• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

چائے کے وقفے کے بعد دوبارہ کمیٹی کا اجلاس

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
چائے کے وقفے کے بعد دوبارہ کمیٹی کا اجلاس
(The Special committee re-assembled after tea break, Mr. Chairmnan (Sahibzada Farooq Ali) in the Chair)
(چائے کے وقفہ کے بعد خصوصی کمیٹی کا اجلاس دوبارہ شروع ہوا۔ جناب چیئرمین (صاحبزادہ فاروق علی) اپنی سیٹ پر)
Mr. Chairman: The Delegation may be called. Up to 10:15. We will sit up to 10:15
(جناب چیئرمین: وفد کو بلا لیں، ہم 10:15 تک کارروائی کریں گے)
1077(The Delegation entered the Chamber)
( وفد ہال میں داخل ہوا)
Mr. Chairman: Yes, Mr. Attorney General.
(جناب چیئرمین: جی اٹارنی جنرل صاحب)
جناب یحییٰ بختیار: یہ، مرزا صاحب ! یہ جہاد کے متعلق مجھے کچھ خیال ہے کہ مجھے کچھ Pages معلوم نہیں تھے۔ میں نے کتاب نکلوالی ہے۔ یہ ’’تبلیغ رسالت‘‘ سے، حصہ دوم، یہاں لکھا ہوا ہے Page (صفحہ) جلد ہفتم … Page17 پر ہے۔
’’میرے اصولوں، اعتقادوں اور ہداییتوں میں کوئی عمل جنگجوئی و فساد کا نہیں…‘‘
یہاں تک تو بالکل Clear ہے، کہ جنگجوئی، فساد تو ٹھیک بات نہیں: ’’… اور میں یقین رکھتا ہوں کہ جیسے جیسے میرے مرید بڑھیں گے ویسے ویسے ہی مسئلہ جہاد کے معتقد کم ہوتے جائیں گے۔ کیونکہ مجھے مسیح اور مہدی زمان مان لینا ہی مسئلہ جہاد سے انکار کرنا ہے۔‘‘
(مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۱۹)
اس کی Clarification کی ضرورت ہوگی کیونکہ ایک طرف تو وہ فرماتے ہیں کہ ’’جنگجوئی‘‘ وہ تو ٹھیک ہے اور بعد میں وہ فرماتے ہیں کہ: ’’میں یقین رکھتا ہوں کہ جیسے جیسے میرے مرید بڑھتے جائیں گے ویسے ویسے ہی مسئلہ جہاد کے معتقد کم ہوتے جائیں گے۔ کیونکہ مجھے مسیح اور مہدی زمان مان لینا ہی مسئلہ جہاد سے انکار کرنا ہے۔‘‘
تو ایک طرف تو آپ نے کہا کہ کیونکہ حالات ایسے ہیں کہ وہ ملتوی ہے اور یہاں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ مسیح آگیا ہے اور مہدی زمان آگیا ہے، اس لئے جہاد کی ضرورت نہیں، اگر میں اس کو صحیح سمجھا ہوں۔
مرزا ناصر احمد: نہیں، ٹھیک ہے، یہ میں نے جو صرف ایک حوالہ، ا س سے تو مسئلہ حل نہیں ناں ہوتا اور حوالے بھی دیکھنے پڑیں گے۔
1078جناب یحییٰ بختیار: نہیں، وہ تو ٹھیک ہے۔ میں کہنا چاہتا ہوں کہ ایک آپ، یہ جو ہے ناں، اس کا آپ اگر تھوڑا سا Explain (واضح) کردیں۔
مرزا ناصر احمد: جی اس کے Explanation (وضاحت) کئی ہوسکتے ہیں۔ ایک تو یہاں ’’جہاد‘‘ سے شرعی اسلامی جہاد مراد نہیں، بلکہ جہاد کی وہ غلط Conception (تصور) ہے جو اس زمانہ میں پائی جاتی تھی اور یہاں یہ فرمایا ہے کہ: ’’جوں جوں میں اس مسئلے کو واضح کرتا چلا جاؤں گا کہ اسلام کے نزدیک یہ جہاد ہے اور تمہارا موجودہ تصور جہاد درست نہیں ہے، تو جو موجودہ غلط تصور ہے اس کے معتقدین کی تعداد بڑھنے سے وہ دوسروں کی تعداد کم ہوتی چلی جائے گی۔‘‘ اور دوسرے وہ جو ہے شرائط کے متعلق، وہ بھی اس کے ساتھ آئے گا کہ اگر یقین لوگوں کے نزدیک شرائط جہاد ہیں … یہ کوئی ایسا بھی ہوسکتا ہے … حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے بڑی وضاحت سے یہ تحریر فرمایا ہے کہ جب بھی جہاد کی شرائط موجود ہوں، لڑنا پڑے گا۔ یہ فرض ہے مسلمان احمدی کا۔ سارے فرقوں کا یہ Common (مشترکہ) مسئلہ ہے، کوئی علیحدہ تو نہیں۔
مثلاً ایک میں چھوٹا سا حوالہ میں پڑھ دیتا ہوں اس کے مقابلے میں، ان دونوں کو ملا کر … یہ ’’نورالحق‘‘ حصہ دوم میں ہے: ’’… بلکہ صرف ان لوگوں کے ساتھ لڑنے کا حکم فرماتا ہے جو خدا تعالیٰ کے بندوں کو ایمان لانے سے روکیں اور اس بات سے روکیں کہ وہ خدا تعالیٰ کے حکموں پر کاربند ہوں اور اس کی عبادت کریں، اور ان لوگوں کے ساتھ لڑنے کے لئے حکم فرماتا ہے جو مسلمانوں سے بے وجہ لڑتے ہیں اور مؤمنوں کو ان کے گھروں اور وطنوں سے نکالتے ہیں اور خلق اللہ کو جبراً اپنے دین میں داخل کرتے ہیں اور دین اسلام کو نابود کرنا چاہتے ہیں اور لوگوں کو مسلمان ہو1079نے سے روکتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پر خدا تعالیٰ کا غضب ہے اور مومنوں پر واجب ہے جو ان سے لڑیں اگر وہ باز نہ آویں۔‘‘
تو یہاں جہاد کی ان شرائط کے پورا ہونے کے ساتھ جہاد کے وجوب کا فتویٰ دے دیا۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، مرزا صاحب ! میں جو پوزیشن Clarify (واضح) کرانا چاہتا تھا، ایک تو آپ نے فرمایا کہ جہاد کی بعض شرائط ہوتی ہیں، اگر وہ شرائط موجود ہوں تو جہاد فرض ہوجاتا ہے، ورنہ جائز نہیں۔ پھر دوسرا ساتھ یہ سوال آجاتا ہے کہ چونکہ وہ مسیح موعود ہیں، مہدی آخرالزمان ہیں، ان کے آنے کی وجہ سے جہاد بالکل ہی ختم ہے۔ اب یہ کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ حالات ہوں یا نہ ہوں یہ میں اس وقت پوزیشن…
مرزا ناصر احمد: ہاں نہیں، یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: یہ پوزیشن نہیں ہے؟
مرزا ناصر احمد: نہیں، یہ پوزیشن نہیں ہے، بالکل نہیں ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: ’’… جیسا کہ حدیثوں میں پہلے لکھا گیا تھا کہ جب مسیح آئے گا تو دین کے لئے لڑنا حرام کیا جائے گا…‘‘ (مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۲۸۴)
