ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
حیات عیسی علیہ السلام پر احادیث ( اہل کتاب حضرت عیسیؑ کی موت سے پہلے ان پہ ایمان لائیں گے)
حدیث نمبر:۱… ’’
عن ابی ہریرۃؓ قال قال رسول اﷲﷺ والذی نفسی بیدہ لیوشکن ان ینزل فیکم ابن مریم حکما عدلاً
‘‘ (مشکوٰۃ ص۴۷۹، باب نزول عیسیٰ علیہ السلام)
یہاں ہم اس حدیث کی تشریح قادیانیوں کے مسلم امام ومجدد صدی ہشتم حضرت حافظ ابن حجر عسقلانیؒ کے الفاظ میں پیش کرتے ہیں۔
۱… ’’
وہذا مصیر من ابی ہریرۃؓ الی ان الضمیر فی قولہ لیؤمنن بہ وکذالک فی قولہ قبل موتہ یعود علی عیسیٰ اے لیؤمنن بعیسیٰ قبل موت عیسیٰ وبہذا جزم ابن عباسؓ فیما رواہ ابن جریر من طریق سعید بن جبیر عنہ باسناد صحیح ومن طریق ابی رجاء عن الحسن قال قبل موت عیسیٰ واﷲ انہ الان لحی ولکن اذا نزل آمنوا بہ اجمعون
‘‘ (فتح الباری ج۶ ص۳۵۷، مطبوعہ بیروت)
’’(اس سے ظاہر ہے کہ) حضرت ابوہریرہؓ کا مذہب یہ ہے کہ قول الٰہی قبل موتہ میں ضمیر ’’
ہ
‘‘ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف پھرتی ہے۔ پس معنی اس آیت کے یہ ہوئے کہ (اہل کتاب) حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موت سے پہلے ایمان لے آئیں گے اور اسی بات پر حضرت عبداﷲ بن عباسؓ نے جزم کیا ہے۔ مطابق اس کے جو امام ابن جریر نے آپ سے بطریق سعید بن جبیر باسناد صحیح روایت کیا ہے اور نیز بطریق ابی رجاء حضرت امام حسن بصریؒ سے روایت کیا کہ انہوں نے (اس آیت کے متعلق) کہا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موت سے پہلے (ایمان لے آئیں گے) خدا کی قسم آپ یقینا اس وقت زندہ ہیں۔ جب آپ نازل ہوں گے تو سب (اہل کتاب) آپ پر ایمان لے آئیں گے۔‘‘
۱… حضرات غور کیجئے! ہم نے اسلامی عقیدہ کی تصدیق میں رسول کریمﷺ کی حدیث صحیح پیش کی ہے۔ حدیث بھی بخاری شریف کی جس کی صحت پر مرزاقادیانی کا ایمان ہے اور اس کی روایت کو سب پر ترجیح دیتے ہیں۔ (ازالہ اوہام ص۸۸۴، خزائن ج۳ ص۵۸۲، تبلیغ رسالت ج۲ ص۲۵، مجموعہ اشتہارات ج۱ ص۲۳۵)
۲… پھر حدیثوں میں سے ہم نے وہ حدیث لی ہے۔ جس کی صحت پر خود رسول کریمﷺ نے قسم اٹھائی ہے۔ قسم والی حدیث میں تاویل حرام ہے۔(قول مرزا)
۳… پھر یہ حدیث مروی ہے۔
حضرت ابوہریرہؓ سے جو حافظ حدیث رسولﷺ تھے
اور وہی صاحب اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ حسب قرآنی وعدہ وپیش گوئی
’’
وان من اہل الکتاب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ
‘‘
حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمانوں سے نازل ہوں گے اور ان کے فوت ہونے سے پہلے سب اہل کتاب کا ایمان لانا ضروری ہے۔ (بخاری ج۱ ص۴۹۰، باب نزول عیسیٰ علیہ السلام)
۴… صحابی کی مذکورہ بالا تفسیر پر حضرت حافظ ابن حجر عسقلانیؒ مجدد وامام صدی ہشتم نے مہر توثیق ثبوت کر دی ہے اور دلیل میں امام ابن جریرؒ قادیانیوں کے مسلم محدث ومفسر کی روایت سے قادیانیوں کے مسلم مفسر اعظم حضرت ابن عباسؓ سے تصدیق کرادی ہے۔ علاوہ ازیں سرتاج اولیاء ومجددین امت محمدیہ حضرت امام حسن بصریؒ کا قول پیش کر دیا ہے اور قول بھی حلفیہ کہ حضرت مسیح علیہ السلام زندہ ہیں۔ چونکہ قول حلفیہ ہے۔ لہٰذا مطابق اصول قادیانی اس میں کوئی تاویل نہیں چل سکتی۔
۵… سب سے بڑھ کر یہ کہ حضرت ابوہریرہؓ ’’
ان شئتم
‘‘ کا چیلنج تمام صحابہؓ کو دیتے ہوئے حیات عیسیٰ علیہ السلام کے ثبوت میں ’’
وان من اہل الکتاب
‘‘ پڑھنے کی تلقین کرتے ہیں اور ایک لاکھ سے زیادہ صحابہؓ جو قادیانیوں کے نزدیک حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موت پر اجماع کر چکے ہیں۔ (تحفہ گولڑویہ ص۴، خزائن ج۱۷ ص۹۱)
حضرت ابوہریرہؓ کا چیلنج سن کر چپ ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ تمام کتب حدیث کو پڑھ جائیے۔ کہیں کوئی ایسی روایت نہ ملے گی۔ جہاں صحابہ کرامؓ میں سے کسی ایک نے بھی حضرت ابوہریرہؓ کے اس قول کی تردید کی ہو۔ حضرات! اس کا نام ہے استدلال صحیح اور برہان اسلامی۔ ذرا قادیانی سے بھی وفات عیسیٰ علیہ السلام کے ثبوت میں ہماری طرح بیسیوں نہیں صرف ایک ہی ایسی دلیل طلب کر کے اسلامی دلائل کے ساتھ مقابلہ کیجئے اور حق اور باطل کے درمیان ایک فیصلہ کن فرق ملاحظہ کیجئے
