• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

تحفظ ختم نبوت آرٹیکلز

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
فتنہ قادیانیت کو ختم کرنے کیلئے ہمیں اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرنا ہوگا

حامد میر
قادیانیت ایک ا یسا فتنہ ہے جسے ختم کرنے کیلئے ہمیں اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرنا ہوگا۔ یہ فتنہ پاکستان کی سلامتی کے علاوہ جہاد کشمیر کے لیے بھی ا یک بڑا خطرہ بنتا جارہا ہے۔ کشمیر میں قادیانیوں کی دن بدن بڑھتی ہودلچسپی قابل غور ہے۔ حال ہی میں قادیانی پس منظر رکھنے والے ایک امریکی دانشور منصور اعجاز کی حزب المجاہدین کے سپریم کمانڈر سید صلاح الدین سے ملاقات نے کئے سوالات پیدا کیے۔ منصور اعجاز نے سید صلاح الدین سے قبل سری نگر میں فاروق عبداللہ سے بھی ملاقات کی۔ سید صلاح الدین نے اعتراف کیا کہ منصور اعجاز نے کلنٹن کے نام ان سے ایک ایسا خط لکھالکھوانے کی کوشش کی جس میں اٹل بہاری واجپائی کے لئے اظہارِ عقیدت شامل تھا۔ لیکن سید صلاح الدین نے اس خط پر دستخط کرنے کی بجائے خود ایک نیا خط تیار کیا۔ یہ پہلو قابل غور ہے کہ سری نگر میں منصور اعجاز کے قادیانی رشتہ دار بھی رہائش پذیر ہیں۔ یقینا منصور اعجاز تقسیم کشمیر کے امریکی منصوبے پر عمل پیرا ہے۔ منصور اعجاز کی شان میں قلمی گستاخیاں کرنے پر پاکستان کی قادیانی لابی میرے خلاف بھی سرگرم عمل ہے۔ قادیانیوں کی مخالفت کے منفرد اور اچھوتے انداز نے مجھے انہیں مزید سمجھنے کا موقع دیا۔ قادیانی حضرات اپنے جعلی عقیدے میں موجود کمزوریوں اور خرابیوں پر پردہ ڈالنے کا جھوٹ کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں اور اپنے مخالفین کے خلاف بھی جھوٹ سے مدد لیتے ہیں۔ پاکستان کے اخبارات میں اگر کوئی کالم نگار قادیانیوں پر تنقید کرے تو یہ اخبار کے ایڈیٹر کو کالم نگار کے خلاف جعلی ناموں سے خطوط لکھتے ہیں اور اگر ایڈیٹر ان کے خلاف اداریہ لکھ دے تو چیف ایڈیٹر کے سامنے دُہائی دیتے ہیں کہ ہم آپ کے اخبار کو اشتہار دیتے ہیں لیکن آپ ہمارے ساتھ زیادتی کرتے ہیں۔ قادیانی مختلف حیلے بہانوں اور طریقوں سے اخبارات کو دباتے ہیں اور کوئی نہ دبے تو پھر اس پر طرح طرح کے الزامات کی بارش کردیتے ہیں۔ مادیت پرستی کے اس دور میں قادیانی لالچ اور طمع کے ذریعے سادہ لوح مسلمانوں کو بے وقوف بناتے ہیں اور اگر کوئی لالچ میں نہ آئے تو پھر مکاری، دھونس، دھاندلی سے کام لیتے ہیں۔

کرہ ارض کی ہر عنوان سے تذلیل ہے
قادیان! مابین ہندوپاک اسرائیل ہے
میرا یہ لکھنا کہ ربوہ کی خلافت ہے فراڈ
خواجہ کونینؐ کے ارشاد کی تعمیل ہے

اپنے مسلمان بھائیوں کو عقیدہ ختم نبوت سے آگاہ کریں اور قادیانیوں سے مکمل قطع تعلق کریں۔ان کی شرکت اپنی کسی مجلس یاکسی پروگرام ، شادی بیاہ ،خوشی غمی کی تقریبات،جنازہ وغیرہ میں برداشت نہ کریںاور ہر سطح پر ان کا مقابلہ کریں۔مرزا قادیانی کو ماننے والے اس خطرناک گروہ کی تبلیغی سرگرمیوںپر نظر رکھیں۔ علماء کرام پر یہ فریضہ عائد ہوتا ہے کہ وہ مہینے میں کم از کم ایک خطبہ جمعہ میں عقیدہ ختم نبوت کو مضبوط دلائل سے واضح کرتے ہوئے مسلمانوں کی ذہن سازی کریں۔ انٹرنیٹ والے حضرات سے درخواست ہے کہ وہ ویب سائٹ WWW.KHATMENBUWAT.ORGمستقل وزٹ کرتے رہیں ۔خود بھی استفادہ کریں اور اپنے دوستوں کو بھی بتائیں۔یہ آپ کا دینی فریضہ ہے۔ عقیدہ ختم نبوت اور ردقادیانیت پر مشتمل لٹریچر مرکز سراجیہ سے مفت حاصل کرنے اور قادیانیوں کے دجل وفریب کے جوابات حاصل کرنے کے لئے خط لکھیں،فون کریں یا خود تشریف لائیں۔تمام خواتین وحضرات سے اپیل ہے کہ یہ مضمون کثیر تعداد میں چھپوا کرمفت تقسیم کریں یا چھپوانے کے لئے ہم سے رابطہ کریں تاکہ امت مسلمہ کی نئی نسل فتنہ قادیانیت سے آگاہ ہوسکے اور کسی کی متاع ایمان نہ لٹ سکے۔اللہ رب العزت ہماری ان حقیر محنتوں کو اخلاص کی دولت سے مالا مال فرماکر اپنی رضا کا سبب بنائے۔ آمین ثم آمین
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
ابو جہل سے بڑا گستاخ

اﷲتعالیٰ،انبیا ء کرام علیہم السلام،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ،قرآن مجید،حرمین شریفین اور مسلمانان عالم کے متعلق قادیانیوں کے کفریہ عقائد کا نمونہ خود قادیانیوں کی کتابوں سے ملاحظہ فرمائیں ۔ہم ان کفریہ اور روح فرساعقائد کو نقل کرتے ہوئے اﷲتعالیٰ سے بارباراستغفار کرتے ہیں۔
اﷲتعالیٰ کی توہین:

1۔''میں نے اپنے ایک کشف میں دیکھا کہ میں خود خدا ہوں اور یقین کیا کہ وہی ہوں ''۔
(کتاب البریہ صفحہ 85،مندرجہ روحانی خزائن جلد 13صفحہ 103از مرزا قادیانی)
2۔'' وہ خدا جس کے قبضے میں ذرہ ذرہ ہے،اس سے انسان کہاں بھاگ سکتا ہے۔وہ فر ماتا ہے کہ میں چوروں کی طرح پوشیدہ آؤں گا''۔
(تجلیات الہیہ صفحہ4 ،مندرجہ روحانی خزائن جلد20 صفحہ396 از مرزا قادیانی)
3۔''کیا کوئی عقل مند اس بات کو قبول کرسکتا ہے کہ اس زمانے میں خدا سنتاتو ہے مگر بولتا نہیں پھر بعد اس کے یہ سوال ہو گا کہ کیوں نہیں بولتا ۔کیا زبان پر کوئی مرض لاحق ہو گئی ہے'' ۔
(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ 144 ،مندرجہ روحانی خزائن جلد21صفحہ 312 از مرزا قادیانی)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین:

4۔ ''جو شخص مجھ میں اور مصطفی میں تفریق کرتا ہے اس نے مجھے نہیں دیکھا ہے اور نہیں پہچانا ہے۔''
(خطبہ الہامیہ صفحہ171، مندرجہ روحانی خزائن جلد16صفحہ259 از مرزا قادیانی)
5۔ '' خدا نے آج سے بیس برس پہلے براہین احمدیہ میں، میرا نام محمدۖ اور احمدۖ رکھا ہے اور مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی وجود قرار دیا ہے۔ پس اس طور سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم الانبیاء ہونے میں میری نبوت سے کوئی تزلزل نہیں آیا کیونکہ ظل اپنے اصل سے علیحدہ نہیں ہوتا۔'' (ایک غلطی کا ازالہ صفحہ8، مندرجہ روحانی خزائن جلد18 صفحہ212 از مرز قادیانی)
6۔ ''قادیان میں اللہ تعالیٰ نے پھر محمد صلعم کو اتارا تا اپنے وعدہ کو پورا کرے۔''
(کلمة الفصل صفحہ15، از مرزا بشیر احمد ایم اے ابن مرزا غلام احمد قادیانی)
7۔ محمد پھر اتر آئے ہیں ہم میں اور آگے سے ہیں بڑھ کر اپنی شان میں
محمد دیکھنے ہوں جس نے اکمل غلام احمد کو دیکھے قادیاں میں (اخبار بدر قادیان 25 اکتوبر1906)
8۔''ہر ایک نبی کو اپنی استعداد اور کام کے مطابق کمالات عطا ہوتے تھے کسی کو بہت، کسی کو کم۔ مگر مسیح موعود کو تو تب نبوت ملی جب اس نے نبوت محمدیہۖ کے تمام کمالات کو حاصل کر لیا اور اس قابل ہوگیا کہ ظلی نبی کہلائے پس ظلی نبوت نے مسیح موعود کے قدم کو پیچھے نہیں ہٹایا بلکہ آگے بڑھایا اور اس قدر آگے بڑھایا کہ نبی کریمۖ کے پہلوبہ پہلو لاکھڑاکیا۔'' (کلمة الفصل صفحہ23، از مرزا بشیر احمد)
9۔مرزا قادیانی کہتا ہے کہ مجھ پر وحی نازل ہوتی ہے ،چند نمونے ملاحظہ فرمائیں۔
(ا) '' ومَا ارسلٰنک اِلاَّ رحمة للعالمین '' (تذکرہ صفحہ634 طبع دوم،صفحہ640 طبع سوم، صفحہ547 طبع چہارم از مرزا قادیانی)
(ب) '' لولاک لما خلقت الا فلاک ''ترجمہ: اگر میں تجھے (مرزا)پیدا نہ کرتا تو آسمانوں کو پیدا نہ کرتا۔ (تذکرہ صفحہ649 طبع دوم ،صفحہ654 طبع سوم، صفحہ556 طبع چہارم )
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی توہین:

10۔''ہاں آپ (عیسیٰ علیہ السلام) کو گالیاں دینے اور بدزبانی کی اکثر عادت تھی، ادنیٰ ادنیٰ بات میں غصہ آجاتا تھا، اپنے نفس کو جذبات سے نہیں رو ک سکتے تھے....... یہ بھی یاد رہے کہ آپ (عیسیٰ علیہ السلام) کو کسی قدر جھوٹ بولنے کی بھی عادت تھی۔'' (حاشیہ انجام آتھم صفحہ 5مندرجہ روحانی خزائن جلد11صفحہ 289 از مرزا قادیانی)
11۔''آپ کا خاندان بھی نہایت پاک اور مطہرہے۔ تین دادیاں اور نانیاں آپ کی زناکا ر اور کسبی عورتیں تھیں جن کے خون سے آپ کا وجود ظہور پذیر ہوا''۔ (انجام آتھم صفحہ 7 ، روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 291 از مرزا )
12۔''عیسائیوں نے بہت سے آپ کے معجزے لکھے ہیںمگر حقیقت یہ ہے کہ آپ سے کوئی معجزہ نہیں ہوا اور اس دن سے کہ آپ نے معجزہ مانگنے والوں کو گندی گالیاں دیں اور ان کو حرام کا ر اور حرام کی اولادٹھہرایا ' اسی روز سے شریفوں نے آپ سے کنارہ کیا''۔
(حاشیہ انجام آتھم صفحہ6 ،روحا نی خزائن نمبر 11 صفحہ290 از مرزا قادیانی)
13۔ 'ابن مریم کے ذکر کو چھوڑو اس سے بہتر غلام احمد ہے'' (دافع البلاء صفحہ 20مندرجہ روحانی خزائن جلد18صفحہ240 از مرزا قادیانی)
صحابہ کرام رضوان اﷲاجمعین کی توہین:
14۔''جو شخص قرآن شریف پر ایمان لاتا ہے اس کو چاہیے کہ وہ ابو ہریرہ کے قول کو ایک ردی متاع کی طرح پھینک دے''۔ (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ410 ،روحانی خزائن 21 صفحہ 410 )
15۔''مرزا قادیانی نے حضرت فاطمہکے بارہ میں جو لکھا وہ آپ اس حوالہ میں دیکھ سکتے ہیں ''۔
(ایک غلطی کا ازالہ (حاشیہ )صفحہ ،9 مندرجہ روحانی خزائن جلد18 صفحہ 213 از مرزا قا دیانی)
16۔''پرانی خلافت کا جھگڑا چھوڑو اب نئی خلافت کرلو۔ ایک زندہ علی تم میں موجود ہے اس کو چھوڑتے ہو اورمردہ علی کی تلاش کرتے ہو''۔
(ملفو ظات جلد اول صفحہ 400از مرزا قادیانی)
17۔''میں وہی مہدی ہوں جس کی نسبت ابن سیرین سے سوال کیا گیا کہ کیا وہ حضرت ابوبکر کے درجہ پر ہے؟ تو انھوں نے جواب دیا کہ ابوبکر کیا، وہ توبعض انبیاء سے بہتر ہے''۔ (مجموعہ اشتہارات جلد3 صفحہ278)
قرآن مجید کی توہین:

18۔''قرآن شریف خدا کی کتاب اور میرے منہ کی باتیں ہیں''۔ (تذکرہ صفحہ635 طبع دوم، صفحہ641 طبع سوم، صفحہ548 طبع چہارم از مرزا قادیانی)
حرمین شریفین کی توہین :

19۔''لوگ معمولی اور نفلی طور پر حج کرنے کو بھی جاتے ہیں مگر اس جگہ (قادیان میں آنا) نفلی حج سے ثواب زیادہ ہے اور غافل رہنے میں نقصان اور خطر، کیونکہ سلسلہ آسمانی ہے اور حکم ربانی۔''
(آئینہ کمالات اسلام صفحہ352 مندرجہ روحانی خزائن جلد5صفحہ 352 از مرزا قادیانی)
20۔'' حضرت مسیح موعود نے اس کے متعلق بڑا زور دیا ہے کہ جو باربار یہاں (قادیان)نہیںآتے مجھے ان کے ایمان کا خطرہ ہے پس جو قادیا ن سے تعلق نہیں رکھے گا وہ کاٹا جائے گا ۔تم ڈرو کہ تم میں سے کوئی نہ کاٹاجائے پھر یہ تازہ دودھ کب تک رہے گا ۔آخر مائوں کا دودھ بھی سوکھ جایا کرتا ہے کیا مکہ اور مدینہ کی چھاتیوں سے یہ دودھ سوکھ گیا کہ نہیں''۔
(حقیقة الرئویا صفحہ 46 ، از مرزا بشیر الدین محمود ابن مرزا قادیانی )
مسلمانوں کو گالیاں اور کفر کا فتویٰ:مرزاقادیا نی کی گالیوں بھری اتنی تحریرات ہیں کہ ان پر مکمل کتاب لکھی جا سکتی ہے۔
21۔''اور ہماری فتح کا قائل نہیں ہوگا تو صاف سمجھا جاوے گا کہ اس کو ولد الحرام بننے کا شوق ہے اور حلال زادہ نہیں۔
(انوارِ اسلام صفحہ30مندرجہ روحانی خزائن جلد9 صفحہ 31 از مرزا قادیانی)
22۔ترجمہ ''میری ان کتابوں کو ہرمسلمان محبت کی نظر سے دیکھتا ہے اور اس کے معارف سے فائدہ اٹھاتا ہے اور میری دعوت کی تصدیق کرتا ہے اور اسے قبول کرتا ہے مگر رنڈیوں (بدکار عورتوں ) کی اولاد نے میری تصدیق نہیں کی۔''
(آئینہ کمالات اسلام صفحہ547،548 مندرجہ روحانی خزائن جلد5 صفحہ547،548 از مرزا قادیانی)
23۔''خدا تعالیٰ نے میرے پر ظاہر کیا ہے کہ ہر ایک شخص جس کو میری دعوت پہنچی ہے اور اس نے مجھے قبول نہیں کیا۔ وہ مسلمان نہیں ہے۔''
(تذکرہ صفحہ600 طبع دوم ،صفحہ 607 طبع سوم ،صفحہ 519 طبع چہارم)
24۔''دشمن ہمارے بیانوں کے خنزیر ہوگئے۔ اور ان کی عورتیںکتیوں سے بڑھ گئی ہیں۔''
(نجم الہدیٰ صفحہ53 مندرجہ روحانی خزائن جلد14صفحہ 53 از مرزا قادیانی)
جہاد سے متعلق عقائد:
25۔ ''میری عمر کا اکثر حصہ اس سلطنت انگریزی کی تائید اور حمایت میں گذراہے اور میں نے ممانعت جہاد اور انگریزی اطاعت کے بارے میں اس قدر کتابیں لکھی ہیں اور اشتہار شائع کئے ہیں کہ اگر وہ رسائل اور کتابیں اکھٹی کی جائیں تو پچاس الماریاں ان سے بھر سکتی ہیں ''۔
(تریاق القلوب صفحہ27 ،روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 155)
26۔ ''یاد رہے کے مسلمانوں کے فرقوںمیں سے فرقہ جس کا خدا نے مجھے امام اور پیشوا اور رہبر مقرر فرمایا ہے ایک بڑا امتیازی نشان اپنے ساتھ رکھتا ہے اور وہ یہ کہ اس فرقہ میں تلوار کا جہاد بالکل نہیں اور نہ اس کی انتظار ہے۔بلکہ یہ مبارک فرقہ نہ ظاہر طور پر اور نہ پوشیدہ طور پر جہاد کی تعلیم کو ہرگز جائز نہیں سمجھتا ہے اور قطعاً اس بات کوحرام جانتا ہے کہ دین کی اشاعت کے لئے لڑائیاں کی جائیں ''۔
(مجموعہ اشتہارات جلد 3صفحہ 357از مرزا قادیانی)
انگریز کے متعلق عقائد:

27۔''میرا مذہب جس کو میں باربار ظاہر کرتا ہوں یہی ہے کہ اسلام کے دو حصے ہیں ایک یہ کہ خداتعالی ٰکی اطاعت کریں اور دوسرے اس سلطنت (انگریز)کی جس نے امن قائم کیا ہوا ہے جس نے ظالموں کے ہاتھ سے اپنے سایہ میں ہمیں پناہ دی ہو سو وہ سلطنت برطانیہ ہے''۔
(شہا دت القرآن صفحہ84 ،روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 380)
28۔ ''میں بیس برس تک یہی تعلیم اطاعت گورنمنٹ انگریزی کی دیتا رہا۔ اور اپنے مریدوں میں یہی ہدایتیں جاری کرتا رہا''۔
(تریاق القلوب صفحہ28 ،مندرجہ روحانی خزائن ج15 صفحہ156 )
مسلمانوں کیلئے دعوت فکر

مرزا قادیانی کی جھوٹی نبوت کا کفریہ سانپ نئی نسل کے ایمانوں کو نگلنے کے لئے بڑھ رہا ہے۔ قادیانی ہمارے نوجوانوں کو نوکری ، چھوکری اور نوٹوں کی ٹوکری کا لالچ دے کر اپنے دام فریب میں پھنسا کر مرتد بنا رہے ہیں ۔وہ کیسا مسلمان ہے جو روح کو تڑپا اور دلوں کو ہلا دینے والے ان کفریہ عقائد اور عزائم سے آنکھیں بند کرکے خاموش بیٹھا رہے۔محبوب خداخاتم النبیین حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کلمہ پڑھنے والے مسلمانو! آپ کی غیرت ایمانی کہاں سو گئی؟ قادیانیت کے فتنے کو کون روکے گا ؟ تمام امت کے اعمال حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کئے جاتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم قادیانی نوازوں سے سوال کرتے ہیں کہ تم اپنی ذات ،والدین،بہن بھائی ،دوست، احباب ، خاندان اور کاروبار کی عزت وناموس کے تحفظ کی خاطر اپنے ذاتی دشمنوں سے ہر قسم کے تعلقات ختم کرنے میں تو کوئی تاخیر نہیں کرتے لیکن میرے اور میرے اصحاب ،قرآن وسنت اور عالم اسلام کے دشمنوں کے ساتھ تمھارے تعلقات، دوستیاں، اُٹھنا ،بیٹھنا ،سلام و کلام ،لین دین، شادی غمی اورکاروبارمیںشرکت سب کیوںجاری ہیں؟ مسلمانو!کیا اس سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ آپ نے اس مختصر زندگی میں اپنے ذاتی اغراض ومقاصد کیلئے حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس کو پیچھے چھوڑ دیا اور روز محشرآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت سے محروم ہوناچا ہتے ہو ،افسوس صد افسوس۔

اپنے مسلمان بھائیوں کو عقیدہ ختم نبوت سے آگاہ کریں اور قادیانیوں سے مکمل قطع تعلق کریں۔ان کی شرکت اپنی کسی مجلس یاکسی پروگرام ، شادی بیاہ ،خوشی غمی کی تقریبات،جنازہ وغیرہ میں برداشت نہ کریںاور ہر سطح پر ان کا مقابلہ کریں۔مرزا قادیانی کو ماننے والے اس خطرناک گروہ کی تبلیغی سرگرمیوںپر نظر رکھیں۔ علماء کرام پر یہ فریضہ عائد ہوتا ہے کہ وہ مہینے میں کم از کم ایک خطبہ جمعہ میں عقیدہ ختم نبوت کو مضبوط دلائل سے واضح کرتے ہوئے مسلمانوں کی ذہن سازی کریں۔ انٹرنیٹ والے حضرات سے درخواست ہے کہ وہ ویب سائٹ WWW.KHATMENBUWAT.ORGمستقل وزٹ کرتے رہیں ۔خود بھی استفادہ کریں اور اپنے دوستوں کو بھی بتائیں۔یہ آپ کا دینی فریضہ ہے۔ عقیدہ ختم نبوت اور ردقادیانیت پر مشتمل لٹریچر مرکز سراجیہ سے مفت حاصل کرنے اور قادیانیوں کے دجل وفریب کے جوابات حاصل کرنے کے لئے خط لکھیں،فون کریں یا خود تشریف لائیں۔تمام خواتین وحضرات سے اپیل ہے کہ یہ مضمون کثیر تعداد میں چھپوا کرمفت تقسیم کریں یا چھپوانے کے لئے ہم سے رابطہ کریں تاکہ امت مسلمہ کی نئی نسل فتنہ قادیانیت سے آگاہ ہوسکے اور کسی کی متاع ایمان نہ لٹ سکے۔اللہ رب العزت ہماری ان حقیر محنتوں کو اخلاص کی دولت سے مالا مال فرماکر اپنی رضا کا سبب بنائے۔ آمین ثم آمین
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
تمام مسلمانوں کے نام ایک اہم پیغام

پیغام یہ ہے کہ جو شخص قیامت کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفات کا طالب ہے وہ قادیانیوں کے مقابلے میں کھڑاہوجائے ۔ یاد رکھو اس وقت دو جماعتیں بن گئی ہیں۔ ایک مسلمان اور دوسرے قادیانی اور ان دونوں جماعتوں کے درمیان لکیر کھنچ گئی ہے۔ ادھر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جماعت ہے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ہے اور ادھر قادیانی ملعون کی جماعت ہے، ایک طرف اصلی محمد رسول اللہ ، حضرت محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں دوسری طرف قادیان کا دھوکے باز ہے۔

اب آپ درمیان میں نہیں رہ سکتے، مہربانی کر کے ایک طرف ہوجائیے، آپ کو اگر ان کی منطق پسند ہے، یہ بات پسند ہے کہ ظفر اللہ خاں بہت بڑا بیرسٹر وکیل اور قانون دان تھا، آپ کو اس پر ناز ہے کہ عبدالسلام قادیانی بہت بڑا سائنسدان ہے اور آپ کو یہ خیال ہے، ایم ایم احمد بڑا بیوروکریٹ قسم کا آدمی ہے، ٹھیک ہے، آپ کو حق پہنچتا ہے آپ اس سے متاثر ہیں، پھر لائن کے اس طرف ہوجائیے اور اگر نہیں تو اس طرف آجائیے۔

یہ آپ نہیں کرسکتے کہ ہم ان دونوں جماعتوں کے درمیان غیر جانبدار رہیں گے، خدا کی قسم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقابلہ مرزا قادیانی کے ساتھ ہو اور دو جماعتیں الگ الگ ہوجائیں تو آپ غیر جانبدار رہ کر مسلمان رہ سکتے ہیں۔ درمیان میں ہونے یا غیر جانبدار رہنے کاکیا مطلب؟ مقابلہ میرا اور مرزا طاہر کا نہیں ہے بلکہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مرزا غلام احمدکے ساتھ ہے، اگر آپ اس مقابلہ میں غیرجانبدار رہنا چاہتے ہیں تو رہئیے! لیکن میں یہ کہوں گا کہ آپ قیامت کے دن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں شمار نہیں ہوں گے، کیونکہ آپ نے ایمان اور کفر کے معاملہ میں غیر جانبدار ہو کر اپنی مسلمانی کو تین طلاقیں دے دی ہیں۔ یہ الفاظ سوچ سمجھ کر کہہ رہا ہوں، جذبات میں نہیں کہہ رہا، اب آپ کو ایک طرف آنا پڑے گا، لا الی ہولاء ولا الی ہولاء جس کو قرآن کریم نے کہا، وہ منافقین کے بارے میں کہا ہے، کسی مسلمان کی شان نہیں ہوسکتی کہ وہ نہ اسلام اور مسلمانوں کا طرفدار ہو ، اور نہ کفر اور کافروں کا، بلکہ غیر جانبدار ہو، جو شخص مرزائیوں کے مقابلے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا طرفدار نہ ہو، بلکہ اپنے آپ کو غیرجانبدار ظاہر کرے وہ مسلمان کس طرح ہوسکتا ہے اور قیامت کے دن اس کا حشر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں کس طرح ہوسکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔

پیغام میرا یہ ہے کہ اگر آپ قیامت کے دن محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت چاہتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے کے نیچے جگہ چاہتے ہیں تو آپ کو ختم نبوت کا کام کرنا پڑے گا اور مرزا قادیانی کی امت اور جماعت کے مقابلے میں آنا پڑے گا کیا آپ اس کے لئے تیار ہیں؟ سب نے کہا جی ہاں تیار ہیں اور ہاتھ کھڑے کئے۔
اللہ تعالیٰ آپ میں اور ہم میں یہ صحیح جذبہ پیدا فرمائے۔ (آمین)

اپنے مسلمان بھائیوں کو عقیدہ ختم نبوت سے آگاہ کریں اور قادیانیوں سے مکمل قطع تعلق کریں۔ان کی شرکت اپنی کسی مجلس یاکسی پروگرام ، شادی بیاہ ،خوشی غمی کی تقریبات،جنازہ وغیرہ میں برداشت نہ کریںاور ہر سطح پر ان کا مقابلہ کریں۔مرزا قادیانی کو ماننے والے اس خطرناک گروہ کی تبلیغی سرگرمیوںپر نظر رکھیں۔ علماء کرام پر یہ فریضہ عائد ہوتا ہے کہ وہ مہینے میں کم از کم ایک خطبہ جمعہ میں عقیدہ ختم نبوت کو مضبوط دلائل سے واضح کرتے ہوئے مسلمانوں کی ذہن سازی کریں۔ انٹرنیٹ والے حضرات سے درخواست ہے کہ وہ ویب سائٹ WWW.KHATMENBUWAT.ORGمستقل وزٹ کرتے رہیں ۔خود بھی استفادہ کریں اور اپنے دوستوں کو بھی بتائیں۔یہ آپ کا دینی فریضہ ہے۔ عقیدہ ختم نبوت اور ردقادیانیت پر مشتمل لٹریچر مرکز سراجیہ سے مفت حاصل کرنے اور قادیانیوں کے دجل وفریب کے جوابات حاصل کرنے کے لئے خط لکھیں،فون کریں یا خود تشریف لائیں۔تمام خواتین وحضرات سے اپیل ہے کہ یہ مضمون کثیر تعداد میں چھپوا کرمفت تقسیم کریں یا چھپوانے کے لئے ہم سے رابطہ کریں تاکہ امت مسلمہ کی نئی نسل فتنہ قادیانیت سے آگاہ ہوسکے اور کسی کی متاع ایمان نہ لٹ سکے۔اللہ رب العزت ہماری ان حقیر محنتوں کو اخلاص کی دولت سے مالا مال فرماکر اپنی رضا کا سبب بنائے۔ آمین ثم آمین
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
گفتگو

جاویدچوہدری
دواڑھائی برس پرانی بات ہے ۔ میرا بڑا بیٹا اس وقت بمشکل دو برس کا تھا۔ اس نے ابھی توتلی زبان میں باتیں شروع ہی کی تھیں۔ ایک روز ہمارے گھر میں میرے ایک باریش دوست تشریف لائے۔ میں اُن کے ساتھ گفتگو میں مصروف ہوگیا۔ میرا بیٹا خاموشی سے پاس بیٹھ گیا۔ یہ میرے لئے بڑے اچنبھے کی بات تھی۔ کیونکہ سیانوں کا کہنا ہے جب بچہ خاموش بیٹھا ہو تو سمجھ لیں وہ کوئی گل کھلا رہا ہے۔ میں نے بچے کی خاموشی پر غور کیا تو پتہ چلا وہ ہر چیز سے لاتعلق ہو کر مہان کے ’’رُخ انور‘‘ پر نظر جمائے بیٹھا ہے۔ میں نے اسے گدگدا کر اس ’’نظرالتفات‘‘ کی وجہ دریافت کی تو اس نے تھوڑا سا شرما کر کہا ’’پاپا اس انکل نے اتنی گرمی میں داڑھی کیوں پہن رکھی ہے؟‘‘ یہ سن کر میرے دوست نے فلک شگاف قہقہ لگایا جبکہ مجھ پر گھڑوں پانی پڑ گیا۔قصور دراصل بچے کا بھی نہیں تھا۔ ہواکچھ یوں تھا کہ میں نے اسے کھلونوں کی دکان سے ایک نقلی داڑھی اور مونچھ لا کر دے دی تھی جسے وہ ’’بوقت ضرورت‘‘ پہن کر ہم سب کو ڈراتا رہتا تھا۔ جس سے میری بیوی بڑی نالاں تھی۔ جب بچے کی یہ بزرگانہ عادت پختہ ہونے لگی تو اس نے ایک روز اسے پاس بٹھا کر سمجھایا’’بیٹا گرمیوں میں داڑھی نہیں پہنا کرتے۔ اس سے منہ پر پھوڑے نکل آتے ہیں‘‘۔ میری بیوی کا یہ نسخہ بڑا کارگر ثابت ہوا اور میرے بیٹے نے یہ ’’حرکت بد‘‘ ترک کردی لیکن میری ’’عنایت‘‘ اور میری بیوی کی ’’تادیبی کاروائی‘‘ سے میرے بیٹے کے ذہن میں دو گرہیں پڑ گئیں۔ اول داڑھی پہننے والی چیز ہے جسے پہن کر لوگوں کو ڈرایا جاتا ہے۔ دوم یہ چیز گرمیوں میں نہیں پہنی جاتی۔

یہ واقعہ میرے لیے بڑا ’’الارمنگ‘‘ تھا کیونکہ مجھے محسوس ہوا اگر بچے کو فوری طور پر اصل صورتِ حال نہ بتائی گئی تو وہ کسی روز کسی ’’اہلِ ایمان‘‘ کے ساتھ وہ سلوک نہ کردے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بچپن میں فرعون کی گود میں بیٹھ کر اس کے ساتھ کیا تھا۔ چنانچہ میں نے مہمان کی رخصتی کے بعد اسے پاس بٹھا کر سمجھانا شروع کردیا لیکن بدقسمتی سے میرے بیٹے کے ننھے سے ذہن میں داڑھی پہننے اور داڑھی رکھنے کا باریک سا فرق نہ سمایا۔ جب میں بری طرح تھک گیا تو میں اس کے سامنے ایک ایسا شخص ’’بطور نمونہ‘‘ پیش کرنے کا فیصلہ کیا جس نے واقعی داڑھی رکھی ہوئی ہو۔

مجھے یہ اعتراف بھی کرنے دیں کہ جب میں اس تلاش سے بری طرح تھک گیا تو مجھے لوگوں کے ہجوم میں ایک ایسا انسان نظر آگیا جس کے چہرے پر نظر ڈالنے کے بعد دل بے اختیار محبت پر مجبور ہوجاتا ہے۔ پلکیں جھک جاتی ہیں، کانوں کے پردے ’’ہارڈ ڈسک‘‘ بن جاتے ہیں اور ذہن کے اندر یہ خواہش انگڑائی لینے لگتی ہے کہ یہ شخص اس طرح بولتا رہے،بولتا رہے اور ہم سنتے رہیں، سنتے رہیں۔۔۔۔اس شخص کا نام محمد طاہرعبدالرزاق ہے۔طاہر بھائی سے میری ملاقات 86-87ء میں ہوئی تھی۔ ان دنوں انہوں نے ختم نبوت پر نیا نیا کام شروع کیا تھا۔ میں ان دنوں کالج میں ایف اے کاطالب علم تھا۔ لاہور میاں میر میں ختم نبوت پر ایک جلسہ ہورہا تھا جس میں میں نے تقریر کی تو مجھے انعام میں طاہر بھائی مل گئے۔ اس دور میں ان سے میری بڑی ملاقاتیں رہیں، وہ ختم نبوت کے محاذ کے بڑے جوشیلے سپاہی تھے۔ ان کی باتیں سن کر اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرنے کو جی چاہتا تھا کہ اس نے ہمیں مرزائی نہیں بنایا ورنہ طاہر بھائی ہمارا وہی حشر کرتے جو کبھی صلاح الدین ایوبی نے رچرڈ شیر دل کے لشکر کا کیا تھا۔ میں آج بارہ برس بعد اس وقت کے طاہر بھائی کے بارے میں سوچتا ہوں تو وہ مجھے ساون کا دریا لگتے ہیں جسے بہنا نہیں آتا۔ کنارے توڑنا اور دور دور تک تباہی اور بربادی پھیلانا آتی ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے وہ ان دنوں ہم جیسے ’’ڈھیلے مٹھے‘‘ مسلمانوں کو بھی ’’قادیانیوں ‘‘ کا ایجنٹ ہی سمجھتے تھے ۔ کیونکہ ان کا خیال تھا جو مسلمان سرپرآہنی خود اور سینے پر زرہ بکتر پہن کر ، ہاتھ میں تلوار اٹھا کر ’’ربوہ‘‘ کی اینٹ سے اینٹ بجانے کے لئے نہیں نکلتا اسے محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لینے کا کوئی حق نہیں۔ کفرواسلام کی جنگ میں کافروں کے لیے بہتر سلوک کی درخواست کرنے والے لوگ مسلمان نہیں کافروں کے ساتھی سمجھے جاتے ہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔ یقین فرمائیے میں طاہر بھائی کے ان ’’باغیانہ خیالات‘‘ سے پریشان ہو کر فوراً آگے پیچھے ہوگیا کیونکہ مجھے خطرہ تھا اگر میں ان مزید چند روز ان کی صحبت میں رہا تو یقینا کسی روز گھوڑے پر سوار ہو کر ’’ربوہ‘‘ پر حملہ آور ہوجائوں گا اورمجھے حکومت پکڑ کر انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کردے گی۔

پچھلے ماہ بارہ برس بعد طاہربھائی سے ملاقات ہوئی تو مجھے اس طاہر بھائی اور اس طاہربھائی میں زمین آسمان کا فرق محسوس ہوا۔ کہاں ساون کا چڑھا دریا اور کہاں ایک پُر سکون عمیق سمندر ، کہاں نعرے لگانے ، جھنڈے لہرانے اور جبڑے توڑنے والا جیالا اور کہاں ایک متحمل صوفی، عشق رسولؐ میں ڈوبا ایک وضع دار عاشق ، ذلیل اور منطق سے بنا ایک عالم اور دلوں پر دستک دینے والا ایک دانشور۔ مجھے نہیں معلوم ان بارہ برسوں میں طاہر بھائی پر کیا گذری۔ یہ سلوک کی کن کن منزلوں سے گزرے۔ انہوں نے عشق کے کون کون سے مراحل طے کیے، ان کا گزر کن کن ہستیوں کی بارگاہوں سے ہوا اور انہوں نے عشق کے کون کون سے چشموں کا پانی پیا لیکن میں اتنا ضرور جانتا ہوں، طاہر بھائی کا شمار تاریخ کے ان چند حضرات میں ہوتا ہے جن کے عشق کی ایک ہی جست سارے قصے تمام کردیتی ہے۔جو جب سوزوگداز کے گہرے پانیوں سے باہر آتے ہیں تو لفظ ان کے غلام بن چلے ہوتے ہیں۔ فقرے ’’کمیوں‘‘ کی طرح ان کی چوکھٹ پرماتھارگڑ رہے ہوتے ہیں اور زبان ہاتھ باندھ کر ان کے ایک اشارہ چشم کی منتظر ہوتی ہے۔

میرا ذاتی خیال ہے لکھنا کوئی بڑی بات نہیں جس نے بھی چند برسوں تک استادوں کی جوتیاں سیدھی کی ہوں، چند کتابیں پڑھی ہوںاور غلطی سے اس کے ہاتھ ایک قلم اور چند کاغذ آلگے ہوںوہ تحریر کا حشر نشر کرنے کا پورا حق رکھتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ لفظوں میں تاثیر صرف محمد طاہرعبدالرزاق جیسے لوگوں ہی کو عطا کرتا ہے۔ آپ ان کی کوئی سطر اٹھا کر پڑھیں۔ ان کی درجنوں کتابوں میں سے کسی ایک کتاب کا کوئی ایک صفحہ کھول کر دیکھیں لفظ آپ کے ذہن میں اس طرح اتر جائیں گے جس طرح صحرا کے سینے میں شبنم کے قطرے اترتے ہیں۔ ذرا ایمان سے بتائیے ہمارے عہد میں کون ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اتنا نوازاہو، جسے لفظوں کا ایسا جادو ودیعت کیا ہو کہ وہ ختم نبوت جیسے خشک، علمی اور مذہبی موضوع کو ادب بنادے۔ لوہے کو پانی کی طرح بہنے پر مجبور کردے۔

خدا گواہ ہے اگر اب طاہر بھائی میرے ہاتھ آلگیں تو میں فوراً اپنے بیٹے کو ان کے سامنے بٹھا کر کہوں گا’’بیٹا دیکھو‘‘ ایسے لوگ ہوتے ہیں جنہوں نے داڑھیاں پہنی نہیں ہوتیں، تم جب بڑے ہوجائو تو جاوید چودھر ی نہ بننا، طاہر بھائی بننا۔ یقین فرمائیے میری اس خواہش میں ذرہ بھر بھی صحافیانہ مبالغہ شامل نہیں۔

اپنے مسلمان بھائیوں کو عقیدہ ختم نبوت سے آگاہ کریں اور قادیانیوں سے مکمل قطع تعلق کریں۔ان کی شرکت اپنی کسی مجلس یاکسی پروگرام ، شادی بیاہ ،خوشی غمی کی تقریبات،جنازہ وغیرہ میں برداشت نہ کریںاور ہر سطح پر ان کا مقابلہ کریں۔مرزا قادیانی کو ماننے والے اس خطرناک گروہ کی تبلیغی سرگرمیوںپر نظر رکھیں۔ علماء کرام پر یہ فریضہ عائد ہوتا ہے کہ وہ مہینے میں کم از کم ایک خطبہ جمعہ میں عقیدہ ختم نبوت کو مضبوط دلائل سے واضح کرتے ہوئے مسلمانوں کی ذہن سازی کریں۔ انٹرنیٹ والے حضرات سے درخواست ہے کہ وہ ویب سائٹ WWW.KHATMENBUWAT.ORGمستقل وزٹ کرتے رہیں ۔خود بھی استفادہ کریں اور اپنے دوستوں کو بھی بتائیں۔یہ آپ کا دینی فریضہ ہے۔ عقیدہ ختم نبوت اور ردقادیانیت پر مشتمل لٹریچر مرکز سراجیہ سے مفت حاصل کرنے اور قادیانیوں کے دجل وفریب کے جوابات حاصل کرنے کے لئے خط لکھیں،فون کریں یا خود تشریف لائیں۔تمام خواتین وحضرات سے اپیل ہے کہ یہ مضمون کثیر تعداد میں چھپوا کرمفت تقسیم کریں یا چھپوانے کے لئے ہم سے رابطہ کریں تاکہ امت مسلمہ کی نئی نسل فتنہ قادیانیت سے آگاہ ہوسکے اور کسی کی متاع ایمان نہ لٹ سکے۔اللہ رب العزت ہماری ان حقیر محنتوں کو اخلاص کی دولت سے مالا مال فرماکر اپنی رضا کا سبب بنائے۔ آمین ثم آمین
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
قادیانیوں کا مذہب

مرزا قادیانی کس مذہب کا پیغام لایا تھا اس کی اپنی تحریروں سے ملاحظہ فر مائیں
اسلام کے دو حصے
(1) ’’سو میرا مذہب جس کو میں بار بار ظاہر کرتا ہوں، یہی ہے کہ اسلام کے دو حصے ہیں۔ ایک یہ کہ خدا تعالیٰ کی اطاعت کریں، دوسرے اس سلطنت کی جس نے امن قائم کیا ہو، جس نے ظالموں کے ہاتھ سے اپنے سایہ میں ہمیں پناہ دی ہو۔ سو وہ سلطنت حکومت برطانیہ ہے… سو اگر ہم گورنمنٹ برطانیہ سے سرکشی کریں تو گویا اسلام اور خدا اور رسول سے سرکشی کرتے ہیں۔‘‘
(شہادت القرآن صفحہ84، 85 مندرجہ روحانی خزائن جلد6 صفحہ380، 381 از مرزا قادیانی)
ہمارا فرض ہے
(2) ’’بے شک ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم اس گورنمنٹ محسنہ کے سچے دل سے خیر خواہ ہوں اور ضرورت کے وقت جان فدا کرنے کو بھی طیار ہوں۔‘‘ (البلاغ صفحہ 20 مندرجہ روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 400 از مرزا قادیانی)
انگریز کی اطاعت فرض ہے
(3) ’’بیس برس کی مدت سے مَیں اپنے دلی جوش سے ایسی کتابیں زبان فارسی اور عربی اور اردو اور انگریزی میں شائع کر رہا ہوں جن میں بار بار یہ لکھا گیا ہے کہ مسلمانوں پر یہ فرض ہے جس کے ترک سے وہ خدا تعالیٰ کے گنہگار ہوں گے کہ اس گورنمنٹ کے سچے خیرخواہ اور دلی جان نثار ہوجائیں اور جہاد اور خونی مہدی کے انتظار وغیرہ بیہودہ خیالات سے جو قرآن شریف سے ہرگز ثابت نہیں ہوسکتے، دست بردار ہوجائیں۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات جلد دوم، صفحہ 355 طبع جدید، از مرزا قادیانی)
ہم اور ہماری اولاد پر فرض
(4) ’’ہم پر اور ہماری ذریت پر یہ فرض ہو گیا کہ اس مبارک گورنمنٹ برطانیہ کے ہمیشہ شکر گزار رہیں۔‘‘
(ازالہ اوہام صفحہ 132 مندرجہ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 166 از مرزا قادیانی)
ملکہ وکٹوریہ کا شکر ہر زبان میں
(5) ’’وہ تقریر جو دُعا اور شکر گزاری جناب ملکہ معظمہ قیصرہ ہند میں سُنائی گئی جس پر لوگوں نے بڑی خوشی سے آمین کے نعرے مارے، وہ چھ زبانوں میں بیان کی گئی تا ہمارے پنجاب کے ملک میں جس قدر مسلمان کسی زبان میں دسترس رکھتے ہیں، اُن تمام زبانوں سے شکر ادا ہو۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پنجابی میں اس لیے کہ وہ ہماری مادری زبان ہے جس میں شُکر کرنا واجب ہے اور پشتو میں اس لیے کہ وہ ہماری زبان اور فارسی زبان میں ایک برزخ اور سرحدی اقبال کا نشان ہے۔
اسی تقریب پر ایک کتاب شکر گزاری جناب قیصرہ ہند کے لیے تالیف کر کے اور چھاپ کر اُس کا نام تحفہ قیصریہ رکھا گیا اور چند جلدیں اس کی نہایت خوبصورت مجلد کرا کے اُن میں سے ایک حضرت قیصرہ کے حضور میں بھیجنے کے لیے بخدمت صاحب ڈپٹی کمشنر بھیجی گئی اور ایک کتاب بحضور وائسرائے گورنر جنرل کشور ہند روانہ ہوئی اور ایک بحضور جناب نواب لیفٹیننٹ گورنر پنجاب بھیج دی گئی۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ 115,114 طبع جدید از مرزا قادیانی)
خدا تعالیٰ سے عہد
(6) ’’پس اس الٰہی اور آسمانی دولت نے مجھے غنی کر دیا اور میرے افلاس کا تدارک کیا اور مجھے روشن کیا اور میری رات کو منور کر دیا اور مجھے منعموں میں داخل کیا۔ سو میں نے چاہا کہ اس مال کے ساتھ گورنمنٹ برطانیہ کی مدد کروں۔ اگرچہ میرے پاس روپیہ اور گھوڑے اور خچریں تو نہیں اور نہ میں مالدار ہوں۔ سو میں اس کی مدد کے لیے اپنے قلم اور ہاتھ سے اُٹھا اور خدا میری مدد پر تھا اور میں نے اسی زمانہ سے خدا تعالیٰ سے یہ عہد کیا کہ کوئی مبسوط کتاب بغیر اس کے تالیف نہیں کروں گا جو اس میں احسانات قیصرہ ہند کا ذکر نہ ہو اور نیز اس کے ان تمام احسانوں کا ذکر ہو جن کا شکر مسلمانوں پر واجب ہے۔‘‘
(نورالحق حصہ اوّل صفحہ 28، 29 مندرجہ روحانی خزائن جلد 8 صفحہ 39 از مرزا قادیانی)
فرض ہے
(7) ’’مجھ سے سرکار انگریزی کے حق میں جو خدمت ہوئی، وہ یہ تھی کہ میں نے پچاس ہزار کے قریب کتابیں اور رسائل اور اشتہارات چھپوا کر اس ملک اور نیز دوسرے بلاد اسلامیہ میں اس مضمون کے شائع کیے کہ گورنمنٹ انگریزی ہم مسلمانوں کی محسن ہے۔ لہٰذا ہر ایک مسلمان کا یہ فرض ہونا چاہیے کہ اس گورنمنٹ کی سچی اطاعت کرے اور دل سے اس دولت کا شکر گزار اور دعا گو رہے۔‘‘ (ستارہ قیصرہ صفحہ 4 مندرجہ روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 114 از مرزا قادیانی)
لازم ہے کہ
(8) ’’ مسلمانان ہند پر لازم ہے کہ نہ صرف اتنا ہی کریں کہ گورنمنٹ برطانیہ کے مقابل پر بدارادوں سے رُکیں بلکہ اپنی سچی شکر گزاری اور ہمدردی کے نمونے بھی گورنمنٹ کو دکھلاویں۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 459، طبع جدید، از مرزا قادیانی)
تمام ہندوستان پر یہ حق واجب ہے
(9) ’’بالآخر یہ بات بھی ظاہر کرنا ہم اپنے نفس پر واجب سمجھتے ہیں کہ اگرچہ تمام ہندوستان پر یہ حق واجب ہے کہ بنظر ان احسانات کے جو سلطنت انگلشیہ سے اس کی حکومت اور آرام بخش حکمت کے ذریعہ سے عامہ خلائق پر وارد ہیں۔ سلطنت ممدوحہ کو خداوند تعالیٰ کی ایک نعمت سمجھیں اور مثل اور نعماء الٰہی کے، اس کا شکر بھی ادا کریں۔ لیکن پنجاب کے مسلمان بڑے ناشکر گزار ہوں گے، اگر وہ اس سلطنت کو جو ان کے حق میں خدا کی ایک عظیم الشان رحمت ہے، نعمت عظمیٰ یقین نہ کریں۔‘‘
(براہین احمدیہ جلد اوّل تا چہارم صفحہ 140 مندرجہ روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 140 از مرزا قادیانی)
ہم پر محسن گورنمنٹ کا شکر ایسا ہی فرض ہے جیسا کہ خدا کا
(10) ’’ہمارے نظام بدنی اور امور دُنیوی میں خدا تعالیٰ نے اِس قوم میں سے ہمارے لیے گورنمنٹ قائم کی اور ہم نے اس گورنمنٹ کے وہ احسانات دیکھے جن کا شکر کرنا کوئی سہل بات نہیں۔ اس لیے ہم اپنی معزز گورنمنٹ کو یقین دلاتے ہیں کہ ہم اس گورنمنٹ کے اسی طرح مخلص اور خیرخواہ ہیں جس طرح کہ ہمارے بزرگ تھے۔ ہمارے ہاتھ میں بجُز دُعا کے اور کیا ہے۔ سو ہم دُعا کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ اِس گورنمنٹ کو ہر یک شر سے محفوظ رکھے اور اس کے دشمن کو ذلت کے ساتھ پسپا کرے۔ خدا تعالیٰ نے ہم پر محسن گورنمنٹ کا شکر ایسا ہی فرض کیا ہے جیسا کہ اس کا شکر کرنا۔ سو اگر ہم اس محسن گورنمنٹ کا شکر ادا نہ کریں یا کوئی شر اپنے ارادہ میں رکھیں تو ہم نے خدا تعالیٰ کا بھی شکر ادا نہیں کیا کیونکہ خدا تعالیٰ کا شکر اور کسی محسن گورنمنٹ کا شکر جس کو خدائے تعالیٰ اپنے بندوں کو بطورِ نعمت کے عطا کرے۔ درحقیقت یہ دونوں ایک ہی چیز ہیں اور ایک دوسرے سے وابستہ ہیں اور ایک کے چھوڑنے سے دوسری کا چھوڑنا لازم آجاتا ہے۔‘‘ (شہادۃ القرآن صفحہ 84 مندرجہ روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 380 از مرزا قادیانی)
22 برس سے… اپنے ذمہ فرض کر رکھا ہے
(11) ’’میں نے مناسب سمجھا کہ اس رسالہ کو بلاد عرب یعنی حرمین اور شام اور مصر وغیرہ میں بھی بھیج دوں کیونکہ اس کتاب کے صفحہ 152 میں جہاد کی مخالفت میں ایک مضمون لکھا گیا ہے اور میں نے بائیس برس سے اپنے ذمہ یہ فرض کر رکھا ہے کہ ایسی کتابیں جن میں جہاد کی ممانعت ہو، اسلامی ممالک میں ضرور بھیج دیا کرتا ہوں۔‘‘
(مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ 533 طبع جدید، از مرزا قادیانی)
شکر کرنا عین فرض اور واجب ہے
(12) ’’بعض احمق اور نادان سوال کرتے ہیں کہ اس گورنمنٹ سے جہاد کرنا درست ہے، یا نہیں؟ سو یاد رہے کہ یہ سوال ان کا نہایت حماقت کا ہے کیونکہ جس کے احسانات کا شکر کرنا عین فرض اور واجب ہے، اس سے جہاد کیسا۔ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ محسن کی بدخواہی کرنا ایک حرامی اور بدکارآدمی کا کام ہے۔‘‘
(شہادت القرآن صفحہ84، مندرجہ روحانی خزائن جلد6صفحہ380 از مرزا قادیانی)
گورنمنٹ کی وفاداری
(13) ’’ایک اور خاص بات ہے جس کا بیان کر دینا بھی نہایت ضروری ہے کیونکہ اس کے متعلق بھی حضرت صاحب نے بار بار تاکید فرمائی ہے۔ میں نے پچھلے جلسہ پر اس کے متعلق بیان کیا تھا۔ اور وہ گورنمنٹ کی وفاداری ہے۔۔۔۔۔۔۔ میں بھی یہی کہتا ہوں کہ گورنمنٹ کی وفاداری ہمیں دل و جان سے کرنی چاہیے۔ میں اگر کسی سے کوئی ایسی بات سنتا ہوں جو گورنمنٹ کے خلاف ہوتی ہے تو کانپ جاتا ہوں۔ کیونکہ اس قسم کی کوئی بات کرنا بہت ہی نمک حرامی ہے۔ ‘‘
(انوار خلافت صفحہ 65، 66 مندرجہ انوارالعلوم جلد 3 صفحہ 152، 153 از مرزا بشیرالدین محمود)
ایسے مذہب کے پیروکار کہ جس مذہب کا مدار ہی نصاریٰ کی اطاعت ہو، اس کے مذہبی پیشوا نصاریٰ کی خوشنودی کو اﷲ کی رضا حاصل کر نے کا ذریعہ بتاتاہو ،نصاریٰ سے بے وفائی کو نمک حرامی قرار دیں، وہ نصاریٰ کی مدد کیلئے جان تک قربان کر دینے کا درس دیتے ہوں تو ایسے مذہب کو ماننے والے کیوں کر کسی بھی مسلمان حکومت کے ساتھ مخلص ہو سکتے ہیں۔ اور بظاہر اسلام کا لبادہ اوڑھنے والے یہ لوگ مسلمان ممالک کے حساس اداروں اور کلیدی عہدوں پر بیٹھ کر کس کے مقاصد کے حصول کے لئے کام کر رہے ہوں گے ۔اس بات کا اندازہ لگا نا مشکل نہیں ۔
اس گروہ کو نظر انداز کر نے کے بھیانک نتائج مسلمان آج تک دیکھ چکے ہیں اورمستقبل میں بھی اگرمسلمان حکومتوں کی جانب سے کوئی واضح حکمت نہ اپنائی گئی تو یہ گروہ مستقل مسلمانوں کے لئے خطرناک حالات پیدا کر تا رہے گا ۔

