1893 میں مرزا غلام احمد قادیانی اور پادری عبداللہ آتھم کے درمیان 15 روزہ مباحثہ ہوا ۔ اس مباحثہ میں مرزا صاحب کی کارکردگی کچھ زیادہ جاندار نہیں تھی ۔ مباحثہ کے آخری دن مرزا صاحب نےحسب ذیل الفاظ کے ساتھ ایک پیشگوئی کر دی ۔
'' آج رات جو مجھ پر کھلا ہے وہ یہ ہے کہ جبکہ میں نے بہت تضرع اور ابتہال سے جناب الٰہی میں دعا کی کہ تو اس امر میں فیصلہ کر اور ہم عاجز بندے تیرے ہیں تو اس نے مجھے یہ نشان دیا کہ اس بحث میں دونوں فریقوں میں سے جو فریق عمداً جھوٹ کو اختیار کر رہا ہے اور سچے خدا کو چھوڑ رہا ہے اور عاجز انسان کو خدا بنا رہا ہے وہ انہیں دنوں مباحثہ کے لحاظ سے یعنی فی دن ایک مہینہ لے کر یعنی ۱۵ ماہ تک ہاویہ میں گرایا جائے گا اس کو سخت ذلت پہنچنے گی بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے اور جو شخص سچ پر ہے اور سچے خدا کو مانتا ہے، اس کی عزت ظاہر ہوگی۔''
(روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 292)
اس پیشگوئی کی مزید تشریح اگلے صفحہ پر مرزا صاحب کی طرف سے یوں مندرج ہے:
'' میں اقرار کرتا ہوں کہ اگر یہ پیشگوئی جھوٹی نکلے یعنی وہ فریق جو خدا کے نزدیک جھوٹ پر ہے پندرہ ماہ کے عرصے میں آج کی تاریخ (۵ ؍ جون ۱۸۹۳ء) سے بسزائے موت ہاویہ میں نہ پڑے تو میں ایک سزا کے اٹھانے کے لیے تیار ہوں۔ مجھ کو ذلیل کیا جاوے رو سیاہ کیا جاوے میرے گلے میں رسا ڈال دیا جاوے مجھ کو پھانسی دی جاوے ہر ایک بات کے لیے تیار ہوں۔ اللہ جل شانہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ ضرور وہ ایسا ہی کرے گا۔ ضرور کرے گا، ضرور کرے گا زمین و آسمان ٹل جائیں پر اس کی باتیں نہ ٹلیں گی۔
اب میں ڈپٹی صاحب سے پوچھتا ہوں کہ اگر یہ نشان پورا ہوگیا تو کیا یہ سب آپ کے منشاء کے موافق خدا کی پیشگوئی ٹھہرے گی یا نہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے نبی ہونے کے بارے میں جن کو اندر و نہ بائیبل میں دجال کے لفظ سے آپ نامزد کرتے ہیں، محکم دلیل ہو جائے گی یا نہیں۔ اگر میں جھوٹا ہوں تو میرے لیے سولی تیار رکھو اور تمام شیطانوں اور بدکاروں اور لعنتیوں سے زیادہ مجھے لعنتی قرار دو۔''
الفاظ مذکورہ بالا صاف ہیں کہ ڈپٹی عبداللہ آتھم ۵؍ جون ۱۸۹۳ء سے پندرہ ماہ (۵؍ ستمبر ۱۸۹۴ء) تک بصورت الوہیت مسیح کے نہ چھوڑنے اور سچے خدا کے نہ ماننے کے فوت ہو جائے گا۔ اگر نہ ہو تو مرزا صاحب ایسے اور ویسے، چونکہ مرزا صاحب یہ پیشگوئی کرنے میں مفتری علی اللہ تھے اس لیے یہ پوری نہ ہوئی اور ''مسٹر عبداللہ آتھم بچ گیا''
الغرض مرزا صاحب کی یہ پیشگوئی حرف بہ حرف غلط نکلی
نہ آتھم نے مسحیت سے تائب ہو کر رجوع الحق کیا
نہ وہ 15 ماہ میں مرا
نہ اس کی ذلت ہوئی