حیات عیسی علیہ السلام پر احادیث ( عیسی ابن مریم کو پہچاننے کی علامات)
حدیث نمبر:۲… ’’
عن ابی ہریرۃؓ عن النبیﷺ قال الانبیاء اخوۃ لعلّات امہاتہم شتی ودینہم واحد ولانی اولیٰ الناس بعیسیٰ ابن مریم لانہ لم یکن بینی وبینہ نبی وانہ نازل رایتموہ فاعرفوہ رجل مربوع الی الحمرۃ والبیاض علیہ ثوبان ممصران رأسہ یقطر وان لم یصبہ بلل فیدق الصلیب ویقتل الخنزیر ویضع الجزیۃ ویدعوا الناس الیٰ الاسلام فتہلک فی زمانہا الملل کلہا الا الاسلام وترتع الاسود مع الابل والنمار مع البقر والذیاب مع الغنم وتلعب الصبیان بالحیات فلا تضرہم فیمکث اربعین سنۃ ثم یتوفیٰ ویصلی علیہ المسلمون
‘‘ (رواہ ابوداؤد ج۲ ص۱۳۵، باب خروج الدجال ومسند احمد ج۲ ص۴۰۶)
حدیث بالا کی عظمت وصداقت کا ثبوت، تصدیق از مرزاغلام احمد قادیانی
۱… مرزاقادیانی نے اس حدیث سے اپنی صداقت میں مندرجہ ذیل کتابوں میں استدلال کیا ہے۔ (حقیقت الوحی ص۳۰۷، خزائن ج۲۲ ص۳۲۰، ازالہ اوہام ص۶۹۹، خزائن ج۳ ص۴۷۷)
۲… مرزاقادیانی کے قول کے مطابق یہ حدیث بخاری شریف میں بھی موجود ہے۔ چنانچہ مرزاقادیانی کی ساری عبارت ناظرین کے مطالعہ کے لئے لکھ دیتا ہوں۔
’’پھر امام بخاری نے… ظاہر کیا ہے کہ اس قصہ کی وجہ سے آنحضرتﷺ کو مسیح ابن مریم سے ایک مشابہت ہے۔ چنانچہ ص۴۸۹ میں یہ حدیث بھی بروایت ابوہریرہؓ لکھ دی ہے۔ انا اولیٰ الناس بابن مریم والانبیاء اخوۃ علات
‘‘ (ازالہ اوہام ص۸۹۳، خزائن ج۳ ص۵۸۷،۵۸۸) اس سے معلوم ہوا کہ مرزاقادیانی اس حدیث کی صحت کے نہ صرف قائل تھے بلکہ مدعی تھے۔
تصدیق از مرزامحمود احمد قادیانی خلیفہ قادیان
چھوٹے مرزامحمود قادیانی نے یہ حدیث سارے کی ساری اپنی کتاب میں درج کر کے اس کے بل بوتے پر مرزاقادیانی کی نبوت ثابت کی ہے اور بہت لمبی چوڑی بحث کی ہے۔ بہرحال حدیث مذکورہ بالا کو بالکل صحیح تسلیم کر لیا۔ ہم نے یہ حدیث ’’حقیقت النبوۃ‘‘ ہی سے نقل کی ہے۔ اب ترجمہ حدیث کا بھی ہم خلیفہ قادیانی مرزامحمود کے الفاظ میں آپ کے سامنے پیش کرتے ہیں۔
’’یعنی انبیاء علاتی بھائیوں کی طرح ہوتے ہیں۔ ان کی مائیں تو مختلف ہوتی ہیں اور دین ایک ہوتا ہے اور میں عیسیٰ ابن مریم سے سب سے زیادہ تعلق رکھنے والا ہوں۔ کیونکہ اس کے اور میرے درمیان کوئی نبی نہیں (ہوا کا لفظ کھا گئے ہیں۔ ابوعبیدہ) اور وہ نازل ہونے والا ہے۔ پس جب اسے دیکھو تو اسے پہچان لو کہ وہ درمیان قامت، سرخی سفیدی، ملا رنگ، زرد کپرے پہنے ہوئے اس کے سر سے پانی ٹپک رہا ہوگا۔ گو سر پر پانی نہ ہی ڈالا ہو اور صلیب کو توڑے گا اور خنزیر کو قتل کرے گا اور جزیہ کو ترک کر دے گا اور لوگوں کو اسلام کی دعوت دے گا۔ اس کے زمانہ میں سب مذاہب ہلاک ہو جائیں گے اور صرف اسلام ہی رہ جائے گا۔‘‘ (حقیقت النبوۃ ص۱۹۲)
قادیانی خیانت کی عجیب مثال
مرزابشیرالدین محمود نے ساری حدیث کو نقل کردیا ہے۔ مگر درمیان سے وہ تمام الفاظ اور فقرے جن میں قادیانی تادیل کی دال نہیں گل سکتی ہضم کر گئے ہیں۔
مثلاً ’’
فیقاتل الناس علی الاسلام… ویہلک المسیح الدجال
‘‘
مطلب جن کا یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نازل ہونے کے بعد کفار سے جہاد کریں گے اور دجال کو ہلاک کر دیں گے۔
۱… تصدیق از امام احمد مجدد وقت (عسل مصفی جلد اوّل ص۱۶۳،۱۶۴) یہ حدیث مسند امام احمد میں بھی موجود ہے۔
۲… تصدیق از حافظ ابن حجر مجدد وقت ( عسل مصفی ج اوّل ص۱۶۳،۱۶۴) انہوں نے اس حدیث کی اسناد کو صحیح لکھا ہے۔ (دیکھو فتح الباری ج۶ ص۳۵۷) ابوعبیدہ
اس حدیث میں رسول اﷲﷺ نے حضرت مسیح علیہ السلام کا نام عیسیٰ ابن مریم لے کر فرمایا ہے کہ وہ مجھ سے پہلے ہوئے ہیں۔ (جیسا کہ ’’
لم یکن
