پاکستان اور قادیانیت
۱۹۴۷ء میں پاکستان بنا۔ قادیانی جماعت کا لاٹ پادری مرزا محمود قادیان چھوڑ کر پاکستان آگیا۔ پنجاب کے پہلے انگریز گورنر موڈی کے حکم پر چنیوٹ کے قریب ان کو لب دریا ایک ہزار چونتیس ایکڑ زمین عطیہ کے طور پر الاٹ کی گئی۔ فی مرلہ ایک آنہ کے حساب سے صرف رجسٹری کے کل اخراجات 10,034/-روپے وصول کئے۔ قادیانیوں نے بلاشرکت غیرے وہاں پر اپنی اسٹیٹ ’’مرزائیل‘‘ کی اسرائیل کی طرز پر بنیاد رکھی۔ ظفراﷲ قادیانی پاکستان کا پہلا وزیر خارجہ بنا۔ اس نے سرکاری خزانہ سے آب و دانہ کھا کر قادیانیت کو دنیا بھر میں متعارف کرایا۔ انگریز خود چلا گیا۔ مگر جاتے ہوئے اسلامیان برصغیر کے لئے اپنی لے پالک اولاد قادیانیت کے لئے ایک مضبوط بیس مہیا کرگیا۔ قادیانی علی الاعلان اقتدار کے خواب دیکھنے لگے۔ ان پر کوئی روک ٹوک نہ تھی۔ قادیانیوں کی تعلّی اور لن ترانیاں دیکھ کر اسلامیان پاکستان کا ہردرد رکھنے والا شخص اس صورت سے پریشان تھا۔ قادیانی منہ زور گھوڑے کی طرح ہوا پر سوار تھے۔ ملک میں جداگانہ طرز انتخاب پر الیکشن کرانے کا فیصلہ کیا گیا۔ لیکن قادیانیوں کو مسلمانوں کا حصہ شمار کیا گیا۔ چنانچہ اس صورت حال کو دیکھ کر حضرت امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاریؒ نے شیر اسلام حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ اور مجاہد ملت حضرت مولانا محمد علی جالندھریؒ کو بریلوی مکتبہ فکر کے رہنما مولانا ابوالحسنات قادریؒ کے ہاں بھیجا۔ دیوبندی، بریلوی، اہلحدیث ، شیعہ مکاتب فکر اکٹھے ہوئے اور قادیانیوں کے خلاف تحریک چلی۔ جسے تحریک ختم نبوت ۱۹۵۳ء کہا جاتا ہے۔ اس تحریک میں مرکزی کردار ابنائے دارالعلوم دیوبند کا تھا۔ اس تحریک نے قادیانیوں کے منہ زور گھوڑے کو لنگڑا کردیا۔ ظفر اﷲ قادیانی ملعون اپنی وزارت سے آنجہانی ہوگیا۔ قادیانیت کی اس تڑاخ سے ہڈیاں ٹوٹیں کہ وہ زمین پر رینگنے لگی۔ عقیدئہ ختم نبوت کی ان عظیم خدمات پر دارالعلوم دیوبند کے فیض یافتگان کو جتنا خراج تحسین پیش کیا جائے کم ہے۔
قبل ازیں ۱۹۴۹ء میں مجلس تحفظ ختم نبوت کے نام سے جس پلیٹ فارم کا اعلان ہوا تھا۔ ۱۹۵۳ء کی تحریک ختم نبوت کے بعد اسے مستقل جماعت کے طور پر قادیانیت کے احتساب کے لئے منظم کیا گیا جبکہ سیاسی و مذہبی طور پر اسلامیان پاکستان کی رہنمائی اور اسلامی نظام کے نفاذ اور اشاعت دین کے لئے ’’جمعیت علمائے اسلام پاکستان‘‘ کی تشکیل کی گئی۔ یہ سب ابنائے دارالعلوم کا کارنامہ ہے۔ جمعیت علمائے اسلام پاکستان نے ایوبی دور میں مغربی پاکستان اسمبلی میں شیر اسلام مولانا غلام غوث ہزارویؒ اور قومی اسمبلی میں مفکر اسلام مولانا مفتی محمودؒ کی قیادت باسعادت میں ’’تحفظ ختم نبوت‘‘ کے لئے جو خدمات انجام دیں۔ وہ تاریخ کا حصہ ہیں۔ غرض مذہبی اور سیاسی اعتبار سے قادیانیت کا احتساب کیا گیا ’’مغربی آقائوں‘‘ کے اشارے پر قادیانی ’’فوج‘‘ و دیگر سرکاری دوائر میں سرگرم عمل تھے۔ علمائے کرام کی مستقل جماعت مولانا احمد علی لاہوریؒ مولانا سید عطاء اﷲ شاہ بخاریؒ، مولانا غلام غوث ہزارویؒ، مولانا مفتی محمودؒ، مولانا قاضی احسان احمدشجاع آبادیؒ، مولانا گل بادشاہؒ، مولانا محمد یوسف بنوریؒ، مولانا خیر محمد جالندھریؒ، مولانا تاج محمودؒ، مولانا لال حسین اخترؒ، مولانا مفتی محمد شفیعؒ، مولانا عبدالرحمن میانویؒ، مولانا محمد حیاتؒ، مولانا عبدالقیومؒ، مولانا عبدالواحدؒ، مولانا محمد عبداﷲ درخواستی ؒ اور ان کے ہزاروں شاگرد لاکھوں متوسلین کروڑوں متعلقین نے جو خدمات سرانجام دیں۔ وہ سب دارالعلوم کا فیضان نظر ہے۔ سب اسماء گرامی کا استحضار و احصاء ممکن نہیں۔ وہ سب حضرات جنہوں نے اس سلسلہ میں خدمات سرانجام دیں۔ وہ ہمارے ان الفاظ کے لکھنے کے محتاج نہیں۔ وہ یقینا رب کریم کے حضور اپنے حسنات کا اجر پاچکے ۔(فنعم اجر العاملین)