نہ مرزا صاحب کی عزت ہوئی بلکہ الٹا خوب رسوا ہوئے
نہ بعض اندھے سوجاکھے ہوئے
نہ بعض لنگڑے چلنے لگے اور
نہ بعض بہرے سننے لگے ۔
مرزا صاحب نے خود اس ذلت و رسوائی کا جو نقشہ کھینچا وہ کچھ یوں ہے ۔
"لیکن پادریوں نے خدا تعالیٰ کا خوف نہ کیا اور امرتسر کے بازاروں میں اس کو لئے پھرے کہ دیکھو آتھم صاحب زندہ موجود ہے اور پیشگوئی جھوٹی نکلی۔ بہت سے پلید طبع مولوی جو نام کے مسلمان تھے اور چند نالائق اور دنیا پرست اخبار والے ان کے ساتھ ہوگئے اور لعن طعن اور تکذیب اور تبراؔ بازی میں ان کے بھائی بن بیٹھے اور بڑے جوش سے اسلام کی خفت کرائی۔ پھر کیا تھا عیسائیوں کو اور بھی موقعہ ہاتھ لگا۔ پس انہوں نے پشاور سے لیکر الہ آباد اور بمبئی اور کلکتہ اور دور دور کے شہروں تک نہایت شوخی سے ناچنا شروع کیا اور دین اسلام پر ٹھٹھے کئے اور یہ سب مولوی یہودی صفت اور اخباروں والے ان کے ساتھ خوش خوش اور ہاتھ میں ہاتھ ملائے ہوئے تھے۔" (خ ج 12 ص 54)
مرزا بشیر احمد سیرۃ المہدی جلد اول ص 166میں لکھتا ہے
" پندرہ ماہ کی آخری رات گزرنے کے بعد جب صبح ہوئی تو آتھم کے دوستوں نے ان کے گلے میں ہار پہنا کر اور ان کو گاڑی میں بٹھا کر سارے شہر میں خوشی کا جلوس پھرایا اور اس دن لوگوں میں شور تھا کہ مرزے کی پیشگوئی جھوٹی نکلی۔"
مرزا صاحب نے آتھم کو مارنے کے لئے ایک دلچسپ ٹوٹکا بھی کیا تھا جس کا احوال سیرت المہدی میں بیان ہوا ہے اس کا سکین پوسٹ کے اینڈ پر لگا دیا جائے گا۔
اب اصولی طور پر تو مرزا صاحب کو اپنی تجویز کردہ سزاوں پر عمل کرنا چاہئے تھا یہ نہ بھی کرتے تو کم ازکم کچھ ندامت کا اظہار ہی کر دیتے لیکن حسب معمول مرزا صاحب نے نہایت ہی نا انصافی سے کام لے کر انتہائی درجہ کے بودے جوابات سے اپنی پیشگوئی کی صداقت پر اصرار کیا اور مندرجہ ذیل عذرات بیان کیے۔
عذرا اوّل:
ابؔ یاد رہے کہ’’ پیشگوئی میں فریق مخالف کے لفظ سے جس کے لئے ہاویہ یا ذلت کا وعدہ تھا ایک گروہ مراد ہے۔ جو اس بحث سے تعلق رکھتا تھا خواہ خود بحث کرنے والا تھا یا معاون یا حامی یا سرگروہ تھا۔ ہاں مقدم سب سے ڈپٹی عبد اللہ آتھم تھا ۔(روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 2)
اس تاویل سے جو مقصود مرزا صاحب کا تھا اسے یوں لکھا ہے کہ '' اس عرصہ میں پادری رائٹ مر گیا جس کی موت سے ڈاکٹر مارٹن کلارک (جو اس مباحثہ میں نہ صرف عیسائیوں کا پریزیڈنٹ تھا، بلکہ ایک دن کا مباحثہ بھی اس نے کیا تھا۔ ناقل) اور اس کے دوستوں کو سخت صدمہ پہنچا۔ (ایضاً صفحہ 59)
جواب:
(۱) مرزا صاحب نے ڈاکٹر مارٹن کلارک کے مقدمہ میں صاحب مجسٹریٹ بہادر ضلع گورداسپور کے سامنے اس معاملے کو بایں الفاظ صاف کردیا ہے کہ:
'' عبداللہ آتھم کی درخواست پر پیشگوئی صرف اس کے واسطے تھی کل متعلقین مباحثہ کی بابت پیشگوئی نہ تھی۔''(خ ج 13 ص 279)