‘‘ کے الفاظ اعلان کر رہے ہیں) پھر ارشاد فرمایا کہ تحقیق وہی ابن مریم نازل ہونے والا ہے۔ نزول کا لفظ رفع یا صعود کا مقابل ہے۔ چنانچہ خود مرزاقادیانی نے بھی اس بات کو تسلیم کر لیا ہے۔ لکھتے ہیں: ’’
وتعلمون ان النزول فرع للصعود
‘‘ میدانید کہ نزول برائے صعود فرع است۔ (انجام آتھم ص۱۶۸، خزائن ج۱۱ ص ایضاً)
یعنی اترنا چڑھنے کا نتیجہ ہے۔ پس معلوم ہوا کہ دونوں میں سے ایک کا یقینی علم حاصل ہو جائے تو دوسرا خود بخود ثابت ہو جائے گا۔ مثال اس کی یوں سمجھیں۔
’’جاگنا سونے کی فرع ہے۔ اگر کوئی آدمی جاگ اٹھا ہو تو وہ ضرور سویا ہوگا۔‘‘ اسی طرح اگر عیسیٰ علیہ السلام کا آسمان سے اترنا ثابت ہوجائے تو لازمی طور پر ان کا آسمان پر جانا بھی ثابت شدہ متصور ہوگا۔ اگر یوں کہا جائے کہ مرزاقادیانی لاہور سے آئے ہیں تو مرزاقادیانی کا لاہور جانا بھی ثابت ہو جائے گا۔ اگر یوں کہا جائے کہ مرزامحمود ہوائی جہاز سے اترے ہیں تو ان کا ہوائی جہاز میں اڑنا بھی ثابت ہو جائے گا۔
پس جب ہم نے اس حدیث سے ثابت کر دیا ہے کہ وہی حضرت عیسیٰ علیہ السلام جو حضرت مریم صدیقہ کے بیٹے تھے نازل ہوں گے تو معلوم ہوا کہ وہ آسمان پر زندہ موجود ہیں۔ خود غرضی کا ستیاناس ہو کہ عیسیٰ علیہ السلام کے معنی غلام احمد اور مریم سے مراد چراغ بی بی لیا جارہا ہے اور آسمان سے مراد ماں کا پیٹ باپ سے مراد بیٹا اور بیٹے سے مراد بھائی اور باپ سے مراد بھائی یا بیٹا غرضیکہ جو کچھ دل چاہے معنی کر لیتے ہیں۔ اگرکسی زبان میں یہ طریقہ عام مروج ہو جائے تو امن عالم خطرہ میں پڑ جائے۔ میں کہتا ہوں مجھے کھانڈ دو۔ آپ مجھے مٹی دے دیں۔ اس پر میں قبول کرنے سے انکار کر دوں۔ آپ کہیں کھانڈ سے مراد آپ کی مٹی ہی تھی۔ لطف یہ کہ اس کجروی پر بھی آپ کو کچھ دوست ایسے مل جائیں جو آپ کا استدلال مان لیں۔ تو بتائیے کہ سکھا شاہی کے سرپر کیا سینگ ہوتے ہیں؟
بعض مرزائی کہتے ہیں کہ: ’’آسمان سے‘‘ کے لفظ حدیث میں نہیں ہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ رسول کریمﷺ یا اﷲ تعالیٰ مرزاقادیانی کی طرح کلام کرنے والے نہیں ہیں کہ کلام میں غیرضروری الفاظ بھی خواہ مخواہ داخل کرتے جائیں۔ قادیانیوں کی جانے بلا کہ فصاحت وبلاغت اور علم کلام کس جانور کا نام ہے؟ دیکھئے پچھلے دنوں مسٹر خالد لطیف گابا ولایت تشریف لے گئے تھے۔ اس میں ولایت کے لفظ سے پہلے ’’ہندوستان سے‘‘ کے الفاظ بڑھانے کا مطالبہ کرنا کس قدر حماقت ہے؟ اسی طرح ان کے ولایت جانے کے بعد یونہی کہا جائے گا کہ مسٹر خالد لطیف گابا فلاں تاریخ ہندوستان آجائیں گے۔ اس پر کہنے والے کا منشاء یقینا ولایت سے آنے کا ہے۔
اس صورت میں ’’
ولایت سے
‘‘ کے لفظ بڑھانا کوئی ضروری نہیں ہے۔ اسی طرح جب کہ تمام صحابہ کرامؓ جن سے خطاب تھا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر زندہ بجسدہ العنصری مانتے تھے۔ اندریں صورت ’’
نازل من السمائ
‘ ‘ کی بجائے صرف ’’
نازل
‘‘ کا لفظ کہنا ہی رسول کریمﷺ کو زیب دیتا تھا۔ مگر باوجود اس کے کہ ’’
من السمائ
‘‘ کے الفاظ کا اضافہ غیرضروری تھا۔ رحمتہ اللعالمینؐ نے قادیانیوں کا ناطقہ بند کرنے کے لئے اپنی مبارک زبان سے ’’
من السمائ
‘‘ کے الفاظ بھی بڑھادئیے۔ جیسا کہ آگے آتا ہے۔
حیات عیسی علیہ السلام پر احادیث ( عیسیٰ بیٹا مریم کا ایک ہی مقبرہ سے اٹھیں گے۔ ابوبکرؓ وعمرؓ کے درمیان)
حدیث نمبر:۳…
’’
عن عبداﷲ بن عمرو بن العاصؓ قال قال رسول اﷲﷺ ینزل عیسیٰ ابن مریم الی الارض فیتزوج ویولد لہ ویمکث خمسا واربعین سنۃ ثم یموت فیدفن معی فی قبری فاقوم انا وعیسیٰ ابن مریم فی قبروا حدبین ابی بکر وعمر رواہ ابن جوزی فی کتاب الوفائ
‘‘ (مشکوٰۃ ص۴۸۰، باب نزول عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام) ’’عمرو بن العاصؓ فاتح مصر کے بیٹے حضرت عبداﷲؓ صحابی رسول کریمﷺ سے روایت کرتے ہیں۔ فرمایا رسول کریمﷺ نے کہ عیسیٰ علیہ السلام بیٹے مریم کے زمین کی طرف نازل ہوں گے۔ پس نکاح کریں گے اور ان کی اولاد ہوگی اور پینتالیس برس تک رہیں گے۔ پھر فوت ہوں گے اور میرے پاس میرے مقبرہ میں دفن ہوں گے۔ پھر میں اور عیسیٰ بیٹا مریم کا ایک ہی مقبرہ سے اٹھیں گے۔ ابوبکرؓ وعمرؓ کے درمیان۔‘‘ تصدیق صحت حدیث
