سورہ المومنون 51
وَجَعَلْنَا ابْنَ مَرْيَمَ وَأُمَّهُ آيَةً وَآوَيْنَاهُمَا إِلَىٰ رَبْوَةٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَمَعِينٍ
اور ہم نے ابن مریم اور اس کی ماں کو (اپنی قدرت کی) نشانی بنایا اور ان دونوں کو ایک بلند مقام پر پناہ دی جو ٹھہرنے کے قابل بھی تھا اور جہاں چشمے جاری تھے۔
مرزا غلام احمد قادیانی اور ان کے متبعین یہ مراد لیتے ہیں کہ اس آیت میں واقعہ صلیب میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زندہ بچ جانے کے بعد کشمیر کی طرف ہجرت کرنے کا ذکر ہے ۔
حالانکہ قرآن حکیم میں نہ اس واقعہ کا کوئی وقت بتایا گیا ہےاور نہ ہی کوئی مقام ۔
اس آیت میں اس مقام کی جو صفات بیان کی گئی ہیں وہ دنیا کے بیشمار ممالک میں پائی جاتی ہیں۔ اب کسی مخصوص مقام کو متعین کرنے کے لئے کسی خارجی ثبوت کی ضرورت ہے ۔
مختلف لوگوں نے اس سے مختلف مقامات مراد لیے ہیں۔ کوئی دمشق کہتا ہے، کوئی الرَّملہ، کوئی بیت المقدس، اور کوئی مصر
مسیحی روایات کے مطابق حضرت مریم، حضرت عیسیٰ کی پیدائش کے بعد ان کی حفاظت کے لیے دو مرتبہ وطن چھوڑنے پر مجبور ہوئیں۔ پہلے ہیرو دیس بادشاہ کے عہد میں وہ انہیں مصر لے گئیں اور اس کی موت تک وہیں رہیں۔ پھر از خلاؤس کے عہد حکومت میں ان کو گلیل کے شہر ناصرہ میں پناہ لینی پڑی (متی 2۔13 تا 23)۔ اب یہ بات یقین کے ساتھ نہیں کہی جا سکتی کہ قرآن کا اشارہ کس مقام کی طرف ہے لغت میں ربوہ اس بلند زمین کو کہتے ہیں جو ہموار ہو اور اپنے گرد و پیش کے علاقے سے اونچی ہو۔ ذات قرار سے مراد یہ ہے کہ اس جگہ ضرورت کی سب چیزیں پائی جاتی ہوں اور رہنے والا وہاں بفراغت زندگی بسر کرسکتا ہو۔ اور معین سے مراد ہے بہتا ہوا پانی یا چشمہ جاری۔
غالبا اس سے مقصود وادی نیل کی بالائی سطح ہی ہے، یعنی مصر کا بالائی حصہ، اناجیل سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح کی پیدائش کے بعد مریم کے شوہر یوسف نے ماں بیٹے کو ساتھ لیا اور فلسطین سے مصر چلا گیا، چنانچہ حضرت مسیح کا بچپن اور شباب وہیں گزرا۔ جب فلسطین واپس آئے تو جوانی کی عمر تک پہنچ چکے تھے۔ غالبا ان کی زندگی کے اسی واقعہ کی طرف یہاں اشارہ کیا گیا ہے۔
دریائے نیل کے پانی فراوانی اور اس کے سالانہ سیلابوں کی عجیب و غریب نوعیت سرزمین مصر کا ایک امتیازی وصف رہی ہے۔ اس کی آبادی و سیرابی یعنی اس کا ذات و قرار و معین ہونا ضرب المثل کی طرح زباں زد ہوگیا تھا۔ چنانچہ عبرانی کی یہ قدیم مثل آج تک ملتی ہے کہ فلاں ملک میں پانی کی اتنی فراوانی ہے جیسے مصر میں چونکہ یہ مصر کا ایک امتیازی وصف ہوگیا تھا اس لیے اسی وصف سے اسے یاد کیا گیا۔ اس تعبیر میں یہ پہلو بھی پوشیدہ ہے کہ وہ فلسطین جیسا سرسبز ملک ترک کردینے پر مجبور ہوگئے۔ لیکن اللہ کے فضل نے ایسی جگہ پناہ دے دی جو فلسطین ہی کی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ ذات قرار و معین تھی۔
حضرت مریم اس سفر پر کیوں مجبور ہوئیں؟ اناجیل میں اس کا سبب یہ بیان کیا گیا ہے کہ ہیرودس حاکم شام کے ظلم و تشدد سے، اسے نجومیوں نے پیدائش مسیح خبر دے دی تھی اور وہ چاہتا تھا انہیں قتل کردے، تب فرشتہ نے یوسف کو خواب میں حکم دیا، اٹھ اور بچے اور اس کی ماں کو ساتھ لے کر مصر بھاگ جا۔ (متی : ١٣: ٢)
