بسم اللہ الرحمن الرحیم
قادیانی حضرات اکثر یہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے موقع پر تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا اجماع وفات عیسی علیہ السلام پر ہو گیا تها-
یہ عقیدہ قادیانی احباب نے یقینا مرزا غلام قادیانی صاحب سے لیا ہے جنہوں نے اکثر اپنی تحریروں میں بڑا زور لگا کر اس بات کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے موقع پر اجماع کر چکے تهے کہ کہ عیسی علیہ السلام کی وفات ہو چکی-
آئیے دیکهتے ہیں اس کهوکهلے دعوی کی حقیقت کیا ہے-
پہلے ہم مرزا صاحب کی عبارات سے ہی ان کے دعوی کا پوسٹ مارٹم کرتے ہیں اس کے بعد صحابہ کا عقیدہ دیکهیں گے-
یعنی رسول اللہ کے وصال کے بعد جب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں کہرام مچ گیا اور عمر رضی اللہ عنہ نے تلوار اٹها لی کہ جو کہے گا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے تو میں تلوار سے اس کا سر اتار دوں گا- تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے خطبہ دیا
جس کے الفاظ مرزا صاحب نے بخاری شریف کے حوالہ سے یوں نقل کیے ہیں
"جو شخص تم میں سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پرستش کرتا ہے اس کو معلوم ہو کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے-اور جو تم میں سے خدا کی عبادت کرتا ہے تو اس کو معلوم ہو کہ خدا زندہ ہے جو نہیں مرے گا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی موت پر دلیل یہ ہے کہ خدا نے فرمایا کہ محمد صرف ایک رسول ہے اور اس سے پہلے تمام رسول اس دنیا سے گزر چکے یعنی مر چکے ہیں اور حضرت ابوبکر نے الشاکرین تک یہ آیت پڑھ کر سنائی"
(خزائن جلد 15 صفحہ 579 تا580)
مرزا صاحب نے یہاں دانستہ یا نادانستہ طور پر ایک خیانت کی ہے پہلی تو یہ کہ قد خلت من قبلہ الرسل کا ترجمہ یہ کیا ہے کہ ان سے پہلے تمام رسول فوت ہو چکے جبکہ آیت میں تمام عربی کے کسی لفظ کا معنی نہیں ہے دوسرا یہ کہ مرزا صاحب نے اس واقعہ کو کئی مقامات پر نقل کیا ہے لیکن ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جو پہلی آیت پڑهی تهی اس کا ذکر تک نہیں کیا جس کا ذکر صحیح بخاری کی حدیث میں موجود ہے
چنانچہ صحیح بخاری کی حدیث کے ابتدائی الفاظ یہ ہیں
"ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اللہ کی حمد و ثناء بیان کی پهر فرمایا لوگو دیکهو اگر کوئی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کرتا تها تو اسے معلوم ہونا چاہئیے کہ ان کی وفات ہو چکی اور جو اللہ کی عبادت کرتا تها تو اللہ ہمیشہ زندہ ہے اس موت کبهی نہ آئے گی (پهر آپ نے پہلی آیت یہ پڑهی جس کا مرزا صاحب نے ذکر نہیں کیا)
( إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُمْ مَيِّتُونَ )
[سورة الزمر 30]
(اے پیغمبر ) بیشک آپ کو بهی وصال فرمانا ہے اور ان کو بهی موت آنی ہے "
(صحیح بخاری حدیث نمبر 3668)
اس کے بعد قد خلت والی آیت پڑهی جس کا ذکر مرزا صاحب نے کیا چونکہ اس آیت سے واضح ہوتا تها کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کا استدلال صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ثابت کرنا تها اس لیے شاید مرزا صاحب نے اس کا ذکر مناسب نہ سمجها-
اس خطبہ کے ابتدائی الفاظ اور دونوں ایات کو اگر دیکها جائے تو بالکل واضح ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عیسی علیہ السلام کی وفات کا ذکر تک نہیں کیا بلکہ صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ثابت کر رہے تهے-
آگے چلتے ہیں مرزا صاحب کی طرف
"اس جگہ قسطلانی شرح بخاری میں یہ عبارت ہے....یعنی عمر رضی اللہ عنہ لوگوں سے باتیں کیا کرتے تهے اور کہتے تهے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فوت نہیں ہوئے اور جب تک منافقوں کو قتل نہ کر لیں فوت نہیں ہوں گے"
(خزائن جلد 15 صفحہ 580)
آگے مرزا صاحب نے ملل و نحل کی عبارت نقل کی ہے لکهتے ہیں
"جو شخص یہ کہے گا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے تو میں اپنی تلوار سے اس کی گردن اتار دوں گا بلکہ وہ آسمان پر اٹهائے گئے ہیں جیسا کہ عیسی ابن مریم اٹهائے گئے -اور ابو بکر نے کہا جو شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کرتا ہے تو وہ ضرور فوت ہو گئے اور جو شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خدا کی عبادت کرتا ہے تو وہ زندہ ہے نہیں مرے گا-( یعنی ایک خدا ہی میں صفت ہے کہ وہ ہمیشہ زندہ رہے باقی نوع انسان اس سے قبل ہی مر جاتے کہ ان کی نسبت خلود کا گمان ہو) اور پهر ابوبکر نے یہ آیت پڑهی جس کا ترجمہ یہ ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) رسول ہیں اور سب رسول دنیا سے گزر گئے کیا اگر وہ فوت ہو گئے یا قتل کئے گئے تو تم مرتد ہو جاؤ گے. تب لوگوں نے اس آیت کو سن کر اپنے خیالات سے رجوع کر لیا"
(خزائن جلد 15 صفحہ 581،82)
قارئین اپ خود غور کریں کہ مرزا صاحب وفات عیسی علیہ السلام ثابت کرنے کے لیے کس قدر ایڑهی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں اور بالکل تقوی اور خوف خدا ترک کر چکے ہیں اس کو ثابت کرتے ہوئے -عبارت کا جو حصہ میں نے بریکٹس میں لگایا ہے الملل و النحل کی عبارت جو مرزا صاحب نے پہلے عربی میں نقل کی اس میں موجود نہیں لیکن مرزا صاحب نے ترجمہ میں اسے بهی شامل کیا اور ترجمہ کا حصہ بنا دیا جو یہ ہے " یعنی ایک خدا ہی میں صفت ہے کہ وہ ہمیشہ زندہ رہے باقی انسان پہلے اس سے مر جاتے ہیں کہ ان کی نسبت خلود کا گمان ہو"
یہ کن الفاظ کا ترجمہ ہے جو عربی عبارت مرزا صاحب نے نقل کی اس کا حصہ قطعا نہیں طوالت کی وجہ سے عربی عبارت نقل نہیں کی لیکن کوئی بهی شخص دیکھ سکتا ہے حوالہ اوپر درج ہے-
اب ان دو عبارات سے کیا ثابت ہوتا ہے قسطلانی شرح بخاری کی عبارت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ کا یہ گمان تها کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی وفات سے پہلے تمام منافقین کو قتل کرنا ضروری ہے اور جب تک قتل نہ کر لیں تب تک ان کا فوت ہونا محال ہے یہ وجہ تهی کہ وہ اپ کی وفات تسلیم نہیں کر رہے تهے اور کہہ رہے تهے کہ وہ واپس آ جائیں گے (اور منافقین کو قتل کریں گے جیسے عیسی علیہ السلام یہود کو قتل کریں گے ) ورنہ ان کے اس جملہ کا کیا مطلب
"آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فوت نہیں ہوئے اور جب تک منافقین کو قتل نہ کر لیں فوت نہیں ہوں گے"