اسی طرح ایک اور جگہ مرزا صاحب نے لکھا ہے:
ابتدا سے ہمارا علم یہی تھا کہ اس پیشگوئی کا مصداق صرف آتھم ہے۔ ہماری نیت میں کبھی کوئی اور نہ تھا۔ ہاں دوسروں پر ہم نے اثر دیکھا ورنہ یہ کہیں نہیں لکھا کہ جیسا عبداللہ آتھم اس پیشگوئی میں شریک ہے دوسرے بھی شریک ہیں۔ اس لیے ہماری پوری اور اصل توجہ صرف آتھم کی طرف رہی اور اب تک اسی کو اصل مصداق پیشگوئی کا سمجھتے ہیں۔(خ ج13 ص 299)
معاملہ صاف ہوگیا کہ مرزا صاحب کا انوار الاسلام میں دیگر عیسائیوں کو اس پیشگوئی میں لپیٹنا محض دفع الوقتی کے لیے کذب بیانی تھی۔
(۲) اگر ایک طرف مارٹن کلاک کا دوست مر گیا تو دوسری طرف انہی دنوں میں مرزا صاحب کے مقرب اور اخص حواری مولوی نورالدین کا لڑکا بھی مر گیا۔ (خ ج 9 ص 299)
حساب برابر
عذر دوم از مرزا صاحب:
'' آتھم کی موت کی پیشگوئی ہماری ذاتی رائے تھی۔ اصل پیشگوئی میں ہاویہ کا لفظ ہے اور پیشگوئی کے دنوں میں عبداللہ آتھم کا ڈرتے رہنا اور شہر بہ شہر بھاگتے پھرنا یہی اس کا ہاویہ ہے۔''(مفہوماً خ ج 9 ص 5،2)
اگر ہاویہ کے لفظ سے الہام میں موت مراد نہ تھی تو پھر مرزا صاحب نے یہ کیسے لکھا کہ،
1: الہامی عبارت میں شرطی طور پر عذاب موت کا وعدہ تھا۔ (خ ج 9 ص 5)
2: آتھم نے رجوع کا حصہ لے لیا جس حصہ نے اس کے وعدۂ موت میں تاخیر ڈال دی۔ (خ ج 9 ص 2)
3: نفس پیشگوئی تو اس کی موت تھی۔ (خ ج 22 ص 194)
اب فرمائیں '' یہ موت کا وعدہ'' نفس پیشگوئی موت یہ کس کی طرف سے تھے؟
یہ تو ہوا موت والی تشریح کا ذکر! اب سنیے آتھم کے دلی رجوع اور خوف کا جواب۔
مرزا صاحب کا یہ مباحثہ اسلام و عیسائیت کی صداقت پر تھا جس کو آخری دن ان الفاظ میں ختم کیا کہ:
'' جو فریق عمداً جھوٹ اختیار کر رہا ہے اور سچے خدا کو چھوڑ رہا ہے اور عاجز انسان کو خدا بنا رہا ہے وہ ۱۵ ماہ تک ہاویہ میں گرایا جاوے گا۔''
ان سے جو ظاہر ہوتا ہے وہ ہر دانا بلکہ معمولی دماغ والا انسان بھی سمجھ سکتا ہے کہ جب تک مسٹر آتھم ''جھوٹے خدا یعنی اعتقاد الوہیت مسیح'' کو نہ چھوڑیں گے اور سچے معبود خالق السموت والارض وما بینھما پر ایمان نہ لائیں گے یقینا موت کے منہ میں چلے جائیں گے۔ اسی مضمون کو مرزا صاحب نے اپنی دیگر تصانیف میں یوں ادا کیا ہے:
۱: پیشگوئی میں یہ بیان تھا کہ فریقین میں جو شخص اپنے عقیدہ کی رو سے جھوٹا ہے وہ پہلے مرے گا۔ (خ ج 19 ص 6)
۲: پیشگوئی میں صاف شرط موجود تھی کہ اگر وہ عیسائیت پر مستقیم رہیں گے اور ترک استقامت کے آثار نہیں پائے جائیں گے اور ان کے افعال یا اقوال سے رجوع الی الحق ثابت نہیں ہوگا تو صرف اس حالت میں پیشگوئی کے اندر فوت ہوں گے۔ (خ ج 13 ص 11)
