا، اسے نزول عیسٰی فرمایا گیا اور اس کو ابن مریم کہا گیا؟ اور جب یہ عام مسلمانوں کے عقیدے کے خلاف ہے تو آیہ: یتبِعْ غَیر سَبِیلالْمُؤْمِنِین نُوَلِّہٖ مَا تَوَلّی وَنُصْلِہٖ جَھَنَّمَ وَسَآءَ تْ مَصِیْرًا۴؂
(۴؂القرآن الکریم ۴/ ۱۱۵)
(مسلمانوں کی راہ سے جدا راہ چلے ہم اسے اس کے حال پر چھوڑ دیں گے اور اسے دوزخ میں داخل کرینگے اور کیا ہی بُری جگہ پلٹنے کی۔ت) کا حکم صاف ہے۔
(۵) مسیح سے مثیل مسیح مراد لینا تحریف نصوص ہے کہ عادتِ یہود ہے، بے دینی کی بڑی ڈھال یہی ہے کہ نصوص کے معنی بدل دیںیحرِّفُوْنَ الْکَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِہٖ۱؂
(۱؂القرآن الکریم ۵/ ۱۳)
(اﷲ کی باتوں کو ان کے ٹھکانوں سے بدل دیتے ہیں۔ت) ایسی تاویل گھڑنی نصوصِ شریعت سے استہزاء اور احکام وارشادات کو درہم برہم کر دینا ہے، جس جگہ جس شئی کا ذکر آیا، کہہ سکتے ہیں وہ شیئ خود مراد نہیں اس کا مثیل مقصود ہے، کیا یہ اس کی نظیر نہیں جو اباحیہ مُلا عِنہ کہا کرتے ہیں کہ نماز و روزہ فرض ہے نہ شراب و زنا حرام بلکہ وہ کچھ اچھے لوگوں کے نام ہیں جن سے محبت کا ہمیں حکم دیا گیا اور یہ کچھ بدوں کے جن سے عداوت کا ۔
(۶)بفرضِ باطل اینہم برعَلَم پھر اس سے قادیان کا مرتد، رسول اﷲ کا مثیل کیونکر بن بیٹھا؟ کیا اس کے کفر، اس کے کذب، اس کی وقاحتیں، اس کی فضیحتیں، اس کی خباثتیں، اس کی ناپاکیاں، اس کی بیباکیاں کہ عالم آشکار ہیں، چھپ سکیں گی؟ اور جہان میں کوئی عقل و دین والا ابلیس کو جبریل کا مثیل مان لے گا؟ اس کے خرو ارِہزار ہا کفریات سے مُشتے نمونہ، رسائل السوء والعقاب علی المسیح الکذاب وقہر الدیان علٰی مرتدٍ بقادیان و نور الفرقان و باب العقائد والکلام وغیرہا میں ملا حظہ ہوں کہ یہ نبیوں کی علانیہ تکذیب کرنے والا، یہ رسولوں کو فحش گالیاں دینے والا، یہ قرآن مجید کو طرح طرح رد کرنے والا، مسلمان بھی ہونا محال، نہ کہ رسول اﷲ کی مثال، قادیانیوں کی چالاکی کہ اپنے مسیلمہ کے نامسلم ہونے سے یوں گریز کرتے اور اس کے ان صریح ملعون کفروں کی بحث چھوڑ کر حیات و وفات مسیح کا مسئلہ چھیڑتے ہیں۔
(۷) مسیح رسول اﷲ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مشہور اوصافِ جلیلہ اور وہ کہ قرآن عظیم نے بیان کئے، یہ تھے کہ اﷲ عزّوجل نے ان کو بے باپ کے کنواری بتول کے پیٹ سے پیدا کیا نشانی سارے جہان کے لئے: قَالَتْ اَنّٰی یکوْنُ لِیْ غُلٰم وَّلَمْ یمسَسنِی بَشَر وَّلَمْ اَکُ بَغِیاo قَالَ کَذٰلِکِ ط قَالَ رَبُّکِ ھُوَ عَلَیَّ ھَین ط وَّ لِنَجْعَلَہ اٰیۃ لِّلنَّا سِ وَرَحْمَۃً مِّنَّا وَکَانَ اَمْرَاً مَّقْضِیا۔۲؂
(۲؂القرآن الکریم ۱۹/ ۲۰و۲۱)
بولی میرے لڑکا کہاں سے ہوگا، مجھے تو کسی آدمی نے ہاتھ نہ لگایا، نہ میں بدکار ہوں، کہا یونہی ہے، تیرے رب نے فرمایا ہے کہ یہ مجھے آسان ہے اور اس لئے کہ ہم اسے لوگوں کے واسطے نشانی کریں اور اپنی طرف سے ایک رحمت اور یہ امر ٹھہر چکا ہے۔(ت)
انہوں نے پیدا ہوتے ہی کلام فرمایا:فَنَا دٰھا مِنْ تَحْتِہَا اَلاَّ تحْزَنِیْ قَدْ جَعَلَ رَبُّکِ تَحْتَکِ سَرِیًّا۱؂، الآیۃ۔(۱؂القرآن الکریم ۱۹/ ۲۴)
تو اس کے نیچے والے نے اسے آواز دی کہ تو غم نہ کر، تیرے رب نے تیرے نیچے نہر بہادی ہے۔علی قراء ۃ من تحتہا بالفتح فیہما وتفسیرہ بالمسیح علیہ الصلوٰۃ والسلام (معناً)۲؎اس قرأ ت پر جس میں مَنْ کی میم مفتوح اور تَحْتَہَا کی دوسری تاء مفتوح ہے اور اس کی تفسیر حضرت عیسٰی علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کی گئی ہے۔
(۲ ؎ جامع البیان (تفسیر ابن جریر طبری) القول فی تاویل قولہ تعالٰی فنادٰہا من تحتہا الخ مطبعہ میمنہ مصر۱۶/ ۴۵)
انہوں نے گہوارے میں لوگوں کو ہدایت فرمائی۔یکلم الناس فی المھد وکہلا۳؂
(۳؂القرآن الکریم ۳/ ۴۶)
لوگوں سے باتیں کرے گا پالنے میں اور پکی عمر میں۔(ت)
انہیں ماں کے پیٹ یا گود میں کتاب عطا ہوئی، نبوت دی گئی،قال انی عبداﷲ اٰتٰنی الکتٰب وجعلنی نبیا۴؂ (۴؂القرآن الکریم ۱۹/ ۳۰)
بچہ نے فرمایا میں ہوں اﷲ کا بندہ، اس نے مجھے کتاب دی اور مجھے غیب کی خبریں بتانے والا (نبی) کیا۔
