ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے میں دوسرے کو نبی مانناغیرت ایمانی سے ٹکر ہے
ارشاد باری تعالیٰ ہےکہ میرے محبوب(صلی اللہ علیہ وسلم )جہاں جہاں میرا ذکر ہوگا وہاں وہاں میرے ساتھ تمہارا بھی ذکر ہوگا۔کرہ ارض پر ایک سیکنڈ بھی ایسا نہیں گزرتا جب سینکڑوں ہزاروںمئوذن اللہ تعالیٰ کی توحید اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا اعلان نہ کرتے ہوں اور یہ سلسلہ قیامت تک اسی طرح جاری رہے گا۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے میری روح کو پیدا فرمایااور پھر تمام مخلوق کو پیدا فرمایا اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ ہوتے تو میں افلاک کو پیدا نہ فرماتا ،اگر آپ صلی اللہ تعالی وسلم نہ ہوتے تو میں اپنی ربوبیت کو ظاہر نہ کرتا۔ مقام نبوت ورسالت کی عظمت و رفعت اور بلند ی مرتبہ کی گواہی کائنات کا ذرہ ذرہ دے رہا ہے۔کائنات کے ہر گوشے میں ذکرِ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں۔جہاں تک خالق کل کی بادشاہت ہے وہاں تک تاجدار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت و رحمت ہے۔حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمام مخلوقات سے افضل واحسن اور تمام رسولوں کے تاجدار ہیں ۔ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں فرماتےہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اچھا کسی آنکھ نے آج تک دیکھا نہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے خوبصورت کسی ماں نے آج تک جنا نہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام عیبوں سے پاک پیدا کیا گیاگویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے پیدا کیا گیا جیسا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاہا۔اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب کے حسن کو درجہ کمال تک پہنچایا اور اپنی محبت کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو منتخب فرمایا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حسن و جمال اور مردانہ وجاہت کی جو دولت عطا ہوئی وہ دنیا میں کسی نبی یا دوسرے بشر کے حصے میں نہیں آئی۔اور اللہ تعالیٰ کی محبوبیت کو پانے کا واحد ذریعہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام و مرتبہ کا بیان ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل و کمالات کا اظہار ممکن ہی نہیں کیونکہ مخلوق میں کوئی بھی نہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم جیسا علم رکھتا ہے اور نہ مرتبہ اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف اور تعارف صرف اللہ تعالیٰ ہی کر سکتے ہیں۔بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصرآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کہا گیا ۔
اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین بنایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت و نبوت کادور قیامت تک رہیگا۔ قرآن و سنت کی روشنی میں اس کو’’ عقیدہ ختم نبوت‘‘ کہتے ہیں ۔یہ عقیدہ دین اسلام کی بنیاد اور ایمان کی روح ہے۔ قرآن کریم کی ایک سوآیات مبارکہ اوردو سو دس احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اس عقیدہ کی حقانیت کی گواہی دے رہی ہیں ۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا سب سے پہلا اجماع مسئلہ ختم نبوت پر ہوا۔ جب مسیلمہ کذاب نے نبوت کا دعویٰ کیا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی پوری جماعت نے اس گستاخ کومتفقہ طور پر کافرو مرتد اور واجب قتل قرار دیکر اسے اس کی جماعت سمیت جہنم رسید کیا اوراس جنگ میں اسلامی قانون کے مطابق ان زندیقوں کے بچے، عورتیں، فصلیں، پھل غرض ہر چیز تباہ کر دی گئی حالانکہ عام کافروں کے خلاف جنگ میں ایسے سخت اقدامات کا حکم نہیں۔اسی طرح ہر دور میں مختلف لوگوں نے نبوت ، مسیحیت اور مہدویت کے جھوٹے دعوے کئے جن میں چند فتنے سو سال بلکہ دو سو سال تک بھی رہے مگر اس کے بعد ان کا کوئی نام لینے والا بھی نہیں رہا۔ برصغیرپر قبضہ کرنے کے باوجود انگریز مسلمانوں کے جذبہ جہاد سے خائف تھا۔ اس نے اسلامی تاریخ سے یہ اخذ کر لیا تھا کہ مسلمانوںکی عزت جہاد سے اور مسلمانوں کی ذلت ترک جہاد سے ہے ۔ انگریزنے جہا د کو ختم کرنے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مسلمانوں کی محبت کم کرنے کے لیے ایک انگریزی نبی بنانے کا منصوبہ بنایا۔ اس کا م کے لیے اس نے سیالکوٹ کچہری کے ایک ملازم منشی مرزا غلام احمد قادیانی کا انتخاب کیا جس کا خاندان انگریزی حکومت کا وفادار تھا ۔ مرزا غلام احمد قادیانی نے انگریز کے اجرتی ڈاکو کا کردار ادا کرتے ہوئے’’ فتنہ قادیا نیت ‘‘کی بنیاد رکھی اور عمر کا اکثر حصہ اس سلطنت انگریزی کی تائید اور حمایت میں گذارا اور ممانعت جہاد اور انگریزی اطاعت کے بارے میں اس قدر کتابیں لکھی ہیں اور اشتہار شائع کئے ہیں کہ اگر وہ رسائل اور کتابیں اکھٹی کی جائیں تو پچاس الماریاں ان سے بھر سکتی ہیں۔
قادیانیت حضو ر صلی اللہ علیہ وسلم سے بغاوت وعناد اور ختم نبوت پر ڈاکہ زنی کا دوسرانام ہے۔مرزا قادیانی نے نہ صرف نعوذباﷲ محمد رسول اللہ ہونے کا دعویٰ کیا بلکہ خدا ئی کا بھی دعوی کیا۔مرزا قادیانی نے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ،حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور تمام انبیاء کرام علیہم السلام ، صحابہ کرام اور اہلبیت رضوان اللہ علیہم اجمعین کی شان میں سنگین گستاخیاںکیں،قرآن مجید اور حرمین شریفین کی بھی سخت تذلیل کی۔مرزا قادیانی نے دنیا کے تمام مسلمانوں کو کافر اور بدکار قراردیااور صرف ان لوگوں کو مسلمان قرار دیا جو مرزا قادیانی کی دعوت قبول کریں۔مرزا قادیانی اپنی دعوت کی بارے میں لکھتا ہے کہ’’میرا مذہب جس کو میں باربار ظاہر کرتا ہوں یہی ہے کہ اسلام کے دو حصے ہیں ایک یہ کہ خداتعالی ٰکی اطاعت کریں اور دوسرے اس سلطنت (انگریز)کی جس نے امن قائم کیا ہوا ہے جس نے ظالموں کے ہاتھ سے اپنے سایہ میں ہمیں پناہ دی ہو سو وہ سلطنت برطانیہ ہے‘‘۔
قادیانیوں اور دوسرے عام کافروں میں فرق ہے ۔یہودی اپنے آپ کو یہودی ، عیسائی اپنے آپ کو عیسائی اور سکھ اپنے آپ کو سکھ کہتے ہیں لیکن قادیانی مسلمانوں سے بنیادی عقائد میں بغاوت کے باوجود اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتے ہیں اور مسلمانوں کو کافر سمجھتے ہیں،اسی لیے قادیانی عام کافر نہیں بلکہ زندیق ہیں۔زندیق وہ ہوتا ہے جو اپنے کفریہ عقائد کو اسلام کا نام دے یعنی یہ لوگ اسلام کے باغی ہیںاور اسلامی تعلیمات کی رو سے کسی رعایت اور میل ملاپ کے مستحق نہیںجس طرح کسی ملک کے باغی قابل گرفت ہوتے ہیںلہذا قادیانیوں سے مکمل قطع تعلق کریں۔شیزان اور دیگر قادیانی مصنوعات کا بائیکاٹ کریںاور ہر سطح پر ان کا مقابلہ کریں۔
اس وقت دو جماعتیں بن گئی ہیں ۔ ایک مسلمان اور دوسرے قادیانی اور ان دونوں جماعتوں کے درمیان لکیر کھنچ گئی ہے ۔ اب آپ درمیان میں نہیں رہ سکتے مہربانی کرکے ایک طرف ہو جائیے، خدا کی قسم محمدرسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے مقابلہ کی جسارت مرزا قادیانی اور اس کی ماننے والے کریں تو درمیان میں ہونے یا غیر جانبدار رہنے والے قیامت کے دن محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی امت میں شمار نہیں ہوں گے ۔ اگر آپ قیامت کے دن محمد عربی صلی اﷲ علیہ وسلم کی شفاعت چاہتے ہیں اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے جھنڈے کے نیچے جگہ چاہتے ہیں تو آپ کو ختم نبوت کاکام کرنا پڑے گا اور مرزا قادیانی کی امت اور جماعت کے مقابلے میں آنا پڑے گا ۔قادیانیوں کو شیطان سے زیادہ لعین سمجھنا جزو ایمان ہے اور اس فتنہ کا استیصال جہاد بالسیف سے کم نہیں ہے۔فتنہ قادیانیت کے خلاف کام اللہ پاک کی رضامندی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی توجہات کو اپنی طرف متوجہ کرنے کا بہترین وسیلہ اور شفاعت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کے حصول کا بہترین ذریعہ ہے۔ خوش بخت و سعادت مند انسانوں کو قدرت ان کاموں کے لئے قبول فرماتی ہے۔
اپنے مسلمان بھائیوں کو عقیدہ ختم نبوت سے آگاہ کریں اور قادیانیوں سے مکمل قطع تعلق کریں۔ان کی شرکت اپنی کسی مجلس یاکسی پروگرام ، شادی بیاہ ،خوشی غمی کی تقریبات،جنازہ وغیرہ میں برداشت نہ کریںاور ہر سطح پر ان کا مقابلہ کریں۔مرزا قادیانی کو ماننے والے اس خطرناک گروہ کی تبلیغی سرگرمیوںپر نظر رکھیں۔ علماء کرام پر یہ فریضہ عائد ہوتا ہے کہ وہ مہینے میںکم از کم ایک خطبہ جمعہ میں عقیدہ ختم نبوت کو مضبوط دلائل سے واضح کرتے ہوئے مسلمانوں کی ذہن سازی کریں۔ انٹرنیٹ والے حضرات سے درخواست ہے کہ وہ ویب سائٹ WWW.KHATMENBUWAT.ORGمستقل وزٹ کرتے رہیں ۔خود بھی استفادہ کریں اور اپنے دوستوں کو بھی بتائیں۔یہ آپ کا دینی فریضہ ہے۔ عقیدہ ختم نبوت اور ردقادیانیت پر مشتمل لٹریچر مرکز سراجیہ سے مفت حاصل کرنے اور قادیانیوں کے دجل وفریب کے جوابات حاصل کرنے کے لئے خط لکھیں،فون کریں یا خود تشریف لائیں۔تمام خواتین وحضرات سے اپیل ہے کہ یہ مضمون کثیر تعداد میں چھپوا کرمفت تقسیم کریں یا چھپوانے کے لئے ہم سے رابطہ کریں تاکہ امت مسلمہ کی نئی نسل فتنہ قادیانیت سے آگاہ ہوسکے اور کسی کی متاع ایمان نہ لٹ سکے۔اللہ رب العزت ہماری ان حقیر محنتوں کو اخلاص کی دولت سے مالا مال فرماکر اپنی رضا کا سبب بنائے۔ آمین ثم آمین
یہ اگست1958ء کی بات ہے، اس کے دو ماہ بعد اکتوبر1958ء میں فوجی انقلاب آگیا، جس کی باگ ڈور ایوب خان کے ہاتھ میں تھی۔ وہ نئے عزم اور تازہ ولولوں کے ساتھ آئے تھے۔ ان کی کابینہ میں پہلی ایندھن، بجلی اورقدرتی وسائل کی الگ وزرات قائم کی گئی، جس کی ذمہ داریاں نوجوان بھٹو کو تفویض کی گئی تھیں۔ بھٹو مرحوم بھی پرجوش تھے۔ ان کے مطابق اس وقت کمیشن کی حیثیت ’’ایک دفتر کے بورڈ سے زیادہ نہ تھی‘‘ تاہم یہ حقیقت ہے کہ کمیشن پاکستانی سائنسدانوں کی ایک معقول تعداد کو بیرون ملک ریڈیوآئی سوٹوپس اور ری ایکٹر ٹیکنالوجی میں خصوصی تربیت دلوانے میں کامیاب رہا تھا۔ایٹمی کمیشن کو از سر نو معظم کیا گیا اور ڈاکٹر عشرت حسین عثمانی 1960ء میں اس کے نئے چیئرمین مقررہ ہوگئے۔ ان دنوں ڈاکٹرعبدالسلام ایوب خاں کے سائنسی مشیر تھے۔ ڈاکٹرعثمانی کا نام انہی نے تجویز کیا تھا۔ ڈاکٹر عثمانی ایٹمی طبیعات کے آدمی تھے۔ انہوں نے کمیشن کو پہلی بار ٹھوس بنیادوں پر استوار کرنے کے لئے منصوبہ بندی کی۔بھٹومرحوم کی انہیں مکمل تائید حاصل تھی۔ پہلے مرحلے میں اندرون ملک تحقیقاتی، ترقیاتی اور تربیتی سہولتوں کے قیام پر توجہ دی گئی ، جس کے نتیجہ میں ایٹمی تحقیقات کاپہلا قومی ادارہ، پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف نیو کلیئر سائنس اور ٹیکنالوجی (Pinstech) کے نام سے قائم کرنے کی طرف پیش رفت ہوئی۔ جس کے تحت ایٹمی توانائی کے تمام شعبوں کی تجربہ گاہیں ایک ہی مقام پر قائم کرنامطلوب تھا۔ چنانچہ اسلام آباد کے قریب نیلور میں اس کی تعمیر کا آغاز1961ء میں ہوا۔ اس کے لئے عالمی شہرت یافتہ آرکیٹیکٹ ایڈورڈ ڈورل سٹون (Edward Durrel Stone) کی خدمات حاصل کی گئی تھیں۔ اس قومی ادارے کے لئے تحقیقاتی ری ایکٹر کے لئے معاہدہ 1960ء میں ہی ہوچکا تھا ۔امریکی ساخت کا یہ پانچ میگا واٹ کا ’’سوئمنگ پول‘‘ ری ایکٹر امریکہ نے ’’ایٹم برائے امن‘‘ پروگرام کے تحت مہیا کیا تھا۔ اس ری ایکٹر نے 31دسمبر 1965ء کو کام شروع کردیا۔
یہ وہ دور تھا جب بھارت پاکستان سے اس میدان میں بہت آگے نکل چکا تھا، یعنی 1956ء میں جب پاکستان کے ایٹمی توانائی کمیشن کی بنیاد رکھی جارہی تھی، بھارت کا پہلا ایٹمی ری ایکٹر سائرس کام شروع کرچکا تھا۔ تاہم پاکستانی سائنسدان اور انجینئر ابتدائی مرحلے میں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منواگئے۔ پاکستان کے اس پہلے ری ایکٹر کی ڈیزائننگ، تنصیب اور چلانے کا تمام کام پاکستانی سائنسدانوں کی ایک چھوٹی سی ٹیم نے بغیر کسی بیرونی مدد کے انجام دیا اور اس ٹیم میں نمایاں نام ڈاکٹر سعید زاہد کا ہے، جو بعد میں ڈاکٹر عبدالسلام اور منیر احمد کی سازشوں کا شکار ہوگئے اور ایک اطلاع کے مطابق یہ یگانہ روزگار سائنسدان ایٹمی ری ایکٹرز کے بارے میں جس کی صلاحیتوں کا اعتراف امریکہ کے چوٹی کے سائنسدانوں نے کیا تھا، آج اپنوں کے ہاتھوں ہی اسلام آباد میں بے یارومددگار ہے۔
بھٹو مرحوم کے بارے میں یہ بات طے ہے کہ ’’پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کا ان کا جنون اور خواب تو بہت قدیم تھا۔ انہوں نے 1965ء میں جب ایوب کابینہ میں وزیرِ خارجہ تھے ، نہایت جذباتی انداز میں کہاتھا: اگر بھارت نے ایٹم بم بنایا تو چاہے ہمیں گھاس اور پتے کھانے پڑیں یا ہم بھوکے رہے ، ہم بھی ایٹم بم بنا کر رہیں گے۔‘‘
اس وقت بعض حلقوں بالخصوص بھارت نے اسے ان کی ایک تعلی قرار دیا تھا۔ بالکل اسی طرح کی تعلی یا نعرہ جیسا بھارت سے ایک ہزار سال تک جنگ لڑنے کے لئے لگایا تھا لیکن ان کی کتاب (Myth of Independence)سے جو انہوں نے 1967ء میں مکمل کی تھی اور 1969ء میں شائع ہوئی ، کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہیںان کے ذرائع نے بھارت کے ایٹمی عزائم سے باخبر کردیا تھا۔ اس لئے انہوں نے یہ بات یونہی نہیں کی تھی، اپنی اس کتاب میں انہوں نے واضح طور پر لکھا ہے کہ بھارت بالآخر ایٹمی دھماکہ کرے گا۔ اگر پاکستان نے اپنا ایٹمی پروگرام آگے نہ بڑھایا اور اسے اس نہج پر ترتیب نہ دیا تو بھارت اپنی ایٹمی قوت کی آڑ میں نہ صرف پاکستان کو بلیک میل کرے گا، بلکہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں بھی اس کی پیش رفت کی راہ میں حائل ہوگا اور غالباً ان کا یہی احساس تھا کہ جس کے باعث انہوں نے ایوب خان کو بھی ری پروسیسنگ پلانٹ لگانے کا مشورہ دیا تھا۔ لیکن اس وقت وہ کامیاب نہ ہوسکے تھے مگر جب 1971ء میں سقوط مشرقی پاکستان کے بعد ملک کی باگ ڈور پوری طرح ان کے ہاتھ میں آئی تو انہوں نے اپنے اس دیرینہ خواب کی تعبیر پانے کا فیصلہ کیا اور اس کے لئے برسراقتدار آنے کے صرف ایک ماہ بعد 20جنوری1972ء کو پاکستان کے اندرون وبیرون ملک سے چیدہ سائنسدانوں کو ملتان میں جمع کیا اور ان کے سامنے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ پاکستان کو جلد از جلدایٹمی قوت بنا دینا چاہتے ہیں۔ ’’دی اسلامک بم‘‘ کے مصنفین سٹیوویز مین (Steve Weisman) اور ہربرٹ کروزنی (Herbert Kroseny) نے بھٹو کے پریس سیکرٹری خالد حسن کو نشے میں دھت کر کے اس سے جو کچھ اگلوایا، اس کے مطابق بھٹو اس کانفرنس میں بہت جذباتی ہورہے تھے اور انہوں نے جب ایٹم بم بنانے کی خواہش کا اظہار کیا تو ان کے سائنسی مشیر ڈاکٹر عبدالسلام ایٹمی توانائی کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر عشرت عثمانی اور کئی دوسرے سینئر سائنسدانوں نے نہ صرف اس سے اختلاف کیا بلکہ اسے ناممکن قرار دیا۔
