جو شخص گورنمنٹ برطانیہ کے حکم دینے سے جھوٹ بولنے کو بھی جائز سمجھے ایسا شخص بھی خدا کا (نعوذباللہ) نبی ہوتا ہے کیا؟
جو شخص گورنمنٹ برطانیہ کے حکم سے لوگوں کے دلوں کو بلاوجہ آزار اور صدمہ پہنچانے اور جھوٹ بولنے کو بھی درست سمجھے ایسا شخص کیا ایک اچھا انسان بھی ہو سکتا ہے؟ ایک اچھا مسلمان بھی ہو سکتا ہے؟ نبی ہونا تو دور کی بات ہے۔
اللہ تعالٰی جھوٹ بولنے والوں پہ لعنت بھیجتا ہے اور جو شخص اللہ کے دشمنوں کے حکم سے جھوٹ بولنے کو اور بلاوجہ لوگوں کے دل دکھانے کو درست سمجھے اس کی تایئد کرے تو کیا ایسے شخص پہ اللہ کی لعنت نہیں ہوتی؟ لعنتہ اللہ علی الکذبین۔۔ جو شخص گورنمنٹ برطانیہ کے حکم کو خدا کے حکم پہ ترجیح دے ایسا شخص یقیناً لعنت کا مستحق ہے۔ ابھی بھی مرزائی کہیں گے کہ مرزا انگریز کا خود ساختہ پودا نہیں تھا؟
اگر گورنمنٹ نے اپنے قانون میں اخبار نویسوں کو یہ اجازت دے رکھی ہے کہ ایسے بے اصل جھوٹ جن سے دلوں کو آزار اور صدمہ پہنچتا ہے بے دھڑک شائع کردیا کریں تب تو کوئی چوں و چرا کی جگہ نہیں
اورناپاک اور دلآزار جھوٹوں کے شائع کرنے کی وجہ سے پیشہ اخبار سے باز پُرس کرے اور ایسی جھوٹی موتوں کا اُس سے ثبوت چلب کرے اور قانون کی حد تک اُس کو پوری سزا کا مزا چکھاوے۔
روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 389۔390۔
جو شخص گورنمنٹ برطانیہ کے حکم سے لوگوں کے دلوں کو بلاوجہ آزار اور صدمہ پہنچانے اور جھوٹ بولنے کو بھی درست سمجھے ایسا شخص کیا ایک اچھا انسان بھی ہو سکتا ہے؟ ایک اچھا مسلمان بھی ہو سکتا ہے؟ نبی ہونا تو دور کی بات ہے۔
اللہ تعالٰی جھوٹ بولنے والوں پہ لعنت بھیجتا ہے اور جو شخص اللہ کے دشمنوں کے حکم سے جھوٹ بولنے کو اور بلاوجہ لوگوں کے دل دکھانے کو درست سمجھے اس کی تایئد کرے تو کیا ایسے شخص پہ اللہ کی لعنت نہیں ہوتی؟ لعنتہ اللہ علی الکذبین۔۔ جو شخص گورنمنٹ برطانیہ کے حکم کو خدا کے حکم پہ ترجیح دے ایسا شخص یقیناً لعنت کا مستحق ہے۔ ابھی بھی مرزائی کہیں گے کہ مرزا انگریز کا خود ساختہ پودا نہیں تھا؟
اگر گورنمنٹ نے اپنے قانون میں اخبار نویسوں کو یہ اجازت دے رکھی ہے کہ ایسے بے اصل جھوٹ جن سے دلوں کو آزار اور صدمہ پہنچتا ہے بے دھڑک شائع کردیا کریں تب تو کوئی چوں و چرا کی جگہ نہیں
اورناپاک اور دلآزار جھوٹوں کے شائع کرنے کی وجہ سے پیشہ اخبار سے باز پُرس کرے اور ایسی جھوٹی موتوں کا اُس سے ثبوت چلب کرے اور قانون کی حد تک اُس کو پوری سزا کا مزا چکھاوے۔
روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 389۔390۔