وہ جہاں تشریف لے جائیں برکتیں ان کے قدم کے ساتھ رکھی گئیں۔ وجعلنی مبٰرکًا اینما کنت۵؂
اس نے مجھے مبارک کیا میں کہیں ہوں۔(ت) برخلاف کفرِطاغیہ قادیان کہ کہتا ہے جس کے پہلے فتنے ہی نے دنیا کو تباہ کردیا۔
(۵؂القرآن الکریم ۱۹/ ۳۱)
انہیں اپنے غیبوں پر مسلّط کیا،عٰلم الغیب فلا یظھر علٰی غیبہ احداo الاّ من ارتضٰی من رسولٍ ۶؂۔
(۶؂القرآن الکریم ۷۲/ ۲۶،۲۷)
غیب کا جاننے والا تو اپنے غیب پر کسی کو مسلّط نہیں کرتا سوائے اپنے پسندیدہ رسولوں کے۔(ت)
جس کا ایک نمونہ یہ تھا کہ لوگ جو کچھ کھاتے اگرچہ سات کوٹھڑیوں میں چُھپ کر،اور جو کچھ گھروں میں ذخیرہ رکھتے اگرچہ سات تہ خانوں کے اندر، وہ سب ان پر آئینہ تھا۔وانبئکم بما تا کلون وما تدخرون فی بیوتکم۱؂اور تمہیں بتاتا ہوں جو تم کھاتے ہو اور جو اپنے گھروں میں جمع کر رکھتے ہو۔(ت)
(۱؂القرآن الکریم ۳/ ۴۹)
 

ڈاکٹرفیض احمدچشتی

رکن ختم نبوت فورم
انہیں تورات مقدس کے بعض احکام کا ناسخ کیا،ومصدقالما بین یدی من التورٰۃ ولاُحل لکم بعض الذی حُرِّم علیکم۲؂اور تصدیق کرتا آیا ہوں اپنے سے پہلی کتاب تورات کی اور اس لئے کہ حلال کروں تمہارے لئے کچھ وہ چیزیں جو تم پر حرام تھیں۔(ت)
(۲؂القرآن الکریم ۳/ ۵۰)
انہیں قدرت دی کہ مادر زاد اندھے اور لا علاج برص کو شفا دیتے،وتبرئ الاکمہ والابرص باذنی۳؂اور تو مادر زاد اندھے اور سفید داغ والے کو میرے حکم سے شفا دیتا۔(ت)
(۳؂القرآن الکریم ۵/ ۱۱۰)
انہیں قدرت دی کہ مردے زندہ کرتے،واذ تخرج الموتٰی باذنی۴؂ واُحی الموتٰی باذن اﷲ۵؂اور جب تو مردوں کو میرے حکم سے زندہ نکالتا۔اور میں مردے جِلاتا ہوں اﷲ کے حکم سے۔(ت)
(۴؂القرآن الکریم ۵/ ۱۱۰) (۵؂القرآن الکریم ۳/ ۴۹)
ان پر اپنے وصفِ خالقیت کا پر تو ڈالا کہ مٹی سے پرند کی صورت خلق فرماتے اور اپنی پھونک سے اس میں جان ڈالتے کہ اُڑتا چلا جاتا،واذ تخلق من الطین کھیئۃ الطیر باذنی فتنفخ فیہا فتکون طیراً باذنی۶؂اور جب تو مٹی سے پرند کی سی مورت میرے حکم سے بناتا پھراس میں پھونک مارتا تو وہ میرے حکم سے اڑنے لگتا۔(ت)
(۶؂القرآن الکریم ۵/ ۱۱۰)
ظاہر ہے کہ قادیانی میں ان میں سے کچھ نہ تھا پھر وہ کیونکر مثیل مسیح ہوگیا؟
اخیر کی چار یعنی مادر زاد اندھے اور ابرص کو شفاء دینا، مردے جِلانا، مٹی کی مورت میں پھونک سے جان ڈال دینا، یہ قادیانی کے دل میں بھی کھٹکے کہ اگر کوئی پوچھ بیٹھا کہ تو مثیل مسیح بنتا ہے ان میں سے کچھ کر دکھا اور وہ اپنا حال خوب جانتا تھا کہ سخت جھوٹا ملوم ہے اور الٰہی برکات سے پورا محروم، لہٰذا اس کی یوں پیش بندی کی کہ قرآن عظیم کو پسِ پشت پھینک کر رسول اﷲ کے روشن معجزوں کو پاؤں تلے مل کر صاف کہہ دیا کہ معجزے نہ تھے مسمریزم کے شعبدے تھے، میں ایسی باتیں مکروہ نہ جانتا تو کر دکھاتا، وہی ملاعنہ مشرکین کا طریقہ اپنے عجز پریوں پردہ ڈالنا کہلو نشاء لقلنا مثل ھذا۱؂اگر ہم چاہتے تو ایسا کلام کہتے۔
(۱؂القرآن الکریم ۸/ ۳۱)
ہم چاہتے تو اس قرآن کا مثل تصنیف کر دیتے، ہم خود ہی ایسا نہیں کرتے، الا لعنۃ اﷲ علی الکٰفرین۔
قادیانی خَذَ لَہُ اﷲ کے ازالہ اوہام ص ۳،۴،۵ و نوٹ آخر میں ۱۵۱ تا آخر صفحہ ۱۶۲ ملا حظہ ہوں جہاں اس نے پیٹ بھر کر یہ کفر بکے ہیں یا ان کی تلخیص رسالہ قہر الدیان ص ۱۰ تا ۱۵ مطالعہ ہوں، یہاں دو چار صرف بطور نمونہ منقول:
ملعون ازالہ ص ۳: احیاءِ جسمانی کچھ چیز نہیں۔
ملعون ازالہ ص ۴: کیا تالاب کا قصّہ مسیحی معجزات کی رونق دور نہیں کرتا۔
ملعون ازالہ ص ۱۵۱ عہ) شعبدہ بازی اور دراصل بے سود، عوام کو فریفتہ کرنے والے مسیح اپنے باپ یوسف کے ساتھ بائیس برس تک نجاری کرتے رہے، بڑھئی کا کام درحقیقت ایسا ہے جس میں کلوں کے ایجاد میں عقل تیز ہوجاتی ہے، بعض چڑیاں کل کے ذریعہ سے پرواز کرتی ہیں، بمبئی کلکتہ میں ایسے کھلونے بہت بنتے ہیں، یہ بھی قرین قیاس ہے کہ ایسے اعجاز مسمریزمی بطور لہو و لعب نہ بطور حقیقت ظہور میں آسکیں، سلبِ امراض مسمریزم کی شاخ ہے ایسے لوگ ہوتے رہے ہیں جو اس سے سلبِ امراض کرتے ہیں، مبروص ان کی توجہ سے اچھے ہوتے ہیں، مسیح مسمریزم میں کمال رکھتے تھے،یہ قدر کے لائق نہیں، یہ عاجز اس کو مکروہ قابل نفرت نہ سمجھتا تو ان عجوبہ نمائیوں میں