واقفان حال کا کہناہے کہ ری پروسیسنگ پلانٹ کا آئیڈیا بھٹو مرحوم کے ذہن میں ان کے سائنسی مشیر ڈاکٹر عبدالسلام اور منیر احمد خان نے ڈالا تھااور ڈاکٹر سلام کے بارے میں یہ بات کھلا راز ہے کہ وہ پاکستان کے ایٹمی قوت بننے کے خلاف ہیں اور ملتان کانفرنس میں بھٹوسے اسی بات پر بگڑ گئے تھے۔ اسے جو ’’نوبل پرائز‘‘ ملاہے، اس کی حقیقت اس امر سے آشکار ہوجاتی ہے کہ اسے سیاسی مقصد کے لئے یہودیوں نے آئن سٹائن کی صد سالہ برسی پر اس کے لئے منتخب کیا تھا ۔پھر جیسا کہ ہم اوپر لکھ آئے ہیں ۔ لیور پلانٹ کی ڈیزائننگ میں اہم کردار ادا کرنے والے زاہد سعید کو گوشہ گمنامی میں دھکیلنے میں سب سے اہم کردار ڈاکٹر سلام نے ادا کیا۔ اسی طرح پاکستان کے ممتاز جیالوجسٹ شیرخاں کو بھی منیر احمد کے ہاتھوں اس لئے رسوا اور ملازمت سے نکلوایا گیا کہ اس نے ایوب خان کے آخری دور میں، اس وقت کہ جب عشرت عثمانی یہ رپورٹ دے چکے تھے کہ پاکستان میں یورینم نہیں ہے ، گلگت میں یورینیم کی موجودگی ثابت کردی تھی اور صدر ایوب کی ہدایت پر پاکستان اٹامک کمیشن کے ڈاکٹر غنی نے گلگت جا کر ان کی کوششوں کا جائزہ لینے کے بعد صدر کو جو رپورٹ دی تھی۔ اس میں شیرخاں کی تائید کردی تھی۔ بعد میں صدر ایوب نے فرانس کے ماہرین سے بھی تصدیق کرائی اور یہ بات بھی قومی پریس میں آچکی ہے کہ ڈاکٹر عبدالسلام جب بھی پاکستان آتے ہیں ، ایٹمی توانائی کمیشن کے کراچی گیسٹ ہائوس میں ٹھہرتے، منیر احمد سے باتیں کرتے اور بھارت کے لئے رخت سفر باندھ لیتے ہیں تاکہ وہاں اپنے آقائوں کو خوش کرسکے۔
ایٹمی توانائی کمیشن میں ان کے کئی اور نیازمند بھی موجود ہیں۔ ڈاکٹر سلام سے تعلق کے علاوہ منیر احمد نے اُردو ڈائجسٹ سے اپنے اسی انٹرویو میں ڈاکٹر کسنجر کی شاگردی اور نیازمندی پر بھی اظہار افتخار کیا ہے۔اگر یہ کہاجائے کہ بھٹو کو ری پروسیسنگ پلانٹ کی راہ پر ڈالنے کا مقصد سوائے اس کے کچھ نہیں تھا کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو مفلوج کرنے کے لئے ’’عالمی طاقتوں‘‘ کے ہاتھ مضبوط کیے جائیں، تویہ بے جانہ ہوگا ۔ تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ وہ بھٹو مرحوم کے غچہ دینے میں پوری طرح کامیاب رہے۔
مولانا کوثر نیازی نے لکھا ہے کہ ’’ری پروسیسنگ پلانٹ کی خریداری کا آئیڈیا مسٹر بھٹو کے ذہن میں ان کے سائنسی امور کے مشیر ڈاکٹر عبدالسلام اور ایٹمی توانائی کمیشن کے چیئرمین مسٹر منیر احمد خاںنے ڈالا تھا اور یہ بات طے شدہ ہے کہ ملتان کانفرنس میں ڈاکٹر عبدالسلام نے پاکستان کے ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے کی مخالفت کی تھی اور وہ اس معاملہ میں مسٹر بھٹو کے اضطراب سے اس قدر پریشان ہوئے تھے کہ ناراض ہو کر لندن چلے گئے تھے اور بھٹو کو بقول خالد حسن، اس خوف کے پیش نظر کہ ڈاکٹر عبدالسلام کہیں سارے راز ہی بے نقاب نہ کردیں، ڈاکٹر عبدالسلام کے ایک قریبی دوست اور عزیز شاگرد کو ان کے پیچھے بھیجنا پڑا تھا کہ وہ انہیں یقین دلائے کہ ملتان کانفرنس محض ایک سیاسی ڈرامہ تھا اور مسٹر بھٹو کو اس معاملے میں پاکستان کے محدودوسائل اور بے بضاعتی کا پورا احساس ہے۔ ایسے میں جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ایٹمی ری پروسیسنگ پلانٹ کا آئیڈیا دینے والوں نے مسٹر بھٹو سے فریب کیا تھا، وہ بالکل درست کہتے ہیں اور اس سے مسٹر بھٹو کے ان مشیروں کی پاکستان دوستی بھی کھل کر سامنے آجاتی ہے۔‘‘
یہ واقعہ نیاز اے نائیک سیکرٹری وزارت خارجہ نے مجھے ڈاکٹر عبدالقدیر کا ذاتی دوست سمجھے ہوئے سنایاتھا۔ انہوں نے بتایا کہ وزیرِ خارجہ صاحبزادہ یعقوب علی خاں نے انہیں یہ واقعہ ان الفاظ میں سنایا۔
’’اپنے ایک امریکی دورے کے دوران سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں بعض اعلیٰ امریکی افسران سے باہمی دلچسپی کے امور پر گفتگو کررہا تھا کہ دورانِ گفتگو امریکیوں نے حسب معمول پاکستان کے ایٹمی پروگراموں کا ذکر شروع کیا۔ اور دھمکی دی کہ اگر پاکستان نے اس حوالے سے اپنی پیش رفت فوراً بندنہ کی تو امریکی انتظامیہ کے لئے پاکستان کی امداد جاری رکھنا مشکل ہوجائے گا۔ ایک سینئر یہودی افسر نے کہا ’’ نہ صرف یہ بلکہ پاکستان کو اس کے سنگین نتائج کے بھگتنے کے لئے تیار رہنا چاہیے۔ جب ان کی گرم سرد باتیں اور دھمکیاں سننے کے بعد میں نے کہا کہ آپ کا یہ تاثر غلط ہے کہ پاکستان ایٹمی توانائی کے حصول کے علاوہ کسی اور قسم کے ایٹمی پروگرام میں دلچسپی رکھتا ہے تو سی آئی اے کے ایک افسر نے جو اسی اجلااس میں موجود تھا، کہا کہ آپ ہمارے دعویٰ کو جھٹلا نہیں سکتے۔ ہمارے پاس آپ کے ایٹمی پروگرام کی تمام تر تفصیلات موجود ہیں بلکہ آپ کے اسلامی بم کا م ماڈل بھی ہمارے پاس موجود ہے۔ یہ کہہ کر سی آئی اے کے افسر نے جو اسی اجلاس میںموجود تھا کہا کہ آپ ہمارے دعویٰ کو جھٹلا نہیں سکتے۔ ہمارے پاس آپ کے ایٹمی پروگرام کی تمام تر تفصیلات موجود ہیں بلکہ آپ کے اسلامی بم کا ماڈل بھی ہمارے پاس موجود ہے۔ یہ کہہ کے سی آئی اے کے افسر نے قدرے غصے بلکہ ناقابل برداشت بدتمیزی کے اندازمیں کہا کہ آئیے میرے ساتھ بازووالے کمرے میں۔ میں آپ کو بتائوں آپ کا اسلامی بم کیا ہے؟ یہ کہہ کر وہ اٹھا۔ دوسرے امریکی افسر بھی اٹھ بیٹھے۔ میں بھی اٹھ بیٹھا۔ ہم سب اس کے پیچھے کمرے سے باہر نکل گئے۔ میری سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا کہ سی آئی اے کا یہ افسر ہمیں دوسرے کمرے میں کیوں لے کر جارہا ہے۔ اور وہاں جاکریہ کیا کرنے والا ہے۔ اتنے میں ہم سب ایک ملحقہ کمرے میں داخل ہوگئے۔ سی آئی اے کا افسر تیزی سے قدم اٹھا رہا تھا۔
ہم اس کے پیچھے پیچھے چل رہے تھے۔ کمرے کے آخر میں جا کر اس نے بڑے غصے کے عالم میں اپنے ہاتھ سے ایک پردہ کو سرکایا تو سامنے میز پر کہوٹہ ایٹمی پلانٹ کا ماڈل رکھا ہوا تھا اور اس کے ساتھ ہی دوسری طرف ایک سٹینڈ پر فٹ بال نما کوئی گول سی چیز رکھی ہوئی تھی۔ سی آئی اے کے افسر نے کہا ’’یہ ہے آپ کا اسلامی بم۔ اب بولو تم کیا کہتے ہو۔ کیا تم اب بھی اسلامی بم کی موجودگی سے انکار کرتے ہو؟ میںنے کہا میں فنی اور تکنیکی امور سے نابلد ہوں۔ میں یہ بتانے یا پہچان کرنے سے قاصر ہوں کہ یہ فٹ بال قسم کا گولہ کیا چیز ہے اور یہ کس چیز کا ماڈل ہے۔ لیکن اگر آپ لوگ بضد ہیں کہ یہ اسلامی بم ہے تو ہوگا، میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ سی آئی اے کے افسر نے کہا کہ آپ لوگ تردید نہیں کرسکتے۔ ہمارے پاس ناقابل تردید ثبوت موجود ہیں۔ آج کی میٹنگ ختم کی جاتی ہے۔ یہ کہہ کر وہ کمرے سے باہر کی طرف نکل گیا اور ہم بھی اس کے پیچھے پیچھے کمرے سے باہر نکل گئے۔ میرا سرچکرارہا تھاکہ یہ کیا معاملہ ہے؟
جب ہم کاریڈور سے ہوتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے تو میں نے غیر ارادی طور پر پیچھے مڑ کر دیکھا۔ میں نے دیکھا کہ ڈاکٹر عبدالسلام ایک دوسرے کمرے سے نکل کر اس کمرے میںداخل ہورہے تھے، جس میں بقول سی آئی اے کے اسلامی بم کاماڈل پڑا ہوا تھا۔ میںنے اپنے دل سے کہا اچھا تو یہ بات ہے۔‘‘
اپنے مسلمان بھائیوں کو عقیدہ ختم نبوت سے آگاہ کریں اور قادیانیوں سے مکمل قطع تعلق کریں۔ان کی شرکت اپنی کسی مجلس یاکسی پروگرام ، شادی بیاہ ،خوشی غمی کی تقریبات،جنازہ وغیرہ میں برداشت نہ کریںاور ہر سطح پر ان کا مقابلہ کریں۔مرزا قادیانی کو ماننے والے اس خطرناک گروہ کی تبلیغی سرگرمیوںپر نظر رکھیں۔ علماء کرام پر یہ فریضہ عائد ہوتا ہے کہ وہ مہینے میں کم از کم ایک خطبہ جمعہ میں عقیدہ ختم نبوت کو مضبوط دلائل سے واضح کرتے ہوئے مسلمانوں کی ذہن سازی کریں۔ انٹرنیٹ والے حضرات سے درخواست ہے کہ وہ ویب سائٹ WWW.KHATMENBUWAT.ORGمستقل وزٹ کرتے رہیں ۔خود بھی استفادہ کریں اور اپنے دوستوں کو بھی بتائیں۔یہ آپ کا دینی فریضہ ہے۔ عقیدہ ختم نبوت اور ردقادیانیت پر مشتمل لٹریچر مرکز سراجیہ سے مفت حاصل کرنے اور قادیانیوں کے دجل وفریب کے جوابات حاصل کرنے کے لئے خط لکھیں،فون کریں یا خود تشریف لائیں۔تمام خواتین وحضرات سے اپیل ہے کہ یہ مضمون کثیر تعداد میں چھپوا کرمفت تقسیم کریں یا چھپوانے کے لئے ہم سے رابطہ کریں تاکہ امت مسلمہ کی نئی نسل فتنہ قادیانیت سے آگاہ ہوسکے اور کسی کی متاع ایمان نہ لٹ سکے۔اللہ رب العزت ہماری ان حقیر محنتوں کو اخلاص کی دولت سے مالا مال فرماکر اپنی رضا کا سبب بنائے۔ آمین ثم آمین
چوہدری اشتیاق احمد خا ن ایڈووکیٹ سپریم کورٹ
حضرت محمد مصطفیصلی اللہ علیہ وسلم ، اللہ تعالیٰ کے آخری نبی اور رسول ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی قسم کا کوئی تشریعی، غیر تشریعی، ظلی، بروزی یا نیا نبی نہیں آئے گا۔پوری ملت اسلامیہ کا متفقہ فیصلہ ہے کہ قادیانی مرزا غلام احمد قادیانی کو نبی ماننے کی وجہ سے کافر، مرتد ، زندیق اور گستاخ رسول ؐ ہیں۔علامہ اقبالؒ نے پنڈت جواہر لعل نہرو کے نام ایک خط میں فرمایا تھا: ’’قادیانی اسلام اور ملک دونوں کے غدار ہیں۔‘‘ لاہور ہائیکورٹ نے قادیانیوںکے خلاف اپنے ایک فیصلہ میں لکھا:’’مرزا قادیانی نے’’محمد رسول اللہ‘‘ ہونے کا دعویٰ کیااور ان تمام لوگوں کے خلاف بے حد غلیظ زبان استعمال کی، جنہوں نے اس کے نبوت کے دعویٰ کو مسترد کیا اور اس (مرزا قادیانی)نے خود اعلان کیا کہ وہ برطانوی سامراج کی پیداوار یعنی اس کا’’خود کاشتہ پودا‘‘ ہے۔ لہذا جب وہ اس بات کا دعویٰ کرتا ہے کہ وہ خود’’محمد رسول اللہ‘‘ ہے اوراس کے پیروکار اس کو ایسا ہی مانتے ہیں، تو اس صورت میں وہ رسول اکرم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شدید توہین اور تحقیر کے مرتکب ہوتے ہیں‘‘
(پی ایل ڈی،1987ء لاہور458)۔
قادیانیوں کے کفریہ عقائد و عزائم کی بناء پر ملک کی منتخب جمہوری حکومت( پیپلز پارٹی) نے متفقہ طور پر 7 ستمبر1974 کو انہیں غیر مسلم اقلیت قرار دیا اورآئین پاکستان کی شق 106(2)اور260(3) میں اس کا اندراج کردیا۔ جمہوری نظامِ حکومت میں کوئی بھی اہم فیصلہ ہمیشہ اکثریتی رائے کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ لیکن یہ دنیا کی تاریخ کا واحد واقعہ ہے کہ حکومت نے فیصلہ کرنے سے پہلے قادیانی جماعت کے سربراہ مرزا ناصر کو پارلیمنٹ کے سامنے اپنا نکتہ نظر پیش کرنے کے لیے بلایا۔ اسمبلی میں اس کے بیان کے بعد حکومت کی طرف سے اٹارنی جنرل جناب یحییٰ بختیار نے قادیانی عقائد کے حوالے سے اُس پر جرح کی جس کے جواب میں مرزا ناصر نے نہ صرف مذکورہ بالا تمام عقائد و نظریات کا برملا اعتراف کیا بلکہ باطل تاویلات کے ذریعے ان کا دفاع بھی کیا۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ قادیانی، پارلیمنٹ کے اس متفقہ فیصلے کو تسلیم کرنے سے یکسر انکاری ہیں۔ قادیانیوں نے آئین میں دی گئی اپنی حیثیت کو تسلیم نہیں کیا جسے وفاقی شرعی عدالت نے اپنے تفصیلی فیصلے (PLD 1985 FSC 8) میں لکھا کہ’’اس اعلان کے نتیجے میں، جو مسلمانوں کے متفقہ مطالبے پر منظور ہوا تھا،قادیانیوں کے لئے روا نہ تھا کہ وہ خودکو مسلمان کہتے یا اپنے تصور کے اسلام کی، حقیقی اسلام کے طور پہ اشاعت کرتے۔ لیکن انہوں نے آئینی ترمیم کا بالکل احترام نہیں کیا اور اپنے عقیدے کو پہلے کی طرح اسلام قرار دیتے رہے۔وہ اپنی کتابوں اور رسالوں وغیرہ کی اشاعت کے ذریعے نیز انفرادی طور پر مسلمانوں کے اندر اپنے مذہب کی آزادانہ تبلیغ کرتے ہوئے غیظ وغضب کا باعث بنتے رہے‘‘۔
قادیانی اس فیصلے کو تسلیم نہ کرنے کی وجہ سے نہ صرف آئین کے باغی ہیں بلکہ اُلٹا وہ مسلمانوں کو کافر کہتے ہیں۔ وفاقی شرعی عدالت کے پانچ رکنی بینچ نے اپنے ایک فیصلے میں لکھا ہے کہ ’’قادیانیوں نے الٹا مسلمانوں کو غیر مسلم اور دائرہ اسلام سے خارج قرار دے کر اپنے آپ کو ایسی جماعت کی جگہ، جس میں قرآن کریم کی محبت اور عقیدت سب سے بلند ہے،امت مسلمہ قرار دے لیا ہے۔یہ برداشت نہیں کیا جاسکتا اور غیر مسلموں کو یہ اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ امت کا شیرازہ بکھیرکر مسلمانوں کے حقوق اور مراعات پر غاصبانہ قبضہ کر لیں‘‘ (PLD 1985 FSC 8)۔ لاہور ہائیکورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں لکھا ہے’’قادیانیوں کے نزدیک غیر قادیانی یا غیر احمدی کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔ اس طرح انہوں نے اپنی علیحدہ امت بنالی ہے جو امت مسلمہ کا حصہ نہیں۔ یہ چیز خود ان کے طرز عمل اور عقائد سے ثابت ہے، وہ خود کو مسلمانوں کو اپنی ملت سے خارج گردانتے ہیں۔
(PLD 1992 Lahore 1)
قادیانیوں کو شعائر اسلامی کے استعمال اور اس کی توہین سے روکنے کے لیے 26 اپریل 1984ء کو حکومت پاکستان نے امتناع قادیانیت آرڈیننس جاری کیا جس کی رو سے قادیانی خود کو مسلمان نہیں کہہ سکتے اور اپنے مذہب کے لیے اسلامی شعائرو اصطلاحات استعمال نہیں کر سکتے۔ اس آرڈیننس کے ذریعہ تعزیراتِ پاکستان میں دو نئی دفعات 298/Bْْ اور 298/Cکا اضافہ کیا گیا ہے
298/B بعض مقدس شخصیات یا مقامات کے لیے مخصوص القاب‘ اوصاف یا خطابات وغیرہ کا ناجائز استعمال