اور ہم نے ابن مریم اور اس کی ماں کو (اپنی قدرت کی) نشانی بنایا اور ان دونوں کو ایک بلند مقام پر پناہ دی جو ٹھہرنے کے قابل بھی تھا اور جہاں چشمے جاری تھے۔
مرزا غلام احمد قادیانی اور ان کے متبعین یہ مراد لیتے ہیں کہ اس آیت میں واقعہ صلیب میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زندہ بچ جانے کے بعد کشمیر کی طرف ہجرت کرنے کا ذکر ہے ۔
حالانکہ قرآن حکیم میں نہ اس واقعہ کا کوئی وقت بتایا گیا ہےاور نہ ہی کوئی مقام ۔
اس آیت میں اس مقام کی جو صفات بیان کی گئی ہیں وہ دنیا کے بیشمار ممالک میں پائی جاتی ہیں۔ اب کسی مخصوص مقام کو متعین کرنے کے لئے کسی خارجی ثبوت کی ضرورت ہے ۔
مختلف لوگوں نے اس سے مختلف مقامات مراد لیے ہیں۔ کوئی دمشق کہتا ہے، کوئی الرَّملہ، کوئی بیت المقدس، اور کوئی مصر
مسیحی روایات کے مطابق حضرت مریم، حضرت عیسیٰ کی پیدائش کے بعد ان کی حفاظت کے لیے دو مرتبہ وطن چھوڑنے پر مجبور ہوئیں۔ پہلے ہیرو دیس بادشاہ کے عہد میں وہ انہیں مصر لے گئیں اور اس کی موت تک وہیں رہیں۔ پھر از خلاؤس کے عہد حکومت میں ان کو گلیل کے شہر ناصرہ میں پناہ لینی پڑی (متی 2۔13 تا 23)۔ اب یہ بات یقین کے ساتھ نہیں کہی جا سکتی کہ قرآن کا اشارہ کس مقام کی طرف ہے لغت میں ربوہ اس بلند زمین کو کہتے ہیں جو ہموار ہو اور اپنے گرد و پیش کے علاقے سے اونچی ہو۔ ذات قرار سے مراد یہ ہے کہ اس جگہ ضرورت کی سب چیزیں پائی جاتی ہوں اور رہنے والا وہاں بفراغت زندگی بسر کرسکتا ہو۔ اور معین سے مراد ہے بہتا ہوا پانی یا چشمہ جاری۔
غالبا اس سے مقصود وادی نیل کی بالائی سطح ہی ہے، یعنی مصر کا بالائی حصہ، اناجیل سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح کی پیدائش کے بعد مریم کے شوہر یوسف نے ماں بیٹے کو ساتھ لیا اور فلسطین سے مصر چلا گیا، چنانچہ حضرت مسیح کا بچپن اور شباب وہیں گزرا۔ جب فلسطین واپس آئے تو جوانی کی عمر تک پہنچ چکے تھے۔ غالبا ان کی زندگی کے اسی واقعہ کی طرف یہاں اشارہ کیا گیا ہے۔
دریائے نیل کے پانی فراوانی اور اس کے سالانہ سیلابوں کی عجیب و غریب نوعیت سرزمین مصر کا ایک امتیازی وصف رہی ہے۔ اس کی آبادی و سیرابی یعنی اس کا ذات و قرار و معین ہونا ضرب المثل کی طرح زباں زد ہوگیا تھا۔ چنانچہ عبرانی کی یہ قدیم مثل آج تک ملتی ہے کہ فلاں ملک میں پانی کی اتنی فراوانی ہے جیسے مصر میں چونکہ یہ مصر کا ایک امتیازی وصف ہوگیا تھا اس لیے اسی وصف سے اسے یاد کیا گیا۔ اس تعبیر میں یہ پہلو بھی پوشیدہ ہے کہ وہ فلسطین جیسا سرسبز ملک ترک کردینے پر مجبور ہوگئے۔ لیکن اللہ کے فضل نے ایسی جگہ پناہ دے دی جو فلسطین ہی کی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ ذات قرار و معین تھی۔
حضرت مریم اس سفر پر کیوں مجبور ہوئیں؟ اناجیل میں اس کا سبب یہ بیان کیا گیا ہے کہ ہیرودس حاکم شام کے ظلم و تشدد سے، اسے نجومیوں نے پیدائش مسیح خبر دے دی تھی اور وہ چاہتا تھا انہیں قتل کردے، تب فرشتہ نے یوسف کو خواب میں حکم دیا، اٹھ اور بچے اور اس کی ماں کو ساتھ لے کر مصر بھاگ جا۔ (متی : ١٣: ٢)