۳: ''وَانْ یسلمن یَسْلم والا فمیت۔'' یعنی اگر وہ اسلام لائے گا تو بچے گا ورنہ مر جائے گا۔(خ ج 7 ص 82)
اس کے مقابل مسٹر عبداللہ آتھم کے الفاظ پڑھئے۔ ڈپٹی صاحب کا بیان اخبار وفادار ۱۵ ستمبر ۹۴ء میں درج ہے کہ:
'' مرزا صاحب کہتے ہیں کہ آتھم نے دل میں اسلام قبول کرلیا ہے اس لیے نہیں مرا، ان کو اختیار ہے جو چاہیں کہیں اس کو خدا نے جھوٹا کیا جو تاویل کریں کون روک سکتا ہے مرزا صاحب بھی یہی لکھتے ہیں کہ بے حیا جو چاہے بکے کون اس کو روکتا ہے (ص ۳ اعجاز احمدی۔ ناقل) میں دل سے اور ظاہراً پہلے بھی عیسائی تھا اور اب بھی ہوں اب میری عمر ۶۸ سال سے زیادہ ہے اور جو کوئی چاہے پیشگوئی کرسکتا ہے کہ ایک سو سال کے اندر اندر اس وقت کے جو باشندے دنیا پر میں سب مر جاویں گے۔''
اس خط میں مسٹر آتھم نے نہ صرف کسی قسم کے رجوع سے ہی انکار کیا ہے بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث اور مرزا صاحب کی آئندہ گول مول پیشگوئی پر بھی چبتا ہوا حملہ کیا ہے یعنی مرزا صاحب جو کہتے ہیں کہ اگرچہ آتھم میعاد میں نہیں مرا مگر مر ضرور جائے گا۔ خدا اس کو نہیں چھوڑے گا وغیرہ یہ سب ڈھکو سلے اب کام نہیں آسکتے کیونکہ میں نے آخر کو تو مرنا ہے۔
بہرحال مسٹر آتھم رجوع سے انکاری ہے اس خط پر کیا موقوف ہے خود مرزا صاحب نے آتھم کے انکاری بیانات کو اپنے اشتہارات انعامی تین ہزار ص ۱۳ وغیرہ میں نقل کیا ہے۔ پس ان ظاہری اور صاف بینات سے ہوتے ہوئے یہ کہنا کہ وہ دل سے ڈر گیا تھا سوائے ڈھٹائی کے اور کچھ نہیں۔ (جاری ہے)
'' آج رات جو مجھ پر کھلا ہے وہ یہ ہے کہ جبکہ میں نے بہت تضرع اور ابتہال سے جناب الٰہی میں دعا کی کہ تو اس امر میں فیصلہ کر اور ہم عاجز بندے تیرے ہیں تو اس نے مجھے یہ نشان دیا کہ اس بحث میں دونوں فریقوں میں سے جو فریق عمداً جھوٹ کو اختیار کر رہا ہے اور سچے خدا کو چھوڑ رہا ہے اور عاجز انسان کو خدا بنا رہا ہے وہ انہیں دنوں مباحثہ کے لحاظ سے یعنی فی دن ایک مہینہ لے کر یعنی ۱۵ ماہ تک ہاویہ میں گرایا جائے گا اس کو سخت ذلت پہنچنے گی بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے اور جو شخص سچ پر ہے اور سچے خدا کو مانتا ہے، اس کی عزت ظاہر ہوگی۔''
(روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 292)
اس پیشگوئی کی مزید تشریح اگلے صفحہ پر مرزا صاحب کی طرف سے یوں مندرج ہے:
'' میں اقرار کرتا ہوں کہ اگر یہ پیشگوئی جھوٹی نکلے یعنی وہ فریق جو خدا کے نزدیک جھوٹ پر ہے پندرہ ماہ کے عرصے میں آج کی تاریخ (۵ ؍ جون ۱۸۹۳ء) سے بسزائے موت ہاویہ میں نہ پڑے تو میں ایک سزا کے اٹھانے کے لیے تیار ہوں۔ مجھ کو ذلیل کیا جاوے رو سیاہ کیا جاوے میرے گلے میں رسا ڈال دیا جاوے مجھ کو پھانسی دی جاوے ہر ایک بات کے لیے تیار ہوں۔ اللہ جل شانہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ ضرور وہ ایسا ہی کرے گا۔ ضرور کرے گا، ضرور کرے گا زمین و آسمان ٹل جائیں پر اس کی باتیں نہ ٹلیں گی۔
