مرتضیٰ مہر
رکن ختم نبوت فورم
بسم اللہ الرحمن الرحیم
دوستو میری بحث محمد سلطان جو کہ پیشہ ور قادیانی مربی لگتا جس کا اندازہ اس کی کمال درجے کی ڈھٹائی اورجہالت کو دیکھ کر بخوبی لگایا جا سکتا ہے کے ساتھ ہو رہی تھی موضوع بحث تھا کہ اللہ تعالیٰ کی سمت کس طرف ہے ۔ ؟ سلطان محمد صاحب دلائل و برہان کی روشنی میں اپنا موقف ثابت کرنے میں ناکام رہے اور عاجز آ گئے ۔ میری بار بار کی تنبیہ کے باوجود غلط مباحثیں شروع کیں تاکہ اصل موضوع سے راہ فرار اختیار کر لیں ۔ اور جب میں نے قارئین کو ان کی عاجزی کی طرف توجہ دلائی اور موضوع کو یہ کہہ کر اختتام پر پہنچا دیا کہ اب یہ عاجز آ چکے ہیں۔ اب کوئی فائدہ بحث کا نہیں تو پھر کیا تھا بس سلطان قادیانی کو غشی کے دورے پڑنے شروع ہو گئے اور اسی غشی کے دورے میں یہ آیت قرآن مجید کی اپنے تحریف شدہ مفہوم کے ساتھ پیش کی کہ اللہ تعالیٰ اس بات سے پاک ہے کہ کوئی بشر کو آسمان پر لے جائے اور یہ کام بے ہودہ اور عبث ہے ۔ اور یہ کہ قرآن کی یہ دلیل میری تمام دلائل کو بشمول مرزا کے دلائل کو جو اُس نے آریوں کو دیے جھوٹا اور کاذب ثابت کرتی ہے اور مرزا کے اس عقیدے کو کہ خدا آسمان پر ہے باطل ثابت کرتی ہے مضحکہ خیز لیکن اس سے بھی زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ مربی جی کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نجس یعنی گوبر ، گوہ میں ہے اور تمام کا تمام ہے اور مربی جی کے نزدیک یہ عقیدہ نا باطل ہے نا ناپاک نہ بے ہودہ اور نا ہی عبث اور نہ ہی مرزا کے اُن دلائل کے خلاف ہے جو مرزا نے آریوں کے رد میں بیان کئے تھے کہ مخلوق میں خدا کو ماننے سے تعدد لازم آتا ہے اور کئی خدا ثابت ہو جاتے ہیں ۔ ۔ اور انہوں نے الزام یہ لگایا کہ جو دلیل قرآن کی تحریف شدہ مفہوم کے ساتھ انہوں نے(یعنی سلطان محمد نے) پیش کی ہے اس دلیل سے سمیر بھائی نے راہ فرار اختیار کی اور اب تک فرار ہے۔ اور یہی دلیل غالباً انہوں نے تمام لوگوں کے لئے لکھی ہے۔ مطلب یہ کہ انہوں نے ظلی بروزی اور ناجائز طور پر سقراط و بقراط ہونے کا دعویٰ کیا ۔ لمبی لمبی چھوڑ ی ہیں۔ جس کی وجہ سے میں نے ضروری سمجھا ہے کہ جھوٹے اور مکار کو جہاں سے نکلا ہے وہیں گھسا دیا جائے ۔اور آئندہ مرزا کی طرح لاف گذاف سے باز آ جائے اور شرم و حیاء سے کام لیتے ہوئے ڈھٹائی کو چھوڑ دے ۔
اب اصل موضوع پر کلام ہے ۔ اصل آیت کا ترجمہ کچھ یوں ہے ۔
اور وہ (کفّارِ مکّہ) کہتے ہیں کہ ہم آپ پر ہرگز ایمان نہیں لائیں گے یہاں تک کہ آپ ہمارے لئے زمین سے کوئی چشمہ جاری کر دیں یا آپ کے پاس کھجوروں اور انگوروں کا کوئی باغ ہو تو آپ اس کے اندر بہتی ہوئی نہریں جاری کردیں یا جیسا کہ آپ کا خیال ہے ہم پر (ابھی) آسمان کے چند ٹکڑے گرا دیں یا آپ اﷲ کو اور فرشتوں کو ہمارے سامنے لے آئیں یا آپ کا کوئی سونے کا گھر ہو (جس میں آپ خوب عیش سے رہیں) یا آپ آسمان پر چڑھ جائیں، پھر بھی ہم آپ کے (آسمان میں) چڑھ جانے پر ہرگز ایمان نہیں لائیں گے یہاں تک کہ آپ (وہاں سے) ہمارے اوپر کوئی کتاب اتار لائیں جسے ہم (خود) پڑھ سکیں، فرما دیجئے: میرا رب (ناممکن کے عیب اور الزام سے جیسا کہ کفار مرزائی لگاتے ہیں) پاک ہے میں تو ایک انسان (اور) اﷲ کا بھیجا ہوا (رسول) ہوں(اسلئے بشر ہونے کے ناطے میں کسی معجزے پر بذاتِ خود قدرت نہیں رکھتا)
[17:90-94]
سب سے پہلے یہ جان لینا ضروری ہے کہ کفار مکہ کے مطالبات کیا تھے ۔
پہلا مطالبہ :
کفار نے کہا کہ ہم ہرگز ایمان نہیں لائیں گے آپ پر جب تک آپ رواں نہ کر دیں ہمارے لئے زمین سے ایک چشمہ ۔
دوسرا مطالبہ:
یا (لگ کر تیار) ہو جائے آپ کے لئے ایک باغ کھجوروں اور انگوروں کا ۔ پھر آپ جاری کر دیں ندیاں جو اس باغ میں بہہ رہی ہوں ۔
تیسرا مطالبہ:
یا آپ گِرا دیں آسمان کو جیسے آپ کا خیال ہے ہم پر ٹکڑے ٹکڑے کر کے ۔
چوتھا مطالبہ :
یا آپ اللہ تعالیٰ کو اور فرشتوں کو (بے نقاب کر کے) ہمارے سامنے لے آئیں ۔
پانچواں مطالبہ:
یا (تعمیر) ہو جائے آپ کے لئے ایک گھر سونے کا ۔
چھٹا مطالبہ:
یا آپ آسمان پر چڑھ جائیں ۔ اب آپ ذرا کفار کی ضد اور ہٹ دھرمی بھی ملاحظہ کیجئے کہتے ہیں کہ اگر آپ نے یہ چھ مطالبات پورے کر دیے تب بھی ہم ایمان نہیں لائیں گے ۔ بلکہ ہم تو اس پر بھی ایمان نہ لائیں گے ۔
ساتواں مطالبہ:
آپ آسمان پر چڑھیں یہاں تک کہ آپ اُتار لائیں ہم پر ایک کتاب جسے ہم پڑھیں ۔
آپ نے کفار مکہ کے ان نادان مطالبات کے جواب میں فرمایا آپ فرما دیں میرا رب (ناممکن کے عیب اور الزام سے جیسا کہ مکہ کے مشرک اور آجکل کے مرزائی لگاتے ہیں) پاک ہے میں کون ہوں مگر آدمی (اللہ) کا بھیجا ہوا (اسلئے بشر ہونے کے ناطے میں اللہ کی قدرت کے بغیر کسی معجزہ پر قدرت نہیں رکھتا) پھر اس کے بعد اگلی آیات میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ۔ اور نہیں روکا لوگوں کو ایمان لانے سے جب آئی اُن کے پاس ہدایت مگر اس چیز نے کہ اُنہوں نے کہا کہ کیا بھیجا ہے اللہ تعالیٰ نے ایک انسان کو رسول بنا کر ۔ ؟
کفار کا پہلا مطالبہ کیا تھا ۔ کفار نے کہا کہ ہم ہرگز ایمان نہیں لائیں گے آپ پر جب تک آپ رواں نہ کر دیں ہمارے لئے زمین سے ایک چشمہ
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایسا ممکن نہیں تھا ۔؟ اور ضرور تھا نبی کریم ﷺ سے پہلے حضرت موسیٰ علیہ اسلام نے پانی کے چشمے بہائے قرآن میں ہے ۔ اور یاد کرو جب پانی کی دعا مانگی موسیٰ ؑ نے اپنی قوم کے لئے تو ہم نے فرمایا مارو اپنا عصا فلاں چٹان پر تو فوراً بہہ نکلے اس چٹان سے بارہ چشمے ۔ ( پ ۱ ۔ سورہ بقرہ آیت ۶۰)
مربی جی کا الزام کیا ہے کہ یہ بیہودہ کام ہیں اور اللہ ان سے بری ہے نعوذ باللہ ۔جب موسیٰ ؑ اپنی لاٹھی پتھر پر ماریں تو بارہ چشمے جاری ہو جائیں اور اگر سید المرسلین چاہیں تو کیا ایسا نہیں ہو سکتا موسیٰ علیہ اسلام کے لئے جو کام عبث اور بیہودہ نہیں تھا وہ محمد ﷺ کے لئے کیوں بیہودہ اور امر ہو گیا ؟
ہو سکتا تھا مگر کافروں کے مطالبے پر کیوں نہیں ہوا ۔ ؟ اسلئے کہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ جب کوئی قوم معجزہ طلب کرے اور ایمان نہ لائے تو اللہ تعالیٰ پھر عذاب نازل فرما دیتا ہے ۔ اللہ فرماتا ہے ۔ اور نہیں روکا ہمیں اس امر سے کہ ہم بھیجیں (کفار کی تجویز کردہ) نشانیاں مگر اس بات نے کہ جھٹلایا تھا ان نشانیوں کو پہلوں نے (اور وہ فوراً تباہ کر دئیے گئے تھے) (پ۱۵۔سورہ بنی اسرائیل آیت۵۹)
اور آپ سنتِ الہیٰ میں ہرگز کوئی تغیر و تبدل نہ پائیں گے ۔ یہ ایمان لائیں گے نہیں اور جب یہ ایمان نہیں لائیں گے تو اللہ تعالیٰ اپنا عذاب نازل فرمائے گا اور جب تک نبی کریم ﷺ ان میں موجود ہیں تو عذاب آئے گا نہیں جیسا کہ ارشاد فرمایا ۔اور نہیں ہے اللہ تعالیٰ کی شان کہ عذاب دے انہیں حالانکہ آپ تشریف فرما ہیں ان میں ۔ (سورہ انفال آیت ۳۳)
قارئین کرام! کسی بھی قوم کا حال معلوم کر لیجئے ، کسی بھی اُمت کی اجتمائی تاریخ کا مطالعہ کر لیجئے جب اُس قوم نے معجزہ طلب کیا اور معجزہ دیکھنے کے بعد ایمان نہیں لائی اللہ تعالیٰ نے اس پر عذاب نازل فرمایا ۔ اور یہاں تو کافر کہہ رہے ہیں اگر آپ ہمارے یہ مطالبات پورے کر دیں مگر ہم اتنے ڈھیٹ اور ہٹ دھرم ہیں محمد سلطان قادیانی کی طرح کہ تب بھی ایمان نہیں لائیں گے ۔ تو اگر وہ معجزہ دیکھ کر ایمان نہیں لاتے تو پھر عذاب نازل ہوتا ۔ اور جب عذاب نازل ہوتا تو اس آیت کے بارے میں یہی قادیانی ڈھنڈورا پیٹتے کہ دیکھئے جناب عذاب نہ آنے کا وعدہ قرآن میں موجود ہے کہ اللہ کی شان نہیں کہ اللہ اُن کو عذاب دے حالانکہ آپ تشریف فرما ہیں ان میں ۔ اس کے باوجود عذاب آ گیا ۔ اور کچھ اس طرح بھی ہرزہ سرائی کرتے کہ جناب قرآن تو کہتا ہے ہم نے انہیں تمام عالمین کے لئے رحمت بنا کر بھیجا یہ کیسی رحمت ہے جو عذاب کی صورت نمودار ہو کر پوری دنیا کو ہی نیست و نابود کر گئی ۔
کفار کا دوسرا مطالبہ : یا (لگ کر تیار) ہو جائے آپ کے لئے ایک باغ کھجوروں اور انگوروں کا پھر آپ جاری کر دیں ندیاں جو اس باغ میں بہہ رہی ہوں ۔ کفار مکہ نے دوسرا مطالبہ یہ کیا کہ آپ کا ایک باغ کھجوروں اور انگوروں کا ہو اور ان کے درمیان نہریں بھی ہوں ۔اللہ رب العزت اُن کے اس مطالبے پر ارشاد فرماتا ہے ۔ بڑی (خیرو)برکت والا ہے اللہ تعالیٰ جو اگر چاہے تو بنا دے آپ کے لئے بہتر اس سے (یعنی ایسے) باغات رواں ہوں جن کے نیچے نہریں اور بنادے آپ کے لئے بڑے بڑے محلات۔(پ۱۸۔سورہ فرقان آیت۱۰) اور اہل علم پر حضرت سلمان فارسی کی آزادی کی قیمت جو تین سو درخت لگانے تھے ایک ہی دن میں اور چالیس اوقیہ سونے کی شرط پوشیدہ نہیں ۔ اب اگر حضور ﷺ کافروں کا یہ مطالبہ اُس وقت پورا کر دیتے تو کیا ہوتا ۔ کافر کیا کہتے ۔ ؟ ہم ہرگز آپ پر ایمان نہیں لائیں گے ۔ اور جب ایمان نہیں لاتے تو اللہ کی سنت کیا ہے ؟ اور نہیں روکا ہمیں اس امر سے کہ ہم بھیجیں (کفار کی تجویز کردہ) نشانیاں مگر اس بات نے کہ جھٹلایا تھا ان نشانیوں کو پہلوں نے (اور وہ فوراً تباہ کر دئیے گئے تھے)اب اگر وہ ایمان نہیں لاتے جیسے کہ وہ خود کہہ رہے ہیں کہ ہم ایمان نہیں لائیں گے تو پھر عذاب آتا اور ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔ اور نہیں ہے اللہ تعالیٰ کی شان کہ عذاب دے انہیں حالانکہ آپ تشریف فرما ہیں اُن میں ۔ سورہ انفال آیت۳۳
تیسرا مطالبہ یا آپ گرا دیں آسمان کو جیسے آپ کا خیال ہے ہم پر ٹکڑے ٹکڑے کر کے کفار نے تیسرا مطالبہ یہ کیا کہ آپ ہم پر آسمان کا ٹکڑا گرا دیجئے ۔قارئین کیا حضرت شعیب علیہ اسلام کی اُمت پر آسمان سے ٹکڑا نہیں گرا تھا ۔ ؟ ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔ لو اب گرادو ہم پر آسمان کا کوئی ٹکڑا اگر تم راست بازوں میں سے ہو ۔ آپ نے فرمایا میرا رب خوب جانتا ہے جو تم کر رہے ہو سو انہوں نے جھٹلایا شعیب کو تو پکڑ لیا انہیں چھتری والے دن کے عذاب نے بے شک یہ بڑے دن کا عذاب تھا ۔ (سورہ اشعراء آیت ۱۸۷تا ۱۸۹) کفار کے مطالبے پر آسمان سے ٹکڑا تو گر جاتا مگر کیا یہ ایمان لاتے ؟ خود کہہ رہے ہیں ۔ہم ہرگز آپ پر ایمان نہیں لائیں گے ۔ پھر جب معجزہ دیکھ کر ایمان نہیں لائیں گے تو عذاب آئے گا اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔ اور نہیں ہے اللہ تعالیٰ کی شان کہ عذاب دے انہیں حالانکہ آپ تشریف فرما ہیں ان میں ۔ (سورہ انفال ۔ آیت ۳۳) خود اللہ العزت ارشاد فرماتا ہے ۔ اگر ہم چاہیں تو دھنسا دیں انہیں زمین میں یا گرا دیں ان پر چند ٹکڑے آسمان سے ۔اب اگر ٹکڑا گر بھی جائے تب بھی یہ ایمان نہیں لائیں گے ۔ اللہ رب العزت عالم الغیب والشہادۃ ہے وہ جانتا ہے کہ یہ ایمان لائیں گے یا نہیں اسی لئے ارشاد فرمایا ۔ اور اگر وہ دیکھ لیں آسمان کے کسی ٹکڑے کو گرتا ہوا تو یہ (احمق) کہیں گے یہ تو بادل ہے تہہ در تہہ پس انہیں (یونہی) چھوڑ دیجئے یہاں تک کہ وہ اپنے اُس دن کو پالیں جس میں وہ غش کھا کر گر پڑیں گے ۔ (سورہ الطور۔ آیت ۴۵،۴۴)
چوتھا مطالبہ:یاآپ اللہ تعالیٰ کو اور فرشتوں کو (بے نقاب کر کے) ہمارے سامنے لے آئیں ۔کفار نے چوتھا مطالبہ کیا کہ اللہ اور فرشتوں کو سامنے لے آو ۔ ایسا ہی مطالبہ یہودیوں نے حضرت موسیٰ علیہ اسلام سے کیا تھا جیسے قرآن نے یوں بیان فرمایا : اُنہوں نے کہا تھا (اے موسیٰؑ) دکھاو ہمیں اللہ کھلم کھلا تو پکڑ لیا تھا انہیں بجلی کی کڑک نے بسبب اُن کے ظلم کے ۔ (سورہ النساء۔آیت ۱۵۳)اور دوسری جگہ اُن کے مطالبے کو یوں بیان فرمایااور یاد کرو جب تم نے کہا تھا اے موسیٰ ہم ہرگز ایمان نہیں لائیں گے تجھ پر جب تک ہم نہ دیکھ لیں اللہ کو ظاہر پس(اس گستاخی پر) آ لیا تم کو بجلی کی کڑک نے اور تم دیکھ رہے تھے ۔ (سور بقرہ۔ آیت ۵۵)جب اس مطالبے کے نتیجے میں بنی اسرائیل کو ایک کڑک نے آ لیا تو اُن کا انجام اس سے مختلف تو ہوگا نہیں ، اس لئے ان کا یہ مطالبہ بھی کٹ حجتی ہے ۔
پانچواں مطالبہ: یا تعمیر ہو جائے آپ کے لئے ایک گھر سونے کا ۔ پانچواں مطالبہ یہ کیا کہ اپنے لئے ہی سہی ایک سونے کا محل بنوا لیں ۔ کفار سونے کے مکان کونبوت کا معیار سمجھ رہے تھے ۔ اُن کے اس مطالبے کے جواب میں فرمایا ۔ اور اگر یہ خیال نہ ہوتا کہ سب لوگ ایک اُمت بن جائیں گے تو ہم بنا دیتے ان کے لئے جو انکار کرتے ہیں رحمن کا ان کے مکانوں کے لئے چھتیں چاندی کی اور سیڑھیاں جن پر وہ چڑھتے ہیں (وہ بھی چاندی کی) اور ان کے گھروں کے دروازے بھی چاندی کے او روہ تخت جن پر وہ تکیہ لگاتے ہیں وہ بھی چاندی اور سونے کے اور یہ سب (سنہری رو پہیلی) چیزیں دنیوی زندگی کا سامان ہے اور آخرت (کی عزت و کامیابی) آپ کے رب کے نزدیک پرہیزگاروں کے لئے ہے ۔ سونا یا چاندی سچائی کا معیار نہیں جیسا کہ اُس وقت کے کفار اور آج کل کے مرزائی سمجھتے ہیں اگر اللہ تعالیٰ ان کافروں کے سونے چاندی کے مکانات بنا دے تو کیا یہ نبی بن جائیں گے یہ تو نبوت کے لئے معیار نہیں ۔ اور اگر ہم اپنے نبی کے لئے بنا دیں تو تم ایمان نہیں لاو گے اور جب تم ایمان نہیں لاو گے تو عذاب آئے گا اور اللہ کی یہ شان نہیں کہ وہ عذاب دے جب آپ ان میں موجود ہوں ۔
چھٹا مطالبہ ۔ یا آپ آسمان پر چڑھ جائیں ۔ چھٹا مطالبہ یہ کیا کہ آپ آسمان پر چڑھ جائیں اور ایک کتاب اُتار لائیں ہم پر جسے ہم پڑھیں ۔ کفار نے یہ آخری مطالبہ کیا ۔ کیا اس کے بعد یہ ایمان لے آتے ۔ ؟ اللہ تعالیٰ عالم الغیب ہے وہ جانتا ہے کہ یہ ایمان نہیں لائیں گے ارشاد فرمایا ۔ اور ہم کھول بھی دیتے ان پر دروازہ آسمان سے اور وہ سارا دن اس میں سے چڑھتے رہتے پھر بھی وہ یہی کہتے کہ ہماری تو نظر بند کر دی گئی ہیں بلکہ ہم ایسی قوم ہیں جن پر جادو کر دیا گیا ہے ۔ سورہ الحجر ۔ آیت ۱۴۔۱۵)مرزائیوں کے تمام مکر قرآن مجید کی اس آیت نے باطل کر دیے ان کے تمام جھوٹے محل زمین بھوس ہو گئے تمام باطل بت ٹوٹ گئے ۔ سبحان اللہ کیونکہ کسی کو آسمان پر لے کر جانا عبث نہیں ہے اللہ تعالیٰ کے نزدیک جیسا کہ مرزائیوں کے جھوٹے الزام ہیں ۔ کسی کو آسمان پر لے کر جانا ناممکن نہیں ہے اللہ تعالیٰ کے نزدیک جیسا کہ مرزائی بکتے ہیں کسی کو آسمان پر لے کر جانا بیہودہ امر نہیں ہے اللہ تعالیٰ کے نزدیک جیسا کہ مرزائی رنڈی رونا روتے ہیں ۔تو سابت ہوا کہ یہ سب مرزائی دجالوں کے مکر اور کذب ہیں لعنت اللہ علی الکاذبین ۔ میں مرزائیوں کی ان کی ہی ویب سائیٹ سے اس آیت کا ترجمہ بھی پیش کر رہا ہوں ۔ تاکہ حجت تمام ہو جائے ۔ ’’اور اگر کھولیں ہم ان پر دروازہ آسمان سے پھر لگیں اس میں چڑھنے ۔ تو ضرور کہیں کہ سوائے اس کے نہیں کہ متوالی کی گئی ہیں آنکھیں ہماری بلکہ ہم لوگ ہیں جادو کئے ہوئے ۔ ترجمان جناب میر اسحاق صاحب قادیانی ۔
یہ آیت بتا رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس پر قادر ہے کہ وہ کافروں کے لئے آسمان کے دروزے کھول دے یہ آسمان پر چڑھ جائیں مگر یہ بے ایمان ایمان نہیں لائیں گے ۔ جیسے کہ اب مرزائی نہیں لائیں گے اللہ کی قدرت جان کر بھی ۔ پھر بھی بے شرموں کی طرح کہیں گے کہ یہ تو عبث ہے یہ تو بے ہودہ امر ہے ۔ لعنت اللہ علی الکاذبین یہ افتراء ہے جو مرزائی دجال لگاتے ہیں اور کچھ نہیں ۔ مسلمان ہوشیار باش ۔ ایک اور کتاب کے مطالبہ پر فرمایا ۔ اور اگر ہم اُتارتے آپ پر کتاب (لکھی ہوئی) کاغذ پر اور وہ چھو بھی لیتے اس کو اپنے ہاتھوں سے تب بھی کہتے جنہوں نے کفر اختیار کیا ہے کہ نہیں ہے یہ مگر جادو کھلا ہوا ۔ سورہ الانعام ۔ آیت ۷اور آپ سنت الہیٰ میں ہرگز کوئی تغیر و تبدل نہ پائیں گے ۔ قانون خداوندی ہے کہ جب کسی قوم پر عذاب آیا تو عذاب سے قبل اس قوم کے پیغمبر کو اس قوم سے نکال لیا اور حضور ﷺ عالمی پیغمبر ہیں جیسا کہ قرآن میں ہے ۔ اور نہیں بھیجا ہم نے آپ کو مگر تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر ۔ اور سورہ اعراف میں فرمایا آپ فرمائیے اے لوگو بے شک میں اللہ کا رسول ہوں تم سب کی طرف ۔ لہٰذا اللہ کی مشیت میں جن کا ایمان نہ تھا اللہ نے فرمایا :ھل کنت الا بشرا رسولا کہہ کر ٹال دیجئے ۔ اگر کسی کا عقل سلب نہیں ہو گئی تو وہ مجھے بتائے کہ یہاں حضرت محمد ﷺ نے اپنی قدرت کا انکار کیا ہے یا اللہ تعالیٰ کی قدرت کا ۔ ؟ اللہ تعالیٰ کے معجزات کو عبث اور بیہودہ امر جاننا بس مرزائی دجالوں کا ہی کام ہے ۔ جس کی ایک مثال میں نیچے دے رہا ہوں ۔ تیس دجالوں میں سے ایک دجال مرزا قادیانی کہتا ہے حضرت مسیح ابن مریم باذن و حکم الہٰی الیسع نبی کی طرح اس عمل الترب (مسمریزم) میں کمال رکھتے تھے ۔ اگر یہ عاجز اس عمل کو مکروہ اور قابل نفرت نہ سمجھتا تو خدا تعالیٰ کے فضل و توفیق سے اُمید قوی رکھتا تھا ۔ کہ اعجوبہ نمائیوں میں حضرت ابن مریم سے کم نہ رہتا ۔ (صفحہ ۳۰۸۔ازالہ اوہام) تیس دجالوں میں سے ایک دجال مرزا قادیانی بھی معجزات کو مکروہ قابل نفرت جانتے تھے اور اب اس دجال کے چیلے جن میں سے ایک سلطان محمد ہے وہ بھی معجزات الہیٰ کو عبث اور بیہودہ جانتا ہے ۔(انگور کھٹے ہیں والی کہانی تو آپ نے پڑھی ہوگی بچپن میں) خیر یہ مجھے صرف اس عبارت پر غور کر کے بتائیں کہ مرزا نے اس اعجوبہ نمائیوں کی قدرت کس کے ساتھ جوڑی ہے ۔ ؟ خدا تعالیٰ کی قدرت کے ساتھ یا اپنی قدرت کے ساتھ ۔ ؟ بے شک مرزا نے اللہ تعالیٰ کی قدرت کے ساتھ ان عجوبہ نمائیوں کو جوڑا ہے اور وہ بذاتِ خود کچھ نہیں وہی بات مذکورہ آیت میں ہے کہ وہاں بھی اللہ کی قدرت کا انکار نہیں بلکہ حضرت محمد ﷺ کا اپنی قدرت پر یہ سب کرنے سے انکار ہے ۔ خدا تمہاری پسندیدہ نشانی بھی نازل کرسکتا ہے لیکن اکثریت اس بات کو بھی نہیں جانتی ہے .37اور اب میں آخر میں مرزا غلام احمد قادیانی دجال کی عبارت لگا رہا ہوں جو خود مرزا کی اوپر والی تحریف کی تکذیب کرتی ہے اور کسی بھی انسان کے لئے جو خوف خدا رکھتا ہے ۔ اُسے مرزا کو دجال سمجھنے میں مدد کرتی ہے ملاحظہ فرمائیں ۔
یاد رکھنا چاہیے کہ اقتراح کے نشانوں کو اللہ تعالیٰ نے منع کیا ہے ۔ نبی کبھی جرات کر کے یہ نہیں کہیگا کہ تم جو نشان مجھ سے مانگو میں وہی دکھانے کو تیار ہوں اس کے منہ سے جو نکلیگا یہی نکلے گا انما الایات عند اللہ ۔ اور یہی اس کی صداقت کا نشان ہوتا ہے ۔ کم نصیب مخالف اس قسم کی آیتوں سے یہ نتیجہ نکال لیتے ہیں کہ معجزات سے انکار کیا گیا ہے مگر وہ آنکھوں کے اندھے ہیں اُن کو معجزات کی حقیقت ہی معلوم نہیں (اب بتائیں خدا کے لئے انصاف کرتے ہوئے کہ یہاں آنکھوں کا اندھا کون ہے ، اور بدنصیب کون ہے بیوقوف کون ہے اور جاہل کون ہے جزاک اللہ آپ کے دل کی آواز سن لی آپ نے مرزا غلام احمد قادیانی کا نام لیا ہے شکریہ) اس لئے وہ ایسے اعتراض کرتے ہیں اور نہ ذات باری کی عزت اور جبروت کا ادب اُن کے دل پر ہوتا ہے ہمارا خدا تعالیٰ پر کیا حق ہے کہ ہم جو کہیں وہی کر دے یہ سُو ادب ہے ۔ ایسا خدا خدا ہی نہیں ہو سکتا ۔ ملفوظات جلد 5صفحہ 263اولڈ ایڈیشن دیکھو ہم اپنی نشانیوں کو کس طرح الٹ پلٹ کر دکھلاتے ہیں اور پھر بھی یہ منہ موڑ لیتے ہیں۔القرآن
تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے دلائل آچکے ہیں اب جو بصیرت سے کام لے گا وہ اپنے لئے اور جو اندھا بن جائے گا وہ بھی اپنا ہی نقصان کرے گا القرآن
دوستو میری بحث محمد سلطان جو کہ پیشہ ور قادیانی مربی لگتا جس کا اندازہ اس کی کمال درجے کی ڈھٹائی اورجہالت کو دیکھ کر بخوبی لگایا جا سکتا ہے کے ساتھ ہو رہی تھی موضوع بحث تھا کہ اللہ تعالیٰ کی سمت کس طرف ہے ۔ ؟ سلطان محمد صاحب دلائل و برہان کی روشنی میں اپنا موقف ثابت کرنے میں ناکام رہے اور عاجز آ گئے ۔ میری بار بار کی تنبیہ کے باوجود غلط مباحثیں شروع کیں تاکہ اصل موضوع سے راہ فرار اختیار کر لیں ۔ اور جب میں نے قارئین کو ان کی عاجزی کی طرف توجہ دلائی اور موضوع کو یہ کہہ کر اختتام پر پہنچا دیا کہ اب یہ عاجز آ چکے ہیں۔ اب کوئی فائدہ بحث کا نہیں تو پھر کیا تھا بس سلطان قادیانی کو غشی کے دورے پڑنے شروع ہو گئے اور اسی غشی کے دورے میں یہ آیت قرآن مجید کی اپنے تحریف شدہ مفہوم کے ساتھ پیش کی کہ اللہ تعالیٰ اس بات سے پاک ہے کہ کوئی بشر کو آسمان پر لے جائے اور یہ کام بے ہودہ اور عبث ہے ۔ اور یہ کہ قرآن کی یہ دلیل میری تمام دلائل کو بشمول مرزا کے دلائل کو جو اُس نے آریوں کو دیے جھوٹا اور کاذب ثابت کرتی ہے اور مرزا کے اس عقیدے کو کہ خدا آسمان پر ہے باطل ثابت کرتی ہے مضحکہ خیز لیکن اس سے بھی زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ مربی جی کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نجس یعنی گوبر ، گوہ میں ہے اور تمام کا تمام ہے اور مربی جی کے نزدیک یہ عقیدہ نا باطل ہے نا ناپاک نہ بے ہودہ اور نا ہی عبث اور نہ ہی مرزا کے اُن دلائل کے خلاف ہے جو مرزا نے آریوں کے رد میں بیان کئے تھے کہ مخلوق میں خدا کو ماننے سے تعدد لازم آتا ہے اور کئی خدا ثابت ہو جاتے ہیں ۔ ۔ اور انہوں نے الزام یہ لگایا کہ جو دلیل قرآن کی تحریف شدہ مفہوم کے ساتھ انہوں نے(یعنی سلطان محمد نے) پیش کی ہے اس دلیل سے سمیر بھائی نے راہ فرار اختیار کی اور اب تک فرار ہے۔ اور یہی دلیل غالباً انہوں نے تمام لوگوں کے لئے لکھی ہے۔ مطلب یہ کہ انہوں نے ظلی بروزی اور ناجائز طور پر سقراط و بقراط ہونے کا دعویٰ کیا ۔ لمبی لمبی چھوڑ ی ہیں۔ جس کی وجہ سے میں نے ضروری سمجھا ہے کہ جھوٹے اور مکار کو جہاں سے نکلا ہے وہیں گھسا دیا جائے ۔اور آئندہ مرزا کی طرح لاف گذاف سے باز آ جائے اور شرم و حیاء سے کام لیتے ہوئے ڈھٹائی کو چھوڑ دے ۔
اب اصل موضوع پر کلام ہے ۔ اصل آیت کا ترجمہ کچھ یوں ہے ۔
اور وہ (کفّارِ مکّہ) کہتے ہیں کہ ہم آپ پر ہرگز ایمان نہیں لائیں گے یہاں تک کہ آپ ہمارے لئے زمین سے کوئی چشمہ جاری کر دیں یا آپ کے پاس کھجوروں اور انگوروں کا کوئی باغ ہو تو آپ اس کے اندر بہتی ہوئی نہریں جاری کردیں یا جیسا کہ آپ کا خیال ہے ہم پر (ابھی) آسمان کے چند ٹکڑے گرا دیں یا آپ اﷲ کو اور فرشتوں کو ہمارے سامنے لے آئیں یا آپ کا کوئی سونے کا گھر ہو (جس میں آپ خوب عیش سے رہیں) یا آپ آسمان پر چڑھ جائیں، پھر بھی ہم آپ کے (آسمان میں) چڑھ جانے پر ہرگز ایمان نہیں لائیں گے یہاں تک کہ آپ (وہاں سے) ہمارے اوپر کوئی کتاب اتار لائیں جسے ہم (خود) پڑھ سکیں، فرما دیجئے: میرا رب (ناممکن کے عیب اور الزام سے جیسا کہ کفار مرزائی لگاتے ہیں) پاک ہے میں تو ایک انسان (اور) اﷲ کا بھیجا ہوا (رسول) ہوں(اسلئے بشر ہونے کے ناطے میں کسی معجزے پر بذاتِ خود قدرت نہیں رکھتا)
[17:90-94]
سب سے پہلے یہ جان لینا ضروری ہے کہ کفار مکہ کے مطالبات کیا تھے ۔
پہلا مطالبہ :
کفار نے کہا کہ ہم ہرگز ایمان نہیں لائیں گے آپ پر جب تک آپ رواں نہ کر دیں ہمارے لئے زمین سے ایک چشمہ ۔
دوسرا مطالبہ:
یا (لگ کر تیار) ہو جائے آپ کے لئے ایک باغ کھجوروں اور انگوروں کا ۔ پھر آپ جاری کر دیں ندیاں جو اس باغ میں بہہ رہی ہوں ۔
تیسرا مطالبہ:
یا آپ گِرا دیں آسمان کو جیسے آپ کا خیال ہے ہم پر ٹکڑے ٹکڑے کر کے ۔
چوتھا مطالبہ :
یا آپ اللہ تعالیٰ کو اور فرشتوں کو (بے نقاب کر کے) ہمارے سامنے لے آئیں ۔
پانچواں مطالبہ:
یا (تعمیر) ہو جائے آپ کے لئے ایک گھر سونے کا ۔
چھٹا مطالبہ:
یا آپ آسمان پر چڑھ جائیں ۔ اب آپ ذرا کفار کی ضد اور ہٹ دھرمی بھی ملاحظہ کیجئے کہتے ہیں کہ اگر آپ نے یہ چھ مطالبات پورے کر دیے تب بھی ہم ایمان نہیں لائیں گے ۔ بلکہ ہم تو اس پر بھی ایمان نہ لائیں گے ۔
ساتواں مطالبہ:
آپ آسمان پر چڑھیں یہاں تک کہ آپ اُتار لائیں ہم پر ایک کتاب جسے ہم پڑھیں ۔
آپ نے کفار مکہ کے ان نادان مطالبات کے جواب میں فرمایا آپ فرما دیں میرا رب (ناممکن کے عیب اور الزام سے جیسا کہ مکہ کے مشرک اور آجکل کے مرزائی لگاتے ہیں) پاک ہے میں کون ہوں مگر آدمی (اللہ) کا بھیجا ہوا (اسلئے بشر ہونے کے ناطے میں اللہ کی قدرت کے بغیر کسی معجزہ پر قدرت نہیں رکھتا) پھر اس کے بعد اگلی آیات میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ۔ اور نہیں روکا لوگوں کو ایمان لانے سے جب آئی اُن کے پاس ہدایت مگر اس چیز نے کہ اُنہوں نے کہا کہ کیا بھیجا ہے اللہ تعالیٰ نے ایک انسان کو رسول بنا کر ۔ ؟
کفار کا پہلا مطالبہ کیا تھا ۔ کفار نے کہا کہ ہم ہرگز ایمان نہیں لائیں گے آپ پر جب تک آپ رواں نہ کر دیں ہمارے لئے زمین سے ایک چشمہ
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایسا ممکن نہیں تھا ۔؟ اور ضرور تھا نبی کریم ﷺ سے پہلے حضرت موسیٰ علیہ اسلام نے پانی کے چشمے بہائے قرآن میں ہے ۔ اور یاد کرو جب پانی کی دعا مانگی موسیٰ ؑ نے اپنی قوم کے لئے تو ہم نے فرمایا مارو اپنا عصا فلاں چٹان پر تو فوراً بہہ نکلے اس چٹان سے بارہ چشمے ۔ ( پ ۱ ۔ سورہ بقرہ آیت ۶۰)
مربی جی کا الزام کیا ہے کہ یہ بیہودہ کام ہیں اور اللہ ان سے بری ہے نعوذ باللہ ۔جب موسیٰ ؑ اپنی لاٹھی پتھر پر ماریں تو بارہ چشمے جاری ہو جائیں اور اگر سید المرسلین چاہیں تو کیا ایسا نہیں ہو سکتا موسیٰ علیہ اسلام کے لئے جو کام عبث اور بیہودہ نہیں تھا وہ محمد ﷺ کے لئے کیوں بیہودہ اور امر ہو گیا ؟
ہو سکتا تھا مگر کافروں کے مطالبے پر کیوں نہیں ہوا ۔ ؟ اسلئے کہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ جب کوئی قوم معجزہ طلب کرے اور ایمان نہ لائے تو اللہ تعالیٰ پھر عذاب نازل فرما دیتا ہے ۔ اللہ فرماتا ہے ۔ اور نہیں روکا ہمیں اس امر سے کہ ہم بھیجیں (کفار کی تجویز کردہ) نشانیاں مگر اس بات نے کہ جھٹلایا تھا ان نشانیوں کو پہلوں نے (اور وہ فوراً تباہ کر دئیے گئے تھے) (پ۱۵۔سورہ بنی اسرائیل آیت۵۹)
اور آپ سنتِ الہیٰ میں ہرگز کوئی تغیر و تبدل نہ پائیں گے ۔ یہ ایمان لائیں گے نہیں اور جب یہ ایمان نہیں لائیں گے تو اللہ تعالیٰ اپنا عذاب نازل فرمائے گا اور جب تک نبی کریم ﷺ ان میں موجود ہیں تو عذاب آئے گا نہیں جیسا کہ ارشاد فرمایا ۔اور نہیں ہے اللہ تعالیٰ کی شان کہ عذاب دے انہیں حالانکہ آپ تشریف فرما ہیں ان میں ۔ (سورہ انفال آیت ۳۳)
قارئین کرام! کسی بھی قوم کا حال معلوم کر لیجئے ، کسی بھی اُمت کی اجتمائی تاریخ کا مطالعہ کر لیجئے جب اُس قوم نے معجزہ طلب کیا اور معجزہ دیکھنے کے بعد ایمان نہیں لائی اللہ تعالیٰ نے اس پر عذاب نازل فرمایا ۔ اور یہاں تو کافر کہہ رہے ہیں اگر آپ ہمارے یہ مطالبات پورے کر دیں مگر ہم اتنے ڈھیٹ اور ہٹ دھرم ہیں محمد سلطان قادیانی کی طرح کہ تب بھی ایمان نہیں لائیں گے ۔ تو اگر وہ معجزہ دیکھ کر ایمان نہیں لاتے تو پھر عذاب نازل ہوتا ۔ اور جب عذاب نازل ہوتا تو اس آیت کے بارے میں یہی قادیانی ڈھنڈورا پیٹتے کہ دیکھئے جناب عذاب نہ آنے کا وعدہ قرآن میں موجود ہے کہ اللہ کی شان نہیں کہ اللہ اُن کو عذاب دے حالانکہ آپ تشریف فرما ہیں ان میں ۔ اس کے باوجود عذاب آ گیا ۔ اور کچھ اس طرح بھی ہرزہ سرائی کرتے کہ جناب قرآن تو کہتا ہے ہم نے انہیں تمام عالمین کے لئے رحمت بنا کر بھیجا یہ کیسی رحمت ہے جو عذاب کی صورت نمودار ہو کر پوری دنیا کو ہی نیست و نابود کر گئی ۔
کفار کا دوسرا مطالبہ : یا (لگ کر تیار) ہو جائے آپ کے لئے ایک باغ کھجوروں اور انگوروں کا پھر آپ جاری کر دیں ندیاں جو اس باغ میں بہہ رہی ہوں ۔ کفار مکہ نے دوسرا مطالبہ یہ کیا کہ آپ کا ایک باغ کھجوروں اور انگوروں کا ہو اور ان کے درمیان نہریں بھی ہوں ۔اللہ رب العزت اُن کے اس مطالبے پر ارشاد فرماتا ہے ۔ بڑی (خیرو)برکت والا ہے اللہ تعالیٰ جو اگر چاہے تو بنا دے آپ کے لئے بہتر اس سے (یعنی ایسے) باغات رواں ہوں جن کے نیچے نہریں اور بنادے آپ کے لئے بڑے بڑے محلات۔(پ۱۸۔سورہ فرقان آیت۱۰) اور اہل علم پر حضرت سلمان فارسی کی آزادی کی قیمت جو تین سو درخت لگانے تھے ایک ہی دن میں اور چالیس اوقیہ سونے کی شرط پوشیدہ نہیں ۔ اب اگر حضور ﷺ کافروں کا یہ مطالبہ اُس وقت پورا کر دیتے تو کیا ہوتا ۔ کافر کیا کہتے ۔ ؟ ہم ہرگز آپ پر ایمان نہیں لائیں گے ۔ اور جب ایمان نہیں لاتے تو اللہ کی سنت کیا ہے ؟ اور نہیں روکا ہمیں اس امر سے کہ ہم بھیجیں (کفار کی تجویز کردہ) نشانیاں مگر اس بات نے کہ جھٹلایا تھا ان نشانیوں کو پہلوں نے (اور وہ فوراً تباہ کر دئیے گئے تھے)اب اگر وہ ایمان نہیں لاتے جیسے کہ وہ خود کہہ رہے ہیں کہ ہم ایمان نہیں لائیں گے تو پھر عذاب آتا اور ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔ اور نہیں ہے اللہ تعالیٰ کی شان کہ عذاب دے انہیں حالانکہ آپ تشریف فرما ہیں اُن میں ۔ سورہ انفال آیت۳۳
تیسرا مطالبہ یا آپ گرا دیں آسمان کو جیسے آپ کا خیال ہے ہم پر ٹکڑے ٹکڑے کر کے کفار نے تیسرا مطالبہ یہ کیا کہ آپ ہم پر آسمان کا ٹکڑا گرا دیجئے ۔قارئین کیا حضرت شعیب علیہ اسلام کی اُمت پر آسمان سے ٹکڑا نہیں گرا تھا ۔ ؟ ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔ لو اب گرادو ہم پر آسمان کا کوئی ٹکڑا اگر تم راست بازوں میں سے ہو ۔ آپ نے فرمایا میرا رب خوب جانتا ہے جو تم کر رہے ہو سو انہوں نے جھٹلایا شعیب کو تو پکڑ لیا انہیں چھتری والے دن کے عذاب نے بے شک یہ بڑے دن کا عذاب تھا ۔ (سورہ اشعراء آیت ۱۸۷تا ۱۸۹) کفار کے مطالبے پر آسمان سے ٹکڑا تو گر جاتا مگر کیا یہ ایمان لاتے ؟ خود کہہ رہے ہیں ۔ہم ہرگز آپ پر ایمان نہیں لائیں گے ۔ پھر جب معجزہ دیکھ کر ایمان نہیں لائیں گے تو عذاب آئے گا اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔ اور نہیں ہے اللہ تعالیٰ کی شان کہ عذاب دے انہیں حالانکہ آپ تشریف فرما ہیں ان میں ۔ (سورہ انفال ۔ آیت ۳۳) خود اللہ العزت ارشاد فرماتا ہے ۔ اگر ہم چاہیں تو دھنسا دیں انہیں زمین میں یا گرا دیں ان پر چند ٹکڑے آسمان سے ۔اب اگر ٹکڑا گر بھی جائے تب بھی یہ ایمان نہیں لائیں گے ۔ اللہ رب العزت عالم الغیب والشہادۃ ہے وہ جانتا ہے کہ یہ ایمان لائیں گے یا نہیں اسی لئے ارشاد فرمایا ۔ اور اگر وہ دیکھ لیں آسمان کے کسی ٹکڑے کو گرتا ہوا تو یہ (احمق) کہیں گے یہ تو بادل ہے تہہ در تہہ پس انہیں (یونہی) چھوڑ دیجئے یہاں تک کہ وہ اپنے اُس دن کو پالیں جس میں وہ غش کھا کر گر پڑیں گے ۔ (سورہ الطور۔ آیت ۴۵،۴۴)
چوتھا مطالبہ:یاآپ اللہ تعالیٰ کو اور فرشتوں کو (بے نقاب کر کے) ہمارے سامنے لے آئیں ۔کفار نے چوتھا مطالبہ کیا کہ اللہ اور فرشتوں کو سامنے لے آو ۔ ایسا ہی مطالبہ یہودیوں نے حضرت موسیٰ علیہ اسلام سے کیا تھا جیسے قرآن نے یوں بیان فرمایا : اُنہوں نے کہا تھا (اے موسیٰؑ) دکھاو ہمیں اللہ کھلم کھلا تو پکڑ لیا تھا انہیں بجلی کی کڑک نے بسبب اُن کے ظلم کے ۔ (سورہ النساء۔آیت ۱۵۳)اور دوسری جگہ اُن کے مطالبے کو یوں بیان فرمایااور یاد کرو جب تم نے کہا تھا اے موسیٰ ہم ہرگز ایمان نہیں لائیں گے تجھ پر جب تک ہم نہ دیکھ لیں اللہ کو ظاہر پس(اس گستاخی پر) آ لیا تم کو بجلی کی کڑک نے اور تم دیکھ رہے تھے ۔ (سور بقرہ۔ آیت ۵۵)جب اس مطالبے کے نتیجے میں بنی اسرائیل کو ایک کڑک نے آ لیا تو اُن کا انجام اس سے مختلف تو ہوگا نہیں ، اس لئے ان کا یہ مطالبہ بھی کٹ حجتی ہے ۔
پانچواں مطالبہ: یا تعمیر ہو جائے آپ کے لئے ایک گھر سونے کا ۔ پانچواں مطالبہ یہ کیا کہ اپنے لئے ہی سہی ایک سونے کا محل بنوا لیں ۔ کفار سونے کے مکان کونبوت کا معیار سمجھ رہے تھے ۔ اُن کے اس مطالبے کے جواب میں فرمایا ۔ اور اگر یہ خیال نہ ہوتا کہ سب لوگ ایک اُمت بن جائیں گے تو ہم بنا دیتے ان کے لئے جو انکار کرتے ہیں رحمن کا ان کے مکانوں کے لئے چھتیں چاندی کی اور سیڑھیاں جن پر وہ چڑھتے ہیں (وہ بھی چاندی کی) اور ان کے گھروں کے دروازے بھی چاندی کے او روہ تخت جن پر وہ تکیہ لگاتے ہیں وہ بھی چاندی اور سونے کے اور یہ سب (سنہری رو پہیلی) چیزیں دنیوی زندگی کا سامان ہے اور آخرت (کی عزت و کامیابی) آپ کے رب کے نزدیک پرہیزگاروں کے لئے ہے ۔ سونا یا چاندی سچائی کا معیار نہیں جیسا کہ اُس وقت کے کفار اور آج کل کے مرزائی سمجھتے ہیں اگر اللہ تعالیٰ ان کافروں کے سونے چاندی کے مکانات بنا دے تو کیا یہ نبی بن جائیں گے یہ تو نبوت کے لئے معیار نہیں ۔ اور اگر ہم اپنے نبی کے لئے بنا دیں تو تم ایمان نہیں لاو گے اور جب تم ایمان نہیں لاو گے تو عذاب آئے گا اور اللہ کی یہ شان نہیں کہ وہ عذاب دے جب آپ ان میں موجود ہوں ۔
چھٹا مطالبہ ۔ یا آپ آسمان پر چڑھ جائیں ۔ چھٹا مطالبہ یہ کیا کہ آپ آسمان پر چڑھ جائیں اور ایک کتاب اُتار لائیں ہم پر جسے ہم پڑھیں ۔ کفار نے یہ آخری مطالبہ کیا ۔ کیا اس کے بعد یہ ایمان لے آتے ۔ ؟ اللہ تعالیٰ عالم الغیب ہے وہ جانتا ہے کہ یہ ایمان نہیں لائیں گے ارشاد فرمایا ۔ اور ہم کھول بھی دیتے ان پر دروازہ آسمان سے اور وہ سارا دن اس میں سے چڑھتے رہتے پھر بھی وہ یہی کہتے کہ ہماری تو نظر بند کر دی گئی ہیں بلکہ ہم ایسی قوم ہیں جن پر جادو کر دیا گیا ہے ۔ سورہ الحجر ۔ آیت ۱۴۔۱۵)مرزائیوں کے تمام مکر قرآن مجید کی اس آیت نے باطل کر دیے ان کے تمام جھوٹے محل زمین بھوس ہو گئے تمام باطل بت ٹوٹ گئے ۔ سبحان اللہ کیونکہ کسی کو آسمان پر لے کر جانا عبث نہیں ہے اللہ تعالیٰ کے نزدیک جیسا کہ مرزائیوں کے جھوٹے الزام ہیں ۔ کسی کو آسمان پر لے کر جانا ناممکن نہیں ہے اللہ تعالیٰ کے نزدیک جیسا کہ مرزائی بکتے ہیں کسی کو آسمان پر لے کر جانا بیہودہ امر نہیں ہے اللہ تعالیٰ کے نزدیک جیسا کہ مرزائی رنڈی رونا روتے ہیں ۔تو سابت ہوا کہ یہ سب مرزائی دجالوں کے مکر اور کذب ہیں لعنت اللہ علی الکاذبین ۔ میں مرزائیوں کی ان کی ہی ویب سائیٹ سے اس آیت کا ترجمہ بھی پیش کر رہا ہوں ۔ تاکہ حجت تمام ہو جائے ۔ ’’اور اگر کھولیں ہم ان پر دروازہ آسمان سے پھر لگیں اس میں چڑھنے ۔ تو ضرور کہیں کہ سوائے اس کے نہیں کہ متوالی کی گئی ہیں آنکھیں ہماری بلکہ ہم لوگ ہیں جادو کئے ہوئے ۔ ترجمان جناب میر اسحاق صاحب قادیانی ۔
یہ آیت بتا رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس پر قادر ہے کہ وہ کافروں کے لئے آسمان کے دروزے کھول دے یہ آسمان پر چڑھ جائیں مگر یہ بے ایمان ایمان نہیں لائیں گے ۔ جیسے کہ اب مرزائی نہیں لائیں گے اللہ کی قدرت جان کر بھی ۔ پھر بھی بے شرموں کی طرح کہیں گے کہ یہ تو عبث ہے یہ تو بے ہودہ امر ہے ۔ لعنت اللہ علی الکاذبین یہ افتراء ہے جو مرزائی دجال لگاتے ہیں اور کچھ نہیں ۔ مسلمان ہوشیار باش ۔ ایک اور کتاب کے مطالبہ پر فرمایا ۔ اور اگر ہم اُتارتے آپ پر کتاب (لکھی ہوئی) کاغذ پر اور وہ چھو بھی لیتے اس کو اپنے ہاتھوں سے تب بھی کہتے جنہوں نے کفر اختیار کیا ہے کہ نہیں ہے یہ مگر جادو کھلا ہوا ۔ سورہ الانعام ۔ آیت ۷اور آپ سنت الہیٰ میں ہرگز کوئی تغیر و تبدل نہ پائیں گے ۔ قانون خداوندی ہے کہ جب کسی قوم پر عذاب آیا تو عذاب سے قبل اس قوم کے پیغمبر کو اس قوم سے نکال لیا اور حضور ﷺ عالمی پیغمبر ہیں جیسا کہ قرآن میں ہے ۔ اور نہیں بھیجا ہم نے آپ کو مگر تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر ۔ اور سورہ اعراف میں فرمایا آپ فرمائیے اے لوگو بے شک میں اللہ کا رسول ہوں تم سب کی طرف ۔ لہٰذا اللہ کی مشیت میں جن کا ایمان نہ تھا اللہ نے فرمایا :ھل کنت الا بشرا رسولا کہہ کر ٹال دیجئے ۔ اگر کسی کا عقل سلب نہیں ہو گئی تو وہ مجھے بتائے کہ یہاں حضرت محمد ﷺ نے اپنی قدرت کا انکار کیا ہے یا اللہ تعالیٰ کی قدرت کا ۔ ؟ اللہ تعالیٰ کے معجزات کو عبث اور بیہودہ امر جاننا بس مرزائی دجالوں کا ہی کام ہے ۔ جس کی ایک مثال میں نیچے دے رہا ہوں ۔ تیس دجالوں میں سے ایک دجال مرزا قادیانی کہتا ہے حضرت مسیح ابن مریم باذن و حکم الہٰی الیسع نبی کی طرح اس عمل الترب (مسمریزم) میں کمال رکھتے تھے ۔ اگر یہ عاجز اس عمل کو مکروہ اور قابل نفرت نہ سمجھتا تو خدا تعالیٰ کے فضل و توفیق سے اُمید قوی رکھتا تھا ۔ کہ اعجوبہ نمائیوں میں حضرت ابن مریم سے کم نہ رہتا ۔ (صفحہ ۳۰۸۔ازالہ اوہام) تیس دجالوں میں سے ایک دجال مرزا قادیانی بھی معجزات کو مکروہ قابل نفرت جانتے تھے اور اب اس دجال کے چیلے جن میں سے ایک سلطان محمد ہے وہ بھی معجزات الہیٰ کو عبث اور بیہودہ جانتا ہے ۔(انگور کھٹے ہیں والی کہانی تو آپ نے پڑھی ہوگی بچپن میں) خیر یہ مجھے صرف اس عبارت پر غور کر کے بتائیں کہ مرزا نے اس اعجوبہ نمائیوں کی قدرت کس کے ساتھ جوڑی ہے ۔ ؟ خدا تعالیٰ کی قدرت کے ساتھ یا اپنی قدرت کے ساتھ ۔ ؟ بے شک مرزا نے اللہ تعالیٰ کی قدرت کے ساتھ ان عجوبہ نمائیوں کو جوڑا ہے اور وہ بذاتِ خود کچھ نہیں وہی بات مذکورہ آیت میں ہے کہ وہاں بھی اللہ کی قدرت کا انکار نہیں بلکہ حضرت محمد ﷺ کا اپنی قدرت پر یہ سب کرنے سے انکار ہے ۔ خدا تمہاری پسندیدہ نشانی بھی نازل کرسکتا ہے لیکن اکثریت اس بات کو بھی نہیں جانتی ہے .37اور اب میں آخر میں مرزا غلام احمد قادیانی دجال کی عبارت لگا رہا ہوں جو خود مرزا کی اوپر والی تحریف کی تکذیب کرتی ہے اور کسی بھی انسان کے لئے جو خوف خدا رکھتا ہے ۔ اُسے مرزا کو دجال سمجھنے میں مدد کرتی ہے ملاحظہ فرمائیں ۔
یاد رکھنا چاہیے کہ اقتراح کے نشانوں کو اللہ تعالیٰ نے منع کیا ہے ۔ نبی کبھی جرات کر کے یہ نہیں کہیگا کہ تم جو نشان مجھ سے مانگو میں وہی دکھانے کو تیار ہوں اس کے منہ سے جو نکلیگا یہی نکلے گا انما الایات عند اللہ ۔ اور یہی اس کی صداقت کا نشان ہوتا ہے ۔ کم نصیب مخالف اس قسم کی آیتوں سے یہ نتیجہ نکال لیتے ہیں کہ معجزات سے انکار کیا گیا ہے مگر وہ آنکھوں کے اندھے ہیں اُن کو معجزات کی حقیقت ہی معلوم نہیں (اب بتائیں خدا کے لئے انصاف کرتے ہوئے کہ یہاں آنکھوں کا اندھا کون ہے ، اور بدنصیب کون ہے بیوقوف کون ہے اور جاہل کون ہے جزاک اللہ آپ کے دل کی آواز سن لی آپ نے مرزا غلام احمد قادیانی کا نام لیا ہے شکریہ) اس لئے وہ ایسے اعتراض کرتے ہیں اور نہ ذات باری کی عزت اور جبروت کا ادب اُن کے دل پر ہوتا ہے ہمارا خدا تعالیٰ پر کیا حق ہے کہ ہم جو کہیں وہی کر دے یہ سُو ادب ہے ۔ ایسا خدا خدا ہی نہیں ہو سکتا ۔ ملفوظات جلد 5صفحہ 263اولڈ ایڈیشن دیکھو ہم اپنی نشانیوں کو کس طرح الٹ پلٹ کر دکھلاتے ہیں اور پھر بھی یہ منہ موڑ لیتے ہیں۔القرآن
تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے دلائل آچکے ہیں اب جو بصیرت سے کام لے گا وہ اپنے لئے اور جو اندھا بن جائے گا وہ بھی اپنا ہی نقصان کرے گا القرآن
مدیر کی آخری تدوین
: