ہر بیماری سی ہر بیماری ہے
اور صحت کی بھی ٹھیکیداری ہے
ہر بیماری سی ہر بیماری ہے
زینت تھی یہ اور یلاش کا بستر
حیض جاری تھا دست جاری ہے
ہر بیماری سی ہر بیماری ہے
چھوڑو گپ چھوڑو شوق سے چھوڑو
عادت یہی بس تمہاری ہے
آنکھ اس کی کھلا سکا نہ کوئی
اور نگاہ میں بھی ازاری ہے
ہر بیماری سی ہر بیماری ہے
زوج آئے گی اک اور بھی میری
ہائے نامرد کو کیا خماری ہے
ہر بیماری سی ہر بیماری ہے
تھی گردن بھی تو مسیح کی ٹیڑھی
اور ہاتھ میں بھی لاچاری ہے
ہر بیماری سی ہر بیماری ہے
ٹک جائے یہ مجال ہے بات پر
نبی ہے یہ کہ یا مداری ہے
ہر بیماری سی ہر بیماری ہے
مقعد کی راہ سے ابل پڑا ہے لہو
یلاش نے ایسی اسے لت ماری ہے (ورکل ورکی)
ہر بیماری سی ہر بیماری ہے
کھلا جورُو کو عوام میں چھوڑو
ایسی بھی کیا پردہ داری ہے
ہر بیماری سی ہر بیماری ہے
پیر سے ڈر کے بل میں بیٹھا ہے
عجب نبی ہے کہ فراری ہے
ہر بیماری سی ہر بیماری ہے
پوچھو بے شرمی کہاں ہے آج کل
انہی میں ہے ساری کی ساری ہے
ہر بیماری سی ہر بیماری ہے
پیو وائن تم شوق سے پیو
چیز اسی کی بس بیماری ہے
ہر بیماری سی ہر بیماری ہے
یار تھا یہ شیطان کا اسکی
بیگم کی نورے سے یاری ہے
ہر بیماری سی ہر بیماری ہے
انگریز بھی جائیں بگھی میں سوار اکثر
نصیب میں اس کے مال گاڑی ہے
ہر بیماری سی ہر بیماری ہے
لوٹے دو ہاتھوں ایمان بھی زر بھی
ہے آری بھی اور دو دھاری ہے
ہر بیماری سی ہر بیماری ہے
لکھے اب اور کیا ضیاء اس پر
شیطان بھی اس سے شرمساری ہے
ہر بیماری سی ہر بیماری ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم ضیاء رسول
اور صحت کی بھی ٹھیکیداری ہے
ہر بیماری سی ہر بیماری ہے
زینت تھی یہ اور یلاش کا بستر
حیض جاری تھا دست جاری ہے
ہر بیماری سی ہر بیماری ہے
چھوڑو گپ چھوڑو شوق سے چھوڑو
عادت یہی بس تمہاری ہے
آنکھ اس کی کھلا سکا نہ کوئی
اور نگاہ میں بھی ازاری ہے
ہر بیماری سی ہر بیماری ہے
زوج آئے گی اک اور بھی میری
ہائے نامرد کو کیا خماری ہے
ہر بیماری سی ہر بیماری ہے
تھی گردن بھی تو مسیح کی ٹیڑھی
اور ہاتھ میں بھی لاچاری ہے
ہر بیماری سی ہر بیماری ہے
ٹک جائے یہ مجال ہے بات پر
نبی ہے یہ کہ یا مداری ہے
ہر بیماری سی ہر بیماری ہے
مقعد کی راہ سے ابل پڑا ہے لہو
یلاش نے ایسی اسے لت ماری ہے (ورکل ورکی)
ہر بیماری سی ہر بیماری ہے
کھلا جورُو کو عوام میں چھوڑو
ایسی بھی کیا پردہ داری ہے
ہر بیماری سی ہر بیماری ہے
پیر سے ڈر کے بل میں بیٹھا ہے
عجب نبی ہے کہ فراری ہے
ہر بیماری سی ہر بیماری ہے
پوچھو بے شرمی کہاں ہے آج کل
انہی میں ہے ساری کی ساری ہے
ہر بیماری سی ہر بیماری ہے
پیو وائن تم شوق سے پیو
چیز اسی کی بس بیماری ہے
ہر بیماری سی ہر بیماری ہے
یار تھا یہ شیطان کا اسکی
بیگم کی نورے سے یاری ہے
ہر بیماری سی ہر بیماری ہے
انگریز بھی جائیں بگھی میں سوار اکثر
نصیب میں اس کے مال گاڑی ہے
ہر بیماری سی ہر بیماری ہے
لوٹے دو ہاتھوں ایمان بھی زر بھی
ہے آری بھی اور دو دھاری ہے
ہر بیماری سی ہر بیماری ہے
لکھے اب اور کیا ضیاء اس پر
شیطان بھی اس سے شرمساری ہے
ہر بیماری سی ہر بیماری ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم ضیاء رسول