مرزا غلام احمد قادیانی نے روحانی خزائن جلد 3 کے صفحہ 128 پر یہ عنوان قائم کرتے ہوئے "وہ علامات جو مسیح نے استعارہ کے طورپر اپنے آنے کے بیان کئے ہیں" ٌلکھا
" مسیح نے اپنے دوبارہ آنے کا نشان یہ بتلایا ہے کہ اُن دنوں میں تُرت سورج اندھیرا ہو جائے گا اور چاند اپنی روشنی نہیں دے گا اور ستارے آسمان سے گر جائیں گے اور آسمان کی قوتیں ہل جائیں گی تب ابن آدم کا نشان آسمان پر ظاہر ہو گا اور ابن آدم کوبڑی قدرت اور جلال کے ساتھ آسمان کے بادلوں پر آؔ تے دیکھیں گے اور وہ نرسنگے کے بڑے شور کے ساتھ اپنے فرشتوں کو بھیجے گا اور وَے اُس کے برگزیدوں کو چاروں طرف سے آسمان کی اِس حد سے اُس حد تک جمع کریں گے جب تم یہ سب کچھ دیکھو تو جانو کہ وہ نزدیک بلکہ دروازہ پر ہے میں تمہیں سچ سچ کہتا ہو ں کہ جب تک یہ سب کچھ ہو نہ لے اِس زمانہ کے لوگ گذرنہ جائیں گے آسمان و زمین ٹل جائیں گے پر میری باتیں ہرگز نہ ٹلیں گی لیکن اُس دن اور اُس گھڑی کو میرے باپ کے سوا آسمان کے فرشتوں تک کوئی نہیں جانتا جیسا نوح کے دنوں میں ہوا ویسا ہی ابن آدم کا آنا بھی ہو گا کیونکہ جس طرح اُن دنوں میں طوفان کے پہلے کھاتے پیتے بیاہ کرتے بیاہے جاتے تھے اس دن تک کہ نوح کشتی پر چڑھا اور نہ جانتے تھے جب تک کہ طوفان آیا اور اُن سب کو لے گیا اِسی طرح ابن آدم کا آنابھی ہو گا یعنی جس طرح کہ نوح کی کشتی بنانے سے پہلے لوگ امن اور آرام سے بستے تھے کوئی ارضی یا سماوی حادثہ اُن پر وارد نہ تھااسی طرح ابن آدم یعنی مسیح بھی لوگوں کے آؔ رام اور خوشحالی کے وقت میں آئے گا اُس کے آنے سے پہلے کسی قسم کا حادثہ لوگوں پر نازل نہیں ہو گا بلکہ معمولی طور پر امن اور راحت سے دنیا اپنے اپنے کاموں میں مشغول ہو گی دیکھو متی باب ۲۴۔
حضرت مسیح کے اِس بیان میں بظاہر صورت جس قدر تناقض ہے ناظرین نے سمجھ لیا ہو گا کیونکہ اُنہوں نے اپنے اُترنے سے پہلے اس امر کو ضروری ٹھہرایا ہے کہ سورج اندھیرا ہو جائے اور چاند روشنی نہ دیوے اور ستارے آسمان کے زمین پر گر جائیں۔سو اِن علامات کو اگر ظاہر پر حمل کیا جائے تو یہ معنے بدیہی البطلان ہیں کیونکہ جس وقت سور ج اندھیراہو گیا اور چاندکی روشنی جاتی رہی تو پھر دنیا کیوں کر نوح کے زمانے کی طرح امن سے آباد رہ سکتی ہے بھلا یہ بھی جانے دو شاید دنیا سخت مصیبت کے ساتھ گذارہ کر سکے لیکن زمین پر ستاروں کے گرنے سے کیا زمین کے باشندوں میں سے کوئی باقی رہ سکتا ہے سچ تو یہ ہے کہ اگر آسمان کا ایک بھی ستارہ زمین پر گرے تو تمام دنیا کے ہلاک کرنے کے لئے کافی ہے کیونکہ کوئی ستارہ عرض طول میں زمینؔ کے معمورہ سے کم نہیں ہے ایک ستارہ گر کر زمین کی تمام آبادی کو دبا سکتا ہے چہ جائیکہ تمام ستارے زمین پر گریں اور اُن کے گرنے سے ایک آدمی کو بھی آسیب نہ پہنچے بلکہ حضرت نوح کے زمانہ کی طرح مسیح کے اُترنے سے پہلے امن اور جمعیت سے آباد ہوں اور مسیح کو بڑی قدرت اور جلال کے ساتھ آسمان کے بادلوں پر آتے دیکھیں۔ سو اے حق کے طالبو! یقینًا سمجھو کہ یہ سب استعارات ہیں حقیقت پر ہرگز محمول نہیں حضرت مسیح کا مطلب صرف اتنا ہے کہ وہ دین کے لئے ایک تاریکی کا زمانہ ہو گااور ایسی ضلالت کی تاریکی ہو گی کہ اُس وقت نہ آفتاب کی روشنی سے جو رسول مقبول اور اس کی شریعت اور اس کی کتاب ہے لوگ آنکھیں کھولیں گے کیونکہ اُن کے نفسانی حجابوں کی وجہ سے آفتاب شریعت ان کے لئے اندھیرا ہو جائے گا اور ماہتاب بھی انہیں روشنی نہیں دے گا یعنی اولیا کے وجود سے بھی انہیں کچھ فائدہ نہ ہوگا کیونکہ بے دینی کے بڑھ جانے سے مردانِ خدا کی محبتؔ بھی اُن کے دلوں میں نہیں رہے گی اور آسمان کے ستارے گریں گے یعنی حقّانی علماء فوت ہوجائیں گے اور آسمان کی قوتیں ہل جائیں گی یعنی آسمان اُوپر کی طرف کسی کو کھینچ نہیں سکے گا۔ دن بدن لوگ زمین کی طرف کھینچے چلے جائیں گے یعنی لوگوں پر نفس امّارہ کے جذبات غالب ہوں گے اُس وقت نہ لڑائیاں ہوں گی اور نہ عامہ خلائق کے امن اور عافیت میں خلل ہوگا بلکہ نوح کے زمانہ کی طرح ایک امن بخش گورنمنٹ کے تحت میں * وہ لوگ ؔ زندگی بسر کرتے ہوں گے جن میں مسیح موعود نازل ہوگا"
مرزا جی کی اس طویل عبارت کا جواب دینے کی بجائے مناسب یہی ہے کہ انجیل متی کا باب 24 ہی یہاں پیش کر دیا جائے تاکہ پتہ چل سکے کہ متی باب 24 کیا بیان کر رہا ہے اور مرزا جی اس سے کیا اخذ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔
صرف اتنا عرض کرتا چلوں کہ شاید مرزا جی یہ اصول بھول گئے کہ اس بات پر اجماع ہے کہ نصوص کو ظاہر پر ہی حمل کیا جاتا ہے سوائے وہاں جہاں ظاہری معنیٰ لینا ممکن نہ ہو اس لئے اس باب اگر حضرت عیسیٰؑ کی چند باتیں استعارات پر مبنی ہیں تو یہ کہاں سے لازم آگیا کہ سب باتیں ہی استعارات ہیں ؟؟؟؟؟؟؟
یہ بھی یاد رہے کہ حضرت عیسیٰؑ نے طوفان نوح کی مثال صرف بے خبری کے تناظر میں دی ہے لیکن مرزا جی اس سے کچھ اور ہی کشید کر رہے ہیں ۔
جاری ہے
" مسیح نے اپنے دوبارہ آنے کا نشان یہ بتلایا ہے کہ اُن دنوں میں تُرت سورج اندھیرا ہو جائے گا اور چاند اپنی روشنی نہیں دے گا اور ستارے آسمان سے گر جائیں گے اور آسمان کی قوتیں ہل جائیں گی تب ابن آدم کا نشان آسمان پر ظاہر ہو گا اور ابن آدم کوبڑی قدرت اور جلال کے ساتھ آسمان کے بادلوں پر آؔ تے دیکھیں گے اور وہ نرسنگے کے بڑے شور کے ساتھ اپنے فرشتوں کو بھیجے گا اور وَے اُس کے برگزیدوں کو چاروں طرف سے آسمان کی اِس حد سے اُس حد تک جمع کریں گے جب تم یہ سب کچھ دیکھو تو جانو کہ وہ نزدیک بلکہ دروازہ پر ہے میں تمہیں سچ سچ کہتا ہو ں کہ جب تک یہ سب کچھ ہو نہ لے اِس زمانہ کے لوگ گذرنہ جائیں گے آسمان و زمین ٹل جائیں گے پر میری باتیں ہرگز نہ ٹلیں گی لیکن اُس دن اور اُس گھڑی کو میرے باپ کے سوا آسمان کے فرشتوں تک کوئی نہیں جانتا جیسا نوح کے دنوں میں ہوا ویسا ہی ابن آدم کا آنا بھی ہو گا کیونکہ جس طرح اُن دنوں میں طوفان کے پہلے کھاتے پیتے بیاہ کرتے بیاہے جاتے تھے اس دن تک کہ نوح کشتی پر چڑھا اور نہ جانتے تھے جب تک کہ طوفان آیا اور اُن سب کو لے گیا اِسی طرح ابن آدم کا آنابھی ہو گا یعنی جس طرح کہ نوح کی کشتی بنانے سے پہلے لوگ امن اور آرام سے بستے تھے کوئی ارضی یا سماوی حادثہ اُن پر وارد نہ تھااسی طرح ابن آدم یعنی مسیح بھی لوگوں کے آؔ رام اور خوشحالی کے وقت میں آئے گا اُس کے آنے سے پہلے کسی قسم کا حادثہ لوگوں پر نازل نہیں ہو گا بلکہ معمولی طور پر امن اور راحت سے دنیا اپنے اپنے کاموں میں مشغول ہو گی دیکھو متی باب ۲۴۔