اپنے مسلمان بھائیوں کو عقیدہ ختم نبوت سے آگاہ کریں اور قادیانیوں سے مکمل قطع تعلق کریں۔ان کی شرکت اپنی کسی مجلس یاکسی پروگرام ، شادی بیاہ ،خوشی غمی کی تقریبات،جنازہ وغیرہ میں برداشت نہ کریںاور ہر سطح پر ان کا مقابلہ کریں۔مرزا قادیانی کو ماننے والے اس خطرناک گروہ کی تبلیغی سرگرمیوںپر نظر رکھیں۔ علماء کرام پر یہ فریضہ عائد ہوتا ہے کہ وہ مہینے میں کم از کم ایک خطبہ جمعہ میں عقیدہ ختم نبوت کو مضبوط دلائل سے واضح کرتے ہوئے مسلمانوں کی ذہن سازی کریں۔ انٹرنیٹ والے حضرات سے درخواست ہے کہ وہ ویب سائٹ WWW.KHATMENBUWAT.ORGمستقل وزٹ کرتے رہیں ۔خود بھی استفادہ کریں اور اپنے دوستوں کو بھی بتائیں۔یہ آپ کا دینی فریضہ ہے۔ عقیدہ ختم نبوت اور ردقادیانیت پر مشتمل لٹریچر مرکز سراجیہ سے مفت حاصل کرنے اور قادیانیوں کے دجل وفریب کے جوابات حاصل کرنے کے لئے خط لکھیں،فون کریں یا خود تشریف لائیں۔تمام خواتین وحضرات سے اپیل ہے کہ یہ مضمون کثیر تعداد میں چھپوا کرمفت تقسیم کریں یا چھپوانے کے لئے ہم سے رابطہ کریں تاکہ امت مسلمہ کی نئی نسل فتنہ قادیانیت سے آگاہ ہوسکے اور کسی کی متاع ایمان نہ لٹ سکے۔اللہ رب العزت ہماری ان حقیر محنتوں کو اخلاص کی دولت سے مالا مال فرماکر اپنی رضا کا سبب بنائے۔ آمین ثم آمین
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
تمام امت سے قادیانیوں کے مکمل بائیکاٹ کی اپیل

جو شخص ختم نبوت کا انکار یا تاویل کرے وہ یقینا کافر اور دائرہ اسلام سے خا رج ہے۔برصغیر میں انگریز نے مرزا غلام احمد قادیانی سے نبوت کا دعویٰ کروایا ۔ اس نے جہاد کو حرام اور انگریز کی اطاعت کو مسلمانوں پر فرض قرار دیا۔ مرزاغلام احمد قادیانی نے بتدریج مبلغ اسلام ، مجدد، مہدی، مثیل مسیح، ظلی نبی، مستقل نبی، رسول ،انبیاء سے افضل حتیٰ کہ خدائی تک کا دعویٰ کیا۔ یہ سب کچھ ایک طے شدہ منصوبہ ، گہری چال اور خطر ناک سازش کے تحت کیا۔علمائے لدھیانہ نے مرزا قادیانی کی گستاخ و بے باک طبیعت کو اس کی ابتدائی تحریروں میں دیکھ کر اس کے خلاف کفر کا فتویٰ سب سے پہلے دیا تھااور آگے چل کر پوری امت نے علمائے لدھیانہ کے فتویٰ کی تصدیق و توثیق کی۔جماعت دیو بند کی طرف سے حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اﷲ علیہ نے مرزا قادیانی کو مرتد ، زندیق اور اسلام سے خارج قرار دیا۔ حضرت مولانا رحمت اﷲ کیرانوی رحمۃ اﷲ علیہ نے مولانا غلام دستگیر قصوری کے استفتاء پر 1302ھ میں مرزا کو مرتد اور دائرہ اسلام سے خارج قرار دے کر علمائے حرمین سے اس کی تصدیق کرائی۔پھر اس کے بعد 1331 ھ میں مولانا محمد سہول رحمۃ اﷲ علیہ مفتی دارالعلوم دیوبند نے اپنے ایک مفصل فتویٰ میں لکھا کہ مرزا غلام احمد او راس کے جملہ متبعین درجہ بدرجہ مرتد ،زندیق ، ملحد ، کافر اور فرقہ ضالہ میں یقینا داخل ہیں‘‘۔اس فتویٰ پر حضرت شیخ الہند رحمۃ اﷲ علیہ اور حضرت علامہ محمد انور شاہ کشمیری رحمۃ اﷲ علیہ اور دوسرے جید مشاہیر علماء کے دستخط ہیں ۔ اہلحدیث مکتبہ فکر سے مولانا ثناء اﷲ امرتسری رحمۃ اﷲ علیہ ،مولانا ابراہیم سیا لکوٹی رحمۃ اﷲ علیہ اور مولانا دائود غزنوی رحمۃ اﷲ علیہ نے اس فتنہ کا بھر پور تعا قب کیا ۔شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی رحمۃ اﷲ علیہ نے 1343ھ میں ایک علمی رسالہ’’ الشہاب‘‘ تصنیف فرمایا ۔ اس رسالہ میں حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی رحمۃ اﷲ علیہ نے ختم نبوت کے قطعی عقیدہ کی مرزا قادیانی کی طرف سے بے جا اور باطل تا ویلات و تحریفات کا ذکر کر کے قرآن و حدیث اور فقہ اسلامی سے مرزا قادیانی کو ملحد ، مرتد و زندیق ثابت کیا اور’’ الشہاب‘‘ کے صفحہ 10 پر مرزا قادیانی کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ ’’اسلام کے قطعی عقیدہ کو تسلیم نہ کر نے کی وجہ سے مرتد اور زندیق ہے اور جو جماعت ان تصریحات پر مطلع ہو کر ان کو صادق سمجھتی رہے اور ان کی حمایت میں لڑتی رہے وہ بھی یقینا مرتد اور زندیق ہے ۔ خوا ہ وہ قادیان میں سکونت رکھتی ہو یا لاہور میں ! جب تک وہ ان تصریحات کے با طل ہونے کا اعلان نہ کر ے گی خدا کے عذاب سے خلاص پانے کی اس کے لئے کو ئی سبیل نہیں ‘‘۔ شیخ السلام علامہ شبیر احمد عثمانی رحمۃ اﷲ علیہ کے نزدیک مرزائیوں کی دونوں پارٹیاں قادیانی اور لاہوری مرتد اور زندیق ہیں ۔ قطب عالم حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے خلیفہ حضرت مولانا پیر مہر علی شاہ گولڑوی رحمۃاللہ علیہ کو اس فتنہ کے خلاف کام کرنے کی تلقین فرمائی۔حضرت حاجی امداد اﷲ مہاجر مکی رحمۃ اﷲ علیہ کے دوسرے خلفاء حضرت مولانا احمد حسن امروہی رحمۃ اﷲ علیہ ، حضرت مولانا انوا ر اﷲ رحمۃ اﷲ علیہ ، حضرت مولانا محمد علی مونگیری رحمۃ اﷲ علیہ وغیرہ بھی اس فتنہ کی سر کو بی میں پوری طرح سر گرم رہے ۔

حضرت حاجی امداداللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ، مولانا محمد علی مونگیری رحمۃ اللہ علیہ، مولانا رشید احمدگنگوہی رحمۃ اللہ علیہ، پیر مہر علی شاہ گولڑوی رحمۃ اللہ علیہ، مولانا انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ، مولانا شاہ عبدالقادر رائے پوری رحمۃ اللہ علیہ، حضرت اقدس مولانا ابوالسعد احمد خاں رحمۃ اللہ علیہ بانی خانقاہ سراجیہ، حضرت مولانا محمد عبداللہ رحمۃ اللہ علیہ خانقاہ سراجیہ، مولانا تاج محمود امروٹی رحمۃ اللہ علیہ،مولانا غلام محمد دین پوری رحمۃ اللہ علیہ،حضرت مولانارسول خان صاحب رحمۃ اللہ علیہ، حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ،حضرت مولانا احمد علی لاہوری رحمۃ اللہ علیہ،پیر صبغت اللہ شاہ شہید رحمۃ اللہ علیہ پیر آف پگاڑہ شریف، حضرت حافظ پیر جماعت علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ، حضرت پیر جماعت علی شاہ لاثانی رحمۃ اللہ علیہم اجمعین تکوینی طور پر اس محاذ کے انچار ج تھے۔

ردقادیانیت کے سلسلہ میں امت محمدیہ کے جن خوش نصیب و خوش بخت حضرات نے بڑی تندہی اورجانفشانی سے کام کیا ان میں حضرت مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمۃ اللہ علیہ، حضرت مولانا محمدحسین بٹالوی رحمۃ اللہ علیہ، جناب مولانا قاضی محمد سلیمان منصور پوری رحمۃ اللہ علیہ، حضرت مولانا مرتضیٰ حسن چاند پوری رحمۃ اللہ علیہ، حصرت مولانا حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت مولانا بدر عالم میرٹھی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت مولانا مفتی محمد شفیع رحمۃ اللہ علیہ، حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلوی رحمۃاللہ علیہ،پروفیسر محمد الیاس برنی رحمۃ اللہ علیہ،علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ،حضرت مولانا احمد علی لاہوری رحمۃ اللہ علیہ، حضرت مولانا سیدمحمد یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ،حضرت مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمۃ اللہ علیہ، حضرت مولانا محمد دائود غزنوی رحمۃ اللہ علیہ،حضرت مولانا ظفر علی خان رحمۃ اللہ علیہ، حضرت مظہر علی اظہر رحمۃ اللہ علیہ، حافظ کفایت حسین رحمۃ اللہ علیہ ،حضرت پیر کرم علی شاہ الازہری رحمۃ اللہ علیہ خصوصیت سے قابل ذکر ہیں۔

1970ء کے الیکشن میں چند سیٹوں پر مرزائی منتخب ہوگئے۔ اقتدار کے نشہ اور ایک سیاسی جماعت سے سیاسی وابستگی نے انہیں دیوانہ کردیا۔ وہ حالات کو اپنے لیے سازگار پا کر انقلاب کے ذریعہ اقتدار پر قبضہ کی سکیمیں بنانے لگے۔ قادیانی جرنیلوں نے اپنی سرگرمیاں تیز کردیں۔ اس نشہ میں دھت ہو کر انہوں نے 29مئی 1974ء کو ربوہ ریلوے اسٹیشن پر چناب ایکسپریس کے ذریعہ سفر کرنے والے ملتان نشتر میڈیکل کالج کے طلباء پر قاتلانہ حملہ کیا۔ جس کے نتیجہ میں ملک گیر تحریک چلی۔حضرت مولاناسید محمد یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ مجلس تحفظ ختم نبوت پاکستان کے امیر تھے۔ ان کی دعوت پر امت کے تمام طبقات جمع ہوئے۔ آل پارٹیز مجلس عمل تحفظ ختم نبوت پاکستان تشکیل پائی۔ جس کے سربراہ حضرت مولاناسید محمد یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ منتخب ہوئے ۔ امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خوش نصیبی کہ اس وقت قومی اسمبلی میں تمام اپوزیشن متحد تھی۔ چنانچہ پوری کی پوری اپوزیشن مجلس عمل تحفظ ختم نبوت پاکستان میں شریک ہوگئی۔

متفقہ طور پر اپوزیشن کی طرف سے مولانا شاہ احمد نورانی رحمۃ اللہ علیہ نے مرزائیوں کے خلاف قرار داد پیش کی اور برسر اقتدار جماعت پیپلز پارٹی یعنی حکومت کی طرف سے دوسری قرار داد جناب عبدالحفیظ پیرزادہ نے پیش کی جو ان دنوں وزیر قانون تھے، قومی اسمبلی میں مرزائیت پربحث شرو ع ہوگئی۔ پورے ملک میں مولانا سید محمد یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ، نوابزادہ نصراللہ خان رحمۃ اللہ علیہ، آغا شورش کاشمیری رحمۃ اللہ علیہ، علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ، مولانا عبدالقادر روپڑی رحمۃ اللہ علیہ، مفتی زین العابدین رحمۃ اللہ علیہ، مولانا تاج محمود رحمۃ اللہ علیہ، مولانا محمد شریف جالندھری رحمۃ اللہ علیہ، مولانا عبدالستار خان نیازی رحمۃ اللہ علیہ، مولانا صاحبزادہ فضل رسول حیدر، مولانا صاحبزادہ افتخار الحسن، سید مظفر علی شا ہ رحمۃ اللہ علیہ، مولانا علی غضنفر کراروی، مولانا عبدالحکیم رحمۃ اللہ علیہ ،حضرت مولانا محمد شاہ امروٹی رحمۃ اللہ علیہ، غرضیکہ چاروں صوبوں کے تمام مکاتب فکر نے تحریک کے الائو کو ایندھن مہیا کیا۔ اخبارات و رسائل نے تحریک کی آواز کوملک گیر بنانے میں بھرپور کردار ادا کیا۔ تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کا دبائو بڑھتا گیا۔ ادھر قومی اسمبلی میں قادیانی و لاہوری گروپوں کے سربراہوں نے اپنا اپنا موقف پیش کیا۔ ان کا جواب اور امت مسلمہ کا موقف مولانا سید محمد یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ کی قیادت میں مولانا محمد حیات رحمۃ اللہ علیہ، مولانا سمیع الحق اور مولاناسید انور حسین نفیس رقم رحمۃ اﷲ علیہ نے مرتب کیا۔ اسے قومی اسمبلی میں پیش کرنے کے لیے چودھری ظہور الٰہی کی تجویز اور دیگر تمام حضرات کی تائید پر قرعہ فال مولانا مفتی محمود رحمۃا للہ علیہ کے نام نکلا۔ جس وقت انہوں نے یہ محضر نامہ پڑھا، قادیانیت کی حقیقت کھل کراسمبلی کے ارکان کے سامنے آگئی۔ مرزائیت پر اوس پڑگئی۔ نوے دن کی شب و روز مسلسل محنت ،کاوش اور بھر پور تحریک کے بعد جناب ذوالفقارعلی بھٹو کے عہد اقتدار میں متفقہ طور پر 7 ستمبر 1974ء کو نیشنل اسمبلی آف پاکستان نے عبدالحفیظ پیرزادہ کی پیش کردہ قرار داد کومنظور کیا اور مرزائی آئینی طور غیر مسلم اقلیت قرار پائے۔

قادیانی عام کافر نہیں بلکہ کافروں کی قسم مرتد و زندیق سے تعلق رکھتے ہیں کیونکہ یہ اپنے دین کفرکو اسلام کا نام دیتے ہیں اور دین اسلام کو کفر کہتے ہیں اور یہ جرم ہر قادیانی میں پایا جاتا ہے۔ خواہ وہ اسلام کو چھوڑ کر قادیانی بنا ہو یا پیدائشی قادیانی ہو۔ عام کافروں کے ساتھ معاملات جائز ہیں جب وہ مسلمان کا روپ نہ دھاریں اور مسلمان کی نشانیوں (شعائر اسلامی)کو استعمال کر کے مسلمانوں کو دھوکہ نہ دیں۔جبکہ قادیانی مسلمانوں کا روپ دھار کر اور انکے شعائر (نشانیوں)کو استعمال کر کے تعلقات کے جھانسہ میں سادہ لوح مسلمانوںکے ایمان پر ڈاکہ ڈالتے ہیں۔لہذٰا ان کے ساتھ ہر قسم کے تعلقات حرام ہیں۔ 1974ء کی تحریک ختم نبوت میں مجلس عمل تحفظ ختم نبوت نے قادیانیوں سے سوشل بائیکاٹ کی اپیل کی۔ پورے ملک کے اسلامیان وطن نے قادیانیوں سے تا ریخ ساز سوشل بائیکاٹ کیا ۔ چندروشن خیال نادان اس پر چیں بچیں ہوئے ۔اس زمانے میںعالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے امیر حضرت علامہ مولانا سید محمد یو سف بنوری رحمۃ اﷲ علیہ نے قادیانیوں سے مکمل بائیکاٹ پر ایک استفتاء مرتب فرمایا اور اس کا جواب ارباب فتویٰ سے طلب فرمایا ۔ تمام مسالک کے علماء کرام نے قادیانیوں کے سوشل بائیکاٹ کی شرعی حیثیت واضح کرنے کے لیے فتاویٰ جات تحریر کیے۔مثلاً پاکستان کے مفتی اعظم حضرت مولانا مفتی ولی حسن ٹونکی ؒ نے 28 اگست 1974 ء کو فتویٰ مرتب کیا ۔عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت نے اس زمانہ میں اس فتویٰ کو ہزاروں کی تعداد میںتقسیم کروایا۔ اسی طرح جامعہ امینیہ رضویہ فیصل آباد کے حضرت مولانا مفتی محمد امین صاحب نے فتاو یٰ مرتب کیا ۔