۱… یہ حدیث بیان کی ہے امام ابن جوزی نے جو قادیانیوں کے نزدیک چھٹی صدی میں تجدید دین کے لئے مبعوث ہوئے تھے اور ان کے منکر کا کافر اور فاسق ہونا قادیانیوں کے نزدیک مسلم ہے۔ (شہادۃ القرآن ص۴۰۸، خزائن ج۶ ص۳۴۴) ۲… پھر اس حدیث کی صحت کو خود مرزاقادیانی اور اس کی جماعت نے اپنی مندرجہ ذیل کتابوں میں بڑے زور سے صحیح تسلیم کر لیا ہے۔ (ضمیمہ انجام آتھم ص۵۳، خزائن ج۱۱ ص۳۳۷، کشتی نوح ص۱۵، خزائن ج۱۹ ص۱۶، نزول المسیح ص۳، خزائن ج۱۸ ص۳۸۱، حقیقت الوحی ص۳۰۷، خزائن ج۲۲ ص۳۲۰، ضمیمہ حقیقت الوحی ص۵۱ حاشیہ، خزائن ج۲۲ ص۶۷۴، عسل مصفی ج۲ ص۴۴۰،۴۴۱) ۳… مرزاقادیانی کے علاوہ خود مرزامحمود احمد نے بھی اس کی صحت کو اپنی کتاب انوار خلافت کے ص۵۰ پر قبول کر لیا ہے۔
ناظرین! قادیانی مسلمات سے جب ثابت ہوچکا کہ یہ حدیث رسول کریمﷺ کے مبارک الفاظ ہیں تو اب جو شخص حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات جسمانی کا انکار کرے کیا وہ مسلمان ہوسکتا ہے؟ ذرا نتائج پر غور کیجئے۔
۱… آپ نے صرف حضرت مسیح علیہ السلام کا نام عیسیٰ نہیں فرمایا بلکہ ساتھ ہی فرمایا مریم کا بیٹا۔
۲… پھر یہ نہیں فرمایا کہ وہ پیدا ہوگا۔ بلکہ فرمایا کہ وہ زمین کی طرف نازل ہوگا۔ معلوم ہوا کہ وہ اس ارشاد کے وقت زمین سے باہر تھے۔
۳… اس کے بعد فرمایا کہ نزول کے بعد آپ نکاح کریں گے اور آپ کے ہاں اولاد بھی ہوگی۔ سب جانتے ہیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے رفع سے پہلے نکاح نہیں کیا تھا۔ پھر یہ نکاح نزول کے بعد ہی ہوگا۔ نوٹ: مرزاقادیانی یہاں نزول سے مراد ماں کے پیٹ سے باہر نکلنا لیتے ہیں۔ اگر خلاف قرآن وحدیث یہ بات صحیح بھی تسلیم کر لی جائے تو مرزاقادیانی کو ثابت کرنا پڑے گا کہ وہ پیدا ہوتے ہی عیسیٰ علیہ السلام ابن مریم تھے۔ مگر مرزاقادیانی نے اپنے آپ کو عیسیٰ علیہ السلام ابن مریم کا خطاب خود دیا اور وہ بھی ۱۸۹۰ء کے بعد اگر نزول کی تاریخ یہی سال مانی جائے تو پھر قادیانیوں کو ثابت کرنا پڑے گا کہ مرزاقادیانی کی شادی ۱۸۹۰ء کے بعد ہوئی تھی۔ کیونکہ رسول کریمﷺ کے الفاظ مبارک سے یہی ظاہر ہوتا ہے۔ چنانچہ مرزاقادیانی نے ہمارے استدلال کو (ضمیمہ انجام آتھم ص۵۳، خزائن ج۱۱ ص۳۳۷) پر صحیح تسلیم کیا ہے اور اس پیش گوئی کو محمدی بیگم پر چسپاں کیا ہے۔ مگر وہ بھی ہاتھ نہ آئی۔ پس قادیانیوں کے لئے مقام عبرت ہے۔
۴… پھر آپ نے فرمایا: ’’
ثم یموت
‘‘ یعنی پھر ان تمام واقعات کے بعد فوت ہوگا۔ اس سے روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ رسول کریمﷺ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اس حدیث کے ارشاد فرمانے کے وقت زندہ تسلیم کر رہے تھے۔
۵… ’’
ویدفن معی فی قبری
‘‘ یعنی میرے روضہ میں دفن ہوگا۔ اس حصہ حدیث سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ ابھی تک آپ فوت ہوئے۔ کیونکہ حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام اگر فوت ہوچکے ہوتے تو وہ ضرور حسب تصریح نبوی رسول پاکﷺ کے روضہ پاک میں دفن ہوگئے ہوتے۔ چونکہ روضہ اقدس میں ابھی تک حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی قبر کی جگہ باقی ہے۔ معلوم ہوا کہ ابھی تک حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں۔ یوں بھی کیوں نہ، روضہ مبارکہ میں ابھی چوتھی قبر کی جگہ خالی پڑی ہے۔
لیجئے! ہم آپ کو قادیانیوں کے مسلم امام ومجدد صدی ہشتم حافظ ابن حجر عسقلانی کی زبانی بتاتے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں:
۱… ’’
قولہا عند وفاتہا لا تدفنی عندہم یشعر بانہ بقی من البیت موضع المدفن
(فتح الباری)‘‘
حضرت عائشہؓ کا وفات کے وقت یہ کہنا کہ مجھے ان کے پاس یعنی روضہ مبارکہ میں دفن نہ کرنا صاف صاف بتارہا ہے کہ روضہ مبارک میں ایک قبر کی جگہ باقی ہے۔
۲… ’’
