محمد عبداللہ امانت
رکن ختم نبوت فورم
*سبق نمبر 10*
*"ختم نبوت کے موضوع پر اکابرین امت کی عبارات پر قادیانی اعتراضات کا علمی تحقیقی جائزہ"*
جب قادیانی قرآن و احادیث سے اجرائے نبوت پر کوئی دلیل پیش نہیں کر سکتے اور لاجواب ہوجاتے ہیں تو پھر چند بزرگان دین کی عبارات کو ادھورا پیش کرکے اس سے لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
جب بھی قادیانی کسی بزرگ کی عبارت پیش کریں تو چند اصولی باتیں ذہن نشین کر لیں ۔ قادیانیوں کا دجل خود ہی پارہ پارہ ہوجائے گا ۔
1۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ جب قادیانیوں کے نزدیک بزرگوں کے اقوال کو مستقل حجت نہیں تو وہ بزرگوں کے اقوال کیوں پیش کرتے ہیں؟؟
کیونکہ مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ
"اقوال سلف و خلف درحقیقت کوئی مستقل حجت نہیں۔"
*(ازالہ اوہام حصہ دوم صفحہ 538 مندرجہ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 389)*
اس کے علاوہ مرزا قادیانی کے بیٹے مرزا محمود نے لکھا ہے
"نبی کی وہ تعریف جس کی رو سے آپ (مرزاقادیانی) اپنی نبوت کا انکار کرتے رہے ہیں۔ یہ ہے کہ نبی وہی ہوسکتا ہے جو کوئی نئی شریعت لائے یا پچھلی شریعت کے بعض احکامات کو منسوخ کرے۔ یا یہ کہ اس نے بلاواسطہ نبوت پائی ۔ اور کسی دوسرے نبی کا متبع نہ ہو۔ یہ تعریف عام طور پر مسلمانوں میں مسلم تھی"
*(حقیقتہ النبوۃ صفحہ 122)*
لیجئے خود مرزا محمود نے تسلیم کر لیا کہ مرزاقادیانی کے آنے تک مسلمان نبی اسی کو سمجھتے تھے جو نئی شریعت لانے والا ہو۔ جب خود قادیانی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ مسلمانوں میں ایک ہی تعریف پائی جاتی تھی تو وہ پھر بزرگوں کی عبارات کو کیوں پیش کرتے ہیں؟؟
2۔ ہمارا دعوی یہ ہے کہ بزرگان دین میں سے کوئی ایک بزرگ بھی ایسا نہیں تھا جس کا یہ عقیدہ ہو کہ حضورﷺ کے بعد بھی کوئی نبی بن سکتا ہے اور فلاں شخص حضورﷺ کے بعد نبی ہے۔
قادیانی تاقیامت ایسی عبارت کسی بزرگ سے ثابت نہیں کر سکتے ۔
3۔ قادیانی جتنی بھی بزرگوں کی عبارات پیش کرتے ہیں ان میں اگر ،مگر، چونکہ، چنانچہ کی قیدیں لگی ہوتی ہیں۔ اور ایسی عبارات جن میں اتنی قیدیں لگی ہوں ان عبارات سے عقائد کے معاملے میں کوئی بددیانت ہی استدلال کرسکتا ہے۔
یاد رکھیں عقائد کے معاملے میں صرف نص صریح ہی قابل قبول ہوتی ہے۔
پھر جن بزرگوں کی عبارات قادیانی تحریف و تاویل کرکے پیش کرتے ہیں ان بزرگوں کا درج ذیل عقیدہ ان کی ہی کتابوں میں موجود ہے۔
1) آپﷺ پر نبوت ختم ہے۔