حضرت مسیح کے اِس بیان میں بظاہر صورت جس قدر تناقض ہے ناظرین نے سمجھ لیا ہو گا کیونکہ اُنہوں نے اپنے اُترنے سے پہلے اس امر کو ضروری ٹھہرایا ہے کہ سورج اندھیرا ہو جائے اور چاند روشنی نہ دیوے اور ستارے آسمان کے زمین پر گر جائیں۔سو اِن علامات کو اگر ظاہر پر حمل کیا جائے تو یہ معنے بدیہی البطلان ہیں کیونکہ جس وقت سور ج اندھیراہو گیا اور چاندکی روشنی جاتی رہی تو پھر دنیا کیوں کر نوح کے زمانے کی طرح امن سے آباد رہ سکتی ہے بھلا یہ بھی جانے دو شاید دنیا سخت مصیبت کے ساتھ گذارہ کر سکے لیکن زمین پر ستاروں کے گرنے سے کیا زمین کے باشندوں میں سے کوئی باقی رہ سکتا ہے سچ تو یہ ہے کہ اگر آسمان کا ایک بھی ستارہ زمین پر گرے تو تمام دنیا کے ہلاک کرنے کے لئے کافی ہے کیونکہ کوئی ستارہ عرض طول میں زمینؔ کے معمورہ سے کم نہیں ہے ایک ستارہ گر کر زمین کی تمام آبادی کو دبا سکتا ہے چہ جائیکہ تمام ستارے زمین پر گریں اور اُن کے گرنے سے ایک آدمی کو بھی آسیب نہ پہنچے بلکہ حضرت نوح کے زمانہ کی طرح مسیح کے اُترنے سے پہلے امن اور جمعیت سے آباد ہوں اور مسیح کو بڑی قدرت اور جلال کے ساتھ آسمان کے بادلوں پر آتے دیکھیں۔ سو اے حق کے طالبو! یقینًا سمجھو کہ یہ سب استعارات ہیں حقیقت پر ہرگز محمول نہیں حضرت مسیح کا مطلب صرف اتنا ہے کہ وہ دین کے لئے ایک تاریکی کا زمانہ ہو گااور ایسی ضلالت کی تاریکی ہو گی کہ اُس وقت نہ آفتاب کی روشنی سے جو رسول مقبول اور اس کی شریعت اور اس کی کتاب ہے لوگ آنکھیں کھولیں گے کیونکہ اُن کے نفسانی حجابوں کی وجہ سے آفتاب شریعت ان کے لئے اندھیرا ہو جائے گا اور ماہتاب بھی انہیں روشنی نہیں دے گا یعنی اولیا کے وجود سے بھی انہیں کچھ فائدہ نہ ہوگا کیونکہ بے دینی کے بڑھ جانے سے مردانِ خدا کی محبتؔ بھی اُن کے دلوں میں نہیں رہے گی اور آسمان کے ستارے گریں گے یعنی حقّانی علماء فوت ہوجائیں گے اور آسمان کی قوتیں ہل جائیں گی یعنی آسمان اُوپر کی طرف کسی کو کھینچ نہیں سکے گا۔ دن بدن لوگ زمین کی طرف کھینچے چلے جائیں گے یعنی لوگوں پر نفس امّارہ کے جذبات غالب ہوں گے اُس وقت نہ لڑائیاں ہوں گی اور نہ عامہ خلائق کے امن اور عافیت میں خلل ہوگا بلکہ نوح کے زمانہ کی طرح ایک امن بخش گورنمنٹ کے تحت میں * وہ لوگ ؔ زندگی بسر کرتے ہوں گے جن میں مسیح موعود نازل ہوگا"
مرزا جی کی اس طویل عبارت کا جواب دینے کی بجائے مناسب یہی ہے کہ انجیل متی کا باب 24 ہی یہاں پیش کر دیا جائے تاکہ پتہ چل سکے کہ متی باب 24 کیا بیان کر رہا ہے اور مرزا جی اس سے کیا اخذ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔
صرف اتنا عرض کرتا چلوں کہ شاید مرزا جی یہ اصول بھول گئے کہ اس بات پر اجماع ہے کہ نصوص کو ظاہر پر ہی حمل کیا جاتا ہے سوائے وہاں جہاں ظاہری معنیٰ لینا ممکن نہ ہو اس لئے اس باب اگر حضرت عیسیٰؑ کی چند باتیں استعارات پر مبنی ہیں تو یہ کہاں سے لازم آگیا کہ سب باتیں ہی استعارات ہیں ؟؟؟؟؟؟؟
یہ بھی یاد رہے کہ حضرت عیسیٰؑ نے طوفان نوح کی مثال صرف بے خبری کے تناظر میں دی ہے لیکن مرزا جی اس سے کچھ اور ہی کشید کر رہے ہیں ۔
جاری ہے
آخری تدوین
: