مرزا قادیانی جب بھی اپنی پیش گوئی میں جھوٹا ثابت ہوجاتا تو یہ دجل کرتا کہ وہ ڈر گیا تھا یا دل میں ڈر گیا تھا اس لیے پیشگوئی ٹل گئی یا عذاب ٹل گیا اگر اس دجالی منطق کو سچ مانا جائے اور اس طرح سے پیشگوئی کا پورا ہونا مانا جائے تو دنیا کا ہر ہر انسان چاہے وہ مسلمان و یا کافر ہر کوئی لاکھوں پیشگوئیاں کر سکتا ہے اور ہر پیشگوئی کو مرزا قادیانی والے معیار کے مطابق پورا کرسکتا ہے میں نے ایک سال سے قادیانیوں کو چیلنج کیا ہوا ہے کہ میں من و عن مرزا قادیانی جیسی 100 پیشگوئیاں کرتا ہوں اور ان کو مرزا کے معیار کے عین مطابق ہی پورا کرکے دکھاتا ہوں مگر کوئی مرزائی سامنے نہیں آیا شاید ان کو بھی معلوم ہے کہ مرزا قادیانی کا پیشگوئیاں پوری کرنے کا معیار کیسا تھا۔
اب چلتے ہیں اس بات کی طرف کہ کیا ڈر جانے یا دل میں ڈر جانے سے پیشگوئی یا عذاب ٹل جاتا ہے؟ آتھم نہ مرا تو مرزا نے کہا کہ دل میں ڈر گیا تھا ، محمدی بیگم سے شادی نہ ہوئی تو بھی یہی ڈھکوسلہ کہ وہ ڈر گئے تھے سلطان محمد نہ مرا تو بھی یہی بہانہ کہ وہ ڈر گیا تھا تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ڈر جانے سے پیش گوئی یا عذاب ٹل جاتا ہے؟ اس کے لیے سب سے پہلے مخبر صادق نبی آخرالزماں خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی ایک پیش گوئی کا ذکر کرتا ہوں جو آپ ﷺ نے مکہ کے سردار امیہ بن خلف کے بارے کی تھی میں یہ پورا واقعہ بخاری شریف کی حدیث سے من و عن پیش کر رہا ہوں۔
حدیث بخاری۔
حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ وہ امیہ بن خلف کے(جالہیت کے زمانے کے)دوست تھے جب بھی امیہ مدینہ سے گزرتا تو ان کے ہاں قیام کرتا اسی طرح حضرت سعد بن معاذ جب مکہ سے گزرتے تو امیہ کے یہاں قیام کرتے ۔ جب نبی کریمﷺ مدینہ حجرت کرکے تشریف لائے تو ایک مرتبہ حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ مکہ عمرہ کے ارادے سے گئے اور امیہ کے پاس قیام کیا انہوں نے امیہ سے کہا کہ میرے لیے کوئی تنہائی کا وقت بتاو تاکہ میں بیت اللہ کا طواف کروں چنانچہ امیہ انہیں دوپہر کے وقت ساتھ لے کر نکلا ان سے ابوجہل کی ملاقات ہوگئی اس سے پوچھا ابو صفوان(امیہ) یہ تمہارے ساتھ کون ہیں؟ امیہ نے بتایا کہ یہ سعد بن معاذ (رضی اللہ عنہ) ہیں ابوجہل نے کہا میں تمہیں مکہ میں امن کے ساتھ طواف کرتا ہوا نہ دیکھوں تم لوگوں نے بے دینوں کو پناہ دے رکھی ہے اور اس خیال میں ہو کہ تم لوگ ان کی مدد کرو گے خدا کی قسم اگر اس وقت تم ابو صفوان کے ساتھ نہ ہوتے تو اپنے گھر سلامتی سے نہیں جاسکتے تھے اس پر سعد رضی اللہ عنہ نے کہا اس وقت ان کی آواز بلند ہوگئی تھی کہ اللہ کی قسم اگر آج تم نے مجھے طواف سے روکا تو میں مدینہ کی طرف سے تمہارا راستہ بند کردوں گا اور یہ تمہارے لیے بہت سی مشکلات کا باعث بن جائے گا۔( حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ مدینہ کے سرداروں میں سے تھے اور شام سے مکہ کی طرف آنے والے تمام تجارتی قافلے مدینہ سے ہوکر گزرتے تھے۔راقم) امیہ کہنے لگا سعد، ابوجہل کے سامنے بلند آواز سے نہ بولو یہ وادی کا سردار ہے اس پر حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ نے فرمایا امیہ تم اس طرح کی گفتگو نہ کرو اللہ کی قسم میں رسول اللہ ﷺ سے سن چکا ہوں کہ بے شک تو قتل کیا جائے گا ۔ امیہ نے پوچھا کیا مکہ میں مجھے قتل کریں گے؟انہوں نے فرمایا مجھے اس کا علم نہیں ۔ امیہ یہ سن کر بہت گھبرایا اور جب اپنے گھر لوٹا تو (اپنی بیوی سے ) کہا ام صفوان دیکھا نہیں سعد میرے متعلق کیا کہہ رہے ہیں؟ اس نے پوچھا کیا کہہ رہے ہیں امیہ نے کہا کہ وہ یہ بتا رہے تھے کہ انہیں محمدﷺ نے خبر دی ہے کہ وہ کسی نہ کسی دن مجھے قتل کردیں گے میں نے پوچھا کیا مکہ میں مجھے قتل کریں گے تو انہوں نے کہا اس کی مجھے خبر نہیں ۔ امیہ کہنے لگا خدا کی قسم میں اب مکہ سے کبھی باہر نہیں جاوں گا (قادیانی حضرات اسے کہتے ہیں ڈر ۔ عبداللہ آتھم کا ڈر اور سلطان محمد کا ڈر اس ڈر کا کروڑواں حصہ بھی نہ تھا اور سلطان محمد تو ڈنکے کی چوٹ پر کہتا تھا کہ وہ نہیں ڈرا۔راقم)۔پھر بدر کی لڑائی کے موقع پر جب ابوجہل نے قریش سے لڑائی کی تیاری کے لیے کہا اور کہا کہ اپنے قافلے کی مدد کو چلو تو امیہ نے لڑائی میں شرکت پسند نہین کی( اسے کہتے ہیں ڈر، مرزائی حضرات) لیکن ابوجہل اس کے پاس آیا اور کہنے لگا ابو صفوان تم وادی کے سردار ہو جب لوگ دیکھیں گے کہ تم ہی لڑائی میں نہیں نکلتے تو دوسرے لوگ بھی نہیں نکلیں گے ابوجہل یوں ہی برابر اس کو سمجھاتا رہا آخر مجبور ہو کر امیہ نے کہا جب نہیں مانتا تو خدا کی قسم میں (لڑائی کے لیے) ایسا تیز رفتار اونٹ خریدوں گا جس کا ثانی مکہ میں نہ ہو پھر امیہ نے (اپنی بیوی سے) کہا ام صفوان میرا سامان تیار کردے اس نے کہا ابو صفوان کیا تم اپنے یثربی بھائی کی بات بھول گئے؟ امیہ بولا میں بھولا نہیں ہوں ان کے ساتھ صرف تھوڑی دور تک جاوں گا ۔ جب امیہ نکلا تو راستہ میں جس منزل پر بھی ٹھہرنا ہوتا یہ اپنا اونٹ (اپنے پاس) باندھ دیتا اور وہ برابر ایسا ہی احتیاط کرتا رہا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اسے بدر کے میدان میں قتل کرادیا۔ بخاری شریف(مترجم) جلد 5 صفحہ 321 ، کتاب المغازی حدیث نمبر 3950
اس حدیث شریف کو پڑھ لینے کے بعد یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ نبی اگر پیش گوئی کردے تو ڈرنے ورنے سے سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ پیش گوئی ٹل جائے، نہ ڈرنے سے عذاب ٹل سکتا ہے۔ مرزائی حضرات بتائیں گے کہ کیا عبداللہ آتھم اور سلطان محمد کا وہ جعلی ڈر جو تم بتاتے ہو وہ امیہ بن خلف کے ڈر کا کروڑواں حصہ بھی بنتا ہے کیا؟ امیہ نے لاکھ جتن کیے کہ وہ بدر کی لڑائی میں شریک نہ ہو کیونکہ اسے ڈر تھا اور شدید ڈر تھا کہ اللہ کے رسولﷺ نے اگر فرمادیا تو یہ بات ہوکر رہے گی اس لیے وہ اس دن سے لے کر جب حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ نے اسے خبر دی تھی قتل کے وقت تک برابر ڈرتا رہا لیکن نہ عذاب ٹل سکا نہ آپ ﷺ کی پیش گوئی ڈرنے کی وجہ سے معطل ہوئی۔ اس کے بعد کیا ثبوت چاہیے کہ مرزا کا ڈرنے والا ڈرامہ فقط ڈھکوسلہ اور لوگوں کو بے وقوف بنانے کا عزر تھا ورنہ وہ خود تسلیم کرتا ہے کہ ، ممکن نہیں کہ نبیوں کی پیشگوئیاں ٹل جائیں'' روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 5
دوستو انبیاء کرام کی پیشگوئی پتھر پر لکیر ہوتی ہے وہ جو فرمادیں وہ ہوکر رہتا ہے کوئی ڈر اور کوئی عزر اور کوئی چالبازی ان کی پیشگوئی کو پورا ہونے سے نہیں روک سکتی ، قرآں پاک میں ابولھب سے متعلق سورہ لھب اسکی زندگی میں ہی نازل ہوئی اگر وہ چاہتا تو ایمان لا کر آپﷺ کی یہ پیش گوئی اور قرآن کی آیت کو جھٹلا سکتا تھا یا دل سے نہ سہی تو اوپر اوپر سے صرف خدا کا کلام جھوٹا کرنے کے لیے اور نبی کریمﷺ کی پیشگوئی کو جھوٹا کرنے کے لیے جھوٹ موٹ کا اسلام لانے کا ڈرامہ بھی کر سکتا تھا مگر یہ انسانی کام نہیں اللہ راب العزت کے کام اور اللہ کے سچے پیغمبر کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ تھے کہ باوجود اختیار ہونے کے ابولھب اپنی پوری زندگی ایسا نہ کرسکا کیونکہ خدا کے فیصلے اور نبی کی پیشگوئی اٹل ہوتی ہے۔ اور کچھ نہیں تو کم سے کم وہ دل میں ہی ڈر جاتا اور اللہ کے فرمان کو نعوذ باللہ جھٹلا دیتا جیسا کہ مرزائی سمجھتے ہیں کہ ڈرنے سے پیش گوئی ٹل جاتی ہے۔
اسی طرح اگر ڈر جانے سے پیش گوئی ٹل جاتی یا عذاب ٹل جاتا تو مکہ بھی فتح نہ ہوتا کیونکہ کیونکہ فتح مکہ کی پیشگوئی اور خوشخبری صلح حدینیہ کے موقع پر ہی سنا دی گئی تھی جب فتح مکہ کے موقع پر مسلمان مکہ میں داخل ہوئے تو کفار مکہ اس قدر خوفزدہ ہوئے کہ انہوں نے ہتھیار تک نہ اٹھائے اور بغیر لڑے ہی مکہ کا کنٹرول مسلمانوں کے ہاتھ کردیا جو کہ ان کے نقطہ نظر سے بہت بڑا عذاب تھا ان کے لیے کیونکہ مکہ سے ان کا کنٹرول ختم ہورہا تھا جو کہ کفار کا گڑھ تھا اور ہیڈ کوارٹر تھا اور وہ ان کے ہاتھ سے نکل کر مسلمانوں کے کنٹرول میں آرہا تھا جن کو کفار مکہ اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھتے تھے لیکن اگر ڈرنے ورنے سے خدا تعالیٰ کا فرمان یا انبیاء کی پیشگوئیاں ٹلتی تو مکہ بھی کبھی فتح نہ ہوتا بلکہ فتح مکہ کی پیشگوئی کفار کے ڈر جانے سے ٹل جاتی۔ کیا مرزائیوں کو اب بھی ڈر جانے والا ڈھکوسلہ مضحکہ خیز اور بدترین جہالت معلوم نہیں ہوتی؟
ڈر جانے سے نہ پیش گوئی ٹلتی ہے نہ عذاب، انبیاء کرام کی پیش گوئیاں اٹل ہوتی ہیں جو کہ ہر حال میں پوری ہوتی ہیں کیونکہ پیشگوئی کہتے ہیں اسی بات کو ہیں جو مستقبل میں ہونا ہو تو جس جس طرح ہونا ہوتا ہے اسی طرح ہی بتایا جاتا ہے، یہ نہیں کہ بتایا کچھ اور جائے اور ہو کچھ اور، اور پھر کہہ دیا جائے پیشگوئی ٹل گئی۔ ہاں عذاب ٹل سکتا ہے لیکن وہ بھی ڈرنے سے نہیں بلکہ توبہ کرنے اور توبہ ہمیشہ کافر کے لیے یہ ہوتی ہے کہ وہ ایمان لے آئے اور مسلمان کے لیے یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے اس گناہ سے رک جائے جس وجہ سے عذاب میں گرفتار ہوا ہو۔ یہ ڈرنا ورنا فقط قادیانی ڈھکوسلہ ہے اس کے علاوہ اسکی کوئی حقیقت نہیں۔
امیہ بن خلف کا ڈر آپ نے ملاحظہ کیا مگر اس کا ڈر نہ اسے موت سے بچا سکا نہ پیشگوئی کو ٹال سکا بلکہ اللہ رب العزت نے اس کو گھسیٹ کر بدر کے میدان میں لا کھڑا کیا تا ثابت ہو کہ نبی جو پیشگوئی فرمادے وہ اٹل ہوتی ہے اور خدا تعالی ویسا ہی عمل میں لاتا ہے جیسا اس نے اپنے نبی کے ذریعے سے پیشگوئی فرمائی ہوتی ہے۔ دنیا کی کوئی طاقت اسے روک نہیں سکتی
اسی طرح حضرت یونس علیہ السلام نے عذاب کی پیش گوئی کی تو ان کی قوم بھی بہت ڈری لیکن ڈر کی وجہ سے پیشگوئی نہ ٹلی بلکہ وہ عذاب میں گرفتار ہوئے جب عذاب آیا تو پیشگوئی پوری ہوئی اب اگلی بات کہ عذاب کا ٹل جانا تو وہ ان کے ایمان لانے سے ٹلا نہ کہ کسی اور توبہ یا ڈرنے سے۔ کیونکہ عذاب ایمان لانے سے ٹل جاتا ہے لیکن پیشگوئی کسی طور نہین ٹل سکتی۔
کیا قادیانی حضرات اب بھی مرزا قادیانی کے ڈرنے والے ڈھکوسلوں پر یقین کرکے اسکی جھوٹی پیشگوئیوں کو سچا سمجھنے کی جسارت کریں گے؟ جب مرزا کی ایک بھی پیشگوئی جھوٹی ثابت ہوئی تو مرزا بھی جھوٹا، کیونکہ اس نے خود کہا کہ میری ایک بھی پیش گوئی جھوٹی نکلے تو میں جھوٹا ۔۔ روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 461
اب چلتے ہیں اس بات کی طرف کہ کیا ڈر جانے یا دل میں ڈر جانے سے پیشگوئی یا عذاب ٹل جاتا ہے؟ آتھم نہ مرا تو مرزا نے کہا کہ دل میں ڈر گیا تھا ، محمدی بیگم سے شادی نہ ہوئی تو بھی یہی ڈھکوسلہ کہ وہ ڈر گئے تھے سلطان محمد نہ مرا تو بھی یہی بہانہ کہ وہ ڈر گیا تھا تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ڈر جانے سے پیش گوئی یا عذاب ٹل جاتا ہے؟ اس کے لیے سب سے پہلے مخبر صادق نبی آخرالزماں خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی ایک پیش گوئی کا ذکر کرتا ہوں جو آپ ﷺ نے مکہ کے سردار امیہ بن خلف کے بارے کی تھی میں یہ پورا واقعہ بخاری شریف کی حدیث سے من و عن پیش کر رہا ہوں۔
حدیث بخاری۔
حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ وہ امیہ بن خلف کے(جالہیت کے زمانے کے)دوست تھے جب بھی امیہ مدینہ سے گزرتا تو ان کے ہاں قیام کرتا اسی طرح حضرت سعد بن معاذ جب مکہ سے گزرتے تو امیہ کے یہاں قیام کرتے ۔ جب نبی کریمﷺ مدینہ حجرت کرکے تشریف لائے تو ایک مرتبہ حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ مکہ عمرہ کے ارادے سے گئے اور امیہ کے پاس قیام کیا انہوں نے امیہ سے کہا کہ میرے لیے کوئی تنہائی کا وقت بتاو تاکہ میں بیت اللہ کا طواف کروں چنانچہ امیہ انہیں دوپہر کے وقت ساتھ لے کر نکلا ان سے ابوجہل کی ملاقات ہوگئی اس سے پوچھا ابو صفوان(امیہ) یہ تمہارے ساتھ کون ہیں؟ امیہ نے بتایا کہ یہ سعد بن معاذ (رضی اللہ عنہ) ہیں ابوجہل نے کہا میں تمہیں مکہ میں امن کے ساتھ طواف کرتا ہوا نہ دیکھوں تم لوگوں نے بے دینوں کو پناہ دے رکھی ہے اور اس خیال میں ہو کہ تم لوگ ان کی مدد کرو گے خدا کی قسم اگر اس وقت تم ابو صفوان کے ساتھ نہ ہوتے تو اپنے گھر سلامتی سے نہیں جاسکتے تھے اس پر سعد رضی اللہ عنہ نے کہا اس وقت ان کی آواز بلند ہوگئی تھی کہ اللہ کی قسم اگر آج تم نے مجھے طواف سے روکا تو میں مدینہ کی طرف سے تمہارا راستہ بند کردوں گا اور یہ تمہارے لیے بہت سی مشکلات کا باعث بن جائے گا۔( حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ مدینہ کے سرداروں میں سے تھے اور شام سے مکہ کی طرف آنے والے تمام تجارتی قافلے مدینہ سے ہوکر گزرتے تھے۔راقم) امیہ کہنے لگا سعد، ابوجہل کے سامنے بلند آواز سے نہ بولو یہ وادی کا سردار ہے اس پر حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ نے فرمایا امیہ تم اس طرح کی گفتگو نہ کرو اللہ کی قسم میں رسول اللہ ﷺ سے سن چکا ہوں کہ بے شک تو قتل کیا جائے گا ۔ امیہ نے پوچھا کیا مکہ میں مجھے قتل کریں گے؟انہوں نے فرمایا مجھے اس کا علم نہیں ۔ امیہ یہ سن کر بہت گھبرایا اور جب اپنے گھر لوٹا تو (اپنی بیوی سے ) کہا ام صفوان دیکھا نہیں سعد میرے متعلق کیا کہہ رہے ہیں؟ اس نے پوچھا کیا کہہ رہے ہیں امیہ نے کہا کہ وہ یہ بتا رہے تھے کہ انہیں محمدﷺ نے خبر دی ہے کہ وہ کسی نہ کسی دن مجھے قتل کردیں گے میں نے پوچھا کیا مکہ میں مجھے قتل کریں گے تو انہوں نے کہا اس کی مجھے خبر نہیں ۔ امیہ کہنے لگا خدا کی قسم میں اب مکہ سے کبھی باہر نہیں جاوں گا (قادیانی حضرات اسے کہتے ہیں ڈر ۔ عبداللہ آتھم کا ڈر اور سلطان محمد کا ڈر اس ڈر کا کروڑواں حصہ بھی نہ تھا اور سلطان محمد تو ڈنکے کی چوٹ پر کہتا تھا کہ وہ نہیں ڈرا۔راقم)۔پھر بدر کی لڑائی کے موقع پر جب ابوجہل نے قریش سے لڑائی کی تیاری کے لیے کہا اور کہا کہ اپنے قافلے کی مدد کو چلو تو امیہ نے لڑائی میں شرکت پسند نہین کی( اسے کہتے ہیں ڈر، مرزائی حضرات) لیکن ابوجہل اس کے پاس آیا اور کہنے لگا ابو صفوان تم وادی کے سردار ہو جب لوگ دیکھیں گے کہ تم ہی لڑائی میں نہیں نکلتے تو دوسرے لوگ بھی نہیں نکلیں گے ابوجہل یوں ہی برابر اس کو سمجھاتا رہا آخر مجبور ہو کر امیہ نے کہا جب نہیں مانتا تو خدا کی قسم میں (لڑائی کے لیے) ایسا تیز رفتار اونٹ خریدوں گا جس کا ثانی مکہ میں نہ ہو پھر امیہ نے (اپنی بیوی سے) کہا ام صفوان میرا سامان تیار کردے اس نے کہا ابو صفوان کیا تم اپنے یثربی بھائی کی بات بھول گئے؟ امیہ بولا میں بھولا نہیں ہوں ان کے ساتھ صرف تھوڑی دور تک جاوں گا ۔ جب امیہ نکلا تو راستہ میں جس منزل پر بھی ٹھہرنا ہوتا یہ اپنا اونٹ (اپنے پاس) باندھ دیتا اور وہ برابر ایسا ہی احتیاط کرتا رہا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اسے بدر کے میدان میں قتل کرادیا۔ بخاری شریف(مترجم) جلد 5 صفحہ 321 ، کتاب المغازی حدیث نمبر 3950
اس حدیث شریف کو پڑھ لینے کے بعد یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ نبی اگر پیش گوئی کردے تو ڈرنے ورنے سے سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ پیش گوئی ٹل جائے، نہ ڈرنے سے عذاب ٹل سکتا ہے۔ مرزائی حضرات بتائیں گے کہ کیا عبداللہ آتھم اور سلطان محمد کا وہ جعلی ڈر جو تم بتاتے ہو وہ امیہ بن خلف کے ڈر کا کروڑواں حصہ بھی بنتا ہے کیا؟ امیہ نے لاکھ جتن کیے کہ وہ بدر کی لڑائی میں شریک نہ ہو کیونکہ اسے ڈر تھا اور شدید ڈر تھا کہ اللہ کے رسولﷺ نے اگر فرمادیا تو یہ بات ہوکر رہے گی اس لیے وہ اس دن سے لے کر جب حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ نے اسے خبر دی تھی قتل کے وقت تک برابر ڈرتا رہا لیکن نہ عذاب ٹل سکا نہ آپ ﷺ کی پیش گوئی ڈرنے کی وجہ سے معطل ہوئی۔ اس کے بعد کیا ثبوت چاہیے کہ مرزا کا ڈرنے والا ڈرامہ فقط ڈھکوسلہ اور لوگوں کو بے وقوف بنانے کا عزر تھا ورنہ وہ خود تسلیم کرتا ہے کہ ، ممکن نہیں کہ نبیوں کی پیشگوئیاں ٹل جائیں'' روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 5
دوستو انبیاء کرام کی پیشگوئی پتھر پر لکیر ہوتی ہے وہ جو فرمادیں وہ ہوکر رہتا ہے کوئی ڈر اور کوئی عزر اور کوئی چالبازی ان کی پیشگوئی کو پورا ہونے سے نہیں روک سکتی ، قرآں پاک میں ابولھب سے متعلق سورہ لھب اسکی زندگی میں ہی نازل ہوئی اگر وہ چاہتا تو ایمان لا کر آپﷺ کی یہ پیش گوئی اور قرآن کی آیت کو جھٹلا سکتا تھا یا دل سے نہ سہی تو اوپر اوپر سے صرف خدا کا کلام جھوٹا کرنے کے لیے اور نبی کریمﷺ کی پیشگوئی کو جھوٹا کرنے کے لیے جھوٹ موٹ کا اسلام لانے کا ڈرامہ بھی کر سکتا تھا مگر یہ انسانی کام نہیں اللہ راب العزت کے کام اور اللہ کے سچے پیغمبر کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ تھے کہ باوجود اختیار ہونے کے ابولھب اپنی پوری زندگی ایسا نہ کرسکا کیونکہ خدا کے فیصلے اور نبی کی پیشگوئی اٹل ہوتی ہے۔ اور کچھ نہیں تو کم سے کم وہ دل میں ہی ڈر جاتا اور اللہ کے فرمان کو نعوذ باللہ جھٹلا دیتا جیسا کہ مرزائی سمجھتے ہیں کہ ڈرنے سے پیش گوئی ٹل جاتی ہے۔
اسی طرح اگر ڈر جانے سے پیش گوئی ٹل جاتی یا عذاب ٹل جاتا تو مکہ بھی فتح نہ ہوتا کیونکہ کیونکہ فتح مکہ کی پیشگوئی اور خوشخبری صلح حدینیہ کے موقع پر ہی سنا دی گئی تھی جب فتح مکہ کے موقع پر مسلمان مکہ میں داخل ہوئے تو کفار مکہ اس قدر خوفزدہ ہوئے کہ انہوں نے ہتھیار تک نہ اٹھائے اور بغیر لڑے ہی مکہ کا کنٹرول مسلمانوں کے ہاتھ کردیا جو کہ ان کے نقطہ نظر سے بہت بڑا عذاب تھا ان کے لیے کیونکہ مکہ سے ان کا کنٹرول ختم ہورہا تھا جو کہ کفار کا گڑھ تھا اور ہیڈ کوارٹر تھا اور وہ ان کے ہاتھ سے نکل کر مسلمانوں کے کنٹرول میں آرہا تھا جن کو کفار مکہ اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھتے تھے لیکن اگر ڈرنے ورنے سے خدا تعالیٰ کا فرمان یا انبیاء کی پیشگوئیاں ٹلتی تو مکہ بھی کبھی فتح نہ ہوتا بلکہ فتح مکہ کی پیشگوئی کفار کے ڈر جانے سے ٹل جاتی۔ کیا مرزائیوں کو اب بھی ڈر جانے والا ڈھکوسلہ مضحکہ خیز اور بدترین جہالت معلوم نہیں ہوتی؟
ڈر جانے سے نہ پیش گوئی ٹلتی ہے نہ عذاب، انبیاء کرام کی پیش گوئیاں اٹل ہوتی ہیں جو کہ ہر حال میں پوری ہوتی ہیں کیونکہ پیشگوئی کہتے ہیں اسی بات کو ہیں جو مستقبل میں ہونا ہو تو جس جس طرح ہونا ہوتا ہے اسی طرح ہی بتایا جاتا ہے، یہ نہیں کہ بتایا کچھ اور جائے اور ہو کچھ اور، اور پھر کہہ دیا جائے پیشگوئی ٹل گئی۔ ہاں عذاب ٹل سکتا ہے لیکن وہ بھی ڈرنے سے نہیں بلکہ توبہ کرنے اور توبہ ہمیشہ کافر کے لیے یہ ہوتی ہے کہ وہ ایمان لے آئے اور مسلمان کے لیے یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے اس گناہ سے رک جائے جس وجہ سے عذاب میں گرفتار ہوا ہو۔ یہ ڈرنا ورنا فقط قادیانی ڈھکوسلہ ہے اس کے علاوہ اسکی کوئی حقیقت نہیں۔
امیہ بن خلف کا ڈر آپ نے ملاحظہ کیا مگر اس کا ڈر نہ اسے موت سے بچا سکا نہ پیشگوئی کو ٹال سکا بلکہ اللہ رب العزت نے اس کو گھسیٹ کر بدر کے میدان میں لا کھڑا کیا تا ثابت ہو کہ نبی جو پیشگوئی فرمادے وہ اٹل ہوتی ہے اور خدا تعالی ویسا ہی عمل میں لاتا ہے جیسا اس نے اپنے نبی کے ذریعے سے پیشگوئی فرمائی ہوتی ہے۔ دنیا کی کوئی طاقت اسے روک نہیں سکتی
اسی طرح حضرت یونس علیہ السلام نے عذاب کی پیش گوئی کی تو ان کی قوم بھی بہت ڈری لیکن ڈر کی وجہ سے پیشگوئی نہ ٹلی بلکہ وہ عذاب میں گرفتار ہوئے جب عذاب آیا تو پیشگوئی پوری ہوئی اب اگلی بات کہ عذاب کا ٹل جانا تو وہ ان کے ایمان لانے سے ٹلا نہ کہ کسی اور توبہ یا ڈرنے سے۔ کیونکہ عذاب ایمان لانے سے ٹل جاتا ہے لیکن پیشگوئی کسی طور نہین ٹل سکتی۔
کیا قادیانی حضرات اب بھی مرزا قادیانی کے ڈرنے والے ڈھکوسلوں پر یقین کرکے اسکی جھوٹی پیشگوئیوں کو سچا سمجھنے کی جسارت کریں گے؟ جب مرزا کی ایک بھی پیشگوئی جھوٹی ثابت ہوئی تو مرزا بھی جھوٹا، کیونکہ اس نے خود کہا کہ میری ایک بھی پیش گوئی جھوٹی نکلے تو میں جھوٹا ۔۔ روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 461