1۔ قادیانی گروپ یا لاہوری گروپ (جو خود کو ’’احمدی‘‘ یا کسی دوسرے نام سے موسوم کرتے ہیں) کا کوئی شخص حضرت محمدﷺ کے خلیفہ یا صحابی کے علاوہ کسی شخص کو امیر المومنین‘ خلیفۃالمومنین‘ خلیفۃ المسلمین‘ صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے طور پر منسوب کرے یا مخاطب کرے۔حضرت محمد ﷺ کی کسی زوجۂ مطہرہ کے علاوہ کسی ذات کو ام المومنین کے طور پر منسوب کرے یا مخاطب کرے۔حضرت محمد ﷺ کے خاندان (اہلِ بیت) کے کسی فرد کے علاوہ کسی شخص کو اہل بیت کے طور پر منسوب کرے یا موسوم کرے یا پکارے۔اپنی عبادت گاہ کو ’’مسجد‘‘ کے طور پر منسوب کرے یا موسوم کرے یا پکارے تو اسے کسی ایک قسم کی سزائے قید اتنی مدت کے لیے دی جائے گی جو تین سال تک ہو سکتی ہے اور وہ جرمانے کا بھی مستوجب ہو گا۔
2۔ قادیانی گروپ یا لاہوری گروپ (جو خود کواحمدی یا کسی دوسرے نام سے موسوم کرتے ہیں) کا کوئی شخص جو الفاظ کے ذریعے خواہ زبانی ہوںیا تحریری یا مرئی نقوش کے ذریعے اپنے مذہب میں عبادت کے لیے بلانے کے طریقے یا صورت کو اذان کے طور پر منسوب کرے یا اس طرح اذان دے جس طرح مسلمان دیتے ہیں تو اسے کسی ایک قسم کی سزائے قید اتنی مدت کے لیے دی جائے گی جو تین سال ہو سکتی ہے اور وہ جرمانے کا مستوجب بھی ہو گا۔
298/C قادیانی گروپ وغیرہ کا شخص جو خود کو مسلمان کہے یا اپنے مذہب کی تبلیغ یا تشہیر کرے
قادیانی گروپ یا لاہوری گروپ ( جو خود کو احمدی یا کسی دوسرے نام سے موسوم کرتے ہیں) کا کوئی شخص جوبلا واسطہ یا بالواسطہ خود کومسلمان ظاہر کرے یا اپنے مذہب کو اسلام کے طور پر موسوم کرے یا منسوب کرے یا الفاظ کے ذریعے خواہ زبانی ہوں یا تحریری یا مرئی نقوش کے ذریعے اپنے مذہب کی تبلیغ یا تشہیر کرے یا دوسروں کو اپنا مذہب قبول کرنے کی دعوت دے یا کسی بھی طریقے سے مسلمانوں کے مذہبی احساسات کو مجروح کرے‘ کو کسی ایک قسم کی سزائے قید اتنی مدت کے لیے دی جائے گی جو تین سال تک ہو سکتی ہے‘ اور جرمانے کا بھی مستوجب ہو گا۔یہ جرم قابل دست اندازی پولیس اور ناقابل ضمانت ہوگا۔
قادیانیوں نے ان پابندیوں کو وفاقی شرعی عدالت، لاہور ہائی کورٹ، کوئٹہ ہائی کورٹ وغیرہ میں چیلنج کیا جہاں انھیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔قادیانیوں کے خلاف وفاقی شرعی عدالت نے یادگار اور تاریخی فیصلہ دیا جس کی قادیانیوں کی طرف سے دائر کردہ اپیل سپریم کورٹ شریعت ا پیلٹ بینچ نے خارج کرکے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے پر مہر تصدیق ثبت کردی۔ وفاقی شرعی عدالت نے آرڈیننس کے بارے میں لکھا کہ ’’ اس سوال پر ہم ٖغور کر چکے ہیں اور اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ہر دو عقیدوں کے قادیانی مسلمان نہیں ہیں ، بلکہ غیر مسلم ہیں۔ لہذا آرڈیننس انہیں اپنے آپ کو ایسا کہلانے سے روکتا ہے جو وہ نہیں ہیں۔کیونکہ ان کو جھوٹ موٹ مسلمان ظاہر کرکے کسی شخص، خصوصا امت مسلمہ کو دھوکہ دینے کی اجازت نہیں دی جاسکتی‘‘۔۔۔۔۔۔’’اہل بیت کی اصطلاح بھی جیسا کہ کئی احادیث سے واضح ہوتا ہے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان کے افراد کے لئے مخصوص ہے۔ایسے اشخاص جو مسلمان نہیں یا جو مسلمان نہیں تھے ان کو اس نام سے نہیں پکارا جا سکتا۔قادیانیوں کی طرف سے مرزا صاحب کے افراد ِخاندان کے لیے ایسے نام کا استعمال زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔وہ اوصاف جن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے افراد ِخاندان متصف تھے وہ کسی اور شخص میں موجود نہیں ہو سکتے، اس لئے یہ کوئی حیرت کی بات نہیںکہ مسلمانوں نے اس توہین کا برا منایا۔اس اصطلاح کے استعمال سے امن وامان کے صورت حال خراب ہوتی ہے۔ لہذا یہی امت کے مفاد میں تھا کہ اس کے استعمال کو فوجداری جرم قرار دے کر قادیانیوں کو اس کے استعمال سے منع کردیا جائے‘‘
(PLD 1985 FSC 8) ۔
اس کے باوجودقادیانی خود کو مسلمان کہنے اور شعائر اسلامی کے استعمال سے باز نہیں آئے۔قادیانی 298-B پی پی سی میں مخصوص کئے گئے الفاظ کے علاوہ دیگر شعائر اسلامی اور کلمات کا استعمال آزادی سے کرتے رہے، جسے اعلی عدالتوں نے منع کیا کہ قادیانی کوئی بھی شعائر اسلامی استعمال نہیں کر سکتے کیونکہ اس طرح وہ مسلمان ظاہر ہوتے ہیں جو قانون کے مطابق ممنوع ہے۔ننکانہ صاحب کے چند قادیانیوں نے اپنے ہاں شادی کے لئے ایک دعوتی کارڈ شائع کیا جس میں شعائر اسلامی کا استعمال کیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ شادی کارڈ کسی غیر مسلم کا نہیں بلکہ مسلمان کا ہے۔ مثلاً نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم ، بسم اللہ الرحمن الرحیم ، اسلام علیکم۔ نکاح مسنونہ وغیرہ کے الفاظ وغیرہ لکھوائے۔ ان قادیانیوں کے خلاف شعائر اسلامی کے استعمال کرنے کے جرم میں مقدمہ درج کروایا گیا۔ قادیانیوں نے اس مقدمہ میں ضمانت کے کیس میں لاہورہائیکورت میں موقف پیش کیا کہ ’’قانون قادیانیوں کو صرف ان مخصوص الفاظ کے استعمال سے روکتا ہے جو دفعہ298-B پی سی پی میں درج ہیں نہ کہ دوسرے کلمات جو دعوت ناموں میں استعمال کئے جاتے ہیں‘‘۔لاہورہائیکورٹ نے اپنے فیصلے (1992 Pcr LJ 2346) مورخہ02 اگست 1992ء میں لکھا کہ ’’فاضل وکیل درخواست دہند گان کی اس دلیل میں کوئی وز ن نہیںہے کہ قادیانیوں کے صرف 298-Bپی سی پی میں مخصوص کیے گئے الفاظ کے استعمال سے روکا گیا ہے اور یہ کہ انہیں (قادیانیوں کو) شعائرِ اسلام اور دیگر کلمات ، جنہیں مسلمان استعمال کرتے اور دعوت ناموں پر لکھتے ہیں، استعمال کرنے کی آزادی ہے۔
اسی نوعیت کے ایک دوسرے کیس میں لاہور ہائیکورٹ نے اپنے فیصلے میں لکھا’’شادی کے دعوت نامے پر سرسری نظر ڈالنے سے واضح طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ مسلمانوں کی طرف سے شائع اور تقسیم کئے گئے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قادیانی یا مرزا قادیانی کے دوسرے پیروکار زیرِ دفعہ298-Bپی پی سی کے تحت کچھ مخصوص کلمات مثلاً امیر المومنین، خلیفۃ المومنین، خلیفۃ المسلمین، صحابی یا اہل بیت وغیرہ کا استعمال نہیں کرسکتے۔ تاہم یہ مذکورہ ممنوعہ کلمات قادیانیوں کو اس بات کا لائسنس نہیں دے دیتے کہ وہ د یگر اس قسم کے مشابہ کلمات یا شعائرِ اسلام استعمال کریں جو عام طور پر مسلمان استعمال کرتے ہیں، کیونکہ اس طرح کرنے سے یہ (قادیانی) اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کررہے ہوں، جو قانون کے مطابق ممنوع ہے‘‘ لاہورہائیکورٹ
(1992 PCR. LJ 2351) ۔
بالآخر قادیانیوں نے سپریم کورٹ آف پاکستان میں اپیل دائر کی کہ انھیں شعائر اسلامی استعمال کرنے کی اجازت دی جائے۔ سپریم کورٹ کے فل بنچ جو جناب جسٹس عبدالقدیر چوہدری ، جناب جسٹس شفیع الرحمن، جناب جسٹس محمد افضل لون ، جناب جسٹس سلیم اختر ، جناب جسٹس ولی محمد خاںپر مشتمل تھا، نے اس کیس کی مفصل سماعت کی۔ دونوں اطراف سے دلائل و براہین دیئے گئے۔ اصل کتابوں سے متنازع ترین حوالہ جات پیش کیے گئے۔ فاضل جج صاحبان نے جب قادیانی عقائد پر نظر دوڑائی تو وہ لرز کر رہ گئے۔ فاضل جج صاحبان کا کہنا تھا کہ قادیانی اسلام کے نام پر لوگوں کو دھوکہ دیتے ہیں جبکہ دھوکہ دینا کسی کا بنیادی حق نہیں ہے اور نہ دھوکہ باز کو روکنے سے اس کے حقوق سلب ہوتے ہیں۔ خود سپریم کورٹ کے فل بنچ نے قادیانیوں کی اپیلیں خارج کرتے ہوئے اپنے نافذ العمل فیصلہ میں لکھا:’’ احمدی ان شعائر کی بے حرمتی کرتے رہے ہیں اور اپنے قائدین و معمولات پر ان کا اطلاق کرتے رہتے ہیںتا کہ لوگوں کو یہ دھوکا دے سکیں کہ وہ بھی اسی مقام و مرتبہ اور صلاحیت کے حامل ہیں۔ احمدیوں کے اس عمل نے نہ صرف معصوم، سادہ اور بے خبر لوگوں کو گمراہ کیا بلکہ پوری مدت کے دوران امن و امان کا مسئلہ خراب کرتے رہے۔ اس لیے قانون سازی کی ضرورت تھی جو کسی بھی لحاظ سے احمدیوں کی مذہبی آزادی میں دخل نہیں دیتی۔ یہ قانون محض انہیں ایسے القابات و خطابات استعمال کرنے سے روکتا ہے جن پر ان کا کسی قسم کا حق نہیں، ازروئے قانون ان پر نئے القابات و اصطلاحات وضع کرنے کی کوئی پابندی نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔احمدی دوسری اقلیتوں کی طرح اپنے مذہب پر عمل کرنے میں آزاد ہیں اور ان کے اس حق کو قانون یا انتظامی احکامات کے ذریعے کوئی نہیں چھین سکتا۔ بہرحال ان پر لازم ہے کہ وہ آئین اور قانون کا احترام کریں اور انہیں اسلام سمیت کسی دوسرے مذہب کی مقدس ہستیوں کی بے حرمتی یا توہین نہیں کرنی چاہیے، نہ ہی ان کے مخصوص خطابات، القابات و اصطلاحات استعمال کرنے چاہئیں نیز مخصوص نام مثلاً مسجد اور مذہبی عمل مثلاً اذان وغیرہ کے استعمال سے اجتناب کرنا چاہیے تاکہ مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس نہ پہنچے اور لوگوں کے عقیدہ کے بارے میں گمراہ نہ کیا جائے اور دھوکہ نہ دیا جائے۔‘‘
سپریم کورٹ آف پاکستان کے اس تاریخی فیصلہ ظہیرالدین بنام سرکار (1993 SCMR 1718) کی رو سے کوئی قادیانی خود کو مسلمان نہیں کہلوا سکتا اور نہ ہی اپنے مذہب کی تبلیغ کر سکتا ہے۔ اس کے باوجود قادیانی آئین، قانون اور اعلیٰ عدالتی فیصلوں کا مذاق اڑاتے ہوئے خود کو مسلمان کہلواتے، اپنے مذہب کی تبلیغ کرتے، گستاخانہ لٹریچر تقسیم کرتے، شعائر اسلامی کا استعمال کر کے اسلامی مقدس شخصیات و مقامات کی توہین کرتے ہیں۔ افسوس یہ ہے کہ قادیانیوں کی ان آئین شکن، خلاف قانون اور انتہائی اشتعال انگیز سرگرمیوں پر قانون نافذ کرنے والے ادارے مجرمانہ غفلت اور خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں ۔حکومت اگر پارلیمنٹ اور قانون کی بالادستی پر یقین رکھتی ہے تو وہ قادیانیوں کو آئین ،قانون اور عدالتی فیصلوں کا پابند کرے تاکہ کہیں بھی لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال خرابنہ ہو۔
اپنے مسلمان بھائیوں کو عقیدہ ختم نبوت سے آگاہ کریں اور قادیانیوں سے مکمل قطع تعلق کریں۔ان کی شرکت اپنی کسی مجلس یاکسی پروگرام ، شادی بیاہ ،خوشی غمی کی تقریبات،جنازہ وغیرہ میں برداشت نہ کریںاور ہر سطح پر ان کا مقابلہ کریں۔مرزا قادیانی کو ماننے والے اس خطرناک گروہ کی تبلیغی سرگرمیوںپر نظر رکھیں۔ علماء کرام پر یہ فریضہ عائد ہوتا ہے کہ وہ مہینے میں کم از کم ایک خطبہ جمعہ میں عقیدہ ختم نبوت کو مضبوط دلائل سے واضح کرتے ہوئے مسلمانوں کی ذہن سازی کریں۔ انٹرنیٹ والے حضرات سے درخواست ہے کہ وہ ویب سائٹ WWW.KHATMENBUWAT.ORGمستقل وزٹ کرتے رہیں ۔خود بھی استفادہ کریں اور اپنے دوستوں کو بھی بتائیں۔یہ آپ کا دینی فریضہ ہے۔ عقیدہ ختم نبوت اور ردقادیانیت پر مشتمل لٹریچر مرکز سراجیہ سے مفت حاصل کرنے اور قادیانیوں کے دجل وفریب کے جوابات حاصل کرنے کے لئے خط لکھیں،فون کریں یا خود تشریف لائیں۔تمام خواتین وحضرات سے اپیل ہے کہ یہ مضمون کثیر تعداد میں چھپوا کرمفت تقسیم کریں یا چھپوانے کے لئے ہم سے رابطہ کریں تاکہ امت مسلمہ کی نئی نسل فتنہ قادیانیت سے آگاہ ہوسکے اور کسی کی متاع ایمان نہ لٹ سکے۔اللہ رب العزت ہماری ان حقیر محنتوں کو اخلاص کی دولت سے مالا مال فرماکر اپنی رضا کا سبب بنائے۔ آمین ثم آمین
تحفظ ختم نبوت کا کام شفاعت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کے حصول کا بہترین ذریعہ ہے۔ قادیانیوں کو شیطان سے زیادہ لعین سمجھنا جزو ایمان ہے اور اس فتنہ کا استیصال جہاد بالسیف سے کم نہیں ہے۔
فتنہ قادیانیت کے خلاف کام اللہ پاک کی رضامندی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی توجہات کو اپنی طرف متوجہ کرنے کا بہترین وسیلہ ہے۔خوش بخت و سعادت مند انسانوں کو قدرت ان کاموں کے لئے قبول فرماتی ہے۔اگر آپ روز محشر حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت حاصل کرنا چاہتے ہیں توتحفظ ختم نبوت کے اعلی ترین کام میں شریک ہوں۔اس سلسلہ میں مسلمانوں سے اپیل کی جاتی ہے کہ
1 ۔ قادیانی ارتدادپھیلانے کے لئے اربوں روپے خرچ کررہے ہیں اوراپنے کفریہ عقائد پر مبنی لٹریچر کثیر تعداد میں چھپوا کر پوری دنیا میں تقسیم کر رہے ہیں۔ شیزان فیکٹری اور دیگر قادیانی کاروباری ادارے اپنی مصنوعات کی فروخت سے کروڑوں روپے سالانہ قادیانی جماعت کو فنڈ دیتے ہیں ۔جو مسلمانوں سے کما کرانہی کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے لہٰذا ان کی تمام تر مصنوعات اور اداروں کا مکمل با ئیکاٹ کرنا ہر عا شق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا دینی وملی فریضہ ہے۔
2 ۔ 1974ء کو پاکستان کی منتخب پارلیمنٹ نے قادیانیوں کو ان کے کفریہ عقائد کی بناء پر غیر مسلم اقلیت قرار دیا ۔ 1984ء کو حکومت پاکستان نے قادیانیوں کو شعار اسلام استعمال کرنے ،اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرنے اور قادیانیت کی تبلیغ کرنے سے روک دیا ۔اگر کوئی قادیانی ایسا کرتا نظر آئے تو تعزیرات پاکستان کی دفعہ 298/Cکے تحت ثبوت اور معززین علاقہ کے ہمراہ تھانہ میں جا کر ان کے خلاف مقدمہ درج کروائیں یہ آپ کا قانونی اور مذہبی فریضہ ہے ۔
3 ۔ مرزا قادیانی خود محمد رسول اللہ ہونے کا دعویدار ہے ،اس طرح وہ شان رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میںبدترین توہین کامرتکب ہوا ہے لہٰذا مرزا قادیانی کو ماننے والے خطرناک گروہ کی تبلیغی سرگرمیوںپر نظر رکھیں۔ان کی ارتدادی سرگرمیوں کو روک کر ہی مسلمان ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی وابستگی قائم رکھ سکتے ہیں۔
4 ۔ قادیانی سوال کرتے ہیں کہ ہم کلمہ پڑھتے ہیں،نماز پڑھتے ہیں، حج کرتے ہیں پھر بھی یہ مولوی لوگ ہمیں کافر کیوں کہتے ہیں؟یہ قادیانیوں کا دھوکہ ہے۔قادیانی کافر ہوکر بھی ہم سب مسلمانوں کو کافر کہتے ہیں۔ مرزا قادیانی کہتا ہے کہ ’’ ہر ایک شخص جس کو میری دعوت پہنچی ہے اور اس نے مجھے قبول نہیں کیا۔ وہ مسلمان نہیں ہے ‘‘۔ قادیانی کہتے ہیں کہ ہم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین مانتے ہیں ۔یہ بھی قادیانیوں کا دھوکہ ہے۔قادیانی خاتم النبیین سے افضل نبی مراد لیتے ہیں ،آخری نبی معنی مراد نہیں لیتے ہیں،خاتم کے معنی افضل دنیا کی کسی ڈکشنری میں نہیں۔قادیانی مسلمانوں کو کہتے ہیں کہ آپ استخارہ کر کے دیکھ لو ہم صحیح ہیں ۔یہ بھی قادیانیوں کادھوکہ ہے ۔ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ نے فرمایاکہ ’’مدعی نبوت سے دلیل طلب کرنے والا بھی کافر ہو جاتا ہے‘‘۔ایسے سوالات اور قادیانیوں کے دجل و فریب کے جوابات حاصل کرنے کے لئے آپ مرکز سراجیہ میں رابطہ کریں۔
