• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

وہ علامات جو مسیح نے استعارہ کے طورپر اپنے آنے کے بیان کئے ہیں

محمود بھائی

رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
مرزا غلام احمد قادیانی نے روحانی خزائن جلد 3 کے صفحہ 128 پر یہ عنوان قائم کرتے ہوئے "وہ علامات جو مسیح نے استعارہ کے طورپر اپنے آنے کے بیان کئے ہیں" ٌلکھا
" مسیح نے اپنے دوبارہ آنے کا نشان یہ بتلایا ہے کہ اُن دنوں میں تُرت سورج اندھیرا ہو جائے گا اور چاند اپنی روشنی نہیں دے گا اور ستارے آسمان سے گر جائیں گے اور آسمان کی قوتیں ہل جائیں گی تب ابن آدم کا نشان آسمان پر ظاہر ہو گا اور ابن آدم کوبڑی قدرت اور جلال کے ساتھ آسمان کے بادلوں پر آؔ تے دیکھیں گے اور وہ نرسنگے کے بڑے شور کے ساتھ اپنے فرشتوں کو بھیجے گا اور وَے اُس کے برگزیدوں کو چاروں طرف سے آسمان کی اِس حد سے اُس حد تک جمع کریں گے جب تم یہ سب کچھ دیکھو تو جانو کہ وہ نزدیک بلکہ دروازہ پر ہے میں تمہیں سچ سچ کہتا ہو ں کہ جب تک یہ سب کچھ ہو نہ لے اِس زمانہ کے لوگ گذرنہ جائیں گے آسمان و زمین ٹل جائیں گے پر میری باتیں ہرگز نہ ٹلیں گی لیکن اُس دن اور اُس گھڑی کو میرے باپ کے سوا آسمان کے فرشتوں تک کوئی نہیں جانتا جیسا نوح کے دنوں میں ہوا ویسا ہی ابن آدم کا آنا بھی ہو گا کیونکہ جس طرح اُن دنوں میں طوفان کے پہلے کھاتے پیتے بیاہ کرتے بیاہے جاتے تھے اس دن تک کہ نوح کشتی پر چڑھا اور نہ جانتے تھے جب تک کہ طوفان آیا اور اُن سب کو لے گیا اِسی طرح ابن آدم کا آنابھی ہو گا یعنی جس طرح کہ نوح کی کشتی بنانے سے پہلے لوگ امن اور آرام سے بستے تھے کوئی ارضی یا سماوی حادثہ اُن پر وارد نہ تھااسی طرح ابن آدم یعنی مسیح بھی لوگوں کے آؔ رام اور خوشحالی کے وقت میں آئے گا اُس کے آنے سے پہلے کسی قسم کا حادثہ لوگوں پر نازل نہیں ہو گا بلکہ معمولی طور پر امن اور راحت سے دنیا اپنے اپنے کاموں میں مشغول ہو گی دیکھو متی باب ۲۴۔
حضرت مسیح کے اِس بیان میں بظاہر صورت جس قدر تناقض ہے ناظرین نے سمجھ لیا ہو گا کیونکہ اُنہوں نے اپنے اُترنے سے پہلے اس امر کو ضروری ٹھہرایا ہے کہ سورج اندھیرا ہو جائے اور چاند روشنی نہ دیوے اور ستارے آسمان کے زمین پر گر جائیں۔