(خزائن جلد 15 صفحہ 580)
دوسری بات جو ملل و نحل سے نقل کی ہے مرزا صاحب نے کہ آپ اسی طرح سے اسمان پر اٹها لیے گئے ہیں جس طرح سے عیسی ابن مریم علیہ السلام اٹها لیے گئے "
مرزا صاحب نے یہ عبارت ملل و نحل سے نقل کی یہ ان کی سارے کیے کرائے پر پانی پهیر دیتی ہے -سوال یہ ہے کہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ جیسے جید صحابی رسول نے یہ عقیدہ کہ عیسی علیہ السلام زندہ آسمان پر چلے گئے کہاں سے لیا جو مرزا صاحب کے نزدیک ایک شرکیہ عقیدہ ہے؟؟
اور مرزا صاحب نے انہی صفحات پر یہ بهی لکها ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ سمیت کئی صحابہ اس غلط عقیدہ میں مبتلاتھے -
تو سوال یہ ہے کہ یہ عقیدہ صحابہ میں کہاں سے آیا؟
اگر کہو کہ اہل کتاب سے بعض صحابہ مسلمان ہوئے اور وہیں سے یہ عقیدہ بهی ساتھ آیا تو عمر رضی اللہ عنہ تو اہل کتاب سے مسلمان نہیں ہوئے تهے پهر انہوں نے یہ عقیدہ کہاں سے لیا؟؟
اگر کوئی کہے کہ وہ کتب سابقہ پڑهتے تهے تو یہ بهی غلط ہے کیونکہ معروف حدیث ہے کہ انہوں نے تورات کی تلاوت کی محض اجازت چاہی تهی جس پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر ناراضگی کا اظہار فرمایا اور آپ نے گهٹنوں کے بل گر کر معافی مانگی-
صاف سی بات ہے کہ یہ عقیدہ انہوں نے قرآن اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین سے ہی لیا تها جو نزول عیسی ابن مریم کی خبر دیتے ہیں -
ہم مزید تفصیل میں جانے سے پہلے خطبہ صدیقی پر ایک نظر دوبارہ ڈال لیتے ہیں مختصر یہ کہ خطبہ صدیقی کے ابتدائی الفاظ یہ تهے کہ "تم میں سے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کرتا تها تو وہ وفات پا چکے ہیں اور جو اللہ کی عبادت کرتا تها تو وہ زندہ ہے اسے کبهی موت نہ آئے گی -اس کے بعد انہوں نے سورہ الزمر کی آیت پڑهی
( إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُمْ مَيِّتُونَ )
[سورة الزمر 30]
(اے محبوب )آپ نے بهی وصال فرمانا ہے اور ان کو بهی موت آنی ہے-
پڑهی اور ظاہری سی بات ہے کہ یہ ایت محض نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خبر دیتی ہے نہ کہ عیسی علیہ السلام کی وفات کی -اس کے بعد انہوں نے قدخلت والی ایت اخر تک پڑهی کہ اگر یہ نبی فوت ہو جائیں یا وفات پا جائیں تو کیا تم لوگ اپنے ایڑیوں کے بل پهر جاؤ گے -
پورے خطبہ میں عیسی علیہ السلام کا ذکر تک نہیں کیا انہوں نے-
اب دیکهتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ نے اس ایت سے کیا سمجها-
آپ نے فرمایا
"کہ اس آیت کو سننے کے بعد میری یہ حالت ہو گئی کہ میرے جسم کو میرے پیر اٹها نہیں سکتے تھے اور میں زمین پر گرا جاتا ہوں"
(خزائن جلد 15 صفحہ 583)
اب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو عیسی علیہ السلام کی وفات کا غم ہو رہا تها یا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا بات واضح ہے-
مرزا صاحب مزید لکهتے ہیں کہ
"لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اس آیت کا اس وقت تک علم نہیں تها اور دوسرے بعض صحابہ بهی اسی سہو و نسیان میں مبتلا تهے"
(خزائن جلد 15 صفحہ 582 حاشیہ)
ہم مان لیتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ کو اس وقت تک علم نہیں تها اس ایت کا اور اس بات کو انہوں نے تسلیم بهی کیا کہ مجهے یوں لگا کہ جیسے یہ آیت ابهی نازل ہوئی -
لیکن سوال یہ ہے کہ قادیانیوں کے نزدیک کیا اسی ایک آیت سے وفات عیسی علیہ السلام ثابت ہوتی ہے؟؟؟
بلکہ قادیانی حضرات کے نزدیک تو 30 سے زائد آیات ہیں جو ان کی وفات ثابت کرتی ہیں پهر اس ایک ایت کا علم نہ ہونے سے کیا فرق پڑ سکتا تها؟
کیا ان کو اذ قال اللہ یا عیسی انی متوفیک . آیت بهی نہ معلوم تهی اور نہ ہی فلما توفیتنی والی آیت کا علم تها اور نہ ہی ان سمیت باقی 29 آیات کا علم تھا جن میں واضح طور پر قادیانیوں کے بقول وفات عیسی علیہ السلام کا ذکر ہے ؟
یہ بات عقلا محال ہے اور پهر عمر فاروق رضی اللہ عنہ مرزا صاحب کے نزدیک محدث تهے اور مرزا صاحب کی تعریف کے مطابق محدث وہ لوگ ہوتے ہیں جن سے اللہ ہم کلام ہوتا ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ سب سے زیادہ قرب نبوی ہونے کے باوجود اور اللہ سے مخاطب رہنے کے باوجود بهی ایک شرکیہ عقیدہ پر قائم رہے ہوں- اور یہ بهی ایک سوال ہے کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے بهی اگر وفات عیسی علیہ السلام ثابت کرنا ہوتی تو ان آیات میں سے کوئی پڑهتے جن میں قادیانی حضرات کے نزدیک واضح طور پر عیسی علیہ السلام کی وفات کا ذکر ہے-
مرزا صاحب نے مزید ایک شعر نقل کیا جو کہ صحابی رسول حضرت حسان ابن ثابت رضی اللہ عنہ نے آپ کے وصال کے موقع پر پڑها
کنت السواد الناظری فعمی علیک الناظر
من شاء بعدک فلیمت فعلیک کنت احاذر
یعنی تو میری آنکھ کی پتلی تها پس میری نظریں تو تیرے مرنے سے اندھی ہو گئیں -اب میں تیرے بعد کسی کی زندگی کو کیا کروں عیسی مرے یا موسی بے شک مر جائیں مجهے تو تیرا ہی غم تها-"
(خزائن جلد 15 صفحہ 583)
قارئین کرام دیکھ سکتے ہیں کہ مرزا صاحب کس قدر زور لگا کر اور خیانت کی تمام حدیں پار کر کے صحابہ کا عقیدہ وفات عیسی علیہ السلام کا ثابت کرنا چاہتے ہیں حالانکہ اشعار میں عیسی و موسی علیهما السلام کا ذکر تک نہیں اور بعدک فلیمت کے الفاظ ہیں کہ جو چاہے آپ کے بعد فوت ہو مجهے پرواہ نہیں-
لیکن مرزا صاحب نے یہاں بهی اپنی طرف سے عیسی علیہ السلام کی وفات کو ڈال لیا -
خیر ہم آگے چلتے ہیں
اب دیکهتے ہیں کہ مرزا صاحب نے اجماع صحابہ ثابت کرنے کے لیے اور کیا کیا جتن کیے ہیں-
چنانچہ مرزا صاحب لکهتے ہیں
"چنانچہ حضرت ابو بکر نے اس فتنہ کو خطرناک سمجھ کر تمام صحابہ کو جمع کیا اور اتفاق حسنہ سے اس وقت کل صحابہ رضی اللہ عنہم مدینہ میں موجود تهے- تب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ منبر پر چڑهے اور فرمایا کہ میں نے سنا ہے ہمارے بعض دوست ایسا ایسا خیال کرتے ہیں مگر سچ بات یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے ہیں اور ہمارے لیے یہ کوئی خاص حادثہ نہیں ہے -اس سے پہلے کوئی نبی نہیں گزرا جو فوت نہ ہوا ہو"
حقیقت الوحی خزائن جلد 22 صفحات 34،35)
قارئین یہاں پر مرزا صاحب نے روایتی ہیر پهیر سے کام لیا یے اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کی طرف ایسے الفاظ منسوب کیے ہیں جو انہوں نے نہیں فرمائے یہ الفاظ کسی کتاب میں نہیں کہ آپ نے یہ فرمایا ہو کہ "سچ بات یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے ہیں اور ہمارے لیے یہ کوئی خاص حادثہ نہیں ہے اس سے پہلے کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جو فوت نہ ہوا ہو"
یہ بات محال ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ اپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کو معمولی حادثہ قرار دیں اور دوسرا مرزا صاحب نے یہ بهی جهوٹ بولا کہ یہ آپ نے فرمایا کہ اس سے پہلے کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جو فوت نہ ہوا ہو-
خیر میں نے یہ عبارت اس لیے نقل کہ اس میں مرزا صاحب نے لکها ہے کہ اتفاق حسنہ سے اس وقت تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مدینہ میں موجود تهے-
اسی بات کو مرزا صاحب نے دوسری جگہ ان الفاظ میں نقل کیا ہے-
"اے عزیز بخاری میں تو اس جگہ "کلهم" کا لفظ ہے جس سے ظاہر ہے کہ کل صحابہ اس وقت موجود تهے اور لشکر اسامہ جو بیس ہزار آدمی تها اس مصیبت عظمی واقعہ خیر الرسل سے رک گیا تها- اور وہ ایسا کون بے نصیب اور بدبخت تها جس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی خبر سنی اور فی الفور حاضر نہ ہوا ہو-بهلا کسی کا نام تو لو- ماسوا اس کے کہ اگر فرض بهی کر لیں کہ بعض صحابہ غیر حاضر تهے تو آخر مہینہ دو مہینہ چھ مہینہ کے بعد ضرور آئے ہوں گے پس انہوں نے اگر مخالفت ظاہر کی تهی اور قد خلت کے کوئی اور معنی پیش کیے تهے تو آپ پیش کریں"
(تحفہ غزنویہ خزائن جلد 15 صفحہ 586)
لیں جناب مرزا صاحب نے تو ثابت کر دیا کہ کوئی ایک بهی صحابی ایسا ہونا محال ہے جس تک یہ بات نہ پہنچی ہو کہ عیسی علیہ السلام وفات پا چکے ہیں اور اس پر تمام کے تمام صحابہ کا اجماع ہو گیا -
اب ہم دیکهتے ہیں کہ مرزا صاحب کا یہ دعوی کہاں تک سچ ہے
مرزا صاحب نے خود ہی لکها ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ سمیت کئی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اس غلط عقیدہ میں مبتلا تهے کہ عیسی علیہ السلام زندہ آسمان پر اٹها لیے گئے - اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تو صراحت کے ساتھ کہا کہ عیسی علیہ السلام زندہ آسمان پر اٹها لیے گئے اب اور کسی ایک صحابی نے بهی اس کی تردید نہیں کی کہ آپ نعوذ باللہ شرکیہ عقیدہ میں مبتلا ہیں عیسی علیہ السلام کی وفات تو قرآن کی تیس آیات سے ثابت ہے -خطبہ صدیقی میں بهی عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی تردید میں ایک لفظ تک نہیں ہے نہ آپ نے عیسی علیہ السلام کا ذکر تک کیا -اگر کہو کہ انہوں نے آیت قد خلت پڑهی تو ہم کہتے ہیں اس سے پہلے انک میت و انهم میتون بهی پڑهی اور یہ بهی فرمایا کہ جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کرتا تها تو وہ وفات پا چکے لیکن جو آیات قادیانی حضرات کے نزدیک زیادہ صراحت سے وفات عیسی علیہ السلام بیان کرتی ہیں ان میں سے نہ کوئی آیت پڑهی اور نہ ہی عیسی علیہ السلام کی وفات کا ذکر تک کیا اور یہ بتا محال ہے کہ ان کے نزدیک لوگ نعوذ باللہ شرکیہ عقیدہ میں مبتلا ہوں اور وہ اس کے مرکز یعنی عیسی علیہ السلام کا ذکر تک نہ کریں -
مرزا صاحب کہتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ کو آیت قد خلت کا علم نہیں تها لیکن یہ استدلال اس لیے باطل ہے کہ مرزا صاحب اور ان کی جماعت کے نزدیک وفات عیسی علیہ السلام 30 آیات سے زائد میں بیان ہوئی ہے اور آیت انی متوفیک اور فلما توفیتنی ،کانا یاکلان الطعام میں قادیانی حضرات کے بقول زیادہ صراحت سے عیسی علیہ السلام کی وفات کا ذکر ہے کیا عمر رضی اللہ عنہ باقی 29 آیات سے بهی بے خبر تھے؟
اب آتے ہیں خطبہ صدیقی کو نقل کرنے والے صحابی رسول
ترجمان القرآن حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی طرف جنہوں نے اس خطبہ کو نقل کیا اور قادیانی حضرات سب سے زیادہ ان کو اپنے عقیدہ کے ثبوت میں پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے متوفیک کا معنی ممیتک کیا ہے -
اول تو یہ کہ اللہ نے یہ کلام عیسی علیہ السلام سے واقعہ صلیب کے وقت فرمایا تها جس کو قادیانی حضرات بهی تسلیم کرتے ہیں کہ جس وقت یہ کلمات عیسی علیہ السلام کو فرمائے گئے اسی وقت ان کی وفات نہیں ہوئی بلکہ مستقبل میں وفات ہونے کی خبر تهی جس کو ہم بهی تسلیم کرتے ہیں کہ مستقبل میں آپ کی وفات ہو گی - مفسرین میں سے اور بهی کئی ایسے ہیں جنہوں نے متوفیک کا معنی وفات کیا ہے لیکن کیا اس کے باوجود وہ حیات عیسی علیہ السلام کے قائل تهے کیونکہ وہ اس آیت میں تقدیم تاخیر کے قائل تهے قادیانی یعنی پہلے تمہارا رفع کروں گا اور اس کے بعد وفات دوں گا اس کی مثال قرآن میں دیگر مقامات پر بهی موجود ہے
3 : سورة آل عمران 43
یٰمَرۡیَمُ اقۡنُتِیۡ لِرَبِّکِ وَ اسۡجُدِیۡ وَ ارۡکَعِیۡ مَعَ الرّٰکِعِیۡنَ ﴿۴۳﴾
اے مریم !تُو اپنے رب کی اطاعت کر اور سجدہ کر اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کر ۔
یہاں سجدہ کا ذکر رکوع سے پہلے ہے-
اسی طرح سورہ ملک میں ہے کہ
الذی خلق الموت والحياة ليبلوكم أيكم أحسن عملا
وہ ذات جس نے موت اور زندگی کو تخلیق کیا تاکہ آزمائے کہ کون تم میں سے اچهے اعمال کرتا ہے-
یہاں موت کا ذکر زندگی سے پہلے ہے-
گویا کہ قرآن کی دیگر ایات اور خود مرزا صاحب کے الہامات میں بهی تقدیم و تاخیر کا ثبوت ملتا ہے-
یہی ابن عباس رضی اللہ عنہ کا آیت انی متوفیک و رافعک الی میں عقیدہ تها کہ پہلے آپ کا رفع کروں گا پهر وفات دوں گا ورنہ دوسری بےشمار روایات سے ثابت ہے کہ ان کا عقیدہ حیات مسیح کا تها-
سورہ زخرف کی آیت وانہ لعلم للساعة کی تفسیر میں امام سیوطی رح نے طبرانی و ابن ابی حاتم کے حوالہ سے نقل کیا ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اس آیت سے مراد قیامت سے پہلے عیسی ابن مریم علیہ السلام کا نزول ہے-
اور یہیں پر نامور تابعی مجاہد رح کا بهی قول نقل کیا ہے جن کے علمی مقام کی وجہ سے ابن عمر رضی اللہ عنہ احتراما ان کےگهوڑے کی لگام پکڑ لیتے تهے-
پهر ابولعالیہ و حسن بصری رح سے بهی یہی اقوال نقل کیے-
اسی طرح اما سیوطی رح نے ایت بل رفعہ اللہ الیہ کی تفسیر میں بهی ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول نقل کیا ہے کہ اللہ نے عیسی علیہ السلام کو آسمان پر اٹها لیا-
