کذبات مرزا ’’ازالہ اوہام‘‘ 76 (قرآن مجید میں آنے والے خلا، خلت کے ترجمعے میں مرزا کی تحریف)
۷۶… ’’لغت عرب اور محاورۂ اہل عرب میں خلا یا خلت ایسے لوگوں کے گزرنے کو کہتے ہیں جو پھر آنے والے نہ ہوں… اور یہ لفظ موت کے لفظ سے ’’ اخض ‘‘ ہے۔ کیونکہ اس کے مفہوم میں یہ شرط ہے کہ اس عالم سے گزر کر پھر اس عالم میں نہ آئے۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۸۹۵،۸۹۶، خزائن ج۳ ص۵۸۸،۵۸۹)
ابوعبیدہ: مرزاقادیانی کچھ تو خدا کا خوف کیا ہوتا۔ خود قرآن شریف میں خلا، خلو یا خلت کئی جگہ آیا ہے۔ جہاں اس کے معنی صرف گزرنے کے ہیں۔ مثلاً:
۱… ’’ واذا خلا بعضہم الیٰ بعض (البقرۃ:۷۶)‘‘
۲… ’’ واذا خلو الیٰ شیطینہم (البقرۃ:۱۴)‘‘
۳… ’’ واذا خلو عضوا علیکم الانامل (آل عمران۔۱۱۹)‘‘
یہاں کوئی دیوانہ ہی خلا کے معنی موت کر سکتا ہے۔