’’میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا‘‘
راشد علی اور اس کے پیر نے تحریر کیا ہے
’’ قادیانی محور:۔
غرضیکہ قادیانیت/ احمدیت کی صورت میں ایک ایسی جماعت پیدا کر دی گئی ہے جس کی تمام تر توجّہ کا محور حضور ﷺ سے ہٹ کر مرزا غلام احمد کی ذات ہو گئی ہے۔آپ اس سے مرزا کی ذات کے بارہ میں کوئی گفتگو کریں وہ سیدھا سرکار دوعالم ﷺ کی ذات پر لے جائے گا۔ انگریزوں کی سرپرستی و تحفّظ میں مرزا غلام احمد قادیانی نے قرآن و حدیث میں اپنی مرضی کے مطابق اپنے لئے تحریف کا دروازہ کھولا اور پھر اندر داخل ہو کر وہ دروازہ بند کر لیا کہ
’’ اللہ تعالیٰ کی بعض مصلحتوں کا تقاضا ہے کہ اب میرے بعد اور کوئی نبی نہیں آئے گا۔‘‘
اب جو اُن کی نبوّت پر ایمان نہ لائے کافر جہنمی اور طوائف کی اولاد!
’’ ہم قرآنِ کریم کو خدا کا کلام اس لئے یقین کرتے ہیں کہ اس کے ذریعہ آپ ( مرزا صاحب) کی نبوت ثابت ہوتی ہے۔ ہم محمّد ﷺ کی نبوّت پر اسلئے ایمان لاتے ہیں کہ اس سے آپ کی نبوت کا ثبوت ملتا ہے۔( تقریر میاں محمود احمد صاحب خلیفہ قادیان اخبار الفضل قادیان ج ۱۳ نمبر۳ مورخہ ۱۱ جولائی۱۹۴۵)۔‘‘(بے لگام کتاب)
یہ سراسر جھوٹ اور بہتان ہے جو انہوں نے جماعت احمدیہ کی طرف منسوب کیا ہے۔ سچ یہ ہے کہ حضرت بانی جماعت احمدیہ اور آپ کی جماعت کے ہر فرد کی توجّہ کا محور خدا تعالیٰ کے بعد سیّد المرسلین، خاتم النبییّن حضرت محمّد مصطفی ﷺ کی ذاتِ بابرکات ہے۔حضرت بانی جماعت احمدیہ کے ساتھ ہر احمدی روح کی گہرائیوں سے ہمنوا ہے کہ
وہ پیشوا ہمارا ، جس سے ہے نور سارا
نام اس کا ہے محمّد دلبر مرا یہی ہے
سب ہم نے اس سے پایا شاہد ہے تو خدایا
وہ جس نے حق دکھایا وہ مہ لقا یہی ہے
اس نور پر فدا ہوں اس کا ہی میں ہوا ہوں
وہ ہے میں چیز کیا ہوں بس فیصلہ یہی ہے
(براہین احمدیہ حصہ پنجم۔ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ)
اور بعد از خدا بعشق ِ محمّد مخمرّم
گر کفر ایں بود بخدا سخت کافرم
:i۔پہلے نبوّت کا دروازہ کھولا۔ پھر اس میں داخل ہو کر اندر سے بند کر لیا
جہاں تک آنحضرت ﷺ کے بعد نبوّت کے دروازہ کا تعلق ہے، اس کو کھولنے کا سوال تو تب پیدا ہوتا ، اگر یہ پہلے بند ہوتا۔اس دروازہ کو خود آنحضرت ﷺ نے ایک طرح کی نبوّت کے لئے کھلا رکھا ہے اور ایک طرح کی نبوّت کے لئے ہمیشہ ہمیش کے لئے بند کر دیا ہے۔یعنی آپ کے بعد کوئی نئی شریعت لے کر نہیں آ سکتا۔ ایسے نبی کے لئے دروازہ بند ہے۔لیکن ایسا نبی جو آپ کا امّتی ہو، آپ کا تابع اور مطیع ہو اس کے لئے آپ نے یہ ایک دروازہ کھلا رکھا ہے۔امّت میں ایسے امّتی نبی کا آنا قرآنِ کریم میں بھی مذکور ہے اور آنحضرت ﷺ کے فرمودات میں بھی۔چنانچہ انہی سچّائیوں کی بناء پر شیخ اکبر حضرت امام محی الدین ابنِ عربی ؒ فرماتے ہیں
’’ فالنبوّۃ ساریۃٌ الیٰ یوم القیامۃ فی الخلق و ان کان التشریع قد انقطع۔ فالتشریع جزءٌ من اجزاء النبوّۃ۔‘‘( فتوحاتِ مکّیہ۔ جلد ۲ صفحہ ۱۰۰ باب۷۳ سوال ۸۲)
ترجمہ:۔نبوّت مخلوق میں قیامت کے دن تک جاری ہے گو تشریعی نبوّت منقطع ہو گئی ہے۔پس شریعت، نبوّت کے اجزاء میں سے ایک جزو ہے۔
اسی طرح دنیائے اسلام کے مشہور صوفی اور ممتاز متکلّم حضرت امام عبد الوہاب شعرانی ؒ فرماتے ہیں۔
’’اعلم انّ مطلق النبوّۃ لم ترتفع و انّما ارتفع نبوّۃ التشریع۔‘‘ ( الیواقیت والجو اہر۔الجزء الثانی صفحہ۳۹۔مطبعہ مصطفی البابی الحلبی مصر)
ترجمہ:۔جان لو کہ نبوّت مطلق طور پر نہیں اُٹھی، جو نبوّت اٹھی ہے وہ تشریعی نبوّت ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ قرآنِ کریم، احادیثِ نبویّہ اور اقوالِ آئمّہ سلف سے یہ قطعی ثابت ہے کہ آنحضرت ﷺ کے بعد غیر تشریعی نبوّت کا دروازہ ایک امّتی کے لئے کھلا رکھا گیا تھا جسے مسیح اور مہدی کا عالی نام اور ارفع مقام بھی عطا کیا گیا۔
اگر راشد علی اور اس کے پیر کو اس بات پر اعتراض ہے کہ حضرت مسیح موعود و مہدی معہود کے بعد کوئی اور نبی کیوں نہیں تو وہ خود ثابت کر کے دکھائیں کہ مسیح موعود و مہدی معہود کے بعد بھی کسی نبی کا ذکر موجود ہے۔ اگر وہ ایسا ثبوت پیش نہیں کر سکتے تو انہیں ایسے اعتراض کا حق ہی کوئی نہیں اور نہ ہی انہیں قرآنِ کریم اورآنحضرت ﷺ کی پیش کردہ سچائیوں پر اورآ ئمّہ سلف کی پیش کردہ وضاحتوں پر کوئی تکلیف ہونی چاہئے۔
ii :۔قرآن کریم پر اور آنحضرت ﷺ پر ایمان مسیحِ موعود علیہ السلام کے ذریعہ ملا
اپنے اعتراض میں انہوں نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہٗ کے جس خطبہ جمعہ کا اقتباس پیش کیا ہے، وہ سیاق و سباق کو ہٹا کر پیش کیا ہے۔ نیز اس میں بریکٹ بھی خود ڈالی ہے۔ حالانکہ دعوٰی وہ یہ کرتے ہیں کہ وہ حوالہ جات کو نہ سیاق و سباق سے الگ کر کے پیش کرتے ہیں اور نہ ہی انہیں توڑتے مروڑتے ہیں۔
بہرحال مذکورہ بالا اقتباس سے پہلے کی عبارت یہ ہے۔حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں۔
’’ ہم نے اس( یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام۔ ناقل) کے کلام میں وہ صداقت دیکھی جس کا مقابلہ دنیا کی کوئی چیز نہیں کرسکتی اور اگر سچّ پوچھو تو ہمیں قرآن کریم پر، رسول کریم صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم پر بھی اسی کے ذریعہ ایمان حاصل ہوا۔‘‘
اور اس زیرِ بحث اقتباس کا سباق یہ ہے۔ فرمایا
راشد علی اور اس کے پیر نے تحریر کیا ہے
’’ قادیانی محور:۔
غرضیکہ قادیانیت/ احمدیت کی صورت میں ایک ایسی جماعت پیدا کر دی گئی ہے جس کی تمام تر توجّہ کا محور حضور ﷺ سے ہٹ کر مرزا غلام احمد کی ذات ہو گئی ہے۔آپ اس سے مرزا کی ذات کے بارہ میں کوئی گفتگو کریں وہ سیدھا سرکار دوعالم ﷺ کی ذات پر لے جائے گا۔ انگریزوں کی سرپرستی و تحفّظ میں مرزا غلام احمد قادیانی نے قرآن و حدیث میں اپنی مرضی کے مطابق اپنے لئے تحریف کا دروازہ کھولا اور پھر اندر داخل ہو کر وہ دروازہ بند کر لیا کہ
’’ اللہ تعالیٰ کی بعض مصلحتوں کا تقاضا ہے کہ اب میرے بعد اور کوئی نبی نہیں آئے گا۔‘‘
اب جو اُن کی نبوّت پر ایمان نہ لائے کافر جہنمی اور طوائف کی اولاد!
’’ ہم قرآنِ کریم کو خدا کا کلام اس لئے یقین کرتے ہیں کہ اس کے ذریعہ آپ ( مرزا صاحب) کی نبوت ثابت ہوتی ہے۔ ہم محمّد ﷺ کی نبوّت پر اسلئے ایمان لاتے ہیں کہ اس سے آپ کی نبوت کا ثبوت ملتا ہے۔( تقریر میاں محمود احمد صاحب خلیفہ قادیان اخبار الفضل قادیان ج ۱۳ نمبر۳ مورخہ ۱۱ جولائی۱۹۴۵)۔‘‘(بے لگام کتاب)
یہ سراسر جھوٹ اور بہتان ہے جو انہوں نے جماعت احمدیہ کی طرف منسوب کیا ہے۔ سچ یہ ہے کہ حضرت بانی جماعت احمدیہ اور آپ کی جماعت کے ہر فرد کی توجّہ کا محور خدا تعالیٰ کے بعد سیّد المرسلین، خاتم النبییّن حضرت محمّد مصطفی ﷺ کی ذاتِ بابرکات ہے۔حضرت بانی جماعت احمدیہ کے ساتھ ہر احمدی روح کی گہرائیوں سے ہمنوا ہے کہ
وہ پیشوا ہمارا ، جس سے ہے نور سارا
نام اس کا ہے محمّد دلبر مرا یہی ہے
سب ہم نے اس سے پایا شاہد ہے تو خدایا
وہ جس نے حق دکھایا وہ مہ لقا یہی ہے
اس نور پر فدا ہوں اس کا ہی میں ہوا ہوں
وہ ہے میں چیز کیا ہوں بس فیصلہ یہی ہے
(براہین احمدیہ حصہ پنجم۔ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ)
اور بعد از خدا بعشق ِ محمّد مخمرّم
گر کفر ایں بود بخدا سخت کافرم
:i۔پہلے نبوّت کا دروازہ کھولا۔ پھر اس میں داخل ہو کر اندر سے بند کر لیا
جہاں تک آنحضرت ﷺ کے بعد نبوّت کے دروازہ کا تعلق ہے، اس کو کھولنے کا سوال تو تب پیدا ہوتا ، اگر یہ پہلے بند ہوتا۔اس دروازہ کو خود آنحضرت ﷺ نے ایک طرح کی نبوّت کے لئے کھلا رکھا ہے اور ایک طرح کی نبوّت کے لئے ہمیشہ ہمیش کے لئے بند کر دیا ہے۔یعنی آپ کے بعد کوئی نئی شریعت لے کر نہیں آ سکتا۔ ایسے نبی کے لئے دروازہ بند ہے۔لیکن ایسا نبی جو آپ کا امّتی ہو، آپ کا تابع اور مطیع ہو اس کے لئے آپ نے یہ ایک دروازہ کھلا رکھا ہے۔امّت میں ایسے امّتی نبی کا آنا قرآنِ کریم میں بھی مذکور ہے اور آنحضرت ﷺ کے فرمودات میں بھی۔چنانچہ انہی سچّائیوں کی بناء پر شیخ اکبر حضرت امام محی الدین ابنِ عربی ؒ فرماتے ہیں
’’ فالنبوّۃ ساریۃٌ الیٰ یوم القیامۃ فی الخلق و ان کان التشریع قد انقطع۔ فالتشریع جزءٌ من اجزاء النبوّۃ۔‘‘( فتوحاتِ مکّیہ۔ جلد ۲ صفحہ ۱۰۰ باب۷۳ سوال ۸۲)
ترجمہ:۔نبوّت مخلوق میں قیامت کے دن تک جاری ہے گو تشریعی نبوّت منقطع ہو گئی ہے۔پس شریعت، نبوّت کے اجزاء میں سے ایک جزو ہے۔
اسی طرح دنیائے اسلام کے مشہور صوفی اور ممتاز متکلّم حضرت امام عبد الوہاب شعرانی ؒ فرماتے ہیں۔
’’اعلم انّ مطلق النبوّۃ لم ترتفع و انّما ارتفع نبوّۃ التشریع۔‘‘ ( الیواقیت والجو اہر۔الجزء الثانی صفحہ۳۹۔مطبعہ مصطفی البابی الحلبی مصر)
ترجمہ:۔جان لو کہ نبوّت مطلق طور پر نہیں اُٹھی، جو نبوّت اٹھی ہے وہ تشریعی نبوّت ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ قرآنِ کریم، احادیثِ نبویّہ اور اقوالِ آئمّہ سلف سے یہ قطعی ثابت ہے کہ آنحضرت ﷺ کے بعد غیر تشریعی نبوّت کا دروازہ ایک امّتی کے لئے کھلا رکھا گیا تھا جسے مسیح اور مہدی کا عالی نام اور ارفع مقام بھی عطا کیا گیا۔
اگر راشد علی اور اس کے پیر کو اس بات پر اعتراض ہے کہ حضرت مسیح موعود و مہدی معہود کے بعد کوئی اور نبی کیوں نہیں تو وہ خود ثابت کر کے دکھائیں کہ مسیح موعود و مہدی معہود کے بعد بھی کسی نبی کا ذکر موجود ہے۔ اگر وہ ایسا ثبوت پیش نہیں کر سکتے تو انہیں ایسے اعتراض کا حق ہی کوئی نہیں اور نہ ہی انہیں قرآنِ کریم اورآنحضرت ﷺ کی پیش کردہ سچائیوں پر اورآ ئمّہ سلف کی پیش کردہ وضاحتوں پر کوئی تکلیف ہونی چاہئے۔
ii :۔قرآن کریم پر اور آنحضرت ﷺ پر ایمان مسیحِ موعود علیہ السلام کے ذریعہ ملا
اپنے اعتراض میں انہوں نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہٗ کے جس خطبہ جمعہ کا اقتباس پیش کیا ہے، وہ سیاق و سباق کو ہٹا کر پیش کیا ہے۔ نیز اس میں بریکٹ بھی خود ڈالی ہے۔ حالانکہ دعوٰی وہ یہ کرتے ہیں کہ وہ حوالہ جات کو نہ سیاق و سباق سے الگ کر کے پیش کرتے ہیں اور نہ ہی انہیں توڑتے مروڑتے ہیں۔
بہرحال مذکورہ بالا اقتباس سے پہلے کی عبارت یہ ہے۔حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں۔
’’ ہم نے اس( یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام۔ ناقل) کے کلام میں وہ صداقت دیکھی جس کا مقابلہ دنیا کی کوئی چیز نہیں کرسکتی اور اگر سچّ پوچھو تو ہمیں قرآن کریم پر، رسول کریم صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم پر بھی اسی کے ذریعہ ایمان حاصل ہوا۔‘‘
اور اس زیرِ بحث اقتباس کا سباق یہ ہے۔ فرمایا
’’ نادان ہم پر اعتراض کرتا ہے کہ ہم کیوں حضرت مسیح موعودؑ کو نبی مانتے ہیں اور کیوں اس کے کلام کو خدا کا کلام یقین کرتے ہیں۔وہ نہیں جانتا کہ قرآن پر یقین ہمیں اس کے کلام کی وجہ سے حاصل ہوا اور محمّد صلّی اللہ علیہ آلہ وسلّم کی نبوّت پر یقین اس کی نبوّت کی وجہ سے ہوا ہے۔‘‘
اس سیاق و سباق میں اس مضمون پر کوئی اعتراض نہیں اٹھ سکتا کیونکہ قرآنِ کریم اور رسول اللہ ﷺ پر ایمان، آخری زمانہ میں مسیح ومہدی ؑ کے بغیر ممکن نہ تھا۔ چنانچہ جب سورۃ جمعہ کی آیت وَاٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ نازل ہوئی تو صحابہؓ نے عرض کی۔ یا رسو ل اللہؐ! وہ کون ہیں ؟ ( جو بعد میں آنے والے ہیں)۔ آپ ؐ نے حضرت سلمان فارسیؓ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا۔
’’ لو کان الا یمان عند الثرّ یا لنالہٗ رجلٌ او رجالٌ من ھٰؤلآء‘‘(بخاری۔ کتاب التفسیر۔ تفسیر سورۃ جمعہ)ترجمہ:۔ اگر ایک وقت ایمان ثریّا تک بھی اُڑ گیا تو ان میں سے ( یعنی عجمیوں میں سے) ایک یا اس سے زیادہ لوگ اسے واپس لے آئیں گے۔
لہذا ہمیں تو اسی کے ذریعہ ہی خدا تعالیٰ، آنحضرت ﷺ اور قرآنِ کریم پر ایمان نصیب ہوا ہے جس کے بارہ میں ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمّد مصطفی ﷺ کی پیشگوئی تھی۔
بس فرق یہ ہے کہ جماعتِ احمدیہ نے قرآنِ کریم پر ایمان اور عمل اور آنحضرت ﷺ سے عشق اور آپؐ کی اعلیٰ و ارفع ذات کا عرفان اور آپؐ کی سنّتِ مبارکہ پر عمل آپ ؐ ہی کی پیشگوئیوں کے مطابق، آپؐ ہی کے امّتی اور غلام، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ حاصل کیا ہے۔ جبکہ راشد علی نے ماہی گیروں کی زمین پر غاصبانہ قبضہ کرنے والے، روٹی دیر سے ملنے پر مغلوب الغضب ہو کر روٹی لانے والے بچّے پر چاقو نکال لینے والے اور دن رات سگریٹ نوشی کرنے والے پیر، عبد الحفیظ سے جھوٹ اور تلبیس کے سوا اور کچھ نہیں سیکھا۔
:iii۔احمدیت کی تمام تر توجّہ کا محور آنحضرت ﷺ نہیں بلکہ مرزا غلام احمد کی ذات ہے
راشد علی اور اس کے پیرنے لکھا ہے کہ
اس سیاق و سباق میں اس مضمون پر کوئی اعتراض نہیں اٹھ سکتا کیونکہ قرآنِ کریم اور رسول اللہ ﷺ پر ایمان، آخری زمانہ میں مسیح ومہدی ؑ کے بغیر ممکن نہ تھا۔ چنانچہ جب سورۃ جمعہ کی آیت وَاٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ نازل ہوئی تو صحابہؓ نے عرض کی۔ یا رسو ل اللہؐ! وہ کون ہیں ؟ ( جو بعد میں آنے والے ہیں)۔ آپ ؐ نے حضرت سلمان فارسیؓ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا۔
’’ لو کان الا یمان عند الثرّ یا لنالہٗ رجلٌ او رجالٌ من ھٰؤلآء‘‘(بخاری۔ کتاب التفسیر۔ تفسیر سورۃ جمعہ)ترجمہ:۔ اگر ایک وقت ایمان ثریّا تک بھی اُڑ گیا تو ان میں سے ( یعنی عجمیوں میں سے) ایک یا اس سے زیادہ لوگ اسے واپس لے آئیں گے۔
لہذا ہمیں تو اسی کے ذریعہ ہی خدا تعالیٰ، آنحضرت ﷺ اور قرآنِ کریم پر ایمان نصیب ہوا ہے جس کے بارہ میں ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمّد مصطفی ﷺ کی پیشگوئی تھی۔
بس فرق یہ ہے کہ جماعتِ احمدیہ نے قرآنِ کریم پر ایمان اور عمل اور آنحضرت ﷺ سے عشق اور آپؐ کی اعلیٰ و ارفع ذات کا عرفان اور آپؐ کی سنّتِ مبارکہ پر عمل آپ ؐ ہی کی پیشگوئیوں کے مطابق، آپؐ ہی کے امّتی اور غلام، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ حاصل کیا ہے۔ جبکہ راشد علی نے ماہی گیروں کی زمین پر غاصبانہ قبضہ کرنے والے، روٹی دیر سے ملنے پر مغلوب الغضب ہو کر روٹی لانے والے بچّے پر چاقو نکال لینے والے اور دن رات سگریٹ نوشی کرنے والے پیر، عبد الحفیظ سے جھوٹ اور تلبیس کے سوا اور کچھ نہیں سیکھا۔
:iii۔احمدیت کی تمام تر توجّہ کا محور آنحضرت ﷺ نہیں بلکہ مرزا غلام احمد کی ذات ہے
راشد علی اور اس کے پیرنے لکھا ہے کہ
’’ غرضیکہ قادیانیت/ احمدیّت کی صورت میں ایک ایسی جماعت پیدا کر دی گئی جس کی تمام تر توجّہ کا محور حضورﷺ سے ہٹ کر مرزاغلام احمد کی ذات ہو گئی ہے ہر قادیانی اس مرض میں گرفتار ہے۔ آپ اس سے مرزا کی ذات کے بارہ میں گفتگو کریں وہ سیدھا سرکارِ دو عالم ﷺ کی ذات پر لے جائے گا۔‘‘
راشد علی کا یہ بیان اس کی خود تردیدی اور تضاد بیانی کا شاہکار ہے۔ ایک طرف تو وہ یہ کہتا ہے کہ ’’ تمام تر توجہ کا محور حضور ﷺ سے ہٹ کر مرزا غلام احمد کی ذات ہو گئی۔‘‘ اور ساتھ ہی وہ اس کو ردّ کرتے ہوئے یہ بھی لکھ رہا ہے کہ ’’ ہر قادیانی اس مرض میں گرفتار ہے آپ اس سے مرزا کی ذات کے بارہ میں گفتگو کریں وہ سیدھا سرکارِ دو عالمﷺ کی ذات پر لے جائے گا۔‘‘
اس کا یہ بیان اس کے اس اقرار کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ ہر احمدی کی تمام تر توجہ کا محور دراصل رسو ل اللہﷺ کی ہی ذاتِ بابرکات ہے کیونکہ ہر احمدی کو یہ مرض لاحق ہے کہ وہ ہر بات کو رسول اللہ ﷺ کی ذات پر لے جاتا ہے۔ البتہ راشد علی معترض ایسا ہے کہ اپنی باتوں کو شیطان کی طرف لے جاتا ہے کیونکہ وہ اس کی توجّہ کا محور ہے۔
ہر احمدی ہر بات کو اپنے آقا و مولیٰ حضرت محمّد مصطفی ﷺ کی ذات پر کیوں لے کر جاتا ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ ؐ سچّائی اور صداقت کا ایک ایسا معیار ہیں کہ آپؐ کے بغیر کسی کی سچّائی اور صداقت کا ثبوت قائم نہیں ہو سکتا۔آپؐ ہی کی تصدیق کسی کی صداقت پر مہر ثبت کرتی ہے۔ اسلئے جب کوئی مسیحِ زماں و مہدی دوراں حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلٰوۃ والسلام پر کوئی اعتراض کرتا ہے یا آپ پر کوئی الزام لگاتا ہے تو احمدی فوراً اس کیس کو اپنے آقا و مولیٰ حضرت اقدس محمّد مصطفی ﷺ کے پاس لے جاتا ہے۔ جب آپ ؐ کی جناب سے اس اعتراض کے جھوٹا ہونے کا ثبوت مل جاتا ہے تو وہ اس معترض کو جھوٹا قرار دے کر مردود کر دیتا ہے۔پس راشد علی کو میرا مشورہ ہے کہ وہ بھی اس ’’مرض میں گرفتار ‘‘ہو جائے تو جھوٹ اور شیطان سے آزاد ہو سکتا ہے۔ اور اگر اپنی ہر بات ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمّد ﷺ کے پاس لے جائے تو ہدایت حاصل کر سکتا ہے۔
بہرحال راشد علی نے از خود احمدی کی ایک ایسی خوبی اور صفت کو بیان کر دیا ہے جس پر سیّد المرسلین خاتم النبییّن حضرت محمّد مصطفی ﷺ کی مہرِ تصدیق ثبت ہے۔ پس کیا خوب فرمایا ہے حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام نے کہ
بعد از خدا بعشقِ محمّد مخمرّ م
گر کفر ایں بود بخدا سخت کافرم
ترجمہ: خدا تعالیٰ کے بعد میں محمّدﷺ کے عشق میں سرشار ہوں۔اگر یہ کفر ہے تو خدا کی قسم میں سخت کافر ہوں۔
اور اگر یہ مرض ہے تو یہ بہت ہی برکتوں والا ہے اور ہمیں بہت ہی پیارا ہے۔
راشد علی کا یہ بیان اس کی خود تردیدی اور تضاد بیانی کا شاہکار ہے۔ ایک طرف تو وہ یہ کہتا ہے کہ ’’ تمام تر توجہ کا محور حضور ﷺ سے ہٹ کر مرزا غلام احمد کی ذات ہو گئی۔‘‘ اور ساتھ ہی وہ اس کو ردّ کرتے ہوئے یہ بھی لکھ رہا ہے کہ ’’ ہر قادیانی اس مرض میں گرفتار ہے آپ اس سے مرزا کی ذات کے بارہ میں گفتگو کریں وہ سیدھا سرکارِ دو عالمﷺ کی ذات پر لے جائے گا۔‘‘
اس کا یہ بیان اس کے اس اقرار کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ ہر احمدی کی تمام تر توجہ کا محور دراصل رسو ل اللہﷺ کی ہی ذاتِ بابرکات ہے کیونکہ ہر احمدی کو یہ مرض لاحق ہے کہ وہ ہر بات کو رسول اللہ ﷺ کی ذات پر لے جاتا ہے۔ البتہ راشد علی معترض ایسا ہے کہ اپنی باتوں کو شیطان کی طرف لے جاتا ہے کیونکہ وہ اس کی توجّہ کا محور ہے۔
ہر احمدی ہر بات کو اپنے آقا و مولیٰ حضرت محمّد مصطفی ﷺ کی ذات پر کیوں لے کر جاتا ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ ؐ سچّائی اور صداقت کا ایک ایسا معیار ہیں کہ آپؐ کے بغیر کسی کی سچّائی اور صداقت کا ثبوت قائم نہیں ہو سکتا۔آپؐ ہی کی تصدیق کسی کی صداقت پر مہر ثبت کرتی ہے۔ اسلئے جب کوئی مسیحِ زماں و مہدی دوراں حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلٰوۃ والسلام پر کوئی اعتراض کرتا ہے یا آپ پر کوئی الزام لگاتا ہے تو احمدی فوراً اس کیس کو اپنے آقا و مولیٰ حضرت اقدس محمّد مصطفی ﷺ کے پاس لے جاتا ہے۔ جب آپ ؐ کی جناب سے اس اعتراض کے جھوٹا ہونے کا ثبوت مل جاتا ہے تو وہ اس معترض کو جھوٹا قرار دے کر مردود کر دیتا ہے۔پس راشد علی کو میرا مشورہ ہے کہ وہ بھی اس ’’مرض میں گرفتار ‘‘ہو جائے تو جھوٹ اور شیطان سے آزاد ہو سکتا ہے۔ اور اگر اپنی ہر بات ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمّد ﷺ کے پاس لے جائے تو ہدایت حاصل کر سکتا ہے۔
بہرحال راشد علی نے از خود احمدی کی ایک ایسی خوبی اور صفت کو بیان کر دیا ہے جس پر سیّد المرسلین خاتم النبییّن حضرت محمّد مصطفی ﷺ کی مہرِ تصدیق ثبت ہے۔ پس کیا خوب فرمایا ہے حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام نے کہ
بعد از خدا بعشقِ محمّد مخمرّ م
گر کفر ایں بود بخدا سخت کافرم
ترجمہ: خدا تعالیٰ کے بعد میں محمّدﷺ کے عشق میں سرشار ہوں۔اگر یہ کفر ہے تو خدا کی قسم میں سخت کافر ہوں۔
اور اگر یہ مرض ہے تو یہ بہت ہی برکتوں والا ہے اور ہمیں بہت ہی پیارا ہے۔