گذارش
مذکورہ بالا تحریر سے ہرعقلمند شخص بآسانی یہ اندازہ کرسکتا ہے کہ شاہانِ مسلم جب ہندوستان آئے تو اپنے ساتھ کیا لائے، ہندوستان پستی کی کس تہہ تک پہنچ چکا تھا اس کو بلندی کے کس معیار پر پہنچایا۔
سارے بادشاہ سرزمین ہند پر باغباں بن کر آئے اور اپنی بوقلمونی ذہن و افکار اور مذہبی قوت کو اس کی باغبانی اور اس کو خوشگوار بنانے میں صرف کیا، بقدر ضرورت زمین بھی کریدی اور خس و خاشاک کو صاف کرکے از سر نو ایک شاندار اور متنوع گلوں کی پھلواری قائم کی، ہرطرح اس کی آبیاری کی اور اس کے وہ پھول جو صدیوں سے طبقہ واریت، دیوتاؤں کی کثرت اور نفسانیت و رہبانیت کے بادِ سموم جھلس رہے تھے- کو نئی زندگی عطا کی اور پھلنے پھولنے کی مکمل راہیں ہموار کیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ آج اگر ہم تعصب و نفرت کی دبیز تہہ کا آپریشن کرکے فرقہ واریت کی ہلاکت خیز بیماری سے نجات چاہتے ہیں اور ہندومسلم ایکتا قائم کرنے کے خواہاں ہیں تو ہمیں یورپ کی دجل آفرینی جال سازیوں سے اپنی نگاہوں کو موڑ کر حق و انصاف کی صحیح کسوٹی اختیار کرنا ہوگی، اور تعصب و اختراعات سے بالاتر ہوکر نسل جدید کے سامنے اپنے ملک ووطن کی صحیح تاریخ پیش کرنا ہوگی۔ جبھی ہمارا بابِ ہند کے دوپاٹ بننا ممکن ہوسکے گا تاکہ ہمارے اصل دشمن - جو ہمیں باہم لڑانا چاہتے ہیں - کو منھ کی کھانی پڑے، اور جس طرح ہم پہلے سے ہندی رہے ہیں آئندہ بھی ہندی ہی رہیں۔
______________________________
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ8، جلد: 91 ، رجب -شعبان 1428 ہجری مطابق اگست2007ء