(کیا تردید آپ کے علم میں آئی؟)
سوال: کیا وہ تردید آپ کے علم میں آئی؟
جواب: ’’نہیں (نہیں کہنے کے بعد) لیکن ابھی ابھی مجھے ۷؍اگست ۱۹۵۲ء کے ’’الفضل‘‘ کا ایک آرٹیکل جس کا عنوان ایک غلطی کا ازالہ ہے، دکھایا گیا ہے۔ جس میں مذکورہ813 بالا تحریر کی تشریح کر دی گئی تھی اور وہ تردید یعنی جو معنے پہنائے جارہے تھے اس کی تردید کر دی گئی۔‘‘
عدالت کا سوال: ادارتی مقالہ میں جن مولویوں کو ملاّ کہاگیا ہے… سب کو نہیں ملاّ کہا گیا… جن مولویوں کو ملاّ کہاگیا ہے۔ کیا انہوں نے یہ رائے ظاہر کی تھی کہ احمدی مرتد اور واجب القتل ہیں؟
جواب: میں صرف یہ جانتا ہوں کہ مولانا ابوالاعلیٰ مودودی نے یہ رائے ظاہر کی تھی۔‘‘
اس کے متعلق یہ سارا بیان ہے… نیز… (Pause)
اور جو رہ گئے ہیں۔ اگر وہ… میں بڑا شرمندہ ہوں، ہم نے نوٹ تو کئے ہوئے ہیں۔‘‘
جناب یحییٰ بختیار: مرزاصاحب! یہ Strain ہم سب محسوس کر رہے ہیں، مجھے بھی بہت زیادہ کام کرنا پڑتا ہے اور آپ جانتے ہیں۔ مجھے ان چیزوں کا بہت کم علم ہے تو یہ چیزیں تو ہوتی رہتی ہیں اور اسپیکر صاحب سے بھی ہم Request (درخواست) کرتے ہیں کہ آدھا گھنٹہ اور ٹائم دے دیجئے۔ ایک گھنٹہ اور ٹائم دیجئے وہ بھی بڑے Cooperate (تعاون) کرتے ہیں تو اس میں یہ ایک ’’الفضل‘‘ ۱۶؍جولائی کا رہ گیا ہے۔ ۱۹۴۹ء کا۔
مرزاناصر احمد: ۱۶؍جولائی ۱۹۴۹ئ۔
جناب یحییٰ بختیار: ہاں جی۔
مرزاناصر احمد: ہاں، ۱۶؍جولائی ۱۹۴۹ء کا جواب ہے ہمارے پاس۔
جناب یحییٰ بختیار: ہاں، تو پھر یہ دے دیں تاکہ میرا یہ Page (صفحہ) پورا ہو جائے۔
مرزاناصر احمد: ۱۶؍جولائی ۱۹۴۹ء کے ایک ایسے خطبہ پر سوال کو مبنی کیاگیا تھا جس کا تعلق حضرت خلیفہ ثانی سے تھا، ٹھیک ہے ناں۔