سو اِن علامات کو اگر ظاہر پر حمل کیا جائے تو یہ معنے بدیہی البطلان ہیں کیونکہ جس وقت سور ج اندھیراہو گیا اور چاندکی روشنی جاتی رہی تو پھر دنیا کیوں کر نوح کے زمانے کی طرح امن سے آباد رہ سکتی ہے بھلا یہ بھی جانے دو شاید دنیا سخت مصیبت کے ساتھ گذارہ کر سکے لیکن زمین پر ستاروں کے گرنے سے کیا زمین کے باشندوں میں سے کوئی باقی رہ سکتا ہے سچ تو یہ ہے کہ اگر آسمان کا ایک بھی ستارہ زمین پر گرے تو تمام دنیا کے ہلاک کرنے کے لئے کافی ہے کیونکہ کوئی ستارہ عرض طول میں زمینؔ کے معمورہ سے کم نہیں ہے ایک ستارہ گر کر زمین کی تمام آبادی کو دبا سکتا ہے چہ جائیکہ تمام ستارے زمین پر گریں اور اُن کے گرنے سے ایک آدمی کو بھی آسیب نہ پہنچے بلکہ حضرت نوح کے زمانہ کی طرح مسیح کے اُترنے سے پہلے امن اور جمعیت سے آباد ہوں اور مسیح کو بڑی قدرت اور جلال کے ساتھ آسمان کے بادلوں پر آتے دیکھیں۔ سو اے حق کے طالبو! یقینًا سمجھو کہ یہ سب استعارات ہیں حقیقت پر ہرگز محمول نہیں حضرت مسیح کا مطلب صرف اتنا ہے کہ وہ دین کے لئے ایک تاریکی کا زمانہ ہو گااور ایسی ضلالت کی تاریکی ہو گی کہ اُس وقت نہ آفتاب کی روشنی سے جو رسول مقبول اور اس کی شریعت اور اس کی کتاب ہے لوگ آنکھیں کھولیں گے کیونکہ اُن کے نفسانی حجابوں کی وجہ سے آفتاب شریعت ان کے لئے اندھیرا ہو جائے گا اور ماہتاب بھی انہیں روشنی نہیں دے گا یعنی اولیا کے وجود سے بھی انہیں کچھ فائدہ نہ ہوگا کیونکہ بے دینی کے بڑھ جانے سے مردانِ خدا کی محبتؔ بھی اُن کے دلوں میں نہیں رہے گی اور آسمان کے ستارے گریں گے یعنی حقّانی علماء فوت ہوجائیں گے اور آسمان کی قوتیں ہل جائیں گی یعنی آسمان اُوپر کی طرف کسی کو کھینچ نہیں سکے گا۔ دن بدن لوگ زمین کی طرف کھینچے چلے جائیں گے یعنی لوگوں پر نفس امّارہ کے جذبات غالب ہوں گے اُس وقت نہ لڑائیاں ہوں گی اور نہ عامہ خلائق کے امن اور عافیت میں خلل ہوگا بلکہ نوح کے زمانہ کی طرح ایک امن بخش گورنمنٹ کے تحت میں * وہ لوگ ؔ زندگی بسر کرتے ہوں گے جن میں مسیح موعود نازل ہوگا"
مرزا جی کی اس طویل عبارت کا جواب دینے کی بجائے مناسب یہی ہے کہ انجیل متی کا باب 24 ہی یہاں پیش کر دیا جائے تاکہ پتہ چل سکے کہ متی باب 24 کیا بیان کر رہا ہے اور مرزا جی اس سے کیا اخذ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔
صرف اتنا عرض کرتا چلوں کہ شاید مرزا جی یہ اصول بھول گئے کہ اس بات پر اجماع ہے کہ نصوص کو ظاہر پر ہی حمل کیا جاتا ہے سوائے وہاں جہاں ظاہری معنیٰ لینا ممکن نہ ہو اس لئے اس باب اگر حضرت عیسیٰؑ کی چند باتیں استعارات پر مبنی ہیں تو یہ کہاں سے لازم آگیا کہ سب باتیں ہی استعارات ہیں ؟؟؟؟؟؟؟
یہ بھی یاد رہے کہ حضرت عیسیٰؑ نے طوفان نوح کی مثال صرف بے خبری کے تناظر میں دی ہے لیکن مرزا جی اس سے کچھ اور ہی کشید کر رہے ہیں ۔
جاری ہے
 