ابن مریم سے کم نہ رہتا، اس عمل کا ایک نہایت بُرا خاصہ ہے جو اپنے تئیں اس میں ڈالے روحانی تاثیروں میں بہت ضعیف اورنکّما ہوجاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ مسیح جسمانی بیماریوں کو اس عمل (مسمریزم) سے اچھا کرتے، مگر ہدایت توحید اور دینی استقامتوں کے دلوں میں قائم کرنے میں ان کا نمبر ایسا کم رہا کہ قریب قریب ناکام رہے، ان پرندوں میں صرف جھوٹی حیات، جھوٹی جھلک نمودار ہوجاتی تھی، مسیح کے معجزات اس تالاب کی وجہ سے بے رونق بے قدر تھے جو مسیح کی ولادت سے پہلے مظہرِ عجائبات تھا، بہرحال یہ معجزہ صرف ایک کھیل تھا جیسے سامری کا گوسالہ۔
عہ: ازالہ اوہام، مطبع ریاض الہند ص ۱۲۱۔۱۱۳
مسلمانو! دیکھا، ان ملعون کلمات میں وہ کون سی گالی ہے جو رسول اﷲ کو نہ دی اور وہ کونسی تکذیب ہے جو آیاتِ قرآن کی نہ کی، اتنے ہی جملوں میں تینتیس(۳۳) کفر ہیں۔
بہرحال یہ تو ثابت ہوا کہ یہ مرتد مثیل مسیح نہیں،مسلمانوں کے نزدیک یوں کہ وہ نبی مرسل اولواالعزم صاحب معجزات وآیات بینات، اور یہ مردود و مطرود و مرتد وموردِ آفات، اور خود اس کے نزدیک یوں کہ معاذاﷲ وہ شعبدہ باز بھانمتی مسمریزمی تھے، روحانی تاثیروں میں ضعیف نکمّے اوریہ ڈال کا ٹوٹا مقدس مہذب برگزیدہ ہادی، الا لعنۃ اﷲ علی الظّٰلمین خبردار! ظالموں پر خدا کی لعنت۔(ت)
ہاں ایک صورت ہے، اس نے اپنے زعمِ ملعون میں مسیح کے یہ اوصاف گنے، دافع البلاء ص ۴: مسیح کی راستبازی اپنے زمانے میں دوسروں سے بڑھ کر ثابت نہیں ہوتی بلکہ یحیٰی کو اس پر ایک فضیلت ہے کیونکہ وہ (یحیٰی) شراب نہ پیتا تھا، کبھی نہ سنا کہ کسی فاحشہ نے اپنی کمائی کے مال سے اس کے سر پر عطر ملا یا ہاتھوں اور اپنے سر کے بالوں سے اس کے بدن کو چھوا یا کوئی بے تعلق جوان عورت اس کی خدمت کرتی، اسی وجہ سے خدا نے یحیٰی کا نام حصور رکھا مسیح نہ رکھا کہ ایسے قصے اس نام کے رکھنے سے مانع تھے۔۱؎
(۱ ؎ دافع البلاء مطبع ضیاء الاسلام،قادیان ص ۶۔۵)
ضمیمہ انجام آتھم ص ۷ : آپ (یعنی عیسٰی) کا کنجریوں سے میلان اور صحبت بھی شاید اسی وجہ سے ہو کہ جدی مناسبت درمیان ہے (یعنی عیسٰی بھی ایسوں ہی کی اولاد تھے) ورنہ کوئی پرہیزگار ایک جوان کنجری کو یہ موقع نہیں دے سکتا کہ وہ اس کے سر پر اپنے ناپاک ہاتھ لگائے، زنا کاری کی کمائی کا پلید عطر اس کے سر پر ملے، اپنے بال اس کے پیروں پر ملے، سمجھنے والے سمجھ لیں کہ ایسا انسان کس چلن کا آدمی ہوسکتا ہے۔
ص۶:حق یہ ہے کہ آپ سے کوئی معجزہ نہ ہوا۔
ص۷: آپ کے ہاتھ میں سوا مکروفریب کے کچھ نہ تھا، آپ کا خاندان بھی نہایت ناپاک ہے، تین دادیاں اور نانیاں آپ کی زنا کار اور کسبی عورتیں تھیں جن کے خون سے آپ کا وجود ہوا۔ یہ پچاس کفر ہوئے۔
نیز اسی رسالہ ملعونہ میں ص ۴ سے ۸ تک بحیلہ باطلہ مناظرہ خود ہی جلے دل کے پھپھولے پھوڑے، اﷲ عزوجل کے سچے رسو ل مسیح عیسٰی بن مریم کو نادان، شریر، مکار، بدعقل، زنا نے خیال والا، فحش گو، بدزبان، کٹیل، جھوٹا،چور، علمی عملی قوت میں بہت کچاّ، خلل دماغ والا، گندی گالیاں دینے والا، بدقسمت، نرافریبی، پیروِشیطان وغیرہ وغیرہ خطاب اس قادیانی دجّال نے دئیے اور اس کے تین کفر اوپر گزرے کہ اﷲ مسیح کو دوبارہ نہیں لا سکتا، مسیح فتنہ تھا، مسیح کے فتنے نے تباہ کردیا۔ یہ سب ستر کفر ہوئے اور ہزاروں ستر کی گنتی کیا، غرض تیس سے اوپر اوصاف اس دجّال مرتد نے اپنے مزعوم مسیح میں بتائے، اگر قادیانی خود اپنے لئے ان میں سے دس وصف بھی قبول کرلے کہ یہ شخص یعنی یہی قادیانی بدچلن، بدمعاش، فریبی، مکّار، زنانے خیال والا، کٹیل بھی جھوٹا، چور، گندی گالیوں والا، ابلیس کا چیلہ، کنجریوں کی اولاد، کسبیوں کا جنا ہے، زنا کے خون سے بنا ہے، تو ہم بھی اس کی مان لیں گے کہ یہ ضرور مثیل مسیح ہے مگر کون سے مسیح کا؟ اسی مسیح قبیح کا جو اس کا موہوم و مزعوم ہے، الالعنۃ اﷲ علی الظّٰلمین۔
مسلمانو! یہ سات فائدے محفوظ رکھئے، کیسا آفتاب سے زیادہ روشن ہوا کہ قادیانیوں کا مسئلہ وفات وحیاتِ مسیح چھیڑنا کیسا ابلیسی مکر، کیسی عبث بحث، کیسی تضییع وقت، کیسا قادیانی کے صریح کفروں کی بحث سے جان چھڑانا اور فضول زق زق میں وقت گنوانا ہے!