امام ابن حبان رح نے صحیح ابن حبان میں نقل کیا ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے اللہ کے فرمان وانہ لعلم للساعة کی تفسیر میں فرمایا کہ اس سے مراد قیامت سے قبل نزول عیسی ابن مریم ہے
(صحیح ابن حبان حدیث نمبر 6817)
اسی طرح امام سیوطی رح نے تفسیر درمنثور میں آیت خاتم النبیین کی تفسیر میں صحابی رسول حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کا قول نقل فرمایا ہے کہ جب ان کے سامنے ایک شخص نے خاتم النبیین کی تفسیر سب سے آخری نبی کی تو انہوں نے فرمایا کہ جب تو نے خاتم النبیین کہہ دیا تو تیرے لیے کافی ہو گیا کیونکہ ہم کہتے رہتے ہیں کہ عیسی ابن مریم تشریف لائیں گے تو جب وہ آئیں گے تو ایک لحاظ سے وہ اول ہوئے(یعنی مبعوث ہونے کے اعتبار سے) اور ایک لحاظ سے آخر (یعنی وفات کے اعتبار سے)
اسی طرح ابوہریرہ رضی اللہ عنہ جب نزول عیسی ابن مریم علیہ السلام کی حدیث بیان فرماتے ہیں جس کو امام بخاری سمیت تمام محدثین نے نقل فرمایاہے تو ساتھ اس کی وضاحت میں یہ ایت بهی پیش کرتے ہیں وامن اهل الکتاب الا لیؤمنن به قبل موته
یعنی اہل کتاب میں سے کوئی ایسا نہ ہو گا جو اس کی وفات سے قبل اس پر ایمان نہ لے آئے -
(بخاری شریف حدیث نمبر 3448 )
اب ظاہر ہے کہ مرزا صاحب کے بقول تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین رسول اللہ کی وفات کے وقت اگر مدینہ میں موجود تهے تو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بهی موجود تهے بلکہ یقینا وہ موجود تهے بلکہ بعد میں بهی مدینہ مین زندگی گزاری دفن بهی جنت البقیع میں ہوئے تو انہوں نے بقول مرزا صاحب کے اس اجماع سے انحراف کیوں کیا ؟؟
اور ابن عباس رضی اللہ عنہ جو خطبہ صدیقی کے راوی ہیں انہوں نے اس اجماع کو کیوں نہ سمجھا اور مغیرہ بن شعبہ اور پهر تابعین نے صحابہ سے اس مسئلے کو کیوں نہ سمجھا؟
حقیقت یہ ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا عقیدہ حیات مسیح کا تها نہ کہ وفات مسیح کا اور مرزا صاحب نے اجماع کے نام پر دهوکہ دہی سے کام لیا ہے جسکا رد ہم نے پیش کیا-
اور آخر میں انتہائی اہم بات
مرزا طاہر صاحب نے بهی سورہ زخرف کے آغاز میں لکها ہے کہ اس سورہ میں مثیل مسیح کے آنے کی خبر ہے اور مرزا بشیر صاحب بهی
43 : سورة الزخرف 57
وَ لَمَّا ضُرِبَ ابۡنُ مَرۡیَمَ مَثَلًا اِذَا قَوۡمُکَ مِنۡہُ یَصِدُّوۡنَ ﴿۵۷﴾
اور جب ابن مریم کی مثال بیان کی گئی تو اس سے تیری قوم چیخنے لگی ہے ۔
کی تفسیر میں لکهتے ہیں "یعنی قرآن مجید میں جب عیسی ابن مریم کے دوبارہ آنے کی خبر پڑهتے ہیں تو شور مچا دیتے ہیں کہ کیا وہ ہمارے معبودوں سے اچها ہے کہ ہمارے معبودوں کو تو جہنم میں ڈالا جاتا ہے اور اسے دنیا کی اصلاح کے لیے واپس لایا جاتا ہے "
(تفسیر صغیر صفحہ 650 حاشیہ)
قارئین کرام غور فرمائیں یہ سورہ مکی ہے اور مرزا بشیر کے بقول مکہ کے کافروں کو بهی علم تها کہ جس کی خبر قرآن میں ہے وہ آنے والا مثیل مسیح ہے نہ کہ عیسی ابن مریم علیہ السلام تو یہ کیسے ممکن ہے کہ کفار مکہ تو قرآن کو سمجهتے ہوں لیکن عمر رضی اللہ عنہ سمیت بقول مرزا صاحب کے کئی صحابہ 23 سال تک یہ عقیدہ رکهتے ہوں کہ عیسی ابن مریم آسمان پر اٹها لیے گئے ہیں اور وہ دوبارہ نازل ہوں گے؟؟
جس کے دل میں ذرا سا بهی خوف خدا ہو وہ فیصلہ کرے کہ کیا یہ بات عقل تسلیم کرتی ہے؟
اس کو ایک اور طرز سے سمجھیں ۔قادیانی حضرات متنبی قادیاں آنجہانی مرزا غلام احمد قادیانی نے اپنی کتاب روحانی خزائن جلد 15 ص 581 پر خطبہ صدیقی میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے یہ الفاظ لکھے ہیں کہ عمر فرما رہے تھے کہ
وانما رفع الی السماء کما رفع عیسی ابن مریم الخ
ترجمہ از مرزا قادیانی بلکہ وہ آسمان پر اٹھائے گئے ہیں جیسا عیسی ابن مریم اٹھائے گئے
قادیانی حضرات! حضرت عمرؓ نے حضرت عیسی کیلئے رفع الی السماء کا لفظ بولا اسکی تردید کہیں بھی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے منقول نہیں ہاں حضرت ابوبکر صدیق نے ان محمدا قد مات فرماکر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رفع الی السماء کی تردید فرما دی یعنی یہاں پر مقیس حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور مقیس الیہ حضرت عیسی علیہ السلام ہیں حضرت ابوبکر کا مقیس کی نفی فرمانا اور مقیس الیہ حضرت عیسی علیہ السلام کی رفع الی السماء کی نفی نہ کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام زندہ اسمان پر اٹھاۓ. گۓ ہیں اور اس پر تمام صحابہ کا اجماع ہے
نیز روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 586 پر آنجہانی مرزا غلام احمد قادیانی نے لکھا ہے کہ حضرت عمرؓ اپنی راےکی تائید میں یہی پیش کرتے تھے. کہ حضرت عیسی زندہ آسمان پر اٹھاۓگۓ ہیں معلوم ہوا کہ حضرت عمرؓ حضرت عیسی کو اسمان پر زندہ مانتے تھے اور حضرت ابوبکرؓ نے اپنے پورے خطبہ میں حضرت عمرؓ کے اس بیان وعقیدہ کی تردید نہ فرمانااس بات کی دلیل ہے کہ حضرت عیسی کے رفع الی السماء پر اور حضرت. محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی موت پر تمام صحابہؓ کا اجماع ہو چکا ہے
اسی طرح ایک اور مقام پر آنجہانی مرزا غلام احمد قادیانی روحانی خزائن جلد 17ص93 پرخطبہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نقل کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ
عمر فرما رہے تھے اورمنافقوں کو قتل کریں گے اور وہ آسمان کی طرف ایسا ھی زندہ اٹھاۓ گۓ ہیں جیسا کہ عیسی بن مریم اٹھایا گیا تھا
جناب اس جگہ بھی عیسی، زندہ اورآسمان کے الفاظ ہیں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا حضرت عمرؓ کے اس موقف کی تردید نہ فرمانا اس بات کی دلیل ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام آسمان پر زندہ موجود ہیں مگر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر موت اچکی ہے
یعنی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی موت کو حضرت عیسی کے رفع الی السماء پر قیاس کر رہے تھے توحضرت ابوبکرؓ نے مقیس حضرت محمد کی نفی فرما دی مگر مقیس الیہ حضرت عیسی کی رفع الی السماء کی تردید نہیں فرمائی آپ کا تردید نہ فرمانا اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کے رفع الی السماء اور نبی کریم علیہ السلام کی وفات پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہ اجمعین کا اجماع تھا اور اس سے کسی ایک صحابی نے بھی اختلاف نہیں کیا۔