قادیانی آئین پاکستان کی روسے خارج از اسلام ہیں مگر1974 ء میں غیر مسلم اقلیت قرار دئیے جانے کے با وجود قادیانیوں نے آئین پاکستان سے بغاوت کا اعلان کرتے ہوئے اپنے آپ کو غیر مسلم اقلیت تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ۔ قادیانیوں نے مسلمانوں کو دھوکہ دینا شروع کر دیاکہ ہماری نماز ، روزہ ،عبادات اوردیگر شعائروغیرہ سب مسلمانوں کی طرح ہیں لہذا ہم پکے مسلمان ہیں ۔ مزید یہ کہ قادیانی کلمہ طیبہ کا بیج لگا کر کھلے عام شعائر اسلامی کا اظہار کرنے لگے قادیانی اپنی ارتدادی سرگرمیاں تیز کرتے ہوئے اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرکے پہلے سے زیادہ تیزی سے لوگوں کے ایمان برباد کرنے لگ گئے ۔ 26 اپریل 1984 ء کو حکومت پاکستا ن نے امتناع قادیانیت آرڈیننس جاری کیا جس کے تحت قادیانیوں کو شعائر اسلام استعمال کرنے، اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرنے اور قادیانیت کی تبلیغ کرنے سے روک دیا ۔ اس آرڈیننس کے ذریعہ تعزیرات پاکستان میں دو نئی دفعات 298/Bاور 298/C کا اضافہ کیا گیا ۔ مگر قادیانیوں نے اس آرڈیننس کی بھی کھلے عام خلاف ورزیا ں شروع کر دیں ۔ قادیانی اسلام کے غدار اور باغی تو تھے ہی ، آئین پاکستان میں ترمیم کے بعد قادیانیوں کا اپنے آپ کو’’ مسلمان‘‘ قرار دینا اور شعائر اسلامی کا استعمال کرنے سے یہ آئین اور قانون پاکستان کے بھی باغی اور غدار بن گئے۔

دور حاضر میں چند’’روشن خیال ‘‘نادان قادیانیوں کی اگلی نسلوں کو عام کافر قرار دے کرقادیانیوں سے معاملات اور تعلقات استوار کر رہے ہیں ۔ان حالات میں ضرورت محسوس ہو رہی تھی کہ مسلمانوں کو آگاہ کیا جائے کہ قادیانی کافروں کی عام قسم نہیںبلکہ وہ کافروں کی بد ترین قسم سے تعلق رکھتے ہیں جنہیںزندیق کہا جاتا ہے اور ان سے خریدوفروخت ،تجارت، لین دین ،سلام و کلام ، ملنا جلنا، کھانا پینا ، شادی و غمی میں شرکت ، جنازہ میں شرکت ،تعزیت، عیادت،ان کے ساتھ تعاون یاملازمت سب شریعت اسلامیہ میںممنوع اور حرام ہیں۔قادیانیوں/ مرزائیوں کے کافر ، مرتد اور زندیق ہونے میں سب علماء متفق ہیں ۔ قادیانیوں / مرزائیوں کا حکم عام کافر وں سے علیحدہ ہے۔ حکومت کے لئے یہ حکم ہے کہ ان زندیقوں پر عادل گواہوں کی شہادت قائم ہونے پر شرعی سزا یعنی سزائے موت نافذ کرے ۔ علماء کے لئے حکم ہے کہ وہ قادیانیوں/ مرزائیوں کے مرتد اور زندیق ہونے کا حکم امت پر واضح کریں ۔ اور عوام کے لئے حکم ہے کہ ان کا مکمل بائیکاٹ کریں یعنی ملنا جلنا، خرید و فروخت ، نشست برخاست، کھاناپینا،سلام کلام ،ملازمت ،دوستی وغیرہ سب مکمل طور پر ختم کردیں ۔

مرکز سراجیہ کے ذمہ داران نے شیخ المشائخ امام وقت حضرت مولاناخواجہ خان محمدرحمۃ اﷲ علیہ کی سرپرستی، راہنمائی،اور مشاورت سے موجودہ دور کے تمام مکا تب فکر کے علماء کرام ، مفتیان ،مشائخ عظام، ممتاز اسکالر بڑے بڑے مدارس و جامعات اور مذہبی جماعتوں کے قائدین سے فتاویٰ جات اور تحریریں اکٹھی کیں ۔تمام مکتبہ فکر کے رہنمائوں نے متفقہ طور پر قادیانیوں کے مکمل بائیکاٹ کو قرآن و حدیث کی روشنی میں اسلامی عدل و انصا ف کے عین مطابق قرار دیا۔ قادیانیوں سے کسی بھی قسم کے تعلقات اور معاملات کو حرام اور انکے مکمل بائیکاٹ کو فرض قرار دیا ۔ الحمدﷲ مرکز سراجیہ اسے اب جامع دستا ویز کی شکل میں شائع کرچکا ہے جسے آپwww.endofprophethood.comپہ ملاحظہ کر سکتے ہیں ۔ دعا ہے اﷲ پاک اس دستاویز کو نافع بنائے اور قبول فر مائے ۔آمین۔

قادیانیوں سے مکمل بائیکاٹ ا ن کو تو بہ کرانے میں بہت بڑا علاج اور قادیانیوں کی ہدایت کا بہت بڑا واسطہ ہے ۔ قادیانیوں سے مکمل بائیکاٹ ایمان کی گواہی ہے، نصرت دین ہے، اﷲ تعالیٰ کی رضامندی کا ذریعہ ہے، رسو ل اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی شفاعت کا واسطہ اور سرمایہ ہے ۔ ان سے اقتصادی ، معاشی، معاشرتی اور سیاسی معاملات یا کسی بھی قسم کا تعلق رکھنا اس فتنہ مرزائیہ کی تقویت اور پھیلنے میں معاونت کا ذریعہ بنے گا جسکا وبال عظیم ہونا ہر باشعور انسان پر مخفی نہیں۔ ایمانی غیرت کا تقاضا اور ایمان کی نشانی کفر اور کفار سے ہمہ قسم کی بیزاری، نفرت اور بائیکاٹ ہی میں ہے ۔قادیانیوں ،مرزائیوں کا کفر ایک الگ نوعیت کا کفر اور یہ فتنہ ایک عظیم فتنہ ہے۔ اﷲ تعالیٰ ہر مسلمان کو یہ سمجھنے کی توفیق عطا فر مائیں تاکہ ایمان بچا کر دنیا سے رخصت ہوں اور اس فر قہ ضالہ کو بھی مولائے پاک تائب ہونے کی توفیق عطا فر مائیں ۔ہماری تمام امت سے اپیل ہے کہ آپ قادیانیوں کی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کریں اور ان سے معاملات اور تعلقات ختم کر کے شفاعت مصطفیٰ صلی اﷲ علیہ وسلم کے مستحق بنیں ۔ اﷲ ہم سب کوشفاعت نبی صلی اﷲ علیہ وسلم سے بہرہ مندفرمائیں۔آمین

اپنے مسلمان بھائیوں کو عقیدہ ختم نبوت سے آگاہ کریں اور قادیانیوں سے مکمل قطع تعلق کریں۔ان کی شرکت اپنی کسی مجلس یاکسی پروگرام ، شادی بیاہ ،خوشی غمی کی تقریبات،جنازہ وغیرہ میں برداشت نہ کریںاور ہر سطح پر ان کا مقابلہ کریں۔مرزا قادیانی کو ماننے والے اس خطرناک گروہ کی تبلیغی سرگرمیوںپر نظر رکھیں۔ علماء کرام پر یہ فریضہ عائد ہوتا ہے کہ وہ مہینے میں کم از کم ایک خطبہ جمعہ میں عقیدہ ختم نبوت کو مضبوط دلائل سے واضح کرتے ہوئے مسلمانوں کی ذہن سازی کریں۔ انٹرنیٹ والے حضرات سے درخواست ہے کہ وہ ویب سائٹ WWW.KHATMENBUWAT.ORGمستقل وزٹ کرتے رہیں ۔خود بھی استفادہ کریں اور اپنے دوستوں کو بھی بتائیں۔یہ آپ کا دینی فریضہ ہے۔ عقیدہ ختم نبوت اور ردقادیانیت پر مشتمل لٹریچر مرکز سراجیہ سے مفت حاصل کرنے اور قادیانیوں کے دجل وفریب کے جوابات حاصل کرنے کے لئے خط لکھیں،فون کریں یا خود تشریف لائیں۔تمام خواتین وحضرات سے اپیل ہے کہ یہ مضمون کثیر تعداد میں چھپوا کرمفت تقسیم کریں یا چھپوانے کے لئے ہم سے رابطہ کریں تاکہ امت مسلمہ کی نئی نسل فتنہ قادیانیت سے آگاہ ہوسکے اور کسی کی متاع ایمان نہ لٹ سکے۔اللہ رب العزت ہماری ان حقیر محنتوں کو اخلاص کی دولت سے مالا مال فرماکر اپنی رضا کا سبب بنائے۔ آمین ثم آمین
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
حالِ دل

پروفیسر ڈاکٹر مغیث الدین شیخ
قادیانی لابی پاکستان کے اندر’’خاموش جارحیت‘‘ کی مرتکب ہو رہی ہے۔ اسی طرح جیسے امریکہ میں یہودی لابی ۔ امریکہ کی خارجہ امور کی کمیٹی ہو یا دفاعی امور کونسل، اخبارات ہوں یا ٹیلی وژن، ہالی وڈ کی فلم انڈسٹری ہو یام ہم جنس پرستوں کی تحریک …ہر جگہ ان کی تہہ میں یہودی لابی کا عمل دخل دیکھا جا سکتا ہے۔ یہودیوں کیلئے امریکہ ایک دوسرا اسرائیل ہے۔ یہ کہنا بیجانہ ہو گا کہ قادیانی لابی کے بھی یہودی لابی کے ساتھ کچھ رشتے ناطے ہیں۔ اسرائیل میں حیفہ کے مقام پر قادیانیوں کو مرکز قائم کرنے کی اجازت دینا اس تاثر کو اور بھی مستحکم کر دیتا ہے۔ دوسری طرف پاکستان کے اندر پاکستان کی مسلح افواج بیوروکریسی، ذرائع ابلاغ اور تعلیمی اداروں میں ان کا عمل دخل کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ علاوہ ازیں مختلف سیکولر سیاسی جماعتوں کی پالیسیوں اور سرگرمیوں پر بھی ان کا مضبوط کنٹرول محسوس کیا جا سکتا ہے۔ یہ بات بھی مبالغہ نہ ہو گی کہ پاکستان جیسے اسلامی نظریاتی ملک کے اہم اداروں پر اس سازشی اقلیتی گروپ کی حکمرانی ہے۔

میرے نزدیک یہ کوئی مذہبی گروہ نہیں ہے بلکہ برطانوی سامراج کا پیدا کردہ سیاسی اور سازشی گروہ ہے۔ سابق ایئر مارشل ظفر چودھری ہوں یا پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ سر ظفر اللہ خاں اقتصادی پالیسی ساز ایم ایم احمد ہوں یا ڈاکٹر عبدالسلام موجودہ اہم حکومتی عہدے پر فائز فرنیٹئر پوسٹ سے وابستہ صحافی فرحت اللہ بابر ہوں(جنہیں ڈاکٹر عبدالسلام نے ایٹمی توانائی کے اہم شعبے میں سینئر سائینٹفک آفیسر تعینات کیا تھا) یا پنجاب کے تعلقات عامہ کے کرتا دھرتا کرنل اکرم اللہ، ٹیکسٹ بک بورڈ ایسے اہم ادارے کے غالب احمد ہوں یا سابق سیکرٹری انفارمیشن نسیم احمد…اور نہ جانے کتنے اور اہم اداروں کی پالیسی مرتب کرنے والے لوگوں کا تعلق اسی گروہ کے ساتھ ہے۔ دوسری طرف ہماری بے بسی کا یہ عالم کہ ہم مسلمان ہوتے ہوئے بھی اس فتنے سے بے خبر اور بے تعلق اور اپنی منزل سے ناآشنا ہیں۔

پروفیسر ڈاکٹر مغیث الدین شیخ
شعبہ ابلاغیات ، پنجاب یونیورسٹی ، لاہور
اپنے مسلمان بھائیوں کو عقیدہ ختم نبوت سے آگاہ کریں اور قادیانیوں سے مکمل قطع تعلق کریں۔ان کی شرکت اپنی کسی مجلس یاکسی پروگرام ، شادی بیاہ ،خوشی غمی کی تقریبات،جنازہ وغیرہ میں برداشت نہ کریںاور ہر سطح پر ان کا مقابلہ کریں۔مرزا قادیانی کو ماننے والے اس خطرناک گروہ کی تبلیغی سرگرمیوںپر نظر رکھیں۔ علماء کرام پر یہ فریضہ عائد ہوتا ہے کہ وہ مہینے میں کم از کم ایک خطبہ جمعہ میں عقیدہ ختم نبوت کو مضبوط دلائل سے واضح کرتے ہوئے مسلمانوں کی ذہن سازی کریں۔ انٹرنیٹ والے حضرات سے درخواست ہے کہ وہ ویب سائٹ WWW.KHATMENBUWAT.ORGمستقل وزٹ کرتے رہیں ۔خود بھی استفادہ کریں اور اپنے دوستوں کو بھی بتائیں۔یہ آپ کا دینی فریضہ ہے۔ عقیدہ ختم نبوت اور ردقادیانیت پر مشتمل لٹریچر مرکز سراجیہ سے مفت حاصل کرنے اور قادیانیوں کے دجل وفریب کے جوابات حاصل کرنے کے لئے خط لکھیں،فون کریں یا خود تشریف لائیں۔تمام خواتین وحضرات سے اپیل ہے کہ یہ مضمون کثیر تعداد میں چھپوا کرمفت تقسیم کریں یا چھپوانے کے لئے ہم سے رابطہ کریں تاکہ امت مسلمہ کی نئی نسل فتنہ قادیانیت سے آگاہ ہوسکے اور کسی کی متاع ایمان نہ لٹ سکے۔اللہ رب العزت ہماری ان حقیر محنتوں کو اخلاص کی دولت سے مالا مال فرماکر اپنی رضا کا سبب بنائے۔ آمین ثم آمین
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
قادیانی مسلمانوں کو کیا سمجھتے ہیں؟

قادیانیوں کا کہنا ہے کہ ہم تمام دینی امور نماز ،روزہ وغیرہ مسلمانوں کے طریقے کے مطابق ادا کرتے ہیں اور سو سال میں ہماری اچھی خاصی تعداد ہو گئی ہے پھر ہمیں کافر کیوں کہا جاتا ہے؟ جب قادیانیوں سے یہ سوال کیا جاتاہے کہ دنیا کے ایک ارب بیس کروڑ مسلمان جو دین اسلام پر چل رہے ہیں آپ (قادیانی) ان کو کافر اور حرامی ،رنڈیوں کی اولاد جہنمی ،پکا کافرکیوں کہتے ہیں اور ان کے خلاف بدترین زبان کیوں استعمال کرتے ہیں تو اس کا جواب نہیں دیا جاتااور الٹا Love for All, Hatred for Noneکا نعرہ بلند کیا جاتاہے ۔قادیانیوں کے عقائد اور تحریرات میں مسلمانوں کے ساتھ شادی بیاہ سے لیکر جنازہ اور تدفین تک جملہ معاملات میںبائیکاٹ کا حکم ہے اوربھرپور زور دیا گیا ہے کہ مسلمانوں سے کسی قسم کا معاملہ نہ رکھیں۔ مرزا قادیانی اور اس کی ذریت کی کتب سے حوالہ جات ملاحظہ فرمائیں۔

1)) ’’اور ہماری فتح کا قائل نہیں ہوگا تو صاف سمجھا جاوے گا کہ اس کو ولد الحرام بننے کا شوق ہے اور حلال زادہ نہیں۔‘‘
(انوارِ اسلام صفحہ30 روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 31ازمرزا قادیانی)

2)) ترجمہ: ’’ میری ان کتابوں کو ہر مسلمان محبت کی نظر سے دیکھتا ہے اور اس کے معارف سے فائدہ اٹھاتا ہے اورمیری دعوت کی تصدیق کرتا ہے اور اسے قبول کرتا ہے۔ مگر رنڈیوں (بدکار عورتوں) کی اولاد نے میری تصدیق نہیں کی۔‘‘
(آئینہ کمالات اسلام صفحہ548,547 روحانی خزائن جلد 5 صفحہ548,547 ازمرزاقادیانی)

(3) ’’ دشمن ہمارے بیابانوں کے خنزیر ہوگئے۔ اور ان کی عورتیں کتیوں سے بڑھ گئی ہیں‘‘
(نجم الہدیٰ صفحہ53 روحانی خزائن جلد 14صفحہ53ازمرزاقادیانی)