5۔ علماء کرام پر یہ فریضہ عائد ہوتا ہے کہ وہ مہینے میںکم از کم ایک خطبہ جمعہ میں عقیدہ ختم نبوت کو مضبوط دلائل سے واضح کرتے ہوئے مسلمانوں کی ذہن سازی کریںتاکہ بے خبر مسلمان قادیانیوںکی ارتدادی چالوں سے محفوظ رہ سکیں۔
6 ۔ انٹرنیٹ والے حضرات سے درخواست ہے کہ وہ ویب سائٹ www.endofprophethood.com مستقل وزٹ کرتے رہیں ۔خود بھی استفادہ کریں اور اپنے دوستوں کو بھی بتائیں۔یہ آپ کا دینی فریضہ ہے۔
7 ۔ عقیدہ ختم نبوت اور ردقادیانیت پر مشتمل لٹریچر مرکز سراجیہ سے مفت حاصل کرنے کے لئے خط لکھیں،فون کریں یا خود تشریف لائیں اور اس موضوع پر جامع سی ڈیز(CDs)بھی دستیاب ہیں۔
8 ۔ قادیانیوںکی اصل کتابوں سے حوالہ جات کی تصدیق کے لئے مرکز سراجیہ سے رابطہ فرمائیں اور حوالہ جات کی قادیانیوںکی اصل کتابوں سے لی گئی فوٹو کاپی بھی منگوا سکتے ہیں۔
9 ۔ اپنے مسلمان ساتھیوں کو عقیدہ ختم نبوت سے آگاہ کریں اور قادیانیوں سے مکمل قطع تعلق کریں۔ان کو اپنی کسی مجلس یاکسی پروگرام ،شادی بیاہ ،خوشی غمی کی تقریبات،جنازہ وغیرہ میں برداشت نہ کریں۔اور ہر سطح پر ان کا مقابلہ کریں۔
10 ۔ تمام خواتین وحضرات سے اپیل ہے کہ ختم نبوت کا لٹریچر کثیر تعداد میں چھپوا کرمفت تقسیم کریں یا چھپوانے کے لئے ہم سے رابطہ کریں تاکہ امت مسلمہ کی نئی نسل فتنہ قادیانیت سے آگاہ ہوسکے اور کسی کی متاع ایمان نہ لٹ سکے۔
11۔ تمام خواتین و حضرات سے اپیل ہے کہ اپنے عطیات، صدقات، زکوٰۃ مرکز سراجیہ کو دیں تاکہ امور دینیہ اور جملہ منصوبوں کی تکمیل میں آپ کا حصہ بھی شامل ہو۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اجر عظیم عطا فرمائے۔آپ اپنے عطیات وغیرہ کرنٹ اکائونٹ نمبر1246-82 بنام مرکز سراجیہ ٹرسٹ حبیب بنک فیکٹری ایریا گلبرگ برانچ میں بھیج سکتے ہیں۔
اسلامیان عالم ہمت کریں آگے بڑھیں، منزل قریب ہے، رحمت حق انتظار کررہی ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کا مژدہ جاں فزاملنے والا ہے۔ اللہ رب العزت ہماری ان حقیر محنتوں کو اخلاص کی دولت سے مالا مال فرماکر اپنی رضا کا سبب بنائے۔ آمین ثم آمین۔
اپنے مسلمان بھائیوں کو عقیدہ ختم نبوت سے آگاہ کریں اور قادیانیوں سے مکمل قطع تعلق کریں۔ان کی شرکت اپنی کسی مجلس یاکسی پروگرام ، شادی بیاہ ،خوشی غمی کی تقریبات،جنازہ وغیرہ میں برداشت نہ کریںاور ہر سطح پر ان کا مقابلہ کریں۔مرزا قادیانی کو ماننے والے اس خطرناک گروہ کی تبلیغی سرگرمیوںپر نظر رکھیں۔ علماء کرام پر یہ فریضہ عائد ہوتا ہے کہ وہ مہینے میں کم از کم ایک خطبہ جمعہ میں عقیدہ ختم نبوت کو مضبوط دلائل سے واضح کرتے ہوئے مسلمانوں کی ذہن سازی کریں۔ انٹرنیٹ والے حضرات سے درخواست ہے کہ وہ ویب سائٹ WWW.KHATMENBUWAT.ORGمستقل وزٹ کرتے رہیں ۔خود بھی استفادہ کریں اور اپنے دوستوں کو بھی بتائیں۔یہ آپ کا دینی فریضہ ہے۔ عقیدہ ختم نبوت اور ردقادیانیت پر مشتمل لٹریچر مرکز سراجیہ سے مفت حاصل کرنے اور قادیانیوں کے دجل وفریب کے جوابات حاصل کرنے کے لئے خط لکھیں،فون کریں یا خود تشریف لائیں۔تمام خواتین وحضرات سے اپیل ہے کہ یہ مضمون کثیر تعداد میں چھپوا کرمفت تقسیم کریں یا چھپوانے کے لئے ہم سے رابطہ کریں تاکہ امت مسلمہ کی نئی نسل فتنہ قادیانیت سے آگاہ ہوسکے اور کسی کی متاع ایمان نہ لٹ سکے۔اللہ رب العزت ہماری ان حقیر محنتوں کو اخلاص کی دولت سے مالا مال فرماکر اپنی رضا کا سبب بنائے۔ آمین ثم آمین
میں ریلوے میں بطور ٹکٹ کلکٹر ملازم تھا اور مجھے پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ ریلوے اسٹیشن شیخوپورہ پر میری تعیناتی تھی اور میں نے گورنمنٹ کالج شیخوپورہ میں داخلہ لے رکھا تھا جہاں مخلوط تعلیم تھی۔ 1967ء کی ایک دوپہر کو میں گیٹ پر ڈیوٹی دے رہا تھا کہ ایک نہایت خوبصورت لڑکی میرے پاس آئی ۔ اس نے کالا برقعہ پہن رکھا تھا۔ اس نے کہا ’’وحید تم یہاں کیسے؟ تم تو کالج میں ہمارے ساتھ پڑھتے ہو۔ میں نے بتایا ہاں میں کالج میں بھی پڑھتا ہوں اور شام کو اور رات کو ریلوے میں ٹکٹ کلکٹر کی ملازمت بھی کرتا ہوں۔ وہ کہنے لگی مجھے سانگلہ ہل جانا ہے۔ میرا نام بشریٰ ہے اور یہ میری بہن گل۔ آپ کالج میگزین کے ایڈیٹر اور کالج کی تقریبات اور حلقہ افکار مشرق میں بڑے نمایاں ہوتے ہیں۔ کئی مرتبہ خواہش ہوئی کہ آپ سے ملوں مگر جھجکتی رہی۔ میں بھی سانگلہ ہل میں ڈسپنسر ہوں اور ساتھ ہی پڑھتی ہوں۔ کل کالج میں ملوں گی۔ کبھی سانگلہ ہل آئونا۔ وہاں میرے پاس الگ کوارٹرہے اور ہاں گاڑی میں کتنی دیر ہے۔ میں نے کہا کہ نصف گھنٹہ ہے۔ اس نے کہا میں ویٹنگ روم میں بیٹھتی ہوں۔ فارغ ہوجائو تو آجانا۔ کوئی دس منٹ بعد اس کی بہن گل آئی اور اس نے کہا کہ باجی کہہ رہی ہے ، چائے ٹھنڈی ہورہی ہے۔چائے ۔میں نے پوچھا ۔اس نے کہا ہاں۔ باجی نے سٹال سے چائے، سموسے اور برفی منگوائی ہے۔ میں ویٹنگ روم میں داخل ہوا تو اس نے برقعہ اتار رکھا تھا اور ہلکے رنگ کی گلابی شلوار قمیض پہن رکھی تھی۔ ڈوپٹہ بھی اس طرح تھا جو اس کے حسن کو مزید نکھار رہا تھا۔ میرے داخل ہوتے ہی وہ دروازے تک آئی اور مجھے کرسی پیش کرتے ہوئے کہا۔ میزبانی تو آپ کو کرنی چاہیے تھی مگر یہ شرف بھی میں حاصل کررہی ہوں۔ دوستوں اور کلاس فیلوز سے کیا پردہ۔ ویسے بھی مجھے اٹیلیکچول لوگ اور لکھنے والے بہت اچھے لگتے ہیں۔ اس نے چائے کی پیالی میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا، میرے منہ سے ہوں ہاں کے سوا کچھ نہ نکلا۔ میں اس کے حسن کا شاید اسیر ہوچکا تھ۔برفی کھائونا اور یہ دیکھو اس اسٹیشن کے سموسے کتنے خستہ ہیں۔ تھوڑی دیر بعد ٹرین آگئی ، میں ٹکٹ اکٹھے کرنے گیٹ کی طرف بڑھ گیا اور وہ برقعہ اوڑھ کر ہاتھ کے اشارے سے سلام کرتی، مسکراتی ٹرین کی طرف بڑھ گئی۔
میری خالہ چونکہ سانگلہ ہل میں رہتی ہیں اور سانگلہ ہل میں جاتابھی رہتا تھا۔ چنانچہ ایک دن گرمیوں کی دوپہر کو کوئی ڈیڑھ بجے میں سانگلہ پہنچا تو پیاس کے مارے میرا برا حال تھا۔ ہسپتا ل اسٹیشن کے بالکل قریب تھا اور میرے خالو کی دوکان بھی قریب تھی۔ راستے میں تھا کہ میں نے سوچا کہ چلو بشریٰ کے ہاںسے پانی پی کر چلتے ہیں۔ میں نے دروازہ کھٹکھٹایا تو اندر سے آواز آئی کون؟ میں نے کہا وحید۔ ٹھہرو! میں نہا رہی ہوں۔ ابھی دروازہ کھولتی ہوں۔ ایک منٹ بھی توقف نہ ہوا تھاکہ اس دروازہ کھول دیا۔ اس کے بالوں سے پانی کے قطرے گررہے تھے اور ہلکے نیلے رنگ کی لون کی قمیض اس کے جسم سے چپکی ہوئی تھی۔ ایک ہاتھ میں تولیہ اور دوسرے ہاتھ میں ڈوپٹہ۔ اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔ باہر بڑی گرمی ہے۔ اندر آجائواور پھر وہ کمرے میں چلی آئی اور میں بھی اس کے پیچھے پیچھے چلا گیاسنگ مر مر کی مورتی کے سحر سے میں بے حال تھا۔ بائیس سال کی عمر اور اس کی اٹھارہ سالہ جوانی۔ وہ بالوں کو تولیے سے خشک کرتے ہوئے میرے پہلو میں بیٹھ گئی اور گل کو اس نے اشارہ کیا کہ بازار سے دودھ اور بوتل لے آئو۔ بڑی گرمی ہے۔ کہنے لگی تم اور عارف وقار (وقار انبالوی کا بیٹا جو ہمارے ساتھ سینئر طالب علم تھا) سارے کالج میں بڑے نمایاں ہو۔ میری شدید خواہش تھی کہ تم سے ملو۔ بڑا اچھا کیا کہ میرے گھر کو رونق بخشی۔ شام تک یہیں ٹھہریں گے اور اکٹھے ہی شیخوپورہ چلیں گے۔ اپنے خالو کو پھر مل لینا۔ میں کوئی جواب نہ دے پایا۔ کچھ توقف سے پھر کہنے لگی کہ مرزا صاحب کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے۔ میں نے کہا مرزا ریاض صاحب دیکھنے میں اچھے استاد ہیں۔ ایم اے فلسفہ ہیں۔ اچھے افسانے لکھتے ہیں۔ شعروں کی تشریح بہت عمدہ کرتے ہیں۔ اس نے کرب سے پہلو بدلتے ہوئے کہا۔ میں پروفیسر مرزا ریاض کے بارے میں کب دریافت کرررہی ہوں۔ جان، مرزا غلام احمد قادیانی کے بارے میں پوچھ رہی ہوں۔۔۔ میں یک دم سٹپٹا گیا۔ اس کے حسن کا سارا نشہ ہرن ہوگیا اور میں ا ٹھ کھڑا ہوا۔’’اوئے توں مرزائن ایں‘‘ لاحول ولا قوت‘‘ اور تیزی سے دروازے کی طرف بڑھ گیا۔ ’’سنو! سنو ، میری بات تو سنو وہ دروازے تک میرے پیچھے بھاگتی ہوئی آئی۔ میں نے دروازہ کھولا۔ سامنے سے گل دودھ اور بوتل لے کر داخل ہورہی تھی۔ مجھے اس نے جاتے ہوئے حیرانی سے دیکھا۔ مگر میں کھٹاک سے دروازہ بندکر کے کفر اوراسلام کے درمیان دیوار کھڑی کرچکا تھا۔ میں گھبراہٹ میں خالو کی طرف بھی نہ گیا اور اسٹیشن پر جا کر واپس ٹرین کے ذریعے شیخوپورہ آگیا۔ مجھے حضرت یوسف علیہ السلام بہت یاد آئے مگر بشریٰ زلیخا نہیں، ایک ڈائن لگی۔
قادیانیوں نے ہمیشہ تحریص کے جال پھیلائے اس وقت بھی میں ایک ایسے نوجوان کو جانتا ہوں جو ایک بنک میں ملازم ہے۔ چودھری ظفر (قادیانی) اور شیخ عبدا لماجد اس پر ڈورے ڈالتے رہتے ہیں کہ تمہیں کسی فارن بنک میں جگہ دیں گے۔ وہ اپنے کیرئیر کے لئے کسی امیر لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہے۔ ایسے ہی کئی نوجوان ان کے جال کا رزق ہیں۔ چودھری ظفر اور عبدالماجد قادیانی اسے کہتے رہتے ہیں کہ ہر جگہ ہمارے اپنے آدمی ہیں۔ وہ سب کچھ مجھے بتاتا رہتا ہے اور میں جب اسے کفر اور اسلام میں ایک کے انتخاب کا کہتا ہوں تو وہ کہتا ہے کہ میں نے دل سے قادیانی تھوڑا ہونا ہے تو میں اسے کہتا ہوں کہ ذرا جال میں پھنس کر دیکھو۔ یہ وہ کمبل ہے جسے تم چھوڑنا چاہوگے۔ مگر وہ تمہیں نہیں چھوڑے گا۔ اسی تذبذب میں وہ ابھی تک اس جال میں نہیں پھنسا۔
قادیانیوں کی عورتوں کے ذریعے پھانسنے کی متعدد مثالیں ہیں۔ جن میں ایک سول جج چودھری سردار کی بھی ہے۔ جسے پروفیسر قاضی اسلم نے شعبہ فلسفہ جامعہ پنجاب لاہور میں طالب علمی کے زمانے میں اس کی غربت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پھانسا۔ اسے فرسٹ ڈویژن دلائی، نوکری دلائی اور شادی کرائی۔ ایرک سپرین کو پھانسا اوروہ اعجاز سپرین بن گیا۔ راحت ملک جو کبھی قادیانی تھا۔ اس نے اپنی کتاب ’’ربوہ کا مذہبی آمر‘‘ میں بشیرالدین محمود اور قادیانی گورگوں کی ہولناکیوں کو بے نقاب کیا ہے جو لوگ اخلاقی طور پر اتنے پست ہوں تو ایک پست ذہنیت انسان کی ہی پیروی کرسکتے ہیں۔
اپنے مسلمان بھائیوں کو عقیدہ ختم نبوت سے آگاہ کریں اور قادیانیوں سے مکمل قطع تعلق کریں۔ان کی شرکت اپنی کسی مجلس یاکسی پروگرام ، شادی بیاہ ،خوشی غمی کی تقریبات،جنازہ وغیرہ میں برداشت نہ کریںاور ہر سطح پر ان کا مقابلہ کریں۔مرزا قادیانی کو ماننے والے اس خطرناک گروہ کی تبلیغی سرگرمیوںپر نظر رکھیں۔ علماء کرام پر یہ فریضہ عائد ہوتا ہے کہ وہ مہینے میں کم از کم ایک خطبہ جمعہ میں عقیدہ ختم نبوت کو مضبوط دلائل سے واضح کرتے ہوئے مسلمانوں کی ذہن سازی کریں۔ انٹرنیٹ والے حضرات سے درخواست ہے کہ وہ ویب سائٹ WWW.KHATMENBUWAT.ORGمستقل وزٹ کرتے رہیں ۔خود بھی استفادہ کریں اور اپنے دوستوں کو بھی بتائیں۔یہ آپ کا دینی فریضہ ہے۔ عقیدہ ختم نبوت اور ردقادیانیت پر مشتمل لٹریچر مرکز سراجیہ سے مفت حاصل کرنے اور قادیانیوں کے دجل وفریب کے جوابات حاصل کرنے کے لئے خط لکھیں،فون کریں یا خود تشریف لائیں۔تمام خواتین وحضرات سے اپیل ہے کہ یہ مضمون کثیر تعداد میں چھپوا کرمفت تقسیم کریں یا چھپوانے کے لئے ہم سے رابطہ کریں تاکہ امت مسلمہ کی نئی نسل فتنہ قادیانیت سے آگاہ ہوسکے اور کسی کی متاع ایمان نہ لٹ سکے۔اللہ رب العزت ہماری ان حقیر محنتوں کو اخلاص کی دولت سے مالا مال فرماکر اپنی رضا کا سبب بنائے۔ آمین ثم آمین
محمد اسماعیل قریشی ایڈووکیٹ سپریم کورٹ
مسلمان اپنے آقا و مولا حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے نام و ناموس پر مرمٹنے اور اس کی خاطر دنیا کی ہر چیز قربان کرنے کو اپنی زندگی کا ماحصل سمجھتے ہیں۔برصغیر پاک و ہند میں برطانوی دورِ استعمار سے قبل‘ حتی کہ مغل شہنشاہ اکبر کے سیکولر دور میں بھی شاتم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو سزائے موت دی گئی۔ لیکن جب اس ملک پر سازشوں کے ذریعہ انگریزوں کا غاصبانہ قبضہ ہو گیا تو انہوں نے توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قانون کو یکسر موقوف کر دیا۔ پھر انگریز حکومت ہی کی شہ پر جب ہندوئوں‘ آریہ سماجیوں اور مہاسبھائیوں نے مسلمانوں کی دل آزاری کرتے ہوئے پیغمبر اسلام علیہ الصلوۃ والسلام کی ذاتِ گرامی پر حملے کرنے شروع کر دیئے تو مسلمانوں نے شاتمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرکے‘ اقرار جرم کرتے ہوئے دارو رسن کی روایت کو از سر نو زندہ کیا۔مسلمانوں کے احتجاج اور مولانا محمد علی جوہرؒ کی تحریک پر اس وقت کی قانون ساز اسمبلی نے 1927ء میں ایک معمولی سی دفعہ 295 اے کا تعزیرات ہند میں اضافہ کیا‘ جس کی رو سے توہین مذہب کے جرم کی سزا دو سال تک قید یا جرمانہ مقرر ہوئی‘ لیکن اس سے مسلمانوں کی اشک شوئی نہ ہو سکی۔
پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے کے بعد یہ توقع تھی کہ یہاں توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے جرم کی شرعی سزا‘ سزائے موت کا قانون پھر سے بحال ہو جائے گا‘ لیکن کسی بھی مقننہ یا حکومت کو اس بارے میں پیش رفت کرنے کی توفیق نصیب نہ ہوئی‘ اسی اثناء میں اسلام دشمن قوتوں نے پاکستان کی اسلامی ریاست کو ختم کرنے کے لیے سازشوں کا جال سارے ملک میں پھیلا دیا۔ زرخرید ایجنٹوں کے ذریعہ یہاں کے نوجوانوں کو دین سے برگشتہ کرنے کے لیے لادینی لٹریچر بھی پھیلانا شروع کر دیا گیا۔ اس سلسلہ میں ایک کٹر کمیونسٹ مشتاق راج کی مثال دی جا سکتی ہے‘ جس کی خدمات روس کی حکومت نے حاصل کیں۔ مشتاق راج نے 1983ء میں Heavenly Communism (آفاقی اشتمالیت) نامی ایک کتاب لکھی جو ملک کے تعلیم یافتہ طبقہ میں مفت تقسیم کی گئی۔ یہ کتاب راقم الحروف تک بھی پہنچائی گئی۔ میں نے کتاب کو پڑھنا شروع کر دیا‘ جیسے جیسے کتاب کو پڑھتا گیا‘ میری قوتِ برداشت جواب دیتی چلی گئی۔ مجھ پر غم و غصہ کی جو کیفیت طاری ہوئی‘ وہ ناقابل بیان ہے۔ اس کتاب میں نہ صرف اللہ سبحانہ تعالیٰ کے ساتھ تمسخر کیا گیا تھا‘ بلکہ مذاہب اور ادیان کا بھی مذاق اڑایا گیا تھا۔ دینی پیشوائوں کو ’’مذہبی شیطان‘‘ کہا گیا‘ انبیائے کرام علیہ السلام پر نہایت گھٹیا اور سوقیانہ حملے کیے گئے اور انتہا یہ ہے کہ حضور ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں بھی گستاخی کی جسارت کی گئی۔ میں نے نہایت صبر و ضبط سے کام لیتے ہوئے ورلڈ ایسوسی ایشن آف مسلم جیورسٹس (پاکستان زون)world association of muslim jurist کا اجلاس طلب کیا‘ جس میں پاکستان کے نامور علمائے دین کے علاوہ بیرون ملک سے عالم اسلام کے دو ممتاز سکالر ڈاکٹر ربیع المدخلیDoc rabee al madkhali اور پروفیسر سعید صالح Professor saeed salehنے بھی شرکت کی‘ سب علماء کا متفقہ فتویٰ تھاکہ شاتم رسول صلی اللہ علیہ وسلم واجب القتل ہے‘ لہذا حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ اس ناپاک کتاب کو فوری طور پر ضبط کر لے اور بغیر کسی تاخیر کے توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کا قانون بنا کر اسے نافذ العمل کر دیا جائے‘ تاکہ آئندہ کسی بدبخت کو اہانت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جرات نہ ہو سکے۔ لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن اور بار کونسل نے بھی راقم کی تحریک پر مشتاق راج کو بار کی رکنیت سے خارج کر دیا ۔ اہل لاہور کو جب اس کتاب کی اشاعت کا علم ہوا تو ان کے جذبات مشتعل ہو گئے اور حکومت نے امن و امان کی صورت حال اور بار ایسوسی ایشن کی قرار داد کے پیش نظر اسے زیر دفعہ 295 اے گرفتار کر لیا‘ کیونکہ تعزیراتِ پاکستان میں اس وقت تک توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم جیسے سنگین اور انتہائی دل آزار جرم کی کوئی سزا مقرر نہیں تھی۔ ملک عزیز کے تمام مکاتب فکر کے علمائ‘ وکلائ‘ بار ایسوسی ایشنز اور دینی تنظیموں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ اس سلسلہ میں فوری طور پر قانون سازی کی جائے۔ پاکستان کے قومی اخبارات نے بھی اس کی تائید کی اور اس کی حمایت میں ادارئیے لکھے‘ بالآخر اسلامی نظریاتی کونسل نے اسلامیانِ پاکستان کے اس مطالبہ کا نوٹس لیا اور شیخ غیاث محمد صاحب‘ سابق اٹارنی جنرل کی تحریک پر حکومت سے سفارش کی کہ توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم اور ارتداد کی سزا‘ سزائے موت مقرر کی جائے۔ اس کے باوجود حکومت وقت نے اس نازک مسئلہ کو مستحق توجہ نہیں سمجھا‘ لہذا راقم الحروف نے فیڈرل شریعت کورٹ میں اس وقت کے صدر پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق اور تمام صوبوں کے گورنروں کے خلاف اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کی دفعہ 203 ڈی کے تحت 1984ء میں اپنے ساتھ تمام مکاتب فکر کے علمائ‘ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے سابق جج صاحبان‘ سابق وزرائے قانون‘ سابق اٹارنی جنرل‘ سابق ایڈووکیٹ جنرل‘ لاہور ہائی کورٹ بار اور دیگر بار کونسلوں کے صدر صاحبان سمیت ایک سو پندرہ شہریوں کو شامل کرکے شریعت پٹیشن نمبر 1/ ایل 1984ء دائر کی۔ مقدمہ کی سماعت کا آغازراقم الحروف کی بحث سے شروع ہوا‘ عدالت نے عوام الناس کے نام نوٹس جاری کر دیئے تھے۔ کمرۂ عدالت اور اس کے باہر ہر روز عوام کا ہجوم اس مقدمہ کی کارروائی کی سماعت کے لیے موجود ہوتا۔ اس مقدمہ کی سماعت کے دوران عجیب و غریب واقعات پیش آئے‘ جن میں دو بڑے دلچسپ اور قابل ذکر ہیں۔ اس پٹیشن میں سابق جج لاہور ہائی کورٹ جناب جسٹس چوہدری محمد صدیق بحیثیت فریق اول ہمارے ساتھ شامل تھے‘ جبکہ دوسری طرف سے ان کے صاحبزادے جناب جسٹس خلیل الرحمن رمدے جو اس وقت ایڈووکیٹ جنرل تھے‘ (موسوف آج کل سپریم کورٹ میں جسٹس ہیں) پیش ہوئے۔ میں نے عدالت کی توجہ اس طرف مبذول کرائی کہ اس تاریخی مقدمہ میں باپ بیٹا ایک دوسرے کے مقابل ہیں‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے شریعت پٹیشن کی مکمل طور پر حمایت کی اور تمام صوبوں کے ایڈووکیٹ جنرلز نے بھی اس پٹیشن کی تائید میں دلائل پیش کیے اور عدالت سے درخواست کی کہ اس درخواست کو منظور کر لیا جائے۔فریقین کے دلائل کی سماعت کے بعد وفاقی شرعی عدالت نے اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا۔
اسی اثناء میں ایک اور سنگین واقعہ رونما ہوا‘ ماہ جولائی 1984ء میں ایک خاتون ایڈووکیٹ عاصمہ جہانگیر(asma jahangir) نے‘ اسلام آباد میں منعقدہ ایک سیمینار میں تقریر کرتے ہوئے معلم انسانیت حضور ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں کچھ ایسے نازیبا الفاظ استعمال کیے جو سامعین اور امت مسلمہ کی دل آزاری کا باعث تھے‘ جس پر سیمینار میں ہنگامہ برپا ہو گیا‘ جب یہ خبر اخبارات میں شائع ہوئی تو ورلڈ ایسوسی ایشن نے اپنے خصوصی اجلاس میں پاکستان کے تمام سربرآوردہ علماء اور وکلا کی جانب سے اس کی پرزور مذمت کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ فوری طور پر شاتم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں سزائے موت کا قانون منظور کرے اور فیڈرل شریعت کورٹ سے بھی درخواست کی گئی کہ وہ شریعت پٹیشن پر اپنا فیصلہ صادر کرے۔ اسلامی جذبہ سے سرشار خاتون مرحومہ آپا نثار فاطمہؒ نے اس قابل اعتراض تقریر کا قومی اسمبلی میں سختی سے نوٹس لیا اور پھر راقم الحروف کے مشورے سے قومی اسمبلی میں تعزیرات پاکستان میں ایک مزید دفعہ‘ 295 سی کابل جس کی رُو سے شاتم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سزا‘ سزائے موت تجویز کی گئی‘ پیش کیا گیا۔ جب یہ بل اسمبلی میں جنت مکانی آپا نثار فاطمہ مرحومہ نے پیش کیا تو مسلمانوں کے متفقہ مطالبہ کے پیش نظر انہیں اس کی مخالفت کی جرأت نہ ہو سکی‘ البتہ وزارتِ قانون کی طرف سے اس بل میں یہ ترمیم کر دی گئی کہ شاتم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سزا‘ سزائے موت یا عمر قید ہو گی‘ اس طرح دفعہ 295 سی کا تعزیراتِ پاکستان میں اضافہ کر دیا گیا۔ لیکن‘ چونکہ اس دفعہ سے راقم الحروف‘ مرحومہ آپا نثار فاطمہ‘ علمائے کرام‘ وکلاء اور مسلمان عوام مطمئن نہیں تھے‘ اس لیے دوبارہ فیڈرل شریعت کورٹ میں 295 سی کو راقم الحروف نے مسلم ماہرین قانون کی تنظیم کی جانب سے اس بناء پر چیلنج کر دیا کہ توہین رسالت کی سزا بطور حد سزائے موت مقرر ہے اور حد کی سزا میں حکومت ہی نہیں‘ بلکہ پوری امت مسلمہ کو بھی سوئی کی نوک کے برابر کمی یا اضافہ کرنے کا اختیار نہیں اور یہ ناقابل معافی جرم ہے۔ اس مقدمہ کی باقاعدہ سماعت یکم اپریل 1987ء کو شروع ہوئی‘ جس میں تمام مکاتب فکر کے علماء کو بھی معاونت کی دعوت دی گئی۔ بعض علماء کا خیال تھا کہ یہ قابل معافی جرم ہے اور بعض نے یہ بھی کہا کہ حاکم وقت سزائے موت سے کم تر سزا بھی دینے کا مجاز ہے۔ اس مقدمہ کی سماعت لاہور‘ اسلام آباد اور کراچی میں فیڈرل شریعت کورٹ کے فل بنچ جو جناب جسٹس گل محمد خان چیف جسٹس‘ جناب جسٹس عبدالکریم خاں کندی‘ جناب جسٹس عبدالرزاق تھیم پر مشتمل تھا‘ کے سامنے ہوئی۔ منجملہ دیگر علمائے کرام کے مولانا مفتی غلام سرور قادری‘ مولانا حافظ صلاح الدین یوسف اور جناب سید ریاض الحسن نوری قابل ذکر ہیں۔ مولانا حافظ یوسف صلاح الدین جو جماعت اہل حدیث کے محقق عالم ہیں‘ کا پہلی شریعت پٹیشن میں موقف تھا کہ شاتم رسول کا جرم ناقابل معافی جرم ہے‘ لیکن بعد میں انہوں نے دوسرے یعنی موجودہ مقدمہ کی پٹیشن کے دوران بحث کرتے ہوئے اپنے پہلے موقف سے رجوع کرتے ہوئے جرم مذکورہ کو قابل معافی بتلایا‘ جبکہ مولانا مفتی غلام سرور قادری شاتم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کوارتداد کی بناء پر واجب القتل تو سمجھتے تھے‘ لیکن اسے قابل معافی جرم بھی قرار دیتے تھے۔ حکومت پاکستان کی جانب سے ڈپٹی اٹارنی جنرل میاں عبدالستار نجم پیش ہوئے۔ وہ بھی اس جرم کو قابل معافی جرم قرار دیتے تھے اور اس کو وہ منشائے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سمجھتے تھے‘ اس کے برعکس حکومت پنجاب کی جانب سے اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل جناب نذیر احمد غازی اور جناب جلال الدین خلد‘ حکومت سرحد کی جانب سے میاں محمد اجمل جو بعد ازاں پشاور ہائی کورٹ کے فاضل جج مقرر ہوئے‘ سندھ اور بلوچستان کی طرف سے وہاں کے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرلز نے ہمارے موقف کی مکمل تائید اور حمایت کی۔ ان کے علاوہ جناب ریاض الحسن نوری مشیر وفاقی شرعی عدالت نے عمر قید کی سزا کے اسلامی احکام سے منافی ہونے کے بارے میں اپنے دلائل بھی پیش کیے۔ سندھ کی حکومت نے بھی شاتم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سزا‘ سزائے موت تسلیم کی‘ لیکن عمر قید کی سزا کی مخالفت نہیں کی۔
توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقدمہ میں علمائے کرام‘ صوبوں کے اسسٹنٹ اور ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرلز اور دیگر وکلاء صاحبان کے علاوہ عاجز کو رفیق محترم جناب ڈاکٹر ظفر علی راجہ ایڈووکیٹ کی شب و روز معاونت حاصل رہی ہے‘ جس میں ان کا خلوص اور ملی حمیت کا جذبہ کار فرما رہا ہے۔ بالآخر وہ ساعت سعید بھی آ گئی‘ جب فیڈرل شریعت کورٹ نے متفقہ طور پر‘ اس گدائے شہ عرب و عجم کی پٹیشن منظور کرتے ہوئے توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کی متبادل سزا عمر قید‘ کو غیر اسلامی اور قرآن وسنت کے خلاف قرار دیا اور حکومت پاکستان کے نام حکم نامہ جاری کیا کہ عمر قید کی سزا کو دفعہ 295 سی سے حذف کیا جائے‘جس کے لیے 30 اپریل 1991ء کی مہلت حکومت کو دی گئی۔ اس مدت کے اختتام پر عمر قید کی سزا حکم عدالت کی رو سے خود بخود حذف ہو کر غیر مئوثر ہو گئی۔ اس فیصلہ کی بدولت حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک ایسی سنت تازہ ہوئی‘ جس پر تمام مسلمانوں کے ایمان کا دارومدار ہے‘ جس کے لیے فیڈرل شریعت کورٹ کے سابق چیف جسٹس جناب گل محمد خاں اور ان کے تمام رفقائے کار جج حضرات پوری امت مسلمہ کی جانب سے مبارک باد کے مستحق ہیں۔
اس فیصلہ کے بعد‘ پھر ایک عجیب مرحلہ پیش آیا۔ فیڈرل شریعت کورٹ کے اس فیصلہ کے خلاف اسلامی جمہوری اتحاد کی حکومت نے جو نفاذِ اسلام اور قرآن و سنت کے قانون کی بالا دستی کا منشور دے کر برسراقتدار آئی تھی‘ سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر دی اور راقم الحروف کے نام وفاقی حکومت کے ایڈووکیٹ آن ریکارڈ چوہدری اختر علی کا نوٹس بھی موصول ہو گیا‘ جس پر راقم نے وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کو پیغام بھجوایا کہ حکومت اس اپیل کو فوری طور پر سپریم کورٹ سے واپس لے ‘ ورنہ مسلمانوں کے جذبات اس حکومت کے خلاف بھی مشتعل ہو جائیں گے۔ خدا کا شکر ہے کہ وزیر اعظم پاکستان نے اس انتباہ کا بروقت نوٹس لیا اور برسرعام اعلان کیا کہ اس اپیل کا انہیں قطعی علم نہیں تھا‘ ورنہ ایسی غلطی کبھی سرزد نہ ہوتی اور اس جرم کی سزائے موت بھی کم تر سزا ہے‘ اس لیے یہ اپیل سپریم کورٹ سے فوری طور پر واپس لے لی گئی‘ جس کے بعد بفضل تعالیٰ اب پاکستان میں توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کی سزا بطور حد سزائے موت حتمی اور قطعی طور پر جاری ہو چکی ہے۔ اس قانون کی بدولت اب کوئی شخص شاتم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو خود کیفر کردار تک پہنچانے کی بجائے عدالت سے رجوع کرے گا۔ جہاں فریقین سے شہادت لی جائے گی‘ ملزم کو صفائی کا موقع دیا جائے گا‘ اس کے بعد اگر جرم ثابت ہو تو پھر مجرم کو سزا دی جائے گی۔حق سبحانہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اس فیصلہ کو ہم سب کے لیے وسیلۂ نجات بنائے اور ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت نصیب فرمائے۔ آمین
لاہور ہائیکورٹ نے اس قانون پر تبصرہ کرتے ہوئے اپنے ایک فیصلے میں لکھا کہ’’کوئی بھی شخص، کجا ایک مسلمان، ممکنہ طور پر اس قانون کی مخالفت نہیں کرسکتا، کیونکہ یہ من مانی کا سد باب کرتا ہے اور قانون کی حکمرانی کو فروغ دیتا ہے۔ اگر تعزیرات پاکستان کی دفعہ295-Cکے احکامات کی تنسیخ کردی جائے یا انہیں دستور سے متصادم قرار دے دیا جائے تو معاشرے میں ملزموں کو جائے واردات پر ہم ختم کرنے کا پرانا دستور بحال ہوجائے گا‘‘(پی ایل ڈی 1994 لاہور485)۔
اپنے مسلمان بھائیوں کو عقیدہ ختم نبوت سے آگاہ کریں اور قادیانیوں سے مکمل قطع تعلق کریں۔ان کی شرکت اپنی کسی مجلس یاکسی پروگرام ، شادی بیاہ ،خوشی غمی کی تقریبات،جنازہ وغیرہ میں برداشت نہ کریںاور ہر سطح پر ان کا مقابلہ کریں۔مرزا قادیانی کو ماننے والے اس خطرناک گروہ کی تبلیغی سرگرمیوںپر نظر رکھیں۔ علماء کرام پر یہ فریضہ عائد ہوتا ہے کہ وہ مہینے میں کم از کم ایک خطبہ جمعہ میں عقیدہ ختم نبوت کو مضبوط دلائل سے واضح کرتے ہوئے مسلمانوں کی ذہن سازی کریں۔ انٹرنیٹ والے حضرات سے درخواست ہے کہ وہ ویب سائٹ WWW.KHATMENBUWAT.ORGمستقل وزٹ کرتے رہیں ۔خود بھی استفادہ کریں اور اپنے دوستوں کو بھی بتائیں۔یہ آپ کا دینی فریضہ ہے۔ عقیدہ ختم نبوت اور ردقادیانیت پر مشتمل لٹریچر مرکز سراجیہ سے مفت حاصل کرنے اور قادیانیوں کے دجل وفریب کے جوابات حاصل کرنے کے لئے خط لکھیں،فون کریں یا خود تشریف لائیں۔تمام خواتین وحضرات سے اپیل ہے کہ یہ مضمون کثیر تعداد میں چھپوا کرمفت تقسیم کریں یا چھپوانے کے لئے ہم سے رابطہ کریں تاکہ امت مسلمہ کی نئی نسل فتنہ قادیانیت سے آگاہ ہوسکے اور کسی کی متاع ایمان نہ لٹ سکے۔اللہ رب العزت ہماری ان حقیر محنتوں کو اخلاص کی دولت سے مالا مال فرماکر اپنی رضا کا سبب بنائے۔ آمین ثم آمین
حضرت مولانا محمد یوسف لد ھیانوی شہید رحمۃ اللہ علیہ
بسم اﷲ الرحمن الرحیم
’
’یَآ اَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَنْ یَّرْتَدَّ مِنْکُمْ عَنْ دِیْنِہٖ فَسَوْفَ یَأْتِی اﷲُ بِقَوْمٍ یُّحُبُّھُمْ وَیُحِبُّوْنَہٗ اَذِلَّۃٍ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اَعِزَّۃٍ عَلَی الْکَافِرِیْنَ یُجَاھِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اﷲِ وَلَا یَخَافُوْنَ لَوْمَۃَ لَآئِمٍ، ذَالِکَ فَضْلُ اﷲِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآئُ وَاﷲُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ۔
‘‘ (المائدہ:54)
ترجمہ:۔۔۔ ’’اے ایمان والو ! جو شخص تم میں سے اپنے دین سے پھر جائے تو اﷲ تعا لیٰ بہت جلد ایسی قوم پیدا کر دے گا جس سے اﷲ تعا لیٰ کو محبت ہو گی اور ان کو اﷲ تعا لیٰ سے محبت ہو گی۔مہربان ہونگے وہ مسلمانوں پر اور تیز ہونگے کافروں پر ۔ جہاد کر تے ہوں گے اﷲ کی راہ میں اور وہ لوگ کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا اندیشہ نہ کریں گے ۔یہ اﷲ تعا لیٰ کا فضل ہے جس کو چاہیںعطا ء فر مائیں اور اﷲ تعا لیٰ بڑے وسعت والے ہیں بڑے علم والے ہیں ۔‘‘
یہ آیت شریفہ سورۃ المائدہ کی ہے، جس میں اللہ تعالیٰ نے ایک پیش گوئی فرمائی ہے اس اُمت میں فتنۂ ارتداد کے ظاہر ہونے کی صرف پیش گوئی ہی نہیں فرمائی بلکہ حق تعالیٰ شانہ نے ان مرتدین کے مقابلہ میں ایک جماعت کو لانے کا وعدہ بھی کیا ہے۔گویا ایک پیش گوئی ہے کہ اس اُمت میں مرتدین ظاہر ہوں گے، اور دوسری پیش گوئی اور وعدہ ہے کہ ان مرتدین کی سرکوبی اور ان کے مقابلے کے لئے اللہ تعالیٰ ایک جماعت کو کھڑا کرے گا۔ پھر حق تعالیٰ شانہ نے مرتدین کا مقابلہ کرنے والی اس جماعت کی چھ صفتیں ذکر فرمائی ہیں:
مرتدین کا مقابلہ کرنے والی جماعت کے اوصاف:
1 ...........ان کی پہلی صفت یہ ہے کہ: ’’
یُحِبُّھُمْ
‘‘ اللہ تعالیٰ ان سے محبت فرماتے ہوں گے۔ یعنی وہ اللہ تعالیٰ کے محبوب بندے ہوں گے۔
2 ...........ان کی دوسری صفت یہ ذکر فرمائی کہ: ’’
وَیُحِبُّوْنَہٗ
‘‘ کہ وہ لوگ اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہوں گے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے محب اور عاشق ہوں گے۔
3 ........... ان کی تیسری صفت ہوگی کہ: ’’
اَذِلَّۃٍ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ
‘‘، مؤمنوں کے مقابلے میں اپنا سر نیچا کرکے رہیں گے۔ یعنی مؤمنوں کے مقابلے میں ذلیل بن کر رہیں گے۔
4 ........... ان کی چوتھی صفت یہ ہوگی کہ: ’’
اَعِزَّۃٍ عَلَی الْکَافِـرِیْنَ
‘‘، کافروں کے مقابلے میں معزز اور سربلند ہوکر رہیں گے۔ یعنی ان کا سر نیچے کریں گے۔
5 ...........ان کی پانچویں صفت یہ ہوگی کہ: ’’
یُجَاھِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اﷲِ
‘‘، وہ اللہ کے راستے میں جہاد کریں گے۔
6 ........... ان کی چھٹی صفت یہ ہے کہ: ’’
وَلَا یَخَافُوْنَ لَوْمَۃَ لَآئِمٍ
‘‘، وہ کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہیں کریں گے۔
سب سے آخر میں فرمایا: ’’
ذَالِکَ فَضْلُ اﷲِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآئُ وَاﷲُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ۔
‘‘، یہ اللہ کا فضل ہے، وہ یہ فضل عطا فرمادیتا ہے جس کو چاہتا ہے، اللہ تعالیٰ بڑی وسعت والا ہے کہ اس کے لئے عطا کرنا مشکل نہیں، اور ساتھ ہی ساتھ علیم ہے، وہ جانتا ہے کہ کس کو کون سی چیز دی جائے؟ یہ خلاصہ ہے اس آیت کا۔
یہاں پہلے ایک بات اور بھی سمجھ لیجئے! وہ یہ کہ جنگ خیبر کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا: میں کل جھنڈا ایک ایسے آدمی کے ہاتھ میں دوں گا جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھتا ہوگا، اور اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول اس سے محبت رکھتے ہوں گے، اللہ تعالیٰ اس کے ہاتھ پر قلعہ کو فتح کرے گا(مشکوٰۃ ص:563، باب مناقب علی بن ابی طالب)۔
صحابیؓ فرماتے ہیں کہ: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرمائی اور کل آئی تو اس توقع پر تمام حضرات گردن اُونچی کرکے اپنے آپ کو نمایاں کر رہے تھے کہ یہ فضیلت مجھے ملے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں: ’’اللہ کی قسم! میں نے امیر بننے کو کبھی پسند نہیں کیا، سوائے اس دن کے۔‘‘امیر بننا مقصود نہیں تھا، بلکہ بارگاہِ نبوت سے جو خطاب ملا تھا، کہ وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتا ہوگا، اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس سے محبت کرتے ہوں گے، اس خطاب کو حاصل کرنا مقصود تھا۔اب صحابہ کرامؓ میں سے کوئی شخص بھی یہ نہیں جانتا تھا کہ آج یہ تاج کس کے سر پر سجایا جائے گا؟ اور یہ تمغۂ فضیلت کس کو عطا کیا جائے گا؟ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یکایک فرمایا: ’’علیؓ کہاں ہیں؟‘‘ عرض کیا گیا: یا رسول اللہ! وہ اپنے خیمے میں ہیں، ان کی آنکھوں میں آشوب ہے۔ فر مایا کہ ان کو لائو ۔حضرت علیؓ کا ہاتھ پکڑ کر لایا گیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بٹھادیا گیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا لعابِ مبارک ان کی آنکھوں پر لگایا، تو اسی وقت ان کی ساری تکلیف دور ہوگئی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جھنڈا ان کے ہاتھ میں دیا اور فرمایا: جاؤ اللہ کے نام سے جہاد کرو! اور اللہ تعالیٰ کے دشمنوں سے مقابلہ کرو۔ تو جس طرح حضرت علیؓ کے ہاتھوں میں جب تک جھنڈا نہیں دے دیا گیا، اس وقت تک کسی کو معلوم نہیں تھا کہ اس ارشادِ نبویؐ: ’’
یُحِبُّ اﷲَ وَرَسُوْلَہٗ، وَیُحِبُّہُ اﷲُ وَرَسُوْلُہٗ
‘‘ (وہ اللہ سے اور اس کے رسول سے محبت رکھتا ہے، اور اللہ اور اس کا رسول اس سے محبت رکھتے ہیں) کے مصداق کا اعزاز و فضیلت کس کے حصے میں آتی ہے؟ ٹھیک اسی طرح جس وقت آیتِ شریفہ: ’’
یَآ اَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَنْ یَّرْتَدَّ مِنْکُمْ عَنْ دِیْنِہٖ فَسَوْفَ یَأْتِی اﷲُ بِقَوْمٍ یُّحُبُّھُمْ وَیُحِبُّوْنَہٗ
‘‘ نازل ہوئی، تو اس وقت بھی کسی کو معلوم نہیں تھا کہ یہ فضیلت اور یہ سعادت کس کے حصے میں آنے والی ہے؟ یہ تاج کس کے سر پر سجایا جائے گا؟ اور محبت اور محبوبیت کا تمغہ کس کو عطا کیا جائے گا؟ لیکن جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد فتنۂ ارتداد پھیلا، لوگ مرتد ہوئے اور انہی مرتدوں میں جھوٹے مدعیانِ نبوت بھی تھے، جن میں سرِ فہرست مسیلمہ کذاب تھاجس نے دعویٔ نبوت تو کیا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں، مگر اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوگیا، نجد اور یمامہ پورا علاقہ مسیلمہ کذاب کے قبضے میں تھا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت میں سب سے پہلے جو لشکر بھیجا گیا، وہ مسیلمہ کذاب کے مقابلے میں تھا، حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ (اللہ کی تلواروں میں سے ایک) اس لشکر کے سپہ سالار تھے، جب مسیلمہ سے مقابلہ ہوا تو بڑے بڑے قرأ صحابہ کرامؓ اس جہاد میں شہید ہوئے، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے بھائی حضرت زید بن خطابؓ بھی شہید ہوئے۔
جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور ان کے بھیجے ہوئے لشکر نے ان مرتدین سے مقابلہ کیا تب پتہ چلا کہ یہ جھنڈا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں دیا جانا تھا، اور ارشادِ الٰہی: ’’
یُّحُبُّھُمْ وَیُحِبُّوْنَہٗ اَذِلَّۃٍ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اَعِزَّۃٍ عَلَی الْکَافِرِیْنَ یُجَاھِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اﷲِ وَلَا یَخَافُوْنَ لَوْمَۃَ لَآئِمٍ
‘‘ میں جو چھ صفات ذکر کی گئی تھیں، اس کا مصداق حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی ہیں۔ اسی طرح یہ تمغہ جو اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا، یہ بھی انہیں کے حصہ میں آیا۔
حضرت علیؓ کے بارے میں غزوۂ خیبر کی حدیث ذکر کی تھی، اس میں یہ فرمایا گیا تھا کہ: ’’یُحِبُّ اﷲَوَرَسُوْلَہٗ، وَیُحِبُّہُ اﷲُ وَرَسُوْلُہٗ‘‘ یعنی جس شخص کو میں جھنڈا دوں گا، وہ اللہ تعالیٰ سے اور اس کے رسولؐ سے محبت رکھتا ہوگا، اور اللہ تعالیٰ اور اس کا رسولؐ، اس سے محبت رکھتے ہوں گے۔ مگر یہاں مرتدین سے مقابلہ کرنے والے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور ان کی جماعت کے بارہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’
یُحِبُّھُمْ و َیُحِبُّوْنَہٗ
‘‘ اللہ ان سے محبت رکھے گا اور وہ اللہ سے محبت رکھیں گے۔ حضرت علیؓ کے بارے میں فرمایا تھا کہ: ’’یُحِبُّ اﷲَ وَرَسُوْلَہٗ‘‘ کہ وہ آدمی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھتا ہوگا، اور اللہ تعالیٰ اور اس کا رسولؐ، اس سے محبت رکھتے ہوں گے۔
دوسری طرف مرتدوں کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ نے جس قوم کو لانے کا وعدہ فرمایا، اس کے بارے میں فرمایا: ’’
یُحِبُّھُمْ وَیُحِبُّوْنَہٗ
‘‘ یعنی اللہ کو ان سے محبت ہے، اور ان کو اللہ سے محبت ہے۔ یہاں رسول اللہؐ کا ذکر نہیں کیا، بلکہ صرف اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا، اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت بھی اللہ ہی کی محبت ہے، اور جس کو اللہ سے محبت ہوگی اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی محبت ہوگی، یہ لازم و ملزوم ہیں۔دوسرا فرق یہ ہے کہ حدیث میں حضرت علیؓ کی اللہ تعالیٰ سے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کو پہلے ذکر فرمایا اور فرمایا کہ: وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھتا ہوگا، اس کے بعد فرمایا گیا کہ: ’’
وَیُحِبُّہُ اﷲُ وَرَسُوْلُہٗ
‘‘ لیکن یہاں ترتیب الٹی ہے، یہاں اللہ کا ان سے محبت رکھنا پہلے ذکر کیا گیا کہ اللہ تعالیٰ ان سے محبت رکھتا ہے، گویا یہ اللہ تعالیٰ کے محبوب ہیں: ’’
وَیُحِبُّوْنَہٗ
‘‘ اور وہ لوگ بھی اللہ تعالیٰ سے محبت رکھتے ہیں۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے عاشق اور محبِ صادق بھی ہیں۔
مطلب یہ ہے کہ ایک ہے اللہ تعالیٰ کی نظر میں محبوب ہونا اور ایک ہے اللہ کا محب ہونا، حضرت علیؓ کے بارہ میں فرمایا کہ وہ محب پہلے ہیں اور محبوب بعد میں ہیں، اور صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے بارہ میں فرمایا کہ: وہ محبوب پہلے ہیں، اور محب بعد میں ہیں، کیا خیال ہے؟ دونوں کے درمیان میں فرق سمجھ میں آیا؟یہ تو ظاہر ہے جو اللہ کا محب ہوگا وہ حق تعالیٰ کا محبوب بھی ہوگا، اور جو اللہ تعالیٰ کا محبوب ہوگا وہ محب بھی ہوگا، یہ دونوں باتیں لازم و ملزوم ہیں لیکن زہے سعادت حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اور ان کے رفقأ کی کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی محبوبیت کا تمغہ پہلے دیا اور محب ہونے کا تمغہ بعد میں دیا، محبوب پہلے نمبر پر اور محب بعد میں۔
مرتدین کے مقابلہ میں آنے والی جماعت کی تیسری اور چوتھی صفت یہ ذکر فرمائی گئی تھی کہ: ’’
اَذِلَّۃٍ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ، اَعِزَّۃٍ عَلَی الْکَافِرِیْنَ
‘‘ اہل علم اور اربابِ مدارس علمأ جانتے ہیں کہ ’’عزیز‘‘ کا لفظ اُوپر کے لئے آتا ہے اور ’’ذلیل‘‘ کا لفظ نیچے کے لئے آتا ہے، مطلب یہ ہے کہ وہ اُوپر ہونے کے باوجود مؤمنوں کے سامنے سر جھکا کر رہیں گے، یعنی ان کی تواضع کا یہ عالم ہوگا کہ سب کچھ ہونے کے باوجود، علم و فضل کے باوجود، اپنی محبوبیت اور محبت کے باوجود وہ ادنیٰ سے ادنیٰ مسلمان کے ساتھ بھی نیچا ہوکر یعنی تواضع کرکے رہیں گے۔سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے خلیفۂ رسولؐ بننے کے بعد جو پہلا خطبہ دیا تھا، اس میں انہوں نے فرمایا تھا: لوگو! مجھے تمہارے معاملات کا والی بنادیا گیا ہے، میں تم سے اچھا نہیں ہوں، میں تم سے اچھا نہیں ہوں، اگر میں سیدھا چلوں تو میری مدد کرو اور اگر میں ٹیڑھا چلوں تو مجھے سیدھا کرو۔حضرت صدیق اکبرؓ کی تواضع کا یہ عالم تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کی بعض بڑی بوڑھیوں کا پانی بھرکے دیا کرتے تھے، جب حضرت سیدنا ابوبکر صدیقؓ خلیفہ بنادئیے گئے تو انہوں نے کہا کہ اب ہمارا پانی کون بھرا کرے گا؟ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے کہا: میں بھر دیا کروں گا، اب بھی بھر دوں گا! یہ تھی آپؓ کی تواضع، انکساری، عاجزی، نیازمندی اور مسلمانوں کے سامنے اپنے آپ کو نیچا کرنا۔
یاد رکھو! جہاد تین قسم کا ہوتا ہے اول مال کے ساتھ جہاد ، دوم زبان و قلم سے جہاد ، سوم اگر ضرورت ہو تو بارگاہِ الٰہی میں جان کی قربانی پیش کردینا۔
اللہ کا شکر ہے کہ اللہ کے بندے تینوں قسم کے جہاد کے لئے تیارہیں، اور ملامت کرنے والوں کی ملامت کی پرواہ نہیں کرتے۔ اگرچہ انہیں کوئی: سر پھرا کہے، کوئی: مذہبی جنونی کہے، اور کوئی: سیاسی اغراض و مقاصد کا طعنہ دے، کوئی کچھ کہے، کوئی کچھ کہے، بلکہ جس کے منہ میں جو آئے کہے، مگر وہ: ’’
وَلَا یَخَافُوْنَ لَوْمَۃَ لَآئِمٍ
‘‘ کے مصداق کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہیں کرتے، اور یہ ان کا کمال نہیں بلکہ: ’’
ذَالِکَ فَضْلُ اﷲِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآئُ
‘‘ یہ اللہ کا فضل ہے دیتے ہیں جس کو چاہتے ہیں۔ ہاں! یہ ہر ایک کو نہیں ملتا، یہ دولتِ عظمیٰ ہر ایک کو تھوڑی دیتے ہیں؟ ’’وَاﷲُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ۔‘‘ اللہ بڑی وسعت والا اور بڑے علم والا ہے۔
اس آیت کریمہ کے سب سے پہلے مصداق حضرت ابوبکرصدیقؓ اور ان کی جماعت کے حضرات تھے اور وہ چھ کی چھ صفات اللہ تعالیٰ نے آپؓ کی ذات میں جمع کردی تھیں۔اس کے بعد بھی مختلف زمانوں میں ارتداد کے فتنے ظاہر ہوتے رہے، اللہ تعالیٰ اپنے اس وعدے اور پیش گوئی کے مطابق ان مرتدین کے مقابلے میں بھی ایک ایک قوم کو لاتا رہا، مگر ان سب کے پہلے قائد، پیشوا اور امام حضرت ابوبکر صدیقؓ تھے، بعد میں آنے والے سب کے سب ان کے پیچھے نیت باندھ کرکے کھڑے نظر آتے ہیں۔
زندگی کے دومیدان: آدمی اپنی زندگی میں جو محنت کرتا ہے، اس کے دومیدان ہیں۔
اول: ۔۔۔۔۔۔۔۔ دنیا میں دنیا کے لئے محنت کرنا، مثلاً: کسی کی پچاس، ساٹھ سال کی عمر تھی یا جتنی بھی مقدر تھی، وہ اس پوری کی پوری عمر میں دنیا کے لئے محنت کرتا رہا، لیکن جب وہ اس دنیا سے گیا تو سب کچھ یہاں چھوڑ گیا، اور خود خالی ہاتھ چلاگیا، ملازمتیں حاصل کیں، بڑے بڑے عہدے حاصل کئے، اُونچے اُونچے منصب حاصل کئے، اور اُونچی اُونچی پروازیں کیں، لیکن جاتے ہوئے کوئی چیز بھی ساتھ نہیں گئی، یہ ہے دنیا کی محنت ۔
دوم: ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دوسری محنت کا میدان یہ ہے کہ دنیا میں آخرت کے لئے محنت کی جائے، پھر آخرت میں بہت سی چیزیں ہیں، لیکن سب سے بڑی چیز یہی ہے کہ: ’’
یُحَبُّہُمْ وَیُحِبُّوْنَہٗ
‘‘ کا اعزازا حاصل ہوجائے، یعنی اللہ راضی ہوجائے اور ہم اللہ سے راضی ہوجائیں، جیسا کہ صحابہ کرامؓ کے بارہ میں فرمایا: ’’