2) آپﷺکےبعد کسی بھی قسم کاکوئی نبی نہیں بن سکتا ۔
3) آپﷺکے بعد آج تک کوئی شخص نبی نہیں بنا۔
4) جس شخص نے حضورﷺ کے بعد نبوت کا دعوی کیا۔ اس کو انہوں نے کافر ہی سمجھا۔
لے دے کے چند عبارات ہیں جن میں تاویل و تحریف کر کے قادیانی کہتے ہیں کہ حضورﷺ کے بعد بھی نئے نبی آسکتے ہیں۔
حالانکہ آج تک قادیانی کوئی ایک عبارت بھی ایسی پیش نہیں کر سکے جس میں یہ 4 باتیں پائی جاتی ہوں۔
1۔ جو عبارات قادیانی پیش کرتے ہیں ان میں حضرت عیسیؑ کی آمد کا ذکر نہ ہو۔
2۔ جو عبارات قادیانی پیش کرتے ہیں ان میں آنخضرت ﷺکی ختم نبوت زمانی کے بعد کسی غیر تشریعی نبی کے اس امت میں پیدا ہونے کی صراحت موجود ہو۔
3۔ جو عبارات قادیانی پیش کرتے ہیں ان میں محض اجزائے نبوت یعنی سچے خواب وغیرہ یا بعض کمالات نبوت ملنے کا ذکر نہ ہو بلکہ امت کے بعض افراد کے لئے نبوت ملنے کا ذکر ہو۔
4۔ جو عبارات قادیانی پیش کرتے ہیں ان میں ایسا نہ ہو کہ اس کے سیاق و سباق میں تو ختم نبوت مرتبی کا بیان ہو اور قادیانی اس عبارت کو ختم زمانی کے ذیل میں بیان کررہے ہوں۔
(ختم نبوت زمانی اور ختم نبوت مرتبی کی تفصیل آگے آرہی ہے انشاء اللہ)
ہمارا دعوی یہ ہے کہ ان 4 شرطوں کے ساتھ آج تک کوئی قادیانی کسی بھی بزرگ کی کوئی ایک عبارت بھی پیش نہیں کر سکے۔
اور یہ اصول بھی یاد رکھیں کہ جب تک دعوی کرنے والے کے پاس اپنے دعوی پر دلیل موجود نہ ہو تو جس پر دعوی کیا جارہا ہے اس کے ذمے جواب دینا ضروری نہیں ہے۔
"شیخ محی الدین ابن عربیؒ کی عبارات پر قادیانی اعتراضات کا علمی تحقیقی جائزہ"
قادیانی شیخ محی الدین ابن عربیؒ کی عبارات سے بھی دھوکہ دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ بھی حضور ﷺ کے بعد نئے نبیوں کے آنے کے قائل ہیں۔
آیئے پہلے شیخ ابن عربیؒ کی اس عبارت کا جائزہ لیتے ہیں جو قادیانی بطور اعتراض کے پیش کرتے ہیں۔
قادیانی کہتے ہیں کہ شیخ ابن عربیؒ نے لکھا ہے کہ
"تشریعی نبوت کا دروازہ بند ہے۔ اور نبی کریم ﷺ نے جو یہ فرمایا ہے کہ میرے بعد کوئی نبی اور رسول نہیں اس کا مطلب ہے کہ کوئی ایسا نبی نہیں جو میری شریعت کے مخالف ہو۔ اگر کوئی ہوگا تو وہ میری شریعت کے تابع ہوگا"
*(الفتوحات المکیہ جلد 2 صفحہ 3)*
ہم قادیانیوں کی طرف سے شیخ ابن عربیؒ پر لگائے گئے الزامات کا جواب تو بعد میں دیتے ہیں لیکن پہلے قادیانیوں کو بتاتے چلیں کہ آپ کو ابن عربیؒ پر اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں کیونکہ مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ
"شیخ ابن عربی پہلے وجودی تھے۔"
