ہم تو صرف قران پر بات کریں گئے ایک مرزائی دھوکا اور اس کا جواب
تحقیق : جاءالحق
دوستوں تقریباً سنہ 1255 ہجری بمطابق 1839 یا1840 عیسوی میں متحدہ ہندوستان کے ضلع گورداسپور کی تحصیل بٹالہ کے ایک گاؤں قادیان کے ایک باشندے حکیم غلام مرتضیٰ بن مرزا عطا محمد بن مرزا گل احمد کے گھر ایک بچہ پیدا ہوا جسکا نام غلام احمد رکھا گیا یعنی بچہ بعد میں مرزا غلام احمد قادیانی کے نام سے جانا پہچانا لگا ، اسکی والدہ کا نام چراغ بی بی تھا ، اس بچے کی پیدائش کے تقریباً 1300 سو سال پہلے ہی اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب قران مجید نازل ہوچکی تھی اور امت اسلامیہ میں اسکی تلاوت ہوتی تھی اور اپنے ،زمانے کے آئمہ نے اسکی تفسیریں بھی لکھیں تھیں جنکو پڑھ کر مسلمان قران مجید کے علوم ومعارف سمجھتے تھے
جب اللہ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنا یہ کلام قران مجید نازل کیا تو انہیں صرف یہ نہیں فرمایا کہ بس اپ لوگوں کو قران سنا دیا کریں وہ خود اپنی مرضی سے اس کی تشریح وتفسیر کر لیا کریں گے بلکہ فرمایا کہ اپ نے لوگوں پر اسکی تلاوت بھی کرنی ہے (پڑھ کر سنانا ہے ) اور پھر اسکے علوم ومعارف اور حکمت کی تعلیم بھی دینی ہے " یتلوا علیه آیاته ویزکیھم ویعلمھم الکتاب والحکمة " اور ساتھ اللہ نے یہ اعلان بھی فرما دیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں اور یہ کسی خاص قوم ، قبیلے یا کسی خاص علاقے کے لئے نہیں معبوث کیے گئے بلکہ جو اس وقت ماجود تھے انکے لئے بھی اور جو انکے بعد آنے والے تھے انکے لئے بھی عرب کے لئے بھی اور عجم کے لئے بھی معبوث کیے گئے ، جیسے انکی بعثت اس وقت کے ماجود لوگوں کے لئے ہے اسیطرح انکی بعثت بعد میں آنے والوں کے لئے ہے ( مفہوم سورۂ الجمعہ کی ابتدائی آیات ، سورۂ الجمعہ کی آیات میں لفظ " بعثت " صرف ایک بار آیا ہے ) قیامت تک کے پیدا ہونے والوں کے لئے بس اب یہی نبی ہیں ، خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے " خاتم النبیین " کی تفسیر " لانبی بعدی میرے بعد کوئی نبی ) کے ساتھ فرمائی ( یہ بات خود مرزا غلام قادیانی نے لکھی ہے ملاخط ہو " حمامة البشریٰ خزائن جلد 7 صفحہ 200 )
نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما دیا :
" ارسلت الی الخلق کافة وختم بی النبیون " مجھے ساری مخلوق کے لئے بیجھا گیا اور میرے ساتھ نبیوں کا خاتمہ کر دیا گیا ( صحیح مسلم ، حدیث 523 )
اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسکی مزید تشریح یوں فرما دی :
" ان الرسالة والنبوة قد انقطعت فلا رسول بعدی ولا نبی " بے شک رسالت اور نبوت منقطع ہو چکی میرے بعد اب نہ کوئی رسول ہے اور نہ کوئی نبی ( جامع ترمزی ، مسند احمد ، مستدرک حاکم )
اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما دیا :
" لانبوة بعدی الا المبشرات ، قالو وما المبشرات یا رسول اللہ ؟ قال الرؤیا الحسنة او الرؤیا الصالحة " میرے بعد نبوت نہیں صرف مبشرات ہیں ، صحابہ نہ عرض کی اے اللہ کے رسول یہ مبشرات کیا ہیں ؟ فرمایا اچھے خواب ( مسند احمد )
اسی طرح فرمایا :
" لانبی بعدی ولا امة بعد کم " میرے بعد کوئی نبی نہیں اور تمھارے بعد کوئی امت نہیں ( کتاب السنتہ لا بن ابی عاصم )
ایک اور حدیث میں فرمایا :
" جئت فختمت الانبیاء " میں آیا تو میں نے انبیاء کا خاتمہ کر دیا ( صحیح مسلم )
یہ صرف چند احادیث مبارکہ ہیں جنکے اندر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے " خاتم النبیین " کی تشریح فرما دی . جب اپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کو نبوت نہ ملنے کا اعلان کر دیا گیا تو سوال پیدا ہوتا ہے جب پہلی امتوں میں بگاڑ پیدا ہوتا تھا تو اللہ انبیاء بیجھ کر انکی اصلاح کر دیا کرتا تھا اب جب نبوت کا دروازہ بند کر دیا گیا تو اگر امت میں بگاڑ پیدا ہوا تو امت کی اصلاح کون کریگا ؟؟ تو اللہ نے اسکا جواب اور طریقہ بھی بتا دیا فرمایا " کنتم خیر امة اخر جت للناس تآمروں بالمعروف وتنهون عن المنکر " تم بہترین امت ہو تمیں لوگوں کی (اصلاح ) کے لئے نکالا گیا تاکہ نیکی کا حکم دو اور برائی کو روکو
یعنی بتا دیا گیا کہ اب اس امت کی اصلاح کے لئے کسی کو نبی نہیں بنایا جائے گا بلکہ اپ پچھلی امتوں کو جو کام انبیاء کیا کرتے وہ اس امت کے لوگ کریں گے
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک دوسری حدیث میں فرمایا گیا " اللہ اس امت میں ہر سو سال کے سر پر ایسے لوگ بیجھتا رہے گا جو دین کی تجدید کرتے رہینگے " (سنن ابی داؤد )
اگر اس امت میں دین کی تجدید کے لئے انبیاء نے آنا ہوتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یوں فرماتے " اللہ انبیا کو بیجھے گا "
تو جب اللہ کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اولین شاگردوں کو یعنی صحابہ اکرام کو قران کی آیات کی تفسیر اور تشریح کھول کھول کر بیان کر دی اور انہیں براہ راست کتاب وحکمت کی تعلیم دی اور صحابہ اکرام جہاں تک پہنچے وہاں اپنے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی یہی تفسیر اور تشریح لوگوں تک پہنچا دی
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرما دیا کہ " میری امت کے سب سے بہتر لوگ وہ ہیں جو میرے زمانے میں ہیں ( یعنی صحابہ اکرام ) پھر جو انکے ساتھہ ملے ہوۓ ہیں (یعنی تابعین ) پھر جو انکے ساتھہ ملے ہوۓ ہیں (یعنی تبع تابعین ) .( صحیح مسلم )
یعنی نبو کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین زمانوں کے لئے اپنی امت کے بہترین زمانے ہونے کی شہادت دی ، صحابہ کا زمانہ ، تابعین کا زمانہ ، تبع تابعین کا زمانہ . جب یہ بہترین زمانے ہیں تو پھر اس زمانے میں جو قران کا جو مفہوم اس زمانے میں تھا وہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بیان کردہ مفہوم تھا ، ان زمانوں میں نہ قران مجید کی تحریف لفظی ہوئی نہ تحریف معنوی اور نہ یہ ممکن تھا کے خیرالقرون کے لوگ غلطی سے قران کی غلط تفسیریں کرتے رہے ، ورنہ یہ ماننا پڑے گا کہ مسلمانوں کی کتابوں میں شروع ہی سے تحریف معنوی کر دی گئی تھی جو کہ ایک غیر معقول بات ہے ....
