چور، قزاق، حرامی
’’ہم ۱۸۵۷ء کی سوانح کو دیکھتے ہیں اور اس زمانے کے مولویوں کے فتوؤں پر نظر ڈالتے ہیں۔ جنہوں نے عام طور پر مہریں لگادی تھیں۔ جو انگریزوں کو قتل کر دینا چاہتے تھے تو ہم بحر ندامت میں ڈوب جاتے ہیں۔ یہ کیسے مولوی تھے اور کیسے ان کے فتوے تھے جن میں نہ رحم تھا نہ عقل، نہ اخلاقانہ انصاف۔ ان لوگوں نے چوروں اور قزاقوں اور حرامیوں کی طرح اپنی محسن گورنمنٹ پر حملہ کرنا شروع کیا۔ اس کا نام جہاد رکھا۔‘‘
(حاشیہ ازالہ اوہام ص۷۲۴، خزائن ج۳ ص۴۹۰)