4))" جو میرے مخالف تھے۔ ان کا نام عیسائی اور یہودی اور مشرک رکھا گیا"
(نزول المسیح (حاشیہ) صفحہ4روحانی خزائن جلد 18 صفحہ382 ازمرزا قادیانی)

5)" اور مجھے بشارت دی ہے کہ جس نے تجھے شناخت کرنے کے بعد تیری دشمنی اور تیری مخالفت اختیار کی، وہ جہنمی ہے۔"
(تذکرہ مجموعہ الہامات صفحہ168 طبع دوم ازمرزاقادیانی)

6))" خدا تعالیٰ نے میرے پر ظاہر کیا ہے کہ ہر ایک شخص جس کو میری دعوت پہنچی ہے اور اس نے مجھے قبول نہیں کیا۔ وہ مسلمان نہیں ہے۔"
(تذکرہ صفحہ600 طبع دوم ازمرزا قادیانی)

7))"ہر ایک ایسا شخص جو موسیٰ ؑ کو تو مانتا ہے مگر عیسیٰ ؑ کو نہیں مانتا یا عیسیٰ ؑ کو مانتاہے مگر محمد ؐکو نہیں مانتا اوریا محمدؐ کو مانتا ہے پر مسیح موعود کو نہیں مانتا وہ نہ صرف کافر بلکہ پکا کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے۔
(کلمۃ الفصل صفحہ110 از مرزا بشیر احمد ایم اے ابن مرزا غلام احمدقادیانی)

8))" کل مسلمان جو حضرت مسیح موعود (مرزا قادیانی) کی بیعت میں شامل نہیں ہوئے خواہ انہوں نے حضرت مسیح موعود (مرزا قادیانی) کا نام بھی نہیں سنا۔ وہ کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔"
(آئینہ صداقت صفحہ35از مرزا بشیر الدین محمود ابن مرزا غلام احمدقادیانی)

(9)"ہمارا یہ فرض ہے کہ غیر احمدیوں کو مسلمان نہ سمجھیں اور نہ ان کے پیچھے نماز پڑھیں کیونکہ ہمارے نزدیک وہ خدا تعالیٰ کے ایک نبی کے منکر ہیں۔"
(انوارِ خلافت صفحہ90 از مرزا محمود )

10))" غیر احمدی کا بچہ بھی غیر احمدی ہی ہوا۔ اس لیے اس کا جنازہ بھی نہیں پڑھنا چاہیے۔‘‘
(انوارِ خلافت صفحہ93 از مرزا محمود احمد)

11))’’صبر کرو اور اپنی جماعت کے غیر کے پیچھے نماز مت پڑھو۔ بہتری اور نیکی اسی میں ہے اور اسی میں تمہاری نصرت اور فتح عظیم ہے اور یہی اس جماعت کی ترقی کا موجب ہے۔ د یکھو دنیا میں روٹھے ہوئے اور ایک دوسرے سے ناراض ہونے والے بھی اپنے دشمن کو چار دن منہ نہیں لگاتے اور تمہاری ناراضگی اور روٹھنا تو خدا کے لیے ہے۔تم اگر ان میں رلے ملے رہے تو خدا تعالیٰ جو خاص نظر تم پر رکھتا ہے، وہ نہیں رکھے گا۔‘‘
(ملفوظات احمدیہ جلد اول صفحہ 525از مرزا غلام احمدقادیانی)

(12) ’’آپ (مرزا صاحب) کا ایک بیٹا فوت ہوگیا جو آپ کی زبانی طور پر تصدیق بھی کرتا ہے، جب وہ مرا تو مجھے یاد ہے، آپ ٹہلتے جاتے اور فرماتے کہ اس نے کبھی شرارت نہ کی تھی ...........لیکن آپ نے اس کا جنازہ نہ پڑھا۔ حالانکہ وہ اتنا فرمانبردار تھا کہ بعض احمدی بھی اتنے نہ ہوں گے۔ آپ کی جس طرح مرضی ہے، اسی طرح کریں۔ لیکن باوجود اس کے جب وہ مرا تو آپ نے اس کا جنازہ نہ پڑھا۔‘‘
(انوارِ خلافت صفحہ91 از مرزا بشیر الدین محمود)

(13)’’ایک اور بھی سوال ہے کہ غیر احمدیوں کو لڑکی دینا جائز ہے یا نہیں۔ حضرت مسیح موعود (مرزا غلام احمد قادیانی) نے اس احمدی پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا ہے جو اپنی لڑکی غیر احمدی کو دے۔ آپ سے ایک شخص نے بار بار پوچھا اور کئی قسم کی مجبوریاں کو پیش کیا۔ لیکن آپ نے اس کو یہی فرمایا کہ لڑکی کو بٹھائے رکھو لیکن غیر احمدیوں میں نہ دو۔ آپ کی وفات کے بعد اس نے غیر احمدیوں کو لڑکی دے دی تو حضرت خلیفہ اول نے اس کو احمدیوں کی امامت سے ہٹا دیا اور جماعت سے خارج کردیا۔ اور اپنی خلافت کے چھ سالوں میں اس کی توبہ قبول نہ کی۔ باوجود یکہ وہ بار بار توبہ کرتا رہا۔‘‘
(انوارِ خلافت صفحہ93،94از مرزا بشیرالدین محمود ابن مرزا قادیانی)

14)" ہم تو دیکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود ؑ(مرزا) نے غیر احمدیوںؐ کے ساتھ صرف وہی سلوک جائز رکھا ہے۔ جو نبی کریم ؐ نے عیسائیوں کے ساتھ کیا۔ غیر احمدیوں سے ہماری نمازیں الگ کی گئیں۔ ان کو لڑکیاں دینا حرام قرار دیاگیا۔ان کے جنازے پڑھنے سے روکا گیا۔ اب باقی کیا رہ گیا ہے جو ہم انکے ساتھ ملکر کر سکتے ہیں دو قسم کے تعلقات ہوتے ہیں ایک دینی دوسرا دنیوی ۔دینی تعلق کا سب سے بڑا ذریعہ عبادت کا اکٹھا ہونا ہے اور دنیوی تعلق کا بھاری ذریعہ رشتہ و ناطہ ہے۔ سو یہ دونوں ہمارے لئے حرام قرار دئیے گئے۔ اگر کہوکہ ہم کو ان کی لڑکیاں لینے کی بھی اجازت ہے تو میں کہتا ہوں کہ نصاریٰ کی لڑکیاں لینے کی بھی اجازت ہے اور اگر یہ کہوں کہ غیر احمدیوں کو سلام کیوں کہا جاتا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ حدیث سے ثابت ہے کہ بعض اوقات نبی کریمؐ نے یہود تک کو سلام کا جواب دیا ہے‘‘۔
(کلمۃ الفصل صفحہ169 از مرزا بشیراحمد ابن مرزا قادیانی)

دعوت غوروفکر
قادیانی جماعت سے درخواست ہے کہ وہ تمام حوالہ جات کی تصدیق کے بعد Love for All, Hatred for None کا نعرہ لگانا بند کر دیں۔دوسروں کو بیوقوف بنانا بند کر دیں اور خود بھی اپنے مربیوں کے ہاتھوں بیوقوف نہ بنیں اور اپنے اندر حق کو قبول کرنے کا حوصلہ پیدا کریں۔

اپنے مسلمان بھائیوں کو عقیدہ ختم نبوت سے آگاہ کریں اور قادیانیوں سے مکمل قطع تعلق کریں۔ان کی شرکت اپنی کسی مجلس یاکسی پروگرام ، شادی بیاہ ،خوشی غمی کی تقریبات،جنازہ وغیرہ میں برداشت نہ کریںاور ہر سطح پر ان کا مقابلہ کریں۔مرزا قادیانی کو ماننے والے اس خطرناک گروہ کی تبلیغی سرگرمیوںپر نظر رکھیں۔ علماء کرام پر یہ فریضہ عائد ہوتا ہے کہ وہ مہینے میں کم از کم ایک خطبہ جمعہ میں عقیدہ ختم نبوت کو مضبوط دلائل سے واضح کرتے ہوئے مسلمانوں کی ذہن سازی کریں۔ انٹرنیٹ والے حضرات سے درخواست ہے کہ وہ ویب سائٹ WWW.KHATMENBUWAT.ORGمستقل وزٹ کرتے رہیں ۔خود بھی استفادہ کریں اور اپنے دوستوں کو بھی بتائیں۔یہ آپ کا دینی فریضہ ہے۔ عقیدہ ختم نبوت اور ردقادیانیت پر مشتمل لٹریچر مرکز سراجیہ سے مفت حاصل کرنے اور قادیانیوں کے دجل وفریب کے جوابات حاصل کرنے کے لئے خط لکھیں،فون کریں یا خود تشریف لائیں۔تمام خواتین وحضرات سے اپیل ہے کہ یہ مضمون کثیر تعداد میں چھپوا کرمفت تقسیم کریں یا چھپوانے کے لئے ہم سے رابطہ کریں تاکہ امت مسلمہ کی نئی نسل فتنہ قادیانیت سے آگاہ ہوسکے اور کسی کی متاع ایمان نہ لٹ سکے۔اللہ رب العزت ہماری ان حقیر محنتوں کو اخلاص کی دولت سے مالا مال فرماکر اپنی رضا کا سبب بنائے۔ آمین ثم آمین
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
قادیانیوں سے بائیکاٹ نہ کرنے کا نتیجہ