ان الحسنؓ ابن علیؓ اوصی اخاہ ان یدفنہ عندہم… فدفن بالبقیع(فتح الباری)‘‘
امام حسنؓ ابن علیؓ نے اپنے بھائی کو وصیت کی کہ مجھے روضہ مبارکہ میں دفن کرنا… وہ دفن کئے گئے جنت البقیع میں۔
اس سے بھی ثابت ہوا کہ روضہ مبارکہ میں چوتھی قبر کی جگہ ہے۔ ہر ایک نے وہاں دفن ہونے کی سعی کی۔ مگر وہ امت نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لئے محفوظ رکھی ہوئی ہے۔ قادیانی اعتراض
رسول کریمﷺ کی قبر کو نعوذ باﷲ کھود کر اس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا دفن کرنا کس قدر گستاخی اور بے ادبی ہے رسول کریمﷺ کی۔ (ازالہ اوہام خورد ص۷۰۱، خزائن ج۳ ص۴۷۸) جواب…
اجی! آپ کو بھی رسول کریمﷺ کے ادب کے خواب آنے لگے؟ مرزاقادیانی نے قرآن، حدیث اور عربی علم ادب نہ تو خود کسی سے پڑھا اور نہ کسی کی تقلید کی۔ ان کی جانے بلا کہ قبر کے مفہوم میں کون کون سی صورتیں شامل ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ قبر سے مراد صرف وہ تھوڑی سی جگہ ہی ہوتی ہے۔ جہاں جسم انسانی رکھا جاتا ہے۔ سنئے! ہم آپ کو فی قبری کے مفہوم دکھاتے ہیں۔ اور وہ بھی دسویں صدی کے مجدد اعظم ملا علی قاریؒ کی زبانی بتاتے ہیں۔ تاکہ قادیانیوں کو جائے فرار نہ رہے۔ جناب مجدد صدی دہم اپنی کتاب مرقاۃ شرح مشکوٰۃ میں فرماتے ہیں۔
’’
فیدفن معی فی قبری (ای فی مقبرتی) وعبرعنہا بالقبر لقرب قبرہ بقبرہ فکانما فی قبر واحد
‘‘ (مرقات شرح مشکوٰۃ ج۱۰ ص۲۳۳، باب نزول عیسیٰ علیہ السلام) ’’میری قبر میں دفن ہوگا۔ یعنی میرے روضہ مبارک میں اور مقبرہ کی بجائے قبر کا لفظ دونوں قبروں کے ساتھ ساتھ ہونے کی وجہ سے استعمال فرمایا۔ گویا قرب کی وجہ سے دونوں ایک ہی قبر میں ہیں۔‘‘ امید ہے کہ اب قادیانی اپنے ہی مسلمہ مجدد کی تفسیر کو قبول کر کے خلوص کا ثبوت دیں گے۔ اگر پھر بھی ہٹ پر قائم رہیں تو ہم مجبوراً مرزاقادیانی سے اس مضمون کی عبارت درج کرتے ہیں۔
۱… ’’ابوبکر وعمر، ان کو یہ مرتبہ ملا کہ آنحضرتﷺ سے ایسے ملحق ہوکر دفن کئے گئے کہ گویا ایک ہی قبر ہے۔‘‘ (نزول المسیح ص۴۷، خزائن ج۱۸ ص۴۲۵) ۲… ’’اور واضح رہے کہ آنحضرتﷺ کی قبر میں ان کا آخری زمانہ میں دفن ہونا… ممکن ہے کوئی مثیل ایسا بھی ہو جو آنحضرتﷺ کے روضہ کے پاس مدفون ہو۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۴۷۰، خزائن ج۳ ص۳۵۲) مصنف احمدیہ پاکٹ بک لکھتا ہے۔ ’’مسیح حجرہ نبویہ میں دفن ہوگا۔‘‘ (مکمل تبلیغی پاکٹ بک مؤلفہ عبدالرحمن قادیانی ص۶۹۸) پس خود قادیانی کے اپنے الفاظ سے ثابت ہوگیا کہ ’’
فی قبری
‘‘ سے مراد قرب قبر ہے نہ کہ عین قبر۔ لہٰذا قادیانی اعتراض محض ’’ڈوبتے کو تنکے کا سہارا‘‘ والی بات ہے۔ ورنہ یہ بھی کوئی اعتراض ہے۔ جس سے الٹا لینے کے دینے پڑ جائیں۔
حیات عیسی علیہ السلام پر احادیث ( روح اللہ یعنی عیسی علیہ السلام کا نزول)
حدیث نمبر:۴…
’’
ان روح اﷲ عیسیٰ نازل فیکم فاذا رأیتموہ فاعرفوہ فانہ رجل مربوع الی الحمرۃ والبیاض… ثم یتوفی ویصلی علیہ المسلمون
‘‘ (رواہ الحاکم ج۳ ص۴۹۰، عن ابی ہریرہؓ، بحوالہ قادیانی کتاب عسل مصفی ج۲ ص۱۵۱)
تصدیق نمبر:۱… یہ حدیث اپنے مضمون میں حدیث نمبر۳ سے ملتی جلتی ہے۔ اس واسطے اس کی تصدیق اسی کی تصدیق ہے۔
تصدیق نمبر:۲… اس حدیث کو صحیح قرار دے کر مرزاخدا بخش مرزائی مصنف عسل مصفی نے استدلال کیا ہے۔ (عسل مصفی ج۲ ص۱۵۱)
تصدیق نمبر:۳… اس کی تخریج حضرت مجدد وقت، قادیانیوں کے مسلمہ امام، امام حاکم نے کی ہے۔ ترجمہ: اس کا بھی وہی سمجھ لیں جو حدیث نمبر۳ کے ذیل میں ہے۔ بہت تھوڑا اختلاف ہے۔ یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ مرزاغلام احمد قادیانی کا ناطقہ بند کرنے کو حضرت مسیح علیہ السلام کا نہ صرف نام ہی لیاگیا ہے۔ بلکہ رسول کریمﷺ نے عیسیٰ علیہ السلام ابن مریم کے ساتھ قرآنی خطاب روح اﷲ بھی بیان کر دیا۔ تاکہ کسی مصنوعی عیسیٰ (مرزاقادیانی) کی دال نہ گل سکے۔
حیات عیسی علیہ السلام پر احادیث ( آسمان سے نازل ہونے کے بارے میں امامکم منکم والی حدیث)