جاری ہے
تحقیق : جاءالحق
دوستوں تقریباً سنہ 1255 ہجری بمطابق 1839 یا1840 عیسوی میں متحدہ ہندوستان کے ضلع گورداسپور کی تحصیل بٹالہ کے ایک گاؤں قادیان کے ایک باشندے حکیم غلام مرتضیٰ بن مرزا عطا محمد بن مرزا گل احمد کے گھر ایک بچہ پیدا ہوا جسکا نام غلام احمد رکھا گیا یعنی بچہ بعد میں مرزا غلام احمد قادیانی کے نام سے جانا پہچانا لگا ، اسکی والدہ کا نام چراغ بی بی تھا ، اس بچے کی پیدائش کے تقریباً 1300 سو سال پہلے ہی اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب قران مجید نازل ہوچکی تھی اور امت اسلامیہ میں اسکی تلاوت ہوتی تھی اور اپنے ،زمانے کے آئمہ نے اسکی تفسیریں بھی لکھیں تھیں جنکو پڑھ کر مسلمان قران مجید کے علوم ومعارف سمجھتے تھے
جب اللہ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنا یہ کلام قران مجید نازل کیا تو انہیں صرف یہ نہیں فرمایا کہ بس اپ لوگوں کو قران سنا دیا کریں وہ خود اپنی مرضی سے اس کی تشریح وتفسیر کر لیا کریں گے بلکہ فرمایا کہ اپ نے لوگوں پر اسکی تلاوت بھی کرنی ہے (پڑھ کر سنانا ہے ) اور پھر اسکے علوم ومعارف اور حکمت کی تعلیم بھی دینی ہے " یتلوا علیه آیاته ویزکیھم ویعلمھم الکتاب والحکمة " اور ساتھ اللہ نے یہ اعلان بھی فرما دیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں اور یہ کسی خاص قوم ، قبیلے یا کسی خاص علاقے کے لئے نہیں معبوث کیے گئے بلکہ جو اس وقت ماجود تھے انکے لئے بھی اور جو انکے بعد آنے والے تھے انکے لئے بھی عرب کے لئے بھی اور عجم کے لئے بھی معبوث کیے گئے ، جیسے انکی بعثت اس وقت کے ماجود لوگوں کے لئے ہے اسیطرح انکی بعثت بعد میں آنے والوں کے لئے ہے ( مفہوم سورۂ الجمعہ کی ابتدائی آیات ، سورۂ الجمعہ کی آیات میں لفظ " بعثت " صرف ایک بار آیا ہے ) قیامت تک کے پیدا ہونے والوں کے لئے بس اب یہی نبی ہیں ، خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے " خاتم النبیین " کی تفسیر " لانبی بعدی میرے بعد کوئی نبی ) کے ساتھ فرمائی ( یہ بات خود مرزا غلام قادیانی نے لکھی ہے ملاخط ہو " حمامة البشریٰ خزائن جلد 7 صفحہ 200 )
نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما دیا :
" ارسلت الی الخلق کافة وختم بی النبیون " مجھے ساری مخلوق کے لئے بیجھا گیا اور میرے ساتھ نبیوں کا خاتمہ کر دیا گیا ( صحیح مسلم ، حدیث 523 )
اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسکی مزید تشریح یوں فرما دی :
" ان الرسالة والنبوة قد انقطعت فلا رسول بعدی ولا نبی " بے شک رسالت اور نبوت منقطع ہو چکی میرے بعد اب نہ کوئی رسول ہے اور نہ کوئی نبی ( جامع ترمزی ، مسند احمد ، مستدرک حاکم )
اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما دیا :
" لانبوة بعدی الا المبشرات ، قالو وما المبشرات یا رسول اللہ ؟ قال الرؤیا الحسنة او الرؤیا الصالحة " میرے بعد نبوت نہیں صرف مبشرات ہیں ، صحابہ نہ عرض کی اے اللہ کے رسول یہ مبشرات کیا ہیں ؟ فرمایا اچھے خواب ( مسند احمد )