قادیانی حضرات اکثر یہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے موقع پر تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا اجماع وفات عیسی علیہ السلام پر ہو گیا تها-
یہ عقیدہ قادیانی احباب نے یقینا مرزا غلام قادیانی صاحب سے لیا ہے جنہوں نے اکثر اپنی تحریروں میں بڑا زور لگا کر اس بات کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے موقع پر اجماع کر چکے تهے کہ کہ عیسی علیہ السلام کی وفات ہو چکی-
آئیے دیکهتے ہیں اس کهوکهلے دعوی کی حقیقت کیا ہے-
پہلے ہم مرزا صاحب کی عبارات سے ہی ان کے دعوی کا پوسٹ مارٹم کرتے ہیں اس کے بعد صحابہ کا عقیدہ دیکهیں گے-
یعنی رسول اللہ کے وصال کے بعد جب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں کہرام مچ گیا اور عمر رضی اللہ عنہ نے تلوار اٹها لی کہ جو کہے گا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے تو میں تلوار سے اس کا سر اتار دوں گا- تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے خطبہ دیا
جس کے الفاظ مرزا صاحب نے بخاری شریف کے حوالہ سے یوں نقل کیے ہیں
"جو شخص تم میں سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پرستش کرتا ہے اس کو معلوم ہو کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے-اور جو تم میں سے خدا کی عبادت کرتا ہے تو اس کو معلوم ہو کہ خدا زندہ ہے جو نہیں مرے گا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی موت پر دلیل یہ ہے کہ خدا نے فرمایا کہ محمد صرف ایک رسول ہے اور اس سے پہلے تمام رسول اس دنیا سے گزر چکے یعنی مر چکے ہیں اور حضرت ابوبکر نے الشاکرین تک یہ آیت پڑھ کر سنائی"
(خزائن جلد 15 صفحہ 579 تا580)
مرزا صاحب نے یہاں دانستہ یا نادانستہ طور پر ایک خیانت کی ہے پہلی تو یہ کہ قد خلت من قبلہ الرسل کا ترجمہ یہ کیا ہے کہ ان سے پہلے تمام رسول فوت ہو چکے جبکہ آیت میں تمام عربی کے کسی لفظ کا معنی نہیں ہے دوسرا یہ کہ مرزا صاحب نے اس واقعہ کو کئی مقامات پر نقل کیا ہے لیکن ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جو پہلی آیت پڑهی تهی اس کا ذکر تک نہیں کیا جس کا ذکر صحیح بخاری کی حدیث میں موجود ہے
چنانچہ صحیح بخاری کی حدیث کے ابتدائی الفاظ یہ ہیں
"ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اللہ کی حمد و ثناء بیان کی پهر فرمایا لوگو دیکهو اگر کوئی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کرتا تها تو اسے معلوم ہونا چاہئیے کہ ان کی وفات ہو چکی اور جو اللہ کی عبادت کرتا تها تو اللہ ہمیشہ زندہ ہے اس موت کبهی نہ آئے گی (پهر آپ نے پہلی آیت یہ پڑهی جس کا مرزا صاحب نے ذکر نہیں کیا)
( إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُمْ مَيِّتُونَ )
[سورة الزمر 30]
(اے پیغمبر ) بیشک آپ کو بهی وصال فرمانا ہے اور ان کو بهی موت آنی ہے "
(صحیح بخاری حدیث نمبر 3668)
اس کے بعد قد خلت والی آیت پڑهی جس کا ذکر مرزا صاحب نے کیا چونکہ اس آیت سے واضح ہوتا تها کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کا استدلال صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ثابت کرنا تها اس لیے شاید مرزا صاحب نے اس کا ذکر مناسب نہ سمجها-
اس خطبہ کے ابتدائی الفاظ اور دونوں ایات کو اگر دیکها جائے تو بالکل واضح ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عیسی علیہ السلام کی وفات کا ذکر تک نہیں کیا بلکہ صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ثابت کر رہے تهے-
آگے چلتے ہیں مرزا صاحب کی طرف
"اس جگہ قسطلانی شرح بخاری میں یہ عبارت ہے....یعنی عمر رضی اللہ عنہ لوگوں سے باتیں کیا کرتے تهے اور کہتے تهے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فوت نہیں ہوئے اور جب تک منافقوں کو قتل نہ کر لیں فوت نہیں ہوں گے"
(خزائن جلد 15 صفحہ 580)
آگے مرزا صاحب نے ملل و نحل کی عبارت نقل کی ہے لکهتے ہیں
"جو شخص یہ کہے گا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے تو میں اپنی تلوار سے اس کی گردن اتار دوں گا بلکہ وہ آسمان پر اٹهائے گئے ہیں جیسا کہ عیسی ابن مریم اٹهائے گئے -اور ابو بکر نے کہا جو شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کرتا ہے تو وہ ضرور فوت ہو گئے اور جو شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خدا کی عبادت کرتا ہے تو وہ زندہ ہے نہیں مرے گا-( یعنی ایک خدا ہی میں صفت ہے کہ وہ ہمیشہ زندہ رہے باقی نوع انسان اس سے قبل ہی مر جاتے کہ ان کی نسبت خلود کا گمان ہو) اور پهر ابوبکر نے یہ آیت پڑهی جس کا ترجمہ یہ ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) رسول ہیں اور سب رسول دنیا سے گزر گئے کیا اگر وہ فوت ہو گئے یا قتل کئے گئے تو تم مرتد ہو جاؤ گے. تب لوگوں نے اس آیت کو سن کر اپنے خیالات سے رجوع کر لیا"
(خزائن جلد 15 صفحہ 581،82)
قارئین اپ خود غور کریں کہ مرزا صاحب وفات عیسی علیہ السلام ثابت کرنے کے لیے کس قدر ایڑهی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں اور بالکل تقوی اور خوف خدا ترک کر چکے ہیں اس کو ثابت کرتے ہوئے -عبارت کا جو حصہ میں نے بریکٹس میں لگایا ہے الملل و النحل کی عبارت جو مرزا صاحب نے پہلے عربی میں نقل کی اس میں موجود نہیں لیکن مرزا صاحب نے ترجمہ میں اسے بهی شامل کیا اور ترجمہ کا حصہ بنا دیا جو یہ ہے " یعنی ایک خدا ہی میں صفت ہے کہ وہ ہمیشہ زندہ رہے باقی انسان پہلے اس سے مر جاتے ہیں کہ ان کی نسبت خلود کا گمان ہو"
یہ کن الفاظ کا ترجمہ ہے جو عربی عبارت مرزا صاحب نے نقل کی اس کا حصہ قطعا نہیں طوالت کی وجہ سے عربی عبارت نقل نہیں کی لیکن کوئی بهی شخص دیکھ سکتا ہے حوالہ اوپر درج ہے-
اب ان دو عبارات سے کیا ثابت ہوتا ہے قسطلانی شرح بخاری کی عبارت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ کا یہ گمان تها کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی وفات سے پہلے تمام منافقین کو قتل کرنا ضروری ہے اور جب تک قتل نہ کر لیں تب تک ان کا فوت ہونا محال ہے یہ وجہ تهی کہ وہ اپ کی وفات تسلیم نہیں کر رہے تهے اور کہہ رہے تهے کہ وہ واپس آ جائیں گے (اور منافقین کو قتل کریں گے جیسے عیسی علیہ السلام یہود کو قتل کریں گے ) ورنہ ان کے اس جملہ کا کیا مطلب
"آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فوت نہیں ہوئے اور جب تک منافقین کو قتل نہ کر لیں فوت نہیں ہوں گے"
