ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
تین دنوں تک غارثور میں قیام کرنے کے بعد، حضرت عبداللہ بن ابی بکر نے اطلاع دی کہ اب سب تھک ہار کر بیٹھ گئے ہیں۔ تب حضرت ابوبکر نے پہلے سے تیار کی ہوئی دونوں سواریاں منگوائیں، ایک حضور کی خدمت میں پیش کی،اور ایک پر خود سوار ہوئے، ساتھ میں حضرت عبداللہ، و حضرت عامر بن فہیرہ کو لیا اور راستے کی رہنمائی کے لیے ایک کافر مگر قابل اعتماد شخص عبداللہ بن اریقط (ارقد) کو لیا اور مقدس و مختصر قافلہ مدینے کے لیے روانہ ہوا، راستہ بھر کی کیفیت عجیب رہی، جب بھی کسی خطرے کا احساس ہوا، جدھر سے ہوا ادھر ہی حضرت ابوبکر ہوجاتے ہیں کہ مبادا کوئی خطرہ لاحق ہوتو اس کا شکار اولاً ابوبکر ہوں، پورے ایک دن و رات سفر کرنے کے بعد یہ قافلہ ایک درخت کے سایے تلے رکا۔ حضرت ابوبکر نے اپنی چادر، اس درخت کے نیچے بچھائی تاکہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم استراحت فرماویں، خود نگہبانی میں لگے رہے۔ قریب ہی کچھ بکریاں چررہی تھیں، جاکر دودھ دوہا، پھر تیار کرکے حضور کے پاس لائے، تاکہ حضور نوش فرمالیں۔
آپ کے اس جذبہ جاں نثاری کو دیکھ، عبداللہ بن اریقط بھی متأثر ہوئے بغیر نہ رہا۔ اس طرح یہ قافلہ تمام تر خطرات سے گزرتے ہوئے، یکم ربیع الاول ۱۳ نبوی، ۱۲/ستمبر ۶۲۲/ کو مدینہ کے مضافاتی محلات میں پہنچا۔
اہل یثرب کو پتا چل چکاتھا، اس لیے سراپا انتظار بن کر چشم براہ تھے، لیکن ان میں اکثریت ان حضرات کی تھی، جنھوں نے حضور پرنور صلى الله عليه وسلم کو کبھی بھی نہ دیکھا تھا۔ حضرت ابوبکر نے اپنی چادر حضور کے سرمبارک پر دراز کردی، تاکہ سایہ بھی ہوجائے، اور خادم و مخدوم میں فرق بھی ہوجائے۔ اس طرح حضرت ابوبکر کا پورا گھرانہ اس ہجرت میں شریک رہا، جو اسلام ومسلمانوں کے لیے ایک انقلاب آفریں اقدام تھا، جس سے مسلمانوں کی عظمت و تفوق پر مہر تصدیق ثبت ہوئی۔(۱۶)
(اس سے آگے کی پوسٹس مدنی ذندگی پر ہیں) مقام سُنْح میں قیام
مدینہ پہنچ کر اولین ضرورت اس بات کی تھی کہ مہاجرین باشندگان مکہ، و انصار باشندگان یثرب کے مابین ارتباط کامل پیدا کی جائے، تاکہ ایک دوسرے میں ضم ہوکر، ایک صالح معاشرہ کی داغ بیل پڑسکے، رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے مواخات کے ذریعے اس رشتہٴ باہمی کو استوار کیا، اور ایسا جذبہ باہم پیدا کیاکہ رہتی دنیا تک اس کی مثال نہیں مل سکتی۔
حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کی مواخات قبیلہ خزرج کے ایک سرکردہ مسلمان سے ہوئی جس کا نام خارجہ بن زید بن زہیر یا زید بن خارجہ علی اختلاف القولین ہے۔ حضرت ابوبکر کے یہ مواخاتی بھائی، مدینہ کی مضافاتی بستی مقام ”سُنْح“ میں رہتے تھے، طبائع کی ہم رنگی اور دینی جذبے کا انجذاب اس طرح رنگ لایا کہ اس انصاری بھائی نے اپنی بیٹی کی شادی - جن کا نام یا تو حبیبہ تھا یا مُلَیکہ - حضرت ابوبکر سے کردی(۱۷) جن سے حضرت ام کلثوم پیداہوئی، حضرت ابوبکر نے اپنی رہائش وہیں مقام ”سُنح“ میں بنالی تھی، جب مسجد نبوی کے اردگرد کے پلاٹ مخصوص صحابہ میں تقسیم ہوئے تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے حصے میں بھی ایک پلاٹ آیا، جس میں حضرت نے مکان تعمیر کرواکر، مکہ کے اہل وعیال کو وہیں رکھا، لیکن خود حضرت کے وصال تک مقام ”سُنح“ میں مستقل قیام پذیر رہے، وصال نبوی کے بعد جب خلافت کی ذمہ داری آئی، اور مقام سنح میں رہ کر امور خلافت میں کوتاہی ہونے لگی تو پھر مدینہ مسجد نبوی والے مکان میں منتقل ہوگئے۔ البتہ ہفتہ میں جمعرات کو مقام ”سُنح“ جایا کرتے تھے۔
مقام ”سُنح“ میں رہنے کے باوجود، حضور صلى الله عليه وسلم کے ہم دم ساتھ رہے،اور حضور صلى الله عليه وسلم کی توجہ جن اہم مسائل پر ہوتی ان میں برابر شریک رہے، بلکہ آپ ہی معتمد خاص اور وزیر خاص تھے، ترمذی کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میرے دو وزیر آسمان والوں میں سے ہیں اور وہ جبرئیل و میکائیل ہیں۔ اور دو وزیر زمین والوں میں سے ہیں اور وہ ابوبکر وعمر ہیں۔(۱۸)
یہی وجہ ہے کہ وہ تجارت جوابوبکر مکہ میں کیاکرتے تھے، جس کی خاطر انھوں نے یمن و شام کا بھی سفر کیاتھا، مدینہ میں قدرے سکون پانے کے بعد شروع کردیا، لیکن کبھی باہر کاسفر نہ ہوسکا، اور جو تجارتی خوش حالی مکہ میں حاصل تھی، مدینہ میں بالکل نہ رہی، بلکہ معقول گزر بسر کے لیے کمالیاکرتے تھے، باقی اوقات صالح معاشرہ کے قیام واستحکام کے لیے حضور کے شانہ بشانہ رہتے، بلکہ ہمیشہ گوش برآواز رہتے کہ زبان نبوت سے کوئی حکم صادر ہو اور اس کی تعمیل میں لگ جایا جائے۔
قریش مکہ بھی پل پل کی خبر سے واقف تھے۔ آپ صلى الله عليه وسلم کے بچ نکلنے پر غم وغصہ سے باولے ہوتے جارہے تھے، اور جس روحانی، اخلاقی، ومعاشرتی نظام کے قیام سے خائف تھے۔ اب مدینہ کی سرزمین میں اس مبارک انقلاب کا آفتاب طلوع ہوچکاتھا، وہ دیکھ رہے تھے کہ مدینہ کے نئے وپرانے باشندے ایک دوسرے میں ایسا جذب ہوچکے ہیں کہ کوئی امتیاز باقی نہیں رہا۔ انصار مدینہ نے ایثار کا ایسا جذبہ پیش کیا ہے کہ اپنا آدھا آدھاسرمایہ تک پیش کرنے سے بھی دریغ نہیں۔ ان سب کے علاوہ ان کو سب سے زیادہ خطرہ شامی تجارت کو تھا، کیوں کہ ان کا یہ قافلہ مدینہ سے قریب ہی ہوکرگزرتا ہے، انہیں خطرہ تھا کہ اب مسلمان ان کے اس قافلہ کو روکیں گے، سامانوں کو لوٹیں گے۔ مردوں کو قیدی و غلام بنائیں گے، اسی بوکھلاہٹ میں وہ مسلسل دھمکیاں بھیجنے لگے کہ اے یہود مدینہ! اگر تم نے انہیں وہاں سے نہ نکالا، تو ہم ایک زبردست فوج لے کر آئیں گے، اور تم سب کو نیست و نابود کردیں گے۔(۱۹)