*(ملفوظات جلد 2 صفحہ 232)*
اور وجودیوں کے بارے میں مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ
"وجودیوں اور دہریوں میں انیس بیس کا فرق ہے یہ وجودی (شیخ ابن عربیؒ وغیرہ ) سخت قابل نفرت اور قابل کراہت ہیں۔"
*(ملفوظات جلد 4 صفحہ 397)*
جب مرزاقادیانی کے نزدیک شیخ ابن عربیؒ وجودی ، قابل نفرت اور دہریے ہیں تو قادیانی کس منہ سے شیخ ابن عربی رح کی عبارات پیش کرتے ہیں اور دھوکہ دیتے ہیں؟؟؟
اب قادیانیوں کی پیش کردہ عبارت کے جوابات بھی ملاحظہ فرمائیں ۔
جواب نمبر 1
شیخ ابن عربیؒ نے لکھا ہے کہ
"جو وحی نبی اور رسول کے ساتھ خاص تھی کہ فرشتہ ان کے کان یا دل پر (وحی لے کر) نازل ہوتا تھا ۔ وہ وحی بند ہوچکی۔ اور اب کسی کو نبی یا رسول کا نام دینا ممنوع ہوچکا۔
*(الفتوحات المکیہ جلد 2 صفحہ 253)*
اس عبارت سے صاف پتہ چلتا ہے کہ ابن عربیؒ کے نزدیک حضورﷺ کے بعد وحی رسالت تاقیامت منقطع ہے۔ اب کسی کو نبی یا رسول نہیں کہ سکتے۔
جواب نمبر 2
شیخ ابن عربیؒ نے لکھا ہے کہ
"وحی کا سلسلہ حضورﷺ کی وفات کے ساتھ ہی ختم ہوگیا۔۔۔۔ سیدنا عیسیؑ جب اس امت کی قیادت کریں گے تو ہماری شریعت کے مطابق عمل کریں گے ۔ آپ جب نازل ہوں گے تو آپ کے لئے مرتبہ کشف بھی ہوگا اور الہام بھی۔ جیسا کہ یہ مقام (اولیاء) امت کے لئے ہے۔"
*(الفتوحات المکیہ جلد 3 صفحہ 238)*
اس عبارت میں تو شیخ ابن عربیؒ سیدنا عیسی علیہ السلام کے لئے بھی انبیاء والی وحی کا بند ہونا بیان کررہے ہیں۔ بلکہ ابن عربیؒ کے مطابق سیدنا عیسی علیہ السلام کو اولیاء کی طرح کشف اور الہام ہوں گے ۔
جواب نمبر 3
شیخ ابن عربیؒ کے نزدیک نبوت کا لفظ لغوی طور پر اولیاء کے مبشرات یا الہام وغیرہ پر بولا جاتا ہے۔ بلکہ ان مبشرات اور الہامات کے جن کو شیخ ابن عربیؒ رح کے نزدیک نبوت سے تعبیر کیا گیا ہے۔ شیخ ابن عربیؒ حیوانوں میں بھی لغوی طور پر نبوت کا لفظ بولتے تھے ۔
جیسا کہ شیخ ابن عربیؒ نے لکھا ہے کہ
"اور یہ نبوت حیوانات میں بھی جاری ہے جیسا کہ اللہ تعالٰی نے فرمایا ہے کہ تیرے رب نے شھد کی مکھی کی طرف وحی کی۔"
*(الفتوحات المکیہ جلد 2 صفحہ 254)*
لیجئے شیخ ابن عربیؒ تو حیوانات کی وحی کو بھی نبوت کا نام دے رہے ہیں ۔ جیسا کہ قرآن میں ذکر ہے۔ کیا اب قادیانیوں کی بات مان کر حیوانات کو بھی نبی مان لیں؟ ؟
*"خلاصہ کلام"*
خلاصہ کلام یہ ہے کہ شیخ ابن عربیؒ کا عقیدہ یہی تھا کہ حضورﷺ آخری نبی ہیں اور حضورﷺ کے بعد کسی بھی انسان کو نبی یا رسول نہیں بنایا جائے گا ۔