(خزائن جلد 15 صفحہ 580)
دوسری بات جو ملل و نحل سے نقل کی ہے مرزا صاحب نے کہ آپ اسی طرح سے اسمان پر اٹها لیے گئے ہیں جس طرح سے عیسی ابن مریم علیہ السلام اٹها لیے گئے "
مرزا صاحب نے یہ عبارت ملل و نحل سے نقل کی یہ ان کی سارے کیے کرائے پر پانی پهیر دیتی ہے -سوال یہ ہے کہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ جیسے جید صحابی رسول نے یہ عقیدہ کہ عیسی علیہ السلام زندہ آسمان پر چلے گئے کہاں سے لیا جو مرزا صاحب کے نزدیک ایک شرکیہ عقیدہ ہے؟؟
اور مرزا صاحب نے انہی صفحات پر یہ بهی لکها ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ سمیت کئی صحابہ اس غلط عقیدہ میں مبتلاتھے -
تو سوال یہ ہے کہ یہ عقیدہ صحابہ میں کہاں سے آیا؟
اگر کہو کہ اہل کتاب سے بعض صحابہ مسلمان ہوئے اور وہیں سے یہ عقیدہ بهی ساتھ آیا تو عمر رضی اللہ عنہ تو اہل کتاب سے مسلمان نہیں ہوئے تهے پهر انہوں نے یہ عقیدہ کہاں سے لیا؟؟
اگر کوئی کہے کہ وہ کتب سابقہ پڑهتے تهے تو یہ بهی غلط ہے کیونکہ معروف حدیث ہے کہ انہوں نے تورات کی تلاوت کی محض اجازت چاہی تهی جس پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر ناراضگی کا اظہار فرمایا اور آپ نے گهٹنوں کے بل گر کر معافی مانگی-
صاف سی بات ہے کہ یہ عقیدہ انہوں نے قرآن اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین سے ہی لیا تها جو نزول عیسی ابن مریم کی خبر دیتے ہیں -
ہم مزید تفصیل میں جانے سے پہلے خطبہ صدیقی پر ایک نظر دوبارہ ڈال لیتے ہیں مختصر یہ کہ خطبہ صدیقی کے ابتدائی الفاظ یہ تهے کہ "تم میں سے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کرتا تها تو وہ وفات پا چکے ہیں اور جو اللہ کی عبادت کرتا تها تو وہ زندہ ہے اسے کبهی موت نہ آئے گی -اس کے بعد انہوں نے سورہ الزمر کی آیت پڑهی
( إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُمْ مَيِّتُونَ )
[سورة الزمر 30]
(اے محبوب )آپ نے بهی وصال فرمانا ہے اور ان کو بهی موت آنی ہے-
پڑهی اور ظاہری سی بات ہے کہ یہ ایت محض نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خبر دیتی ہے نہ کہ عیسی علیہ السلام کی وفات کی -اس کے بعد انہوں نے قدخلت والی ایت اخر تک پڑهی کہ اگر یہ نبی فوت ہو جائیں یا وفات پا جائیں تو کیا تم لوگ اپنے ایڑیوں کے بل پهر جاؤ گے -
پورے خطبہ میں عیسی علیہ السلام کا ذکر تک نہیں کیا انہوں نے-
اب دیکهتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ نے اس ایت سے کیا سمجها-
آپ نے فرمایا
"کہ اس آیت کو سننے کے بعد میری یہ حالت ہو گئی کہ میرے جسم کو میرے پیر اٹها نہیں سکتے تھے اور میں زمین پر گرا جاتا ہوں"
(خزائن جلد 15 صفحہ 583)
اب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو عیسی علیہ السلام کی وفات کا غم ہو رہا تها یا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا بات واضح ہے-
مرزا صاحب مزید لکهتے ہیں کہ
"لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اس آیت کا اس وقت تک علم نہیں تها اور دوسرے بعض صحابہ بهی اسی سہو و نسیان میں مبتلا تهے"
(خزائن جلد 15 صفحہ 582 حاشیہ)
ہم مان لیتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ کو اس وقت تک علم نہیں تها اس ایت کا اور اس بات کو انہوں نے تسلیم بهی کیا کہ مجهے یوں لگا کہ جیسے یہ آیت ابهی نازل ہوئی -
لیکن سوال یہ ہے کہ قادیانیوں کے نزدیک کیا اسی ایک آیت سے وفات عیسی علیہ السلام ثابت ہوتی ہے؟؟؟
بلکہ قادیانی حضرات کے نزدیک تو 30 سے زائد آیات ہیں جو ان کی وفات ثابت کرتی ہیں پهر اس ایک ایت کا علم نہ ہونے سے کیا فرق پڑ سکتا تها؟
کیا ان کو اذ قال اللہ یا عیسی انی متوفیک . آیت بهی نہ معلوم تهی اور نہ ہی فلما توفیتنی والی آیت کا علم تها اور نہ ہی ان سمیت باقی 29 آیات کا علم تھا جن میں واضح طور پر قادیانیوں کے بقول وفات عیسی علیہ السلام کا ذکر ہے ؟
یہ بات عقلا محال ہے اور پهر عمر فاروق رضی اللہ عنہ مرزا صاحب کے نزدیک محدث تهے اور مرزا صاحب کی تعریف کے مطابق محدث وہ لوگ ہوتے ہیں جن سے اللہ ہم کلام ہوتا ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ سب سے زیادہ قرب نبوی ہونے کے باوجود اور اللہ سے مخاطب رہنے کے باوجود بهی ایک شرکیہ عقیدہ پر قائم رہے ہوں- اور یہ بهی ایک سوال ہے کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے بهی اگر وفات عیسی علیہ السلام ثابت کرنا ہوتی تو ان آیات میں سے کوئی پڑهتے جن میں قادیانی حضرات کے نزدیک واضح طور پر عیسی علیہ السلام کی وفات کا ذکر ہے-
مرزا صاحب نے مزید ایک شعر نقل کیا جو کہ صحابی رسول حضرت حسان ابن ثابت رضی اللہ عنہ نے آپ کے وصال کے موقع پر پڑها
کنت السواد الناظری فعمی علیک الناظر
من شاء بعدک فلیمت فعلیک کنت احاذر
یعنی تو میری آنکھ کی پتلی تها پس میری نظریں تو تیرے مرنے سے اندھی ہو گئیں -اب میں تیرے بعد کسی کی زندگی کو کیا کروں عیسی مرے یا موسی بے شک مر جائیں مجهے تو تیرا ہی غم تها-"
(خزائن جلد 15 صفحہ 583)
قارئین کرام دیکھ سکتے ہیں کہ مرزا صاحب کس قدر زور لگا کر اور خیانت کی تمام حدیں پار کر کے صحابہ کا عقیدہ وفات عیسی علیہ السلام کا ثابت کرنا چاہتے ہیں حالانکہ اشعار میں عیسی و موسی علیهما السلام کا ذکر تک نہیں اور بعدک فلیمت کے الفاظ ہیں کہ جو چاہے آپ کے بعد فوت ہو مجهے پرواہ نہیں-
لیکن مرزا صاحب نے یہاں بهی اپنی طرف سے عیسی علیہ السلام کی وفات کو ڈال لیا -
خیر ہم آگے چلتے ہیں
اب دیکهتے ہیں کہ مرزا صاحب نے اجماع صحابہ ثابت کرنے کے لیے اور کیا کیا جتن کیے ہیں-
چنانچہ مرزا صاحب لکهتے ہیں
"چنانچہ حضرت ابو بکر نے اس فتنہ کو خطرناک سمجھ کر تمام صحابہ کو جمع کیا اور اتفاق حسنہ سے اس وقت کل صحابہ رضی اللہ عنہم مدینہ میں موجود تهے- تب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ منبر پر چڑهے اور فرمایا کہ میں نے سنا ہے ہمارے بعض دوست ایسا ایسا خیال کرتے ہیں مگر سچ بات یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے ہیں اور ہمارے لیے یہ کوئی خاص حادثہ نہیں ہے -اس سے پہلے کوئی نبی نہیں گزرا جو فوت نہ ہوا ہو"
حقیقت الوحی خزائن جلد 22 صفحات 34،35)