مرزا ناصر احمد: کوئی شرائط پوری نہیں ہوں گی اور…
جناب یحییٰ بختیار: ’’… سو آج سے دین کے لئے لڑنا حرام کیا گیا۔‘‘ (ایضاً) تو یہ تو ملتوی نہیں ہوا۔
مرزا ناصر احمد: وہ دوسری جگہ ملتوی کرنے کا لکھا ہوا ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، یہ میں کہہ رہا ہوں کہ دونوں کے لئے…
1080مرزا ناصر احمد: دین کے لئے وہ کردیا گیا التوا۔ وہ اردو کے شعروں میں ہے کہ وہ دینی جنگوں کا التوا کردے گا، میرا طلب صرف ایک ہے، اصولی، کہ تمام اقتباسات سامنے رکھ کر پھر ہم صحیح نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں۔
جناب یحییٰ بختیار: مرزا صاحب ! میں اسی لئے تو آپ سے درخواست کررہا ہوں کہ آپ کا اپنا جو Concept (تصور) ہے…
مرزاناصر احمد: میرا تصور یہ ہے کہ شرائط پوری ہوں تو ہر مومن کے لئے جہاد کرنا تلوار کے ساتھ…
جناب یحییٰ بختیار: وہ میں سمجھ گیا۔ کیونکہ میرے پاس حوالے تھے لیکن کتاب نہیں تھی، اس لئے میں نے ان سے کہا کہ مجھے دے دیجئے …
مرزا ناصر احمد: اس روشنی میں اس کی Interpretation (تعبیر) ہوگی۔
جناب یحییٰ بختیار: ’’… کیونکہ یہاں اتنے Clear (واضح) الفاظ میں وہ کہتے ہیں کہ کیونکہ مسیح موعود آگئے ہیں، جہاد تو وہی ہے دین کے لئے لڑنا، یہ تو یعنی Clear (واضح) ہے، جہاد اور جنگ ونگ تو اور بات ہوتی ہے۔
مرزا ناصر احمد: نہیں، ’’دین کی جنگوں کا التوا کردے گا۔‘‘ دوسری جگہ یہ ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: ہاں، ہاں،جہاد تو ہم اسی کو کہتے ہیں جو دین کے لئے لڑے۔
مرزا ناصر احمد: ہاں، دین کی لڑائی۔
جناب یحییٰ بختیار: وہ تو یہ کہہ رہے ہیں کہ: ’’آج سے دین کے لئے لڑنا حرام کیا گیا ہے۔‘‘
مرزا ناصر احمد: شرائط پوری نہیں۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، وہ یہ…
1081مرزا ناصر احمد: نہیں، وہ دوسری جگہ لکھا ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، یہاں کا میں کہہ رہا ہوں۔
مرزا ناصر احمد: نہیں، میرا مطلب یہ ہے کہ دوسری جگہ یہ التواء میں کردیا۔
جناب یحییٰ بختیار: یہاں Reasons ہیں، وہاں حالات اور شرائط کی موجودگی میں نہ ہوگا۔
مرزا ناصر احمد: یہاں Reasons … اچھا، اگر مجھے اجازت دیں، جب آپ کا سوال ختم ہوجائے تو میں بتا دوں گا۔