اس کے بعد ہمیں حق تھا کہ ان ناپاک وبے اصل و پا،در ہوا شبہوں کی طرف التفات بھی نہ کرتے جو انہوں نے حیاتِ رسول علیہ الصلوٰۃ و السلام پر پیش کئے، ایسی مہمل عیاریوں کیادیوں کا بہتر جواب یہی تھا کہ ہشت۔ پہلے قادیانی کے کفر اٹھاؤ یا اسے کافر مان کر توبہ کرو، اسلام لاؤ، اس کے بعد یہ فرعی مسئلہ بھی پوچھ لینا مگر ہم ان مرتدین سے قطع نظر کر کے اپنے دوست سائل سُنّی المذہب سے جوابِ شبہات گزارش کرتے ہیں، وَبِاﷲِ التَّوْفِیق۔
پہلا شُبہ:
کریمہ والذین یدعون من دُون اﷲ ا لاٰیۃ۔
اقول اولاً : یہ شبہ مرتدانِ حال نے کافرانِ ماضی سے ترکہ میں پایا ہے، جب آیہ کریمہ:انکم وما تعبدون من دون اﷲ حصب جھنم انتم لھا واردون۱؂نازل ہوئی کہ بیشک تم اور جوکچھ تم اﷲ کے سوا پوجتے ہو سب دوزخ کے ایندھن ہو تمہیں اس میں جانا ہے۔ مشرکین نے کہا کہ ملائکہ اور عیسٰی اور عزیر بھی تو اﷲ کے سوا پوجے جاتے ہیں، اس پر رب عزوجل نے ان جھگڑالو کا فروں کو قرآن کریم کی مراد بتائی کہ آیت بتوں کے حق میں ہے۔
(۱؂القرآن الکریم ۲۱ / ۹۸)
اِنّ الذین سبقت لھم منّا الحسنٰی ط اولٰئک عنہا مُبعدونo لا یسمعون حسیسھا۱؂۔ (۱؂القرآن الکریم ۲۱/ ۱۰۱ و۱۰۲)
ترجمہ : بیشک وہ جن کے لئے ہمارا بھلائی کا وعدہ ہوچکا وہ جہنم سے دور رکھے گئے ہیں وہ اس کی بھنک تک نہ سنیں گے۔ قرآن کریم نے خود اپنا محاورہ بتایا جب بھی مرتدوں نے وہی راگ گایا۔ ابوداؤد کتاب الناسخ والمنسوخ میں اور فریابی عبد بن حمید وابن جریر وابن ابی حاتم طبرانی و ابن مردویہ اور حاکم مع تصحیح مستدرک میں حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ تعالٰی عنہما سے راوی:لمّا نزلت انکم وما تعبدون من دون اﷲ حصب جہنم انتم لہا واردون فقال المشرکون الملٰئکۃُ وعیسٰی وعزیر یعبَدون من دون اﷲ فنزلت ان الذین سبقت لھم منا الحسنٰی اولئک عنہا مُبعدون۲؎ جب یہ آیت نازل ہوئی ۔اِنَّکُمْ وَمَا تَعْبُدُوْنَ (الاٰیۃ) تو مشرکین نے کہا ملائکہ، حضرت عیسٰی اور حضرت عزیر کو بھی اﷲ تعالٰی کے سوا پوجا جاتا ہے تو یہ آیت نازل ہوئی ان الذین سبقت (الاٰیۃ) بیشک وہ جن کے لئے ہمارا وعدہ بھلائی کا ہوچکا وہ جہنم سے دور رکھے گئے ہیں۔
(۲ ؎ المستدرک کتاب التفسیر تفسیر سُورہ انبیاء دارالفکربیروت ۲/ ۳۸۵)
ثانیاً یدعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اﷲِ یقینا مشرکین ہیں اور قرآنِ عظیم نے اہل کتاب کو مشرکین سے جدا کیا، ان کے احکام ان سے جدا رکھے، ان کی عورتوں سے نکاح صحیح ہے مشرکہ سے باطل، اِن کا ذبیحہ حلال ہوجائے گا، اُن کا مردار، قال اﷲ تعالٰی:لم یکن الذین کفروا من اھل الکتٰب والمشرکین منفکّین حتٰی تاتیھم البینۃ۳؂ (۳؂القرآن الکریم ۹۸/ ۱)
(کتابی کافر اور مشرک اپنا دین چھوڑنے کو نہ تھے جب تک ان کے پاس دلیل نہ آئے۔ت)
وقال اﷲ تعالٰی:ان الذین کفروا من اھل الکتٰب والمشرکین فی نارجھنّم خٰلدین فیھا اولٰئک ھم شرّالبریۃ۴؂ (۴؂القرآن الکریم ۹۸/ ۶)
بیشک جتنے کافر ہیں کتابی اور مشرک سب جہنم کی آگ میں ہیں، ہمیشہ اس میں رہیں گے، وہی تمام مخلوق سے بدتر ہیں(ت)۔
وقال اﷲ تعالٰی: ما یودّ الذین کفروا من اھل الکتٰب ولا المشرکین ان ینزل علیکم من خیر من ربکم۱؂
(۱؂القرآن الکریم ۲/ ۱۰۵)
(وہ جو کافر ہیں کتابی یا مشرک، وہ نہیں چاہتے کہ تم پر کوئی بھلائی اترے تمہارے رب کے پاس سے۔ت)وقال اﷲ تعالٰی: لتجدن اشد الناس عداوۃ للذین اٰمنوا الیہود والذین اشرکوا ولتجدن اقربھم مودّۃ للذین اٰمنو الذین قالوا انا نصارٰی۲؂ (۲؂القرآن الکریم ۵/ ۸۲)
ضرور تم مسلمانوں کا سب سے بڑھ کر دشمن یہودیوں اور مشرکوں کو پاؤ گے اور ضرور تم مسلمانوں کی دوستی میں سب سے زیادہ قریب ان کو پاؤ گے جنہوں نے کہا کہ بیشک ہم نصارٰی ہیں ت۔
وقال اﷲ تعالٰی:الیوم احل لکم الطیبٰت وطعام الذین اوتواالکتٰب حل لکم وطعامکم حل لھم والمحصنٰت من المؤمنٰت والمحصنٰت من الذین اوتوا الکتٰب من قبلکم۳؂ (۳؂القرآن الکریم ۵/۵)