(واقعات و مشاہدات کے آئینے میں )
اسلام کے خلاف بہت سے فتنے پیدا ہوئے جن میں سب سے خطرناک فتنہ قادیانیت ہے۔ قادیانی؍ مرزائی دن رات مسلمانوں کا ایمان لوٹنے کے لئے باقاعدہ منصوبہ بندی اور نظم کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ پوری دنیا میں دھوکہ دہی ، دجل و فریب سے کام لے کر مسلمانوں کو مرتد بنا رہے ہیں۔ ان کی ارتدادی سرگرمیاں اس خطے کے علاوہ یورپ ، امریکہ ، کینیڈا، افریقہ تک پھیلی ہوئی ہیں۔
مسلمانوں کے تمام مکاتب فکر کا متفقہ فیصلہ ہے کہ قادیانیوں ؍ مرزائیوں سے مکمل بائیکاٹ کیا جائے۔ مگر افسوس !مسلمان اس فیصلے کی خلاف ورزی کر کے قادیانیوں ؍ مرزائیوں سے رابطے اور تعلقات استوار کر لیتے ہیں اور بہت سے سادہ لوح مسلمان ان کے پھیلائے ہوئے ارتدادی جال میں پھنس کر اپنا ایمان کھو بیٹھتے ہیں۔
یہ ہماری سستی ہے کہ اکثر مساجد ، مدارس ، دینی رسائل اور دینی اجتماعات میں مسلمانوں کو قرآن و حدیث کے واضح دلائل سے عقیدہ ختم نبوت اور رد قادیانیت کے موضوعات پر آگاہ نہیں کیا جاتا، جس وجہ سے دینی حلقوں کے لوگ بھی قادیانیوں کے ہاتھوں ان کا شکار ہو جاتے ہیں۔
قادیانیوں ؍ مرزائیوں کی لاہوری جماعت کے مرکزی دفتر احمد بلاک گارڈن ٹاؤن لاہور کے تبلیغی شعبہ میں ملازمت کرنے والا جوان ارشد فیصل آباد کے مصروف دینی مدرسہ کا طالب رہا ہے مگر قادیانی ہو گیا۔
محمد جمیل اس وقت قادیانیوں کے لندن کے مرکزی دفتر میں مربی کی تربیت لے رہا ہے۔ یہ پہلے مسلمان تھا اور دو بڑی دینی جماعتوں میں شامل رہا اور بھر پور حصہ لیتا رہا ہے۔
ملک کی معروف تنظیم کے سربراہ کا دیوانہ ایک نوجوان جو لاہور میں ان کے باڈی گارڈ کی حیثیت سے خدمات سر انجام دیتا رہا ہے صرف قادیانیوں سے تعلقات کی وجہ سے قادیانی ہو گیا۔
یہاں یہ بات بھی یاد رکھنی ضروری ہے کہ قانونی طور پر کوئی قادیانی کسی مسلمان کو تبلیغ نہیں کر سکتا۔ ایسے قادیانی کے خلاف آپ قانون کو حرکت میں لا سکتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود مسلمانوں کی سرد مِہری اور غفلت کی وجہ سے قادیانی ہر سطح اور ہر علاقے میں جہنم کا ایندھن تلاش کر رہے ہیں۔ جبکہ کوئی مسلمان اپنے سے سینئر یا جُونیئر کسی قادیانی کو دعوت اسلام دیتا ہے تو اس کا جینا مشکل ہو جاتا ہے ،چنانچہ
بیگم کوٹ کے شبیر حسین جو لاہور شیخوپورہ روڈ پر فرانس کی ایک میڈیسن کمپنی میں ملازم ہیں ان کا افسر قادیانی ہے۔ شبیر نے اسے دعوت اسلام دی تو فوراً اسے فیکٹری کی طرف سے نوٹس ملا کہ تم ملازمت کرنا چاہتے ہو یا تبلیغ۔ اس واقعے کو بھی مد نظر رکھیں اور ذیل میں دیے گئے واقعے بھی پڑھیں۔ قادیانیوں کی ارتدادی سرگرمیوں کے چند محاذیہ ہیں:
اسلام کا لبادہ اوڑھ کر تبلیغ :
قادیانی بیرون ممالک میں مسلمانوں کے روپ میں جا کر لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں ۔
افریقی ممالک میں قادیانیوں نے مسلمانوں کو اس دلیل سے دھوکہ دیا کہ ربوہ قرآن میں حضرت عیسیٰ علیہ اسلام کے جائے پیدائش کے لئے استعمال ہوا ہے اور ہم ربوہ سے آئے ہیں، مسیح علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعوت لے کر۔ دیکھو پاکستان کے نقشے پر ربوہ شہر موجود ہے اور اسی سے کئی لا علم مسلمانوں کو فریب سے قادیانی بنا لیا۔
مغربی افریقہ میں ’’مالی ‘‘کے نامور مذہبی راہنما شیخ عمر کانتے کا بیان وہاں کے احوال سمجھنے کے لئے کافی ہے ۔شیخ عمر کانتے فرماتے ہیں: ’’ہمیں یہی باور کروایا گیا کہ دین محمدی اور دین احمدی (قادیانیت ) ایک ہی ہے۔ قادیانی تنظیم کے لوگوں نے یہاں آ کر ہم کو دھوکہ دیا کہ ہم مسلمان ہیں اور احمدی نام تعارف کے لئے ہے۔ ہم سڑکیں بنائیں گے، گھر بنائیں گے ، تمام سہولتیں دیں گے ۔ اس وجہ سے لوگوں نے قبول کیا کہ ایمان بھی محفوظ اور سہولتیں بھی مل رہی ہیں۔ اب ہم پر واضح ہوا ہے کہ عقیدہ ختم نبوت اسلام کا بنیادی اور اہم عقیدہ ہے ۔اور مرزا غلام احمد قادیانی نے نبوت کا دعویٰ کیا، اپنے آپ کو رسالت کے منصب پر فائز کیا، اس کے پیرو کاراس کو نبی اور پیغمبر کی حیثیت سے جانتے اور تسلیم کرتے ہیں۔
قادیانیت کا دین اسلام سے کوئی تعلق نہیں اور دین احمدی کا نام ایک کھلا دھوکہ ہے … میں نے قادیانیت سے توبہ کی اور میری غلط فہمی دور ہو ئی۔ میں اپنے چالیس ہزار پیروکاروں کے ہمراہ قادیانیت سے تائب ہوتا ہوں اب اس علاقے میں قادیانیت کی تبلیغ کی اجازت نہ ہو گی۔ کسی قادیانی کو یہ جرأت نہ ہو گی کہ وہ لوگوں کو گمراہ کر سکے۔ اب حکومت ’’مالی ‘‘نے قادیانیوں کی طرف سے دی گئی رجسٹریشن کی درخواست کو نہ صرف مسترد کر دیا بلکہ آئندہ ان کی تبلیغی سرگرمیوں پر پابندی عائد کر دی ۔اور وہ چار افراد جو اپنے آپ کو مرزا طاہر کا نمائندہ کہتے تھے ان کی گرفتاری کے احکامات جاری کر دئیے ہیں۔ اس طرح عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کی کوششوں سے وہ چالیس ہزار افراد جو لا علمی کی بناء پر قادیانیت کی گمراہی میں چلے گئے الحمد للہ دوبارہ زندہ اسلام میں داخل ہو گئے ہیں اور انہوں نے دین اسلام کے واضح ہونے کے بعد تمام مفادات کو قربان کر کے دین اسلام کو ترجیح دی ۔
اداروں اور فیکٹریوں میں طریقہ واردات :
قادیانی اپنے اداروں ، فیکٹریوں میں غریب مسلمانوں کو ملازمت دے کر تبلیغ کرتے ہیں اور ان میں سے کچھ لوگوں کا ایمان لوٹ لیا جاتا ہے۔ شیزان فیکٹری ، شاہنواز لیمیٹڈ ، تاج شوگر ملز، پاکستان چپ بورڈ لمیٹڈ جہلم ، OCS ، ذائقہ گھی اور اکثر قادیانی اداروں کے ملازمین ان کے دجل و فریب میں آ کر مراعات اور رہائش کی لالچ میں گمراہ ہو جاتے ہیں ۔
لاہور میں الفضل روم کولر ٹاؤن شپ والے مسلمان مزدوروں اور کاریگروں کو اپنے ادارے میں ڈبل تنخواہ دے کر ملازم رکھتے ہیں۔ کچھ ماہ کے بعد جب ان ملازمین کے گھریلو اخراجات ڈبل تنخواہ کے حساب سے ایڈجسٹ ہو جاتے ہیں تو ان کو فتنہ قادیانیت کی دعوت شروع کر دی جاتی ہے ۔جو لوگ دعوت قبول نہیں کرتے انہیں نوکری سے نکال دیا جاتا ہے اور اسے نئی نوکری اس تنخواہ کے مطابق کہیں اور مل نہیں سکتی۔ اس ادارے میں ہر سال 5 سے 8 خاندان قادیانی ہوجاتے ہیں۔
یونیورسل سٹیبلائزر،عابدمارکیٹ (لاہور ) والوں نے اپنے پڑوسی نوجوان کو قادیانی کر لیا مگر شادا ب کالونی کے نوجوان نے مرکز سراجیہ سے رابطہ کیا اور کوششوں سے الحمد للہ نوجوان دوبارہ مسلمان ہو گیا۔
آصف بلاک اقبال ٹاؤن میں کچھ عرصہ پہلے 5،7گھر قادیانیوں کے تھے۔ اب وہاں 40 کے قریب قادیانیوں کے گھر آباد ہو چکے ہیں ، اور ارد گرد کے مسلمانوں کے لئے انتہائی خطرناک ہیں۔ اس بلاک میں ایک مشہور حکیم صاحب نے بتایا کہ ہمارے یہاں کا ایک مسلمان نوجوان ویزے کے لالچ میں قادیانی ہو کر باہر جانا چاہ رہا تھا، مگر میں نے اسے مشورہ دیا کہ وہ بیعت فارم بھر کر باہر چلا جائے مگر دل سے مسلمان ہی رہے اور وہ نوجوان ایسا کر کے باہر چلا گیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ گویا حکیم صاحب نے اپنے ہاتھوں سے اس کا ایمان ضائع کر دیا۔
رشتوں کے جھانسے میں قادیانیت کی تبلیغ:
فرید احمد پراچہ سابق ایم این اے کے بھائی طارق پراچہ صاحب کی تین جوان بیٹیاں اور ایک جوان بیٹا ہے۔ ان کی بیوی ظاہراً ساری زندگی مسلمان بن کر ان کے ساتھ رہی۔ جب تمام بچے کالج جانے لگے تو ایک دن اس نے بتایا کہ وہ حقیقت میں قادیانی تھی اور اس نے سب بچوں کو قادیانی بنا دیا ہے اور طارق پراچہ صاحب کو بھی دعوت دی کہ آپ قادیانی ہو جائیں۔ طارق پراچہ صاحب نے قادیانیت پر لعنت بھیجی اور بیوی بچوں کو چھوڑ کر ان سے علیحدہ رہ رہے ہیں۔ (ماشاء اللہ ، ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں استقامت بخشے۔ آمین!)
Yاسٹیٹ بینک لاہور کے سینئیر آفیسر نے اپنی بیٹی کی شادی کی ، بچے ہونے کے بعد لڑکے نے انکشاف کیا کہ وہ قادیانی ہے۔
Y چناب بلاک اقبال ٹاؤن لاہور کے مشہور عالم دین کے پاس ایک بچی کی شادی کے سلسلے میں ان کے احباب تشریف لائے اور بتایا کہ یہ لڑکی قادیانیت سے تائب ہونے والے ایک نوجوان سے شادی کرنا چاہتی ہے۔ مگر ہم اس وقت اس کی شادی نہیں کریں گے جب تک آپ اس لڑکے کی تحقیق کر کے ہمیں کلیئرنس نہ دیں کہ یہ لڑکا مسلمان ہے۔ حضرت مولانا صاحب نے لڑکے سے بھرپور تحقیق کی ، لڑکا ختم نبوت اور حیات عیسیٰ علیہ اسلام کے عقیدہ کا اقرار کرتا اور مرزا قادیانی کو جھوٹا، مکار، دغا باز قرار دیتا رہا۔ مگر شادی ہونے اور بچے ہونے کے بعد اس لڑکے نے بتایا کہ وہ قادیانی ہے ، وہ مسلمان ہوا ہی نہیں تھا۔
منور سنز کالج روڈ ٹاؤن شپ، لاہور میں الیکٹرونکس کی دکان ہے۔ اس کے مالک کا باپ مرزا قادیانی کے ہاتھ پر قادیانی ہوا تھا۔ اس شخص نے مسلمان عورت سے مسلمان بن کر شادی کی جو اب تک اس کے ساتھ رہ رہی ہے اور مرزا قادیانی کو جھوٹا مانتی ہے۔ اس شخص کے دو لڑکوں شاہد اور ساجد نے دھوکہ دہی سے مسلمان بن کر مسلمان گھرانوں میں شادیاں کر لیں ،پھر جب بچے ہو گئے تو ایک نیا انداز اختیار کیا۔ اپنی بیویوں کو بتایا کہ ہم قادیانیت سے متأثر ہیں اس کو قبول کرنا چاہتے ہیں ۔ آپ بھی تحقیق کر لیں۔ اور پھر مربیوں کو بلا کر ان خواتین کی نشستیں شروع کروا دیں اور ان کو قادیانی کرنے کی کوششیں تیز کر دیں۔ مرکز سراجیہ کی مخلصانہ مساعی سے ان خواتین نے ان قادیانی نوجوانوں سے علیحدگی اختیار کر لی ۔ ( اللہ انہیں بہتر صلہ دے۔اور استقامت کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین)
یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور کے ایک نوجوان عثمان کا تعلق ڈسکہ کے قریب ایک گاؤں سے ہے۔ وہاں قادیانیوں کا ایک سنٹر ہے۔ وہاں کے مربی اور عملہ کے عثمان کے باپ اور دادا سے تعلقات تھے اور اس کا انجام یہ ہوا کہ وہ دونوں قادیانی ہو گئے۔ دادا تو مرتد ہو کر اسی حالت میں مر چکا ہے مگر باپ نے عثمان کوبھی قادیانی کرنے کی کوشش کی۔ عثمان ،الحمد للہ مضبوط ایمان والا مسلمان ہے اور باپ کو دوبارہ مسلمان کرنے کے لیے کوشاں ہے مگر اس کا باپ قادیانیوں سے تعلقات چھوڑنے پر آمادہ نہیں اور جو بھی دلائل اسے دیے جاتے ہیں وہ سننے کے لئے تیار نہیں ۔اور کہتا ہے کہ ان مربیوں سے بات کرو یہ مطمئن ہو جائیں گے تو میں بھی مطمئن ہو جاؤںگا۔
ہسپتالوں وغیرہ میں قادیانیوں کا مکروہ دھندہ :
قادیانی اپنی فری ڈسپنسریوں، کلینک اور ہسپتال میں علاج معالجہ کے چکر میں بہت سے مسلمانوں کو مرتد کر لیتے ہیں۔ بلال فری ہومیو پیتھک کلینک گڑھی شاہو ، لاہورکے ملازم ڈاکٹر نذر حسین کے بھائی کو اسی ادارے کے مالکان نے قادیانی کیا ۔اور ڈاکٹر نذر حسین کے مزاحمت کرنے پر اُسے ملازمت سے نکال دیا۔
خون دینے کے بہانے قادیانی نوجوان مریض کے گھر والوں سے رابطہ بڑھاتے ہیں اور محبت اور ہمدردی کے جذبات پیدا کرتے ہیں ۔ پھر مریض کے گھر آنا جانا شروع ہو جاتا ہے۔ اور اس خاندان کے قریب ہو کر مسیحا کا روپ دھار کر قادیانیت کی تبلیغ شروع کر تے ہیں۔
تعلیمی اداروں میں ایمان کے لٹیرے:
یونیورسٹیوں ، کالجوں، سکولوں اور ٹیوشن سنٹروں میں قادیانیوں کی بڑھتی ہوئی تبلیغی سرگرمیاں مسلمان لڑکے لڑکیوں کے لئے انتہائی مضر ہیں۔ بہت سے واقعات ایسے سامنے آئے ہیں کہ ان اداروں میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے آنے والے طالب علم قادیانی کلاس فیلوز سے دوستی کے نتیجے میں ربوہ کی سیر کو چل پڑے اور پھر انہی کے ہاتھوں شکار ہو گئے اور اپنا ایمان لٹا بیٹھے۔
Y مون مارکیٹ اقبال ٹاؤن میں ایک ادارے میں پڑھنے والا شہزاد نامی نوجوان اپنے 2قادیانی کلاس فیلوز کی دعوت و تبلیغ سے متأثر ہو کر قادیانی ہو گیا۔ مگر بفضل تعالیٰ ختم نبوت کا لٹریچر اور ویب سائٹ وزٹ کرنے کے بعد قادیانیت پر لعنت بھیج کر مسلمان ہو گیا۔
پنجاب میڈیکل کالج Pmc فیصل آباد میں قادیانی لڑکے لڑکیوں کی گذشتہ سال تبلیغی سرگرمیاں انتہائی عروج پر پہنچ گئی تھیں۔ قادیانی لڑکیاں اپنے ہاسٹلوں میں باقاعدہ نوٹس بورڈ لگا کر احمدی درس قرآن کے نام سے پروگرام کرتی تھیں۔ قادیانیوں نے Pmc کے سامنے رہائشی سکیم میں ایک دس مرلے کا مکان لے رکھا ہے جہاں مسلمان لڑکے لڑکیوں کو کھلانے پلانے کے بہانے لے جایا جاتا ہے پھر ان کو وہاں عیاشی کروائی جاتی ہے اور ساتھ 20ہزار روپے ماہوار وظیفہ کی پیشکش کی جاتی ہے اور اس کے عوض مطالبہ یہ ہوتا ہے کہ بے شک آپ اندر سے مسلمان رہیں مگر ہمارا بیعت فارم پُر کرکے وظیفہ حاصل کر سکتے ہیں ۔ یہاں کے بہت سے مسلمان لڑکے لڑکیوں کی ایمان لٹنے کی داستانیں انتہائی افسوسناک اور ہولناک ہیں ۔اور اس سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ انہیں روکنے والا کوئی نہیں۔
لاہور کا عثمان قادیانیوں سے تعلقات کی بناء پر ان کے اس دجل و فریب میں آ گیا کہ مرزا قادیانی کے بارے میں استخارہ کر لیا جائے پھر وہ استخارہ کر کے ہمیشہ کے لئے مرتد ہو گیا اور اپنے دوستوں عزیزوں کو مرزائی بنانے کے لئے دن رات کوشاں رہتا ہے۔
اچھرہ کے معروف ٹھیکیدار کا بیٹا اعلیٰ تعلیم کے لئے لندن گیا۔ وہاں سے ایک قادیانی خاندان نے اس سے رشتے کے لئے رابطہ کیا۔ جب ٹھیکیدار صاحب نے قادیانیت کی بنیاد پر انکار کیا تو انہوں نے بتایا کہ تمہارا بیٹا یہاں آ کر ہمارے ساتھ اٹھتا بیٹھتا تھا اور اب وہ ہمارے عقیدے پر ہے اور ہماری مرضی سے چلے گا۔ اب ہم اس کی شادی کر رہے ہیں ہم تو صرف تمہیں دعوت دے رہے ہیں کہ تم شادی میں شریک ہونا چاہتے ہو تو ہو جاؤ۔
جوانی کے ہتھیار سے مسلمان لڑکیوں اور لڑکوں کے ایمان کی لوٹ مار :
ایک شخص فون پر رو رہا تھا۔ اور روتے ہوئے بتا رہا تھا کہ میری بیٹی پنجاب یونیورسٹی میں پڑھتی ہے وہ قادیانی ہو گئی ہے اور لاکھ سمجھانے کے باوجود اس نے مرزائی لڑکے سے شادی کر لی ہے ۔ (معلوم ہوا ہمیں اولاد کے اعمال کے ساتھ عقائد کی نگرانی بھی کرنی چاہیے۔ ادارہ )
بوڑھی اماں ابھی ہم سو رہے ہیں:
چوہدری کالونی سمن آباد کا جلیل پیسے اور نوکری کی لالچ میں سمن آباد کی قادیانی جماعت کے ہاتھوں مرتد ہوا اور اپنی بیوی کو بھی قادیانی بنا لیا۔ اس کی ماں تمام مسلمانوں سے اپیل کرتی ہے کہ کوئی ہے جو میرے اس بیٹے کا ایمان بچا لے میں انتظار میں ہوں۔ (لیکن بھوڑی اماں ! ابھی ہم سو رہے ہیں جلیل کے ساتھ نظر آنے والے 5،7 نوجوان وہ ہیں جو قادیانی ہو چکے ہیں اور انہوں نے ابھی تک اپنے گھروں میں بتایا بھی نہیں ہے۔
ربوہ سے خوبصورت لباس اور میک اپ کر کے نکلنے والی خوبصورت لڑکیاں ٹرینوں اور بسوں میں سوار سرگودھا سے فیصل آباد کے روٹ اور ارد گرد کے دیہاتوں میں پھیل جاتی ہیں اور جوانی کے ہتھیاروں سے لیس ہو کر دعوت ارتداد دیتی ہیں اور سینکڑوں لوگوں کو شکار کر چکی ہیں۔ افسوس ان سینکڑوں لوگوں کا شکار روکنے والا کوئی نہیں۔ ملک کے مختلف حصوں میں قادیانی لڑکیوں کی تبلیغی جماعتیں اسی طرح نکلتی ہیں۔
ٹریول ایجنٹ یا کفار کے ایجنٹ؟
کچھ بد قسمت ٹریول ایجنٹ مسلمانوں کو قادیانیت کی بنیاد پر باہر بھیجنے کی ترغیب دے کر بیعت فارم پُر کرواتے ہیں، پھر قادیانی ظاہر کر کے بیرون ممالک کا ویزہ لگواتے ہیں اور چند روپوں کی خاطر ان کا ایمان ضائع کر دیتے ہیں۔یہ بہت سے لوگوں کو مرتد کر کے باہر بھجوا چکے ہیں۔
قادیانیوں کے دنیا بھر میں اجتماعات منعقد ہوتے ہیں اور جمعہ کے دن بھی ان کا ہر علاقے میں اجتماع ہوتا ہے۔ ان اجتماعات میں وہ مسلمانوں کو لازمی لے کر آتے ہیں۔ ان اجتماعات میں شرکت کرنے والے مسلمان کچھ عرصہ بعد قادیانیت کا حصہ نظر آتے ہیں۔
رفاہی کاموں کی آڑ میں مرزائیو ں کی تبلیغی سر گرمیاں:
قادیانی سماجی بہبود اور این جی اوز کے ذریعے اپنے خاص مقاصد کے حصول کے لیے ہر اس جگہ پہنچ جاتے ہیں جہاں کوئی قدرتی آفت، مصیبت یا حادثہ پیش آتا ہے۔ حادثات میں لوگوں کا مال، گھر بار، جانوں کا نقصان تو پہلے ہی ہو چکا ہوتا ہے۔ اوپر سے ان مظلوموں کی اس مصیبت اور پریشانی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایمان کے ڈاکو اپنے ارتدادی ہتھیاروں کے ساتھ وہاں حاضر ہو جاتے ہیں ۔اور جو جو لوگ ایمان بیچنا چاہیں ان کو اچھی خاصی مراعات دی جاتی ہیں۔ بے سہارا لوگوں کی کفالت کر کے ان کو اپنے دائرے میں شامل کرتے ہیں۔
اوجڑی کیمپ (1988ئ) میں قادیانیوں نے بھر پور کام کیا۔ 2005ء بالا کوٹ میں آنے والے زلزلے میں جہاں تمام مسلمان ان کی امداد کے لئے سر گرم تھے وہاں قادیانی بھی ارتدادی سرگرمیوں کو پھیلانے کے لئے بھرپور کام کر رہے تھے اور ایمان لٹانے والوں کو مراعات کی پیشکش کر کے ورغلایا جاتا رہا اور متعدد مسلمانوں کو قادیانی بنایا گیا ۔آج ربوہ میں پٹھان مربّی بننے کی تربیت لیتے نظر آتے ہیں اور پٹھانوں کے علاقوں میں قادیانیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد تشویش ناک ہے۔ اس وقت سوات اور گردو نواح کے مصیبت زدگان مسلمان بھائیوں میں تبلیغ اور بیعت فارم بھروانے کے لئے قادیانی بھرپور سر گرم عمل ہیں اور ان کی بہت سی ’’این جی اوز‘‘ وہاں اپنے مقاصد کے حصول کے لئے کام کررہی ہیں۔
اسی طرح عیسائیوں کی طرح مرزائی بھی ایسے علاقوں کا انتخاب کرتے ہیں جہاں کے مسلمان غریب ، جاہل اور بے دین ہوتے ہیں جیسا کہ سندھ کے پسماندہ علاقے ہیں۔ وہاں مسلمانوں کے سوا ہر مذہب بڑی تیزی سے اپنی طبع آزمائی کر رہا ہے۔
بیواؤں اور یتیموں کی امداد کے ذریعے بھی قادیانی مسلمانوں کا ایمان لوٹتے ہیں۔ ایک گھرانے کا کفیل مسلمان فوت ہو گیا۔ اس کی بیوہ اپنے تین بچوں کے تعلیمی اخراجات برداشت نہ کر سکی اور سکول سے انہیں اٹھا لیا۔ ان بچوں میں سے ایک بچے کا کلاس فیلو بچہ قادیانی تھا۔ اس قادیانی بچے کے باپ نے موقع کو غنیمت جانا اور بیوہ کی مالی امداد شروع کر دی۔ بچوں کی تعلیم جاری کروانے کے علاوہ خرچہ کی ذمہ داری بھی اٹھائی اور بیوہ کو مزید مستقل مالی امداد بہم پہنچانی شروع کر دی۔ آج وہ بیوہ مع خاندان اس شخص کی تبلیغ سے قادیانی ہو چکی ہے۔اور ظاہر ہے اس کے بچے بھی قادیانی ہی بنیں گے۔ (اللہ محفوظ رکھے۔ آمین)
نوٹ: اس طرح کے واقعات بہت زیادہ ہیں ۔جہاں بھی کو ئی گروپ ، جماعت فتنہ قادیانیت کے خلاف کام کر رہی ہے ان سے رابطہ کرنے پر بہت سے واقعات مل سکتے ہیں۔ ہر یونیورسٹی ، کالج اور ہسپتال میں ایسے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔
اس موضوع پر محترم محمد متین خالد حفظ اﷲ کی کتاب ’’قادیانیت ایک ’’دہشت گرد تنظیم ‘‘کا مطالعہ بھی فائدہ مند رہے گا۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ دینی اور رفاہی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔ اور اس کام کو اتنا پھیلائیں کہ مسلمانوں کو ان مرتدوں کے جال میں پھنسنے کا موقع ہی نہ ملے۔

