• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

کیا ڈر جانے سے پیشگوئی یا عذاب ٹل جاتا ہے؟ مرزاقادیانی کی دجالی منطق کا قرآن و حدیث سے رد

ضیاء رسول امینی

منتظم اعلیٰ
رکن عملہ
ناظم
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
مرزا قادیانی جب بھی اپنی پیش گوئی میں جھوٹا ثابت ہوجاتا تو یہ دجل کرتا کہ وہ ڈر گیا تھا یا دل میں ڈر گیا تھا اس لیے پیشگوئی ٹل گئی یا عذاب ٹل گیا اگر اس دجالی منطق کو سچ مانا جائے اور اس طرح سے پیشگوئی کا پورا ہونا مانا جائے تو دنیا کا ہر ہر انسان چاہے وہ مسلمان و یا کافر ہر کوئی لاکھوں پیشگوئیاں کر سکتا ہے اور ہر پیشگوئی کو مرزا قادیانی والے معیار کے مطابق پورا کرسکتا ہے میں نے ایک سال سے قادیانیوں کو چیلنج کیا ہوا ہے کہ میں من و عن مرزا قادیانی جیسی 100 پیشگوئیاں کرتا ہوں اور ان کو مرزا کے معیار کے عین مطابق ہی پورا کرکے دکھاتا ہوں مگر کوئی مرزائی سامنے نہیں آیا شاید ان کو بھی معلوم ہے کہ مرزا قادیانی کا پیشگوئیاں پوری کرنے کا معیار کیسا تھا۔
اب چلتے ہیں اس بات کی طرف کہ کیا ڈر جانے یا دل میں ڈر جانے سے پیشگوئی یا عذاب ٹل جاتا ہے؟ آتھم نہ مرا تو مرزا نے کہا کہ دل میں ڈر گیا تھا ، محمدی بیگم سے شادی نہ ہوئی تو بھی یہی ڈھکوسلہ کہ وہ ڈر گئے تھے سلطان محمد نہ مرا تو بھی یہی بہانہ کہ وہ ڈر گیا تھا تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ڈر جانے سے پیش گوئی یا عذاب ٹل جاتا ہے؟ اس کے لیے سب سے پہلے مخبر صادق نبی آخرالزماں خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی ایک پیش گوئی کا ذکر کرتا ہوں جو آپ ﷺ نے مکہ کے سردار امیہ بن خلف کے بارے کی تھی میں یہ پورا واقعہ بخاری شریف کی حدیث سے من و عن پیش کر رہا ہوں۔
حدیث بخاری۔
حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ وہ امیہ بن خلف کے(جالہیت کے زمانے کے)دوست تھے جب بھی امیہ مدینہ سے گزرتا تو ان کے ہاں قیام کرتا اسی طرح حضرت سعد بن معاذ جب مکہ سے گزرتے تو امیہ کے یہاں قیام کرتے ۔ جب نبی کریمﷺ مدینہ حجرت کرکے تشریف لائے تو ایک مرتبہ حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ مکہ عمرہ کے ارادے سے گئے اور امیہ کے پاس قیام کیا انہوں نے امیہ سے کہا کہ میرے لیے کوئی تنہائی کا وقت بتاو تاکہ میں بیت اللہ کا طواف کروں چنانچہ امیہ انہیں دوپہر کے وقت ساتھ لے کر نکلا ان سے ابوجہل کی ملاقات ہوگئی اس سے پوچھا ابو صفوان(امیہ) یہ تمہارے ساتھ کون ہیں؟ امیہ نے بتایا کہ یہ سعد بن معاذ (رضی اللہ عنہ) ہیں ابوجہل نے کہا میں تمہیں مکہ میں امن کے ساتھ طواف کرتا ہوا نہ دیکھوں تم لوگوں نے بے دینوں کو پناہ دے رکھی ہے اور اس خیال میں ہو کہ تم لوگ ان کی مدد کرو گے خدا کی قسم اگر اس وقت تم ابو صفوان کے ساتھ نہ ہوتے تو اپنے گھر سلامتی سے نہیں جاسکتے تھے اس پر سعد رضی اللہ عنہ نے کہا اس وقت ان کی آواز بلند ہوگئی تھی کہ اللہ کی قسم اگر آج تم نے مجھے طواف سے روکا تو میں مدینہ کی طرف سے تمہارا راستہ بند کردوں گا اور یہ تمہارے لیے بہت سی مشکلات کا باعث بن جائے گا۔( حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ مدینہ کے سرداروں میں سے تھے اور شام سے مکہ کی طرف آنے والے تمام تجارتی قافلے مدینہ سے ہوکر گزرتے تھے۔راقم) امیہ کہنے لگا سعد، ابوجہل کے سامنے بلند آواز سے نہ بولو یہ وادی کا سردار ہے اس پر حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ نے فرمایا امیہ تم اس طرح کی گفتگو نہ کرو اللہ کی قسم میں رسول اللہ ﷺ سے سن چکا ہوں کہ بے شک تو قتل کیا جائے گا ۔ امیہ نے پوچھا کیا مکہ میں مجھے قتل کریں گے؟انہوں نے فرمایا مجھے اس کا علم نہیں ۔ امیہ یہ سن کر بہت گھبرایا اور جب اپنے گھر لوٹا تو (اپنی بیوی سے ) کہا ام صفوان دیکھا نہیں سعد میرے متعلق کیا کہہ رہے ہیں؟ اس نے پوچھا کیا کہہ رہے ہیں امیہ نے کہا کہ وہ یہ بتا رہے تھے کہ انہیں محمدﷺ نے خبر دی ہے کہ وہ کسی نہ کسی دن مجھے قتل کردیں گے میں نے پوچھا کیا مکہ میں مجھے قتل کریں گے تو انہوں نے کہا اس کی مجھے خبر نہیں ۔ امیہ کہنے لگا خدا کی قسم میں اب مکہ سے کبھی باہر نہیں جاوں گا (قادیانی حضرات اسے کہتے ہیں ڈر ۔ عبداللہ آتھم کا ڈر اور سلطان محمد کا ڈر اس ڈر کا کروڑواں حصہ بھی نہ تھا اور سلطان محمد تو ڈنکے کی چوٹ پر کہتا تھا کہ وہ نہیں ڈرا۔راقم)۔پھر بدر کی لڑائی کے موقع پر جب ابوجہل نے قریش سے لڑائی کی تیاری کے لیے کہا اور کہا کہ اپنے قافلے کی مدد کو چلو تو امیہ نے لڑائی میں شرکت پسند نہین کی( اسے کہتے ہیں ڈر، مرزائی حضرات) لیکن ابوجہل اس کے پاس آیا اور کہنے لگا ابو صفوان تم وادی کے سردار ہو جب لوگ دیکھیں گے کہ تم ہی لڑائی میں نہیں نکلتے تو دوسرے لوگ بھی نہیں نکلیں گے ابوجہل یوں ہی برابر اس کو سمجھاتا رہا آخر مجبور ہو کر امیہ نے کہا جب نہیں مانتا تو خدا کی قسم میں (لڑائی کے لیے) ایسا تیز رفتار اونٹ خریدوں گا جس کا ثانی مکہ میں نہ ہو پھر امیہ نے (اپنی بیوی سے) کہا ام صفوان میرا سامان تیار کردے اس نے کہا ابو صفوان کیا تم اپنے یثربی بھائی کی بات بھول گئے؟ امیہ بولا میں بھولا نہیں ہوں ان کے ساتھ صرف تھوڑی دور تک جاوں گا ۔ جب امیہ نکلا تو راستہ میں جس منزل پر بھی ٹھہرنا ہوتا یہ اپنا اونٹ (اپنے پاس) باندھ دیتا اور وہ برابر ایسا ہی احتیاط کرتا رہا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اسے بدر کے میدان میں قتل کرادیا۔ بخاری شریف(مترجم) جلد 5 صفحہ 321 ، کتاب المغازی حدیث نمبر 3950