اب میں ڈپٹی صاحب سے پوچھتا ہوں کہ اگر یہ نشان پورا ہوگیا تو کیا یہ سب آپ کے منشاء کے موافق خدا کی پیشگوئی ٹھہرے گی یا نہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے نبی ہونے کے بارے میں جن کو اندر و نہ بائیبل میں دجال کے لفظ سے آپ نامزد کرتے ہیں، محکم دلیل ہو جائے گی یا نہیں۔ اگر میں جھوٹا ہوں تو میرے لیے سولی تیار رکھو اور تمام شیطانوں اور بدکاروں اور لعنتیوں سے زیادہ مجھے لعنتی قرار دو۔''
الفاظ مذکورہ بالا صاف ہیں کہ ڈپٹی عبداللہ آتھم ۵؍ جون ۱۸۹۳ء سے پندرہ ماہ (۵؍ ستمبر ۱۸۹۴ء) تک بصورت الوہیت مسیح کے نہ چھوڑنے اور سچے خدا کے نہ ماننے کے فوت ہو جائے گا۔ اگر نہ ہو تو مرزا صاحب ایسے اور ویسے، چونکہ مرزا صاحب یہ پیشگوئی کرنے میں مفتری علی اللہ تھے اس لیے یہ پوری نہ ہوئی اور ''مسٹر عبداللہ آتھم بچ گیا''
الغرض مرزا صاحب کی یہ پیشگوئی حرف بہ حرف غلط نکلی
نہ آتھم نے مسحیت سے تائب ہو کر رجوع الحق کیا
نہ وہ 15 ماہ میں مرا
نہ اس کی ذلت ہوئی
نہ مرزا صاحب کی عزت ہوئی بلکہ الٹا خوب رسوا ہوئے
نہ بعض اندھے سوجاکھے ہوئے
نہ بعض لنگڑے چلنے لگے اور
نہ بعض بہرے سننے لگے ۔
مرزا صاحب نے خود اس ذلت و رسوائی کا جو نقشہ کھینچا وہ کچھ یوں ہے ۔
"لیکن پادریوں نے خدا تعالیٰ کا خوف نہ کیا اور امرتسر کے بازاروں میں اس کو لئے پھرے کہ دیکھو آتھم صاحب زندہ موجود ہے اور پیشگوئی جھوٹی نکلی۔ بہت سے پلید طبع مولوی جو نام کے مسلمان تھے اور چند نالائق اور دنیا پرست اخبار والے ان کے ساتھ ہوگئے اور لعن طعن اور تکذیب اور تبراؔ بازی میں ان کے بھائی بن بیٹھے اور بڑے جوش سے اسلام کی خفت کرائی۔ پھر کیا تھا عیسائیوں کو اور بھی موقعہ ہاتھ لگا۔ پس انہوں نے پشاور سے لیکر الہ آباد اور بمبئی اور کلکتہ اور دور دور کے شہروں تک نہایت شوخی سے ناچنا شروع کیا اور دین اسلام پر ٹھٹھے کئے اور یہ سب مولوی یہودی صفت اور اخباروں والے ان کے ساتھ خوش خوش اور ہاتھ میں ہاتھ ملائے ہوئے تھے۔" (خ ج 12 ص 54)
مرزا بشیر احمد سیرۃ المہدی جلد اول ص 166میں لکھتا ہے
" پندرہ ماہ کی آخری رات گزرنے کے بعد جب صبح ہوئی تو آتھم کے دوستوں نے ان کے گلے میں ہار پہنا کر اور ان کو گاڑی میں بٹھا کر سارے شہر میں خوشی کا جلوس پھرایا اور اس دن لوگوں میں شور تھا کہ مرزے کی پیشگوئی جھوٹی نکلی۔"
مرزا صاحب نے آتھم کو مارنے کے لئے ایک دلچسپ ٹوٹکا بھی کیا تھا جس کا احوال سیرت المہدی میں بیان ہوا ہے اس کا سکین پوسٹ کے اینڈ پر لگا دیا جائے گا۔