قارئین یہاں پر مرزا صاحب نے روایتی ہیر پهیر سے کام لیا یے اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کی طرف ایسے الفاظ منسوب کیے ہیں جو انہوں نے نہیں فرمائے یہ الفاظ کسی کتاب میں نہیں کہ آپ نے یہ فرمایا ہو کہ "سچ بات یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے ہیں اور ہمارے لیے یہ کوئی خاص حادثہ نہیں ہے اس سے پہلے کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جو فوت نہ ہوا ہو"
یہ بات محال ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ اپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کو معمولی حادثہ قرار دیں اور دوسرا مرزا صاحب نے یہ بهی جهوٹ بولا کہ یہ آپ نے فرمایا کہ اس سے پہلے کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جو فوت نہ ہوا ہو-
خیر میں نے یہ عبارت اس لیے نقل کہ اس میں مرزا صاحب نے لکها ہے کہ اتفاق حسنہ سے اس وقت تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مدینہ میں موجود تهے-
اسی بات کو مرزا صاحب نے دوسری جگہ ان الفاظ میں نقل کیا ہے-
"اے عزیز بخاری میں تو اس جگہ "کلهم" کا لفظ ہے جس سے ظاہر ہے کہ کل صحابہ اس وقت موجود تهے اور لشکر اسامہ جو بیس ہزار آدمی تها اس مصیبت عظمی واقعہ خیر الرسل سے رک گیا تها- اور وہ ایسا کون بے نصیب اور بدبخت تها جس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی خبر سنی اور فی الفور حاضر نہ ہوا ہو-بهلا کسی کا نام تو لو- ماسوا اس کے کہ اگر فرض بهی کر لیں کہ بعض صحابہ غیر حاضر تهے تو آخر مہینہ دو مہینہ چھ مہینہ کے بعد ضرور آئے ہوں گے پس انہوں نے اگر مخالفت ظاہر کی تهی اور قد خلت کے کوئی اور معنی پیش کیے تهے تو آپ پیش کریں"
(تحفہ غزنویہ خزائن جلد 15 صفحہ 586)
لیں جناب مرزا صاحب نے تو ثابت کر دیا کہ کوئی ایک بهی صحابی ایسا ہونا محال ہے جس تک یہ بات نہ پہنچی ہو کہ عیسی علیہ السلام وفات پا چکے ہیں اور اس پر تمام کے تمام صحابہ کا اجماع ہو گیا -
اب ہم دیکهتے ہیں کہ مرزا صاحب کا یہ دعوی کہاں تک سچ ہے
مرزا صاحب نے خود ہی لکها ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ سمیت کئی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اس غلط عقیدہ میں مبتلا تهے کہ عیسی علیہ السلام زندہ آسمان پر اٹها لیے گئے - اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تو صراحت کے ساتھ کہا کہ عیسی علیہ السلام زندہ آسمان پر اٹها لیے گئے اب اور کسی ایک صحابی نے بهی اس کی تردید نہیں کی کہ آپ نعوذ باللہ شرکیہ عقیدہ میں مبتلا ہیں عیسی علیہ السلام کی وفات تو قرآن کی تیس آیات سے ثابت ہے -خطبہ صدیقی میں بهی عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی تردید میں ایک لفظ تک نہیں ہے نہ آپ نے عیسی علیہ السلام کا ذکر تک کیا -اگر کہو کہ انہوں نے آیت قد خلت پڑهی تو ہم کہتے ہیں اس سے پہلے انک میت و انهم میتون بهی پڑهی اور یہ بهی فرمایا کہ جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کرتا تها تو وہ وفات پا چکے لیکن جو آیات قادیانی حضرات کے نزدیک زیادہ صراحت سے وفات عیسی علیہ السلام بیان کرتی ہیں ان میں سے نہ کوئی آیت پڑهی اور نہ ہی عیسی علیہ السلام کی وفات کا ذکر تک کیا اور یہ بتا محال ہے کہ ان کے نزدیک لوگ نعوذ باللہ شرکیہ عقیدہ میں مبتلا ہوں اور وہ اس کے مرکز یعنی عیسی علیہ السلام کا ذکر تک نہ کریں -
مرزا صاحب کہتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ کو آیت قد خلت کا علم نہیں تها لیکن یہ استدلال اس لیے باطل ہے کہ مرزا صاحب اور ان کی جماعت کے نزدیک وفات عیسی علیہ السلام 30 آیات سے زائد میں بیان ہوئی ہے اور آیت انی متوفیک اور فلما توفیتنی ،کانا یاکلان الطعام میں قادیانی حضرات کے بقول زیادہ صراحت سے عیسی علیہ السلام کی وفات کا ذکر ہے کیا عمر رضی اللہ عنہ باقی 29 آیات سے بهی بے خبر تھے؟
اب آتے ہیں خطبہ صدیقی کو نقل کرنے والے صحابی رسول
ترجمان القرآن حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی طرف جنہوں نے اس خطبہ کو نقل کیا اور قادیانی حضرات سب سے زیادہ ان کو اپنے عقیدہ کے ثبوت میں پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے متوفیک کا معنی ممیتک کیا ہے -
اول تو یہ کہ اللہ نے یہ کلام عیسی علیہ السلام سے واقعہ صلیب کے وقت فرمایا تها جس کو قادیانی حضرات بهی تسلیم کرتے ہیں کہ جس وقت یہ کلمات عیسی علیہ السلام کو فرمائے گئے اسی وقت ان کی وفات نہیں ہوئی بلکہ مستقبل میں وفات ہونے کی خبر تهی جس کو ہم بهی تسلیم کرتے ہیں کہ مستقبل میں آپ کی وفات ہو گی - مفسرین میں سے اور بهی کئی ایسے ہیں جنہوں نے متوفیک کا معنی وفات کیا ہے لیکن کیا اس کے باوجود وہ حیات عیسی علیہ السلام کے قائل تهے کیونکہ وہ اس آیت میں تقدیم تاخیر کے قائل تهے قادیانی یعنی پہلے تمہارا رفع کروں گا اور اس کے بعد وفات دوں گا اس کی مثال قرآن میں دیگر مقامات پر بهی موجود ہے
3 : سورة آل عمران 43
یٰمَرۡیَمُ اقۡنُتِیۡ لِرَبِّکِ وَ اسۡجُدِیۡ وَ ارۡکَعِیۡ مَعَ الرّٰکِعِیۡنَ ﴿۴۳﴾
اے مریم !تُو اپنے رب کی اطاعت کر اور سجدہ کر اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کر ۔
یہاں سجدہ کا ذکر رکوع سے پہلے ہے-
اسی طرح سورہ ملک میں ہے کہ
الذی خلق الموت والحياة ليبلوكم أيكم أحسن عملا
وہ ذات جس نے موت اور زندگی کو تخلیق کیا تاکہ آزمائے کہ کون تم میں سے اچهے اعمال کرتا ہے-
یہاں موت کا ذکر زندگی سے پہلے ہے-
گویا کہ قرآن کی دیگر ایات اور خود مرزا صاحب کے الہامات میں بهی تقدیم و تاخیر کا ثبوت ملتا ہے-
یہی ابن عباس رضی اللہ عنہ کا آیت انی متوفیک و رافعک الی میں عقیدہ تها کہ پہلے آپ کا رفع کروں گا پهر وفات دوں گا ورنہ دوسری بےشمار روایات سے ثابت ہے کہ ان کا عقیدہ حیات مسیح کا تها-
سورہ زخرف کی آیت وانہ لعلم للساعة کی تفسیر میں امام سیوطی رح نے طبرانی و ابن ابی حاتم کے حوالہ سے نقل کیا ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اس آیت سے مراد قیامت سے پہلے عیسی ابن مریم علیہ السلام کا نزول ہے-
اور یہیں پر نامور تابعی مجاہد رح کا بهی قول نقل کیا ہے جن کے علمی مقام کی وجہ سے ابن عمر رضی اللہ عنہ احتراما ان کےگهوڑے کی لگام پکڑ لیتے تهے-
پهر ابولعالیہ و حسن بصری رح سے بهی یہی اقوال نقل کیے-
اسی طرح اما سیوطی رح نے ایت بل رفعہ اللہ الیہ کی تفسیر میں بهی ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول نقل کیا ہے کہ اللہ نے عیسی علیہ السلام کو آسمان پر اٹها لیا-