اسی طرح فرمایا :
" لانبی بعدی ولا امة بعد کم " میرے بعد کوئی نبی نہیں اور تمھارے بعد کوئی امت نہیں ( کتاب السنتہ لا بن ابی عاصم )
ایک اور حدیث میں فرمایا :
" جئت فختمت الانبیاء " میں آیا تو میں نے انبیاء کا خاتمہ کر دیا ( صحیح مسلم )
یہ صرف چند احادیث مبارکہ ہیں جنکے اندر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے " خاتم النبیین " کی تشریح فرما دی . جب اپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کو نبوت نہ ملنے کا اعلان کر دیا گیا تو سوال پیدا ہوتا ہے جب پہلی امتوں میں بگاڑ پیدا ہوتا تھا تو اللہ انبیاء بیجھ کر انکی اصلاح کر دیا کرتا تھا اب جب نبوت کا دروازہ بند کر دیا گیا تو اگر امت میں بگاڑ پیدا ہوا تو امت کی اصلاح کون کریگا ؟؟ تو اللہ نے اسکا جواب اور طریقہ بھی بتا دیا فرمایا " کنتم خیر امة اخر جت للناس تآمروں بالمعروف وتنهون عن المنکر " تم بہترین امت ہو تمیں لوگوں کی (اصلاح ) کے لئے نکالا گیا تاکہ نیکی کا حکم دو اور برائی کو روکو
یعنی بتا دیا گیا کہ اب اس امت کی اصلاح کے لئے کسی کو نبی نہیں بنایا جائے گا بلکہ اپ پچھلی امتوں کو جو کام انبیاء کیا کرتے وہ اس امت کے لوگ کریں گے
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک دوسری حدیث میں فرمایا گیا " اللہ اس امت میں ہر سو سال کے سر پر ایسے لوگ بیجھتا رہے گا جو دین کی تجدید کرتے رہینگے " (سنن ابی داؤد )
اگر اس امت میں دین کی تجدید کے لئے انبیاء نے آنا ہوتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یوں فرماتے " اللہ انبیا کو بیجھے گا "
تو جب اللہ کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اولین شاگردوں کو یعنی صحابہ اکرام کو قران کی آیات کی تفسیر اور تشریح کھول کھول کر بیان کر دی اور انہیں براہ راست کتاب وحکمت کی تعلیم دی اور صحابہ اکرام جہاں تک پہنچے وہاں اپنے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی یہی تفسیر اور تشریح لوگوں تک پہنچا دی
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرما دیا کہ " میری امت کے سب سے بہتر لوگ وہ ہیں جو میرے زمانے میں ہیں ( یعنی صحابہ اکرام ) پھر جو انکے ساتھہ ملے ہوۓ ہیں (یعنی تابعین ) پھر جو انکے ساتھہ ملے ہوۓ ہیں (یعنی تبع تابعین ) .( صحیح مسلم )
یعنی نبو کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین زمانوں کے لئے اپنی امت کے بہترین زمانے ہونے کی شہادت دی ، صحابہ کا زمانہ ، تابعین کا زمانہ ، تبع تابعین کا زمانہ . جب یہ بہترین زمانے ہیں تو پھر اس زمانے میں جو قران کا جو مفہوم اس زمانے میں تھا وہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بیان کردہ مفہوم تھا ، ان زمانوں میں نہ قران مجید کی تحریف لفظی ہوئی نہ تحریف معنوی اور نہ یہ ممکن تھا کے خیرالقرون کے لوگ غلطی سے قران کی غلط تفسیریں کرتے رہے ، ورنہ یہ ماننا پڑے گا کہ مسلمانوں کی کتابوں میں شروع ہی سے تحریف معنوی کر دی گئی تھی جو کہ ایک غیر معقول بات ہے ....
جاری ہے