اب اصولی طور پر تو مرزا صاحب کو اپنی تجویز کردہ سزاوں پر عمل کرنا چاہئے تھا یہ نہ بھی کرتے تو کم ازکم کچھ ندامت کا اظہار ہی کر دیتے لیکن حسب معمول مرزا صاحب نے نہایت ہی نا انصافی سے کام لے کر انتہائی درجہ کے بودے جوابات سے اپنی پیشگوئی کی صداقت پر اصرار کیا اور مندرجہ ذیل عذرات بیان کیے۔
عذرا اوّل:
ابؔ یاد رہے کہ’’ پیشگوئی میں فریق مخالف کے لفظ سے جس کے لئے ہاویہ یا ذلت کا وعدہ تھا ایک گروہ مراد ہے۔ جو اس بحث سے تعلق رکھتا تھا خواہ خود بحث کرنے والا تھا یا معاون یا حامی یا سرگروہ تھا۔ ہاں مقدم سب سے ڈپٹی عبد اللہ آتھم تھا ۔(روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 2)
اس تاویل سے جو مقصود مرزا صاحب کا تھا اسے یوں لکھا ہے کہ '' اس عرصہ میں پادری رائٹ مر گیا جس کی موت سے ڈاکٹر مارٹن کلارک (جو اس مباحثہ میں نہ صرف عیسائیوں کا پریزیڈنٹ تھا، بلکہ ایک دن کا مباحثہ بھی اس نے کیا تھا۔ ناقل) اور اس کے دوستوں کو سخت صدمہ پہنچا۔ (ایضاً صفحہ 59)
جواب:
(۱) مرزا صاحب نے ڈاکٹر مارٹن کلارک کے مقدمہ میں صاحب مجسٹریٹ بہادر ضلع گورداسپور کے سامنے اس معاملے کو بایں الفاظ صاف کردیا ہے کہ:
'' عبداللہ آتھم کی درخواست پر پیشگوئی صرف اس کے واسطے تھی کل متعلقین مباحثہ کی بابت پیشگوئی نہ تھی۔''(خ ج 13 ص 279)
اسی طرح ایک اور جگہ مرزا صاحب نے لکھا ہے:
ابتدا سے ہمارا علم یہی تھا کہ اس پیشگوئی کا مصداق صرف آتھم ہے۔ ہماری نیت میں کبھی کوئی اور نہ تھا۔ ہاں دوسروں پر ہم نے اثر دیکھا ورنہ یہ کہیں نہیں لکھا کہ جیسا عبداللہ آتھم اس پیشگوئی میں شریک ہے دوسرے بھی شریک ہیں۔ اس لیے ہماری پوری اور اصل توجہ صرف آتھم کی طرف رہی اور اب تک اسی کو اصل مصداق پیشگوئی کا سمجھتے ہیں۔(خ ج13 ص 299)
معاملہ صاف ہوگیا کہ مرزا صاحب کا انوار الاسلام میں دیگر عیسائیوں کو اس پیشگوئی میں لپیٹنا محض دفع الوقتی کے لیے کذب بیانی تھی۔
(۲) اگر ایک طرف مارٹن کلاک کا دوست مر گیا تو دوسری طرف انہی دنوں میں مرزا صاحب کے مقرب اور اخص حواری مولوی نورالدین کا لڑکا بھی مر گیا۔ (خ ج 9 ص 299)
حساب برابر
عذر دوم از مرزا صاحب:
'' آتھم کی موت کی پیشگوئی ہماری ذاتی رائے تھی۔ اصل پیشگوئی میں ہاویہ کا لفظ ہے اور پیشگوئی کے دنوں میں عبداللہ آتھم کا ڈرتے رہنا اور شہر بہ شہر بھاگتے پھرنا یہی اس کا ہاویہ ہے۔''(مفہوماً خ ج 9 ص 5،2)
اگر ہاویہ کے لفظ سے الہام میں موت مراد نہ تھی تو پھر مرزا صاحب نے یہ کیسے لکھا کہ،
1: الہامی عبارت میں شرطی طور پر عذاب موت کا وعدہ تھا۔ (خ ج 9 ص 5)
2: آتھم نے رجوع کا حصہ لے لیا جس حصہ نے اس کے وعدۂ موت میں تاخیر ڈال دی۔ (خ ج 9 ص 2)
3: نفس پیشگوئی تو اس کی موت تھی۔ (خ ج 22 ص 194)
اب فرمائیں '' یہ موت کا وعدہ'' نفس پیشگوئی موت یہ کس کی طرف سے تھے؟