آخری تدوین :

محمود بھائی

رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
انجیل متی
باب 24
1 اور یِسُوع ہَیکل سے نِکل کر جا رہا تھا کہ اُس کے شاگِرد اُس کے پاس آئے تاکہ اُسے ہَیکل کی عِمارتیں دِکھائیں۔
2 اُس نے جواب میں اُن سے کہا کیا تُم اِن سب چِیزوں کو نہِیں دیکھتے؟ مَیں تُم سے سَچ کہتا ہُوں کہ یہاں کِسی پتھّر پر پتھّر باقی نہ رہے گا جو گِرایا نہ جائے گا۔
3 اور جب وہ زیتُون کے پہاڑ پر بَیٹھا تھا اُس کے شاگِردوں نے الگ اُس کے پاس آ کر کہا ہم کو بتا کہ یہ باتیں کب ہوں گی؟ اور تیرے آنے اور دُنیا کے آخِر ہونے کا کیا نِشان ہوگا؟
4 یِسُوع نے جواب میں اُن سے کہا کہ خَبردار! کوئی تُم کو گُمراہ نہ کردے۔
5 کِیُونکہ بہُتیرے میں نام سے آئیں گے اور کہیں گے میں مسِیح ہُوں اور بہُت سے لوگوں کو گُمراہ کریں گے۔
6 اور تُم لڑائِیاں اور لڑائِیوں کی افواہ سُنو گے۔ خَبردار! گھبرا نہ جانا! کِیُونکہ اِن باتوں کا واقِع ہونا ضرُور ہے لیکِن اُس وقت خاتِمہ نہ ہوگا۔
7 کِیُونکہ قَوم پر قَوم اور سلطنت پر سلطنت چڑھائی کرے گی اور جگہ جگہ کال پڑیں گے اور بھُونچال آَئیں گے۔
8 لیکِن یہ سب باتیں مُصیبتوں کا شُرُوع ہی ہوں گی۔
9 اُس وقت لوگ تُم کو اِیزا دینے کے لِئے پکڑوائیں گے اور تُم کو قتل کریں گے اور میرے نام کی خاطِر سب قَومَیں تُم سے عَداوَت رکھّیں گی۔
10 اور اُس وقت بہُتیرے ٹھوکر کھائیں گے اور ایک دُوسرے کو پکڑوائیں گے اور ایک دُوسرے سے عَداوَت رکھّیں گے۔
11 اور بہُت سے جھُوٹے نبی اُٹھ کھڑے ہوں گے اور بہُتیروں کو گُمراہ کریں گے۔
12 اور بےدِینی کے بڑھ جانے سے بہُتیروں کی محبّت ٹھنڈی پڑ جائے گی۔
13 مگر جو آخِر تک برداشت کرے گا وہ نِجات پائے گا۔
14 اور بادشاہی کی اِس خُوشخَبری کی منادی تمام دُنیا میں ہوگی تاکہ سب قَوموں کے لِئے گواہی ہو۔ تب خاتِمہ ہوگا۔
15 پَس جب تُم اُس اُجاڑنے والی مکُرو چِیز کو جِس کا ذِکر دانی ایل نبی کی معرفت ہُؤا۔ مُقدّس مقام میں کھڑا ہُؤا دیکھو (پڑھنے والا سَمَجھ لے)۔
16 تو جو یہُودیہ میں ہوں وہ پہاڑوں پر بھاگ جائِیں۔
17 جو کوٹھے پر ہو وہ اپنے گھر کا اسباب لینے کو نِیچے نہ اترے۔
18 اور جو کھیت میں ہو وہ اپنا کپڑا لینے کو پِیچھے نہ لوٹے۔
19 مگر افسوس اُن پر جو اُن دِنوں میں حامِلہ ہوں اور جو دُودھ پِلاتی ہوں!
20 پَس دُعا کرو کہ تُم کو جاڑوں میں یا سَبت کے دِن بھاگنا نہ پڑے۔
21 کِیُونکہ اُس وقت اَیسی بڑی مُصِیبت ہوگی کہ دُنیا کے شُرُوع سے نہ اَب تک ہُوئی نہ کبھی ہوگی۔
22 اور اگر وہ دِن گھٹائے نہ جاتے تو کوئی بشر نہ بچتا۔ مگر برگُزِیدوں کی خاطِر وہ دِن گھٹائے جائیں گے۔
23 اُس وقت اگر کوئی تُم سے کہے کہ دیکھو مسِیح یہاں ہے یا وہاں ہے تو یقِین نہ کرنا۔
24 کِیُونکہ جھُوٹے مسِیح اور جھُوٹے نبی اُٹھ کھڑے ہوں گے اور اَیسے بڑے نِشان اور عجِیب کام دِکھائیں گے کہ اگر مُمِکن ہو تو برگُزِیدوں کو بھی گُمراہ کرلیں۔
25 دیکھو میں نے پہلے ہی تُم سے کہہ دِیا ہے۔
26 پَس اگر وہ تُم سے کہیں کہ دیکھو وہ بِیابان میں ہے تو باہِر نہ جانا یا دیکھو وہ کوٹھریوں میں ہے تو یقِین نہ کرنا۔