اس حدیث شریف کو پڑھ لینے کے بعد یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ نبی اگر پیش گوئی کردے تو ڈرنے ورنے سے سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ پیش گوئی ٹل جائے، نہ ڈرنے سے عذاب ٹل سکتا ہے۔ مرزائی حضرات بتائیں گے کہ کیا عبداللہ آتھم اور سلطان محمد کا وہ جعلی ڈر جو تم بتاتے ہو وہ امیہ بن خلف کے ڈر کا کروڑواں حصہ بھی بنتا ہے کیا؟ امیہ نے لاکھ جتن کیے کہ وہ بدر کی لڑائی میں شریک نہ ہو کیونکہ اسے ڈر تھا اور شدید ڈر تھا کہ اللہ کے رسولﷺ نے اگر فرمادیا تو یہ بات ہوکر رہے گی اس لیے وہ اس دن سے لے کر جب حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ نے اسے خبر دی تھی قتل کے وقت تک برابر ڈرتا رہا لیکن نہ عذاب ٹل سکا نہ آپ ﷺ کی پیش گوئی ڈرنے کی وجہ سے معطل ہوئی۔ اس کے بعد کیا ثبوت چاہیے کہ مرزا کا ڈرنے والا ڈرامہ فقط ڈھکوسلہ اور لوگوں کو بے وقوف بنانے کا عزر تھا ورنہ وہ خود تسلیم کرتا ہے کہ ، ممکن نہیں کہ نبیوں کی پیشگوئیاں ٹل جائیں'' روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 5
دوستو انبیاء کرام کی پیشگوئی پتھر پر لکیر ہوتی ہے وہ جو فرمادیں وہ ہوکر رہتا ہے کوئی ڈر اور کوئی عزر اور کوئی چالبازی ان کی پیشگوئی کو پورا ہونے سے نہیں روک سکتی ، قرآں پاک میں ابولھب سے متعلق سورہ لھب اسکی زندگی میں ہی نازل ہوئی اگر وہ چاہتا تو ایمان لا کر آپﷺ کی یہ پیش گوئی اور قرآن کی آیت کو جھٹلا سکتا تھا یا دل سے نہ سہی تو اوپر اوپر سے صرف خدا کا کلام جھوٹا کرنے کے لیے اور نبی کریمﷺ کی پیشگوئی کو جھوٹا کرنے کے لیے جھوٹ موٹ کا اسلام لانے کا ڈرامہ بھی کر سکتا تھا مگر یہ انسانی کام نہیں اللہ راب العزت کے کام اور اللہ کے سچے پیغمبر کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ تھے کہ باوجود اختیار ہونے کے ابولھب اپنی پوری زندگی ایسا نہ کرسکا کیونکہ خدا کے فیصلے اور نبی کی پیشگوئی اٹل ہوتی ہے۔ اور کچھ نہیں تو کم سے کم وہ دل میں ہی ڈر جاتا اور اللہ کے فرمان کو نعوذ باللہ جھٹلا دیتا جیسا کہ مرزائی سمجھتے ہیں کہ ڈرنے سے پیش گوئی ٹل جاتی ہے۔
اسی طرح اگر ڈر جانے سے پیش گوئی ٹل جاتی یا عذاب ٹل جاتا تو مکہ بھی فتح نہ ہوتا کیونکہ کیونکہ فتح مکہ کی پیشگوئی اور خوشخبری صلح حدینیہ کے موقع پر ہی سنا دی گئی تھی جب فتح مکہ کے موقع پر مسلمان مکہ میں داخل ہوئے تو کفار مکہ اس قدر خوفزدہ ہوئے کہ انہوں نے ہتھیار تک نہ اٹھائے اور بغیر لڑے ہی مکہ کا کنٹرول مسلمانوں کے ہاتھ کردیا جو کہ ان کے نقطہ نظر سے بہت بڑا عذاب تھا ان کے لیے کیونکہ مکہ سے ان کا کنٹرول ختم ہورہا تھا جو کہ کفار کا گڑھ تھا اور ہیڈ کوارٹر تھا اور وہ ان کے ہاتھ سے نکل کر مسلمانوں کے کنٹرول میں آرہا تھا جن کو کفار مکہ اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھتے تھے لیکن اگر ڈرنے ورنے سے خدا تعالیٰ کا فرمان یا انبیاء کی پیشگوئیاں ٹلتی تو مکہ بھی کبھی فتح نہ ہوتا بلکہ فتح مکہ کی پیشگوئی کفار کے ڈر جانے سے ٹل جاتی۔ کیا مرزائیوں کو اب بھی ڈر جانے والا ڈھکوسلہ مضحکہ خیز اور بدترین جہالت معلوم نہیں ہوتی؟
ڈر جانے سے نہ پیش گوئی ٹلتی ہے نہ عذاب، انبیاء کرام کی پیش گوئیاں اٹل ہوتی ہیں جو کہ ہر حال میں پوری ہوتی ہیں کیونکہ پیشگوئی کہتے ہیں اسی بات کو ہیں جو مستقبل میں ہونا ہو تو جس جس طرح ہونا ہوتا ہے اسی طرح ہی بتایا جاتا ہے، یہ نہیں کہ بتایا کچھ اور جائے اور ہو کچھ اور، اور پھر کہہ دیا جائے پیشگوئی ٹل گئی۔ ہاں عذاب ٹل سکتا ہے لیکن وہ بھی ڈرنے سے نہیں بلکہ توبہ کرنے اور توبہ ہمیشہ کافر کے لیے یہ ہوتی ہے کہ وہ ایمان لے آئے اور مسلمان کے لیے یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے اس گناہ سے رک جائے جس وجہ سے عذاب میں گرفتار ہوا ہو۔ یہ ڈرنا ورنا فقط قادیانی ڈھکوسلہ ہے اس کے علاوہ اسکی کوئی حقیقت نہیں۔
امیہ بن خلف کا ڈر آپ نے ملاحظہ کیا مگر اس کا ڈر نہ اسے موت سے بچا سکا نہ پیشگوئی کو ٹال سکا بلکہ اللہ رب العزت نے اس کو گھسیٹ کر بدر کے میدان میں لا کھڑا کیا تا ثابت ہو کہ نبی جو پیشگوئی فرمادے وہ اٹل ہوتی ہے اور خدا تعالی ویسا ہی عمل میں لاتا ہے جیسا اس نے اپنے نبی کے ذریعے سے پیشگوئی فرمائی ہوتی ہے۔ دنیا کی کوئی طاقت اسے روک نہیں سکتی
اسی طرح حضرت یونس علیہ السلام نے عذاب کی پیش گوئی کی تو ان کی قوم بھی بہت ڈری لیکن ڈر کی وجہ سے پیشگوئی نہ ٹلی بلکہ وہ عذاب میں گرفتار ہوئے جب عذاب آیا تو پیشگوئی پوری ہوئی اب اگلی بات کہ عذاب کا ٹل جانا تو وہ ان کے ایمان لانے سے ٹلا نہ کہ کسی اور توبہ یا ڈرنے سے۔ کیونکہ عذاب ایمان لانے سے ٹل جاتا ہے لیکن پیشگوئی کسی طور نہین ٹل سکتی۔
کیا قادیانی حضرات اب بھی مرزا قادیانی کے ڈرنے والے ڈھکوسلوں پر یقین کرکے اسکی جھوٹی پیشگوئیوں کو سچا سمجھنے کی جسارت کریں گے؟ جب مرزا کی ایک بھی پیشگوئی جھوٹی ثابت ہوئی تو مرزا بھی جھوٹا، کیونکہ اس نے خود کہا کہ میری ایک بھی پیش گوئی جھوٹی نکلے تو میں جھوٹا ۔۔ روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 461
 

ذوالفقار احمد

رکن ختم نبوت فورم
حضرت یونس علیہ السلام اور قادیانی کذب
حضرت یونس علیہ السلام کے واقعہ سے متنبی پنجاب مرزا غلام احمدقادیانی نے غلط فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے، وہ یہ کہ جب قادیانی نے اپنے بعض مخالفوں کو یہ چیلنج کیا کہ اگر وہ اسی طرح مخالفت کرتے رہے تو خدا کا فیصلہ ہوچکا ہے کہ فلاں وقت تک ان پر عذاب الہٰی آجائے گا لیکن مخالفوں کی جانب سے اس کاجواب سوائے اس کے اور کچھ نہ ملا کہ ان کی مخالفانہ جدوجہد اور تیز ہوگئی ۔مگر اس کے باوجود ان پر عذاب نہیں آیاتب ناکامی کی ذلت سے بچنے کے لئے قادیانی نے یہ کہنا شروع کردیا کہ چونکہ مخالف دل میں ڈر گئے ہیں اس لئے ان پر سے عذاب ٹل گیا جس طرح یونس علیہ السلام کی قوم پر سے ٹل گیا تھا۔
لیکن قرآن عزیز کی روشن شہادت قادیانی کے اس حیلہ کو مردود قرار دیتی ہے اس لئے کہ یونس علیہ السلام کی قوم نے تو عذاب آنے سے قبل ہی علی الا علان ایمان قبول کرلیا۔ یونس علیہ السلام کو پیغمبر صادق مان کر ان کی جستجو شروع کردی اور ان کے واپس آنے پر ان کی پیروی کو دین وایمان بنالیا۔ مگر قادیانی حریفوں نے نہ صرف مخالفت باقی رکھی بلکہ قادیانی مشن کے خلاف جدوجہد کو اور تیز کردیا۔لہٰذا قادیانی کا اپنے جھوٹے دعوے کے لئے یونس علیہ السلام کے واقعہ سے دلیل لانا اور اس کی آڑ لے کر کذب بیانی کو چھپانا بے سود کوشش اور قیاس مع الفارق ہے اور اگر بفرض محال یہ تسلیم کرلیا جائے کہ قادیانی کے مخالف دل میں ڈر گئے تھے تو کیا جوشخص دل میں کسی کی صداقت کایقین رکھتا ہو مگر اپنے قول وعمل سے اس کا انکار کرتا رہے مومن کہلایا جا سکتا ہے؟اگر ایسا ہو سکتا تو جن یہود کے متعلق قرآن نے اعلان کیایعرفونہ کما یعرفون ابنا ئھم’’وہ(یہود)رسول اللہ کو یعنی ان کے پیغمبر ہونے کو اسی طرح پہچانتے ہیں جس طرح اپنی اولاد کے اولاد ہونے کا یقین رکھتے ہیں‘‘وہ مومن کیوں نہ کہلائے؟
کیا یونس علیہ السلام کی صداقت اور مرزا قادیانی کی کذب بیانی کے درمیان یہ نمایاں فرق کافی نہیں ہے کہ یونس علیہ السلام جب قوم کی جانب واپس آتے ہیں تو جس قوم کو خدا کا دشمن رسول کا دشمن اور متمر دوسرکش چھوڑ گئے تھے، اس کو مومن صادق، مطیع و فرمانبرداراپنی آمد پر ان کو انتہائی مسرور پایا۔ مگرقادیانی نے یہ دیکھا کہ اس کے چیلنج کے بعد مخالف تحریر و تقریر اور عملی زندگی میں پہلے زیادہ مخالف ہوگئے ہیں اور مزید برآں یہ کہ ان میں سے بعض آج تک بصد عزت و احترام زندہ ہیں اور خود مرزا قادیانی ایسے مرض میں مبتلا ہو کر جو بعض قوموںکے لئے عذاب کی شکل میں نمودار ہوچکا ہے عرصہ ہوا دنیا کو خیرباد کہہ چکا۔
یہ تفسیر جمہور کے نزدیک ساقط الاعتبار ہے، اس لئے کہ زیر بحث آیت میں کسی جملہ سے بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ قوم یونس پر عذاب آچکا تھا اور جب وہ عذاب میں گھر گئے تو عذاب کے مشاہدہ کے بعد خوف نے ان کو ایمان پر آمادہ کردیا اور پھر سنت اللہ کے خلاف صرف یونس علیہ السلام کی قوم کے ساتھ معاملہ کیا گیا کہ ان کے ایمان بالمشاہدہ کوقبول کرکے ان پر سے عذاب ہٹالیا گیا، بلکہ آیت میں تو صاف یہ کہا گیا ہے کہ جس طرح یونس علیہ السلام کی قوم ایمان لے آئی اس طرح وہ سب بھی عذاب سے محفوظ رہتیں، اس مقام پر تو اللہ تعالیٰ اس پر ناراضی کا اظہار فرمارہے ہیں کہ ایمان لاکر دوسری بستی کے لوگوں نے بھی قوم یونس علیہ السلام کی طرح کیوں خود کو عذاب سے نہ بچالیا۔ لیکن جمہور کے خلاف تفسیر بالا یہ ظاہر کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مراد یہی ہے کہ قوم یونس علیہ السلام کے سوا جس قوم نے بھی عذاب کا مشاہدہ کر کے امیان قبول کیا ہم نے اس کے ایمان کو رد کردیا۔ مگر قوم یونس پریہ مہربانی کی کہ ان کے ایمان بالمشاہدہ کو منظور کرلیا۔ ؎
ببیں تفاوت رہ از کجا ست تا بکجا!
اوراگر کوئی شخص اس موقع پر یہ سوال کرے کہ اللہ تعالیٰ کو قوم یونس علیہ السلام ہی کے ساتھ ایسی کیا خصوصیت تھی اور دوسری قوموں کے ساتھ کیا عداوت کہ جس قسم کا ایمان قوم یونس علیہ السلام کاقبول ہوا اس قسم کا دوسری قوموں کاکیوں نہ ہوا،تو نہ معلوم اس تفسیر کے قائلین اس کاکیا جواب دیں گے؟اور بعض مفسرین کہتے ہیں کہ چونکہ قوم یونس علیہ السلام نے عذاب کا مشاہدہ کر کے ایمان قبول کیا تھا ، اس لئے اللہ تعالیٰ نے صرف دنیا میں اس کو مقبول قرار دیا اور ان پر سے عذاب ہٹا کر دنیا کی زندگی میں مہلت دے دی مگر آخرت کا عذاب بحالہٖ ان پر قائم رہا۔
یہ قول بھی پہلے قول کی طرح غلط اور قرآن عزیز کے سیاق و سباق کے قطعاً خلاف ہے اس لئے کہ سورئہ والصافات اور سورئہ یونس میں متعنھم الی حین کا یہ مطلب کس طرح صحیح ہو سکتا ہے کہ ان کا ایمان صرف دنیوی زندگی تک مفید تھا اور آخرت میں وہ کافر اور مشرک ہی شمار ہوگئے، جبکہ سورئہ یونس میں اللہ تعالی قوم یونس کی منقبت اور گزشتہ اقوام کے ایمان نہ لانے کی مذمت ہی میں اس واقعہ کو بیان کررہا اور شاہد بنا رہا ہے اور اس جگہ سیاق کلام ہی یہ ہے کہ دوسری اقوام کو بھی ایسا ہی کرنا چاہیے تھا۔ جیساکہ یونس علیہ السلام کی قوم نے کیا اور جبکہ و الصافات میں ان کے ایمان کو کسی بھی قید کے ساتھ مقید نہیں کیا؟ اس کے علاوہ یہ بات بھی خاص توجہ کے لائق ہے کہ قرآن عزیز جب کبھی امنو ا کہتاہے تو اس سے وہی ایمان مراد لیتا ہے جو دنیا و آخرت دونوں میں اس کے نزدیک مقبول ہے، وہ اسلمنا کو تو لغوی معنی میں استعمال کرتاہے، جیسا کہ اعراب مدینہ کے واقعہ میں مذکور ہے لیکن امنوا، امنا کو کبھی’’ایمان معتبر‘‘ کے سوا دوسرے معنی میں استعمال نہیں کرتا البتہ اس مقام پر متعنھم الی حین یا تو اس معنی میں ہے جو ہم ترجمہ میں ابن کثیر سے نقل کرچکے ہیں اور یا پھر یہ مراد ہے کہ گزشتہ اقوام کی تاریخ یہ بتا رہی ہے کہ جن قوموں نے اپنے نبی اور پیغمبر کی ہدایت کو تسلیم نہیں کیا اور ان کے ساتھ ٹھٹھا کر کے ظلم و طغیان کو اسوہ بنالیا، وہ قومیں ان کے نبی کی بددعا سے ہلاک ہوگئیں اور ان کی بستیاں آنے والی قوموں کے لئے سرمایہ عبرت بنیں، اس لئے قرآن عزیز جب عاد، ثمود، قوم صالح علیہ السلام، قوم لوط علیہ السلام وغیرہ کا ذکرکر تا ہے تو چشم عبرت سے دیکھنے والے آنکھ اٹھا کر ان بستیوں کا انجام دیکھ لیتے اور قرآن کی تصدیق کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں لیکن یونس علیہ السلام کی قوم کا معاملہ ایک شبہ پیدا کرتا تھا اور وہ یہ کہ اگر باشندگان نینویٰ نے ایما ن قبول کرلیا تھا تو پھر خدا کے ان مقبول بندوں کی نسلیں آج بھی پھلتی پھولتی نظر آنی چاہئے تھیں۔ مگر تاریخ بتاتی ہے کہ وہ قوم اور ان کا تمدن دنیا سے ا س طرح فنا ہوگیا جس طرح عذاب الہٰی سے ہلاک شدہ قوموں کا ،حتی کہ نینویٰ جیسا عظیم الشان اور تاریخی شہر جو آشوری تمدن کا مرکز تھا۔ اس طرح دنیا سے مٹ گیا کہ ۲۰۰ق م تک دنیائے تاریخ اس کا صحیح جائے وقوع تک بھی بے نشان اورنامعلوم ہو گیا تھا۔( تفسیر ترجمان القرآن جلد ۲ ماخوذاز یونانی مؤرخ)
لہٰذا قرآن عزیز نے اس شبہ کا جواب پہلے ہی دے دیا تاکہ شبہ کرنے والے کی نگاہ فوراً ہی تاریخ کے دوسرے ورق پر پڑ جائے۔ وہ یہ کہ یہ درست ہے کہ قوم یونس حضرت یونس علیہ السلام کے زمانہ میں مومن، عادل اور پاکباز ہوگئی تھی لیکن ان کی حیات طیبہ کا یہ دور عرصہ تک قائم نہیں رہا اور عرصہ کے بعد ان میں کفرو شرک اور ظلم و سرکشی کا وہ تمام مواد پھر جمع ہوگیاجس کے لئے یونس علیہ السلام مبعوث ہوئے تھے اور اس زمانہ کے اسرائیلی نبی ناحوم نے اگرچہ ان کو بہت سمجھایا اور ہدایت و رشد کی راہ دکھائی، مگر اس مرتبہ گزشتہ قوموں کی طرح انہوں بھی سرکشی اور بغاوت کو زندگی کا نصب العین بنائے رکھا، تب وحی الہٰی کی روشنی میں ناحوم علیہ السلام نے نینویٰ کی تباہی کی خبر دی اور ان کی پیشین گوئی سے ستر برس کے اندرآشوری قوم کا تمدن اور ان کا مرکزی شہر سب بابلیوںکے ہاتھوں اس طرح فنا ہوگئے کہ نام و نشان تک باقی نہیں رہا۔
پس قرآن عزیز نے ایک جانب قوم یونس علیہ السلام کے ایمان لے آنے پر ان کی مدحت کی اوران کو سراہا تو دوسری جانب یہ بھی اشارہ کردیا کہ جن افراد نے یہ نیکوکاری اختیار کی ان کو ہم نے بھی سروسامانِ زندگی سے نفع اٹھانے کا موقع دیا، یعنی عذاب سے بچالیا لیکن قوم یونس علیہ السلام کی یہی حالت ہمیشہ نہ رہی اور ایک زمانہ وہ آیا کہ انہوں نے پھر ظلم و ستم اور کفرو شرک کو اپنا لیا اور گزشتہ سرکش قوموں کی طرح سمجھانے کے باوجود بھی نہ سمجھی، تب خدائے تعالیٰ نے بھی ان کے ساتھ وہی کیا جو’’سنت اللہ‘‘ کے مطابق ایسی قوموں کے ساتھ کیا جاتا رہا ہے۔
 
Top