(آج تمہارے لئے پاک چیزیں حلال ہوئیں اور کتابیوں کا کھانا تمہارے لئے حلال ہے اور تمہارا کھانا ان کے لئے حلال ہے اور پارسا عورتیں مسلمان اور پارسا عورتیں ان میں سے جن کو تم سے پہلے کتاب ملی۔ت)ولا تنکحوا المشرکٰت حتی یؤمن۴؂ (۴؂القرآن الکریم ۲/ ۲۲۱)
(اور شرک والی عورتوں سے نکاح نہ کرو جب تک مسلمان نہ ہوجائیں۔ت)
جب قرآن عظیم “ید عُوْنَ مِنْ دُوْنِ اﷲِ” میں نصارٰی کو داخل نہیں فرماتا اس “اَلَّذِین” میں مسیح علیہ الصلوٰۃ والسلام کیونکر داخل ہوسکیں گے؟
ثالثاً سورت مکیہ ہے اور سوائے عاصم، قُراءِ سبعہ کی قرأت “تَدْعُوْنَ “بہ تائے خطاب،تو بُت پرست ہی مراد ہیں اور” اَلَّذِین یدعُونَ اَصْنَامٌ” (جنہیں وہ پوجتے ہیں وہ بُت ہیں۔ت)
رابعاً خود آیہ کریمہ طرح طرح دلیل ناطق کہ حضرات انبیاء علیہم الصلوٰۃ والثناء عموماً اور حضرت مسیح علیہ الصلوٰۃ والتسلیم خصوصاً مراد نہیں، جہاں فرمایااَمْوَات غَیر اَحْیاءٍ۱؂ (۱؂القرآن الکریم ۱۶/ ۲۱)
(مردے ہیں زندہ نہیں۔ت) اموات سے متبادریہ ہوتا ہے کہ پہلے زندہ تھے پھر موت لاحق ہوئی لہٰذا ارشاد ہوا “غَیر اَحْیاءٍ” یہ وہ مردے ہیں کہ نہ اب تک زندہ ہیں نہ کبھی تھے نرِے جماد ہیں، یہ بتوں ہی پر صادق ہے،
تفسیر ارشاد العقل السلیم میں ہے: حیث کان بعض الاموات ممّا یعتریہ الحیاۃ سابقا اولاحقا کاجساد الحیوان والنطف التی ینشئھا اﷲ تعالٰی حیوانا احترز عن ذٰلک فقیل غیر احیاءٍ ای لا یعتریھا الحٰیوۃ اصلا فھی اموات علی الاطلاق ۲؎ بعض اموات وہ تھے جنہیں زندگی حاصل تھی جیسے مردہ حیوان کا جسم، اور بعض وہ ہیں جنہیں زندگی ملنے والی ہے مثلاً نطفہ جسے اﷲ تعالٰی مستقبل میں حیوان بنائے گا اس لئے ایسے اموات سے احتراز کیا اور فرمایا غیر احیاء یعنی یہ وہ اموات ہیں جنہیں زندگانی (ماضی یا مستقبل میں) بالکل حاصل نہیں لہٰذا یہ علی الاطلاق اموات ہیں۔
(۲ ؎ ارشاد العقل السلیم (تفسیر ابی السعود) آیۃ ۱۶/ ۲۱ داراحیاء التراث العربی بیروت ۵/ ۱۰۶)
خامساً رب عزوجل فرماتا ہے:ولا تحسبن الذین قتلوا فی سبیل اﷲ امواتا ط بل احیاء عند ربھم یرزقونo فرحین بما اٰتٰھم اﷲ من فضلہ۳؂(۳؂القرآن الکریم ۳/ ۱۶۱)
خبردار! شہیدوں کو ہرگز مردہ نہ جا نیو بلکہ وہ اپنے رب کے یہاں زندہ ہیں، روزی پاتے ہیں، اﷲ نے جو اپنے فضل سے دیا اس پر خوش ہیں۔
اور فرماتا ہے:ولا تقولوا لمن یقتل فی سبیل اﷲ اموات ط بل احیاء ولکن لا تشعرون۴؂۔ (۴؂القرآن الکریم ۲/ ۱۵۶)
جو اﷲ کی راہ میں مارے جائیں انہیںمردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں تمہیں خبر نہیں۔
محال ہے کہ شہید کو تو مردہ کہنا حرام، مردہ سمجھنا حرام اور انبیاء معاذ اﷲ مردے کہے سمجھے جائیں، یقینا قطعاً ایماناً وہ “اَحْیاء غَیر اَمْوَاتٍ” (زندہ ہیں مردے نہیں۔ت) ہیں نہ کہ عیاذًا باﷲ “اموات غَیر اَحْیاءٍ” (مردے ہیں زندہ نہیں۔ت) جس وعدہ الٰہیہ کی تصدیق کے لئے ان کو عروضِ موت ایک آن کے لئے لازم ہے قطعاً شہداء کو بھی لازم ہے۔کلّ نفس ذائقۃ الموت۵؂ (۵؂ القرآن الکریم ۲۱/ ۳۵)
(ہر جان کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔ت)
پھر جب یہ” اَحْیاء غَیر اَمْوَاتٍ” ہیں وہ یقینا ان سے لاکھوں درجے زائد “اَحْیا ء غَیر امواتٍ” ہیں نہ کہ “اَمْوات غَیر اَحْیاءٍ”۔
سادساً آیہ کریمہ میں “وَھُمْ قَدْ خُلِقُوْا” بصیغہ ماضی نہیں بلکہوَھُمْ یخلَقُوْنَ۱؂(۱؂القرآن الکریم ۱۶/ ۲۰)
بصیغہ مضارع ہے کہ دلیل تجدّد واستمرار ہو یعنی بنائے گھڑے جاتے ہیں اور نئے نئے بنائے گھڑے جائیں گے، یہ یقینا بُت ہیں۔
سابعاً آیہ کریمہ میں ان سے کسی چیز کی خلق کا سلبِ کُلّی فرمایا کہلاَیخلُقُوْنَ شَیئاً۲؂ (وہ کوئی چیز نہیں بناتے۔ت)
(۲؂القرآن الکریم ۱۶/ ۲۰)
اور قرآن عظیم نے عیسٰی علیہ الصلوٰۃ والسلام کے لئے بعض اشیاء کی خلق ثابت فرمائی،واِذْ تَخْلُقُ مِنَ الطِّین کَھَیئَۃِ الطَّیر۳؂۔(۳؂القرآن الکریم ۵/ ۱۱۰)