حدیث نمبر:۵…
’’
عن ابی ہریرہؓ قال قال رسول اﷲﷺ کیف انتم اذا نزل ابن مریم من السماء فیکم وامامکم منکم (کتاب الاسماء والصفات ص۴۲۴، باب قول اﷲ عزوجل انی متوفیک ورافعک الیّ رواہ البیہقی)‘‘
(عسل مصفی ج۲ ص۱۵۶)
تصدیق نمبر:۱… اس حدیث کے راوی قادیانیوں کے مسلم امام ومجدد صدی چہارم امام بیہقیؒ ہیں۔ پس یہ حدیث یقینا صحیح ہے۔
تصدیق نمبر:۲… اس حدیث کو مرزاخدا بخش قادیانی نے اپنی کتاب (عسل مصفی ج۲ ص۱۵۶) پر صحیح تسلیم کیا ہے۔ مگر ’’
من السمائ
‘‘ کے الفاظ ہضم کر گیا ہے۔ یہ قادیانی دیانت کا ثبوت ہے۔
’’(امام ) بیہقی نے ابوہریرہؓ سے روایت کی ہے کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا۔ (مارے خوشی کے) تمہاری کیسی حالت ہوگی۔ اس وقت جب کہ ابن مریم آسمان سے تم میں نازل ہوگا۔ درآنحالیکہ تمہارا امام تمہیں میں سے ایک شخص ہوگا۔‘‘
ناظرین! امام بیہقیؒ نے خود اپنی اسناد سے اس حدیث کو روایت کیا ہے اور ’’
من السمائ
‘‘ کے الفاظ کا اضافہ کر کے قادیانی نبی کے سینکڑوں برس بعد آنے والے اعتراضات کا جواب شارع علیہ السلام کی اپنی زبان مبارک سے اپنی صحیح میں درج کردیا۔ مرزاقادیانی اپنے منصب کا ثبوت یوں دیتے ہیں۔
۱… ’’صحیح حدیثوں میں تو آسمان کا لفظ بھی نہیں۔‘‘ (ازالہ خورد ص۶۰، خزائن ج۳ ص۱۳۲)
۲… ’’اور یہ بھی سوچ لو کہ صحیح حدیثوں میں آسمان سے اترنے کا بھی کہیں ذکر نہیں۔‘‘ (ازالہ خورد ص۲۸۳، خزائن ج۳ ص۲۴۴)
۳… ’’تمام حدیثیں پڑھ کر دیکھ لو کسی صحیح حدیث میں آسمان کا لفظ نہیں پاؤ گے۔‘‘ (چشمہ معرفت ص۲۲۰، خزائن ج۲۳ ص۲۲۹)
ناظرین! مرزاقادیانی دین سے ناواقف مسلمانوں کو اپنے دجل وفریب میں اسی طرح کے چیلنج دے کر لے آتے تھے۔ اس حدیث کی صحت میں حسب قانون مرزا کوئی عذر نہیں۔ کیونکہ اس کو امام وقت ومجدد امام بیہقیؒ نے قبول کر کے اپنی صحیح میں درج فرمایا ہے۔ دوسرے اسی ازالہ میں مرزاقادیانی لکھتے ہیں۔ ’’صحیح مسلم کی حدیث میں جو یہ لفظ موجود ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام جب آسمان سے اتریں گے تو ان کا لباس زردرنگ کا ہوگا۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۸۱، خزائن ج۳ ص۱۴۲)
تعجب ہے کہ مرزاقادیانی اس کتاب میں صحیح حدیث میں ’’آسمان سے‘‘ کے الفاظ کے ہونے سے انکار بھی کرتے ہیں۔ حالانکہ خود ہی اسی کتاب میں اس چیلنج سے پہلے ان الفاظ کا صحیح حدیث میں ہونا قبول بھی کر رہے ہیں۔
فیا للعجب
! غالباً مراق کا نتیجہ ہے۔ نوٹ:
آسمان سے نازل ہونے کی بحث مزید آگے لائیں گے۔
حیات عیسی علیہ السلام پر احادیث (کنزالاعمال سے من السماء والی حدیث ملاحظہ فرمائیں)
حدیث نمبر:۶…
’’
عن ابن عباسؓ فی حدیث طویل قال رسول اﷲﷺ فعند ذالک ینزل اخی عیسیٰ ابن مریم من السماء علی جبل افیق اماماً ہادیاً وحکما عادلا
‘‘ (کنزالاعمال ج۱۴ ص۶۱۹، حدیث نمبر۳۹۷۲۶، رواہ ابن عساکر)
تصدیق… مرزاقادیانی نے اس حدیث کو صحیح تسلیم کر لیا ہے۔ چنانچہ اس حدیث کو (حمامتہ البشریٰ ص۱۴، خزائن ج۷ ص۱۹۲ حاشیہ) میں درج کر کے اس سے استدلال کیا ہے۔ مگر ’’مجددانہ‘‘ دیانت سے کام لیتے ہوئے۔ ’’
من السمائ
‘‘ کے الفاظ کو ہضم کر گئے ہیں۔
’’حضرت ابن عباسؓ مفسر اعظم مسلمہ بقول قادیانی نبی۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۲۴۷، خزائن ج۳ ص۲۲۵، عسل مصفی ج۱ ص۲۲۴)
فرماتے ہیں کہ رسول کریمﷺ نے فرمایا کہ جب یہ باتیں ہوں گی۔ اس وقت مسیح ابن مریم آسمان سے جبل افیق پر نازل ہوگا۔
ناظرین! اس حدیث میں بھی رسول کریمﷺ نے ’’
من السمائ
‘‘ کے الفاظ ارشاد فرماکر قادیانی اعتراض کا جواب دے دیا ہے۔
۲… اس حدیث میں عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کی مزید تخصیص کرنے کے لئے آپ نے ’’
اخی
‘‘ میرا بھائی کے لفظ بڑھا کر بتلا دیا کہ عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام وہی انجیل والا نبی ہوگا۔ کیونکہ وہی عیسیٰ علیہ السلام رسول کریمﷺ کے بھائی ہوسکتے ہیں۔ اگر کوئی مصنوعی عیسیٰ بننے کی سعی کرے اور چراغ بی بی کا بیٹا ہو کر مریم کا بیٹا کہلائے اور اپنے آپ کو رسول پاکﷺ کا بیٹا بھی ظاہر کرے وہ کسی طرح اس حدیث کا مصداق نہیں ہوسکتا۔
’’اور ہم نے اولاد کی طرح اس کی (رسول کریمﷺ) وراثت پائی۔‘‘ (ضمیمہ نزول المسیح اعجاز احمدی ص۷۰،خزائن ج۱۹ ص۱۸۳)
حیات عیسی علیہ السلام پر احادیث (حضرت عیسیؑ کی مشابہت حضرت عروہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے)
حدیث نمبر:۷…
’’
عن جابرؓ ان رسول اﷲﷺ قال عرض علی الانبیاء فاذا موسیٰ ضرب من الرجال کانہ من رجال شنؤۃ ورأیت عیسیٰ ابن مریم فاذا اقرب من رأیت بہ شبہا عروۃ ابن مسعود
‘‘ (رواہ مسلم بحوالہ مشکوٰۃ ص۵۰۸، باب بدء الخلق)
حضرت جابرؓ رسول کریمﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ فرمایا آنحضرتﷺ نے کہ معراج کی رات انبیاء علیہم السلام میرے سامنے پیش کئے گئے۔ موسیٰ علیہ السلام تو دبلے پتلے تھے۔ گویا قبیلہ شنؤۃ کے مردوں سے ملتے ہیں اور عیسیٰ علیہ السلام مشابہ تھے۔ ساتھ عروہ بن مسعودؓ کے۔
حیات عیسی علیہ السلام پر احادیث (عیسی ابن مریم دجال کو ہلاک کر دیں گے)
حدیث نمبر:۸…
’’
عن عبداﷲ بن عمرؓ فی حدیث طویل قال قال رسول اﷲﷺ فیبعث اﷲ عیسیٰ ابن مریم کانہ عروۃ بن مسعودؓ فیطلبہ فیہلکہ
‘‘ (مشکوٰۃ ص۴۸۱، باب لا تقوم الساعۃ الاعلی شرار الناس)
’’پس (دجال کے نکلنے کے بعد) بھیجے گا۔ اﷲتعالیٰ، عیسیٰ علیہ السلام ابن مریم کو، گویا وہ عروۃ بن مسعودؓ ہے۔ پس وہ ڈھونڈیں گے۔ دجال کو پس ہلاک کر دیں گے اس کو۔‘‘
معزز ناظرین غور کیجئے کہ رسول کریمﷺ نے جس عیسیٰ ابن مریم (ہم شکل عروۃ بن مسعودؓ ) کو معراج کی رات آسمانی پر دیکھا تھا۔ اسی عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام (ہم شکل عروۃ بن مسعودؓ) کے آنے کی پیش گوئی فرمارہے ہیں۔ خیال فرمائیے۔ آنحضرتﷺ نے پہلے نام بیان فرمایا۔ پھر نسب بھی بتادیا تاکہ امت دھوکہ نہ کھائے۔ اس کے بعد مصنوعی عیسیٰ ابن مریم بننے والوں کو دو الگ الگ حدیثوں میں آسمان والے عیسیٰ اور نازل ہونے والے عیسیٰ کے ساتھ ابن مریم اور عروۃ بن مسعود کا ہم شکل ہونا لگا کر خردماغ انسانوں کو بھی سمجھانے کی کوشش کر گئے کہ عیسیٰ علیہ السلام ہی دوبارہ آئیں گے۔ اب بھی اگر کوئی قادیانی ’’
لا نسلم
‘‘ کی رٹ لگائے، تو اس کا علاج ہمارے پاس نہیں۔
حیات عیسی علیہ السلام پر احادیث (عیسی ابن مریم کی قبر آپ ﷺ کے پہلو میں ہو گی)
حدیث نمبر:۹…
’’
عن عائشۃؓ قالت قلت یا رسول اﷲﷺ انی اری انی اعیش بعدک فتاذن لی ان ادفن الی جنبک فقال انیّٰ بذالک الموضع مافیہ الا موضع قبری وقبر ابی بکر وعمر وعیسیٰ ابن مریم
‘‘ (مسند احمد ج۶ ص۵۷ حاشیہ)
’’حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا۔ یا رسول اﷲﷺ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میں آپ کے بعد زندہ رہوں گی۔ پس مجھے اجازت دیں کہ میں بھی آپ کے پہلو میں دفن کی جاؤں۔ پس آپ نے فرمایا۔ کس طرح ممکن ہے اس میں تو صرف چار قبروں کی جگہ ہے۔ میری قبر اور ابوبکر وعمر وعیسیٰ بن مریم کی قبر کی۔‘‘ تصدیق نمبر:۱… یہ حدیث امام احمد قادیانیوں کے مسلمہ امام ومجدد صدی دوم نے اپنی مسند میں بروایات صحیحہ درج کی ہے۔ اب کس قادیانی کی جرأت ہے کہ اپنے ہی امام اور مجدد کی روایت کردہ حدیث سے انکار کرے اور حسب الحکم مرزاقادیانی فاسق اور کافر ہو جائے۔ تصدیق نمبر:۲… حدیث کو حدیث نمبر۳ کی روشنی میں دیکھنے سے اس کی توثیق کا یقین ہو جاتا ہے۔ تصدیق نمبر:۳…تصدیق از حضرت عبداﷲ بن سلامؒ وامام بخاریؒ
’’
قال عبداﷲ بن سلام یدفن عیسیٰ ابن مریم مع رسول اﷲﷺ وصاحبیہ فیکون قبرہ رابعاً
‘‘
امام بخاری نے حضرت عبداﷲ بن سلام صحابی کا قول نقل کیا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام دفن ہوں گے۔ رسول کریمﷺ اور آپ کے دونوں ساتھیوں کے ساتھ پس ان کی قبر چوتھی ہوگی۔‘‘ (درمنثور بحوالہ اخرج البخاری فی تاریخہ) تصدیق نمبر:۴… ترمذی میں ہے: ’’
وقد بقی فی البیت موضع قبر
‘‘ یعنی حجرہ نبوی میں ایک قبر کی جگہ باقی ہے۔
محترم ناظرین! جس طرح ابھی تک حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بیوی اور اولاد کا نہ ہونا ثابت ہوچکا ہے۔ اسی طرح کرۂ ارضی پر ان کی قبر بھی نہیں ہے۔ بلکہ حسب الحکم رسول کریمﷺ آپ کے حجرہ مبارکہ میں حضرت مسیح کے لئے قبر کی جگہ خالی پڑی ہے۔ اگر وہ فوت ہوگئے ہوتے تو رسول کریمﷺ اپنے پہلو میں ان کے دفن کے لئے جگہ نہ چھڑوا جاتے۔ پس ثابت ہوا کہ ابھی تک حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں۔ نوٹ: مرزاقادیانی اور ان کی امت نے مل ملا کر سرینگر کشمیر میں ایک قبر کا نام قبر عیسیٰ علیہ السلام رکھ لیا ہے۔ مگر ابھی تک اس کا تاریخی ثبوت نہیں پہنچا سکے۔ اگر ان کے اس مضحکہ خیز دعویٰ میں ذرا بھر بھی صداقت ہوتی تو کروڑہا عیسائی سرینگر میں اپنے نبی بلکہ اپنے ابن اﷲ کی قبر کی زیارت کے لئے ہر سال ضرور جایا کرتے۔ قادیانیوں کا یہ دعویٰ محض بلادلیل ہے۔ اس کی صحت کا اندازہ آپ اسی امر سے لگا لیں کہ رسول پاکﷺ اور صحابہ کرامؓ تو فرماتے ہیں کہ ان کے دفن کرنے کے لئے جگہ حجرہ مبارکہ نبویہ میں موجود ہے اور قیامت کے دن دونوں اولوالعزم رسول ایک ہی مقبرہ سے اٹھیں گے۔ مگر مرزاقادیانی اس کی تردید کر کے ان کو دفن شدہ ثابت کرتے ہیںَ
حیات عیسی علیہ السلام پر احادیث (دجال صیاد کے قاتل عیسی ابن مریم ہیں)
حدیث نمبر:۱۰… آنحضرت رسول کریمﷺ بمعہ صحابہؓ ابن صیاد کو دیکھنے گئے۔ کیونکہ ابن صیاد کے بارہ میں صحابہؓ کو شبہ تھا کہ یہی دجال نہ ہو۔
’’
عن جابرؓ قال ان عمرؓ قال ائذن لی یا رسول اﷲ فاقتلہ فقال رسول اﷲﷺ ان یکن ہو، فلست صاحبہ انما صاحبہ عیسیٰ ابن مریم وان لم یکن ہو فلیس لک ان تقتل رجلاً من اہل العہد
‘‘ (رواہ احمد ج۳ ص۳۶۸، بحوالہ عسل مصفی ج۲ ص۲۹۲) حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ حضرت عمرؓ نے کہا یا رسول اﷲﷺ اجازت دیں۔ مجھے کہ میں ابھی ابن صیاد کو قتل کر دوں۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ اگر ابن صیاد دجال معہود ہے تو پھر تو اسے قتل نہ کر سکے گا۔ کیونکہ اس کے قاتل عیسیٰ ابن مریم ہیں۔ تصدیق نمبر:۱… مرزاقادیانی نے بھی اس حدیث کی تصدیق کی ہے۔ چنانچہ لکھتے ہیں۔
’’آنحضرتﷺ نے حضرت عمرؓ کو ابن صیاد کے قتل کرنے سے منع فرمایا اور نیز فرمایا کہ ہمیں اس کے حال میں ابھی تک اشتباہ ہے۔ اگر یہی دجال معہود ہے تو اس کا صاحب عیسیٰ ابن مریم ہے جو اسے قتل کرے گا۔ ہم اس کو قتل نہیں کر سکتے۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۲۲۵، خزائن ج۳ ص۲۱۲) تصدیق نمبر:۲…(عسل مصفی ج۲ ص۲۹۲) پر بھی اسی حدیث کو صحیح مانا گیا ہے۔ حضرات! غور کیجئے۔ یہاں سے مندرجہ ذیل باتیں اظہر من الشمس ہیں۔
۱… دجال معہود کوئی قوم نہیں بلکہ صحابہؓ اور رسول کریمﷺ کے نزدیک دجال معہود ایک شخص واحد ہے۔
۲… واقعی ابن صیاد کو دجال معہود بعض صحابہؓ نے سمجھ لیا تھا۔ کیونکہ جس قدر علامات اس وقت تک صحابہؓ کو رسول اﷲﷺ نے بتلائی تھیں۔ وہ اس میں پائی جاتی تھیں۔ مگر جب رسول کریمﷺ نے صحابہؓ کی غلط فہمی کو معلوم کیا۔ تو مفصل علامات دجال معہود بیان فرما دیں۔ پھر کسی صحابیؓ کو بھی ترددنہ ہوا۔
۳… دجال معہود ایک شخص ہوگا اور اس کو قتل کرنے والے حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہوں گے جو بیٹے ہیں۔ حضرت مریم علیہا السلام کے۔
۴… تمام صحابہ حضرت رسول کریمﷺ سے دجال کا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ہاتھوں قتل ہونا سن کر خاموش ہوگئے۔ پس رسول کریمﷺ اور تمام صحابہؓ کا حیات عیسیٰ ابن مریم پر اجماع ثابت ہوگیا۔ کیونکہ مردہ قتل نہیں کر سکتا۔ یقینا وہ زندہ ہیں۔ دجال کے ظہور کے وقت آسمان سے نزول فرما کر دجال کا مقابلہ کر کے اسے قتل کر دیں گے۔ نوٹ: مرزاقادیانی نے یہ جو لکھا ہے کہ رسول کریمﷺ نے فرمایا کہ ابھی تک ہمیں اس کے حال میں اشتباہ ہے۔ یہ محض افتراء علی الرسول ہے۔ رسول پاکﷺ نے کہیں ایسا نہیں فرمایا۔