27 کِیُونکہ جَیسے بجلِی پُورب سے کوند کر پچھّم تک دِکھائی دیتی ہے ویسے ہی اِبنِ آدم کا آنا ہوگا۔
28 جہاں مُردار ہے وہاں گِدھ جمع ہوجائیں گے۔
29 اور فوراً اُن دِنوں کی مُصِیبت کے بعد سُورج تاریک ہو جائے گا اور چاند اپنی روشنی نہ دے گا اور سِتارے آسمان سے گِریں گے اور آسمانوں کی قُوّتیں ہِلائی جائیں گی۔
30 اور اُس وقت اِبنِ آدم کا نِشان آسمان پر دِکھائی دے گا۔ اور اُس وقت زمِین کی سب قَومیں چھاتی پِیٹیں گی اور اِبنِ آدم کو بڑی قُدرت اور جلال کے ساتھ آسمان کے بادلوں پر آتے دیکھیں گی۔
31 اور وہ نرسِنگے کی بڑی آواز کے ساتھ اپنے فرِشتوں کو بھیجے گا اور وہ اُس کے برگُزِیدوں کو چاروں طرف سے آسمان کے اِس کِنارے سے اُس کِنارے تک جمع کریں گے۔
32 اب اِنجیر کے دَرخت سے ایک تَمثِیل سِیکھو۔ جُونہی اُس کی ڈالی نرم ہوتی ہے اور پتّے نِکلتے ہیں تُم جان لیتے ہو کہ گرمی نزدِیک ہے۔
33 اِسی طرح جب تُم اِن سب باتوں کو دیکھو تو جان لو کہ وہ نزدِیک بلکہ دروازہ پر ہے۔
34 مَیں تُم سے سَچ کہتا ہُوں کہ جب تک یہ سب باتیں نہ ہو لیں یہ نسل ہرگِز تمام نہ ہوگی۔
35 آسمان اور زمِیں ٹل جائیں گے لیکِن میری باتیں ہرگِز نہ ٹلیں گی۔
36 لیکِن اُس دِن اور اُس گھڑی کی بابت کوئی نہِیں جانتا۔ نہ آسمان کے فرِشتے نہ بَیٹا مگر صِرف باپ۔
37 جَیسا نُوح کے دِنوں میں ہُؤا ویسا ہی اِبنِ آدم کے آنے کے وقت ہوگا۔
38 کِیُونکہ جِس طرح طُوفان سے پہلے کے دِنوں میں لوگ کھاتے پِیتے اور بیاہ شادِی کرتے تھے اُس دِن تک کہ نُوح کَشتی میں داخِل ہُؤا۔
39 اور جب تک طُوفان آ کر اُن سب کو بہا نہ لے گیا اُن کو خَبر نہ ہُوئی اُسی طرح اِبنِ آدم کا آنا ہوگا۔
40 اُس وقت دو آدمِی کھیت میں ہوں گے ایک لے لِیا جائے گا اور دُوسرا چھوڑ دِیا جائے گا۔
41 دو عَورتیں چکّی پِیستی ہوں گی۔ ایک لے لی جائے گی اور دُوسری چھوڑ دی جائے گی۔
42 پَس جاگتے رہو کِیُونکہ تُم نہِیں جانتے کہ تُمہارا خُداوند کِس دِن آئے گا۔
43 لیکِن یہ جان رکھّو کہ اگر گھر کے مالِک کو معلُوم ہوتا کہ چور رات کو کون سے پہر آئے گا تو جاگتا رہتا اور اپنے گھر میں نقب نہ لگانے دیتا۔
44 اِس لِئے تُم بھی تیّاررہو کِیُونکہ جِس گھڑی تُم کو گُمان بھی نہ ہوگا اِبنِ آدم آجائے گا۔
45 پَس وہ دِیانتدار اور عقلمند نَوکر کون سا ہے جِسے مالِک نے اپنے نَوکر چاکروں پر مُقّرر کِیا تاکہ وقت پر اُن کو کھانا دے؟
46 مُبارک ہے وہ نَوکر جِسے اُس کا مالِک آ کر اَیسا ہی کرتے پائے۔
47 مَیں تُم سے سَچ کہتا ہُوں کہ وہ اُسے اپنے سارے مال کا مُختار کردے گا۔
48 لیکِن اگر وہ خراب نَوکر اپنے دِل میں یہ کہہ کر کہ میرے مالِک کے آنے میں دیر ہے۔
49 اپنے ہمخِدمتوں کو مارنا شُرُوع کرے اور شرابیوں کے ساتھ کھائے پِئے۔
50 تو اُس نَوکر کا مالِک اَیسے دِن کہ وہ اُس کی راہ نہ دیکھتا ہو اور اَیسی گھڑی کہ وہ نہ جانتا ہو آ موجُود ہوگا۔
51 اور خُوب کوڑے لگا کر اُس کو رِیاکاروں میں شامِل کرے گا۔ وہاں رونا اور دانت پِیسنا ہوگا۔
 
Top