(اور جب تو مٹی سے پرند کی مورت بناتا) اور ایجاب جزئیِ نقیض سلبِ کُلیّ ہے تو عیسٰی علیہ الصلوٰۃ والسلام پر صادق نہیں، نامناسب سے قطع نظر ہو تو اَمْوَات قضیہ مطلقہ عامہ ہے یا دائمہ بر تقدیر ثانی یقینا انس وجن وملک سے کوئی مراد نہیں ہوسکتا کہ ان کیلئے حیات بالفعل ثابت ہے نہ کہ ازل سے ابد تک دائم موت، برتقدیر اوّل قضیہ کا اتنا مفاد کہ کسی نہ کسی زمانے میں ان کو موت عارض ہو، یہ ضرور عیسٰی وملائکہ علیہم الصلوٰۃ والسلام سب کے لئے ثابت، بیشک ایک وقت وہ آئے گا کہ مسیح علیہ الصلوٰۃ والسلام وفات پائیں گے اور روز قیامت ملائکہ کو بھی موت ہے، اس سے یہ کب ثابت ہوا کہ موت ہوچکی، ورنہ “ید عُوْنَ مِنْ دُوْنِ اﷲِ” میں ملائکہ بھی داخل ہیں، لازم کہ وہ بھی مر چکے ہوں، اور یہ باطل ہے۔
تفسیر انوارالتنزیل میں ہے: (اَمْوَات) حالاً اوماٰلاً غیر احیاءٍ بالذَّاتِ لیتناول کُلَّ معبودٍ۴؎ (مردے حال میں یا آئندہ غیر زندے بالذات تاکہ ہر معبود کو شامل ہو۔ت)
(۴؎ انوارالتنزیل (تفسیر بیضاوی) آیۃ ۱۶/ ۲۱ مصطفٰی البابی مصر،۱/ ۲۷۰)
تفسیر عنایۃ القاضی میں ہے:فالمراد مالا حٰیوۃ لہ سواء کان لہ حٰیوۃ ثم مات کعزیر او سیموت کعیسٰی والملٰئکۃ علیھم السلام اولیس من شانہ الحٰیوۃ کالا صنام۵؎یعنی ان اموات سے عام مراد ہے خواہ اس میں حیات کی قابلیت ہی نہ ہو جیسے بت، یا حیات تھی اور موت عارض ہوئی جیسے عزیر، یا آئندہ عارض ہونے والی ہے جیسے عیسٰی وملائکہ علیہم الصلوٰۃ والسلام۔
(۵؎ عنایۃ القاضی حاشیۃ الشہاب علی تفسیر البیضاوی آیۃ ۱۶/ ۲۱، دار صادر بیروت، ۵/ ۳۲۲)
منکرین دیکھیں کہ ان کا شبہ ہر پہلو پر مردود ہے، وﷲ الحمد۔
شُبہ دوم:
لَعَنَ اﷲُ الْیھوْدَ وَالنَّصَارٰی۱؎اﷲ تعالٰی یہود و نصاری پر لعنت فرمائے۔
(۱؎ صحیح البخاری کتاب الجنائز باب مایکرہ من اتخاذ المسجد علی القبور، قدیمی کتب خانہ کراچی، ۱/ ۱۷۷)
اقول: وَالْمِرْزَائِیۃ لَعَنَھُمْ لَعْنًا کَبِیراً(میں کہتا ہوں کہ مرزائیوں پر بھی بڑی لعنت ہو)
اوّلاً : اَنْبِیائِھِمْ ۲؂میں اضافت استغراق کے لئے نہیں کہ موسٰی سے یحیٰی علیہما الصلوٰۃ والسلام تک ہر نبی کی قبر کو یہود و نصارٰی سب نے مسجد کرلیا ہو، یہ یقینا غلط ہے،
(۲؎ صحیح البخاری کتاب الجنائز باب مایکرہ من اتخاذ المسجد علی القبور، قدیمی کتب خانہ کراچی، ۱/ ۱۷۷)
جس طرحوَقَتْلِھِمُ الْاَنْبِیاء بِغَیر حَقٍّ۳؂(۳؂القرآن الکریم ۴/ ۱۵۵)
(انہوں نے انبیاء کو ناحق شہید کیا۔ت) میں اضافت ولام کوئی استغراق کا نہیں کہ نہ سب قاتل اور نہ سب انبیاء شہید کئے، قال اﷲ تعالٰی:ففریقاکذبتم وفریقا تقتلون۴؂
(۴؂القرآن الکریم ۲/ ۸۷)
(انبیاء کے ایک گروہ کو تم نے جھٹلایا اور ایک گروہ کو قتل کرتے ہو۔ت) اور جب استغراق نہیں تو بعض میں مسیح علیہ الصلوٰۃ والسّلام کا داخل کرلینا ادّعائے باطل و مردود ہے، یہود کے سب انبیاء نصارٰی کے بھی انبیاء تھے، یہود و نصارٰی کا ان میں بعض قبورِ کریمہ کو (مسجد بنا لینا) صدقِ حدیث کے لئے بس اور اس سے زیادہ مرتدین کی ہوس۔
فتح الباری شرح صحیح بخاری میں یہ اشکال ذکر کر کے کہ نصارٰی کے انبیاء کہاں ہیں، ان کے تو صرف ایک عیسٰی نبی تھے ان کی قبر نہیں، ایک جواب یہی دیا جو بتوفیقہ تعالٰی ہم نے ذکر کیا کہ:اوالمراد بالا تخاذ اعم من ان یکون ابتداعًا او اتباعًا فالیہود ابتدعت والنصارٰی اتبعت، ولا ریب ان النصارٰی تعظم قبور کثیر من الانبیاء الذین تعظمھم الیہود۵؎انبیاء کی قبروں کو مسجد بنا نا عام ہے کہ ابتداً ہو یا کسی کی پیروی میں، یہودیوں نے ابتداء کی اور عیسائیوں نے پیروی کی، اور اس میں شک نہیں کہ نصارٰی بہت سے ان انبیاء کی قبروں کی تعظیم کرتے ہیں جن کی یہودی تعظیم کرتے ہیں۔
(۵؎ فتح الباری شرح صحیح بخاری، کتاب الصلٰوۃ دارالمعرفۃ بیروت ۱/ ۴۴۴)