رَضِیَ اﷲُ عَنْہُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ
‘‘ اللہ ان سے راضی، اور وہ اللہ سے راضی۔ ختم نبوت کے کام کا اجرو ثواب
ختم نبوت کا کام کرنا، قرآن کریم کی اس آیت کی رو سے ان چھ انعامات کے ملنے کی سند اور ضمانت ہے، جو شخص چاہے وہ سرکاری افسر ہو یا عام آدمی، تاجر ہو یا مزدور، وکیل ہو یا جج، مُلَّا مولوی ہو یا مسٹر، غرض جو شخص بھی یہ چاہے کہ وہ اس آیت کا مصداق بن جائے یا حضرت ابوبکر صدیقؓ کی معیت اور ان کی اقتدأ میں اس آیتِ شریفہ کی بشارت کا مستحق بن جائے، اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس زمانے میں غلام احمد قادیانی کی جھوٹی نبوت اور اس کی ذریت خبیثہ کا مقابلہ کرے۔
اپنے مسلمان بھائیوں کو عقیدہ ختم نبوت سے آگاہ کریں اور قادیانیوں سے مکمل قطع تعلق کریں۔ان کی شرکت اپنی کسی مجلس یاکسی پروگرام ، شادی بیاہ ،خوشی غمی کی تقریبات،جنازہ وغیرہ میں برداشت نہ کریںاور ہر سطح پر ان کا مقابلہ کریں۔مرزا قادیانی کو ماننے والے اس خطرناک گروہ کی تبلیغی سرگرمیوںپر نظر رکھیں۔ علماء کرام پر یہ فریضہ عائد ہوتا ہے کہ وہ مہینے میں کم از کم ایک خطبہ جمعہ میں عقیدہ ختم نبوت کو مضبوط دلائل سے واضح کرتے ہوئے مسلمانوں کی ذہن سازی کریں۔ انٹرنیٹ والے حضرات سے درخواست ہے کہ وہ ویب سائٹ WWW.KHATMENBUWAT.ORGمستقل وزٹ کرتے رہیں ۔خود بھی استفادہ کریں اور اپنے دوستوں کو بھی بتائیں۔یہ آپ کا دینی فریضہ ہے۔ عقیدہ ختم نبوت اور ردقادیانیت پر مشتمل لٹریچر مرکز سراجیہ سے مفت حاصل کرنے اور قادیانیوں کے دجل وفریب کے جوابات حاصل کرنے کے لئے خط لکھیں،فون کریں یا خود تشریف لائیں۔تمام خواتین وحضرات سے اپیل ہے کہ یہ مضمون کثیر تعداد میں چھپوا کرمفت تقسیم کریں یا چھپوانے کے لئے ہم سے رابطہ کریں تاکہ امت مسلمہ کی نئی نسل فتنہ قادیانیت سے آگاہ ہوسکے اور کسی کی متاع ایمان نہ لٹ سکے۔اللہ رب العزت ہماری ان حقیر محنتوں کو اخلاص کی دولت سے مالا مال فرماکر اپنی رضا کا سبب بنائے۔ آمین ثم آمین
الحمدللہ! پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے۔ جس کے آئین کے سیکشن7 الف میں قرآن و سنت کی بالادستی کا اقرار کیاگیا ہے۔ قرآن و سنت کی رُو سے عقیدہ ختم نبوت دین اسلام کی اساس ہے۔ یہ ایک ایسا عقیدہ ہے جس کی بدولت امت مسلمہ انتشار سے محفوظ ہے۔ یہی عقیدہ پوری امت مسلمہ کے اتحاد، یکجہتی، وحدت، استحکام اور سا لمیت کا آئینہ دار ہے۔
قادیانی جماعت اس عقیدہ کی منکر ہے۔ قادیانیوں کا اس عقیدے سے انکار امت مسلمہ کی یکجہتی اور استحکام کو نقصان پہنچانے اور انتشار و تفریق پیدا کرنے کا باعث ہے لہٰذا مسلمانوں کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ وہ ایسی جماعت کی مذموم سرگرمیوں کے خلاف اپنا دفاع کریں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ اسلام اور قادیانیت دو الگ الگ مذاہب ہیں مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ نبوت و رسالت حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہوگئی ہے۔ جبکہ قادیانی حضرات مرزا غلام احمد کو نیا نبی اور رسول مانتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے نزدیک غیر قادیانی یعنی مسلمان، کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔ دراصل قادیانیت ، برطانوی سامراج کی بدترین یادگار ہے جو اس کی حمایت اور سرپرستی میں کام کررہی ہے کہ ایک مذہب ہی نہیں بلکہ ایک ایسی تحریک بھی ہے جس کی اسلام اور پاکستان سے وفاداری مشکوک ہے۔ پاکستان کے مذہبی حلقوں کا ہمیشہ سے یہ تاثر رہا ہے کہ قادیانی حضرات امت مسلمہ کےہر معاملے کی بھرپومخالفت کرتے رہتے ہیں اور یہودوہنود کے ہر اس منصوبے کی حمایت کرتے ہیں جس کا مقصد مسلمانوں یا اسلام کو نقصان پہنچانا ہو۔ ایسے شواہدبھی سامنے آئے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ اسلام دشمن طاقتوں سے تعاون کرتے ہوئے اسلامی عقائد اور تعلیمات کو مسخ کرنے اور ان میں تحریف کرنے کے لئے ان کے ایجنٹ کے طور پر بھی کام کرتے رہے ہیں۔ یہ اطلاعات بھی ملتی رہی ہیں کہ قادیانی لابی غیر محسوس طریقے سے پاکستان کو اندر ہی اندر سے کمزور کرنے میں مصروف ہے۔ کراچی اور پنجاب میں جو تخریب کاری، دہشت گردی اور قتل وغارت ہورہی ہے۔ قادیانی لابی کو بھی اس ضمن میں شک کی نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔ ہمارے بعض مذہبی حلقوں کا یہ خیال ہے کہ یہی وہ خفیہ ہاتھ ہے جو ملک کی معاشی ترقی اور استحکام کا دشمن ہے۔ خود علامہ اقبالؒنے بھی اس خطرناک گروہ کی نشاندہی پنڈت جواہر لعل نہرو کے نام اپنے تاریخی مکتوب میں یہ کہہ کر ، کردی تھی کہ ’’قادیانی اسلام اور ملک دونوں کے غدار ہیں۔‘‘
1974ء میں پاکستان کی منتخب پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر دوسری آئینی ترمیم کے ذریعے قادیانیوں کو ان کے کفریہ عقائد کی بنا پر آئین کے آرٹیکل106اور آرٹیکل 260کی ذیلی شق (3) کے تحت غیر مسلم اقلیت قرار دیا۔ یہ ترمیم طویل صلاح مشورے، علمی بحث و مباحثے اور مسئلے کی مکمل چھان بین کے بعد جمہوری، پارلیمانی اور عدالتی طریقے پر کی گئی تھی۔ پارلیمنٹ میں انہیں غیر مسلم قرار دئیے جانے والے اجلاس میں یہ قرارداد بھی پیش کی گئی کہ ’’احمدی اندرونی اور بیرونی سطح پر تخریبی سرگرمیوں میں مصروف ہیں، حکومت پاکستان اپنی ذمہ داریاں پوری کرتے ہوئے ان سرگرمیوں کے سدباب کے لیے فوری اور ٹھوس اقدامات کرے۔‘‘ درج بالا حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے ضرورت اس بات کی ہے کہ اس گروہ کی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھی جائے اور مسلمانوں کو ان کی حقیقت اور مذموم عقائد وعزائم سے آگاہ کیا جائے۔ مسلمانوں کے لیے جہاں عقیدہ ختم نبوت کی تفصیلات سے آگاہی ضروری ہے، وہاں ان کے لیے قادیانیوں کے اصل چہرے سے شناسی بھی ضروری ہے۔
لیفٹیننٹ جنرل (ر) حمید گل
(سابق) سربراہ آئی ایس آئی
اسلام آباد
اپنے مسلمان بھائیوں کو عقیدہ ختم نبوت سے آگاہ کریں اور قادیانیوں سے مکمل قطع تعلق کریں۔ان کی شرکت اپنی کسی مجلس یاکسی پروگرام ، شادی بیاہ ،خوشی غمی کی تقریبات،جنازہ وغیرہ میں برداشت نہ کریںاور ہر سطح پر ان کا مقابلہ کریں۔مرزا قادیانی کو ماننے والے اس خطرناک گروہ کی تبلیغی سرگرمیوںپر نظر رکھیں۔ علماء کرام پر یہ فریضہ عائد ہوتا ہے کہ وہ مہینے میں کم از کم ایک خطبہ جمعہ میں عقیدہ ختم نبوت کو مضبوط دلائل سے واضح کرتے ہوئے مسلمانوں کی ذہن سازی کریں۔ انٹرنیٹ والے حضرات سے درخواست ہے کہ وہ ویب سائٹ WWW.KHATMENBUWAT.ORGمستقل وزٹ کرتے رہیں ۔خود بھی استفادہ کریں اور اپنے دوستوں کو بھی بتائیں۔یہ آپ کا دینی فریضہ ہے۔ عقیدہ ختم نبوت اور ردقادیانیت پر مشتمل لٹریچر مرکز سراجیہ سے مفت حاصل کرنے اور قادیانیوں کے دجل وفریب کے جوابات حاصل کرنے کے لئے خط لکھیں،فون کریں یا خود تشریف لائیں۔تمام خواتین وحضرات سے اپیل ہے کہ یہ مضمون کثیر تعداد میں چھپوا کرمفت تقسیم کریں یا چھپوانے کے لئے ہم سے رابطہ کریں تاکہ امت مسلمہ کی نئی نسل فتنہ قادیانیت سے آگاہ ہوسکے اور کسی کی متاع ایمان نہ لٹ سکے۔اللہ رب العزت ہماری ان حقیر محنتوں کو اخلاص کی دولت سے مالا مال فرماکر اپنی رضا کا سبب بنائے۔ آمین ثم آمین
بد گفتار، لعنتی کر دار،ہر زہ سر ائی میں منہ زور نبو ت کاچو ر،جھو ٹ کامجسمہ انگریز کے بوٹ کاتسمہ ،خو اہشات کابند ہ، سوچ کاگند ہ، عادات ذلیل فطر ت رزیل ،بد شکل کو تاہ عقل ،مکر وہ خد و خال بے ڈھنگی چال ،ایک آنکھ سے کاناکفر میںسیانا،دل سیاہ ضمیر ٹھاہ، فرنگی کاغلام دشمن خیر الانام صلی اللہ علیہ وسلم،گالیو ں کی بر سات ار تد اد کی سیاہ رات ،ایمان کاشکاری درِ انگر یز کابھکاری ،دولت کاحر یص منافقت کا مریض، اخلاق کاقا تل سر اپاباطل ،ننگ شر افت لائق حقارت ،فتنہ ساز نو سرباز ،علامت فساد منکرجہاد ،کلیساکاپجاری ملکہ پہ صدقے واری، امام دجل و تلبیس باعث فخر ابلیس،پیشوائے مر تد ین رہنمائے ز ند یقین ،منکر حد یث ازلی خبیث ۔غدار ابن غدارانگر یز کازلہ خوار، کافر کبیر زلف ملکہ و کٹو ریہ کااسیر مسیلمہ کذاب کاترجمان اسو د عنسی کانشان کفر کی بر ہان شیطان کی پہچان دشمن قر آن بانی فتنہ ء قادیان،شخصیت بڑی شیطانی ہے ۔نام مر زا غلام احمد قادیانی ہے ۔
یہ ننگ انسانیت بھارت کے صو بہ مشر قی پنجاب کے ضلع گو رداسپور کے ایک پسماند ہ گائو ں ''قادیان ''میں پید ا ہو ا۔اس کے بیٹے بشیر احمد نے اپنی کتاب ''سیر ت المہد ی'' میںاس کی تار یخ پید ا ئش 1836ء لکھی ہے ۔اپنی پیدائش کی لمحہ بہ لمحہ رپورٹ مرزا قادیانی اپنی کتاب میں یوں لکھتا ہے ۔''میرے ساتھ ایک لڑکی پیدا ہوئی جس کا نام جنت تھا۔اور پہلے وہ لڑکی پیٹ میں سے نکلی تھی اور بعد اس کے میں نکلا تھا…اور میرا سر اس کے پائوں میں تھا۔'' (تریاق القلوب صفحہ 351 ، روحانی خزائن صفحہ 479جلد15 از مرزا قادیانی) مرزا قادیانی کے باپ کا نام غلام مرتضی تھاجس نے تمام عمر اسلام دشمن طاقتوں کے ایجنٹ کے طور پر گذاری اور نماز کبھی نہ پڑھی۔اس کی ماں کا نام چراغ بی بی عرف گھسیٹی تھا۔مرزا قادیانی کو بچپن میں دسوندی اور سندھی کے ناموں سے پکاراجاتا تھا۔ مرزا قادیانی نے 'کتاب البریہ ' کے صفحہ134پراپنی قوم مغل(برلاس) بتائی اور لکھا کہ میرے بزرگ ثمرقند سے پنجاب میں وارد ہوئے تھے لیکن اس کتاب کے صفحہ 135کے حاشیہ پر لکھا ہے کہ میرے الہامات کی رو سے ہمارے آبائو اولین فارسی تھے اور 1900ء تک اسی موقف پر قائم رہا۔5نومبر1901ء کو رسالہ 'ایک غلطی کا ازالہ'شائع کیاجس کے صفحہ16پر لکھا کہ میں ''اسرائیلی بھی ہوںاور فاطمی بھی''۔اس کے ایک سال بعد اپنی کتاب' تحفہ گولڑویہ 'کے صفحہ 40 پر لکھا کہ میرے بزرگ چینی حدود سے پنجاب میں پہنچے تھے اور اپنی کتاب 'چشمہ معرفت'میں اپنے آپ کو چینی الاصل ثابت کرنے کی کوشش کی۔
اپنی تعلیم سے متعلق مرزا قادیانی لکھتا ہے ''جب میں چھ سات سال کا تھا تو ایک فارسی خواں معلم میرے لئے نوکر رکھا گیا جنہوں نے قرآن شریف اور چند فارسی کتابیں مجھے پڑھائیں ... ایک عربی خواں مولوی صاحب میری تربیت کیلئے مقرر کئے گئے... میں نے صرف کی بعض کتابیں اور کچھ قواعد نحو ان سے پڑھے اور بعداس کے جب میں سترہ یا اٹھارہ سال کا ہوا تو ایک اور مولوی صاحب سے چند سال پڑھنے کا اتفاق ہوا، ان کا نام گل علی شاہ تھا۔ان کو بھی میرے والد صاحب نے نوکر (استاد کا احترام ملاحظہ فرمائیں) رکھ کر قادیان میں پڑھانے کیلئے مقرر کیا تھا اور ان آخر الذکر مولوی صاحب سے میں نے نحو اور منطق اور حکمت وغیرہ علوم مروجہ کو جہاں تک خداتعالیٰ نے چاہا ، حاصل کیا۔'' (کتاب البریہ حاشیہ صفحہ 162،163 مندرجہ روحانی خزائن جلد 13 صفحہ180،181 از مرزا قادیانی)
مرزا قادیانی نے تعلیم ادھوری چھوڑی اور اب تعلیم کے علاوہ دیگر مصروفیات کے بارے میں مرزا قادیانی لکھتا ہے ''میرے والد صاحب اپنے بعض آبائو اجداد کے دیہات کو دوبارہ لینے کیلئے انگریزی عدالتوں میں مقدمات کر رہے تھے، انہوں نے ان ہی مقدمات میں مجھے بھی لگایا اور ایک زمانہ دراز تک ان کاموں میں مشغول رہا مجھے افسوس ہے کہ بہت سا وقت عزیز میرا ان بیہودہ جھگڑوں میں ضائع ہوگیا اور اس کے ساتھ ہی والد صاحب موصوف نے زمینداری امور کی نگرانی میں مجھے لگادیا۔ میں اس طبیعت اور فطرت کا آدمی نہیں تھا۔اس لئے اکثر والد صاحب کی ناراضگی کانشانہ رہتا رہا۔ (کتاب البریہ صفحہ 164 مندرجہ خزائن جلد 13 صفحہ182از قادیانی)
مرزاقادیانی کو چڑیا پکڑنے کا شوق تھااور انہیں سرکنڈوں سے ذبح کرلیتا ۔قادیان کے چھپڑ میں تیراکی کا شوق تھا۔اکثر جوتا الٹا سیدھا پہنا کرتا تھا۔ چابیاںریشمی ازاربند کے ساتھ باندھا کرتا تھا۔ اوپر والے کاج میں نیچے والا بٹن اور نیچے والے کاج میں اوپر والا بٹن اکثر لگاتا اور جرابیںبھی الٹی پہنتایعنی ایڑھی والا حصہ اوپرہوتا۔ پسندیدہ بیٹھنے کی جگہ پاخانہ کیلئے استعمال ہونے والا کمرہ تھا جہاں کنڈی لگا کر دو ،تین گھنٹے بیٹھا رہتا تھا۔ مرزا قادیانی کی طبیعت آوارہ اور فضول خرچی کا شوق غالب تھا۔سیرت المہدی جلد اول صفحہ34پر مرزا قادیانی کا بیٹا مرزا بشیر احمد اپنے باپ کاواقعہ اپنی والدہ کے حوالے سے لکھتا ہے ''بیان کیا مجھ سے والدہ صاحبہ نے ایک دفعہ اپنی جوانی کے زمانے میں حضرت مسیح موعود تمہارے دادا کی پنشن مبلغ 700روپے وصول کرنے گئے تو پیچھے پیچھے مرزا امام الدین چلا گیا۔جب آپ نے پنشن وصول کر لی تو آپ کو بہلا پھسلا کر اور دھوکہ دے کر بجائے قادیان لانے کے باہر لے گیا اور ادھر ادھر پھراتا رہا پھر جب اس نے سارا روپیہ اڑا کر ختم کر دیا تو آپ کو چھوڑ کرکہیں اور جگہ چلا گیا۔ حضرت مسیح موعود اس شرم سے گھر واپس نہیں
آئے۔ ''(سیرت المہدی جلد اول صفحہ 34 از مرزا بشیر احمد)
اب گھر جاتا تو جوتے پڑتے اسی لئے گھرجانے کی بجائے سیالکوٹ کی کچہری میں 15روپے ماہوار پر بطور منشی ملازم ہوگیا۔سیرت المہدی کے مطابق مرزا قادیانی کی سیالکوٹ کی کچہری کی مدت ملازمت 1864ء تا1868ء ہے۔مر زا احمد علی شیعی اپنی کتاب دلیل العر فان میں لکھتے ہیں کہ ''منشی غلام احمد امر تسر ی نے اپنے رسالہ ''نکاح آسمانی ''کے رازہائے پنہائی میںلکھاتھاکہ مرزانے زمانہ محر ری میں خوب رشوتیں لیں۔یہ رسالہ مرزاکی وفات سے آٹھ سال پہلے 1900 ء میںشائع ہو گیا تھا مگر مرزاقا دیانی نے اس کی تر دید نہیں کی ۔اسی طر ح مو لوی ابر ہیم صاحب سیالکوٹی نے 'مناظر ہ روپڑ،میں جو 22-21مارچ 1932ء میں ہو ا،ہز ارہاکے مجمع میںبیان کیاکہ مرزاصاحب نے سیالکوٹ کی نوکر ی میںر شوت ستانی سے خو ب ہاتھ رنگے اور یہ سیالکو ٹ ہی کی ناجائز کمائی تھی جس سے مرزاصاحب نے چار ہز ار روپیہ کازیو ر اپنی دو سر ی بیگم کو بنو اکر دیا ۔''(رودادمناظرہ روپڑ مطبوعہ کشن سٹیم پریس جالندھر ص35) رشو ت خو ری کاایک نرالااچھوتااور ماڈر ن اندازبھی ملاحظہ ہو ۔''ہمارے نانافضل دین صاحب فرمایاکرتے تھے کہ مرزاصاحب کچہر ی سے واپس آتے توچو نکہ آپ اہلمد تھے مقد مے والے زمیند ار ان کے مکان تک پیچھے آجاتے''۔ (یامرزاقادیانی خودلے آتا)۔(مئو لفّ) (سیر ت المہدی جلد 3صفحہ93)دورانِ ملازمت قانون کی کتابوں کا مطالعہ کیا اور مختاری کا امتحان دیا مگر امتحان میں کامیاب نہ ہوا اور منشی سے آگے نہ بڑھ سکا۔اسی دوران انگریزی ڈپٹی کمشنر کے توسط سے مسیحی مشن کے ایک اہم اور ذمہ دار شخص نے ڈی سی آفس میں مرزا قادیانی سے ملاقات کی۔ گویا یہ انٹرویو تھا مسیحی مشن کا۔ یہ فرد واپس اپنے ملک روانہ ہوگیا اور مرزا قادیانی ملازمت چھوڑ کر قادیان پہنچ گیا۔ باپ نے کہا کہ نوکری کی فکر کرو، جواب دیا کہ میں نوکر ہوگیا ہوںاور پھر بغیر مرسل کے پتہ کے منی آرڈر ملنے شروع ہوگئے۔ مرزا قادیانی نے مذہبی اختلافات کو ہوا دی، بحث و مباحثہ، اشتہار بازی اور کفروارتداد پر مبنی تصانیف کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ پھر مرزا قادیانی نے اعلان کیا کہ وہ کتاب لکھے گا جو پچاس جلدوں پر مشتمل ہوگی لہٰذا تمام مسلمان مخیر حضرات اس کی طباعت وغیرہ کیلئے پیشگی رقوم ارسال کریں۔مرزاقادیانی کے بیان کے مطابق لوگوں نے پچاس جلدوں کی رقم پیشگی بھجوادی۔ مرزا قادیانی نے براہین احمدیہ کے نام سے اس کتاب کو لکھا۔ پانچ جلدیں مکمل ہونے پر کیا اعلان کیا،لوگوں کے پیسے ہڑپ کرنے کیلئے کیا مضحکہ خیز دلیل دی ملاحظہ ہو۔''پہلے پچاس لکھنے کا ارادہ تھا مگر پچاس سے پانچ پر اکتفا کیا گیااور چونکہ پچاس اور پانچ کے عدد میں صرف ایک نقطہ کا فرق ہے، اس لئے پانچ حصوں سے وہ وعدہ پورا ہوگیا۔ ''(براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ7 مندرجہ روحانی خزائن جلد21صفحہ9از مرزا قادیانی) مرزا قادیانی نے 85 کے قریب کتابیں لکھیں۔ ان کتابوں کو علیحدہ علیحدہ بھی شائع کیا گیا اور 23جلدوں میں روحانی خزائن کے نام سے ایک مجموعہ کی شکل میں اکٹھا کیا گیا ہے۔ ان کتابوں میں مرزا قادیانی نے سینکڑوں دعوے کئے۔ اس نے بتدریج خادم اسلام ، مبلغ اسلام، مجدد، مہدی، مثیل مسیح، ظلی و بروزی نبی، مستقل نبی، انبیاء سے افضل حتیٰ کہ خدائی تک کادعویٰ کیا۔یہ سب کچھ ایک طے شدہ منصوبہ، گہری چال اور خطرناک سازش کے تحت کیا۔ حقیقت میں تو نبی، مہدی، مسیح، مجدد ، عالم فاضل ہونا تو دور کی بات ہے مرزا غلام احمد قادیانی انسان بھی نہ تھا۔ خود اپنی ذات کے متعلق ایک شعر کہتا ہے کہ
کرم خاکی ہوں میرے پیارے نہ آدم زاد ہوں
ہوں بشر کی جائے نفرت اور انسانوں کی عار
بشر کی جائے نفرت یعنی مرزا قادیانی کی پہلی شادی حرمت بی بی سے ہوئی جس کو لوگ'پھجے دی ماں' کہا کرتے تھے۔ جس سے دو لڑکے مرزا سلطان احمد اور مرزا فضل احمد پیدا ہوئے۔اس کے بعدکافی عرصہ تک پہلی بیوی سے مباشرت ترک کئے رکھی۔ پھر پچاس سال کی عمر میںدوسری شادی کرلی۔مرزا قادیانی کی دوسری بیوی کا نام نصرت جہاں بیگم ہے، جس سے پچاس سال کی عمر میں شادی رچائی۔نصرت جہاں بیگم ماڈرن خاتون تھی اور مرزا قادیانی کے مریدوں کے ساتھ قادیان سے لاہور سینکڑوں میل کی مسافت طے کر کے کئی دن خریداری کیلئے لاہور میں گزارہ کرتی تھی۔اگرچہ مرزا قادیانی دائمی مریض تھا اور نامردی کا اقرار بھی کرتا تھا تاہم اولاد کثرت سے ہوئی جس کی تعداد دس تھی۔
مرزا قادیانی کی زندگی کا سب سے دلچسپ واقعہ محمدی بیگم سے نکاح کی خواہش کے متعلق ہے جس پر وہ دل ہار بیٹھا اور اسے حاصل کرنے کیلئے عجیب و غریب ہتھکنڈے استعمال کیے جن میں سب سے زیادہ دلچسپ یہ اعلان تھا کہ ''خدا نے آسمان پر محمدی بیگم سے میرا نکاح کردیا ہے اور وہ ضرور میری ہوگی۔'' لیکن نکاح نہ ہونا تھا، نہ ہواالبتہ محمدی بیگم کے والدین نے اس کی شادی سلطان محمود سے کردی اور اللہ پاک نے محمدی بیگم کو تین بیٹے عطا کئے۔ چونکہ محمدی بیگم بھی مرزا قادیانی کے خاندان سے تھی اور خاندان والوں نے اس کا نکاح دوسری جگہ کروا دیا تھا۔ مرزا قادیانی کی پہلی بیوی نے اس مسئلہ پر خاندان والوں سے قطع تعلق نہ کیا جس وجہ سے مرزا قادیانی نے اس کو طلاق دے دی۔
قادیانی مر زا قادیانی کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے ہیںلیکن ہم جھو ٹ کے اس پہاڑکو سچائی کی ٹھو کر سے اڑاتے ہو ئے یہ اعلان کرتے ہیں کہ یہ بد خصلت اس فرش خاکی پہ جنم لینے والابد تر ین انسان تھاجس کے رگ ور یشے پر شیطان کی حکمر انی تھی ،جس کادماغ ابلیسی سازشوں کا ہیڈ کوارٹر تھااور جس کادل کفر و ار تد اد کااند ھاکنو اں تھا،جس کا باطن قبر کی تاریکی سے زیادہ کالاتھااور جس کی زبان گالیو ں اور گستاخیو ں کی مشین گن تھی ۔یہ شخص شر ا ب و افیو ن کار سیاتھا۔زناجیسے فعل شنیع کاعادی تھا۔بے غیرت وبے حیاتھا۔جاہل مطلق اور مخبو ط الحواس تھا ۔بے ہودہ شاعری کرنا اس کا شوق تھا۔جھو ٹ بو لنااور فر اڈ کے ذر یعہ لو گو ں سے رقم حاصل کر نااس کی سر شت میں دا خل تھا ۔چو راور لٹیرا تھا۔ اسلام اور ملت اسلامیہ کاغد ار اور یہو دو نصاری کاپالتو تھا ۔اس کی زبان پلید نے دعو ی نبو ت اور جہاد کے حرام ہو نیکااعلان کیا۔
دنیا میں بہت سے گمراہ اور جھوٹے مدعی نبوت گذرے ہیں جنہوں نے ایک آدھ دعویٰ کیا مگر مرزا قادیانی کے دعوئوں کا کوئی حد اور شمار نہیں۔ مرزا قادیانی نے سینکڑوں دعوے کر کے تمام مدعیان نبوت سے کفر اور دجل میںسبقت لے گیا۔دعوئوں کی کثرت کی وجہ سے مرزائی امت بھی مرزا قادیانی کا تعین نہیں کرسکی کہ وہ کیا چیز ہے؟ کوئی کہتا ہے کہ مرزا قادیانی مجدد زماں یا امام دوراں یا مہدی زماں ہونے کا دعوے دار تھا۔ کوئی کہتا ہے کہ مسیح موعود ہونے کا دعوے دار تھا۔ کوئی کہتا ہے کہ لغوی یا مجازی یا بروزی یا ظلی نبی ہونے کا دعوے دار تھا اور کوئی کہتا ہے کہ مرزا قادیانی غیر تشریح نبی تھاا ور کوئی اسے صاحب شریعت اور مستقل نبی مانتا ہے۔
مرزا قادیانی اپنی تمام تر خباثتوں اور باطل دعووں سمیت ہیضہ کے مرض (جسے مرزا قادیانی قہرِ الٰہی کا نشان اور ہیضہ سے مرنے کو لعنتی موت قرار دیتا تھا) میں مبتلا ہو کر 26مئی 1908 ء کو اپنے ایک مرید کے گھر واقع برانڈرتھ روڈ لاہورمیں مرا۔مرزا قادیانی کی زندگی کا آخری فقرہ''میر صاحب !مجھے وبائی ہیضہ ہوگیا ہے''تھا (مندرجہ حیات ناصر صفحہ 14)۔بوقت موت غلاظت اوپر اور نیچے سے بہہ رہی تھی۔ اپنی ہی غلاظت کے اوپرگر کر مرجانے سے زیادہ عبرتناک موت اور کیا ہوسکتی ہے؟ لاش مال گاڑی (جسے مرزا دجال کا گدھاکہا کرتا تھا) میں لاد کر قادیان پہنچائی گئی جہاں مٹی میں دبا دیاگیا۔
اپنے مسلمان بھائیوں کو عقیدہ ختم نبوت سے آگاہ کریں اور قادیانیوں سے مکمل قطع تعلق کریں۔ان کی شرکت اپنی کسی مجلس یاکسی پروگرام ، شادی بیاہ ،خوشی غمی کی تقریبات،جنازہ وغیرہ میں برداشت نہ کریںاور ہر سطح پر ان کا مقابلہ کریں۔مرزا قادیانی کو ماننے والے اس خطرناک گروہ کی تبلیغی سرگرمیوںپر نظر رکھیں۔ علماء کرام پر یہ فریضہ عائد ہوتا ہے کہ وہ مہینے میں کم از کم ایک خطبہ جمعہ میں عقیدہ ختم نبوت کو مضبوط دلائل سے واضح کرتے ہوئے مسلمانوں کی ذہن سازی کریں۔ انٹرنیٹ والے حضرات سے درخواست ہے کہ وہ ویب سائٹ WWW.KHATMENBUWAT.ORGمستقل وزٹ کرتے رہیں ۔خود بھی استفادہ کریں اور اپنے دوستوں کو بھی بتائیں۔یہ آپ کا دینی فریضہ ہے۔ عقیدہ ختم نبوت اور ردقادیانیت پر مشتمل لٹریچر مرکز سراجیہ سے مفت حاصل کرنے اور قادیانیوں کے دجل وفریب کے جوابات حاصل کرنے کے لئے خط لکھیں،فون کریں یا خود تشریف لائیں۔تمام خواتین وحضرات سے اپیل ہے کہ یہ مضمون کثیر تعداد میں چھپوا کرمفت تقسیم کریں یا چھپوانے کے لئے ہم سے رابطہ کریں تاکہ امت مسلمہ کی نئی نسل فتنہ قادیانیت سے آگاہ ہوسکے اور کسی کی متاع ایمان نہ لٹ سکے۔اللہ رب العزت ہماری ان حقیر محنتوں کو اخلاص کی دولت سے مالا مال فرماکر اپنی رضا کا سبب بنائے۔ آمین ثم آمین
مرزائیوں/قادیانیوں سے کسی قسم کا تعلق رکھناچائیے یا نہیں؟
حضرت مولانا عبدالرحمن صاحب مدظلہ العالی (شاہ عالمی، مظفر گڑھی)
نحمدہ و نصلی علی روسلہ کریم:بعد حمدو صلوۃاور بسم اللہ کے گزارش ہے کہ بہت سے احباب نے مجھ سے دریافت کیا ہے کہ مرزائیوں/قادیانیوں کے ساتھ کھانا پینا ،اٹھنا بیٹھنا،انکی خوشی غم میں شریک ہونا ،انکے ساتھ دوستی پیار کرنا ،انکی دکانوں/بیکریوں سے سودا خریدنا، انکے ہسپتالوں میں علاج معالجے کے لئے اپنے مریضوں کو داخل کرانا، انکی ویگنوں/بسوں میں سفر کرنااور کسی قسم کا تعلق رکھنا جوڑناچائیے یا نہیں؟
جواباً عرض ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر اللہ تعالیٰ نے نبی کریم علیہ الصلوۃ والسلام سے فرمایا آج تمام کافر اور جنہیں معاف کرنا چائیں معاف کر دیںمگر ایک کافر وہ ہے جسے آپ نے معاف نہیں کرنا بیشک وہ خانہ کعبہ کے اندر کیوں نہ داخل ہو جائے وہاں بھی اسے قتل کر دیا جائے اس واسطے کہ میرے حبیب وہ آپکی حجو کیا کرتا تھا آپکی توہین میں اشعار اورنظمیںکہا کرتا تھا اس واسطے اسے قتل کر دیا جائے۔گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق اللہ پاک کا یہی فیصلہ ہے۔ مرزا غلام احمد قادیانی اور اسے ماننے والے تمام مرزائی /قادیانی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ،حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور تمام انبیاء کرام علیہم السلام کے گستاخ ہیں۔
مرزا غلام احمد قادیانی نے جو کچھ لکھا ہے اسے مرزائی /قادیانی اس طرح ہی مانتے ہیں جس طرح ہم لوگ قرآن و حدیث شریفین کو مانتے ہیں۔مرزاغلام احمد قادیانی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ محترمہ حضرت مریم علیہا السلام کے بارے میں لکھتا ہے…"مریم کی وہ شان ہے جس نے ایک مدت تک اپنے تیئں نکاح سے روکا اور پھر بزرگان قوم کے نہایت اصرار سے بوجہ حمل کے نکاح کر لیا ،گو لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ برخلاف تعلیم تورات عین حمل میں نکاح کیا گیا اور بتول ہونے کے عہد کو کیونکر ناحق توڑا گیا اور تعدادازواج کی کیوں بنیاد ڈالی گئی۔ یعنی باوجودیوسف نجار(تر کھان)کی پہلی بیوی کے ہونے کے پھر مریم کیوں راضی ہو ئی کہ یوسف نجار (ترکھان)کے نکاح میں آوے۔ میں کہتا ہوں کہ یہ سب مجبوریاں ہیںجو پیش آگئیں۔اس صورت میں وہ لوگ قابل رحم تھے نہ قابل اعتراضـ"(کشی نوح صفحہ16مندرجہ روحانی خزائین جلد 19صفحہ18)
پھر مرزا غلام احمد قادیانی لکھتا ہے…"حضرت مریم صدیقہ کا اپنے منسوب یوسف (ترکھان)کے ساتھ قبل نکاح پھرنااس اسرائیلی رسم پر پختہ شہادت ہے"(ایام صلح صفحہ 66روحانی خزائین جلد 14صفحہ300)
مرزا غلام احمد قادیانی لکھتا ہے…"جب چھ سات مہینہ کا حمل ظاہر ہو گیا تب حمل کی حالت میں ہی قوم کے بزرگوں نے مریم کا یوسف نا م کے ایک نجار(ترکھان)سے نکاح کر دیااور اس کے گھر جاتے ہی ایک دو ماہ کے بعد مریم کوبیٹا پیدا ہوا وہی عیسیٰ اور یسوع کے نام سے مشہور ہوا"(نعوذ باللہ من ذالک)
(چشمہ مسیحی صفحہ 26روحانی خزائین جلد 20صفحہ355-356)
مرزا غلام احمد قادیانی لکھتا ہے…"ایک اور اعتراض ہے جو ہم نے کیا تھا اور وہ یہ ہے کہ یسوع (عیسیٰ علیہ السلام )کی نسبت بیان کیا جاتا ہے کہ وہ موروثی اور کسبی گناہ سے پاک تھا حالانکہ یہ صریح غلط ہے…یسوع نے اپنا گوشت و پوست تمام تر اپنی والدہ سے پایا تھا اور وہ گناہ سے پاک نہ تھی"(نعوذ باللہ من ذالک)
(کتاب البدیہ 59روحانی خزائین جلد 13صفحہ77)
مرزا غلام احمد قادیانی لکھتا ہے…"آپ (یعنی عیسیٰ علیہ السلام )کا خاندان بھی نہایت پاک اور مطہر ہے، تین دادیاں اور نانیاں زناکار اور کسبی عورتیں تھیں جن کے خون سے آپ کا وجود ظہور پذیر ہوا"(نعوذ باللہ من ذالک)(ضمیمہ انجام آتھم صفحہ7روحانی خزائین جلد 11صفحہ291)
سوال کرنے والے سے میں پوچھتا ہوں کہ مذکورہ بالا عبارتیں بار بار پڑھیں کیا ان سے نعوذ باللہ ثم نعوذ باللہ من ذالک نقل کفرکفرنہ باشدیہ ثابت نہیں ہوتا کے حضرت عیسیٰ علیہ السلام حلال زادے پیدا نہیں ہوئے تھے اور مریم علیہا السلام اور یوسف نجارنکاح سے پہلے آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ زنا کرتے کراتے رہے(نعوذ باللہ من ذالک)
فرمائیے اگر کوئی ہمیں کہے کہ تمھاری تین نانیاں دادیاں زناکار کسبی عورتیں تھیں تمھاری ماں فلاں آدمی کے ساتھ نکاح سے پہلے پھرا کرتی تھی جب چھ سات ماہ کا حمل ظاہر ہو گیا تو اسی کے ساتھ حمل کی حالت میں نکاح کر لیا۔ اسکے گھر جاتے ہی ایک دو ماہ کے بعد تم پیدا ہو گئے ۔ کون ایسا بے غیرت ہے جو ایسے شخص کے ساتھ کسی قسم کا تعلق جوڑیگا۔سچ تو یہ ہے کہ بے غیرت انسان سے بھی اتنی بے غیرتی کی امید نہیں ہو سکتی چہ جائیکہ اللہ کے نبی کی ماں کو جنکی تعریف میں قرآن شریف کے ورقے بھرے پڑے ہیں اور اللہ کے نبی کو ایسے ناپاک کلموں سے یاد کرنے والوں کے بارے میں سوال کیا جائے کہ ایسوں کے ساتھ کھانا پینا اٹھنا بیٹھنا انکی خوشی غم میں شریک ہونا وغیرہ وغیرہ کسی قسم کا تعلق رکھنا جوڑنا چاہئیے یا نہ۔میری طرف سے ہی نہیں ہر غیرت مند اپنی غیر ت سے یہ سوال کرے تو غیرت یہی کہے گی کہ ایسوں کے منہ پر پیشاب کرنا اپنے پیشاب کی توہین کرنا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ایک مسلمان کسی کے منہ سے ایسے کلمات اپنے ماں باپ کیلئے تو شاید برداشت کرلے حضرت مریم صدیقہ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق برداشت کرے ایں خیا ل است بحال است و جنوں۔
اپنے مسلمان بھائیوں کو عقیدہ ختم نبوت سے آگاہ کریں اور قادیانیوں سے مکمل قطع تعلق کریں۔ان کی شرکت اپنی کسی مجلس یاکسی پروگرام ، شادی بیاہ ،خوشی غمی کی تقریبات،جنازہ وغیرہ میں برداشت نہ کریںاور ہر سطح پر ان کا مقابلہ کریں۔مرزا قادیانی کو ماننے والے اس خطرناک گروہ کی تبلیغی سرگرمیوںپر نظر رکھیں۔ علماء کرام پر یہ فریضہ عائد ہوتا ہے کہ وہ مہینے میں کم از کم ایک خطبہ جمعہ میں عقیدہ ختم نبوت کو مضبوط دلائل سے واضح کرتے ہوئے مسلمانوں کی ذہن سازی کریں۔ انٹرنیٹ والے حضرات سے درخواست ہے کہ وہ ویب سائٹ WWW.KHATMENBUWAT.ORGمستقل وزٹ کرتے رہیں ۔خود بھی استفادہ کریں اور اپنے دوستوں کو بھی بتائیں۔یہ آپ کا دینی فریضہ ہے۔ عقیدہ ختم نبوت اور ردقادیانیت پر مشتمل لٹریچر مرکز سراجیہ سے مفت حاصل کرنے اور قادیانیوں کے دجل وفریب کے جوابات حاصل کرنے کے لئے خط لکھیں،فون کریں یا خود تشریف لائیں۔تمام خواتین وحضرات سے اپیل ہے کہ یہ مضمون کثیر تعداد میں چھپوا کرمفت تقسیم کریں یا چھپوانے کے لئے ہم سے رابطہ کریں تاکہ امت مسلمہ کی نئی نسل فتنہ قادیانیت سے آگاہ ہوسکے اور کسی کی متاع ایمان نہ لٹ سکے۔اللہ رب العزت ہماری ان حقیر محنتوں کو اخلاص کی دولت سے مالا مال فرماکر اپنی رضا کا سبب بنائے۔ آمین ثم آمین