اور جن مقامات پر ابن عربیؒ نے نبوت کا لفظ استعمال کیا ہے وہاں حقیقتا نبوت مراد نہیں ہے بلکہ مجازی طور پر اولیاء کرام کے مبشرات یا الہامات کو نبوت کے لفظ سے بیان کیا ہے۔ جیسا کہ حدیث میں بھی آتا ہے کہ
"نبوت میں مبشرات کے سواء کچھ باقی نہیں "
"مولانا قاسم نانوتویؒ کی عبارات پر قادیانی اعتراضات کا علمی تحقیقی جائزہ"
مولانا قاسم نانوتویؒ کی عبارات پر جائزہ لینے سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ختم نبوت کی کتنی اقسام کو مولانا قاسم نانوتویؒ نے اپنی کتاب میں بیان فرمایا ہے۔
مولانا قاسم نانوتویؒ نے اپنی کتاب "تحذیر الناس" میں ختم نبوت کی دو اقسام بیان فرمائی ہیں۔
1۔"ختم نبوت زمانی"
ختم نبوت زمانی کا مطلب ہے کہ جس زمانے میں حضورﷺ تشریف لائے اور آپﷺ کو نبوت ملی۔ اس وقت سے لے کر قیامت تک اب کسی ایک انسان کو بھی نبی یا رسول نہیں بنایا جائے گا۔
اس لحاظ سے آپ ﷺخاتم النبیین ہیں۔
2۔ "ختم نبوت مرتبی"
ختم نبوت مرتبی کا مطلب یہ ہے کہ حضورﷺ پر اللہ تعالٰی نے تمام مراتب کی انتہا فرمادی۔ اور جتنے مرتبے حضورﷺ کو ملے ہیں اتنے مرتبے کسی کو بھی اللہ تعالٰی کی طرف سے نہ ملے ہیں اور نہ ملیں گے ۔ اور ختم نبوت مرتبی حضورﷺ کو اس وقت سے حاصل ہے جب آدمؑ کا ابھی وجود بھی مکمل پیدا نہیں ہوا تھا۔
(ختم نبوت مرتبی کے بعد کم و بیش ایک لاکھ اور چوبیس ہزار نبی آئے لیکن اس سے حضور اکرم ﷺ کی ختم نبوت مرتبی پر کوئی فرق نہیں پڑا کیونکہ انبیاء کرامؑ کو نبوت بھی ملنی تھیں اور انہوں نے تبلیغ بھی کرنی تھیں۔ لیکن تمام انبیاء کرامؑ کا رتبہ حضور ﷺسے کم ہی ہونا تھا۔ اس لئے حضورﷺ کی ختم نبوت مرتبی پر فرق نہیں پڑا )
ایک اور تمہیدی بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ قرآن پاک کی 99 آیات اور 210 سے زائد احادیث مبارکہ حضورﷺ کی ختم نبوت زمانی پر دلیل ہیں۔ یعنی جب حضورﷺ کا زمانہ نبوت شروع ہوگیا اس کے بعد اگر کوئی شخص یہ عقیدہ رکھے کہ مسیلمہ کذاب یا مرزاقادیانی نبی یا رسول ہیں۔ یا ان کے علاوہ بھی کسی کو نبوت مل سکتی ہے تو یہ عقیدہ قرآن و حدیث کے خلاف ہے اور کفر ہے۔
ختم نبوت کی ان دو اقسام کو ذہن میں رکھیں تو قادیانی مولانا قاسم نانوتویؒ کی جو عبارت پیش کرتے ہیں اس عبارت کے بارے میں قادیانی دجل وفریب خود ہی واضح ہوجاتا ہے۔
قادیانی کہتے ہیں کہ مولانا محمد قاسم نانوتویؒ نے لکھا ہے کہ
"عوام کے خیال میں تو رسول اللہﷺ کا خاتم ہونا بایں معنی ہے کہ آپﷺ کا زمانہ انبیاء سابق کے زمانے کے بعد اور آپ سب میں آخر نبی ہیں مگر اہل فہم پر روشن ہوگا کہ تقدم یا تاخر زمانے میں بالذات کچھ فضیلت نہیں۔
*(تحذیر الناس صفحہ 14 جدید ایڈیشن 2017ء)*
میں جانتا ہوں کہ اہل اسلام سے کسی کو یہ بات گوارا نہ ہوگی۔
*(تحذیر الناس صفحہ 15 جدید ایڈیشن 2017ء)*
اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی صلعم بھی کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیت محمدیہ میں کچھ فرق نہ آئے گا۔
*(تحذیر الناس صفحہ63 جدید ایڈیشن 2017ء)*
آپ اس تحریر کو غور سے پڑھیں، بار بار پڑھیں لیکن آپ یہی سمجھیں گے کہ واقعی مولانا قاسم نانوتویؒ سے غلطی ہوئی ہے۔لیکن دراصل مولانا قاسم نانوتویؒ سے کوئی غلطی نہیں ہوئی بلکہ یہ بھی قادیانیوں کا دھوکہ ہے۔ قادیانیوں کے اس اعتراض کے بہت سے جوابات ہیں۔
ملاحظہ فرمائیں۔
*جواب نمبر 1*
اصل بات یہ ہے کہ یہ ایک تحریر نہیں ہے بلکہ 3 مختلف صفحات سے تین باتیں لےکر ان کو جوڑ کر ایک تحریر بنایا گیا ہے۔
پہلی عبارت یہ ہے۔
"عوام کے خیال میں تو رسول اللہﷺ کا خاتم ہونا بایں معنی ہے کہ آپﷺ کا زمانہ انبیاء سابق کے زمانے کے بعد اور آپ سب میں آخر نبی ہیں مگر اہل فہم پر روشن ہوگا کہ تقدم یا تاخر زمانے میں بالذات کچھ فضیلت نہیں۔"
*(تحذیر الناس صفحہ 14 جدید ایڈیشن 2017ء)*
اس کا مطلب یہ ہے کہ اصل فضیلت یہ ہے کہ حضور ﷺ کا مقام و مرتبہ اصل چیز ہے۔ یعنی اصل چیز ختم نبوت مرتبی ہے۔
دوسری عبارت یہ ہے
"میں جانتا ہوں کہ اہل اسلام سے کسی کو یہ بات گوارا نہ ہوگی۔"
اس عبارت کے سیاق و سباق کو بالکل ہٹ کر پیش کیا گیاہے۔ کیونکہ اس عبارت سے کچھ بھی پتہ نہیں چلتا کہ کیا بات ہورہی ہے۔ قادیانیوں نے صرف اپنے دجل کو بیان کرنے کے لئے اتنی سی عبارت کو ساتھ جوڑا ہے۔
تیسری عبارت یہ ہے
"اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی صلعم بھی کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیت محمدیہﷺ میں کچھ فرق نہ آئے گا۔"
*(تحذیر الناس صفحہ63 جدید ایڈیشن 2017ء)*
یہ اصل بات ہے جس کو لے کر قادیانی شور ڈالتے ہیں کہ دیکھو کہ مولانا قاسم نانوتویؒ خود فرما رہے ہیں کہ اگر بالفرض زمانہ نبوی کے بعد بھی کوئی نبی پیدا ہوجائے۔ یعنی مولانا قاسم نانوتویؒ کے نزدیک کسی نئے نبی کا حضور ﷺ کے بعد پیدا ہونا کوئی کفریہ عقیدہ نہیں ہے۔
آیئے قارئین قادیانیوں کے اس دجل کا پردہ بھی چاک کرتے ہیں۔
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ مولانا قاسم نانوتویؒ نے ساری بات فرضیہ طور پر کی ہے ۔
جیسا کہ قرآن پاک میں بھی اللہ تعالٰی فرماتے ہیں کہ
*"لَوۡ کَانَ فِیۡہِمَاۤ اٰلِہَۃٌ اِلَّا اللّٰہُ لَفَسَدَتَا ۚ فَسُبۡحٰنَ اللّٰہِ رَبِّ الۡعَرۡشِ عَمَّا یَصِفُوۡنَ"*
"اگر آسمان اور زمین میں اللہ کے سوا دوسرے خدا ہوتے تو دونوں درہم برہم ہوجاتے ۔ لہذا عرش کا مالک اللہ ان باتوں سے بالکل پاک ہے جو یہ لوگ بنایا کرتے ہیں۔"
*(سورۃ الانبیاء آیت نمبر 22)*
اب اس آیت کو پڑھیں۔ اس آیت میں اللہ تعالٰی فرماتے ہیں کہ اگر دو معبود ہوتے تو زمین و آسمان کا نظام درہم برہم ہوجاتا۔ کیا اس کا مطلب ہے کہ دو معبود بن گئے؟؟ ہرگز نہیں بلکہ اللہ تعالٰی نے بطور مثال یہاں بیان فرمایا ہے ۔ کہ بالفرض اگر دو معبود ہوتے تو زمین و آسمان کا نظام درہم برہم ہوجاتا۔
اسی طرح مولانا قاسم نانوتویؒ رح نے بھی یہاں بطور مثال بیان کیا ہے کہ بالفرض اگر کوئی نیا نبی پیدا ہوبھی جائے تو حضورﷺ کو جو مقام و مرتبہ یعنی ختم نبوت مرتبی حاصل ہے۔ اس میں ذرہ برابر بھی فرق نہیں آئے گا بلکہ جس مقام و مرتبے پر آپﷺ فائز ہیں۔ وہی حاصل رہے گا۔
اب آپ فیصلہ کریں کہ کیا مولانا قاسم نانوتویؒ ختم نبوت زمانی کے منکر بن رہے ہیں یا ختم نبوت مرتبی کو بیان فرما رہے ہیں؟؟
اصل بات یہ ہے کہ اس جگہ مولانا قاسم نانوتویؒ نے حضورﷺ کی ختم نبوت مرتبی کو بیان کیا ہے اور قادیانی دجل وفریب کرتے ہوئے اس مثال کو ختم نبوت زمانی پر فٹ کرتے ہیں۔ حالانکہ اوپر آپ پڑھ چکے ہیں کہ مولانا قاسم نانوتویؒ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی ختم نبوت زمانی کا منکر ہے یعنی کوئی یہ کہتا ہے کہ حضورﷺ کے زمانے کے بعد کسی نئے انسان کو نبی یا رسول بنایا گیا ہے تو وہ کافر ہے۔
یہ موضوع تھوڑا سا پچیدہ ہے جب تک کچھ علوم سے شدبد نہ ہو اس وقت تک یہ دقیق علمی بحث سمجھ نہیں آتی ۔ اللہ ہمیں سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے آمین
*جواب نمبر 2*
مولانا قاسم نانوتویؒ نے لکھا ہے کہ
"“سو اگر اطلاق اور عموم ہے تب تو خاتمیت زمانی ظاہر ہے، ورنہ تسلیم لزوم خاتمیت زمانی بدلالت التزامی ضرور ثابت ہے، ادھر تصریحات نبوی مثل:
“انت منی بمنزلة ھارون من موسیٰ الا انہ لا نبی بعدی۔” او کما قال۔
جو بظاہر بطرز مذکورہ اسی لفظ خاتم النبیین سے ماخوذ ہے، اس باب میں کافی، کیونکہ یہ مضمون درجہ تواتر کو پہنچ گیا ہے، پھر اس پر اجماع بھی منعقد ہوگیا۔ گو الفاظ مذکور بہ سند تواتر منقول نہ ہوں، سو یہ عدم تواتر الفاظ، باوجود تواتر معنوی یہاں ایسا ہی ہوگا جیسا تواتر اعداد رکعات فرائض و وتر وغیرہ۔ باجودیکہ الفاظ حدیث مشعر تعداد رکعات متواتر نہیں، جیسا اس کا منکر کافر ہے، ایسا ہی اس کا منکر بھی کافر ہوگا۔”
*(تحذیر الناس 29٬30 طبع جدید 2017ء)*
اس عبارت میں مولانا قاسم نانوتویؒ حضورﷺ کے بعد کسی نئی نبوت کا دعوی کرنے والے اور اس کو ماننے والے کو کافر قرار دے رہے ہیں۔ اس علاوہ اس عبارت میں صراحت موجود ہے کہ
1)خاتمیت زمانی یعنی آنحضرتﷺ کا آخری نبی ہونا، آیت خاتم النبیین سے ثابت ہے۔
2)اس پر تصریحاتِ نبویﷺ متواتر موجود ہیں اور یہ تواتر رکعاتِ نماز کے تواتر کی مثل ہے۔
3)اس پر امت کا اجماع ہے۔
4)اس کا منکر اسی طرح کافر ہے، جس طرح ظہر کی چار رکعت فرض کا منکر۔
اتنی وضاحت کے بعد بھی مولانا قاسم نانوتویؒ پر ختم نبوت کا منکر ہونے کا الزام عقل و فہم سے بالاتر ہے۔
*جواب نمبر 3*
اسی تحذیر الناس میں ہے۔
“ہاں اگر بطور اطلاق یا عموم مجاز اس خاتمیت کو زمانی اور مرتبی سے عام لے لیجئے تو پھر دونوں طرح کا ختم مراد ہوگا۔ پر ایک مراد ہو تو شایان شان محمدیﷺ خاتمیت مرتبی ہے نہ زمانی، اور مجھ سے پوچھئے تو میرے خیال ناقص میں تو وہ بات ہے کہ سامع منصف انشاء اللہ انکار ہی نہ کرسکے۔ سو وہ یہ ہے کہ تقدم و تاخیر یا زمانی ہوگا یا مکانی یا مرتبی۔ یہ تینوں نوعیں ہیں۔باقی مفہوم تقدم و تأخر ان تینوں کے حق میں جنس ہے۔
*(تحذیر الناس صفحہ 27 طبع جدید 2017ء)*
یعنی لفظ خاتم النبیین سے خاتمیت مرتبی٬خاتمیت زمانی اور خاتمیت مکانی بھی ثابت ہے۔
اور "مناظرہ عجیبہ" میں جو تحذیر الناس کا تتمہ ہے، ایک جگہ فرماتے ہیں:
“مولانا! حضرت خاتم المرسلینﷺ کی خاتمیت زمانی تو سب کے نزدیک مسلّم ہے اور یہ بات بھی سب کے نزدیک مسلّم ہے کہ آپ اول المخلوقات ہیں۔ “
*(مناظرہ عجیبہ صفحہ 9 طبع مکتبہ قاسم العلوم کراچی 1978ء)*
اس عبارت میں بھی عقیدہ ختم نبوت کا واضح اظہار موجود ہے۔
*جواب نمبر 4*
مولانا قاسم نانوتویؒ نے لکھا ہے کہ
“اپنا دین و ایمان ہے کہ رسول اللہﷺ کے بعد کسی اور نبی کے ہونے کا احتمال نہیں، جو اس میں تامل کرے اس کو کافر سمجھتا ہوں۔”
*(مناظرہ عجیبہ صفحہ 144 طبع مکتبہ قاسم العلوم کراچی 1978ء)*
لیجئے آخری حوالے نے تو قادیانی دجل کو پاش پاش کر دیا ۔
*" خلاصہ کلام "*
خلاصہ کلام یہ ہے کہ مولانا قاسم نانوتویؒ عقیدہ ختم نبوت کے قائل بھی ہیں اور منکرین ختم نبوت کو کافر سمجھتے ہیں۔ البتہ "تحذیر الناس" میں مولانا قاسم نانوتویؒ نے یہ بیان فرمایا ہے کہ جس طرح حضورﷺ کو ختم نبوت زمانی حاصل ہے یعنی حضورﷺ کے بعد کوئی نیا نبی پیدا نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح حضورﷺ کو ختم نبوت مرتبی بھی حاصل ہے۔ یعنی حضورﷺ جیسا مقام و مرتبہ بھی کسی کو حاصل نہیں ہوسکتا۔