پہلی دلیل: نبی آخر الزمان ﷺ کا انتظار اہل کتاب آخری نبیﷺ کے وسیلے سے دعا کرتے تھے
اُس زمانے میں اہل کتاب آخری نبی کے آنے کا انتظار کرتے تھے ارشاد باری تعالیٰ ہے :{ وَلَمَّا جَآئَ ھُمْ کِتٰبٌ مِّنْ عِنْدِ اللّٰہِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَھُمْ وَکَانُوْا مِنْ قَبْلُ یَسْتَفْتِحُوْنَ عَلَی الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فَلَمَّا جَآئَ ھُمْ مَّاعَرَفُوْا کَفَرُوْا بِہٖ فَلَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الْکٰـفِرِیْنَ }(البقرۃ :۸۹)اور جب ان کے پاس وہ کتاب آئی جو اس کی تصدیق کرتی تھی جو ان کے پاس ہے اور وہ اس سے پہلے فتح مانگا کرتے تھے کافروں پر تو جب آئی ان کے پاس وہ جس کو انہوں نے پہچانا تو اس کا انکا رکیا پس لعنت ہے کافروں پر۔
علماء تفسیر نے یہ بات ذکر کی کہ اللہ تعالیٰ کے قول{ یَسْتَفْتِحُوْنَ عَلَی الَّذِیْنَ کَفَرُوْا }کا معنی یہ ہے کہ وہ کافروں پر فتح مانگا کرتے تھے کہا کرتے تھے{ اَللّٰھُمَّ انْصُرْنَا عَلَیْہِمْ بِالنَّبِیِّ الْمَبْعُوْثِ آخِرَ الزَّمَانِ }(اے اللہ ہماری ان پر مدد فرمایا اس نبی کی برکت سے جس کو آخری زمانہ میں بھیجا جائے گا)
(دیکھئے تفسیر جلالین ص۱۹)
مفتی اعظم مفتی محمد شفیع ؒ لکھتے ہیں یہودی حضرت خاتم الانبیاء ﷺ کا ساتھ دینے کی نیت سے شام سے مدینہ آئے تھے ان کو پتہ تھا کہ آپﷺ ہجرت کرکے مدینہ آئیں گے لیکن حسد کرگئے کہ آپ ﷺان کے خاندان سے نہیں
(معارف القرآن ج۷ ص۷۷۰ ،ج۸ص۳۵۸)
اور جب یہود کو اول دن سے پتہ تھا کہ آپﷺ خاتم النبیین ہیں تو لامحالہ نبی ﷺ کوبھی شروع نبوت سے اپنے خاتم النبیین ہونے کا علم تھااب ختم نبوت کا عقیدہ نبی ﷺ پر ایمان لانے سے کیسے جدا ہوسکتا ہے جبکہ یہ عقیدہ نبی ﷺ کی آمد سے قبل ہی معروف تھا۔نبی کریم ﷺ کے بعد امت کو اول تو تیس کذابین کا خطرہ رہا ان کے بعد جب دجال آئے گا تو عیسی علیہ السلام کا انتظارکریں گے کسی نئے نبی کا انتظار اس امت کو کبھی نہ ہوا۔
یَارَبِّ صَلِّ وَسَلِّمْ دَائِمًا أَبَدًا
عَلیٰ حَبِیْبِکَ خَیْرِ الْخَلْقِ کُلِّھِمٖ