ثانیا امام حافظ الشان (ابن حجر) نے دوسرا جواب یہ دیا کہ اس روایت میں اقتصار واقع ہوا، واقع یہ ہے کہ یہود اپنے انبیاء کی قبور کو مساجد کرتے اور نصارٰی اپنے صالحین کی قبروں کو، ولہٰذا صحیح بخاری حدیث ابوہریرہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ میں دربارہ قبور انبیاء تنہا یہود کا نام ہے:ان رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم قال قاتل اﷲ الیھود اتخذوا قبور انبیائھم مساجد ۱؎فرمایا رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے ا ﷲ تعالٰی یہودیوں کو ہلاک فرمائے انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہیں بنالیا۔
(۱؎صحیح البخاری کتاب الصلوٰۃ، قدیمی کتب خانہ کراچی۔۱/ ۶۲)
اور صحیح بخاری حدیث اُم سلمہ رضی اﷲ تعالٰی عنہا میں جہاں تنہا نصارٰی کا ذکر تھا صرف صالحین کا ذکر فرمایا، انبیاء کا نام نہ لیا کہ:قال رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم اولٰئک قوم اذا مات فیھم العبد الصالح اوالرجل الصالح بنوا علٰی قبرہ مسجداً وصَوَّرُوْا فیہ تلک الصُّوَر ۲؎رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا نصارٰی وہ قوم ہے کہ جب ان میں کوئی نیک آدمی فوت ہوجاتا تو اس کی قبر پر مسجد بنالیتے اور اس میں تصویریں بناتے۔
(۲؎صحیح البخاری کتاب الصلوٰۃ، قدیمی کتب خانہ ،کراچی۔۱/ ۶۲)
اور صحیح مسلم حدیث جندب رضی اﷲ تعالٰی عنہ میں یہود و نصارٰی دونوں کو عام تھا انبیاء و صالحین کو جمع فرمایا کہ:سمعت النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم قال الاوان من کان قبلکم کانوا یتخذون قبور انبیائھم وصالحیھم مساجدا۳؎میں نے نبی کریم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم سے سنا آپ نے فرمایا خبردار! تم سے پہلے لوگ اپنے انبیاء اور صالحین کی قبروں کو سجدہ گاہیں بنالیتے تھے۔ ہمیشہ جمع طرق سے معنی حدیث کا ایضاح ہوتا ہے۔
(۳؎صحیح مسلم کتاب المساجد، باب : النہی عن بناء المسجد علی القبور، قدیمی کتب خانہ، کراچی ۱/ ۲۰۱)
ثالثاً اقول چالاکی بھی سمجھئے! یہ فقط قبرِ عیسٰی ثابت کرنا نہیں بلکہ اس میں بہت اہم راز مضمر ہے، قادیانی مدعیِ نبوت تھا اور سخت جھوٹا کذاب جس کے سفید چمکتے ہوئے جھوٹ وہ محمدی والے نکاح، اور انبیاء کے چاند والے بیٹے قادیان و قادیانیہ کے محفوظ از طاعون رہنے کی پیشین گوئیاں وغیرہا ہیں، اور ہر عاقل جانتا ہے کہ نبوت اور جھوٹ کا اجتماع محال، اس سے قادیانی کا سارا گھر ہر عاقل کے نزدیک گھروندا ہوگیا اس لئے فکر ہوئی کہ انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام کو معاذ اﷲ جھوٹا ثابت کریں کہ قادیانی کذاب کی نبوت بھی بن پڑے، اس کا علاج خود قادیانی نے اپنے ازالہ اوہام ص ۶۲۹ پر یہ کیا کہ ایک زمانے میں چار سو نبیوں کی پیشگوئی غلط ہوئی اور وہ جھوٹے، یہ اس مرتدکے اکٹھے چار سو کفر کہ ہر نبی کی تکذیب کفر ہے، بلکہ کروڑوں کفر ہیں کہ ایک نبی کی تکذیب تمام انبیاء اﷲ کی تکذیب ہے، قال اﷲ تعالٰی:کذبت قوم نوح ن المرسلین۴؂ (۴؂القرآن الکریم ۲۶/ ۱۰۵)
(نوح کی قوم نے پیغمبروں کو جھٹلایا۔ت) تو اس نے چار سو ہر نبی کی تکذیب کی، اگر انبیاء ایک لاکھ (عہ۱)چوبیس ہزار ہیں۱؎ تو قادیانی کے چار کروڑ چھیانوے لاکھ کفر، اور اگر دو لاکھ(عہ۲) چوبیس ہزار۲؎ ہیں تو یہ اس کے آٹھ کروڑ چھیانوے لاکھ کفر ہیں، اور اب ان مرزائیوں نے خود یا اسی سے سیکھ کر اندارج کفر میں اور ترقی معکوس کر کے اسفل سافلین پہنچنا چاہا کہ معاذاﷲ معاذاﷲ سید المرسلین محمد رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم وعلیہم اجمعین کا جھوٹ ثابت کریں، اس حدیث کے یہ معنے گھڑے کہ نصارٰی نے عیسٰی علیہ الصلوٰۃ و السلام کی قبر کو مسجد کر لیا، یہ صریح سپید جھوٹ ہے، نصارٰی ہر گز مسیح کی قبر ہی نہیں مانتے اسے مسجد کر لینا تو دوسرا درجہ ہے، تو مطلب یہ ہوا کہ دیکھو مصطفی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ( کے دشمنوں) نے (خاک بدہنِ ملعونان) کیسی صریح جھوٹی خبر دی پھر اگر ہمارا قادیانی نبی جھوٹ کے پھنکے اڑاتا تھا تو کیا ہوا قادیانی مرتدین کا اگر یہ مطلب نہیں تو جلد بتائیں کہ نصارٰی مسیح علیہ الصلوٰۃ والسلام کی قبر کب مانتے ہیں، کہاں بتاتے ہیں، کس کس نصرانی نے اس قبر کو مسجد کر لیا جس کا مصطفی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے ذکر کیا، اس مسجد کا روئے زمین پر کہیں پتا ہے؟ ان نصرانیوں کا دنیا کے پردے پر کہیں نشان ہے؟ اور جب یہ نہ بتا سکو اور ہرگز نہ بتا سکو گے تو اقرار کر و کہ تم نے محمد رسو ل اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے ذمّے معاذاﷲ دروغ گوئی کا الزام لگانے کو حدیث کے یہ معنی گھڑے اور:ان الذین یؤذون اﷲ ورسولہ لعنھم اﷲ فی الدنیا والاٰخرۃ واعدّلھم عذابًا مھینا۱؂ (۱؂القرآن الکریم ۳۳/ ۵۷)
(بیشک جو ایذا دیتے ہیں اﷲ اور اس کے رسول کو ان پر اﷲ کی لعنت دنیا اور آخرت میں اور اﷲ نے ان کے لئے ذلت کا عذاب تیار کر رکھا ہے۔ت) کی گہرائی میں پڑے الا لعنۃ اﷲ علی الظّٰلمین، کیوں، حدیث سے موت عیسٰی علیہ الصلوٰۃ والسلام پر استدلال کا مزا چکّھا؟کذٰلک العذاب ولعذاب الاٰخرۃاکبر لو کانوا یعلمونo۲؂( واﷲ تعالٰی اعلم) (۲؂القرآن الکریم ۶۸/ ۳۳)
(مار ایسی ہوتی ہے اور بیشک آخرت کی مار سب سے بڑی، کیا اچھا تھا اگر وہ جانتے۔ت)
( واﷲ تعالٰی اعلم)کتبہ العبد المذنب
احمد رضا البریلوی عفی عنہ
بمحمد ن المصطفٰی
صلی اﷲ تعالٰی علیہ واٰلہ وسلم۔
عہ۱:کما رواہ احمد وابن حبان والحاکم والبیھقی وغیر ھم عن ابی ذرو ھٰؤلاء وابن ابی حاتم والطبرانی وابن مردویہ عن ابی امامۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہما ۱۲ منہ غفرلہ (م) (جیسا کہ احمدابن حبان، حاکم، بیہقی وغیر ہم نے ابو ذر رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے نیز انہوں نے اور ابن ابی حاتم، طبرانی اور ابن مردویہ نے ابی امامہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے روایت کیا ۱۲ منہ غفرلہ۔ت)
عہ۲:کما فی روایۃ علٰی ما فی شرح عقائد النسفی للتفتازانی قال خاتم الحفاظ لم اقف علیھا ۱۲ منہ غفرلہ (م) (جیسا کہ دوسری روایت میں ہے جس کو علامہ تفتازانی نے شرح عقائد نسفی میں ذکر فرمایا، خاتم الحفاظ نے فرمایا میں اس پر واقف نہیں ہوا ۱۲ منہ )
(۱؎مسند احمد بن حنبل، حدیث ابو امامۃ الباہلی، دارالفکربیروت، ۵/ ۲۶۶)
(۲؎شرح عقائد النسفی داراشاعۃ العربیۃ قندھار، افغانستان، ص ۱۰۱)
(بحوالہ فتاوا رضویہ ،جلد 15)
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
اس متعلق مزید بہترین معلومات اور اس آیت کی تفاسیر ان مفسرین کی زبانی جن کو قادیانی جماعت بھی مجدد مانتی ہے۔ (بڑے فونٹ اور پوسٹ میں عربی ، اردو ، حوالہ جات کی فارمیٹنگ کے ساتھ بہترین پوسٹ ملاحظہ فرمائیں)
فَبِمَا نَقْضِهِم مِّيثَاقَهُمْ وَكُفْرِهِم بِآيَاتِ اللَّ۔هِ وَقَتْلِهِمُ الْأَنبِيَاءَ بِغَيْرِ حَقٍّ وَقَوْلِهِمْ قُلُوبُنَا غُلْفٌ بَلْ طَبَعَ اللَّ۔هُ عَلَيْهَا بِكُفْرِهِمْ فَلَا يُؤْمِنُونَ إِلَّا قَلِيلًا ۔ وَإِن مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكُونُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا
اس آیت پر مزید تفصیلی بحث یہاں سے پڑھیں۔
پہلالنک
دوسرا لنک
تیسرا لنک
چوتھا لنک
پانچواں لنک
چھٹا لنک
ساتواں لنک
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
اس متعلق مزید بہترین معلومات اور اس آیت کی تفاسیر ان مفسرین کی زبانی جن کو قادیانی جماعت بھی مجدد مانتی ہے۔ (بڑے فونٹ اور پوسٹ میں عربی ، اردو ، حوالہ جات کی فارمیٹنگ کے ساتھ بہترین پوسٹ ملاحظہ فرمائیں)
وَ اِنَّہ لَعِلْمُ لِّلسَّاعَۃِ فَلاَ تَمْتَرُنَّ بِھَاوَاتَّبِعُوْنِ،ھٰذَا صِرَاطُ مُّسْتَقِیْمُ
پہلا لنک
دوسرا لنک
 

ڈاکٹرفیض احمدچشتی

رکن ختم نبوت فورم
اس متعلق مزید بہترین معلومات اور اس آیت کی تفاسیر ان مفسرین کی زبانی جن کو قادیانی جماعت بھی مجدد مانتی ہے۔ (بڑے فونٹ اور پوسٹ میں عربی ، اردو ، حوالہ جات کی فارمیٹنگ کے ساتھ بہترین پوسٹ ملاحظہ فرمائیں)

پہلا لنک
دوسرا لنک
ماشاء اللہ جزاک اللہ محمّد ابو بکر صدیق بھائ
 
Top