یہ تو ہوا موت والی تشریح کا ذکر! اب سنیے آتھم کے دلی رجوع اور خوف کا جواب۔
مرزا صاحب کا یہ مباحثہ اسلام و عیسائیت کی صداقت پر تھا جس کو آخری دن ان الفاظ میں ختم کیا کہ:
'' جو فریق عمداً جھوٹ اختیار کر رہا ہے اور سچے خدا کو چھوڑ رہا ہے اور عاجز انسان کو خدا بنا رہا ہے وہ ۱۵ ماہ تک ہاویہ میں گرایا جاوے گا۔''
ان سے جو ظاہر ہوتا ہے وہ ہر دانا بلکہ معمولی دماغ والا انسان بھی سمجھ سکتا ہے کہ جب تک مسٹر آتھم ''جھوٹے خدا یعنی اعتقاد الوہیت مسیح'' کو نہ چھوڑیں گے اور سچے معبود خالق السموت والارض وما بینھما پر ایمان نہ لائیں گے یقینا موت کے منہ میں چلے جائیں گے۔ اسی مضمون کو مرزا صاحب نے اپنی دیگر تصانیف میں یوں ادا کیا ہے:
۱: پیشگوئی میں یہ بیان تھا کہ فریقین میں جو شخص اپنے عقیدہ کی رو سے جھوٹا ہے وہ پہلے مرے گا۔ (خ ج 19 ص 6)
۲: پیشگوئی میں صاف شرط موجود تھی کہ اگر وہ عیسائیت پر مستقیم رہیں گے اور ترک استقامت کے آثار نہیں پائے جائیں گے اور ان کے افعال یا اقوال سے رجوع الی الحق ثابت نہیں ہوگا تو صرف اس حالت میں پیشگوئی کے اندر فوت ہوں گے۔ (خ ج 13 ص 11)
۳: ''وَانْ یسلمن یَسْلم والا فمیت۔'' یعنی اگر وہ اسلام لائے گا تو بچے گا ورنہ مر جائے گا۔(خ ج 7 ص 82)
اس کے مقابل مسٹر عبداللہ آتھم کے الفاظ پڑھئے۔ ڈپٹی صاحب کا بیان اخبار وفادار ۱۵ ستمبر ۹۴ء میں درج ہے کہ:
'' مرزا صاحب کہتے ہیں کہ آتھم نے دل میں اسلام قبول کرلیا ہے اس لیے نہیں مرا، ان کو اختیار ہے جو چاہیں کہیں اس کو خدا نے جھوٹا کیا جو تاویل کریں کون روک سکتا ہے مرزا صاحب بھی یہی لکھتے ہیں کہ بے حیا جو چاہے بکے کون اس کو روکتا ہے (ص ۳ اعجاز احمدی۔ ناقل) میں دل سے اور ظاہراً پہلے بھی عیسائی تھا اور اب بھی ہوں اب میری عمر ۶۸ سال سے زیادہ ہے اور جو کوئی چاہے پیشگوئی کرسکتا ہے کہ ایک سو سال کے اندر اندر اس وقت کے جو باشندے دنیا پر میں سب مر جاویں گے۔''
اس خط میں مسٹر آتھم نے نہ صرف کسی قسم کے رجوع سے ہی انکار کیا ہے بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث اور مرزا صاحب کی آئندہ گول مول پیشگوئی پر بھی چبتا ہوا حملہ کیا ہے یعنی مرزا صاحب جو کہتے ہیں کہ اگرچہ آتھم میعاد میں نہیں مرا مگر مر ضرور جائے گا۔ خدا اس کو نہیں چھوڑے گا وغیرہ یہ سب ڈھکو سلے اب کام نہیں آسکتے کیونکہ میں نے آخر کو تو مرنا ہے۔
بہرحال مسٹر آتھم رجوع سے انکاری ہے اس خط پر کیا موقوف ہے خود مرزا صاحب نے آتھم کے انکاری بیانات کو اپنے اشتہارات انعامی تین ہزار ص ۱۳ وغیرہ میں نقل کیا ہے۔ پس ان ظاہری اور صاف بینات سے ہوتے ہوئے یہ کہنا کہ وہ دل سے ڈر گیا تھا سوائے ڈھٹائی کے اور کچھ نہیں۔ (جاری ہے)
آخری تدوین
: