مرزا غلام احمد قادیانی نے 15 اپریل 1907 کو مولانا ثنا ،اللہ امرتسری کے حوالے سے ایک اشتہار شائع کیا جس کا عنوان تھا
’’مولوی ثناء اللہ صاحب (امرتسری) کے ساتھ آخری فیصلہ"
اس اشتہار میں مرزا قادیانی نے خدا سے دعا کرتے ہوئے کہا
"اے میرے مالک بصیر و قدیر جو علیم و خبیر ہے جو میرے دل کے حالات سے واقف ہے اگر یہ دعویٰ مسیحِ موعود ہونے کا محض میرے نفس کا افترا ہے اور میں تیری نظر میں مفسد اور کذاب ہوں اور دن رات افترا کرنا میرا کام ہے تو اے میرے پیارے مالک میں عاجزی سے تیری جناب میں دعا کرتا ہوں کہ مولوی ثناء اللہ صاحب کی زندگی میں مجھے ہلاک کر اور میری موت سے ان کو اور ان کی جماعت کو خوش کر دے۔ آمین!"
اس اشتہار کے شائع ہونے کے گیارہ ماہ بعد 26 مئی 1908 کو مرزا غلام احمد قادیانی ، مولانا ثنا،اللہ امرتسری کی زندگی میں ہی فوت ہو گئے ۔
یہ مرزا غلام احمد قادیانی کے مفتری ہونے کی ایک نہایت ہی واضح دلیل تھی لیکن مرزا قادیانی کے مریدوں کا کہنا یہ ہے کہ یہ مرزا قادیانی کی یک طرفہ دعا نہیں تھی بلکہ دعائے مباہلہ تھی اور چونکہ مولانا ثنا،اللہ صاحب نے اس دعا کو منظور کرنے سے انکار کر دیا تھا اس لئے مباہلہ منعقد ہی نہیں ہوا تھا ۔
اس سے پہلے کہ ہم اس بات پر دلائل دیں کہ یہ ایک یکطرفہ دعا تھی ۔ پہلے آخری فیصلہ والا اشتہار مکمل دیکھ لیں ۔
’’مولوی ثناء اللہ صاحب (امرتسری) کے ساتھ آخری فیصلہ
بخدمت مولوی ثناء اللہ صاحب السلام علیٰ من اتبع الہدیٰ۔مدت سے آپ کے پرچہ اہل حدیث میں میری تکذیب اور تفسیق کا سلسلہ جاری ہے۔ ہمیشہ مجھے آپ اپنے اس پرچہ میں کذاب، دجال، مفسد کے نام سے منسوب کرتے ہیں اور دنیا میں میری نسبت شہرت دیتے ہیں کہ یہ شخص مفتری اور کذاب اور دجال ہے۔ اور اس شخص کا دعویٰ مسیح موعود ہونے کا سراسر افترا ہے۔ میں نے آپ سے بہت دکھ اٹھایا اور صبر کرتا رہا۔ مگر چونکہ میں دیکھتا ہوں کہ میں حق کے پھیلانے کے لیے مامور ہوں اور آپ بہت سے افترا میرے پر کرکے دنیا کو میری طرف آنے سے روکتے ہیں اور مجھے ان گالیوں ان تہمتوں اور ان الفاظ سے یاد کرتے ہیں کہ جن سے بڑھ کر کوئی لفظ سخت نہیں ہوسکتا اگر میں ایسا ہی کذاب اور مفتری ہوں جیسا کہ اکثر اوقات آپ اپنے ہر ایک پرچہ میں مجھے یاد کرتے ہیں تو میں آپ کی زندگی میں ہی ہلاک ہو جاؤں گا کیونکہ میں جانتا ہوں کہ مفسد اور کذاب کی بہت عمر نہیں ہوتی اور آخر وہ ذلت اور حسرت کے ساتھ اپنے اشد دشمنوں کی زندگی میں ہی ناکام ہلاک ہو جاتا ہے اور اس کا ہلاک ہونا ہی بہتر ہوتا ہے تاخدا کے بندوں کو تباہ نہ کرے۔ اور اگر میں کذاب اور مفتری نہیں ہوں اور خدا کے مکالمہ اور مخاطبہ سے مشرف ہوں اور مسیحِ موعود ہوں تو میں خدا کے فضل سے امید رکھتا ہوں کہ سنت اللہ کے موافق آپ مکذبین کی سزا سے نہیں بچیں گے۔ پس اگر وہ سزا جو انسان کے ہاتھوں سے نہیں بلکہ محض خدا کے ہاتھوں سے ہے جیسے طاعون ہیضہ وغیرہ مہلک بیماریاں آپ پر میری زندگی میں ہی وارد نہ ہوئی تو میں خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں۔ یہ کسی الہام یا وحی کی بنا پر پیشگوئی نہیں، محض دعا کے طور پر میں نے خدا سے فیصلہ چاہا ہے۔ اور میں خدا سے دعا کرتا ہوں کہ اے میرے مالک بصیر و قدیر جو علیم و خبیر ہے جو میرے دل کے حالات سے واقف ہے اگر یہ دعویٰ مسیحِ موعود ہونے کا محض میرے نفس کا افترا ہے اور میں تیری نظر میں مفسد اور کذاب ہوں اور دن رات افترا کرنا میرا کام ہے تو اے میرے پیارے مالک میں عاجزی سے تیری جناب میں دعا کرتا ہوں کہ مولوی ثناء اللہ صاحب کی زندگی میں مجھے ہلاک کر اور میری موت سے ان کو اور ان کی جماعت کو خوش کر دے۔ آمین! مگر اے میرے کامل اور صادق خدا اگر مولوی ثناء اللہ ان تہمتوں میں جو مجھ پر لگاتا ہے حق پر نہیں تو میں عاجزی سے تیری جناب میں دعا کرتا ہوں کہ میری زندگی میں ہی ان کو نابود کر۔ مگر نہ انسانی ہاتھوں سے بلکہ طاعون و ہیضہ وغیرہ امراضِ مہلکہ سے بجز اس صورت کے کہ وہ کھلے کھلے طور پر میرے رو برو اور میری جماعت کے سامنے ان تمام گالیوں اور بدزبانیوں سے توبہ کرے جن کو وہ فرض منصبی سمجھ کر ہمیشہ مجھے دکھ دیتا ہے۔ آمین! یارب العالمین! میں ان کے ہاتھوں سے بہت ستایا گیا اور صبر کرتا رہا مگر اب میں دیکھتا ہوں کہ ان کی بدزبانی حد سے گزر گئی وہ نجھے ان چوروں اور ڈاکووں سے بھی بدتر جانتے ہیں جن کا وجود دنیا کے لئے سخت نقصان رساں ہوتا ہے انہوں نے اپنی تہمتوں اور بدزبانیوں میں آیت لا تقف لیس بہ علم پر بھی عمل نہیں کیا اور مجھے تمام دنیا سے بدتر سمجھ لیا اور دور دور تک ملکوں میں میں میری نسبت یہ پھیلا دیا کہ یہ شخص درحقیقت مفسد اور ٹھگ اور دکاندار اور کذاب اور مفتری اور نہایت درجہ کا بد آدمی ہے ۔ سو اگر ایسے کلمات حق کے طالبوں پر بد اثر نہ ڈالتے تو میں ان تہمتوں پر صبر کرتا مگر میں دیکھتا ہوں کہ مولوی ثناء اللہ انھیں تہمتوں کے ذریعہ سے میرے سلسلہ کو نابود کرنا چاہتا ہے اور اس عمارت کو منہدم کرنا چاہتا ہے جو تُو نے اے میرے آقاؐ اور میرے بھیجنے والے اپنے ہاتھ سے بنائی ہے۔ اس لیے اب میں تیرے ہی تقدس اور رحمت کا دامن پکڑ کر تیری جناب میں ملتجی ہوں کہ مجھ میں اور ثناء اللہ میں سچا فیصلہ فرما اور وہ جو تیری نگاہ میں درحقیقت مفسد اور کذاب ہے اس کو صادق کی زندگی میں ہی دنیا سے اٹھا لے یا کسی اور نہایت سخت آفت میں جو موت کے برابر ہو مبتلا کر۔ اے میرے پیارے مالک تو ایسا ہی کر۔ آمین ثم آمین!! ربنا افتح بیننا و بین قومنا بالحق وانت خیرالفاتحین۔ آمین۔
بالآخر مولوی صاحب سے التماس ہے کہ وہ میرے اس تمام مضمون کو اپنے پرچہ میں چھاپ دیں اور جو چاہیں اس کے نیچے لکھ دیں۔ اب فیصلہ خدا کے ہاتھ میں ہے۔
الراقم
عبداللہ الصمد میرزا غلام احمد مسیح موعود عافاہ اللہ و ایّد
مرقوم 15 اپریل 1907ء‘‘
(مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ 705، 706 طبع جدید از مرزا قادیانی)
’’مولوی ثناء اللہ صاحب (امرتسری) کے ساتھ آخری فیصلہ"
اس اشتہار میں مرزا قادیانی نے خدا سے دعا کرتے ہوئے کہا
"اے میرے مالک بصیر و قدیر جو علیم و خبیر ہے جو میرے دل کے حالات سے واقف ہے اگر یہ دعویٰ مسیحِ موعود ہونے کا محض میرے نفس کا افترا ہے اور میں تیری نظر میں مفسد اور کذاب ہوں اور دن رات افترا کرنا میرا کام ہے تو اے میرے پیارے مالک میں عاجزی سے تیری جناب میں دعا کرتا ہوں کہ مولوی ثناء اللہ صاحب کی زندگی میں مجھے ہلاک کر اور میری موت سے ان کو اور ان کی جماعت کو خوش کر دے۔ آمین!"
اس اشتہار کے شائع ہونے کے گیارہ ماہ بعد 26 مئی 1908 کو مرزا غلام احمد قادیانی ، مولانا ثنا،اللہ امرتسری کی زندگی میں ہی فوت ہو گئے ۔
یہ مرزا غلام احمد قادیانی کے مفتری ہونے کی ایک نہایت ہی واضح دلیل تھی لیکن مرزا قادیانی کے مریدوں کا کہنا یہ ہے کہ یہ مرزا قادیانی کی یک طرفہ دعا نہیں تھی بلکہ دعائے مباہلہ تھی اور چونکہ مولانا ثنا،اللہ صاحب نے اس دعا کو منظور کرنے سے انکار کر دیا تھا اس لئے مباہلہ منعقد ہی نہیں ہوا تھا ۔
اس سے پہلے کہ ہم اس بات پر دلائل دیں کہ یہ ایک یکطرفہ دعا تھی ۔ پہلے آخری فیصلہ والا اشتہار مکمل دیکھ لیں ۔
’’مولوی ثناء اللہ صاحب (امرتسری) کے ساتھ آخری فیصلہ
بخدمت مولوی ثناء اللہ صاحب السلام علیٰ من اتبع الہدیٰ۔مدت سے آپ کے پرچہ اہل حدیث میں میری تکذیب اور تفسیق کا سلسلہ جاری ہے۔ ہمیشہ مجھے آپ اپنے اس پرچہ میں کذاب، دجال، مفسد کے نام سے منسوب کرتے ہیں اور دنیا میں میری نسبت شہرت دیتے ہیں کہ یہ شخص مفتری اور کذاب اور دجال ہے۔ اور اس شخص کا دعویٰ مسیح موعود ہونے کا سراسر افترا ہے۔ میں نے آپ سے بہت دکھ اٹھایا اور صبر کرتا رہا۔ مگر چونکہ میں دیکھتا ہوں کہ میں حق کے پھیلانے کے لیے مامور ہوں اور آپ بہت سے افترا میرے پر کرکے دنیا کو میری طرف آنے سے روکتے ہیں اور مجھے ان گالیوں ان تہمتوں اور ان الفاظ سے یاد کرتے ہیں کہ جن سے بڑھ کر کوئی لفظ سخت نہیں ہوسکتا اگر میں ایسا ہی کذاب اور مفتری ہوں جیسا کہ اکثر اوقات آپ اپنے ہر ایک پرچہ میں مجھے یاد کرتے ہیں تو میں آپ کی زندگی میں ہی ہلاک ہو جاؤں گا کیونکہ میں جانتا ہوں کہ مفسد اور کذاب کی بہت عمر نہیں ہوتی اور آخر وہ ذلت اور حسرت کے ساتھ اپنے اشد دشمنوں کی زندگی میں ہی ناکام ہلاک ہو جاتا ہے اور اس کا ہلاک ہونا ہی بہتر ہوتا ہے تاخدا کے بندوں کو تباہ نہ کرے۔ اور اگر میں کذاب اور مفتری نہیں ہوں اور خدا کے مکالمہ اور مخاطبہ سے مشرف ہوں اور مسیحِ موعود ہوں تو میں خدا کے فضل سے امید رکھتا ہوں کہ سنت اللہ کے موافق آپ مکذبین کی سزا سے نہیں بچیں گے۔ پس اگر وہ سزا جو انسان کے ہاتھوں سے نہیں بلکہ محض خدا کے ہاتھوں سے ہے جیسے طاعون ہیضہ وغیرہ مہلک بیماریاں آپ پر میری زندگی میں ہی وارد نہ ہوئی تو میں خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں۔ یہ کسی الہام یا وحی کی بنا پر پیشگوئی نہیں، محض دعا کے طور پر میں نے خدا سے فیصلہ چاہا ہے۔ اور میں خدا سے دعا کرتا ہوں کہ اے میرے مالک بصیر و قدیر جو علیم و خبیر ہے جو میرے دل کے حالات سے واقف ہے اگر یہ دعویٰ مسیحِ موعود ہونے کا محض میرے نفس کا افترا ہے اور میں تیری نظر میں مفسد اور کذاب ہوں اور دن رات افترا کرنا میرا کام ہے تو اے میرے پیارے مالک میں عاجزی سے تیری جناب میں دعا کرتا ہوں کہ مولوی ثناء اللہ صاحب کی زندگی میں مجھے ہلاک کر اور میری موت سے ان کو اور ان کی جماعت کو خوش کر دے۔ آمین! مگر اے میرے کامل اور صادق خدا اگر مولوی ثناء اللہ ان تہمتوں میں جو مجھ پر لگاتا ہے حق پر نہیں تو میں عاجزی سے تیری جناب میں دعا کرتا ہوں کہ میری زندگی میں ہی ان کو نابود کر۔ مگر نہ انسانی ہاتھوں سے بلکہ طاعون و ہیضہ وغیرہ امراضِ مہلکہ سے بجز اس صورت کے کہ وہ کھلے کھلے طور پر میرے رو برو اور میری جماعت کے سامنے ان تمام گالیوں اور بدزبانیوں سے توبہ کرے جن کو وہ فرض منصبی سمجھ کر ہمیشہ مجھے دکھ دیتا ہے۔ آمین! یارب العالمین! میں ان کے ہاتھوں سے بہت ستایا گیا اور صبر کرتا رہا مگر اب میں دیکھتا ہوں کہ ان کی بدزبانی حد سے گزر گئی وہ نجھے ان چوروں اور ڈاکووں سے بھی بدتر جانتے ہیں جن کا وجود دنیا کے لئے سخت نقصان رساں ہوتا ہے انہوں نے اپنی تہمتوں اور بدزبانیوں میں آیت لا تقف لیس بہ علم پر بھی عمل نہیں کیا اور مجھے تمام دنیا سے بدتر سمجھ لیا اور دور دور تک ملکوں میں میں میری نسبت یہ پھیلا دیا کہ یہ شخص درحقیقت مفسد اور ٹھگ اور دکاندار اور کذاب اور مفتری اور نہایت درجہ کا بد آدمی ہے ۔ سو اگر ایسے کلمات حق کے طالبوں پر بد اثر نہ ڈالتے تو میں ان تہمتوں پر صبر کرتا مگر میں دیکھتا ہوں کہ مولوی ثناء اللہ انھیں تہمتوں کے ذریعہ سے میرے سلسلہ کو نابود کرنا چاہتا ہے اور اس عمارت کو منہدم کرنا چاہتا ہے جو تُو نے اے میرے آقاؐ اور میرے بھیجنے والے اپنے ہاتھ سے بنائی ہے۔ اس لیے اب میں تیرے ہی تقدس اور رحمت کا دامن پکڑ کر تیری جناب میں ملتجی ہوں کہ مجھ میں اور ثناء اللہ میں سچا فیصلہ فرما اور وہ جو تیری نگاہ میں درحقیقت مفسد اور کذاب ہے اس کو صادق کی زندگی میں ہی دنیا سے اٹھا لے یا کسی اور نہایت سخت آفت میں جو موت کے برابر ہو مبتلا کر۔ اے میرے پیارے مالک تو ایسا ہی کر۔ آمین ثم آمین!! ربنا افتح بیننا و بین قومنا بالحق وانت خیرالفاتحین۔ آمین۔
بالآخر مولوی صاحب سے التماس ہے کہ وہ میرے اس تمام مضمون کو اپنے پرچہ میں چھاپ دیں اور جو چاہیں اس کے نیچے لکھ دیں۔ اب فیصلہ خدا کے ہاتھ میں ہے۔
الراقم
عبداللہ الصمد میرزا غلام احمد مسیح موعود عافاہ اللہ و ایّد
مرقوم 15 اپریل 1907ء‘‘
(مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ 705، 706 طبع جدید از مرزا قادیانی)