قریش مکہ کی چڑھائی، اور حضرت ابوبکر کی جرأت ایمانی
قریش نے ان دھمکیوں کے ساتھ، واقعتا تیاریاں بھی شروع کردی تھیں، اس کے لیے انھوں نے ایک فنڈ مخصوص کیاتھا، جس کے لیے انھوں نے ایک تجارتی قافلہ ابوسفیان کی سرکردگی میں روانہ کیاتھا، تاکہ اس کے تمام منافع کو اس فنڈ میں جمع کیاجاسکے، ابوسفیان کا یہ قافلہ بھی خوب منافع حاصل کرکے واپس آرہا تھا، جس کوروکنے کے لیے، مسلمانوں کی مٹھی بھر جماعت نکلی تھی، لیکن یہ قافلہ بچ نکلا، قریش کو اس کی خوش خبری مل بھی چکی تھی، لیکن وہ ایک ہزار فوجی دستوں کے ساتھ چلے آرہے تھے کہ مدینہ کی اینٹ سے اینٹ بجادیں، رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے تین سو اوپر صحابہ کو لیے ہوئے، جس میں صرف دو گھوڑے، ستر شتر سوار تھے، ۲/رمضان ۲ ہجری کو ان کے مقابلے کے لیے صف آرا ہوئے۔ ۱۷/رمضان المبارک کو قدسیوں کا یہ قافلہ بدر کے مقام پر خیمہ زن ہوا، یہ نہتے ضرور تھے، مگر دل مضبوط ومطمئن رکھتے تھے۔ انہیں ساز وسامان سے زیادہ اپنے اللہ پر بھروسہ تھا، جو لڑاکر یا تو غازی بناتا ہے یا گردن کٹواکر شہیدوں کی فہرست میں درج کرتا ہے۔ دونوں مقام عالی ہیں۔
صحابہ نے حضور کے لیے ایک ٹیلے پر عریش (سائبان) بنایا،اور اتفاق رائے سے حضرت ابوبکر کو حضور کا بارڈی گارڈ مقرر کیا، کس قدر نازک موقع تھا، دشمنوں کی تعداد کیل کانٹے سے لیس تھی، ہروقت حملے کا خطرہ ہی نہیں موت کا اندیشہ تھا، لیکن حضرت ابوبکر ہی غارثور کے مشکل مقام پر بھی دومیں کے دوسرے تھے۔ آج بدر کی پہلی لڑائی - جس نے کفر کی کمر توڑ کر رکھ دی، اور مسلمانوں کا رعب سارے عالم پر بٹھادیا - میں بھی دو میں کے دوسرے تھے۔
رسول اللہ صلى الله عليه وسلم حملے سے پہلے والی رات میں سراپا عجز و انکسار بن کر ہاتھ پھیلائے دعائیں کررہے تھے کہ باری تعالیٰ! یہ مٹھی بھر جماعت اگر آج فوت ہوگئی تو پھر اس روئے زمین پر تیری عبادت کرنے والا کوئی نہ ہوگا، الٰہی اپنا وعدئہ مدد پورا فرمائیے۔
روایتوں میں آتا ہے کہ حضور صلى الله عليه وسلم نے اس قدر الحاح و زاری کیا کہ کئی مرتبہ چادر مبارک بدن سے نیچے گرگئی، حضرت ابوبکر بار باراس کو کندھے پر ڈالتے رہے۔ آخر میں حضرت ابوبکر نے کہا کہ: یا رسول اللہ ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں،اس قدر دعاء کافی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ سے جو فتح و نصرت کا وعدہ کیاہے وہ پورا ہوکر رہے گا۔(۲۰)
حضرت ابوبکر کی اس گزارش میں ایسی کیفیت تھی کہ حضور نے وہیں پر دعاء ختم کردی اگلے روز جب صف بندی ہوئی تو حضرت ابوبکر کو میمنہ کا سردار مقرر کیا۔
جنگ شروع ہونے سے پہلے دستور کے مطابق، کفار کی جانب سے حضرت ابوبکر کے صاحبزادے، عبدالرحمان بن ابی بکر - جو اب تک مسلمان نہیں ہوئے تھے، نکلے اور مبازرت طلب کی، حضرت ابوبکر آگے بڑھے لیکن حضور صلى الله عليه وسلم نے اجازت نہیں دی، اور فرمایاکہ تلوار نیام میں رکھ لو۔
حضرت عبدالرحمن نے مسلمان ہونے کے بعد ایک دفعہ حضرت ابوبکر سے ذکر کیاکہ: ابا جان! غزوئہ بدر میں ایک مرتبہ آپ میری تلوار کی زد میں آگئے تھے، لیکن میں نے اپنا ہاتھ روک لیا۔ حضرت ابوبکر نے کہا کہ بیٹے اگر تو میری تلوار کی زد میں آگیا ہوتا تو میں تیری گردن اڑائے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔
اللہ پاک نے غزوئہ بدر کے ذریعے اسلام کو وہ شوکت دی کہ پھر کفر جرأت کے ساتھ سر نہ ابھار سکا۔ اس غزوہ میں جس بے جگری سے صحابہ کی قلیل تعداد نے لڑائی لڑی تھی، کہ اسیران قریش جن کی تعداد ۷۰ تھی، خوفزدہ تھے، انھوں نے حضرت عمر بن الخطاب کو اپنے ماموں عاص بن وائل کو قتل کرتے ہوئے دیکھا تھا۔ حضرت ابوعبیدہ کو اپنے باپ پر تلوار چلاتے ہوئے اور حضرت ابوبکر کو اپنے بیٹے کے مقابلے میں مبازرت کے لیے اترتے دیکھا تھا۔ اس لیے انھیں یقین تھا کہ انھیں کیفر کردار تک پہنچاکر ہی دم لیاجائے گا، حضور صلى الله عليه وسلم نے صحابہ کو جمع کیا اور مشورہ کیا کہ کیا جائے، حضرت عمر تو اس پر مصر رہے کہ ان سب کو قتل کردیا جائے، مگر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی حلیم الطبع ذات تھی، جو کہہ رہے تھے کہ آخر یہ بھی توہمارے ہی بھائی ہیں۔ یارسول اللہ ان کو رہا کیا جائے، ہوسکتا ہے اللہ پاک اسلام کی توفیق دے، خود حضور صلى الله عليه وسلم بھی انتقامی کارروائی نہیں کرنا چاہتے تھے۔ آخر حضرت ابوبکر ہی کے مشورے پر فیصلہ ہوا کہ جو پڑھنا لکھنا جانتے ہیں وہ دس ناخواندہ مسلمان کو تعلیم دے کر رہا ہوں، اور جو خود ناخواندہ ہیں وہ فدیہ دے کر رہائی حاصل کرے۔(۲۱)
یہ دو غزوے وہ ہیں جن میں ظاہری طور پر مسلمانوں کو اپنی بعض غلطی یا عجلت پسندی کی وجہ سے ہزیمت وقتی ہوئی، بالآخر بدحواسی ایسی پھیلی کہ نہ اپنا خیال رہا اور نہ ہی رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کا، لیکن ان دونوں غزووں میں ہم حضرت ابوبکر کو اس طرح پاتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی ذات مقدس سے چمٹے ہوئے ہیں کہ مبادا کفار کی یلغار سے رسول خدا کو زک نہ پہنچے۔
غزوہٴ احد کے موقع پر حضور صلى الله عليه وسلم ایک گڑھے میں گرگئے، تو سب سے پہلے اس گڑھے تک پہنچنے والے حضرت ابوبکر ہی تھے۔ جب احد سے کفار چلے گئے اور مسلمان زخموں سے چور چور تھے، کسی میں اٹھنے کی تاب نہ تھی، لیکن کفار کے تعاقب میں جانا ضروری سمجھا گیا، تو حضرت ابوبکر وزبیر وغیرہ ستر صحابہ نے حمراء الاسد تک ان کاتعاقب کیا، جس تعاقب کی وجہ سے امیر کفار ابوسفیان کو پلٹنے کا خیال بھی آیا تھا، مگر پلٹ نہ سکا۔(۲۲)
اسی طرح غزوہٴ حنین میں جب مسلمانوں کے قدم اولاً اکھڑ گئے تو جن حضرات نے ثبات قدمی اور انتہائی عزم و حوصلہ جواں کا ثبوت دیا ان میں حضرت ابوبکر کی ذات بھی تھی۔ طبقات ابن سعد میں ہے
وثبت معہ یومئذ (یوم حنین) العباس بن عبدالمطلب، وعلی بن أبي طالب، والفضل بن عباس، وأبوسفیان بن الحارث بن عبدالمطلب، و ربیعة بن الحارث، وأبوبکر وعمر، وأسامة، وزید في اناس من اہل بیتہ وأصحابہ
.(۲۳)
اور جب کفار حنین سے بھاگے، اور قلع طائف میں محصور ہوئے، تو ان کا تعاقب خود صلى الله عليه وسلم نے کیا اس میں بھی حضرت ابوبکر، حضور کے ساتھ رہے۔(۲۴)
جب صلح حدیبیہ (۶ھ) جس کو قرآن پاک میں فتح مبین کہا گیا ہے۔ جس میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو سفیر بناکر حضور نے مکہ بھیجا تھا لیکن ان کو اہل مکہ نے روک لیا تھا، اور اس طرح ان کی شہادت کی خبر پھیل گئی۔ حضور صلى الله عليه وسلم نے ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر، موت پر بیعت لی تھی؛ جسے بیعت رضوان کہا جاتاہے، اور قرآن نے ان تمام صحابہ کو جنھوں نے بیعت رضوان کیا، خوشنودی کی سرٹیفکیٹ دیا ہے، جب قریش کو یہ خبر پہنچی تو ان کے دماغ بھی ٹھکانے لگے، اور نامہ پیامی کرنے لگے، عروہ بن مسعود ثقفی جو ایک مدبر شخص تھے اور اب تک دامن اسلام سے وابستہ نہیں ہوئے تھے، کفار کی جانب سے شرائط صلح طے کرنے کے لیے آئے اور اپنی جنگی تیاریاں بڑھا چڑھا کر بیان کی تاکہ مسلمان دب کر صلح کریں، یا ان کا رعب مسلمانوں پر بیٹھ جائے۔ حضرت ابوبکر ساری بات بہت غور سے سن رہے تھے۔ ان سے برداشت نہ ہوسکا اور عروہ کو ٹکا سا جواب دیا ”امصص بظراللات“ کہ لات بت کی شرمگاہ چاٹ، کیا تو سمجھتا ہے کہ ہم رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی مدد چھوڑ دیں گے۔
عروہ نے پوچھا یہ کون ہے، حضور نے فرمایا کہ: ابوبکر، تو عروہ نے کہا کہ اگر ابوبکر کے احسانات مجھ پر نہ ہوتے تو میں اس کا جواب دیتا۔(۲۵)