اپنے مسلمان بھائیوں کو عقیدہ ختم نبوت سے آگاہ کریں اور قادیانیوں سے مکمل قطع تعلق کریں۔ان کی شرکت اپنی کسی مجلس یاکسی پروگرام ، شادی بیاہ ،خوشی غمی کی تقریبات،جنازہ وغیرہ میں برداشت نہ کریںاور ہر سطح پر ان کا مقابلہ کریں۔مرزا قادیانی کو ماننے والے اس خطرناک گروہ کی تبلیغی سرگرمیوںپر نظر رکھیں۔ علماء کرام پر یہ فریضہ عائد ہوتا ہے کہ وہ مہینے میں کم از کم ایک خطبہ جمعہ میں عقیدہ ختم نبوت کو مضبوط دلائل سے واضح کرتے ہوئے مسلمانوں کی ذہن سازی کریں۔ انٹرنیٹ والے حضرات سے درخواست ہے کہ وہ ویب سائٹ WWW.KHATMENBUWAT.ORGمستقل وزٹ کرتے رہیں ۔خود بھی استفادہ کریں اور اپنے دوستوں کو بھی بتائیں۔یہ آپ کا دینی فریضہ ہے۔ عقیدہ ختم نبوت اور ردقادیانیت پر مشتمل لٹریچر مرکز سراجیہ سے مفت حاصل کرنے اور قادیانیوں کے دجل وفریب کے جوابات حاصل کرنے کے لئے خط لکھیں،فون کریں یا خود تشریف لائیں۔تمام خواتین وحضرات سے اپیل ہے کہ یہ مضمون کثیر تعداد میں چھپوا کرمفت تقسیم کریں یا چھپوانے کے لئے ہم سے رابطہ کریں تاکہ امت مسلمہ کی نئی نسل فتنہ قادیانیت سے آگاہ ہوسکے اور کسی کی متاع ایمان نہ لٹ سکے۔اللہ رب العزت ہماری ان حقیر محنتوں کو اخلاص کی دولت سے مالا مال فرماکر اپنی رضا کا سبب بنائے۔ آمین ثم آمین
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
مجیب الرحمن شامی کی باتیں

قادیانی حضرات کے لئے مناسب یہی ہے کہ وہ جو کچھ ہیں، اس کو مان بھی لیں۔ انہیں اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ وہ ایک (نام نہاد) نبی کی امت ہیں۔ ایک طرح سے یوں کہا جاتا ہے کہ قادیانیوں اور مسلمانوں کے درمیان وہی فرق ہے جو مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان ہے۔ مسلمان محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے نام لیوا اور پیروکار ہیں۔ عیسائی ان پر ایمان نہیں لاتے۔ اس بات نے اُن کے اور مسلمانوں کے درمیان دیوار چین سے بھی بڑی دیوار قائم کردی ہے۔ قادیانی صاحبان جس شخص کو نبی قرار دیتے ہیںمسلمان اس کو سراپا جھوٹ سمجھتے اور اس سے اظہار نفرت کو، اپنے ایمان کا حصہ جانتے ہیں۔ اگر قادیانیوں کا دعویٰ ایمان تسلیم کرلیا جائے تو پھر مسلمان کافر قرار پاتے ہیں۔ بات کو جس طرح بھی کہا جائے حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں اور قادیانیوں کے درمیان ہمالہ سے بھی بڑا پہاڑ حائل ہے۔ دونوں ایک دوسرے سے الگ الگ ہیں۔ قادیانیوں کی طرف سے اگر اسلام کا نقاب اوڑھنے کی کوشش نہ کی جائے۔ وہ اپنے علیحدہ امت ہونے کو برملا تسلیم کرلیں تو اُن کے خلاف مسلمانوں کے غم و غصے کا رُخ بدل سکتا ہے۔ وہ ان کے جھوٹ کی قلعی علمی انداز میں کھولنے پر سارا زور صرف کرسکتے ہیں۔ لیکن جب یہ نقاب پوش ڈاکو امت مسلمہ پر ڈاکہ ڈالتے ہیں اور اصلی کو نقلی قرار دے کر نقلی کو اصلی قرار دینے لگتے ہیں۔ اندھیرے کو اجالا اور اجالے کو اندھیرا کہنے پر اصرار کرتے ہیں تو جذبات مشتعل ہوتے ہیں اور ان کے ساتھ وہ سلوک کرنے کے لئے قدم بڑھ جاتے ہیں جو ڈاکوئوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قائدِ اعظم سے لے کر میاں نوازشریف تک، مولانا احمد رضاخان بریلویؒ سے لے کر مفتی محمد حسین نعیمی ؒ تک، پیر مہر علی شاہ ؒ سے لے کر حضرت خواجہ خان محمد ؒ تک، مولانا انور شاہ کشمیریؒ سے لے کر مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ تک، بھٹو مرحوم سے لے کر نوابزادہ نصر اللہ خاں تک، شاہ فہد سے لے کر احمد شاہ مسعود تک، حافظ کفایت حسین (مرحوم) سے لے کر حق نواز جھنگوی(مرحوم) تک سب ہم آواز ہیں کہ قادیانیت اسلام سے الگ کوئی چیز ہے۔۔۔ اور اس کی بنیاد جھوٹ، جھوٹ اور صرف جھوٹ ہے۔

قادیانیت، مسلمانوں کے کسی ایک گروہ یا کسی ایک شخص کا نہیں، تمام مسلمانوں کا مسئلہ ہے۔ ہر مسلمان اسے ایک ہی نظر سے دیکھتا ہے۔ اسے اپنے آپ سے، اور اپنے آپ کو، اس سے الگ رکھتا ہے اور الگ رکھنا چاہتا ہے۔ قادیانی حضرات کو کبھی مسلمانوںنے اپنا حصہ نہیں سمجھا، اور یہ خود بھی ان سے علیحدہ تشخص پرزور دیتے رہے ہیں۔ ان کے نزدیک ہر وہ شخص جو مرزا غلام احمد قادیانی پر ایمان نہیں لایا، کافر ہے۔ اسی لیے سرظفراللہ خان قادیانی نے وزیرِ خارجہ ہونے کے باوجود قائد اعظم کی نماز جنازہ ادا نہیں کی تھی۔ وہ غیر قادیانی کے لئے دعائے مغفرت کو جائز نہیں سمجھتے تھے۔ اگر قادیانی منطق کو مان لیا جائے، تو پورا عالم اسلام ’’کافر‘‘ ہے۔ اور یوں اُن سے الگ ہے۔ ۔۔پاکستان بننے کے کچھ عرصہ بعد قادیانی گروہ نے اپنے اس چہرے کو چھپانا شروع کردیا اور خود کو ملت اسلامیہ کا حصہ قراردے کر فوائد بٹورنا شروع کیے۔۔۔مسلمانوں نے اس پر انہیں آئینی اور قانونی طور پر اپنے سے علیحدہ کرنے کا فیصلہ کیا اور ذوالفقار علی بھٹو (مرحوم) کے عہد کو یہ شرف حاصل ہوا کہ اس فیصلے کو کتاب آئین میں لکھ دیا گیا۔

اب قادیانی گروہ دستور کو تسلیم نہیں کررہا، اور اپنے آپ کو مظلوم قرار دینے کی کوششوں میں لگا ہواہے۔۔۔ اس کا دعویٰ ہے کہ پاکستان میں اس سے ناروا سلوک ہورہا ہے۔ اس کے حقوق مجروح کیے جارہے ہیں۔۔۔ اگر یہ صاحبان دستور میں متعین کردہ اپنی حیثیت کو مان لیں، خود کو غیر مسلم اقلیت قراردیں تو پھر اُن کو وہ تمام حقوق اور تحفظات حاصل رہیں گے جو اقلیتوں کا حق ہیں۔۔۔ اور ان کے ساتھ اکا دکا جھڑپوں کا بھی خاتمہ ہوجائے گا۔۔۔ یہ کیونکر دستور اور قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے پر تلے ہوئے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ختم نبوت کا عقیدہ مسلمانوں کے لئے انتہائی اہم اور بنیادی نوعیت کا حامل ہے۔ اسے ان کے لئے زندگی اور موت کا معاملہ کہا جائے تو اس میں ذرہ بھر مبالغہ نہ ہوگا۔ یہی بنیادہے جس پراسلامی معاشرے کی عظیم الشان عمارت اٹھائی جاتی ہے اور اللہ کی زمین پر اللہ کی حکمرانی کا خواب شرمندہ تعبیر ہوتا ہے۔ ہر مسلمان کے نزدیک ہر معاملے میں ’’فائنل اتھارٹی‘‘ اللہ تعالیٰ ہے اور اللہ کے احکامات کی تشریح و تعبیر کی ’’فائنل اتھارٹی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘ کی ذاتِ اقدس ہے۔ رسولِ خداؐ کے بعد کسی اور شخص کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ دین مبین میں کوئی ترمیم، تنسیخ، اضافے یا کمی کی خبر دے سکے۔ مسلمانوں میں بے شمار فرقے اور گروہ موجود ہیں لیکن ان کے درمیان اختلافات کی نوعیت یہ نہیں کہ ہر ایک ایسا الگ الگ پیشوا رکھتا ہے جسے رسالت کے اختیارات میں سے کوئی اختیار حاصل ہے۔ سب اس امر پر متفق ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات آخری اور حتمی ہیں۔ ان میں جو کچھ اختلاف بھی ہے وہ ان کو سمجھنے اور ان کے معافی اخذ کرنے تک ہے۔ ان کی نوعیت یہی ہے جو تعزیراتِ پاکستان کی کسی دفعہ کی تشریح و تعبیر کی حد تک مختلف وکلاء یا جج صاحبان میں ہوتی ہے۔ لیکن قادیانیوں کے نام سے جس گروہ نے انگریزی دور میں برصغیر میں کام کا آغاز کیا، اُس نے اپنا ایک نبی بنالیا۔ ختم نبوت کے عقیدے کی وضاحت اس طرح کہ اس میں ختم نبوت کے علاوہ سب کچھ داخل کردیا۔ اس نبی کے خیالات اور ارشادات مستقل طور پر ماخذ قانون قرار پائے اوراس نے دین میں ردّ وبدل کے اختیارات حاصل کرلئے۔ اس صورتِ حال کو مسلمانوں نے چودہ سو سال میں کبھی برداشت نہ کیا تھا۔ ہماری تاریخ کا ایک ایک دن گواہ ہے کہ ملت اسلامیہ نے کسی شخص کے دعویٰ نبوت کو تسلیم نہیں کیااور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہر ایسے داعی کو اتفاق رائے سے کاذب قراردیا۔ امام ابوحنیفہؒ کے بقول نبوت کے کسی دعویدار سے ثبوت طلب کرنا بھی خلافِ اسلام ہے۔جب نبی آہی نہیں سکتا، نبوت کا اعلان ہی کسی شخص کے جھوٹا ہونے کے لئے کافی ہےتو پھر کسی دوسرے ثبوت کو طلب کرنے کی کیا حاجت اور کیا ضرورت ؟

مرزا غلام احمد اگر آج زندہ ہوتااور دعویٰ رسالت کرتا تو اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسے فاترالعقل قرار دے کر حوالۂ زنداں کردیا جاتا ، کیونکہ اُس کی رسالت کی پرورش برطانوی سامراج کے تحت ہوئی، اس لیے اس کے دعویٰ سے وہ سلوک نہ کیا جاسکا جس کا یہ مستحق تھا۔ خاص اسباب اور حالات کی وجہ سے اس کے گروہ نے ایک خاص اہمیت اختیار کر لی اور پاکستان بننے کے بعد بھی اثرورسوخ کا دائرہ بڑھانے کی کوشش کامیابی سے جاری رکھی۔

مسلمان عوام کے لیے یہ بات ناقابلِ برداشت تھی، اس لئے گذشتہ37 سال کے دوران بار بار اس گروہ کی سرگرمیوں کی نشاندہی کی جاتی رہی۔ بار بار احتجاج کیا گیا۔ الحمدللہ معاملہ یہاں تک پہنچ گیا ہے کہ اسے غیر مسلم اقلیت قرار دیاجاچکا ہے۔ مسلمانوں سے الگ کرنے کے لئے کئی دوسرے قانونی اقدامات بھی کر لئے گئے ہیں۔

مصیبت یہ ہے کہ اپنا ایک نبی ایجاد کرنے کے باوجود اور مسلمانوں سے الگ تشخص کا دعویٰ رکھنے کے باوجود، یہ گروہ اپنے آپ کو غیر مسلم کہلوانے سے انکاری ہے۔ اس کے بہت سے مبلغ بڑی معصومیت کے ساتھ مرزا غلام احمد کی ان تصانیف سے اقتباسات شائع کر کے لوگوں کو ورغلاتے ہیں جو ان کے دعویٰ نبوت سے پہلے کی لکھی ہوئی ہیں۔قادیانی حضرات اپنے آپ کو مظلوم اور ستم رسیدہ قرار دینے کی کوشش میں بھی لگے ہوئے ہیں۔ ہمارے جدید تعلیم یافتہ طبقوں کو خاص طور پر نشانہ بنا کر رواداری اورفراخدلی کے نام پر ان کی ہمدردیاں حاصل کرنے کی مہم چلائی جارہی ہے۔

قادیانی حضرات سے گزارش ہے کہ وہ کھلے دل کے ساتھ اپنے بزرگوںکا مطالعہ کریں ،اور پھر دیکھیں کہ وہ خود کہاںکھڑے ہیں؟۔ ’’قادیانی مسئلہ ‘‘ مولویوں کا کھڑا کیا ہوا نہیں ہے۔ یہ خود قادیانیوں کا پیدا کردہ ہے۔ قادیانیوں کی جان، مال اور عزت کی دستوری ذمہ د اری اپنی جگہ اہم ہے۔ اُن کے خلاف قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کا حق کسی شخص کو حاصل نہیں ہے لیکن یہ بات بہرحال سمجھ لینے کی ہے کہ مسلمان انہیں اپنے آپ سے الگ سمجھنے اور الگ تھلگ قرار دینے کے جو مطالبے کرتے رہے ہیں اور کررہے ہیں، وہ اُن کے خلاف تعصب اور تنگ نظری کی بنیاد پر نہیں ہیں بلکہ اللہ اور اللہ کے رسولؐ سے محبت اور اُن پر ایمان کا اولین تقاضا ہیں۔

اپنے مسلمان بھائیوں کو عقیدہ ختم نبوت سے آگاہ کریں اور قادیانیوں سے مکمل قطع تعلق کریں۔ان کی شرکت اپنی کسی مجلس یاکسی پروگرام ، شادی بیاہ ،خوشی غمی کی تقریبات،جنازہ وغیرہ میں برداشت نہ کریںاور ہر سطح پر ان کا مقابلہ کریں۔مرزا قادیانی کو ماننے والے اس خطرناک گروہ کی تبلیغی سرگرمیوںپر نظر رکھیں۔ علماء کرام پر یہ فریضہ عائد ہوتا ہے کہ وہ مہینے میں کم از کم ایک خطبہ جمعہ میں عقیدہ ختم نبوت کو مضبوط دلائل سے واضح کرتے ہوئے مسلمانوں کی ذہن سازی کریں۔ انٹرنیٹ والے حضرات سے درخواست ہے کہ وہ ویب سائٹ WWW.KHATMENBUWAT.ORGمستقل وزٹ کرتے رہیں ۔خود بھی استفادہ کریں اور اپنے دوستوں کو بھی بتائیں۔یہ آپ کا دینی فریضہ ہے۔ عقیدہ ختم نبوت اور ردقادیانیت پر مشتمل لٹریچر مرکز سراجیہ سے مفت حاصل کرنے اور قادیانیوں کے دجل وفریب کے جوابات حاصل کرنے کے لئے خط لکھیں،فون کریں یا خود تشریف لائیں۔تمام خواتین وحضرات سے اپیل ہے کہ یہ مضمون کثیر تعداد میں چھپوا کرمفت تقسیم کریں یا چھپوانے کے لئے ہم سے رابطہ کریں تاکہ امت مسلمہ کی نئی نسل فتنہ قادیانیت سے آگاہ ہوسکے اور کسی کی متاع ایمان نہ لٹ سکے۔اللہ رب العزت ہماری ان حقیر محنتوں کو اخلاص کی دولت سے مالا مال فرماکر اپنی رضا کا سبب بنائے۔ آمین ثم آمین
 
Top