WRITTEN ANSWERS TO ORAL QUESTIONS IN THE CROSS- EXAMINATION
مولانا ظفر احمد انصاری: جناب والا! میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ تحریری بیان دینے کا جو سلسلہ انہوں نے شروع کیا ہے، اس کی حوصلہ افزائی نہ کی جائے… کافی طویل بیان وہ اپنے محضرنامے میں دے چکے ہیں اور جہاں تک ہو، یعنی بغیر اس کے کہ انہیں Annoy کریں، Offered کریں، ہم اس کو Discourage کریں کہ وہ چیزوں کے تحریری بیانات دیں۔ اس لئے کہ یہ لامتناہی سلسلہ ہو جائے گا اور اب اس کی ضرورت نہیں ہے۔ اٹارنی جنرل صاحب جو سوالات پوچھتے ہیں۔ ان کا وہ معین جواب دے دیتے ہیں۔ بالکل اگر کوئی ایسی ضروری بات آئے کہ وہ بغیر تحریر کے نہیں ہوسکتی تو پھر تو الگ ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں جی! انہوں نے ایک جواب دیا میں نے انہیں کہا کہ آپ فائل نہ کریں، آپ پڑھ کر سنائیں۔ مگر میرا اپنا یہ خیال ہے کہ جتنا زیادہ بولیں اتنا ہی زیادہ Contradiction ہوتی ہے۔ میرا اپنا Experience یہ ہے کہ ایک شخص جو Inconsistent ہے۔ یہاں ہمارے Patience پر Strain ہے۔
The more he speaks, the more he becomes inconsistent and contradictory. So, I would not stop him.
(جس قدر زیادہ وہ بولتے ہیں اسی قدر وہ بے جوڑ اور متضاد ہو جاتے ہیں۔ تو میں ان کو بولنے سے نہیں روکتا)
Mr. Chairman: Yes, we will try that the less he gives in writing, the better it is, and the less he reads is also better. Now, the 505stage has come when only oral answers and brief answers are needed. Any honourable member who would like to say anything?
(جناب چیئرمین: ہاں۔ ہماری کوشش ہوگی کہ جس قدر کم وہ تحریریں دیں گے وہ اچھا ہے اور جس قدر کم وہ پڑھیں گے وہ بہتر ہے۔ اب یہ وقت آگیا ہے کہ جب صرف زبانی جواب اور مختصر جواب کی ضرورت ہے۔ کوئی اور معزز ممبر صاحب کچھ کہنا چاہتے ہیں)
Some Members: Nobody.
(کچھ ممبران: کوئی نہیں)
Mr. Chairman: No, no, most welcome. Thank you very much. We shell Tomorrow at 10: 00 am.
(جناب چیئرمین: شکریہ! بہت بہت۔ ہم کل صبح دس بجے ملیں گے)
(The Special Committee of whole House adjourned to meet at ten of the Clock, in the morning, on Thursday, the 8th August, 1974.)
(سپیشل کمیٹی صبح دس بجے ۸؍اگست ۱۹۷۴ء تک کے لئے ملتوی ہوگی)
----------