امام ابن حبان رح نے صحیح ابن حبان میں نقل کیا ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے اللہ کے فرمان وانہ لعلم للساعة کی تفسیر میں فرمایا کہ اس سے مراد قیامت سے قبل نزول عیسی ابن مریم ہے
(صحیح ابن حبان حدیث نمبر 6817)
اسی طرح امام سیوطی رح نے تفسیر درمنثور میں آیت خاتم النبیین کی تفسیر میں صحابی رسول حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کا قول نقل فرمایا ہے کہ جب ان کے سامنے ایک شخص نے خاتم النبیین کی تفسیر سب سے آخری نبی کی تو انہوں نے فرمایا کہ جب تو نے خاتم النبیین کہہ دیا تو تیرے لیے کافی ہو گیا کیونکہ ہم کہتے رہتے ہیں کہ عیسی ابن مریم تشریف لائیں گے تو جب وہ آئیں گے تو ایک لحاظ سے وہ اول ہوئے(یعنی مبعوث ہونے کے اعتبار سے) اور ایک لحاظ سے آخر (یعنی وفات کے اعتبار سے)
اسی طرح ابوہریرہ رضی اللہ عنہ جب نزول عیسی ابن مریم علیہ السلام کی حدیث بیان فرماتے ہیں جس کو امام بخاری سمیت تمام محدثین نے نقل فرمایاہے تو ساتھ اس کی وضاحت میں یہ ایت بهی پیش کرتے ہیں وامن اهل الکتاب الا لیؤمنن به قبل موته
یعنی اہل کتاب میں سے کوئی ایسا نہ ہو گا جو اس کی وفات سے قبل اس پر ایمان نہ لے آئے -
(بخاری شریف حدیث نمبر 3448 )
اب ظاہر ہے کہ مرزا صاحب کے بقول تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین رسول اللہ کی وفات کے وقت اگر مدینہ میں موجود تهے تو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بهی موجود تهے بلکہ یقینا وہ موجود تهے بلکہ بعد میں بهی مدینہ مین زندگی گزاری دفن بهی جنت البقیع میں ہوئے تو انہوں نے بقول مرزا صاحب کے اس اجماع سے انحراف کیوں کیا ؟؟
اور ابن عباس رضی اللہ عنہ جو خطبہ صدیقی کے راوی ہیں انہوں نے اس اجماع کو کیوں نہ سمجھا اور مغیرہ بن شعبہ اور پهر تابعین نے صحابہ سے اس مسئلے کو کیوں نہ سمجھا؟
حقیقت یہ ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا عقیدہ حیات مسیح کا تها نہ کہ وفات مسیح کا اور مرزا صاحب نے اجماع کے نام پر دهوکہ دہی سے کام لیا ہے جسکا رد ہم نے پیش کیا-
اور آخر میں انتہائی اہم بات
مرزا طاہر صاحب نے بهی سورہ زخرف کے آغاز میں لکها ہے کہ اس سورہ میں مثیل مسیح کے آنے کی خبر ہے اور مرزا بشیر صاحب بهی
43 : سورة الزخرف 57
وَ لَمَّا ضُرِبَ ابۡنُ مَرۡیَمَ مَثَلًا اِذَا قَوۡمُکَ مِنۡہُ یَصِدُّوۡنَ ﴿۵۷﴾
اور جب ابن مریم کی مثال بیان کی گئی تو اس سے تیری قوم چیخنے لگی ہے ۔
کی تفسیر میں لکهتے ہیں "یعنی قرآن مجید میں جب عیسی ابن مریم کے دوبارہ آنے کی خبر پڑهتے ہیں تو شور مچا دیتے ہیں کہ کیا وہ ہمارے معبودوں سے اچها ہے کہ ہمارے معبودوں کو تو جہنم میں ڈالا جاتا ہے اور اسے دنیا کی اصلاح کے لیے واپس لایا جاتا ہے "
(تفسیر صغیر صفحہ 650 حاشیہ)
قارئین کرام غور فرمائیں یہ سورہ مکی ہے اور مرزا بشیر کے بقول مکہ کے کافروں کو بهی علم تها کہ جس کی خبر قرآن میں ہے وہ آنے والا مثیل مسیح ہے نہ کہ عیسی ابن مریم علیہ السلام تو یہ کیسے ممکن ہے کہ کفار مکہ تو قرآن کو سمجهتے ہوں لیکن عمر رضی اللہ عنہ سمیت بقول مرزا صاحب کے کئی صحابہ 23 سال تک یہ عقیدہ رکهتے ہوں کہ عیسی ابن مریم آسمان پر اٹها لیے گئے ہیں اور وہ دوبارہ نازل ہوں گے؟؟
جس کے دل میں ذرا سا بهی خوف خدا ہو وہ فیصلہ کرے کہ کیا یہ بات عقل تسلیم کرتی ہے؟
اس کو ایک اور طرز سے سمجھیں ۔قادیانی حضرات متنبی قادیاں آنجہانی مرزا غلام احمد قادیانی نے اپنی کتاب روحانی خزائن جلد 15 ص 581 پر خطبہ صدیقی میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے یہ الفاظ لکھے ہیں کہ عمر فرما رہے تھے کہ
وانما رفع الی السماء کما رفع عیسی ابن مریم الخ
ترجمہ از مرزا قادیانی بلکہ وہ آسمان پر اٹھائے گئے ہیں جیسا عیسی ابن مریم اٹھائے گئے
قادیانی حضرات! حضرت عمرؓ نے حضرت عیسی کیلئے رفع الی السماء کا لفظ بولا اسکی تردید کہیں بھی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے منقول نہیں ہاں حضرت ابوبکر صدیق نے ان محمدا قد مات فرماکر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رفع الی السماء کی تردید فرما دی یعنی یہاں پر مقیس حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور مقیس الیہ حضرت عیسی علیہ السلام ہیں حضرت ابوبکر کا مقیس کی نفی فرمانا اور مقیس الیہ حضرت عیسی علیہ السلام کی رفع الی السماء کی نفی نہ کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام زندہ اسمان پر اٹھاۓ. گۓ ہیں اور اس پر تمام صحابہ کا اجماع ہے
نیز روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 586 پر آنجہانی مرزا غلام احمد قادیانی نے لکھا ہے کہ حضرت عمرؓ اپنی راےکی تائید میں یہی پیش کرتے تھے. کہ حضرت عیسی زندہ آسمان پر اٹھاۓگۓ ہیں معلوم ہوا کہ حضرت عمرؓ حضرت عیسی کو اسمان پر زندہ مانتے تھے اور حضرت ابوبکرؓ نے اپنے پورے خطبہ میں حضرت عمرؓ کے اس بیان وعقیدہ کی تردید نہ فرمانااس بات کی دلیل ہے کہ حضرت عیسی کے رفع الی السماء پر اور حضرت. محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی موت پر تمام صحابہؓ کا اجماع ہو چکا ہے
اسی طرح ایک اور مقام پر آنجہانی مرزا غلام احمد قادیانی روحانی خزائن جلد 17ص93 پرخطبہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نقل کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ
عمر فرما رہے تھے اورمنافقوں کو قتل کریں گے اور وہ آسمان کی طرف ایسا ھی زندہ اٹھاۓ گۓ ہیں جیسا کہ عیسی بن مریم اٹھایا گیا تھا
جناب اس جگہ بھی عیسی، زندہ اورآسمان کے الفاظ ہیں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا حضرت عمرؓ کے اس موقف کی تردید نہ فرمانا اس بات کی دلیل ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام آسمان پر زندہ موجود ہیں مگر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر موت اچکی ہے
یعنی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی موت کو حضرت عیسی کے رفع الی السماء پر قیاس کر رہے تھے توحضرت ابوبکرؓ نے مقیس حضرت محمد کی نفی فرما دی مگر مقیس الیہ حضرت عیسی کی رفع الی السماء کی تردید نہیں فرمائی آپ کا تردید نہ فرمانا اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کے رفع الی السماء اور نبی کریم علیہ السلام کی وفات پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہ اجمعین کا اجماع تھا اور اس سے کسی ایک صحابی نے بھی اختلاف نہیں کیا۔