جناب یحییٰ بختیار: یہ میں پڑھ لیتا ہوں پورا اس کو۔ پورا پیرا یہاں سے شروع ہوتا ہے، جس کی مجھے ٹھیک سمجھ نہیں آتی: ’’… تیسرے وہ گھنٹہ جو مینارہ کے کسی حصہ دیوار میں نصب کرایا جائے گا۔ اس کے نیچے یہ حقیقت مخفی ہے تاکہ لوگ اپنے وقت کو پہچان لیں، یعنی سمجھ لیں کہ آسمان کے دروازوں کے کھلنے کا وقت آگیا۔ اب سے زمینی جہاد بند ہوگیا اور لڑائیوں کا خاتمہ ہوگیا، جیسا کہ حدیثوں میں پہلے لکھا گیا تھا کہ جب مسیح آئے گا تو دین کے لئے لڑنا حرام کیا جائے گا۔ تو آج سے دین کے لئے لڑنا حرام کیا گیا ہے۔ اس کے بعد جو دین کے لئے تلوار اٹھاتا ہے، غازی نام رکھا کر کافروں کو قتل کرتا ہے، وہ خدا اور اس کے رسول کا نافرمان ہے۔ صحیح بخاری کو کھولو اور اس حدیث کو پڑھو جو مسیحی موجود کے حق میں ہے۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۲۸۴،۲۸۵)
تو یہاں مرزا صاحب جو فرما رہے ہیں، جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں، کیونکہ وہ مسیح ہیں، مسیح موعود ہیں، وہ آچکے ہیں، اس لئے یہ کتابوں میں، حدیثوں کی یہی اتھارٹی ہے کہ جب وہ آئیں گے تو دین کے لئے لڑنا حرام ہو جائے گا۔ تو یہ حالات کے لئے Postpone (ملتوی) نہیں ہوتا۔ اس کے لئے آپ کہیں۔
1082مرزا ناصر احمد: ہاں، آپ کا سوال ختم ہوگیا؟ میری باری؟ پھر تشریف رکھیں، شاید لمبا کردوں۔ اس میں یہ جو عبارت آپ نے ابھی پڑھی، اس سے، آخری جو اس کے فقرے تھے، سے عیاں ہے کہ جو بھی مضمون بیان ہوا ہے وہ احادیث کی شرح ہے۔ تو احادیث کو سامنے رکھیں، پھر پتہ لگے گا کہ شرح درست ہوئی ہے یا نہیں۔ تو آپ اجازت دیں تو کل میں حدیثیں آپ کے سامنے یہاں بیان کرکے…
جناب یحییٰ بختیار: وہ تو جی میں کہہ رہا ہوں کہ حدیثوں میں تو یہی ہے کہ مسیح آئے گا تو اس کے بعد جہاد حرام ہو جائے گا۔
مرزا ناصر احمد: نہیں، وہ نہیں ناں۔ اچھا، میں پھر ابھی بیان کردیتا ہوں۔ ہاں، میں ابھی بیان کردیتا ہوں۔ حدیث میں یہ ہے کہ مہدی اور مسیح کے آنے کے وقت شرائط جہاد نہیں ہوں گی اور اس وقت اسلام کی جنگیں جو ہیں وہ جہاد کبیر کی شکل میں لڑی جائیں گی۔ جہاد صغیر کی شکل میں نہیں لڑی جائیں گی، امن کا زمانہ ہوگا، وہ تمام شرائط کہ دینی لحاظ سے جبر کیا جاتا ہے، روکا جاتا ہے ان کو، وہ زمانہ نہیں ہوگا اور اس کا جو پہلا اطلاق ہے وہ صرف مہدی موعود کی زندگی کے ساتھ ہے اور آپ کی زندگی میں اور بھی یہاں ہندوستان کسی نے جہاد کی شرائط کے پورا ہونے کا اعلان نہیں کیا۔ وہ حدیثوں میں آتا ہے اس کی جو شرح ہم کرتے ہیں، میرا خیال ہے اور میرے ذہن میں نہیں، پہلے بزرگ بھی یہی کرتے ہیں کہ وہ احادیث جن میں یہ ذکر ہے کہ مہدی اور مسیح کے آنے کے وقت: صاف ہیں الفاظ کہ: ’’وہ حرب کو رکھ دے گا، منسوخ کردے گا۔‘‘ نہیں ہے۔ یعنی ’’ملتوی کردے گا۔‘‘ یہ عربی کا محاورہ ہے۔ ایک تو مہدی کی زندگی میں جہاد کی شرائط پوری نہیں، اس1083 لئے … یعنی ہمارے اپنے ایمان کے مطابق، میں اپنی بات کررہا ہوں … اور مہدی کی زندگی میں، یہ Clash (تصادم) ہی نہیں ہوا کہ فتویٰ دیا ہو، ملت نے، کہ جہاد کی شرائط پوری ہوگئیں، اور بزرگان دین جہاد کے لئے میدان میں چلے گئے، اور جماعت احمدیہ پیچھے رہ گئی۔ اب یہ تو تاریخ بن گئی ناں۔ ۱۹۰۸ء میں بانی سلسلہ احمدیہ کا وصال ہوگیا۔ آپ کے دعویٰ سے لے کر آپ کے وصال تک احادیث کے مطابق امن کا زمانہ تھا، نہ کہ جنگ کا، اور جہاد کبیر کازمانہ تھا، نہ کہ جہاد صغیر کا اور اس کی طرف میں نے ابھی ایک حوالہ پڑھا۔ دس پندرہ حوالے ہوں گے جو روشنی ڈالتے ہیں اور اس عرصے میں … ایک پوائنٹ ہے میرا۔ محدود کردیا ناں میں نے زمانہ … دعویٰ سے لے کر آپ کے وصال تک ہندوستان کے علماء نے یہ فتویٰ دیا ہی نہیں کہ جہاد کا زمانہ ہے، اور نہ ہندوستان میں علماء کے گروہ دوسروں کے ساتھ مل کر جہاد کے میدان میں نکلے، بلکہ سب نے امن کا زمانہ کہا، امن کازمانہ کہا۔ اور جہاں تک انگلستان کی سلطنت کا سوال ہے، آپ کو الہام بتایا گیا کہ ۸سال کے بعد … ۸سال تک ان کا رعب ہے اس کے بعد یہ سلطنت برطانیہ پر زوال آجائے گا، زوال شروع ہوجائے گا اور اس زوال کی ابتدا ملکہ وکٹوریا کے مرنے کے ساتھ ہوئی ہے۔ یعنی وہ آٹھ سال پورے ہوگئے ہیں، الہام کے مطابق اور اس کے بعد سے آج تک وہ کہاں ہے، وہ برٹش ایمپائر جس کے اوپر سورج کبھی غروب نہیں ہوتا تھا؟ آج وہ برٹش ایمپائر ہے جو سورج کی کرنوں کو ڈھونڈنے کے لئے دنیا میں پھر رہے ہیں۔
تو میرا مطلب یہ ہے کہ دعویٰ سے لے کر آپ کی وفات تک علماء نے کہا بھی ہندوستان میں جہاد کا فتویٰ نہیں دیا، نہ علماء صاحبان … جس طرح ہمارے پرانے بزرگ میدان جہاد میں جایا کرتے تھے … لڑنے کے لئے اکٹھے ہو کر لڑائی کے لئے گئے۔ اس1084 کے بعد کا زمانہ ایک آتا ہے… میں آگے چلتا ہوں … کیونکہ وہ بھی شاید ممکن ہے، پرانے سوال ہیں ہمارے اوپر ہوئے ہوئے کوئی پچاس سال سے چلا آرہا ہے، کوئی تیس سال سے۔ بہرحال جنگ ہوئی۔ اس جنگ کو، ہمارے نزدیک، یہ جو جنگ لڑی گئی، یہ دنیا کی جنگ تھی، مسلمانوں کی حکومتوں کی جنگ نہیں تھی، لیکن مسلمان کروڑوں کی تعداد میں اس سے متأثر ہوگئے۔ اس وقت ایک چیز ہمارے سامنے آئی اور وہ یہ تھی کہ ہمارے خلیفۃ المسلمین … یعنی یہ درست ہے، آج میں مانتا ہوں کہ چونکہ، ہمارے نزدیک، مہدی آگئے تھے، اس واسطے ’’خلیفۃ المسلمین‘‘ ہم ان کو نہیں سمجھتے لیکن جماعت احمدیہ، جس کی تعداد اس وقت بڑی تھوڑی تھی، اس کے علاوہ تمام دنیا کے مسلمان خلافت عثمانیہ ترکیہ کو ’’خلیفۃ المسلمین‘‘ ان کو کہتے تھے، اور وہ خلافت کے تھے … اور ہمارے خود ہندوستان میں خلافت موومنٹ چلی اس جنگ میں وہ ملوث ہوگئے۔ اس لئے انہوں نے Allies (اتحادیوں) کے خلاف جو محاذ تھا، اس کا ساتھ دیا۔
اس وقت ساری دنیا کا پریشر شریف مکہ پر پڑا کہ خلیفۃ المسلمین انگریزوں سے برسرپیکار ہے اور اس کو تم جہاد "Holy War" (مقدس جنگ) اس کا ترجمہ یہ کیا جاتا ہے، پتہ نہیں درست یا غلط … بہرحال مجھے جہاد سے تعلق ہے۔ تو انہوں نے کہا کہ اس کو جہاد قرار دو، Holy War (مقدس جنگ) قرار دو۔ شریف مکہ … اس وقت First World War (پہلی عالمی جنگ) کی میں بات کرتا ہوں… وہ ان کے لئے Dilemma (معمہ) تھا۔ اگر وہ اسے جہاد قرار دے، Holy war (مقدس جنگ) قرار دے، تو انگریز جس سے وہ پیسے بھی لے رہے تھے اور بندوقیں اور ایمونیشن بھی لے رہے تھے اپنی حکومت کو قائم کرنے کے لئے، وہ ناراض ہوتا تھا اور ان کے پیسے بھی بند ہوتے تھے اور وظیفہ بھی بند ہوتا تھا اور بندوقوں کی سپلائی بھی بند ہوتی تھی 1085اور اگر وہ اسے جہاد قرار نہ دیں تو سارے دنیا کے مسلمان ناراض ہوتے تھے۔ بڑا پریشر پڑا ہوا تھا۔ میں نے بتایا کہ یہاں بھی ایک خلافت موومنٹ چلی، چنانچہ انہوں نے اس وقت یہ Dilemma (معمہ) دیکھ کے ابن سعود کے پاس اپنا ایک معتمد بھیجا … یہ تاریخ کا ایک ورق ہے، ثبوت کتابیں ہیں ہمارے پاس… اور ابن سعود، جو بھی ان کے خاندان کے تھے اس وقت نجد کے حاکم … یہ تو جہاد کے ہیں، وہ نجد کے تھے … ان کو، معتمد کو کہا: ’’صاف بات کرو جاکے۔ اگر میں اسے جہاد قرار دیتا ہوں خلیفۃ المسلمین کی جنگ ہے، درست ہے… تو میرے جیسے بھی مارے جاتے ہیں اور میری سپلائی آرمز کی جو ہے وہ بھی بند ہوتی ہے اور اگر میں جہاد قرار نہیں دیتا تو مسلمان میرے پیچھے پڑ جائیں گے، حج کے اوپر میرے تکے بوٹی کریں گے، وغیرہ وغیرہ میں بڑی پریشانی میں ہوں۔ تم بتاؤ کیا مشورہ ہے؟‘‘
ابن سعود کا خاندان اس وقت انگریز کے پیسے بھی لے رہا تھا اور بندوق بھی لے رہا تھا۔ جس Dilemma (معمہ) اور مصیبت میں یہ تھے اسی Dilemma (معمہ) اور مصیبت میں ابن سعود کا خاندان نجد میں تھا۔ چنانچہ انہوں نے اس معتمد سے مشورہ کرکے شریف مکہ کو پیغام بھیجا کہ: ’’تم اسے جہاد بالکل قرار نہ دینا اور میں تمہارے ساتھ ہوں۔‘‘ اور اس وقت انہوں نے یہ فتویٰ جہاد کے خلاف اس جنگ میں اس وجہ سے دیا کہ … تاریخ یہ ریکارڈ کرتی ہے … کہ نجد کی، ابن سعود کے خاندان کی ٹوٹل انکم، کل آمدن حکومت کی ایک لاکھ پونڈ سٹرلنگ تھا، اور انگریز نے ان کو ماہانہ دیا، پانچ ہزار اور ساٹھ ہزار پونڈ سٹرلنگ، In Gold coin یہ ان کو دیا، جس کا مطلب ہے کہ ان کی ٹوٹل آمدن کا ساٹھ فیصد، اور تین برین گنیں … چھوٹی سی ان کی فوج تھی … اور تین ہزار بندوقیں۔ ایک وقت 1086وہ کتابوں میں اس کا ذکر آیا ہے۔ تو یہ جنگ چونکہ تھی نہیں، میرا مطلب ہے کہ دنیا کی جنگ تھی، کئی ہم پر یہ اعتراض کردیتے ہیں کہ اسے جہاد کیوں نہیں قرار دیا؟ حالانکہ بعض مسلمان کے سے انگریز کے خلاف لڑ رہے تھے۔
وہ تو صاف ظاہر ہے کہ وہ دنیا کی ایک جنگ تھی، مسلمانوں کا ایک طبقہ، ایک گروہ، ایک حصہ انگریز کے ساتھ مل کر دوسروں کے ساتھ لڑ رہا تھا، اور ایک حصہ دوسروں کے ساتھ مل کر انگریزوں کے ساتھ لڑ رہا تھا۔ یہ ہمارے ہندوستان سے ہزاروں کی تعداد میں تو باہر نہیں ہوں، شاید لاکھوں کی تعداد میں فوج گئی ہو وہاں اور اس کے اوپر یہ ایک چھوٹا سا … یہ جو میں نے باتیں کی ہیں، ان کے حوالے میرے پاس ہیں اور جو ان کا ایک افسر … نجد کا تعلق تھا، وائسرائے انڈیا کے ساتھ اس وقت … ایس اے ہابکن، یہ ان کا ایک خط ہے، اس کی فوٹو سٹیٹ کاپی ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: مرزا صاحب ! بات یہ ہے کہ میں نہیں سمجھتا کہ آپ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ جہاد نہیں تھا وہ لڑائی تھی، یا وہ جہاد تھا اور انہوں نے رشوت لی اور کہہ دیا کہ جہاد نہیں ہے؟
مرزا ناصر احمد: ہمارے نزدیک تو جہاد نہیں تھا۔
جناب یحییٰ بختیار: آپ کے نزدیک نہیں تھا تو پھر سوال ہی نہیں آتا ان چیزوں کا۔
مرزا ناصر احمد: اچھا جی، ٹھیک ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: دیکھیں نا جی، کیونکہ دو پوائنٹس آف ویو ہیں۔ ایک کہتا ہے کہ جہاد نہیں…
مرزا ناصر احمد: ہم پر یہ اعتراض کردیتے ہیں، اس لئے میں سمجھتا تھا کہ شاید ہے۔ لیکن اگر نہیں تو ٹھیک پھر میں معافی مانگ لیتا ہوں۔ میں نے وقت ضائع کیا ہے ہاؤس کا۱؎۔
1087جناب یحییٰ بختیار: نہیں وہ آپ… میں تو صرف یہ سوال جو میرے سامنے ہیں کہ جہاد۔ آپ نے فرمایا ہے کہ آپ کا عقیدہ یہ ہے کہ جب وہ شرائط موجود ہوں تو فرض، ورنہ وہ جائز نہیں تو دوسرا یہ مسئلہ سامنے آجاتا ہے کہ مسیح موعود کے زمانے میں، جب وہ واپس آئیں گے تو یہ: ’’حدیثوں میں لکھا گیا ہے کہ جب مسیح آئے گا تو دین کی وجہ سے لڑنا حرام کیا جائے گا…‘‘
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱؎ اس طرح معافی مانگ رہے ہیں جس طرح ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ گورداسپور سے مرزا قادیانی نے معافی مانگی تھی کہ آئندہ میں موت کا کوئی الہام شائع نہیں کروں گا۔ یہ نبوت کا گھرانہ ہے یا معافی خواستگاروں کا ٹولہ؟
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
مرزا ناصر احمد: (عربی)
 
Top